Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اللہ کی رضا اور انسان ۔ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس نوجوان کا نام حیثور تھا ۔ حدیث میں ہے کہ اس کی جبلت میں ہی کفر تھا ۔ حضرت خضر فرماتے ہیں کہ بہت ممکن تھا کہ اس بچے کی محبت اس کے ماں باپ کو بھی کفر کی طرف مائل کر دے ۔ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس کی پیدائش سے اس کے ماں باپ بہت خوش ہوئے تھے اور اس کی ہلاکت سے وہ بہت غمگین ہوئے حالانکہ اس کی زندگی ان کے لئے ہلاکت تھی ۔ پس انسان کو چاہے کہ اللہ کی قضا پر راضی رہے ۔ رب انجام کو جانتا ہے اور ہم اس سے غافل ہیں ۔ مومن جو کام اپنے لئے پسند کرتا ہے ، اس کی اپنی پسند سے وہ اچھا ہے جو اللہ اس کے لئے پسند فرماتا ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ مومن کے لئے اللہ کے فیصلے ہوتے ہیں وہ سراسر بہتری اور عمدگی والے ہی ہوتے ہیں ۔ قرآن کریم میں ہے ( فَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَهُوْا شَـيْـــــًٔـا وَّيَجْعَلَ اللّٰهُ فِيْهِ خَيْرًا كَثِيْرًا 19؀ ) 4- النسآء:19 ) یعنی بہت ممکن ہے کہ ایک کام تم اپنے لئے برا اور ضرر والا سمجھتے ہو اور وہ دراصل تمہارے لئے بھلا اور مفید ہو ۔ حضرت خضر فرماتے ہیں کہ ہم نے چاہا کہ اللہ انہیں ایسا بچہ دے جو بہت پرہیزگار ہو اور جس پر ماں باپ کو زیادہ پیار ہو ۔ یا یہ کہ جو ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرتا ہو ۔ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس لڑکے کے بدلے اللہ نے ان کے ہاں ایک لڑکی دی ۔ مروی ہے کہ اس بچے کے قتل کے وقت اس کی والدہ کے حمل سے ایک مسلمان لڑکا تھا اور وہ حاملہ تھیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٨] یعنی وہ لڑکا بہت خوب صورت تھا اور مجھے اس بات کا (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) علم تھا کہ یہ گمراہی کا راستہ اختیار کرے گا اور والدین کو چونکہ اس سے بےحد محبت تھی لہذا یہ عین ممکن تھا کہ وہ اپنے ساتھ اپنے والدین کو بھی لے ڈوبے جو اللہ کے سچے فرمانبردار ہیں، لہذا اللہ تعالیٰ کی حکمت اس بات کی متقاضی ہوئی کہ اس لڑکے کا کام ہی تمام کر ڈالا جائے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاَمَّا الْغُلٰمُ فَكَانَ اَبَوٰهُ مُؤْمِنَيْنِ ۔۔ : ان آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اپنے مومن بندوں کی آنے والے فتنوں سے بھی حفاظت کرتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اِنَّ اللّٰهَ يُدٰفِعُ عَنِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا) [ الحج : ٣٨ ] ” بیشک اللہ ان لوگوں کی طرف سے دفاع کرتا ہے جو ایمان لائے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وَاَمَّا الْغُلٰمُ یہ لڑکا جس کو حضرت خضر (علیہ السلام) نے قتل کیا اس کی حقیقت یہ بیان فرمائی کہ اس لڑکے کی طبیعت میں کفر اور والدین کے خلاف سرکشی تھی والدین اس کے نیک اور صالح تھے حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ہمیں خطرہ تھا کہ یہ لڑکا بڑا ہو کر ان صالح ماں باپ کو ستائے گا اور تکلیف پہنچائے گا اور کفر میں مبتلا ہو کر ماں باپ کے لئے بھی ایک فتنہ بنے گا اس کی محبت میں ماں باپ کا ایمان بھی خطرے میں پڑجائے گا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاَمَّا الْغُلٰمُ فَكَانَ اَبَوٰہُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِيْنَآ اَنْ يُرْہِقَہُمَا طُغْيَانًا وَّكُفْرًا۝ ٨٠ۚ- غلم - الْغُلَامُ الطّارّ «3» الشّارب . يقال : غُلَامٌ بيّن الغُلُومَةِ والغُلُومِيَّةِ. قال تعالی: أَنَّى يَكُونُ لِي غُلامٌ [ آل عمران 40] ، وَأَمَّا الْغُلامُ فَكانَ أَبَواهُ مُؤْمِنَيْنِ [ الكهف 80] ، وقال : وَأَمَّا الْجِدارُ فَكانَ لِغُلامَيْنِ [يوسف 19] ، وقال في قصة يوسف : هذا غُلامٌ [يوسف 19] ، والجمع : غِلْمَةٌ وغِلْمَانٌ ، واغْتَلَمَ الْغُلَامُ :إذا بلغ حدّ الغلومة، ولمّا کان من بلغ هذا الحدّ كثيرا ما يغلب عليه الشّبق قيل للشّبق : غِلْمَةٌ ، واغْتَلَمَ الفحلُ.- ( غ ل م ) الغلام - اس لڑکے کو کہتے ہیں جس کی مسیں بھیگ چکی ہوں محاورہ ہے غلام بین الغلومۃ والغیو میۃ لڑکا جو بھر پور جوانی کی عمر میں ہو۔ کی عمر میں ہو قرآن پاک میں ہے : أَنَّى يَكُونُ لِي غُلامٌ [ آل عمران 40] میرے ہاں لڑکا کیونکہ ہوگا ۔ وَأَمَّا الْغُلامُ فَكانَ أَبَواهُ مُؤْمِنَيْنِ [ الكهف 80] اور وہ لڑکا تھا اس کے ماں باپ دونوں مومن تھے ۔ وَأَمَّا الْجِدارُ فَكانَ لِغُلامَيْنِ [يوسف 19] اور جو دیورار تھی سو وہ دو لڑکوں کی تھی ۔ اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کے قصہ میں فرمایا : هذا غُلامٌ [يوسف 19] یہ تو نہایت حسین ) لڑکا ہے ۔ غلام کی جمع غلمۃ وغلمان آتی ہے ۔ اور اغتلم الغلام کے معنی ہیں لڑکا بالغ ہوگیا ۔ عام طور پر چونکہ اس عمر میں جنسی خواہش کا غلبہ ہوجاتا ہے اس لئے غلمۃ کا لفظ جنسی خواہش کی شدت پر بولا جاتا ہے ۔ اور اغتلم الفحل کے معنی ہیں سانڈ جنسی خواہش سے مغلوب ہوگیا ۔- أب - الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب 6]- ( اب و ) الاب - ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔- خشی - الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28]- ( خ ش ی ) الخشیۃ - ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ - إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔ - رهق - رَهِقَهُ الأمر : غشيه بقهر، يقال : رَهِقْتُهُ وأَرْهَقْتُهُ ، نحو ردفته وأردفته، وبعثته وابتعثته قال : وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [يونس 27] ، وقال : سَأُرْهِقُهُ صَعُوداً [ المدثر 17] ، ومنه : أَرْهَقْتُ الصّلاة : إذا أخّرتها حتّى غشي وقت الأخری.- ( ر ھ ق ) رھقہ - ( س ) رھقا ۔ الامر ۔ کسی معاملہ نے اسے بزور و جبر دبا لیا ۔ اور رھقہ وارھقہ ( مجرد و مزید فیہ ) دونوں کے ایک ہی معنی ہیں جیسے ۔ ردفہ اردفہ وبعثہ وابعثہ ۔ قرآن میں ہے ۔ وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [يونس 27] اور ان پر ذلت چھا رہی ہوگی ۔ سَأُرْهِقُهُ صَعُوداً [ المدثر 17] ہم عنقریب اس کو عذاب سخت میں مبتلا کردیں گے ، اور اسی سے ارھقت الصلوٰۃ ہے جس کے معنی نماز کو آخر وقت تک موخر کرنے کے ہیں ۔ حتی ٰ کہ دوسری نماز کا وقت آجائے ۔- طغی - طَغَوْتُ وطَغَيْتُ «2» طَغَوَاناً وطُغْيَاناً ، وأَطْغَاهُ كذا : حمله علی الطُّغْيَانِ ، وذلک تجاوز الحدّ في العصیان . قال تعالی: اذْهَبْ إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى[ النازعات 17] - ( ط غ ی) طغوت وطغیت طغوانا وطغیانا - کے معنی طغیان اور سرکشی کرنے کے ہیں اور أَطْغَاهُ ( افعال) کے معنی ہیں اسے طغیان سرکشی پر ابھارا اور طغیان کے معنی نافرمانی میں حد سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّهُ طَغى[ النازعات 17] وہ بےحد سرکش ہوچکا ہے ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨٠ (وَاَمَّا الْغُلٰمُ فَكَانَ اَبَوٰهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِيْنَآ اَنْ يُّرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَّكُفْرًا)- حضرت خضر کو اپنے خاص علم کی بنا پر معلوم ہوا ہوگا کہ اس بچے کے اچھے نہیں ہیں اور بڑا ہو کر اپنے والدین کے لیے سوہان روح ثابت ہوگا اور سرکشی اور ناشکری کی روش اختیار کر کے ان کو عاجز کر دے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani