Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

کفار کے سوالات کے جوابات ۔ پہلے گزر چکا ہے کہ کفار مکہ نے اہل کتاب سے کہلوایا تھا کہ ہمیں کچھ ایسی باتیں بتلاؤ جو ہم محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے دریافت کریں اور ان کے جواب آپ سے نہ بن پڑیں ۔ تو انہوں نے سکھایا تھا کہ ایک تو ان سے اس شخص کا واقعہ پوچھو جس نے روئے زمین کی سیاحت کی تھی ۔ دوسرا سوال ان سے ان نوجوانوں کی بہ نسبت کرو جو بالکل لا پتہ ہوگئے ہیں اور تیسرا سوال ان سے روح کی بابت کرو ۔ ان کے ان سوالوں کے جواب میں یہ سورت نازل ہوئی ۔ یہ بھی روایت ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ذوالقرنین کا قصہ دریافت کرنے کو آئی تھی ۔ تو آپ نے انہیں دیکھتے ہی فرمایا کہ تم اس لئے آئے ہو ۔ پھر آپ نے وہ واقعہ بیان فرمایا ۔ اس میں ہے کہ وہ ایک رومی نوجوان تھا اسی نے اسکندریہ بنایا ۔ اسے ایک فرشتہ آسمان تک چڑھالے گیا تھا اور دیوار تک لے گیا تھا اس نے کچھ لوگوں کو دیکھا جن کے منہ کتوں جیسے تھے وغیرہ ۔ لیکن اس میں بہت طول ہے اور بیکار ہے اور ضعف ہے اس کا مرفوع ہونا ثابت نہیں ۔ دراصل یہ بنی اسرائیل کی روایات ہیں ۔ تعجب ہے کہ امام ابو زرعہ رازی جیسے علامہ زماں نے اسے اپنی کتاب دلائل نبوت میں مکمل وارد کیا ہے ۔ فی الواقع یہ ان جیسے بزرگ سے تو تعجب خیز چیز ہی ہے ۔ اس میں جو ہے کہ یہ رومی تھا یہ بھی ٹھیک نہیں ۔ اسکندر ثانی البتہ رومی تھا وہ قیلیس مفذونی کا لڑکا ہے جس سے روم کی تاریخ شروع ہوتی ہے اور سکندر اول تو بقول ازرقی وغیرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں تھا ۔ اس نے آپ کے ساتھ بیت اللہ شریف کی بنا کے بعد طواف بیت اللہ کیا ہے ۔ آپ پر ایمان لایا تھا ، آپ کا تابعدار بنا تھا ۔ انہی کے وزیر حضرت خضر علیہ السلام تھے ۔ اور سکندر ثانی کا وزیر ارسطاطالیس مشہور فلسفی تھا واللہ اعلم ۔ اسی نے مملکت روم کی تاریخ لکھی یہ حضرت میسح علیہ السلام سے تقریبا تین سو سال پہلے تھا اور سکندر اول جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے یہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے زمانے میں تھا جیسے کہ ازرقی وغیرہ نے ذکر کیا ہے ۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ بنایا تو اس نے آپ کے ساتھ طواف کیا تھا اور اللہ کے نام بہت سی قربانیاں کی تھیں ۔ ہم نے اللہ کے فضل سے ان کے بہت سے واقعات اپنی کتاب البدایہ والنہایہ میں ذکر کر دیے ہیں ۔ وہب کہتے ہیں یہ بادشاہ تھے چونکہ ان کے سر کے دونوں طرف تانبا رہتا تھا اس لئے انہیں ذوالقرنین کہا گیا یہ وجہ بھی بتلائی گئی ہے کہ یہ روم کا اور فارس کا دونوں کا بادشاہ تھا ۔ بعض کا قول ہے کہ فی الواقع اس کے سر کے دونوں طرف کچھ سنیگ سے تھے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اس نام کی وجہ یہ ہے کہ یہ اللہ کے نیک بندے تھے اپنی قوم کو اللہ کی طرف بلایایہ لوگ مخالف ہوگئے اور ان کے سر کے ایک جانب اس قدر مارا کہ یہ شہید ہوگئے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ زندہ کر دیا قوم نے پھر سر کے دوسری طرف اسی قدر مارا جس سے یہ پھر مر گئے اس لئے انہیں ذوالقرنین کہا جاتا ہے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ چونکہ یہ مشرق سے مغرب کی طرف سیاحت کر آئے تھے اس لیے انہیں ذوالقرنین کہا گیا ہے ۔ ہم نے اسے بڑی سلطنت دے رکھی تھی ۔ ساتھ ہی قوت لشکر آلات حرب سب کچھ ہی دے رکھا تھا ۔ مشرق سے مغرب تک اس کی سلطنت تھی عرب عجم سب اس کے ماتحت تھے ۔ ہر چیز کا اسے علم دے رکھا تھا ۔ زمین کے ادنی اعلیٰ نشانات بتلا دیے تھے ۔ تمام زبانیں جانتے تھے ۔ جس قوم سے لڑائی ہوتی اس کی زبان بول لیتے تھے ایک مرتبہ حضرت کعب احبار رحمۃ اللہ علیہ سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا کیا تم کہتے ہو کہ ذوالقرنین نے اپنے گھوڑے ثریا سے باندھے تھے ۔ انہوں نے جواب دیا کہ اگر آپ یہ فرماتے ہیں تو سنئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ہم نے اسے ہر چیز کا سامان دیا تھا ۔ حقیقت میں اس بات میں حق حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ہے اس لئے بھی کہ حضرت کعب رحمۃ اللہ علیہ کو جو کچھ کہیں لکھا ملتا تھا روایت کر دیا کرتے تھے گو وہ جھوٹ ہی ہو ۔ اسی لئے آپ نے فرمایا ہے کہ کعب کا کذب تو با رہا سامنے آچکا ہے یعنی خود تو جھوٹ نہیں گھڑتے تھے لیکن جو روایت ملتی گو بےسند ہو بیان کرنے سے نہ چوکتے ۔ اور یہ ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل کی روایات جھوٹ ، خرافات ، تحریف ، تبدیلی سے محفوظ نہ تھیں ۔ بات یہ ہے کہ ہمیں ان اسرائیلی روایت کی طرف التفات کرنے کی بھی کیا ضرورت ؟ جب کہ ہمارے ہاتھوں میں اللہ کی کتاب اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اور صحیح احادیث موجود ہیں ۔ افسوس انہیں بنی اسرائیلی روایات نے بہت سی برائی مسلمانوں میں ڈال دی اور فساد پھیل گیا ۔ حضرت کعب رحمۃ اللہ علیہ نے اس بنی اسرائیل کی روایت کے ثبوت میں قرآن کی اس آیت کا آخری حصہ جو پیش کیا ہے یہ بھی کچھ ٹھیک نہیں کیونکہ یہ تو بالکل ظاہربات ہے کہ کسی انسان کو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر اور ثریا پر پہنچنے کی طاقت نہی دی ۔ دیکھئے بلقیس کے حق میں بھی قرآن نے یہی الفاظ کہے ہیں ( وَاُوْتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ وَّ لَهَا عَرْشٌ عَظِيْمٌ 23؁ ) 27- النمل:23 ) وہ ہر چیز دی گئی تھی اس سے بھی مراد صرف اسی قدر ہے کہ بادشاہوں کے ہاں عموما جو ہوتا ہے وہ سب اس کے پاس بھی تھا اسی طرح حضرت ذوالقرنین کو اللہ نے تمام راستے اور ذرائع مہیا کر دیے تھے کہ وہ اپنی فتوحات کو وسعت دیتے جائیں اور زمین سرکشوں اور کافروں سے خالی کراتے جائیں اور اس کی توحید کے ساتھ موحدین کی بادشاہت دنیا پر پھیلائیں اور اللہ والوں کی حکومت جمائیں ان کاموں میں جن اسباب کی ضرورت پڑتی ہے وہ سب رب عزوجل نے حضرت ذوالقرنین کو دے رکھے تھے واللہ اعلم ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ مشرق ومغرب تک کیسے پہنچ گئے ؟ آپ نے فرمایا سبحان اللہ ۔ اللہ تعالیٰ نے بادلوں کو ان کے لئے مسخر کر دیا تھا اور تمام اسباب انہیں مہیا کر دیے تھے اور پوری قوت وطاقت دے دی تھی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

83۔ 1 یہ مشرکین کے اس تیسرے سوال کا جواب ہے جو یہودیوں کے کہنے پر انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کئے تھے، ذوالقرنین کے لفظی معنی دو سینگوں والے کے ہیں۔ یہ نام اس لئے پڑا کہ فی الواقع اس کے سر پر دو سینگ تھے یا اس لئے کہ اس نے مشرق ومغرب دنیا کے دونوں کناروں پر پہنچ کر سورج کی قرن یعنی شعاع کا مشاہدہ کیا، بعض کہتے ہیں کہ اس کے سر پر بالوں کی دو لٹیں تھیں، قرن بالوں کی لٹ کو بھی کہتے ہیں۔ یعنی دو لٹوں دو مینڈھیوں یا، دو زلفوں والا۔ قدیم مفسرین نے بالعموم اس کا مصداق سکندر رومی کو قرار دیا ہے جس کی فتوحات کا دائرہ مشرق ومغرب تک پھیلا ہوا تھا (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تفسیر ترجمان القرآن ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ۄوَيَسْـــَٔـلُوْنَكَ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ : واؤ کے ساتھ ذوالقرنین کے قصے کا موسیٰ (علیہ السلام) کے قصے پر عطف ہے۔ بقاعی (رض) نے فرمایا، موسیٰ (علیہ السلام) کے خضر (علیہ السلام) کے ساتھ قصہ میں علم کے حصول کے لیے سفروں کا ذکر تھا اور ذوالقرنین کے قصہ میں جہاد فی سبیل اللہ کے لیے سفروں کا ذکر ہے۔ چونکہ علم عمل کی بنیاد ہے، اس لیے اس کا ذکر پہلے فرمایا۔ ایک مناسبت یہ ہے کہ دو باغوں والے شخص اور ابلیس کے تکبر اور ان کے انجام کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) جیسے اولو العزم پیغمبر کا اتنے مرتبے کے باوجود اور ذوالقرنین جیسے عظیم بادشاہ کا مشرق و مغرب کی سلطنت کے باوجود ہر قسم کے کبر و غرور سے پاک ہونے کا اور حد درجہ کی تواضع اختیار کرنے کا ذکر فرمایا، تاکہ ان کے نقش قدم پر چلا جائے۔ - 3 ذوالقرنین کون تھا، کس ملک کا تھا، قرآن و حدیث میں اس کا ذکر نہیں۔ البتہ اتنا واضح ہے کہ عرب کے لوگ اس سے واقف تھے۔ ان کے شعروں میں بھی اس کا ذکر موجود ہے، اس لیے انھوں نے اس کے متعلق سوال کیا، مگر ان سے گزشتہ فاتح فرماں رواؤں میں سے کسی ایک کی تعیین نہیں ہوتی، اس لیے مفسرین میں اس کے متعلق بہت ہی اختلاف ہے۔ آلوسی (رض) نے فرمایا کہ ابوریحان البیرونی نے اپنی کتاب ” اَلْآثَارُ الْبَاقِیَۃُ عَنِ الْقُرُوْنِ الْخَالِیَۃِ “ میں ذکر کیا ہے کہ ذوالقرنین (یمن کا) ابوکرب حمیری ہے، جس کی اولاد ہونے پر، مشرق و مغرب کا بادشاہ ہونے پر اور مسلم ہونے پر تبع یمنی نے اپنے اشعار میں فخر کا اظہار کیا ہے، جو روح المعانی میں منقول ہیں۔ البیرونی نے اس قول کے حقیقت کے سب سے زیادہ قریب ہونے کا ایک قرینہ یہ لکھا ہے کہ یمن کے بادشاہوں کے لقب لفظ ” ذو “ سے شروع ہوتے تھے، جیسے ذو نواس اور ذویزن وغیرہ۔ بعض نے یونانی فاتح سکندر مقدونی کو اس کا مصداق ٹھہرایا ہے، جیسے علامہ قاسمی (رض) وغیرہ، جب کہ بہت سے مفسرین مثلاً ابن قیم، طنطاوی اور آلوسی وغیرہ نے شدت سے اس کی تردید کی ہے، کیونکہ یہ سکندر ارسطو کا شاگرد اور بت پرست تھا، جب کہ قرآن میں مذکور ذوالقرنین مومن، موحد اور متقی تھا۔ برصغیر کے ایک مفسر نے ذو القرنین کے متعلق قرآن میں مذکور صفات ایرانی بادشاہ خورس پر چسپاں کرنے کی کوشش کی ہے، ان کے بعد آنے والے ایک صاحب نے تاریخ اور بائبل سے خورس ہی کو سب سے زیادہ ذوالقرنین کا مصداق ٹھہرانے کا حق دار قرار دیا ہے۔ اشرف الحواشی میں ہے کہ بعض کے نزدیک اس سے مراد ایک اور بادشاہ ہے جو ابراہیم (علیہ السلام) کا ہم عصر تھا اور ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا ہی سے اللہ تعالیٰ نے اسے خارق عادت اسباب و وسائل عطا فرمائے۔ اس کے وزیر خضر تھے، اس لیے خضر کے قصے کے ساتھ اس کا قصہ بیان کیا ہے۔ حافظ ابن حجر (رض) نے فتح الباری میں اور ابن کثیر (رض) نے اپنی تفسیر میں اس کو ترجیح دی ہے۔ ابن کثیر نے اس کا نام بھی اسکندر بیان کیا ہے۔ - یہ ہیں بڑے بڑے اہل علم یا متجد دین کے اقوال جن کا ماخذ جاہلی اشعار ہیں، جن کی کوئی سند نہیں، یا زمانۂ قبل مسیح کی تاریخ، جس کے مؤرخین کا حال قابل اعتماد ذرائع سے معلوم ہے نہ ان کی ثقاہت، یا آثار قدیمہ ہیں جن کی معدوم زبانیں یورپی کفار نے اندازے سے پڑھیں، جو کسی طرح بھی اعتماد کے قابل نہیں، یا بائبل جس میں مذکور باتوں کو (جو نہ قرآن و حدیث کے مطابق ہوں نہ مخالف) ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق نہ سچا کہہ سکتے ہیں نہ جھوٹا۔ پھر ایسی باتوں پر یقین کیسے ہوسکتا ہے ؟ لطف یہ ہے کہ جو بھی نیا مفسر نئی سے نئی بات نکال کر قدیم تاریخ، آثار قدیمہ، جاہلی اشعار، بائبل کے اقوال کا ڈھیر لگا دیتا ہے، وہ اتنا ہی بڑا صاحب کمال گنا جاتا ہے، حالانکہ ان میں سے کسی سے بھی یقین کی دولت حاصل نہیں ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید کسی قصے کو تاریخ کے طور پر بیان نہیں کرتا، بلکہ اس کے ان حصوں کو اجاگر کرتا ہے جن سے عبرت اور سبق حاصل ہو۔ قرآن کے مطابق ذوالقرنین اللہ کا نیک بندہ تھا جس نے جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعے سے مشرق سے مغرب تک اللہ کے دین کو غالب کیا اور اپنے محروسہ (ماتحت) ممالک میں امن قائم کیا اور انھیں دشمنوں سے محفوظ رکھنے کی نہایت عمدہ تدبیر کی۔ اگر ہم کسی قابل یقین ذریعے سے اس کی تعیین نہ کرسکیں یا اس کے مفصل حالات معلوم نہ کرسکیں تو قرآن کے منشا و مقصد میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ آخر کتنے ہی نبی ہیں جن کے نام قرآن و حدیث میں نہیں۔ دیکھیے سورة مومن (٧٨) تو کیا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہر امت میں کوئی نہ کوئی ڈرانے والا گزرا ہے، ہم ان ناقابل اعتماد ذرائع سے ہند، چین، روس، یورپ اور افریقہ میں آنے والے نبیوں کے نام متعین کرنے کی بےکار کوششوں میں وقت ضائع کریں گے، تاکہ لوگ کہیں واہ کیا بات نکالی ہے۔ - 3 ذوالقرنین کے اس لقب کی مختلف وجہیں بیان کی گئی ہیں، کیونکہ قرن کے کئی معانی ہیں، سینگ، کنارا، بالوں کی مینڈھی۔ دو سینگوں والا سے مراد مرد شجاع ہے، کیونکہ عرب شجاع آدمی کو کبش کہتے ہیں، کیونکہ مینڈھا اپنے سینگوں سے ٹکر مارتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس کے تاج پر دو سینگ بنے ہوئے تھے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ وہ زمین کے مشرق و مغرب کے دونوں کناروں تک پہنچا۔ چوتھی یہ کہ اس کے سر کے بالوں کی دو مینڈھیاں بنی ہوئی تھیں۔ یہ چاروں باتیں بیک وقت بھی وجہ تسمیہ ہوسکتی ہیں۔ - قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَيْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرًا : ” ذِكْرًا “ تنوین کی وجہ سے ترجمہ ” کچھ ذکر “ کیا گیا ہے، یعنی اس کی پوری تاریخ نہیں بلکہ کچھ ذکر بیان کروں گا، جس سے تم نصیحت اور سبق حاصل کرسکو۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- ذوالقرنین کا پہلا سفر :- اور یہ لوگ آپ سے ذو القرنین کا حال پوچھتے ہیں (اس پوچھنے کی وجہ یہ لکھی ہے کہ ان کی تاریخ قریب قریب گم تھی اور اسی لئے اس قصبہ کے جو امور قرآن میں مذکور نہیں کہ وہ اصل قصہ سے زائد تھے ان امور کے متعلق آج تک اہل تاریخ میں اختلافات شدید پائے جاتے ہیں اسی وجہ سے قریش مکہ نے بمشورہ یہود مدینہ اس قصہ کا سوال کے لئے انتخاب کیا تھا اس لئے اس قصہ کی تفصیلات جو قرآن میں مذکور ہیں وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی واضح دلیل ہے) آپ فرما دیجئے کہ میں اس کا ذکر ابھی تمہارے سامنے بیان کرتا ہوں (آگے حق تعالیٰ کی طرف سے اس کی حکایت شروع ہوئی کہ ذوالقرنین ایک ایسے جلیل القدر بادشاہ ہو گذرے ہیں کہ) ہم نے ان کو روئے زمین پر حکومت دی تھی اور ہم نے ان کو ہر قسم کا سامان (کافی) دیا تھا (جس سے وہ اپنے شاہی منصوبوں کو پورا کرسکیں) چناچہ وہ (بارادہ فتوحات ملک مغرب) ایک راہ پر ہو لئے (اور سفر کرنا شروع کیا) یہاں تک کہ جب (سفر کرتے کرتے درمیانی شہروں کو فتح کرتے ہوئے) غروب آفتاب کے موقع (یعنی جانب مغرب میں انتہائی آبادی) پر پہنچے تو آفتاب ان کو ایک سیاہ پانی میں ڈوبتا ہوا دکھائی دیا (مراد اس سے غالباً سمندر ہے کہ اس کا پانی اکثر جگہ سیاہ نظر آتا ہے اور اگرچہ آفتاب حقیقۃ سمندر میں غروب نہیں ہوتا مگر سمندر سے آگے نگاہ نہ جاتی ہو تو سمندر ہی میں ڈوبتا ہوا معلوم ہوگا) اور اس موقع پر انہوں نے ایک قوم دیکھی (جن کے کافر ہونے پر اگلی آیت اما من ظلم دلالت کرتی ہے) ہم نے (بصورت الہام یا اس زمانے کے پیغمبر کے واسطے سے) یہ کہا کہ اے ذوالقرنین (اس قوم کے بارے میں دو اختیار ہیں) خواہ (ان کو ابتداء ہی سے قتل وغیرہ کے ذریعہ) سزا دو اور خواہ ان کے بارے میں نرمی کا معاملہ اختیار کرو (یعنی ان کو ایمان کی دعوت دو پھر نہ مانیں تو قتل کردو بغیر تبلیغ و دعوت کے ابتداء ہی قتل کرنے کا اختیار شاید اس لئے دیا گیا ہو کہ ان کو اس سے پہلے کسی ذریعہ سے دعوت ایمان پہنچ چکی ہوگی لیکن دوسری صورت یعنی پہلے دعوت پھر قتل کا بہتر ہونا اشارہ سے بیان کردیا کہ اس دوسری صورت کو اتخاذ حسن سے تعبیر فرمایا) ذوالقرنین نے عرض کیا کہ (میں دوسری ہی صورت اختیار کرکے پہلے ان کو دعوت ایمان دوں گا) لیکن (دعوت ایمان کے بعد) جو ظالم (یعنی کافر) رہے گا سو اس کو تو ہم لوگ (قتل وغیرہ کی) سزا دیں گے (اور یہ سزا تو دنیا میں ہوگی) پھر وہ (مرنے کے بعد) اپنے مالک حقیقی کے پاس پہنچا دیا جائے گا پھر وہ اس کو (دوزخ کی) سخت سزا دے گا اور جو شخص (دعوت ایمان کے بعد) ایمان لے آئے گا اور نیک عمل کرے گا تو اس کے لئے (آخرت میں بھی) بدلے میں بھلائی ملے گی اور ہم بھی (دنیا میں) اپنے برتاؤ میں اس کو آسان (اور نرم) بات کہیں گے (یعنی ان پر کوئی عملی سختی تو کیا کی جاتی زبانی اور قولی بھی کوئی سختی نہیں کی جائے گی)- معارف و مسائل :- يَسْـــَٔـلُوْنَكَ (یعنی وہ لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں) یہ لوگ سوال کرنے والے کون ہیں روایات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ قریش مکہ تھے جن کو یہودیوں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور حقانیت کا امتحان کرنے کے لئے تین سوال بتلائے تھے روح کے متعلق اور اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے بارے میں ان میں دو کا جواب آچکا ہے اصحاب کہف ابھی گذرا ہے اور روح کا سوال پچھلی سورة کے آخر میں گذر چکا ہے یہ تیسرا سوال ہے کہ ذوالقرنین کون تھا اور اس کو کیا حالات پیش آئے (بحر محیط)- ذوالقرنین کون تھے ؟ کس زمانے اور کس ملک میں تھے ؟ اور ان کو ذوالقرنین کہنے کی وجہ :- ذوالقرنین کا نام ذوالقرنین کیوں ہوا اس کی وجہ میں بیشمار اقوال اور سخت اختلافات ہیں بعض نے کہا کہ ان کی دو زلفیں تھیں اس لئے ذوالقرنین کہلائے بعض نے کہا کہ مشرق و مغرب کے ممالک پر حکمران ہوئے اس لئے ذوالقرنین نام رکھا گیا کسی نے یہ بھی کہا کہ ان کے سر پر کچھ ایسے نشانات تھے جیسے سینگ کے ہوتے ہیں بعض روایات میں ہے کہ ان کے سر پر دونوں جانب چوٹ کے نشانات تھے اس لئے ذوالقرنین کہا گیا واللہ اعلم مگر اتنی بات متعین ہے کہ قرآن نے خود ان کا نام ذوالقرنین نہیں رکھا بلکہ یہ نام یہود نے بتلایا ان کے یہاں اس نام کی شہرت ہوگی واقعہ ذوالقرنین کا جتنا حصہ قرآن کریم نے بتلایا ہے وہ صرف اتنا ہے کہ۔- وہ ایک صالح عادل بادشاہ تھے جو مشرق و مغرب میں پہنچنے اور ان کے ممالک کو فتح کیا اور ان میں عدل و انصاف کی حکمرانی کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو ہر طرح کے سامان اپنے مقاصد پورا کرنے کے لئے عطاء کردیئے گئے تھے انہوں نے فتوحات کرتے ہوئے تین اطراف میں سفر کئے مغرب اقصی تک اور مشرق اقصی تک پھر جانب شمال میں کوہستانی سلسلے تک اسی جگہ انہوں نے دو پہاڑوں کے درمیانی درے کو ایک عظیم الشان آہنی دیوار کے ذریعہ بند کردیا جس سے یاجوج ماجوج کی تاخت و تاراج سے اس علاقہ کے لوگ محفوظ ہوگئے۔- یہود نے جو سوال رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حقانیت اور نبوت کا امتحان کرنے کے امتحان کرنے کے لئے پیش کیا تھا وہ اس جواب سے مطمئن ہوگئے انہوں نے مزید یہ سوالات نہیں کئے کہ ان کا نام ذوالقرنین کیوں تھا یہ کس ملک میں اور کس زمانے میں تھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سوالات کو خود یہود نے بھی غیر ضروری اور فضول سمجھا اور یہ ظاہر ہے کہ قرآن کریم تاریخ و قصص کا صرف اتنا حصہ ذکر کرتا ہے جس سے کوئی فائدہ دین یا دینا کا متعلق ہو یا جس پر کسی ضروری چیز کا سمجھنا موقوف ہو اس لئے نہ قرآن کریم نے ان چیزوں کو بتلایا اور نہ کسی صحیح حدیث میں اس کی یہ تفصیلات بیان کی گئیں اور نہ قرآن کریم کی کسی آیت کا سمجھنا ان چیزوں کے علم پر موقوف ہے اسی لئے سلف صالحین صحابہ وتابعین نے بھی اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی - اب معاملہ صرف تاریخی روایات کا یا موجودہ تورات و انجیل کا رہ گیا اور یہ بھی ظاہر ہے کہ موجودہ تورات و انجیل کو بھی مسلسل تحریفات نے آسمانی کتاب کی حیثیت میں نہیں چھوڑا ان کا مقام بھی اب زیادہ سے زیادہ ایک تاریخ ہی کا ہوسکتا ہے اور زمانہ قدیم کی تاریخ روایات زیادہ تر اسرائیلی قصوں کہانیوں سے ہی پُر ہیں جن کی نہ کوئی سند ہے نہ وہ کسی زمانے کے عقلاء وحکماء کے نزدیک قابل اعتماد پائی گئی ہیں حضرات مفسرین نے اس بھی اس معاملہ میں جو کچھ لکھا وہ سب انہی تاریخی روایات کا مجموعہ ہے اسی لئے ان میں اختلافات بیشمار ہیں اہل یورپ نے اس زمانے میں تاریخ کو بڑی اہمیت دی اس پر تحقیق و تفتیش میں بلاشبہ بڑی محنت و کاوش سے کام لیا آثار قدیمہ کی کھدائی اور وہاں کے کتبات وغیرہ کو جمع کرکے ان کے ذریعہ قدیم واقعات کی حقیقت تک پہنچنے میں وہ کام انجام دیئے جو اس سے پہلے زمانہ میں نظر نہیں آتے لیکن آثار قدیمہ اور ان کے کتبات سے کسی واقعہ کی تائید میں مدد تو مل سکتی ہے مگر خود ان سے کوئی واقعہ پورا نہیں پڑھا جاسکتا اس کے لئے تو تاریخی روایات ہی بنیاد بن گئی ہیں اور ان معاملات میں زمانہ قدیم کی تاریخی روایات کا حال ابھی معلوم ہوچکا ہے کہ ایک کہانی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔ قدیم و جدید علماء تفسیر نے بھی اپنی کتابوں میں یہ روایات ایک تاریخی حیثیت ہی سے نقل کی ہیں جن کی صحت پر کوئی قرآنی مقصد موقوف نہیں یہاں بھی اسی حیثیت سے بقدر ضرورت لکھا جاتا ہے اس واقعہ کی پوری تفتیش و تحقیق مولانا حفظ الرحمن صاحب (رح) نے اپنی کتاب قصص القرآن میں لکھی ہے تاریخی ذوق رکھنے والے حضرات اس کو دیکھ سکتے ہیں۔- بعض روایات میں ہے کہ پوری دنیا پر سلطنت و حکومت کرنے والے چار بادشاہ ہوئے ہیں دو مومن اور دو کافر مومن بادشاہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور ذوالقرنین ہیں اور کافر نمرود اور بخت نصر ہیں - ذوالقرنین کے معاملہ میں یہ عجیب اتفاق ہے کہ اس نام سے دنیا میں متعدد آدمی مشہور ہوئے ہیں اور یہ بھی عجیب بات ہے کہ ہر زمانے کے ذی القرنین کے ساتھ لقب سکندر بھی شامل ہے۔- حضرت مسیح (علیہ السلام) سے تقریباً تین سو سال پہلے ایک بادشاہ سکندر کے نام سے معروف و مشہور ہے جس کو سکندر یونانی مقدونی رومی وغیرہ کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے جس کا وزیر ارسطو تھا اور جس کی جنگ دارا سے ہوئی اور اسے قتل کرکے اس کا ملک فتح کیا سکندر کے نام سے دنیا میں معروف ہونے والا آخری شخص یہی تھا اسی کے قصے دنیا میں زیادہ مشہور ہیں بعض لوگوں نے اس کو بھی قرآن میں مذکور ذوالقرنین کہہ دیا یہ سراسر غلط ہے کیونکہ یہ شخص آتش پرست مشرک تھا قرآن کریم نے جس ذوالقرنین کا ذکر کیا ہے ان کے نبی ہونے میں تو علماء کا اختلاف ہے مگر مومن صالح ہونے پر سب کا اتفاق ہے اور خود قرآن کی نصوص اس پر شاہد ہیں۔- حافظ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں بحوالہ ابن عساکر اس کا پورا نسب نامہ لکھا ہے جو اوپر جا کر حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) سے ملتا ہے اور فرمایا کہ یہی وہ سکندر ہے جو یونانی مصری مقدونی کے ناموں سے معروف ہے جس نے اپنے نام پر شہر اسکندریہ آباد کیا اور روم کی تاریخ اسی کے زمانے سے چلتی ہے اور یہ سکندر ذی القرنین اول سے ایک طویل زمانے کے بعد ہوا ہے جو دو ہزار سال سے زائد بتلایا جاتا ہے اسی نے دارا کو قتل کیا اور شاہان فارس کو مغلوب کرکے ان کا ملک فتح کیا مگر یہ شخص مشرک تھا اس کو قرآن میں مذکور ذوالقرنین قرار دینا سراسر غلطی ہے ابن کثیر کے اپنے الفاظ یہ ہیں۔- فاماذالقرنین الثانی فھو اسکندر بن فیلبس بن مصریح بن برس بن مبطون بن رومی بن نعطی بن یونان بن یافث بن بونہ بن شرخون بن رومہ بن شرخط بن توفیل بن رومی بن الاصفر بن یقز بن العیص بن اسحاق بن ابراہیم الخلیل (علیہ الصلوۃ والسلام) کذا انسبہ الحافظ ابن عساکر فی تاریخہ المقدونی الیونانی المصری بانی الاسکندریۃ الذی یؤ رخ بایامہ الروم وکان متأخرا عن الاول بدھر طویل وکان ھذا قبل المسیح بنحو من ثلثمائۃ سنۃ وکان ارطا طالیس الفیلسوف وزیرہ و ھوالذی قتل دارا واذل ملوک الفرس واوطأ ارضہم وانما نبھنا علیہ لان کثیرا من الناس یعتقد انھما واحد وان المذکور فی القرآن ھوالذی کان ارطا طالیس وزیرہ فیقع بسبب ذلک خطاء کبیر و فساد عریض طویل فان الاول کان عبدا مؤ منا صالحا وملکا عادلا وکان وزیرہ الخضر وقد کان نبیا علی ماقررناہ قبل ھذا واما الثانی فکان مشرکا کان وزیرہ میلسوفا وقد کان بین زمانیھما ازید من الفے سنۃ فاین ھذا من ہذا لایستویان ولا یشتبھان الاعلی غبی لایعرف حقائق الامور البدایۃ والنھایۃ ص ١٠٦ ج ٢)- حدیث و تاریخ کے امام ابن کثیر کی اس تحقیق سے ایک تو یہ مغالطہ رفع ہوا کہ یہ اسکندر جو حضرت مسیح (علیہ السلام) سے تین سو سال پہلے گذرا ہے اور جس کی جنگ دارا اور ملوک فارس سے ہوئی اور ربانی اسکندریہ ہے یہ وہ ذوالقرنین نہیں جس کا قرآن کریم میں ذکر آیا ہے یہ مغالطہ بعض اکابر مفسرین کو بھی لگا ہے ابوحیان نے بحر محیط میں اور علامہ آلوسی نے روح المعانی میں اسی کو ذوالقرنین مذکور فی القرآن کہہ دیا ہے۔- دوسری بات وانہ کان نبیا کے جملے سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ ابن کثیر کے نزدیک ان کا نبی ہونا راجح ہے اگرچہ جمہور کے نزدیک راجح وہ قول ہے جو خود ابن کثیر نے بروایت ابی الطفیل حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے نقل کیا ہے کہ نہ وہ نبی تھے نہ فرشتہ بلکہ ایک نیک صالح مسلمان تھے اسی لئے بعض علماء نے یہ توجیہ کی کہ انہ کان کی ضمیر ذوالقرنین کی طرف نہیں خضر (علیہ السلام) کی طرف راجع ہے وہوالاقرب۔- اب مسئلہ یہ رہتا ہے کہ پھر وہ ذوالقرنین جس کا قرآن میں ہے کون ہیں اور کس زمانے میں ہوئے ہیں اس کے متعلق بھی علماء کے اقوال بہت مختلف ہیں ابن کثیر کے نزدیک ان کا زمانہ اسکندر یونانی مقدونی سے دوہزار سال پہلے حضرت الخلیل (علیہ الصلوۃ والسلام) کا زمانہ ہے اور ان کے وزیر حضرت خضر (علیہ السلام) تھے ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں سلف صالحین سے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ ذوالقرنین پیادہ پا حج کے لئے پہنچے جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے آنے کا علم ہوا تو مکہ سے باہر نکل کر استقبال کیا اور حضرت خلیل (علیہ السلام) نے ان کے لئے دعاء بھی کی اور کچھ وصیتیں اور نصیحتیں بھی ان کو فرمائیں (البدایہ ص ١٠٨ ج ٢) اور تفسیر ابن کثیر میں بحوالہ ازرقی نقل کیا ہے کہ اس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ طواف کیا پھر قربانی دی۔- اور ابوریحان بیرونی نے اپنی کتاب الآثار الباقیہ عن القرون الخالیۃ میں کہا ہے کہ یہ ذوالقرنین جن کا ذکر قرآن میں ہے ابوبکر بن سمی بن عمر بن افریقیس حمیری ہے جس نے زمین کے مشارق و مغارب کو فتح کیا اور تبع حمیری یمنی نے اپنے اشعار میں اس پر فخر کیا ہے کہ میرے دادا ذوالقرنین مسلمان تھے ان کے اشعار یہ ہیں۔- قد کان ذوالقرنین جدی مسلما ملکا علافی الارض غیر مبعد - بلغ المشارق والمغارب یبتغی اسباب ملک من کریم سید - یہ روایت بحر محیط میں ابو حیان نے نقل کی ہے ابن کثیر نے بھی البدایہ والنہایہ میں اس کا ذکر کرنے کے بعد کہا کہ یہ ذوالقرنین تبابعہ یمن میں سب سے پہلا تبع ہے اور یہی وہ شخص ہے جس نے بیر سبع کے بارے میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے حق میں فیصلہ دیا تھا (البدایہ ص ١٠٥ ج ٢) ان تمام روایات میں ان کی شخصیت اور نام و نسب کے بارے میں اختلاف ہونے کے باوجود ان کا زمانہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا زمانہ بتلایا گیا ہے۔- اور مولانا حفظ الرحمن صاحب نے اپنی کتاب قصص القرآن میں جو ذوالقرنین کے متعلق بڑی تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ذوالقرنین مذکور فی القرآن فارس کا وہ بادشاہ ہے جس کو یہودی خورس یونانی سائرس فارسی گورش اور عرب کے خسرو کہتے ہیں جس کا زمانہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے بہت بعد انبیاء (علیہم السلام) بنی اسرائیل میں سے دانیال کا زمانہ بتلایا جاتا ہے جو سکندر مقدونی قاتل دارا کے زمانے کے قریب قریب ہوجاتا ہے مگر مولانا موصوف نے بھی ابن کثیر وغیرہ کی طرح اس کا شدت سے انکار کیا ہے کہ ذوالقرنین وہ سکندر مقدونی جس کا وزیر ارسطو تھا وہ نہیں ہوسکتا وہ مشرک آتش پرست تھا یہ مومن صالح تھے۔- مولانا موصوف کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی سورة بنی اسرائیل میں جو دو مرتبہ بنی اسرائیل کے شر و فساد میں مبتلا ہونے اور دونوں مرتبہ کی سزا کا ذکر تفصیل سے آیا ہے اس میں بنی اسرائیل کے پہلے فساد کے موقع پر جو قرآن کریم نے فرمایا ہے اولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّيَارِ (یعنی تمہارے فساد کی سزا میں ہم مسلط کردیں گے تم پر اپنے کچھ ایسے بندے جو بڑی قوت و شوکت والے ہوں گے وہ تمہارے گھروں میں گھس پڑیں گے) اس میں یہ قوت و شوکت والے لوگ بخت نصر اور اس کے اعوان ہیں جنہوں نے بیت المقدس میں چالیس ہزار اور بعض روایات میں ستر ہزار بنی اسرائیل کو قتل کیا اور ایک لاکھ سے زیادہ بنی اسرائیل کو قید کرکے بھیڑ بکریوں کی طرح ہنکا کر بابل لے گیا اور اس کے بعد جو قرآن کریم نے فرمایا ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ (یعنی ہم نے پھر لوٹا دیا تمہارے غلبہ کو ان پر) یہ واقعہ اسی کیخسرو خورس بادشاہ کے ہاتھوں ظہور پذیر ہوا یہ مومن صالح تھا اس نے بخت نصر کا مقابلہ کرکے اس کے قیدی بنی اسرائیل کو اس کے قبضہ سے نکالا اور دوبارہ فلسطین میں آباد کیا بیت المقدس کو جو ویران کردیا تھا اس کو بھی دوبارہ آباد کیا اور بیت المقدس کے خزائن اور اہم سامان جو بخت نصر یہاں سے لے گیا تھا وہ سب واپس بنی اسرائیل کے قبضہ میں دیئے اس لئے یہ شخص بنی اسرائیل (یہود) کا نجات دہندہ ثابت ہوا۔- یہ بات قرین قیاس ہے کہ یہود مدینہ نے جو امتحان نبوت کے لئے قریش مکہ کے واسطے سوالات متعین کئے ان میں ذوالقرنین کے سوال کو یہ خصوصیت بھی حاصل تھی کہ یہود اس کو اپنا نجات دہندہ مان کر اس کی تعظیم و تکریم کرتے تھے۔- مولانا حفظ الرحمن صاحب نے اپنی اس تحقیق پر موجودہ تورات کے حوالہ سے انبیاء (علیہم السلام) بنی اسرائیل کی پیشگوئیوں سے پھر تاریخی روایات سے اس پر کافی شواہد پیش کئے ہیں جو صاحب مزید تحقیق کے درپے ہوں وہ اس کا مطالعہ کرسکتے ہیں میرا مقصد ان تمام روایات کے نقل کرنے سے صرف اتنا تھا کہ ذوالقرنین کی شخصیت اور ان کے زمانے کے بارے میں علماء امت اور ائمہ تاریخ و تفسیر کے اقوال سامنے آجائیں ان میں سے راجح کس کا قول ہے یہ میرے مقصد کا جزء نہیں کیونکہ جن امور کا نہ قرآن نے دعوی کیا نہ حدیث نے ان کو بیان کیا ان کے معین ومبین کرنے کی ذمہ داری بھی ہم پر نہیں اور ان میں جو قول بھی راجح اور صحیح قرار پائے مقصد قرآنی ہر حال میں حاصل ہے واللہ سبحانہ وتعالی اعلم آگے آیات کی تفسیر دیکھئے۔- قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَيْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرًا اس میں یہ قابل نظر ہے کہ قرآن کریم نے اس جگہ ذکرہ کا مختصر لفظ چھوڑ کر ذِكْرًا کے دو کلمے کیوں اختیار کئے غور کیجئے تو ان دو کلموں میں اشارہ اس طرف کیا گیا ہے کہ قرآن نے ذوالقرنین کا پورا قصہ اور اس کی تاریخ ذکر کرنے کا وعدہ نہیں کیا بلکہ اس کے ایک حصہ بیان کرنے کے لئے فرمایا جس پر حرف من اور ذکرا کی تنوین بقواعد عربیت شاہد ہے اوپر جو تاریخی بحث ذوالقرنین کے نام و نسب اور زمانے وغیرہ کی لکھی گئی ہے قرآن کریم نے اس کو غیر ضروری سمجھ چھوڑ دینے کا پہلے ہی اظہار فرما دیا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَيَسْـــَٔـلُوْنَكَ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ ۝ ٠ۭ قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَيْكُمْ مِّنْہُ ذِكْرًا۝ ٨٣ۭ- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- ذو - ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251]- والثاني في لفظ ذو :- لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد - ( ذ و ) ذو - ( والا ۔ صاحب ) یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف - کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ - ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں - اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے - قرن - والقَرْنُ : القوم المُقْتَرِنُونَ في زمن واحد، وجمعه قُرُونٌ. قال تعالی: وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس 13] ،- ( ق ر ن ) قرن - ایک زمانہ کے لوگ یا امت کو قرن کہا جاتا ہے اس کی جمع قرون ہے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس 13] اور تم سے پہلے ہم کئی امتوں کو ۔ ہلاک کرچکے ہیں - تلو - ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] ، أراد به هاهنا الاتباع علی سبیل الاقتداء والمرتبة،. والتلاوة تختص باتباع کتب اللہ المنزلة، تارة بالقراءة، وتارة بالارتسام لما فيها من أمر ونهي، وترغیب وترهيب . أو ما يتوهم فيه ذلك، وهو أخصّ من القراءة، فکل تلاوة قراءة، ولیس کل قراءة تلاوة،- ( ت ل و ) تلاہ ( ن )- مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ - التلاوۃ ۔- بالخصوص خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ کتابوں کے اتباع تلاوۃ کہا جاتا ہے کبھی یہ اتباع ان کی قراءت پڑھنے ) کی صورت میں ہوتی ہے اور کبھی ان کے ادا مرد نواحی ( احکام ) ترغیب وترہیب اور جو کچھ ان سے سمجھا جا سکتا ہے ان کی اتباع کی صورت ہیں ، مگر یہ لفظ قرآت ( پڑھنے ) سے خاص ہے یعنی تلاوۃ کے اندر قراۃ کا مفہوم تو پایا جاتا ہے مگر تلاوۃ کا مفہوم قراء ۃ کے اندر نہیں آتا چناچہ کسی کا خط پڑھنے کے لئے تلوت رقعتک نہیں بالتے بلکہ یہ صرف قرآن پاک سے کچھ پڑھنے پر بولا جاتا ہے کیونکہ اس کے پڑھنے سے اس پر عمل کرنا واجب ہوجاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت «3» [يونس 30] وہاں ہر شخص اپنے ( اپنے ) اعمال کی ) جو اس نے آگے بھجیے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت تتلوا بھی ہے یعنی وہاں ہر شخص اپنے عمل نامے کو پڑھ کر اس کے پیچھے چلے گا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٣ تا ٩٨) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ والے آپ سے ذوالقرنین کا حال پوچھتے ہیں، آپ ان سے فرما دیجیے کہ میں اس کا ذکر ابھی تمہارے سامنے بیان کرتا ہوں ہم نے ان کو روئے زمین پر حکومت دی تھی اور ہم نے ان کو راستوں اور منزلوں کی معرفت عطا کی تھی ،- چناچہ انہوں نے سفر کے لیے ایک راستہ اختیار کرلیا یہاں تک کہ جب غروب آفتاب کے موقع پر پہنچے تو آفتاب ان کو سیاہ رنگ کے پانی میں ڈوبتا ہوا دکھائی دیا اور اس موقع پر انہوں نے ایک کافر قوم دیکھی ،- ہم نے بطور الہام کے کہا کہ ذوالقرنین یا تو ان کو قتل کرو، یہاں تک کہ یہ کلمہ لاالہ الا اللہ کے قائل نہ ہوجائیں یا ان کے ساتھ پہلے نرمی کا معاملہ کرو کہ ان کو معاف کر دو اور چھوڑ دو ۔- ذوالقرنین نے عرض کیا بالکل ٹھیک لیکن جس نے ان میں سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کیا تو ہم اسے دنیا میں قتل کریں گے اور پھر وہ آخرت میں اپنے مالک حقیقی کے پاس پہنچایا جائے گا اور وہ اسے دوزخ کی سخت سزا دے گا۔- اور جو شخص ایمان لے آئے گا اور نیک عمل کرے گا اور نیک عمل کرے گا تو اسے آخرت میں بھی جنت ملے گی اور ہم بھی اس کے ساتھ نرمی کا معاملہ کریں گے۔- پھر ذوالقرنین نے ممالک مشرقیہ کے فتح کرنے کے ارادہ سے مشرق کی طرف راہ لی تو طلوع آفتاب کے موقع پر پہنچ کر انہوں نے آفتاب کو ایک ایسی قوم پر طلوع ہوتے ہوئے دیکھا کہ جن کے لیے ہم نے آفتاب سے اوپر پہاڑ درخت کپڑے وغیرہ کی کوئی آڑ نہیں رکھی تھی کہ حق بات سے بالکل عاری قوم تھی اور اس قوم کو تارج وتاویل اور منسک کہا جاتا تھا۔- غرض کہ ذوالقرنین جیسا کہ منتہائے مغرب تک پہنچے تھے، اسی طرح سفر کرتے منتہائے مشرق تک پہنچے اور ان کو جو کچھ واقعات وغیرہ کی خبر تھی۔ ہمیں اس کی پوری خبر ہے، پھر ذوالقرنین فتوحات کرتے ہوئے مشرق کی سمت میں روم کی طرف ہوئے۔- یہاں تک کہ جب دو پہاڑوں کے درمیان میں پہنچے تو ان پہاڑوں سے اس طرف ایک قوم کو دیکھا جو دوسروں کی بات نہیں سمجھتے تھے، انہوں نے بذریعہ ترجمان کہا کہ اے ذوالقرنین یاجوج اس سر زمین میں بڑا فساد مچاتے ہیں، یعنی ہمارئے تروتازہ میوؤں کا کھاجاتے ہیں اور خشک کو لے جاتے ہیں اور ہماری اولاد کو قتل کر ڈالتے ہیں اور ہمارے آدمیوں کو کھاجاتے ہیں۔- یاجوج بھی ایک آدمی کا نام تھا اور ماجوج بھی ایک شخص کا اور یہ دونوں یافث بن نوح کی اولاد میں سے تھے اور کہا گیا ہے کہ اس قوم کی کثرت کی وجہ سے یہ اس کا نام پڑگیا۔- تو کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ ہم لوگ آپ کے لیے کچھ ضروری چیزیں جمع کردیں اس شرط پر کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان کچھ رکاوٹ بنادیں۔- ذوالقرنین نے جواب دیا کہ جس بادشاہت اور مال میں میرے پروردگار نے مجھے اختیار دیا ہے اور عطا کی ہے وہ اس مزدوری سے بہت زیادہ ہے، انہوں نے عرض کیا سو آپ کس قسم کی حمایت چاہتے ہیں، ذوالقرنین نے جواب دیا ہاتھ پیروں اور اوزاروں سے میری مدد کرو۔ میں تمہارے اور ان کے درمیان خوب مضبوط دیوار بنائے دیتا ہوں تم لوگ میرے پاس لوہے کی چادریں لاؤ، یہاں تک کہ جب ان دونوں پہاڑوں کے دونوں سروں کے خلاء کو پر کردیا تو ان کو حکم دیا دھونکو، چناچہ انہوں نے آگ جلا کر ان کو دھونکنا شروع کیا، یہاں تک کہ جب ان لوہے کی چادروں کو دھونکتے دھونکتے لال انگارا کردیا تو اس وقت حکم دیا کہ اب میرے پاس پگھلا ہوا تانبا لاؤ تاکہ اس پر ڈال دوں، چناچہ وہ تانبا اس پر ڈال دیا گیا۔- تو پھر یاجوج ماجوج اس پر چڑھ سکتے تھے اور نہ اس میں نیچے کی طرف سے لگا سکتے تھے تب ذوالقرنین نے فرمایا کہ یہ دیوار کی تیاری میرے پروردگار کی ایک خاص رحمت ہے جس وقت یاجوج ماجوج کے نکلنے کا وقت آئے گا تو وہ اسے ڈھا کر برابر کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ یاجوج ماجوج کے نکلنے کے بارے میں برحق ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

اس رکوع میں ذوالقرنین کے بارے میں یہود مدینہ کے سوال کا جواب دیا گیا ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز تک اکثر مفسرین ذوالقرنین سے ناواقف تھے۔ چناچہ تیرہ سو سال تک عام طور پر سکندر اعظم ہی کو ذوالقرنین سمجھا جاتا رہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قرآن میں ذوالقرنین کی فتوحات کا ذکر جس انداز میں ہوا ہے یہ انداز سکندر اعظم کی فتوحات سے ملتا جلتا ہے ‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ذوالقرنین کی سیرت کا وہ نقشہ جو قرآن نے پیش کیا ہے اس کی سکندر اعظم کی سیرت کے ساتھ سرے سے کوئی مناسبت ہی نہیں۔ - بہرحال جدید تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ذوالقرنین قدیم ایران کے بادشاہ کیخورس یا سائرس کا لقب تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ایران کے علاقے میں دو الگ الگ خود مختار مملکتیں قائم تھیں۔ ایک کا نام پارس تھا جس سے ” فارس “ کا لفظ بنا ہے اور دوسرے کا نام ” مادا “ تھا۔ کیخورس یا سائرس نے ان دونوں مملکتوں کو ملا کر ایک ملک بنا دیا اور یوں سلطنت ایران کے سنہرے دور کا آغاز ہوا۔ دو مملکتوں کے فرمانروا ہونے کی علامت کے طور پر اس نے اپنے تاج میں دو سینگ لگا رکھے تھے اور اس طرح اس کا لقب ذوالقرنین (دو سینگوں والا) پڑگیا۔- آیت ٨٣ (وَيَسْـــَٔـلُوْنَكَ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ ۭ قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَيْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرًا)- ذوالقرنین کے بارے میں جدید تحقیق کو اہل علم کے حلقے میں متعارف کرانے کا سہرا مولانا ابو الکلام آزاد کے سر ہے۔ انہوں نے اپنی تفسیر ” ترجمان القرآن “ میں اس موضوع پر بہت تفصیل سے بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ قدیم ایران کا بادشاہ کیخورس یا سائرس ہی ذوالقرنین تھا۔ مولانا ابو الکلام آزاد کی تحقیق کی بنیاد ان معلومات پر ہے جو شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کے دور میں ایک کھدائی کے دوران دستیاب ہوئی تھیں۔ اس کھدائی کے دوران اس عظیم فاتح بادشاہ کا ایک مجسمہ بھی دریافت ہوا تھا اور مقبرہ بھی۔ اس کھدائی سے ملنے والی معلومات کی بنیاد پر رضا شاہ پہلوی نے اس کی ڈھائی ہزار سالہ برسی منانے کا خصوصی اہتمام کیا تھا۔ دریافت شدہ مجسمے کے سر پر جو تاج تھا اس میں دو سینگ بھی موجود تھے جس سے یہ ثابت ہوگیا کہ ایران کا یہی بادشاہ (کیخورس یا سائرس) تھا جو تاریخ میں ذوالقرنین کے لقب سے مشہور ہے۔- اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہودیوں نے خصوصی طور پر یہ سوال کیوں پوچھا تھا اور ذوالقرنین کی شخصیت میں ان کی اس دلچسپی کا سبب کیا تھا ؟ اس سوال کا جواب ہمیں بنی اسرائیل کی تاریخ سے ملتا ہے۔ جب ٨٧ قبل مسیح کے لگ بھک عراق کے بادشاہ بخت نصر نے فلسطین پر حملہ کر کے یروشلم کو تباہ کیا تو اس شہر کی اکثریت کو تہ تیغ کردیا گیا اور زندہ بچ جانے والوں کو وہ اپنی فوج کے ساتھ بابل ( ) لے گیا جہاں یہ لوگ ڈیڑھ سو سال تک اسیری کی حالت میں رہے۔ - جب ایران کے بادشاہ کیخورس یا سائرس (آئندہ سطور میں انہیں ” ذوالقرنین “ ہی لکھاجائے گا) نے ایران کو متحد کرنے کے بعد اپنی فتوحات کا دائرہ وسیع کیا تو سب سے پہلے عراق کو فتح کیا۔ مشرق وسطیٰ کے موجودہ نقشے کو ذہن میں رکھا جائے تو فلسطین ‘ اسرائیل شرق اردن مغربی کنارہ اور لبنان کے ممالک پر مشتمل پورے علاقے کو اس زمانے میں شام عرب یا شام اور اس سے مشرق میں واقع علاقے کو عراق عرب یا عراق کہا جاتا تھا جبکہ عراق کے مزید مشرق میں ایران واقع تھا۔ عراق پر قبضہ کرنے کے بعد ذوالقرنین نے بابل میں اسیر یہودیوں کو آزاد کردیا اور انہیں اجازت دے دی کہ وہ اپنے ملک واپس جا کر اپنا تباہ شدہ شہر یروشلم دوبارہ آباد کرلیں۔ چناچہ حضرت عزیر کی قیادت میں یہودیوں کا قافلہ بابل سے واپس یروشلم آیا۔ انہوں نے اپنے اس شہر کو پھر سے آباد کیا اور ہیکل سلیمانی کو بھی از سر نو تعمیر کیا۔ اس پس منظر میں یہودی ذوالقرنین کو اپنا محسن سمجھتے ہیں اور اسی سبب سے ان کے بارے میں انہوں نے حضور سے یہ سوال پوچھا تھا۔- ذوالقرنین کی فتوحات کے سلسلے میں تین مہمات کا ذکر تاریخ میں بھی ملتا ہے۔ ان مہمات میں ایران سے مغرب میں بحیرۂ روم ( ) تک پورے علاقے کی تسخیر ‘ مشرق میں بلوچستان اور مکران تک لشکرکشی اور شمال میں بحیرۂ خَزَر ( ) اور بحیرۂ اسود ( ) کے درمیانی پہاڑی علاقے کی فتوحات شامل ہیں۔ ذوالقرنین کا یہ سلسلہ فتوحات حضرت عمر کے دور خلافت کی فتوحات کے سلسلے سے مشابہ ہے۔ حضرت عمر کے دور میں بھی جزیرہ نمائے عرب سے مختلف سمتوں میں تین لشکروں نے پیش قدمی کی تھی ایک لشکر شام اور پھر مصر گیا تھا دوسرے لشکر نے عراق کے بعد ایران کو فتح کیا تھا جبکہ تیسرا لشکر شمال میں کوہ قاف ( ) تک جا پہنچا تھا۔- قدیم روایات میں ذوالقرنین کے بارے میں کچھ ایسی معلومات بھی ملتی ہیں کہ ابتدائی عمر میں وہ ایک چھوٹی سی مملکت کے شہزادے تھے۔ ان کے اپنے ملک میں کچھ ایسے حالات ہوئے کہ کچھ لوگ ان کی جان کے درپے ہوگئے۔ وہ کسی نہ کسی طرح وہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے اور کچھ عرصہ صحرا میں روپوش رہے۔ اسی عرصے کے دوران ان تک کسی نبی کی تعلیمات پہنچیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ زرتشت ہی اللہ کے نبی ہوں اور انہی کی تعلیمات سے انہوں نے استفادہ کیا ہو۔ بہر حال قرآن نے ذوالقرنین کا جو کردار پیش کیا ہے وہ ایک نیک اور صالح بندۂ مومن کا کردار ہے اور اس کردار کی خصوصیات تاریخی اعتبار سے اس زمانے کے کسی اور فاتح حکمران پر منطبق نہیں ہوتیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :61 وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ کا عطف لا محالہ پچھلے قصے ہی پر ہے ۔ اس سے خود بخود یہ اشارہ نکلتا ہے کہ قصۂ موسیٰ و خضر بھی لوگوں کے سوال ہی کے جواب میں سنایا گیا ہے اور یہ بات ہمارے اس قیاس کی تائید کرتی ہے کہ اس سورے کے یہ تینوں اہم قصے دراصل کفار مکہ نے اہل کتاب کے مشورے سے امتحاناً دریافت کیے تھے ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :62 یہ مسئلہ قدیم زمانے سے اب تک مختلف فیہ رہا ہے کہ یہ ذوالقرنین جس کا یہاں ذکر ہو رہا ہے ، کون تھا ۔ قدیم زمانے میں بالعموم مفسرین کا میلان سکندر کی طرف تھا ، لیکن قرآن میں اس کی جو صفات و خصوصیات بیان کی گئی ہیں وہ مشکل ہی سے سکندر پر چسپاں ہوتی ہیں ۔ جدید زمانے میں تاریخی معلومات کی بنا پر مفسرین کا میلان زیادہ تر ایران کے فرماں روا خورس ( خسرو یا سائرس ) کی طرف ہے ، اور یہ نسبۃً زیادہ قرین قیاس ہے ، مگر بہرحال ابھی تک یقین کے ساتھ کسی شخصیت کو اس کا مصداق نہیں ٹھیرایا جا سکتا ۔ قرآن مجید جس طرح اس کا ذکر کرتا ہے اس سے ہم کو چار باتیں وضاحت کے ساتھ معلوم ہوتی ہیں : 1 ) ۔ اس کا لقب ذو القرنین ( لغوی معنی دو سینگوں والا ) کم از کم یہودیوں میں ، جن کے اشارے سے کفار مکہ نے اس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا تھا ، ضرور معروف ہونا چاہیے ۔ اس لیے لا محالہ ہمیں یہ معلوم کرنے کے لیے اسرائیلی لٹریچر کی طرف رجوع کرنا پڑے گا کہ وہ دو سینگوں والے کی حیثیت سے کس شخصیت یا سلطنت کو جانتے تھے ۔ 2 ) ۔ وہ ضرور کوئی بڑا فرمانروا اور فاتح ہونا چاہیے جس کی فتوحات مشرق سے مغرب تک پہنچی ہوں ، اور تیسری جانب شمال یا جنوب میں بھی وسیع ہوئی ہوں ۔ ایسی شخصیتیں نزول قرآن سے پہلے چند ہی گزری ہیں اور لامحالہ انہی میں سے کسی میں اس کی دوسری خصوصیات ہمیں تلاش کرنی ہوں گی ۔ 3 ) ۔ اس کا مصداق ضرور کوئی ایسا فرمانروا ہونا چاہیے جس نے اپنی مملکت کو یاجوج و ماجوج کے حملوں سے بچانے کے لیے کسی پہاڑی درے پر ایک مستحکم دیوار بنائی ہو ۔ اس علامت کی تحقیق کے لیے ہمیں یہ بھی معلوم کرنا ہوگا کہ یاجوج و ماجوج سے مراد کونسی قومیں ہیں ، اور پھر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ان کے علاقے سے متصل کونسی ایسی دیوار کبھی دنیا میں بنائی گئی ہے اور وہ کس نے بنائی ہے ۔ 4 ) ۔ اس میں مذکورہ بالا خصوصیات کے ساتھ ایک یہ خصوصیت بھی پائی جانی چاہیے کہ وہ خدا پرست اور عادل فرمانروا ہو ، کیونکہ قرآن یہاں سب سے بڑھ کر اس کی اسی خصوصیت کو نمایاں کرتا ہے ۔ ان میں سے پہلی علامت آسانی کے ساتھ خورس پر چسپاں کی جا سکتی ہے ، کیونکہ بائیبل کے صحیفہ دانی ایل میں دانیال نبی کا جو خواب بیان کیا گیا ہے اس میں وہ یونانیوں کے عروج سے قبل میڈیا اور فارس کی متحدہ سلطنت کو ایک منڈھے کی شکل میں دیکھتے ہیں جس کے دو سینگ تھے ۔ یہودیوں میں اس دو سینگوں والے کا بڑا چرچا تھا کیونکہ اسی کی ٹکر نے آخر کار بابل کی سلطنت کو پاش پاش کیا اور بنی اسرائیل کو اسیری سے نجات دلائی ( تفہیم القرآن سورہ بنی اسرائیل ، حاشیہ 8 ) دوسری علامت بڑی حد تک اس پر چسپاں ہوتی ہے ، مگر پوری طرح نہیں ۔ اس کی فتوحات بلا شبہ یہ مغرب میں ایشیائے کوچک اور شام کے سواحل تک اور مشرق میں با ختر ( بلخ ) تک وسیع ہوئیں ، مگر شمال یا جنوب میں اس کی کسی بڑی مہم کا سراغ ابھی تک تاریخ سے نہیں ملا ہے ، حالانکہ قرآن صراحت کے ساتھ ایک تیسری مہم کا بھی ذکر کرتا ہے ، تاہم اس مہم کا پیش آنا بعید از قیاس نہیں ہے ، کیونکہ تاریخ کی رو سے خورس کی سلطنت شمال میں کا کیشیا ( قفقاز ) تک وسیع تھی ۔ تیسری علامت کے بارے میں یہ تو قریب قریب متحقق ہے کہ یاجوج و ماجوج سے مراد روس اور شمالی چین کے وہ قبائل ہیں جو تاتاری منگولی ، ھُن اور سیتھین وغیرہ ناموں سے مشہور ہیں اور قدیم زمانے سے متمدن ممالک پر حملے کرتے رہے ہیں ۔ نیز یہ بھی معلوم ہے کہ ان کے حملوں سے بچنے کے لیے قفقاز کے جنوبی علاقے میں دربند اور دار بال کے استحکامات تعمیر کیے گئے تھے ۔ لیکن یہ ابھی تک ثابت نہیں ہو سکا ہے کہ خوس ہی نے یہ استحکامات تعمیر کیے تھے ۔ آخری علامت قدیم زمانے کے معروف فاتحوں میں اگر کسی پر چسپاں کی جاسکتی ہے تو وہ خورس ہی ہے ۔ کیونکہ اس کے دشمنوں تک نے اس کے عدل کی تعریف کی ہے اور بائیبل کی کتاب عزْرا اس بات پر شاہد ہے کہ وہ ضرور ایک خدا پرست اور خدا ترس بادشاہ تھا جس نے بنی اسرائیل کو ان کی خدا پرستی ہی کی بنا پر بابل کی اسیری سے رہا کیا اور اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کے لیے بیت المقدس میں دوبارہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا حکم دیا ۔ اس بنا پر ہم یہ تو ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ نزول قرآن سے پہلے جتنے مشہور فاتحین عالم گزرے ہیں ان میں سے خورس ہی کے اندر ذو القرنین کی علامات زیادہ پائی جاتی ہیں ، لیکن تعین کے ساتھ اسی کو ذو القرنین قرار دے دینے کے لیے ابھی مزید شہادتوں کی ضرورت ہے ۔ تاہم دوسرا کوئی فاتح قرآن کی بتائی ہوئی علامات کا اتنا بھی مصداق نہیں ہے جتنا خورس ہے ۔ تاریخی بیان کے لیے صرف اتنا ذکر کافی ہے کہ خورس ایک ایرانی فرمانروا تھا جس کا عروج 549 ق ۔ م ۔ کے قریب زمانے میں شروع ہوا ۔ اس نے چند سال کے عرصے میں میڈیا ( الجبال ) اور لیڈیا ( یشیائے کوچک ) کی سلطنتوں کو مسخر کرنے کے بعد 539 ق ، م ، میں بابل کو بھی فتح کر لیا جس کے بعد کوئی طاقت اس کے راستہ میں مزاحم نہیں رہی ۔ اس کی فتوحات کا سلسلہ سندھ اور صُغد ( موجودہ ترکستان ) سے لے کر ایک طرف مصر اور لیبیا تک ، اور دوسری طرف تھریس اور مقدونیہ تک وسیع ہوگیا اور شمال میں اس کی سلطنت قفقاز ( کاکیشیا ) اور خوار زم تک پھیل گئی ۔ عملاً اس وقت کی پوری مہذب دنیا اس کی تابع فرمان تھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

42: اس سورت کے تعارف میں گزرچکا ہے کہ مشرکین نے حضور سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تین سوالات کئے تھے، ان میں سے ایک سوال یہ تھا کہ اس شخص کا حال بتائیں جس نے مشرق سے مغرب تک پوری دنیا کا سفر کیا تھا، یہاں سے اس سوال کا جواب دیا جارہا ہے، قرآن کریم نے بتایا ہے کہ اس شخص کا نام ذوالقرنین تھا، ذوالقرنین کے لفظی معنی ہیں دو سینگوں والا، یہ کسی نا معلوم وجہ سے ایک بادشاہ کا لقب تھا، قرآن کریم نے اس بادشاہ کی تفصیلات نہیں بتائیں کہ وہ کون تھا اور کس زمانے میں تھا البتہ ہمارے زمانے کے بیشتر محققین کا رجحان یہ ہے کہ وہ ایران کا بادشاہ سائرس تھا، جس نے بنی اسرائیل کو بابل کی جلا وطنی سے نجات دلاکر انہیں دوبارہ فلسطین میں آباد کیا تھا، قرآن کریم نے اتنا بتایا ہے کہ انہوں نے تین لمبے سفر کئے تھے، پہلا دنیا کی انتہائی مغربی آبادی تک، دوسرا انتہائی مشرقی آبادی تک، اور تیسرا انتہائی شمالی علاقے تک، جہاں انہوں نے یاجوج ماجوج کے وحشیانہ حملوں سے لوگوں کو بچانے کے لئے ایک دیوار تعمیر کی تھی۔