اللہ کی حفاظت کا ایک انداز ۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ بڑے شہر پر بھی قریہ کا اطلاق ہو سکتا ہے کیونکہ پہلے ( اِذَآ اَتَيَآ اَهْلَ قَرْيَـةِ 77 ) 18- الكهف:77 ) فرمایا تھا اور یہاں فی المدینۃ فرمایا ۔ اسی طرح مکہ شریف کو بھی قریہ کہا گیا ہے ۔ فرمان ہے ( وَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَةٍ هِىَ اَشَدُّ قُوَّةً مِّنْ قَرْيَتِكَ الَّتِيْٓ اَخْرَجَتْكَ ۚ اَهْلَكْنٰهُمْ فَلَا نَاصِرَ لَهُمْ 13 ) 47-محمد:13 ) اور آیت میں مکہ اور طائف دونوں شہروں کو قریہ فرمایا گیا ہے چنانچہ ارشاد ہے ( وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰي رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَـتَيْنِ عَظِيْمٍ 31 ) 43- الزخرف:31 ) آیت میں بیان ہو رہا ہے کہ اس دیوار کو درست کردینے میں مصلحت الہٰی یہ تھی کہ یہ اس شہر کے دو یتیموں کی تھی اس کے نیچے انکا مال دفن تھا ۔ ٹھیک تفسیر تو یہی ہے گویہ بھی مروی ہے کہ وہ علمی خزانہ تھا ۔ بلکہ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ جس خزانے کا ذکر کتاب اللہ میں ہے یہ خالص سونے کی تختیاں تھیں جن پر لکھا ہوا تھا کہ تعجب ہے اس شخص پر جو تقدیر کا قائل ہو تے ہوئے اپنی جان کو محنت ومشقت میں ڈال رہا ہے اور رنج وغم برداشت کر رہا ہے ۔ تعجب ہے کہ جو جہنم کے عذابوں کا ماننے والا ہے پھر بھی ہنسی کھیل میں مشغول ہے ۔ تعجب ہے کہ موت کا یقین رکھتے ہوئے غفلت میں پڑا ہوا ہے ۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ۔ یہ عبارت ان تختیوں پر لکھی ہوئی تھی لیکن اس میں ایک راوی بشر بن منذر ہیں ۔ کہا گیا ہے کہ یہ مصیصہ کے قاضی تھے ان کی حدیث میں وہم ہے ۔ سلف سے بھی اس بارے میں بعض آثار مروی ہیں ۔ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ سونے کی تختی تھی جس میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد قریب قریب مندرجہ بالا نصحیتں اور آخر میں کلمہ طیبہ تھا ۔ عمر مولیٰ غفرہ سے بھی تقریبا یہی مروی ہے ۔ امام جعفر بن محمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس میں ڈھائی سطریں تھیں پوری تین نہ تھیں ، الخ ۔ مذکور ہے کہ یہ دونوں یتیم بوجہ اپنے ساتویں دادا کی نیکیوں کے محفوظ رکھے گئے تھے ۔ جن بزرگوں نے یہ تفسیر کی ہے وہ بھی پہلی تفسیر کے خلاف نہیں کیونکہ اس میں بھی ہے کہ یہ علمی باتیں سونے کی تختی پر لکھی ہوئی تھیں اور ظاہر ہے کہ سونے کی تختی خود مال ہے اور بہت بڑی رقم کی چیز ہے ۔ واللہ اعلم ۔ اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ انسان کی نیکیوں کی وجہ سے اس کے بال بچے بھی دنیا اور آخرت میں اللہ کی مہربانی حاصل کرلیتے ہیں ۔ جیسے قرآن میں صراحتا مذکور ہے دیکھئے آیت میں ان کی کوئی صلاحیت بیان نہیں ہوئی ہاں ان کے والد کی نیک بختی اور نیکی عملا بیان ہوئی ہے ۔ اور پہلے گزر چکا ہے یہ باپ جس کی نیکی کی وجہ سے ان کی حفاظت ہوئی یہ ان بچوں کا ساتواں دادا تھا واللہ اعلم ۔ آیت میں ہے تیرے رب نے چاہا ، یہ اسناد اللہ کی طرف اس لئے کی گئی ہے کہ جوانی تک پہنچانے پر بجز اس کے اور کوئی قادر نہیں ۔ دیکھئے بچے کی بارے میں اور کشتی کے بارے میں ارادے کی نسبت اپنی طرف کی گئی ہے فاردنا اور فاردت کے لفظ ہیں واللہ اعلم ۔ پھر فرماتے ہیں کہ دراصل یہ تینوں باتیں جنہیں تم نے خطرناک سمجھیں سراسر رحمت تھیں ۔ کشتی والوں کو گو قدرے نقصان ہوا لیکن اس سے پوری کشتی بچ گئی ۔ بچے کے مرنے کی وجہ سے گو ماں باپ کو رنج ہوا لیکن ہمیشہ کے رنج اور عذاب الہٰی سے بچ گئے اور پھر نیک بدلہ ہاتھوں ہاتھ مل گیا ۔ اور یہاں اس نیک شخص کی اولاد کا بھلا ہوا ۔ یہ کام میں نے اپنی خوشی نہیں کئے بلکہ احکام الہٰی بجا لایا ۔ اس سے بعض لوگوں نے حضرت خضر کی نبوت پر استدلال کیا ہے اور پوری بحث پہلے گزر چکی ہے اور لوگ کہتے ہیں یہ رسول تھے ۔ ایک قول ہے کہ یہ فرشتے تھے لیکن اکثر بزرگوں کا فرمان ہے کہ یہ ولی اللہ تھے ۔ امام ابن قتیبہ نے معارف میں لکھا ہے کہ ان کا نام بلیا بن ملکان بن خالغ بن عاجر بن شانح بن ارفحشد بن سام بن نوح علیہ السلام تھا ۔ ان کی کنیت ابو العباس ہے ، لقب خضر ہے ۔ امام نو وی رحمۃ اللہ علیہ نے تہذیب الاسماء میں لکھا ہے کہ یہ شہزادے تھے ۔ یہ اور ابن صلاح تو قائل ہیں کہ وہ اب تک زندہ ہیں اور قیامت تک زندہ رہیں گے ۔ گو بعض احادیث میں بھی یہ ذکر آیا ہے لیکن ان میں سے ایک بھی صحیح نہیں سب سے زیادہ مشہور حدیث اس بارے میں وہ ہے جس میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعزیت کے لئے آپ تشریف لائے تھے لیکن اس کی سند بھی ضعیف ہے ۔ اکثر محدثین وغیرہ اس کے برخلاف ہیں اور وہ حیات خضر کے قائل نہیں ۔ ان کی ایک دلیل آیت قرآنی ہے ( وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مِّتَّ فَهُمُ الْخٰلِدُوْنَ 34 ) 21- الأنبياء:34 ) ہے یعنی تجھ سے پہلے بھی ہم نے کسی کو ہمیشہ کی زندگی نہیں دی ۔ اور دلیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غزوہ بدر میں یہ فرمانا ہے کہ الہٰی اگر میری جماعت ہلاک ہوگئی تو زمین میں تیری عبادت پھر نہ کی جائے گی ۔ ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اگر حضرت خضر رحمۃاللہ علیہ زندہ ہوتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام جن وانس کی طرف اللہ کے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے ۔ آپ نے تو یہاں تک فرمایا کہ اگر موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام زندہ ( زمین پر ) ہوتے تو انہیں بھی بجز میری تابعداری کے چارہ نہ تھا ۔ آپ اپنی وفات سے کچھ دن پہلے فرماتے ہیں کہ آج جو زمین پر ہیں ان میں سے ایک بھی آج سے لے کر سو سال تک باقی نہیں رہے گا ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے دلائل ہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت خضر کو خضر اس لئے کہا گیا کہ وہ سفید رنگ سوکھی گھاس پر بیٹھ گئے تھے یہاں تک کہ اس کے نیچے سبزہ اگ آیا ۔ اور ممکن ہے کہ اس سے مرادیہ ہو کہ آپ خشک زمین پر بیٹھ گئے تھے اور پھر وہ لہلہانے لگی ۔ الغرض حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے جب یہ گھتی سلجھا دی اور ان کاموں کی اصل حکمت بیان کر دی تو فرمایا کہ یہ تھے وہ راز جن کے آشکارا کرنے کے لئے آپ جلدی کر رہے تھے ۔ چونکہ پہلے شوق ومشقت زیادہ تھی اس لئے لفظ لم تستطع کہا اور اب بیان کر دینے کے بعد وہ بات نہ رہی اس لئے لفظ لم تسطع کہا ۔ یہی صفت آیت ( فَمَا اسْطَاعُوْٓا اَنْ يَّظْهَرُوْهُ وَمَا اسْتَطَاعُوْا لَهٗ نَقْبًا 97 ) 18- الكهف:97 ) میں ہے یعنی یاجوج ماجوج نہ اس دیوار پر چڑھ سکے اور نہ اس میں کوئی سوراخ کر سکے ۔ پس چڑھنے میں تکلیف بہ نسبت سوراخ کرنے کے کم ہے اس لئے ثقیل کا مقابلہ ثقیل سے اور خفیف کا مقابلہ خفیف سے کیا گیا اور لفظی اور معنوی مناسبت قائم کر دی ۔ واللہ اعلم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کا ذکر ابتداء قصہ میں تو تھا لیکن پھر نہیں اس لئے کہ مقصود صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل کے والی بنائے گئے تھے ۔ ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے آب حیات پی لیا تھا اس لئے انہیں کشتی میں بٹھا کر بیچ سمندر کے چھوڑ دیا وہ کشتی یونہی ہمیشہ تک موجوں کے تلاطم میں رہے گی ۔ یہ بالکل ضعیف ہے کیونکہ اس واقعہ کے راویوں میں ایک میں تو حسن ہے جو متروک ہے دوسرا اس کا باپ ہے جو غیر معروف ہے ۔ یہ واقعہ سندا ٹھیک ہے ۔
82۔ 1 حضرت خضر کی نبوت کے قائلین کی یہ دوسری دلیل ہے جس سے وہ نبوت خضر کا اثبات کرتے ہیں۔ کیونکہ کسی بھی غیر نبی کے پاس اس قسم کی وحی نہیں آتی کہ وہ اتنے اتنے اہم کام کسی اشارہ غیبی پر کر دے، نہ کسی غیر نبی کا ایسا اشارہ غیبی قابل عمل ہی ہے۔ نبوت خضر کی طرح حیات خضر بھی ایک حلقے میں مختلف ہے اور حیات خضر کے قائل بہت سے لوگوں کی ملاقاتیں حضرت خضر سے ثابت کرتے ہیں اور پھر ان سے ان کے اب تک زندہ ہونے پر دلیل پیش کرتے ہیں لیکن جس طرح حضرت خضر کی زندگی پر کوئی آیت شرعی نہیں ہے، اسی طریقے سے لوگوں کے مکاشفات یا حالت بیداری یا نیند میں حضرت خضر سے ملنے کے دعوے بھی قابل تسلیم نہیں۔ جب ان کا حلیہ ہی معقول ذرائع سے بیان نہیں کیا گیا ہے تو ان کی شناخت کس طرح ممکن ہے ؟ اور کیوں کر یقین کیا جاسکتا ہے، کہ جن بزرگوں نے ملنے کے دعوے کئے ہیں، واقعی ان کی ملاقات خضر، موسیٰ (علیہ السلام) سے ہی ہوئی ہے، خضر کے نام سے انھیں کسی نے دھوکہ اور فریب نے مبتلا نہیں کیا۔
[٧٠] یعنی اگر دیوار کسی وقت گر پڑتی تو خزانہ ظاہر ہوجاتا بدنیت لوگ اس پر قبضہ کرلیتے یا اٹھا لے جاتے اور ان یتیموں کے ہاتھ کچھ بھی نہ لگتا۔ اب یہ بڑے ہو کر خود اپنے باپ کی دفن شدہ دولت نکال کر اپنے استعمال میں لاسکیں گے۔- اللہ تعالیٰ کی مصلحتیں اللہ ہی جانتا ہے :۔ مندرجہ بالا تینوں واقعات سے دراصل مشیئت الٰہی کے کاموں میں پوشیدہ حکمتوں پر روشنی پڑتی ہے پہلا کام یہ تھا کہ کشتی والوں نے سیدنا موسیٰ و سیدنا خضر دونوں کو پردیسی سمجھ کر ان سے کرایہ نہیں لیا اور کشتی میں سوار کرلیا۔ جس کے صلہ میں سیدنا خضر نے ایسا کام کیا جو بظاہر غلط معلوم ہوتا تھا لیکن حقیقت میں سیدنا خضر نے ان سے بہت بڑی خیر خواہی کی اور ان کے احسان کا اس طرح بدلہ چکایا کہ انھیں بہت بڑے نقصان سے بچا لیا اس سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ کسی نقصان پر بےصبر نہ ہونا چاہیے اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس نقصان میں بھی اللہ نے اس کے لیے کون سے اور کتنے بڑے فائدے کو پوشیدہ رکھا ہوا ہے۔ دوسرا واقعہ صدمہ کے لحاظ سے پہلے واقعہ سے شدید تر ہے لیکن اس میں جو اللہ کی مصلحت پوشیدہ تھی وہ بھی منفعت کے لحاظ سے پہلے واقعہ کی نسبت بہت زیادہ تھی اور دونوں واقعات سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ مصائب پر ایک مسلمان کو صبر کرنا چاہیے اور اللہ کی مشیئت پر راضی رہنا چاہیے اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جتنی مصیبت پر صبر کیا تھا اسی کے مطابق اللہ اس کا اجر اور نعم البدل عطا فرماتا ہے۔ تیسرے واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی نیک آدمی کی رفاقت کے بعد بھی اللہ تعالیٰ اس کا اچھا بدلہ اس کی اولاد کو دیا کرتا ہے۔ مرنے والا چونکہ نیک انسان تھا لہذا اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہوا کہ اس کا مدفون خزانہ یا ورثہ دوسرے لوگ نہ اڑا لے جائیں، بلکہ اس کی اولاد کے ہی حصہ میں آئے۔- [٧١] خضر کون تھے ؟ یہ سوال مختلف فیہ رہا ہے کہ سیدنا خضر کون اور کیا تھے ؟ بعض علماء انھیں نبی تسلیم کرتے ہیں بعض ولی اور بعض ولی بھی نہیں سمجھتے بلکہ ایک فرشتہ سمجھتے ہیں جن کا شمار مدبرات امر میں ہوتا ہے اب ہمیں یہ جائزہ لینا ہے کہ ان میں کون سی بات درست ہوسکتی ہے۔- ہمارے خیال میں سیدنا خضر نبی نہیں تھے اور اس کی دو وجہیں ہیں۔ ایک یہ کہ بخاری کی طویل روایت کے مطابق سیدنا خضر، سیدنا موسیٰ سے خود فرما رہے ہیں کہ موسیٰ دیکھو اللہ تعالیٰ نے اپنے علوم میں سے ایک علم مجھے سکھایا ہے جسے آپ نہیں جانتے اور ایک علم آپ کو سکھایا ہے جسے میں نہیں جانتا لہذا تم میرے ساتھ صبر نہ کرسکو گے اور یہ تو ظاہر ہے کہ سیدنا موسیٰ کو نبوت اور شریعت کا علم سکھایا گیا تھا جسے سیدنا خضر نہیں جانتے تھے لہذا وہ نبی نہ ہوئے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآنی آیات کی رو سے یہ ثابت شدہ امر ہے کہ انبیاء کا علم ابتدا سے ایک ہی رہا ہے اور چونکہ سیدنا خضر کا علم اس علم سے متصادم تھا لہذا وہ نبی نہیں تھے۔- اب اگر انھیں ولی تسلیم کرلیا جائے تو یہ باور کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں (بقول صوفیائ) کشف والہام سے غیب کے حالات سے مطلع کردیا ہو لیکن ولی کو یہ کب اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے علم غیب سے اطلاع کی بنا پر کسی دوسرے کی مملوکہ چیز کو تباہ کر دے یا کسی انسان کو قتل بھی کر ڈالے۔ ولی بھی آخر انسان ہے جو احکام شریعت کا مکلف ہے اور اصول شریعت میں یہ گنجائش کہیں نہیں پائی جاتی کہ کسی انسان کے لیے محض اس بنا پر احکام شرعیہ میں سے کسی حکم کی خلاف ورزی جائز ہو کہ اسے بذریعہ الہام اس کی خلاف ورزی کا حکم ملا ہے یا بذریعہ علم غیب اس خلاف ورزی کی مصلحت بتائی گئی ہے۔ صوفیاء کے نزدیک بھی کسی ایسے الہام پر عمل کرنا خود صاحب الہام تک کے لیے بھی جائز نہیں ہے جو نص شرعی کے خلاف ہو۔ لہذا سیدنا خضر نہ نبی تھے نہ ولی بلکہ وہ انسان کی جنس سے بھی نہ تھے ایک ظالم اور فاسق انسان ہی ایسے کام کرسکتا ہے مگر وہ تو اللہ کی ایک برگزیدہ شخصیت تھے۔- اب لامحالہ ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ ان فرشتوں میں سے تھے جو تدبیر امور کائنات پر مامور ہیں اور اس پر کئی دلائل ہیں پہلی دلیل تو ان کا اپنا یہ قول کہ ( مافعلتہ عن امری) کہ یہ کام میں نے اپنی مرضی یا اختیار سے نہیں کیے بلکہ اللہ کے حکم سے کیے ہیں۔ گویا وہ خود اعتراف کررہے ہیں کہ وہ خود مختار نہیں اور یہ وہی بات ہے جسے اللہ نے فرشتوں کی صفات کے سلسلہ میں فرمایا کہ وہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ وہ کچھ کرتے ہیں جو انھیں حکم دیا جاتا ہے (٦٦: ٦) اور وہ نافرمانی کر بھی نہیں سکتے۔- دوسری دلیل یہ ہے کہ ایسے فرشتے جب انسانی شکل میں آکر انسانوں سے ہمکلام ہوتے ہیں تو بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کی مخصوص صفات کو اپنی طرف منسوب کرتے ہیں۔ سیدنا جبرئیل انسانی شکل میں سیدہ مریم کے سامنے آئے تو کہا (لاِھَبِ لَکِ غُلاَمًا زِکِیًّا) (٩: ١٩) (تاکہ میں تجھے ایک پاکیزہ سیرت لڑکا عطا کروں) اور یہ تو ظاہر ہے کہ لڑکا عطا کرنا تو صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کسی مخلوق کا کام نہیں اور فرشتے اللہ کی مخلوق ہیں اور یہ جملہ جو سیدنا جبرئیل نے کہا اسی لحاظ سے کہا کہ آپ اللہ کی طرف سے تدبیر امور کائنات میں سے ایک امر پر مامور تھے۔ بالکل اسی طرح سیدنا خضر بھی جب ان واقعات کی تاویل بتاتے ہیں تو کبھی کسی کام کو براہ راست اپنی طرف منسوب کرتے ہیں کسی کو اللہ کی طرف اور کسی کو دونوں کی طرف۔ پہلے واقعہ کے متعلق فرمایا : (فَاَرْدَتُّ اَنْ اَعِیْبَھَا) یعنی میں نے ارادہ کیا کہ اس کشتی کو عیب دار بنادوں حالانکہ آخر میں کہا کہ میں نے اپنے ارادہ و اختیار اور مرضی سے کچھ نہیں کیا اور دوسرے واقعہ کے متعلق فرمایا : ( فَاَرْدْنَا اَنْ یُبْدِلَھُمَا رَبُّھُمَا) یعنی ہم نے ارادہ کیا کہ ان والدین کا پروردگار انھیں اس لڑکے کا نعم البدل عطا فرمائے۔ یہاں ارادہ کی نسبت میں سیدنا خضر اور اللہ تعالیٰ دونوں مشترک ہیں اور تیسرے واقعہ کی نسبت صرف اللہ تعالیٰ کی طرف کرتے ہوئے فرمایا کہ : ( فَاَرَادَ رَبُّکَ ) یعنی آپ کے پروردگار نے چاہا۔ یہ بحث الگ ہے کہ پہلے واقعہ کی نسبت سیدنا خضر نے صرف اپنی طرف، دوسرے میں دونوں کی طرف اور تیسرے میں صرف اللہ کی طرف کیوں کی ؟ یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ خدائی صفات کو اپنی طرف منسوب کرنا صرف ان فرشتوں کا کام ہوسکتا ہے جو تدابیر امور کائنات پر مامور ہیں کسی نبی یا ولی کے لیے ایسی نسبت کرنا قطعاً جائز نہیں ہے۔- مندرجہ بالا توجیہ میں چند اشکالات بھی پیش آتے ہیں جن کا ازالہ ضروری ہے مثلاً اللہ تعالیٰ نے سیدنا خضر کے لیے (عَبْدًا مِنْ عِبَادِنَا) کے الفاظ استعمال کیے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ عبد کا لفظ فرشتوں کے متعلق بھی ایسے ہی استعمال ہوتا ہے جیسے انسانوں کے متعلق، جیسے فرمایا (وَجَعَلُوا الْمَلٰئِکَۃَ الَّذِیْنَ ھُمْ عِبَاد الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا) (٤٣ : ١٩)- دوسرا اشکال یہ ہے کہ حدیث بالا میں سیدنا خضر کے لیے رجل کا لفظ آیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ فرشتے جب بھی انسانی شکل میں آئے تو ہمیشہ مردوں ہی کی شکل میں آتے ہیں۔- اور تیسرا اشکال یہ ہے کہ کشتی والوں نے سیدنا خضر کو پہچان کر بغیر کرایہ ہی کشتی پر سوار کرلیا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کشتی کے مالکوں نے پہلے سیدنا خضر کو کہیں دیکھا تھا اور وہ ان کی نظروں میں قابل احترام بھی تھے اس بات کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ جس میں مذکور ہے کہ سیدنا خضرکا نام خضر اس لیے پڑگیا تھا کہ وہ جہاں بیٹھتے وہاں سبزہ اگ آتا تھا۔ شاید ان کشتی والوں نے کوئی ایسا منظر دیکھ لیا ہو۔ بہرحال یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ سیدنا خضر اس علاقے کے باشندے نہ تھے ورنہ صرف اس کشتی کے مالک تو درکنار سب لوگ ہی ایسی عجوبہ روزگار شخصیت کو پہچاننے کی بجائے ٹھیک طرح جانتے ہوتے۔ (واللہ اعلم بالصواب)- سیدنا خضر اور متصوفین :۔ اس واقعہ سے صدیوں بعد سیدنا خضر کے متعلق عجیب عجیب قسم کے عقائد رائج ہوگئے۔ ہمارے صوفیاء نے ان کو ولی قرار دے کر سیدنا موسیٰ کا استاد اور ان سے افضل ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ کوششیں اس وقت شروع ہوئیں جب ان میں یہ عقیدہ رائج ہوا کہ ولایت نبوت سے افضل ہے پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ لوگ سیدنا خضر کو ایک زندہ جاوید ہستی تسلیم کرکے ان سے ہر وقت رہبری کے خواہاں رہتے ہیں جب تک انھیں سیدنا خضر سے ملاقات اور رہبری حاصل نہ ہو ان کی ولایت مکمل ہی نہیں ہوتی پھر سیدنا خضر کی فرضی شخصیت کے متعلق طرح طرح کے افسانے تراشے گئے جو اتنے عام ہوئے کہ ہمارے شعر و ادب میں بھی داخل ہوگئے مثلاً ایک شاعر کہتا ہے۔- تہیدستان قسمت راچہ سود از رہبر کامل۔۔ کہ خضر از آب حیوان تشنہ می آرد سکندر را - یہ شعر تو سیدنا خضر کے فیض سے متعلق تھا اب دوسرا شعر ان کی رہبری، رہنمائی اور ہدایت سے متعلق ملاحظہ فرمائیے۔ اقبال کہتا ہے :- تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی۔۔ رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے - سیدناخضر کے متعلق عجیب و غریب عقائد :۔ البتہ علمائے حق نے اس قسم کی اوہام پرستی کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کی ہے چناچہ دائرہ المعارف الاسلامیہ مطبوعہ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں زیر عنوان طریقت جلد ١٢ صفحہ ٤٦٠ پر درج ہے۔ کہ راسخ القیدہ فقہا نے اہل تصوف کے استاد الہامی (سیدنا خضر) کے خلاف بھی آواز بلند کی ہے جس کی بنا پر سلسلہ تصوف کو ایک ایسی مقدس ہستی (سیدنا خضر) کے مظاہر سے فیضان حاصل ہوتا ہے جو پراسرار اور غیر فانی ہے یعنی الخضر جن کی ہادی طریقت کی حیثیت سے سب فرقے توقیر و تعظیم کرتے ہیں کیونکہ وہ سیدنا موسیٰ کے رہنما اور صوفی کی روح کو حقیقت علیا سے آشنا کرانے کے اہل ہیں یہ عقیدہ غالباً تصوف کی کسی مستند کتاب میں نہیں پایا جاتا - پھر اسی دائرۃ المعارف میں خواجہ خضر کے عنوان کے تحت لکھا ہے کہ ہندوستان میں انھیں (سیدنا خضر کو) کنوؤں اور چشموں کی روح کا روپ سمجھا جاتا ہے۔ دریائے سندھ کے آرپار انھیں دریا کا اوتار سمجھا جاتا ہے سیدنا خضر کی خانقاہ سندھ کے ایک جزیرے میں بھکر کے پاس ہے جہاں ہر مذہب کے عقیدت مند زیارت کو جاتے ہیں۔ (ایضاً جلد ٥ ص ٢٢)- اس طرح سیدنا خضر کے نام سے شرک کا ایک دروازہ کھل گیا اور اب تو سیدنا خضر کی نماز بھی پڑھی جانے لگی ہے جس کی برکت سے سیدنا خضر سے ملاقات بھی ہوجاتی ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے تلقین مرشد کامل از صادق فرغانی ص ٢٤٠)- اور بعض لوگ خواجہ خضر خواج کی نیاز دریا میں پھینکتے ہیں تاکہ کشتی یا جہاز بخیر و عافیت کنارے پر لگ جائے گویا ایسے مشرکوں کے لیے خواجہ خضر ایک مستقل اوتار یا معبود بن گیا ہے۔
وَكَانَ اَبُوْهُمَا صَالِحًا : اللہ تعالیٰ اپنے صالح بندوں کی وفات کے بعد بھی ان کی مومن اولاد کی خاص نگہداشت فرماتا ہے اور قیامت کو بھی انھیں خاص رعایت دے گا۔ دیکھیے سورة طور (٢١) ۔- ان تینوں واقعات کی اصل حقیقت بیان کرتے ہوئے خضر (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن ادب کو خاص طور پر ملحوظ رکھا ہے۔ کشتی کو عیب دار کرنے کی نسبت اپنی طرف کی ہے، لڑکے کے قتل کے ارادہ کی نسبت اپنی طرف اور اس کے صالح باپ کو بہتر اولاد عطا کرنے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف فرمائی ہے اور یتیم لڑکوں کے بالغ ہو کر اپنا خزانہ سنبھالنے کے ارادہ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف فرمائی ہے۔ - وَمَا فَعَلْتُهٗ عَنْ اَمْرِيْ : یہ خضر (علیہ السلام) کے نبی ہونے کی واضح دلیل ہے، کیونکہ کسی ولی کو اللہ کی طرف سے الہام کی بنا پر کسی بد سے بد کو بھی قتل کرنے کی اجازت نہیں، کیونکہ اس کے الہام میں شیطان دخیل ہوسکتا ہے۔ ” لَمْ تَسْطِعْ “ اصل میں ” لَمْ تَسْتَطِعْ “ تھا، تخفیف کے لیے تاء کو حذف کردیا۔ خضر (علیہ السلام) کے کلام کی ابتدا میں ” لَمْ تَسْتَطِعْ “ ہے، کیونکہ وہاں بات شروع ہو رہی ہے، اختصار کی ضرورت نہیں، بات ختم ہونے پر قصہ مختصر کیا جاتا ہے، اس لیے یہاں ” لَمْ تَسْتَطِعْ “ فرمایا۔ ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ وضاحت نہ ہونے کی وجہ سے ذہنی بوجھ تھا تو ثقیل لفظ بولا اور وضاحت کے بعد بوجھ اتر جانے پر خفیف لفظ بولا ہے۔
(آیت) تَحْتَهٗ كَنْزٌ لَّهُمَا یہ خزانہ جو یتیم بچوں کے لئے زیر دیوار دفن تھا اس کے متعلق حضرت ابو الدرداء (رض) نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت کیا ہے کہ وہ سونے اور چاندی کا ذخیرہ تھا (رواہ الترمذی والحاکم وصححہ از مظہری)- ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ وہ سونے کی ایک تختی تھی جس پر نصیحت کے مندرجہ ذیل کلمات لکھے ہوئے تھے یہ روایت حضرت عثمان بن عفان (رض) نے مرفوعاً رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی نقل فرمائی (قرطبی) - ١ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔- ٢ تعجب ہے اس شخص پر جو تقدیر پر ایمان رکھتا ہے پھر غمگین کیونکر ہوتا ہے۔- ٣ تعجب ہے اس شخص پر جو اس پر ایمان رکھتا ہے کہ رزق کا ذمہ دار اللہ ہے پھر ضرورت سے زیادہ مشقت اور فضول قسم کی کوشش میں کیوں لگتا ہے۔- ٤ تعجب ہے اس شخص پر جو موت پر ایمان رکھتا ہے پھر خوش و خرم کیسے رہتا ہے۔- ٥ تعجب ہے اس شخص پر جو حساب آخرت پر ایمان رکھتا ہے پھر غفلت کیسے برتتا ہے۔- ٦ تعجب ہے اس شخص پر جو دنیا کو اور اس کے انقلابات کو جانتا ہے پھر کیسے اس پر مطمئن ہو کر بیٹھتا ہے۔- ٧ لا الہ اللہ محمد رسول اللہ۔- والدین کی نیکی کا فائدہ اولاد در اولاد کو بھی پہنچتا ہے :- وَكَانَ اَبُوْهُمَا صَالِحًا اس میں اشارہ ہے کہ یتیم بچوں کے لئے مدفون خزانے کی حفاظت کا سامان بذریعہ خضر (علیہ السلام) اس لئے کرایا گیا تھا کہ ان یتیم بچوں کا باپ کوئی مرد صالح اللہ کے نزدیک مقبول تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی مراد پوری کرنے اور اس کی اولاد کو فائدہ پہنچانے کا یہ انتظام فرمایا محمد بن منکدر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک بندے کی نیکی اور صلاحیت کی وجہ سے اس کی اولاد اور اولاد اور اس کے خاندان کی اور اس کے آس پاس کے مکانات کی حفاظت فرماتے ہیں (مظہری)- قرطبی میں ہے کہ حضرت شبلی فرمایا کرتے تھے کہ میں اس شہر اور پورے علاقہ کے لئے امان ہوں جب ان کی وفات ہوگئی تو ان کے دفن ہوتے ہی کفار دیلم نے دریائے دجلہ کو عبور کرکے بغداد پر قبضہ کرلیا اس وقت لوگوں کی زبان پر یہ تھا کہ ہم پر دوہری مصیبت ہے یعنی شبلی کی وفات اور دیلم کا قبضہ (قرطبی ص ٢٩ ج ١١)- تفسیر مظہری میں ہے کہ اس آیت میں اس کی طرف بھی اشارہ ہے کہ لوگوں کو بھی علماء وصلحاء کی اولاد کی رعایت اور ان پر شفقت کرنی چاہئے جب تک کہ وہ بالکل ہی کفر و فسق و فجور میں مبتلا نہ ہوجائیں۔- (آیت) اَنْ يَّبْلُغَآ اَشُدَّهُمَا لفظ اشد شدۃ کی جمع ہے مراد قوت ہے اور وہ عمر جس میں انسان اپنی پوری قوت اور بھلے برے کی پہچان پر قادر ہوجاتا ہے ابوحنیفہ کے نزدیک یہ پچیس سال کی عمر ہے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ چالیس سال عمر ہے کیونکہ قرآن کریم میں ہے کہ (آیت) حَتّىٰٓ اِذَا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَبَلَـغَ اَرْبَعِيْنَ سَـنَةً (مظہری)- پیغمبرانہ بلاغت اور رعایت ادب کی ایک مثال :- اس مثال کو سمجھنے کے لئے پہلے یہ بات سمجھ لینی ضروری ہے کہ دنیا میں کوئی اچھا یا برا کام اللہ تعالیٰ کی مشیت و ارادے کے بغیر نہیں ہوسکتا خیر و شر سب اس کی مخلوق اور اس کے ارادے اور مشیت کے تابع ہیں جن امور کو شر یا برا سمجھا اور کہا جاتا ہے وہ خاص افراد اور خاص حالات کے اعتبار سے ضرور شر اور برا کہلانے کے مستحق ہوتے ہیں مگر مجموعہ عالم اور عالم دنیا کے مزاج کے لئے سب ضروری اور تخلیق الہی کے اعتبار سے سب خیر ہی ہوتے ہیں اور سب حکمت پر مبنی ہوتے ہیں۔- کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں۔- خلاصہ یہ ہے کہ جو آفت یا حادثہ دنیا میں پیش آتا ہے خدا تعالیٰ کی مشیت و ارادے کے بغیر نہیں ہوسکتا اس لحاظ سے ہر خیر و شر کی نسبت بھی حق تعالیٰ کی طرف ہوسکتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ حق تعالیٰ کی تخلیق کے اعتبار سے کوئی شر شر نہیں ہوتا اس لئے ادب کا تقاضا یہ ہے کہ شر کی نسبت حق تعالیٰ کی طرف نہ کی جائے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے کلمات جو قرآن کریم میں مذکور ہیں (آیت) وَالَّذِيْ هُوَ يُطْعِمُنِيْ وَيَسْقِيْنِ وَاِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ اسی تعلیم کا سبق دیتے ہیں کہ کھلانے پلانے کی نسبت حق تعالیٰ کی طرف فرمائی پھر بیماری کے وقت شفاء دینے کی نسبت بھی اسی کی طرف کی۔ درمیان میں بیمار ہونے کو اپنی طرف منسوب کرکے کہا (آیت) وَاِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ یعنی جب میں بیمار ہوجاتا ہوں تو اللہ تعالیٰ مجھے شفاء عطا فرما دیتے ہیں یوں نہیں کہا کہ جب وہ مجھے بیمار کرتے ہیں تو شفاء بھی دیتے ہیں۔- اب حضرت خضر (علیہ السلام) کے کلام پر غور کیجئے انہوں نے جب کشتی توڑنے کا ارادہ کیا تو وہ کیونکہ ظاہر میں ایک عیب اور برائی ہے اس کے ارادہ کی نسبت اپنی طرف کرکے فرمایا اَرَدْتَّ پھر لڑکے کو قتل کرنے اور اس کے بدلے میں اس سے بہتر اولاد دینے کا ذکر کیا تو اس میں قتل تو برائی تھی اور بدلہ میں بہتر اولاد دینا ایک بھلائی تھی امر مشترک ہونے کی وجہ سے یہاں بصیغہ جمع متکلم فرمایا فَاَرَدْنَآ یعنی ہم نے ارادہ کیا تاکہ اس میں جتنا ظاہری شر ہے وہ اپنی طرف اور جو خیر ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہو تیسرے واقعہ میں دیوار کھڑی کرکے یتیموں کا مال محفوظ کردینا سراسر خیر ہی خیر ہے اس کی نسبت پوری حق تعالیٰ کی طرف کرکے فرمایا فَاَرَادَ رَبُّكَ یعنی آپ کے رب نے ارادہ کیا۔- خضر (علیہ السلام) زندہ ہیں یا ان کی وفات ہوچکی :- قرآن کریم میں جو واقعہ حضرت خضر (علیہ السلام) کا مذکور ہے اس کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ خضر (علیہ السلام) اس واقعے کے بعد وفات پاگئے یا زندہ رہ گئے اسی لئے قرآن و سنت میں اس کے متعلق کوئی صریح بات مذکور نہیں بعض روایات و آثار سے ان کا اب تک زندہ ہونا معلوم ہوتا ہے بعض روایات سے اس کے خلاف مستفاد ہوتا ہے اس لئے اس معاملے میں ہمیشہ سے علماء کی راہیں مختلف رہی ہے جو حضرات ان کی حیات کے قائل ہیں ان کا استدلال ایک تو اس روایت سے ہے جس کو حاکم نے مستدرک میں حضرت انس (رض) سے نقل کیا ہے کہ جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی تو ایک شخص سیاہ سفید داڑھی والے داخل ہوئے اور لوگوں کے مجمع کو چیرتے پھاڑتے اندر پہنچے اور رونے لگے پھر صحابہ کرام (رض) اجمعین کی طرف متوجہ ہو کر یہ کلمات کہے۔- ان فی اللہ عزآء من کل مصیبۃ وعوضا من کل فآئت وخلفا من کل ھالک فالی اللہ فانیبوا والیہ فارغبوا ونظرہ الیکم فی البلاء فانظروا فانما المصاب من لم یجیر۔- اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں صبر ہے ہر مصیبت سے اور بدلہ ہے ہر فوت ہونے والی چیز کا اور وہی قائم مقام ہے ہر ہلاک ہونے والے کا اس لئے اسی کی طرف رجوع کرو اسی کو طرف رغبت کرو اور اس بات کو دیکھو کہ وہ تمہیں مصیبت میں مبتلا کر کے تم کو آزماتا ہے اصل مصیبت زدہ وہ ہے جس کی مصیبت کی تلافی نہ ہو۔- یہ آنے والے کلمات مذکورہ کہہ کر رخصت ہوگئے تو حضرت ابوبکر صدیق اور علی المرتضی (رض) نے فرمایا کہ یہ خضر (علیہ السلام) تھے اس روایت کو جزری (رح) نے حصن حصین میں بھی نقل کیا ہے۔ جن کی شرط یہ ہے کہ صرف صحیح السند روایات اس میں درج کرتے ہیں۔- اور صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ دجال مدینہ طیبہ کے قریب ایک جگہ تک پہنچے گا تو مدینہ سے ایک شخص اس کے مقابلہ کے لئے نکلے گا جو اس زمانے کے سب انسانوں میں بہتر ہوگا یا بہتر لوگوں میں سے ہوگا ابو الحق نے فرمایا کہ یہ شخص حضرت خضر (علیہ السلام) ہوں گے (قرطی)- اور ابن ابی الدنیا نے کتاب الہواتف میں سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت خضر (علیہ السلام) سے ملاقات کی تو خضر (علیہ السلام) نے ان کو ایک دعا بتلائی جو کہ اس کو ہر نماز کے بعد پڑھا کرے اس کے لئے ثواب عظیم اور مغفرت و رحمت ہے وہ دعا یہ ہے۔- یامن لا یشغلہ سمع عن سمع ویامن لا تغلطہ المسآئل ویامن لایبرم من الحاح الملحین اذقنی برد عفوک وحلاوۃ مغفرتک۔ (قرطبی)- اے وہ ذات جس کو ایک کلام کا سننا دوسرے کلام کے سننے سے مانع نہیں ہوتا اور اے وہ ذات جس کو بیک وقت ہونے والے (لاکھوں کروڑوں) سوالات میں کوئی مغالطہ نہیں لگتا اور وہ ذات جو دعا میں الحاح و اسرار کرنے اور بار بار کہنے سے ملول نہیں ہوتا مجھے اپنے عفو و کرم کا ذائقہ چکھا دیجئے اور اپنی مغفرت کی حلاوت نصیب فرمائیے - اور پھر اسی کتاب میں بعینہ یہی واقعہ اور یہی دعا اور خضر (علیہ السلام) سے ملاقات کا واقعہ حضرت فاروق اعظم (رض) سے بھی نقل کیا ہے (قرطبی)- اس طرح اولیاء امت میں حضرت خضر (علیہ السلام) کے بیشمار واقعات منقول ہیں اور جو حضرات خضر (علیہ السلام) کی حیات کو تسلیم نہیں کرتے ان کا بڑا استدلال اس حدیث سے ہے جو صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے منقول ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک رات رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں عشاء کی نماز میں اپنی آخر حیات میں پڑھائی سلام پھیرنے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوگئے اور یہ کلمات ارشاد فرمائے۔- ارءیتکم لیلتکم ہذہ فان علی راس مائۃ سنۃ منھا لایبقی ممن ھو علی ظہر الارض احد۔- کیا تم اپنی آج کی رات کو دیکھ رہے ہو اس رات سے سو سال گذرنے پر کوئی شخص ان میں سے زندہ نہ رہے گا جو آج زمین کے اوپر ہے۔- حضرت ابن عمر (رض) نے یہ روایت نقل کرکے فرمایا کہ اس روایت کے بارے میں لوگ مختلف باتیں کرتے ہیں مگر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد یہ تھی کہ سو سال پر یہ قرآن ختم ہوجائے گا یہ روایت مسلم میں حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے بھی تقریبا انہی الفاظ کے ساتھ منقول ہے لیکن علامہ قرطبی نے یہ روایت نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ اس میں ان لوگوں کے لئے کوئی حجت نہیں جو حیات خضر (علیہ السلام) کو باطل کہتے ہیں کیونکہ اس روایت میں اگرچہ تمام بنی آدم کے لئے عموم کے الفاظ ہیں اور عموم بھی مؤ کد کرکے لایا گیا ہے مگر پھر بھی اس میں نص نہیں کہ یہ عموم تمام اولاد آدم (علیہ السلام) کو شامل ہی ہو کیونکہ اولاد آدم میں تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی ہیں جن کی نہ وفات ہوئی اور نہ قتل کئے گئے اس لئے ظاہر یہ ہے کہ حدیث کے الفاظ عَلَی الاَرض میں الف لام عہد کا ہے اور مراد ارض سے ارض عرب ہے پوری زمین جس میں ارض یاجوج و ماجوج اور بلاد شرق اور جزائر جن کا نام بھی عربوں نے نہیں سنا اس میں شامل نہیں یہ علامہ قرطبی کی تحقیق ہے۔- اسی طرح بعض حضرات نے مسئلہ ختم نبوت کو حیات خضر کے منافی سمجھا ہے اس کا جواب بھی ظاہر ہے کہ جس طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی حیات ختم نبوت کے منافی نہیں حضرت خضر (علیہ السلام) کی حیات بھی ایسی ہی ہوسکتی ہے۔- بعض حضرات نے حیات خضر پر یہ شبہ کیا ہے کہ اگر وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں موجود ہوتے تو ان پر لازم تھا کہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوتے اور آپ کے تابع ہو کر اسلامی خدمات میں مشغول ہوتے کیونکہ حدیث میں ارشاد ہے لَو كَانَ مُوسٰی حَیًّا لَّما وَسِعَہ اِلَّااتِّبَاعِی یعنی اگر موسیٰ (علیہ السلام) آج زندہ ہوتے تو ان کو بھی میرا ہی اتباع کرنا پڑتا (کیونکہ میرے آنے سے دین موسوی منسوخ ہوچکا ہے) لیکن یہ کچھ بعید نہیں کہ حضرت خضر (علیہ السلام) کی زندگی اور ان کی نبوت عام انبیاء (علیہم السلام) شریعت سے مختلف ہو ان کو چونکہ تکوینی خدمات منجانب اللہ سپرد ہیں وہ ان کے لئے مخلوق سے الگ تھلگ اپنے کام پر مامور ہیں رہا اتباع شریعت محمدیہ تو اس میں کوئی بعد نہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے بعد سے انہوں نے اپنا عمل شریعت محمدیہ پر شروع کردیا ہو واللہ اعلم - ابوحیان نے تفسیر بحر محیط میں متعدد بزرگوں کے واقعات حضرت خضر (علیہ السلام) سے ملاقات کے بھی نقل کئے ہیں مگر ساتھ ہی یہ بھی فرمایا ہے کہ۔- والجمہور علی انہ مات (بحر ص ١٤٧ ج ٢)- جمہور علماء اس پر ہیں کہ خضر (علیہ السلام) کی وفات ہوگئی۔- تفسیر مظہری میں حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے فرمایا کہ تمام اشکالات کا حل اس میں ہے جو حضرت سید احمد سرہندی مجدد الف ثانی نے اپنے مکاشفہ سے فرمایا وہ یہ کہ میں نے خود حضرت خضر (علیہ السلام) سے اس معاملہ کو عالم کشف میں دریافت کیا انہوں نے فرمایا کہ میں اور الیاس (علیہ السلام) ہم دونوں زندہ نہیں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ قدرت بخشی ہے کہ ہم زندہ آدمیوں کی شکل میں متشکل ہو کر لوگوں کی امداد مختلف صورتوں میں کرتے ہیں واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔- یہ بات میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ حضرت خضر (علیہ السلام) کی موت وحیات سے ہمارا کوئی اعتقادی یا عملی مسئلہ متعلق نہیں اسی لئے قرآن و سنت میں اس کے متعلق کوئی صراحت و وضاحت نہیں کی گئی اس لئے اس میں زیادہ بحث و تمحیص کی بھی ضرورت نہیں نہ کسی ایک جانب کا یقین رکھنا ہمارے لئے ضروری نہیں ہے لیکن چونکہ مسئلہ عوام میں چلا ہوا ہے اس لئے مذکورہ صدر تفصیلات نقل کردی گئی ہیں۔
وَاَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلٰمَيْنِ يَتِيْمَيْنِ فِي الْمَدِيْنَۃِ وَكَانَ تَحْتَہٗ كَنْزٌ لَّہُمَا وَكَانَ اَبُوْہُمَا صَالِحًا ٠ۚ فَاَرَادَ رَبُّكَ اَنْ يَّبْلُغَآ اَشُدَّہُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنْزَہُمَا ٠ۤۖ رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّكَ ٠ۚ وَمَا فَعَلْتُہٗ عَنْ اَمْرِيْ ٠ۭ ذٰلِكَ تَاْوِيْلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَّلَيْہِ صَبْرًا ٨ۭۧ- يتم - اليُتْمُ : انقطاع الصَّبيِّ عن أبيه قبل بلوغه، وفي سائر الحیوانات من قِبَلِ أمّه . قال تعالی:- أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی[ الضحی 6] ، وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان 8] وجمعه :- يَتَامَى. قال تعالی: وَآتُوا الْيَتامی أَمْوالَهُمْ [ النساء 2] ، إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامی [ النساء 10] ، وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الْيَتامی [ البقرة 220] وكلُّ منفردٍ يَتِيمٌ ، يقال : دُرَّةٌ يَتِيمَةٌ ، تنبيها علی أنّه انقطع مادّتها التي خرجت منها، وقیل : بَيْتٌ يَتِيمٌ تشبيها بالدّرّة اليَتِيمَةِ.- ( ی ت م ) الیتم - کے معنی نا بالغ بچہ کے تحت شفقت پدری سے محروم ہوجانے کے ہیں ۔ انسان کے علاوہ دیگر حیوانات میں یتم کا اعتبار ماں کیطرف سے ہوتا ہے اور جانور کے چھوٹے بچے کے بن ماں کے رہ جانے کو یتم کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی[ الضحی 6] بھلا اس نے تمہیں یتیم پاکر جگہ نہیں دی ۔ وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان 8] یتیموں اور قیدیوں کو یتیم کی جمع یتامیٰ ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَآتُوا الْيَتامی أَمْوالَهُمْ [ النساء 2] اور یتیموں کا مال ( جو تمہاری تحویل میں ہو ) ان کے حوالے کردو ۔ إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامی [ النساء 10] جو لوگ یتیموں کا مال ( ناجائز طور پر ) کھاتے ہیں ۔ وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الْيَتامی [ البقرة 220] اور تم سے یتیموں کے بارے میں دریاقت کرتے ہیں ۔ مجازا ہر یکتا اور بےمثل چیز کو عربی میں یتیم کہاجاتا ہے ۔ جیسا کہ گوہر یکتا درۃ یتیمۃ کہہ دیتے ہیں ۔ اور اس میں اس کے مادہ کے منقطع ہونے پر تنبیہ کرنا مقصود ہوتا ہے اور درۃ کے ساتھ تشبیہ دے کر یکتا مکان کو بھی یتیم کہہ دیا جاتا ہے ۔- تحت - تَحْت مقابل لفوق، قال تعالی: لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة 66] ، وقوله تعالی: جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج 23] ، تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمْ [يونس 9] ، فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم 24] ، يَوْمَ يَغْشاهُمُ الْعَذابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ العنکبوت 55] . و «تحت» : يستعمل في المنفصل، و «أسفل» في المتصل، يقال : المال تحته، وأسفله أغلظ من أعلاه، وفي الحدیث : «لا تقوم الساعة حتی يظهر التُّحُوت» «4» أي : الأراذل من الناس . وقیل : بل ذلک إشارة إلى ما قال سبحانه : وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق 3- 4] .- ( ت ح ت) تحت - ( اسم ظرف ) یہ فوق کی ضد ہے قرآن میں ہے :۔ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة 66] تو ( ان پر رزق مینہ کی طرح برستا کہ اپنے اوپر سے اور پاؤں کے نیچے سے کھاتے ۔ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج 23] ( نعمت کے ) باغ میں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم 24] اس وقت ان کے نیچے کی جانب سے آواز دی ۔ تحت اور اسفل میں فرق یہ ہے کہ تحت اس چیز کو کہتے ہیں جو دوسری کے نیچے ہو مگر اسفل کسی چیز کے نچلا حصہ کو جیسے ۔ المال تحتہ ( مال اس کے نیچے ہے ) اس کا نچلا حصہ اعلیٰ حصہ سے سخت ہے ) حدیث میں ہے (48) لاتقوم الساعۃ حتیٰ یظھر النحوت کہ قیامت قائم نہیں ہوگی ۔ تا وقی کہ کمینے لوگ غلبہ حاصل نہ کرلیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حدیث میں آیت کریمہ ؛۔ وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق 3- 4] اور جب یہ زمین ہموار کردی جائے گی اور جو کچھ اس میں سے اسے نکلا کر باہر ڈال دے گی ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔- كنز - الْكَنْزُ : جعل المال بعضه علی بعض وحفظه . وأصله من : كَنَزْتُ التّمرَ في الوعاء، وزمن الْكِنَازُ «2» : وقت ما يُكْنَزُ فيه التّمر، وناقة كِنَازٌ مُكْتَنِزَةُ اللّحم . وقوله تعالی: وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ [ التوبة 34] أي : يدّخرونها، وقوله : فَذُوقُوا ما كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ- [ التوبة 35] ، وقوله : لَوْلا أُنْزِلَ عَلَيْهِ كَنْزٌ [هود 12] أي : مال عظیم . - ( ک ن ز ) الکنز - ( ض ) کے معنی دولت جمع کر کے اس محفوظ رکھ دینے کے ہیں یہ اصل میں کنزت التمر فی الواعاء سے مشتق ہے ۔ - جس کے معنی کھجور کا بار دان میں بھر کر محفوظ کرلینے کے ہیں ۔ اور کھجوا اندوختہ کرنے کے موسم مو زمن الکناز کہا جاتا ہے ۔ اور ناقتہ کناز کے معنی گوشت سے گتھی ہوئی اونٹنی کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ - : وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ [ التوبة 34] اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں ۔ میں یکنزون سے مراد وہ لوگ ہیں جو سونا اور چاندی جمع کرنے مصروف رہتے ہیں ۔ اور اسے راہ خدا میں صرف نہیں کرتے ایسے لوگوں کو قیامت کے دن کہاجائے گا : فَذُوقُوا ما كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ [ التوبة 35] کہ جو کچھ جمع کرتے تھے اس کا مزہ چکھو ۔ اور آیت لَوْلا أُنْزِلَ عَلَيْهِ كَنْزٌ [هود 12] میں کنز کے معنی خزانہ اور بڑی دولت کے ہیں - صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- بلغ - البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15]- ( ب ل غ ) البلوغ - والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : - بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ - شد - الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء :- قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] ،- ( ش دد ) الشد - یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے - : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔ - خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - فعل - الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، - ( ف ع ل ) الفعل - کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔ - فعل - الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، - ( ف ع ل ) الفعل - کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔
کنز کسے کہتے ہیں ؟- قول باری ہے (وکان تحتہ کنزلھما، اس دیوار کے نیچے ان بچوں کے لئے ایک خزانہ مدفون ہے) سعید بن جبیر اور عکرمہ کا قول ہے کہ ” مال مدفون تھا۔ “ حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ یہ خزانہ سونے اور چاندی کی شکل میں نہیں تھا بلکہ کتابی شکل میں علم کا خزانہ تھا۔ مجاہد کا قول ہے کہ علم کے صحیفے تھے۔ حضرت ابوالدرداء سے مروی ہے کہ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس آیت کی تفسیر میں منقول ہے کہ سونا چاندی مدفون تھا۔ جب ان حضرات نے کنز کو صحیفوں، علم ، نیز سونا اور چاندی کے معنوں پر محمول کیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ کنز کا اطلاق ان تمام چیزوں پر ہتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ حضرات اسے ان معنوں پر معمول نہ کرتے۔ قول باری ہے (والذین یکنزون الذھب والفضۃ ولا ینفقولھا فی سبیل اللہ اور وہ لوگ جو سونے اور چاندی کا خزانہ جمع کرلیتے ہیں اور اسے اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے) یہاں اللہ تعالیٰ نے سونے اور چاندی کا خزانہ جمع کرلیتے ہیں اور اسے اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے) یہاں اللہ تعالیٰ نے سونے اور چاندی کا خصوصی طور سے ذکر کیا اس لئے کہ باقی ماندہ تمام چیزیں اگر خزانہ کے طور پر جمع رکھی جائیں تو ان میں زکوۃ واجب نہیں ہوتی۔ ان میں زکوۃ اس وقت واجب ہوتی ہے جب ان کی افزائش کی نیت سے انہیں رکھا جائے۔ اس کے برعکس سونے اور چاندی میں ہر صورت کے اندر زکوۃ واجب ہوجاتی ہے خواہ انہیں خزانے کی شکل میں جمع رکھا جائے اور ان کی افزائش کی کوئی نیت نہ ہو۔- قول باری ہے (وکان ابوھما صالحاً فارا د ربک ان یبلغا اشدھما اور ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا اس لئے تمہارے رب نے چاہا کہ یہ دونوں بچے بالغ ہوں) تا آخر آیت اس میں یہ دلالت ہے کہ والدین کی نیکی کی بنا پر اللہ تعالیٰ اولاد کی حفاظت کرتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (ان اللہ لیحفظ المومن فی اھلہ وولدہ فی الدویرات حولہ۔ اللہ تعالیٰ مومن کے اہل و عیال اور اس کے اردگرد کے گھروں کی حفاظت کرتا ہے) اسی طرح یہ قول باری ہے (ولو لارجال مومنون ونساء مومنات لم تعلموھم ان تطوء ھم فتصیکم منھم معرۃ بغیر علم لیدخل اللہ فی رحمتہ من یشآء لوتزیلوا لعذبنا الذین کفروا منھم عذاباً الیماً ۔ اور اگر (بہت سے ) مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں نہ ہوتیں جن کی تمہیں خبر بھی نہ تھی یعنی ان کے کچل جانے کا احتمال نہ ہوتا جس پر ان کے باعث تمہیں بھی نادانستگی میں ضرر پہنچتا (تو ابھی سب قضیہ طے کردیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا) تاکہ اللہ اپنی رحمت میں داخل کرے جس کو چاہے اگر یہ (بےکس مسلمان ) ٹل گئے ہوتے تو ان میں جو کافر تھے انہیں ہم درد ناک عذاب دیتے) اللہ تعالیٰ نے آیت میں یہ بتایا کہ کافروں سے عذاب ٹل گیا اس لئے کہ اہل ایمان ان میں موجود تھے۔ اسی طرح یہ آیت ہے (وما کان اللہ لیعذ بھم وانت فیھم۔ اللہ تعالیٰ انہیں عذاب دینے والا نہیں تھا در آنحالیکہ تم ان کے اندر موجود ہو۔ )
آیت ٨٢ (وَاَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلٰمَيْنِ يَتِيْمَيْنِ فِي الْمَدِيْنَةِ وَكَانَ تَحْتَهٗ كَنْزٌ لَّهُمَا وَكَانَ اَبُوْهُمَا صَالِحًا)- باپ نے جب دیکھا ہوگا کہ میرا آخری وقت قریب آ لگا ہے اور میرے بچے ابھی بہت چھوٹے ہیں تو اس نے اپنی ساری پونجی اکٹھی کر کے دیوار کی بنیاد میں دفن کردی ہوگی اس امید پر کہ جب وہ بڑے ہوں گے تو نکال لیں گے۔ لیکن اگر وہ دیوار وقت سے پہلے ہی گر جاتی تو اس بستی کے نا ہنجار لوگ جو کسی مسافر کو کھانا کھلانے کے بھی روادار نہیں ان یتیموں کا دفینہ لوٹ کرلے جاتے۔- (فَاَرَادَ رَبُّكَ اَنْ يَّبْلُغَآ اَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنْزَهُمَا )- باپ چونکہ نیک آدمی تھا اس لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیوار کی مرمت کا اہتمام کر کے اس کے کمسن یتیم بچوں کی بھلائی کا سامان کیا گیا۔- (رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ ۚ وَمَا فَعَلْتُهٗ عَنْ اَمْرِيْ )- یعنی یہ تمام امور اللہ کی رحمت کا مظہر تھے۔ یہ اللہ ہی کے فیصلے تھے اور اسی کے حکم سے ان کی تنفیذ و تعمیل کی گئی۔ میں نے اپنی مرضی سے ان میں سے کچھ بھی نہیں کیا۔ ان امور کے سلسلے میں اللہ کے احکام کی تنفیذ کرنے والے اللہ کے وہ بندے حضرت خضر تھے کوئی اور ولی اللہ تھے یا کوئی فرشتہ تھے اس سے فرق نہیں پڑتا۔ اس سارے واقعہ میں اصل بات جو سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کے ایسے تمام بندے کارکنان قضا و قدر کی فوج کے سپاہی ہیں اور وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے جن احکام کی تنفیذ کر رہے ہیں ان کا تعلق شریعت سے نہیں بلکہ تکوینی امور سے ہے۔ دنیا میں جو واقعات و حادثات رونما ہوتے ہیں ہم صرف ان کے ظاہری پہلو کو دیکھ کر ہی ان پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں یا دل گرفتہ ہوتے ہیں۔ بہر حال ہمیں یقین ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ ہوتا ہے اس میں خیر اور بھلائی ہی ہوتی ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنے تمام معاملات میں ” تفویض الامر “ کا رویہ اپناتے ہوئے راضی برضائے رب رہنا چاہیے کہ : ” ہرچہ ساقی ما ریخت عین الطاف است “
سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :60 اس قصے میں ایک بڑی پیچیدگی ہے جسے رفع کرنا ضروری ہے ۔ حضرت خضر نے یہ تین کام جو کیے ہیں ان میں سے تیسرا کام تو خیر شریعت سے نہیں ٹکرا تا ، مگر پہلے دونوں کام یقیناً ان احکام سے متصادم ہوتے ہیں جو ابتدائے عہد انسانیت سے آج تک تمام شرائع الہٰیہ میں ثابت رہے ہیں ۔ کوئی شریعت بھی کسی انسان کو یہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ کسی کی مملوکہ چیز کو خراب کر دے ، اور کسی متنفس کو بے قصور قتل کر ڈالے ۔ حتیٰ کہ اگر کسی انسان کو بطریق الہام بھی یہ معلوم ہو جائے کہ ایک کشتی کو آگے جا کر ایک غاصب چھین لے گا ، اور فلاں لڑکا بڑا ہو کر سرکش اور کافر نکلے گا ، تب بھی اس کے لیے خدا کی بھیجی ہوئی شریعتوں میں سے کسی شریعت کی رو سے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے اس الہامی علم کی بنا پر کشتی میں چھید کر دے اور ایک بے گناہ لڑکے کو مار ڈالے ۔ اس کے جواب میں یہ کہنا کہ حضرت خضر نے یہ دونوں کام اللہ کے حکم سے کیے تھے ، فی الواقع اس پیچیدگی کو کچھ بھی رفع نہیں کرتا ۔ سوال یہ نہیں ہے کہ حضرت خضر نے یہ کام کس کے حکم سے کیے تھے ۔ ان کا حکم الہٰی سے ہونا تو بالیقین ثابت ہے کیونکہ حضرت خضر خود فرماتے ہیں کہ ان کے یہ افعال ان کے اختیاری نہیں ہیں بلکہ اللہ کی رحمت ان کی محرک ہوئی ہے ، اور اس کی تصدیق اللہ تعالیٰ خود فرما چکا ہے کہ حضرت خضر کو اللہ کی طرف سے ایک علم خاص حاصل تھا ۔ پس یہ امر تو ہر شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ کام اللہ کے حکم سے کیے تھے ۔ مگر اصل سوال جو یہاں پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کے ان احکام کی نوعیت کیا تھی؟ ظاہر ہے کہ یہ تشریعی احکام نہ تھے ، کیونکہ شرائع الٰہیہ کے جو بنیادی اصول قرآن اور اس سے پہلے کی کتب آسمانی سے ثابت ہیں ان میں کبھی کسی انسان کے لیے یہ گنجائش نہیں رکھی گئی کہ وہ بلا ثبوت جرم کسی دوسرے انسان کو قتل کر دے ۔ اس لیے لا محالہ یہ ماننا پڑے گا کہ یہ احکام اپنی نوعیت میں اللہ تعالیٰ کے ان تکوینی احکام سے مشابہت رکھتے ہیں جن کے تحت دنیا میں ہر آن کوئی بیمار ڈالا جاتا ہے اور کوئی تندرست کیا جاتا ہے ، کسی کو موت دی جاتی ہے اور کسی کو زندگی سے نوازا جاتا ہے ، کسی کو تباہ کیا جاتا ہے اور کسی پر نعمتیں نازل کی جاتی ہیں ۔ اب اگر یہ تکوینی احکام ہیں تو ان کے مخاطب صرف فرشتے ہی ہو سکتے ہیں جن کے بارے میں شرعی جواز و عدم جواز کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، کیونکہ وہ اپنے ذاتی اختیار کے بغیر صرف اوامر الہٰیہ کی تعمیل کرتے ہیں ۔ رہا انسان تو خواہ وہ بلا ارادہ کسی تکوینی حکم کے نفاذ کا ذریعہ بنے ، اور خواہ الہاماً اس طرح کا کوئی غیبی علم اور حکم پا کر اس پر عمل در آمد کرے ، بہرحال وہ گناہگار ہونے سے نہیں بچ سکتا اگر وہ کام جو اس نے کیا ہے کسی حکم شرعی سے ٹکراتا ہو ۔ اس لیے کہ انسان بحیثیت اس کے کہ وہ انسان ہے ، احکام شرعیہ کا مکلف ہے اور اصول شریعت میں کہیں یہ گنجائش نہیں پائی جاتی کہ کسی انسان کے لیے محض اس بنا پر احکام شرعیہ میں سے کسی حکم کی خلاف ورزی جائز ہو کہ اسے بذریعہ الہام اس خلاف کا حکم ملا ہے اور بذریعہ علم غیب اس خلاف ورزی کی مصلحت بتائی گئی ہے ۔ یہ ایک ایسی بات ہے جس پر نہ صرف تمام علمائے شریعت متفق ہیں ، بلکہ اکابر صوفیہ بھی بالاتفاق یہی بات کہتے ہیں ۔ چنانچہ علامہ آلوسی نے تفصیل کے ساتھ عبد الوہاب شعرانی ، محی الدین ابن عربی ، مجدد الف ثانی ، شیخ عبد القادر جیلانی ، جنید بغدادی ، سَری سقطی ، ابلوحسین النوری ، ابو سعید الخر از ، ابو العباس احمد الدینوری اور امام غزالی جیسے نامور بزرگوں کے اقوال نقل کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ اہل تصوف کے نزدیک بھی کسی ایسے الہام پر عمل کرنا خود صاحب الہام تک کے لیے جائز نہیں ہے جو نص شرعی کے خلاف ہو ۔ ( روح المعانی ۔ ج ، 16 ۔ ص 16 ۔ 18 ) اب کیا ہم یہ مان لیں کہ اس قاعدہ کلیہ سے صرف ایک انسان مستثنیٰ کیا گیا ہے اور وہ ہیں حضرت خضر؟ یا یہ سمجھیں کی خضر کوئی انسان نہ تھے بلکہ اللہ کے ان بندوں میں سے تھے جو مشیت الٰہی کے تحت ( نہ کہ شریعت الہٰی کے تحت ) کام کرتے ہیں ؟ پہلی صورت کو ہم تسلیم کر لیتے اگر قرآن بالفاظ صریح یہ کہہ دیتا کہ وہ بندہ جس کے پاس حضرت موسیٰ اس تربیت کے لیے بھیجے گئے تھے ، انسان تھا ۔ لیکن قرآن اس کے انسان ہونے کی تصریح نہیں کرتا بلکہ صرف عَبْدًا مَّنْ عِبَادِنَا ( ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ ) کے الفاظ بولتا ہے جو ظاہر ہے کہ اس بندے کے انسان ہونے کو مستلزم نہیں ہیں ، قرآن مجید میں متعدد جگہ فرشتوں کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے ، مثال کے طور پر ملاحظہ ہو سورہ انبیاء ، آیت 26 ۔ اور سورہ زخرف ، آیت 19 ۔ پھر کسی صحیح حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بھی کوئی ایسا ارشاد منقول نہیں ہے جس میں صراحت کے ساتھ حضرت خضر کو نوع انسانی کا ایک فرد قرار دیا گیا ہو ۔ اس باب میں مستند ترین روایات وہ ہیں جو عن سعید بن جبیر ، عن ابن عباس ، عن اُبی بن کعب ، عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سند سے ائمۃ حدیث کو پہنچی ہیں ۔ ان میں حضرت خضر کے لیے صرف رَجُل کا لفظ آیا ہے ، جو اگرچہ مرد انسانوں کے لیے استعمال ہوتا ہے مگر انسانوں کے لیے مخصوص نہیں ہے ۔ چنانچہ خود قرآن میں یہ لفظ جِنوں کے لیے مستعمل ہو چکا ہے جیسا کہ سورہ جن یا فرشتہ یا کوئی اور غیر مرئی وجود جب انسانوں کے سامنے آئے گا تو انسانی شکل ہی میں آئے گا اور اس حالت میں اس کو بشر یا انسان ہی کہا جائے گا ۔ حضرت مریم کے سامنے جب فرشتہ آیا تھا تو قرآن اس واقعہ کو یوں بیان کرتا ہے کہ فَتَمَثَّلَ لَھَا بَشَرًا سَوِیًّا ۔ پس نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد کہ وہاں انہوں نے ایک مرد کو پایا حضرت خضر کے انسان ہونے پر صریح دلالت نہیں کرتا ۔ اس کے بعد ہمارے لیے اس پیچیدگی کو رفع کرنے کی صرف یہی ایک صورت باقی رہ جاتی ہے کہ ہم خضر کو انسان نہ مانیں بلکہ فرشتوں میں سے ، یا اللہ کی کسی اور ایسی مخلوق میں سے سمجھیں جو شرائع کی مکلف نہیں ہے بلکہ کار گاہ مشیت کی کارکن ہے ۔ متقدمین میں سے بھی بعض لوگوں نے یہ رائے ظاہر کی ہے جسے ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں ماوردی کے حوالہ سے نقل کیا ہے ۔
41: حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حضرت خضر علیہ السلام سے ملوانے اور یہ واقعات دکھانے کا اصل مقصد ایک اہم حقیقت کا مشاہدہ کرانا تھا، اور اِسی حقیقت کو واضح کرنے کے لئے قرآنِ کریم نے یہ واقعہ ہمارے لئے بیان فرمایا ہے۔ اسلامی شریعت کی رُو سے کسی کے لئے یہ بالکل جائز نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے کی ملکیت میں اس کی اجازت کے بغیر کوئی تصرف کرے، خاص طور پر اس کا تو ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی کہ اس کی ملکیت کو کوئی نقصان پہنچادے، چاہے وہ نقصان خود مالک کے فائدے کی نیت ہی سے پہنچایا گیا ہو، لیکن حضرت خضر علیہ السلام نے کشتی والوں کی اجازت کے بغیر اُس کا تختہ نکال دیا، اسی طرح کسی بے گناہ کو قتل کرنا شریعت میں انتہائی سنگین جرم ہے، خاص طور پر کسی نابالغ لڑکے کو قتل کرنا تو حالت جنگ میں بھی جائز نہیں ہے، یہاں تک کہ اگر یہ معلوم ہو کہ یہ لڑکا بڑا ہو کر کوئی فساد مچائے گا، تب بھی اُس وقت تک اسے قتل کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا، اس کے باوجود حضرت خضر علیہ السلام نے لڑکے کو قتل کردیا، او رچونکہ یہ دونوں باتیں شریعت میں ناجائز تھیں، اس لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام اِن پر خاموش نہیں رہ سکے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نے شریعت کے بالکل خلاف یہ کام کیسے کئے؟ اِس سوال کا جواب جاننے کے لئے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس کائنات میں جتنے واقعات ہوتے ہیں، چاہے وہ ہماری نظر میں اچھے معلوم ہوتے ہوں یا بُرے، ان کا تعلق ایک ایسے جہاں سے ہے جو ہماری آنکھوں سے پوشیدہ ہے، اور جسے اصطلاح میں ’’عالمِ تکوین‘‘ کہا جاتا ہے، جو براہِ راست اﷲ تعالیٰ کی حکمت اور اس کے تکوینی اَحکام کے ذریعے کنٹرول ہورہا ہے، کس شخص کوکتنے عرصے زندہ رہنا ہے؟ اور کب اُس کی موت واقع ہوگی؟ وہ کتنے عرصے صحت مند رہے گا؟ اور کب بیمار ہوجائے گا؟ اسے کب کونسا روز گار نصیب ہوگا ؟ اور اس کے ذریعے وہ کتنی روزی کماسکے گا؟ اس قسم کے سارے معاملات اﷲ تعالیٰ براہ راست طے فرماتے ہیں اور اِن فیصلوں کو نافذ کرنے کے لئے اﷲ تعالیٰ نے کچھ کارندے مقرر فرما رکھے ہیں جو ہماری نگاہوں سے پوشیدہ رہ کر اﷲ تعالیٰ کے اِن تکوینی احکام کی تعمیل کرتے ہیں۔ مثلا جب اﷲ تعالیٰ نے یہ طے فرمالیا کہ فلاں شخص کی موت کا وقت آگیا ہے تو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے موت کا فرشتہ اس شخص کی روح قبض کرنے کے لئے پہنچ جاتا ہے، جب وہ اﷲ تعالیٰ کے تکوینی حکم کی تعمیل میں کسی کی موت واقع کررہا ہوتا ہے تو وہ کسی جرم کا ارتکاب نہیں کرتا، بلکہ اﷲ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتا ہے، کسی اِنسان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی دوسرے کی جان لے، لیکن جس فرشتے کو اﷲ تعالیٰ نے اسی کام پر مقرر فرمایا ہے، اُس کے لئے یہ کوئی جرم نہیں۔ اﷲ تعالیٰ کے تکوینی اَحکام کو نافذ کرنے کے لئے عام طور سے فرشتے مقرر ہوتے ہیں، لیکن اﷲ تعالیٰ جس کو چاہیں، یہ فریضہ سونپ سکتے ہیں۔ حضرت خضر علیہ السلام اگرچہ اِنسان تھے، لیکن اﷲ تعالیٰ نے ان کو فرشتوں کی طرح عالمِ تکوین کا پیغمبر بنادیا تھا، انہوں نے جو کچھ کیا، اﷲ تعالیٰ کے تکوینی حکم کے ذریعے کیا، لہٰذا جس طرح موت کے فرشتے پر یہ اعتراض نہیں کیا جاسکتا کہ اُس نے ایک بے گناہ کی جان لے کر گناہ کا ارتکاب کیا ہے، کیونکہ وہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اسی بات کے لئے مأمور تھا، اسی طرح حضرت خضر علیہ السلام بھی اُس کشتی کو عیب لگانے اور اُس لڑکے کو قتل کرنے پر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے تکوینی طور پر مأمور تھے، اس لئے ان کا یہ عمل کوئی جرم نہیں تھا، البتہ ہم لوگ دُنیا میں رہتے ہوئے شریعت کے احکام کے پابند ہیں اور ہمیں عالمِ تکوین کا نہ علم عطا کیا گیا ہے اور نہ اس عالم سے متعلق ہمیں کوئی ذمہ داری سونپی گئی ہے، اس لئے ہم اُنہی احکام کے مکلف ہیں جو اِس جیتی جاگتی زندگی میں ہمیں آنکھوں سے نظر آتے ہیں، چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جو اسی جیتی جاگتی دُنیا کے پیغمبر تھے، اور جو شریعت ان کو دی گئی تھی، اُسی کے پابند تھے، اس لئے وہ نہ حضرت خضر علیہ السلام کی اِن باتوں پر خاموش رہ سکے، اور نہ آئندہ اُن کے ساتھ چل سکے، ان تین واقعات کے بعد وہ سمجھ گئے کہ ان صاحب کا دائرے کار میرے دائرہ کار سے بالکل الگ ہے، اور میں ان کے ساتھ نہیں چل سکتا، البتہ اس طرح اُنہیں یہ حقیقت کھلی آنکھوں دکھادی گئی کہ اس کائنات میں جو کچھ ہورہا ہے اُس کے پیچھے اﷲ تعالیٰ کی لا محدود حکمت کار فرما ہے، اگر ہمیں کسی واقعہ کی وجہ سمجھ میں نہ آئے تو اس کی بناء پر اﷲ تعالیٰ کے فیصلے پر کسی اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ جس عالمِ تکوین میں اس کی حکمت واضح ہوسکتی ہے، وہ ہماری نگاہوں سے پوشیدہ ہے۔ روز مرہ کی زندگی میں ہمیں بہت سے منظر ایسے نظر آتے ہیں جن پر ہمارا دِل دکھتا ہے، بہت سے اِنسانوں کی مظلومیت کو دیکھ کر بعض اوقات دل میں شکوک وشبہات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ حضرت خضر علیہ السلام کے ذریعے عالم تکوین کی ایک جھلک دکھا کر ایک مومن کے لئے ایسے شکوک وشبہات کا خاتمہ کردیا گیا ہے، البتہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ عالم تکوین اور اس کے کارندے ہماری آنکھوں سے پوشیدہ ہیں، حضرت خضر علیہ السلام بھی اِس طرح پوشیدہ تھے، لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عالم تکوین کی ایک جھلک دکھانے کے لئے وحی کے ذریعے اُن کا پتہ بتادیا گیا، اب جبکہ وحی کا دروازہ بند ہوچکا ہے، کسی کے لئے ممکن نہیں ہے کہ وہ یقینی طور پر تکوین کے کسی کارندے تک رسائی حاصل کرسکے، اور نہ نظر آنے والی دُنیا میں کوئی شخص یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ وہ تکوین کا کارندہ ہے، اور اسے تکوینی اختیارات حاصل ہیں، لہٰذا جن لوگوں نے حضرت خضر علیہ السلام کے واقعے کی بنیاد پر شریعت کے ظاہری احکام کی خلاف ورزی کو جائز قرار دینے کی کوشش کی ہے، انہوں نے سراسر گمراہی پھیلائی ہے، مثلا بعض نام نہاد درویشوں کا تصوف وغیرہ کے نام لے کر یہ کہنا: ’’شریعت کے اَحکام ظاہر بیں لوگوں کے لئے ہیں، اور ہم اُن سے مستثنیٰ ہیں‘‘، پر لے درجے کی گمراہی ہے، آج کسی کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے جس سے وہ شریعت کے احکام سے مستثنیٰ ہوسکے۔