اللہ کی مصلحتوں کی وضاحت ۔ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان باتوں کے انجام سے حضرت خضر کو مطلع کر دیا تھا اور انہیں جو حکم ملا تھا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس راز کا علم نہ تھا اس لئے بظاہر اسے خلاف سمجھ کر اس پر انکار کرتے تھے لہذا حضرت خضر نے اب اصل معاملہ سمجھا دیا ۔ فرمایا کہ کشتی کو عیب دار کرنے میں تو یہ مصلحت تھی کہ اگر صحیح سالم ہوتی تو آگے چل کر ایک ظالم بادشاہ تھا جو ہر ایک اچھی کشتی کو ظلما چھین لیتا تھا ۔ جب اسے وہ ٹوٹی پھوٹی دیکھے گا تو چھوڑ دے گا اگر یہ ٹھیک ٹھاک اور ثابت ہوتی تو ساری کشتی ہی ان مسکینوں کے ہاتھ سے چھن جاتی اور ان کی روزی کمانے کا یہی ایک ذریعہ تھا جو بالکل جاتا رہتا ۔ مروی ہے کہ اس کشتی کے مالک چند یتیم بچے تھے ۔ ابن جریج کہتے ہیں اس بادشاہ کا نام حدوبن بدو تھا ۔ بخاری شریف کے حوالے سے یہ راویت پہلے گزر چکی ہے ۔ تورات میں ہے کہ یہ عیص بن اسحاق کی نسل سے تھا توراۃ میں جن بادشاہوں کا صریح ذکر ہے ان میں ایک یہ بھی ہے ، واللہ اعلم ۔
[٦٧] یعنی ہر اچھی کشتی کو وہ بےگار میں لے لیتا تھا اور میں نے سوچا کہ اگر یہ کشتی ان سے چھن گئی تو ان بےچاروں کا روزگار بند ہوجائے گا لہذا میں نے کشتی سے ایک تختہ توڑد یا اور وہ غصب ہونے سے بچ گئی میں نے دراصل یہ کشتی والوں سے بھلائی کی تھی۔ آخر میں نے اس میں کیا برا کیا تھا ؟
فَكَانَتْ لِمَسٰكِيْنَ ۔۔ : اس آیت میں کشتی کا مالک ہونے اور اسے کرایہ پر چلانے کے باوجود ان لوگوں کو مسکین کہا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ مسکین وہ ہے جس کی آمدنی اس کی ضروریات سے کم ہو، یعنی وہ ضرورت مند لوگ جو نہ مانگتے ہیں اور نہ کسی کو ان کی حالت کی خبر ہوتی ہے کہ ان پر صدقہ کریں۔ [ دیکھیے بخاري، الزکوٰۃ، باب قول اللہ عز و جل : ( لا یسئلون الناس إلحافا۔۔ ) : ١٤٧٩۔ مسلم : ١٠٣٩، عن أبي ہریرہ (رض) ] فقیر کی حالت مسکین سے بدتر ہوتی ہے۔ ” كَانَ وَرَاۗءَهُمْ “ کا معنی ابن عباس (رض) نے ” ان کے آگے “ کیا ہے۔ [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : ( فلما بلغا مجمع بینھما - نسیا ۔۔ ) : ٤٧٢٦ ]
خلاصہ تفسیر :- اور وہ جو کشتی تھی سو چند غریب آدمیوں کی تھی (جو اس کے ذریعہ) دریا میں محنت مزدوری کرتے تھے (اسی پر ان کی گذر اوقات تھی) سو میں نے چاہا کہ اس میں عیب ڈال دوں اور (وجہ اس کی یہ تھی کہ) ان لوگوں سے آگے سے آگے کی طرف ایک (ظالم) بادشاہ تھا جو ہر (اچھی) کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا (اگر میں کشتی میں عیب ڈال کر بظاہر بیکار نہ کردیتا تو یہ کشتی بھی چھین لی جاتی اور ان غریبوں کی مزدوری کا سہارا بھی ختم ہوجاتا اس لئے توڑنے میں یہ مصلحت تھی) اور رہا وہ لڑکا سو اس کے ماں باپ ایمان دار تھے (اور اگر وہ بڑا ہوتا تو کافر ظالم ہوتا اور ماں کو اس سے محبت بہت تھی) سو ہم کو اندیشہ ہوا کہ یہ ان دونوں پر سرکشی اور کفر کا اثر نہ ڈال دے (یعنی بیٹے کی محبت کے سبب وہ بھی بےدینی میں اس کا ساتھ نہ دینے لگیں) پس ہم کو یہ منظور ہوا (اس کا تو قصہ تمام کردیا جائے پھر) اس کے بدلے ان کا پروردگار ان کو ایسی اولاد دے (خواہ لڑکا ہو یا لڑکی) جو کہ پاکیزگی (یعنی دین) میں اس سے بہتر ہو اور (ماں باپ کے ساتھ) محبت کرنے میں اس سے بڑھ کر ہو اور رہی دیوار سو وہ دو یتیم لڑکوں کی تھی جو اس شہر میں (رہتے) ہیں اور اس دیوار کے نیچے ان کا کچھ مال مدفون تھا (جو ان کے باپ سے میراث میں پہنچا ہے) اور ان کا باپ (جو مرگیا ہے وہ) ایک نیک آدمی تھا (اس کے نیک ہونے کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے اس کی اولاد کے مال کو محفوظ کرنا چاہا اگر دیوار ابھی گر جاتی تو لوگ یہ مال لوٹ لے جاتے اور غالباً جو شخص ان یتیم لڑکوں کا سرپرست تھا اس کو اس خزانے کا علم ہوگا وہ یہاں موجود نہ ہوگا جو انتظام کرلیتا) اس لئے آپ کے رب نے اپنی مہربانی سے چاہا کہ وہ دونوں اپنی جوانی (کی عمر) کو پہنچ جائیں اور اپنا دفینہ نکال لیں اور (یہ سارے کام میں نے اللہ کے حکم سے کئے ہیں ان میں سے) کوئی کام میں نے اپنی رائے سے نہیں کیا یہ ہے حقیقت ان باتوں کی جن پر آپ سے صبر نہ ہوسکا (جس کو میں حسب وعدہ بتلا چکا ہوں چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) خضر (علیہ السلام) سے رخصت ہوگئے)- معارف و مسائل :- (آیت) اَمَّا السَّفِيْنَةُ فَكَانَتْ لِمَسٰكِيْنَ یہ کشتی جن مسکینوں کی تھی ان کے متعلق کعب احبار سے منقول ہے کہ وہ دس بھائی تھے جن میں پانچ اپاہج معذور تھے پانچ محنت مزدوری کرکے سب کے لئے معاش کا انتظام کرتے تھے اور مزدوری ان کی یہ تھی کہ دریا میں ایک کشتی چلاتے اور اس کا کرایہ حاصل کرتے تھے۔- مسکین کی تعریف :- بعض لوگوں نے یہ کی ہے کہ جس کے پاس کچھ نہ ہو مگر اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسکین کی صحیح تعریف یہ ہے کہ جس کے پاس اتنا مال نہ ہو کہ اس کی حاجات اصلیہ ضروریہ سے زائد بقدر نصاب ہوجائے اس سے کم مال ہو تو وہ بھی مسکین کی تعریف میں داخل ہے کیونکہ جن لوگوں کو اس آیت میں مساکین کہا گیا ہے ان کے پاس کم از کم ایک کشتی تو تھی جس کی قیمت مقدار نصاب سے کم نہیں ہوتی مگر چونکہ وہ حاجات اصلیہ ضروریہ میں مشغول تھی اس لئے ان کو مساکین ہی کہا گیا (مظہری) - (آیت) مَّلِكٌ يَّاْخُذُ كُلَّ سَفِيْنَةٍ غَصْبًا بغوی نے بروایت ابن عباس (رض) نقل کیا ہے کہ یہ کشتی جس طرف جارہی تھی وہاں ایک ظالم بادشاہ تھا جو ادھر سے گذرنے والوں کی کشتیاں زبردستی چھین لیتا تھا حضرت خضر (علیہ السلام) نے اس مصلحت سے کشتی کا ایک تختہ اکھاڑ دیا کہ وہ ظالم بادشاہ اس کشتی کو شکستہ دیکھ کر چھوڑ دے اور یہ مساکین اس مصیبت سے بچ جائیں دانائے روم نے خوب فرمایا۔- گر خضر در بحر کشتی را شکست صد درستی در شکست خضر ہست
اَمَّا السَّفِيْنَۃُ فَكَانَتْ لِمَسٰكِيْنَ يَعْمَلُوْنَ فِي الْبَحْرِ فَاَرَدْتُّ اَنْ اَعِيْبَہَا وَكَانَ وَرَاۗءَہُمْ مَّلِكٌ يَّاْخُذُ كُلَّ سَفِيْنَۃٍ غَصْبًا ٧٩- سفن - السَّفَنُ : نحت ظاهر الشیء، كَسَفَنَ العودَ ، والجلدَ ، وسَفَنَ الرّيح التّراب عن الأرض، قال الشاعر : فجاء خفيّا يَسْفِنُ الأرض صدره والسَّفَنُ نحو النّقض لما يُسْفَنُ ، وخصّ السَّفَنُ بجلدة قائم السّيف، وبالحدیدة التي يَسْفِنُ بها، وباعتبار السَّفْنِ سمّيت السَّفِينَةُ. قال اللہ تعالی: أَمَّا السَّفِينَةُ [ الكهف 79] ، ثمّ تجوّز بالسفینة، فشبّه بها كلّ مرکوب سهل .- ( س ف ن ) السفن - ۔ اس کے اصل معنی چوب اور چمڑا وغیرہ کو چھیلنے کے ہیں اور سفن الریح التراب عن الارض کے معنی ہیں ہوا نے زمین سے مٹی کو گھس ڈالا شاعر نے کہا ہی ( الطویل ) ( 230 ) فجاء خفیا یسفن الارض صدرہ وہ زمین پر اپنا سینہ رگڑتے ہوئے پوشیدہ طور پر وہاں جا پہنچا ۔ اور تراشی ہوئی چیز کو سفن ( فعل بمعنی مفعول ) کہتے ہیں جیسے نقض بمعنی منقوض آجاتا ہے اور السفن خاص کر اس کھردرے چمڑے کو کہا جاتا ہے جس کو تلوار کے قبضہ پر لگاتے ہیں اور چوب تراشی کے اوزار کو بھی سفن کہا جاتا ہے جیسے تیشہ وغیرہ اور چھیلنے کے معنی کے لحاظ سے کشتی کا نام سفینۃ رکھا گیا ہے ۔ کیونکہ وہ بھی سطح آب کو چیرتی ہوئی چلی جاتی ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ أَمَّا السَّفِينَةُ [ الكهف 79] لیکن کشتی ۔ پھر مجازا کشتی کے ساتھ تشبیہ دے کر ہر آرام دہ سواری کو سفینۃ کہا جاتا ہے ۔- مِسْكِينُ- قيل : هو الذي لا شيء له، وهو أبلغ من الفقیر، وقوله تعالی: أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف 79] ، فإنه جعلهم مساکين بعد ذهاب السّفينة، أو لأنّ سفینتهم غير معتدّ بها في جنب ما کان لهم من المسکنة، وقوله : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] ، فالمیم في ذلک زائدة في أصحّ القولین .- المسکین - المسکین بعض نے اس کی تفسیر ( یعنی جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو ) کے ساتھ کی ہے اور یہ فقر سے ابلغ ہے ( یعنی بنسبت فقر کے زیادہ تا دار ہوتا ہے ) لیکن آیت : أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف 79] اور کشتی غریب لوگوں کی تھی ۔ میں باوجود کشتی کا مالک ہونے کے انہیں مسکن قرار دینا مایؤؤل کے لحاظ سے ہے یعنی کشتی کے چلے جانے کے بعد کی حالت کے لحاظ سے انہیں مسکن کہا گیا ہے ۔ یا اس لئے کہ ان کی احتیاط اور مسکنت کے مقابلہ میں کشتی کی کچھ بھی حیثیت نہ تھی ۔ اور آیت : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] اور اخر کا ر ذلت روسوائی اور محتاجی ( اور بےنوائی ) ان سے چمٹا دی گئی ۔ میں اصح قول کے لحاظ سے مسکنتہ کی میم زائد ہے ( اور یہ سکون سے ہے ۔ )- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - بحر - أصل البَحْر : كل مکان واسع جامع للماء الکثير، هذا هو الأصل، ثم اعتبر تارة سعته - المعاینة، فيقال : بَحَرْتُ كذا : أوسعته سعة البحر، تشبيها به، ومنه : بَحرْتُ البعیر : شققت أذنه شقا واسعا، ومنه سمیت البَحِيرَة . قال تعالی: ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة 103] ، وذلک ما کانوا يجعلونه بالناقة إذا ولدت عشرة أبطن شقوا أذنها فيسيبونها، فلا ترکب ولا يحمل عليها، وسموا کلّ متوسّع في شيء بَحْراً ، حتی قالوا : فرس بحر، باعتبار سعة جريه، وقال عليه الصلاة والسلام في فرس ركبه : «وجدته بحرا» «1» وللمتوسع في علمه بحر، وقد تَبَحَّرَ أي : توسع في كذا، والتَبَحُّرُ في العلم : التوسع واعتبر من البحر تارة ملوحته فقیل : ماء بَحْرَانِي، أي : ملح، وقد أَبْحَرَ الماء . قال الشاعر :- 39-- قد عاد ماء الأرض بحرا فزادني ... إلى مرضي أن أبحر المشرب العذب - «2» وقال بعضهم : البَحْرُ يقال في الأصل للماء الملح دون العذب «3» ، وقوله تعالی: مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان 53] إنما سمي العذب بحرا لکونه مع الملح، كما يقال للشمس والقمر : قمران، وقیل السحاب الذي كثر ماؤه : بنات بحر «4» . وقوله تعالی: ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ- [ الروم 41] قيل : أراد في البوادي والأرياف لا فيما بين الماء، وقولهم : لقیته صحرة بحرة، أي : ظاهرا حيث لا بناء يستره .- ( ب ح ر) البحر - ( سمندر ) اصل میں اس وسیع مقام کو کہتے ہیں جہاں کثرت سے پانی جمع ہو پھر کبھی اس کی ظاہری وسعت کے اعتبار سے بطور تشبیہ بحرت کذا کا محارہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی سمندر کی طرح کسی چیز کو وسیع کردینا کے ہیں اسی سے بحرت البعیر ہے یعنی میں نے بہت زیادہ اونٹ کے کان کو چیز ڈالا یا پھاڑ دیا اور اس طرح کان چر ہے ہوئے اونٹ کو البحیرۃ کہا جا تا ہے قرآن میں ہے ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة 103] یعنی للہ تعالیٰ نے بحیرہ جانور کا حکم نہیں دیا کفار کی عادت تھی کہ جو اونٹنی دس بچے جن چکتی تو اس کا کان پھاڑ کر بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے نہ اس پر سواری کرتے اور نہ بوجھ لادیتے ۔ اور جس کو کسی صنعت میں وسعت حاصل ہوجائے اسے بحر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ بہت زیادہ دوڑ نے والے گھوڑے کو بحر کہہ دیا جاتا ہے ۔ آنحضرت نے ایک گھوڑے پر سواری کے بعد فرمایا : ( 26 ) وجدتہ بحرا کہ میں نے اسے سمندر پایا ۔ اسی طرح وسعت علمی کے اعتبار سے بھی بحر کہہ دیا جاتا ہے اور تبحر فی کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں چیز میں بہت وسعت حاصل کرلی اور البتحرفی العلم علم میں وسعت حاصل کرنا ۔ اور کبھی سمندر کی ملوحت اور نمکین کے اعتبار سے کھاری اور کڑوے پانی کو بحر انی کہد یتے ہیں ۔ ابحرالماء ۔ پانی کڑھا ہوگیا ۔ شاعر نے کہا ہے : ( 39 ) قدعا دماء الا رض بحر فزادنی الی مرض ان ابحر المشراب العذاب زمین کا پانی کڑوا ہوگیا تو شریں گھاٹ کے تلخ ہونے سے میرے مرض میں اضافہ کردیا اور آیت کریمہ : مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان 53] بحرین ھذا عذاب فرات ولھذا وھذا ملح اجاج ( 25 ۔ 53 ) دو دریا ایک کا پانی شیریں ہے پیاس بجھانے والا اور دوسرے کا کھاری ہے چھاتی جلانے والا میں عذاب کو بحر کہنا ملح کے بالمقابل آنے کی وجہ سے ہے جیسا کہ سورج اور چاند کو قمران کہا جاتا ہے اور بنات بحر کے معنی زیادہ بارش برسانے والے بادلوں کے ہیں ۔ اور آیت : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم 41] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ بحر سے سمندر مراد نہیں ہے بلکہ بر سے جنگلات اور بحر سے زرخیز علاقے مراد ہیں ۔ لقیتہ صحرۃ بحرۃ میں اسے ایسے میدان میں ملا جہاں کوئی اوٹ نہ تھی ؟- عاب - العَيْبُ والعَابُ : الأمر الذي يصير به الشیء عَيْبَةً. أي : مقرّا للنّقص، وعِبْتُهُ جعلته مَعِيباً إما بالفعل کما قال : فَأَرَدْتُ أَنْ أَعِيبَها[ الكهف 79] ، وإما بالقول، وذلک إذا ذممته نحو قولک : عِبْتُ فلانا، والْعَيْبَةُ : ما يستر فيه الشیء، ومنه قوله عليه الصلاة والسلام :- «الأنصار کر شي وعَيْبَتِي» «4» أي : موضع سرّي . - ( ع ی ب )- العیب والعاب نقص اور خرابی ہر وہ حالت جس سے کیس چیز میں نقص پیدا ہوجائے اور عبتہ کے معنی ہیں میں نے اسے عیب دار کردیا جیسے فرمایا : ۔ فَأَرَدْتُ أَنْ أَعِيبَها[ الكهف 79] تو میں نے چاہا کہ ا سے عیب دار کردوں ۔ نیز عبتہ کسی چیز کی مذمت کرنے اور اس کا عیب ظاہر کرنے پر بھی بولا جاتا ہے ۔ جیسے غبت فلانا ( میں نے اس کی مذمت کی ) اور عیبۃ ( بیگ ) ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس میں کوئی چیز چھپا کر رکھی جائے اسی سے (علیہ السلام) کا فرمان ہے الانصار کر شی وعیبتی کہ انصار میرے مخزن اسرار ہیں ۔- وراء - ( وَرَاءُ ) إذا قيل : وَرَاءُ زيدٍ كذا، فإنه يقال لمن خلفه . نحو قوله تعالی:- وَمِنْ وَراءِ إِسْحاقَ يَعْقُوبَ [هود 71] ،- ( و ر ی ) واریت - الورآء کے معنی خلف یعنی پچھلی جانب کے ہیں مثلا جو زہد کے پیچھے یا بعد میں آئے اس کے متعلق ورآء زید کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ وَراءِ إِسْحاقَ يَعْقُوبَ [هود 71] اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوش خبری دی ۔ - ملك) بادشاه)- المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور - وَالمِلْكُ ضربان :- مِلْك هو التملک والتّولّي، ومِلْك هو القوّة علی ذلك، تولّى أو لم يتولّ. فمن الأوّل قوله : إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل 34] ، ومن الثاني قوله : إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة 20]- ( م ل ک ) الملک - ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے .- اور ملک کا لفظ دو طرح پر ہوتا ہے - عملا کسی کا متولی اور حکمران ہونے کو کہتے ہیں ۔- دوم حکمرانی کی قوت اور قابلیت کے پائے جانے کو کہتے ہیں - ۔ خواہ نافعل اس کا متولی ہو یا نہ ہو ۔ چناچہ پہلے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل 34] بادشاہ جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں ۔ تو اس کو تباہ کردیتے ہیں ۔ - اور دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة 20] کہ اس نے تم میں پیغمبر کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا ۔ - أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔
آیت ٧٩ (اَمَّا السَّفِيْنَةُ فَكَانَتْ لِمَسٰكِيْنَ يَعْمَلُوْنَ فِي الْبَحْرِ )- وہ بہت غریب اور نادار لوگ تھے صرف وہ کشتی ہی ان کے معاش کا سہارا تھی۔ اس کے ذریعے وہ لوگوں کو دریا کے آر پار لے جاتے اور اس مزدوری سے اپنا پیٹ پالتے تھے۔- (فَاَرَدْتُّ اَنْ اَعِيْبَهَا وَكَانَ وَرَاۗءَهُمْ مَّلِكٌ يَّاْخُذُ كُلَّ سَفِيْنَةٍ غَصْبًا)- بادشاہ ہر اس کشتی کو اپنے قبضے میں لے لیتا تھا جو صحیح وسالم ہوتی تھی۔ ان نادار لوگوں کی کشتی بھی اگر بےعیب ہوتی تو بادشاہ ان سے زبردستی چھین لیتا۔ چناچہ میں نے اس کا ایک تختہ توڑ کر اسے عیب دار کردیا۔ اب جب بادشاہ اس عیب دار کشتی کو دیکھے گا تو اسے چھوڑ دے گا اور اس طرح ان کی روزی کا واحد سہارا ان سے نہیں چھنے گا۔ پوری کشتی چھن جانے کے مقابلے میں ایک تختے کا ٹوٹ جانا تو معمولی بات ہے۔ اس تختے کی وہ لوگ آسانی سے مرمت کرلیں گے اور یوں وہ کشتی ان کی روزی کا ذریعہ بنی رہے گی۔ لہٰذا وہ تختہ ان لوگوں کی بھلائی کے لیے توڑا گیا تھا نہ کہ کسی کو نقصان پہنچانے کے لیے ۔