84۔ 1 ہم نے اسے ایسے ساز و سامان اور وسائل مہیا کیے، جن سے کام لے کر اس نے فتوحات حاصل کیں، دشمنوں کا غرور خاک میں ملایا اور ظالم حکمرانوں کو نیست ونابود کیا۔
[٢ ٧] ذوالقرنین کون تھا ؟ قریش کا تیسرا سوال ذوالقرنین سے متعلق تھا جس کا ان آیات میں جواب دیا جارہا ہے۔ ذوالقرنین کی شخصیت کی تعیین کے لیے یہ بات تو بہرحال یقینی ہے کہ یہود کو اس کے متعلق علم تھا اور اس بادشاہ کا ذکر ان کی کتابوں میں موجود تھا تبھی تو انہوں نے قریش مکہ کو یہ سوال بتایا تھا اور جو کچھ قرآن سے معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ ایک مقتدر اور نامور بادشاہ تھا اللہ سے ڈرنے والا اور منصف مزاج تھا اس کی سلطنت خاصی وسیع تھی اور ذوالقرنین کے لغوی معنی تو دو سینگوں والا ہے مگر اس کے معنی یہ نہیں کہ فی الواقع اس کے سر پر دو سینگ تھے بلکہ اسے اس لحاظ سے ذوالقرنین کہا جاتا تھا کہ اس کی سلطنت کا علاقہ کچھ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ایک مینڈھا ہو اور اس کے سر پر دو سینگ ہوں۔ آیت نمبر ٨٦ میں الفاظ (قُلْنَا یٰذَا الْقَرْنَیْنِ ) سے بعض لوگوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ وہ نبی بھی تھا لیکن اکثریت اس کی نبوت کی قائل نہیں ہے کیونکہ صرف یہ الفاظ اثبات نبوت کے لیے کافی نہیں ہیں اور اس کی تائید میں قرآن سے کافی شواہد مل جاتے ہیں مثلاً سیدہ مریم نبیہ نہیں تھی تاہم فرشتہ یا فرشتے ان کے پاس آئے اور ہم کلام ہوئے۔ ام موسیٰ بھی نبیہ نہیں تھیں مگر ان کی طرف وحی ہونا قرآن سے ثابت ہے اسی طرح سیدنا لقمان کا معاملہ ہے۔ اس وحی سے وہ وحی مراد نہیں ہے جو انبیاء پر بذریعہ فرشتہ نازل کی جاتی رہی ہے۔ یہاں لغوی معنی یعنی بذریعہ اشارہ ذہن میں ڈالنا۔- قرآن و حدیث میں یہ کہیں مذکور نہیں کہ ذوالقرنین کا اصل نام کیا تھا ؟ وہ کس علاقہ کا بادشاہ تھا ؟ کس قوم سے تعلق رکھتا تھا ؟ اور کس دور میں یہ بادشاہ گزرا ہے ؟ مغربی جانب اس نے کہاں تک اور کون کون سے ممالک کو مسخر کیا تھا ؟ اور مشرقی سمت میں کہاں تک پہنچا تھا ؟ اس کا تیسرا سفر کون سی جانب تھا ؟ سدّ ذوالقرنین کس جگہ واقع ہے ؟ لہذا ان سب امور کی تعیین میں مفسرین میں بہت اختلاف واقع ہوا اور ایسی مؤرخانہ تحقیق کا کتاب و سنت میں مذکور نہ ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ قرآن کسی تاریخی واقعہ کو ذکر کرنے کے باوجود بھی ایسے امور کو زیر بحث نہیں لاتا جن کا انسانی ہدایت سے کچھ تعلق نہ ہو یا اس پر کسی شرعی حکم کی بنیاد نہ اٹھتی ہو یہ ذوالقرنین کا واقعہ یہود کی الہامی کتاب تورات میں مذکور نہیں بلکہ تورات کی شروح و تفاسیر، جنہیں وہ اپنی اصطلاح میں تالمود کہتے ہیں مذکور ہے۔ جیسے ہمارے مفسرین نے بھی اپنی تفسیروں میں کئی ایسے واقعات درج کردیئے ہیں جن کا قرآن اور حدیث میں ذکر تک نہیں ہوتا۔ بہرحال یہ بات تو مسلّم ہے کہ ذوالقرنین کوئی ایسا بادشاہ تھا جس کی تعیین علمائے یہود کے دماغوں میں موجود تھی۔ اسی کے متعلق انہوں نے سوال کیا تھا اور اسی شخصیت کے متعلق قرآن نے جواب دے دیا اور جتنا جواب انھیں درکار تھا اتنا جواب قرآن نے انھیں دیا جس سے وہ مطمئن ہوگئے اور ان کے اطمینان کی دلیل یہ ہے کہ قرآن کے اس جواب کے بعد یہود نے یا یہود کے کہنے پر کفار مکہ نے ذوالقرنین کے بارے میں کوئی مزید سوال نہیں کیا۔- تاہم ہمارے مفسرین نے مندرجہ بالا تاریخی سوالات کا حتی الامکان جواب دینے کی مقدور بھر کوشش کی ہے۔- چناچہ مولانا مودودی (رح) نے بائیبل کے مطالعہ کے بعد جو تحقیق پیش کی ہے وہ یہ ہے کہ ذوالقرنین کا اطلاق ایرانی فرمانروا خورس پر ہی ہوسکتا ہے جس کا عروج ٥٤٩ ق م کے قریب شروع ہوا اس نے چند سال کے عرصہ میں میڈیا (الجبال) اور لیڈیا (اشیائے کوچک) کی سلطنتوں کو مسخر کرنے کے بعد ٥٣٩ ق م میں بابل کو فتح کرلیا تھا جس کے بعد کوئی طاقت اس کی راہ میں مزاحم نہ رہی۔ اس کی فتوحات کا سلسلہ سندھ اور صغد (موجودہ ترکستان) سے لے کر ایک طرف مصر اور لیبیا تک اور دوسری طرف تھریس اور مقدونیہ تک وسیع ہوگیا تھا اور شمال میں اس کی سلطنت کا کیشیا ( قفقاز) اور خوارزم تک پھیل گئی تھی۔ عملاً اس وقت کی پوری مہذب دنیا اس کی تابع فرمان تھی۔- اور صاحب تفسیر حقانی کی تحقیق یہ ہے کہ ذوالقرنین ایران کا نہیں بلکہ عرب کے کسی علاقہ کا بادشاہ ہوسکتا ہے اور یمن کے حمیری خاندان کا بادشاہ تھا۔ دلیل یہ ہے کہ ذوالقرنین عربی لفظ ہے۔ فارسی یا ایرانی نہیں۔ علاوہ ازیں یمن کے بادشاہ زمانہ قدیم میں ذو کے ساتھ ملقب ہوا کرتے تھے جیسے ذونواس، ذوالنون، ذورعین، ذویزن وغیرہ وغیرہ۔ ایسے ہی ذوالقرنین بھی تھے۔ ابو ریحان البیرونی اس کا نام ابو کرب بن عیربن افریقس حمیری بتاتے ہیں۔ اس کا اصل نام صعب تھا اور یہ تبع اول کا بیٹا تھا اور یہی وہ ذوالقرنین ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے۔ اس کے بعد اس کا بیٹا ذوالمنار ابرہہ، اس کے بعد اس کا بیٹا افریقس، اس کے بعد اس کا بھائی ذوالاذعار، اس کے بعد اس کا بھائی شرجیل، اس کے بعد اس کا بیٹا الہدہاد اور اس کے بعد اس کی بیٹی بلقیس بادشاہ ہوئی جو سیدنا سلیمان کے پاس حاضر ہوئی تھی اور ذوالقرنین کے مفہوم میں بھی اختلاف ہے قرن عربی زبان میں سینگ کو بھی کہتے ہیں اور زمانہ یا دور کو بھی۔ اس کا ایک مفہوم تو اوپر بیان ہوا کہ اس کے مفتوحہ علاقوں یا سلطنت کا اگر کاغذ پر نقشہ بنایا جائے تو اس کی شکل ایک مینڈھے کی سی بن جاتی ہے جس کے سر پر دو سینگ ہوں۔ اس کی دوسری توجیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ ذوالقرنین کے تاج میں دو کلغیاں ہوتی تھیں جبکہ عام بادشاہوں کے تاج میں ایک ہی کلغی ہوتی تھی اور یہ دو کلغیاں بھی اس کی سلطنت کی وسعت کے اظہار کے لیے بنائی گئی تھیں۔ اور تیسری توجیہ یہ ہے کہ ذوالقرنین کو دو دور نصیب ہوئے تھے ایک دور فتوحات کا اور دوسرا دور ان مفتوحہ علاقوں میں انتظام اور حکمرانی کرنے کا اور یہ بات بھی ہر بادشاہ کو نصیب نہیں ہوئی۔ سکندر رومی فیلقوس کے بیٹے نے فتوحات تو بہت کیں حتیٰ کہ ہندوستان میں بھی پہنچ کر بہت سے علاقے فتح کیے مگر اس کی فوج نے آگے بڑھنے سے یکسر انکار کردیا اور وطن واپس چلنے پر اصرار کیا اور سکندر اپنی فوج کے سامنے مجبور ہوگیا اور واپسی پر اپنے وطن پہنچنے سے پیشتر ہی ٣٣ سال کی عمر میں بابل کے مقام پر راہی ملک عدم ہوا۔- سد ذوالقرنین کہاں واقع ہے ؟ :۔ رہی یہ بات کہ سد ذوالقرنین کہاں واقع ہے ؟ تو اس میں بھی اختلافات ہیں کیونکہ آج تک ایسی پانچ دیواریں معلوم ہوچکی ہیں جو مختلف بادشاہوں نے مختلف علاقوں میں مختلف ادوار میں جنگجو قوموں کے حملہ سے بچاؤ کی خاطر بنوائی تھیں۔ ان میں سے زیادہ مشہور دیوار چین ہے یہ دیوار سب سے زیادہ لمبی ہے اور اس کی لمبائی کا اندازہ بارہ سو میل سے لے کر پندرہ سو میل تک کیا گیا ہے یہ دیوار عجائب روزگار میں شمار ہوتی ہے اور اب تک موجود ہے اور اسے چی وانگئی فغفور چین نے اندازاً ٢٣٥ ق م میں تعمیر کروایا تھا اور سدذوالقرنین وہ دیوار ہے جو جبل الطائی کے کسی درہ کو بند کیے ہوئے ہے جس کا ابن خلدون نے بھی ذکر کیا ہے اور اکثر مورخین اسلام اس کو سد یاجوج بھی کہتے ہیں۔ جبل الطائی منچوریا اور منگولیا میں حائل ہے اور اسی پہاڑ کے بیچ میں ایک درہ کشادہ تھا جہاں یاجوج ماجوج کی قومیں حملہ آور ہوتی تھیں۔ اس درے کو ذوالقرنین حمیری بادشاہ نے بند کروایا تھا اور یہ دیوار اب تک موجود ہے۔- ذوالقرنین کے تین سفروں کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔
ۭاِنَّا مَكَّنَّا لَهٗ فِي الْاَرْضِ ۔۔ : ” مَكَّنَّا “ سے مراد حکومت و اقتدار ہے۔ دیکھیے سورة حج (٤١) ہر چیز میں سے کچھ سامان سے مراد وہ تمام وسائل ہیں جن کی اقتدار کے لیے ضرورت ہوتی ہے، مثلاً شجاعت، قوت، تدبیر و رائے، فوج، دولت، اسلحہ، سامان سفر، تعمیر و ترقی کے ذرائع وغیرہ۔ ان اسباب کی تفصیل میں بعض مفسرین کی اسرائیلی روایات پر مبنی عجیب و غریب روایات کی کچھ حیثیت نہیں اور نہ کسی صحیح حدیث میں ان کا پتا ملتا ہے۔
(آیت) وَاٰتَيْنٰهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا لفظ سبب عربی لغت میں ہر اس چیز کیلئے بولا جاتا ہے جس سے اپنے مقصد حاصل کرنے میں کرنے میں مددلی جاتی ہے جس میں آلات و وسائل مادیہ بھی شامل ہیں اور علم و بصیرت و تجربہ وغیرہ بھی (بحرمحیط) اور مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سے مراد وہ تمام امور ہیں جن کو ضرورت نظام سلطنت کے لئے ایک بادشاہ اور حکمران کو پیش آتی ہے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ذوالقرنین کو اپنی عدل گستری اور امن عالم کے قیام اور فتوحات ممالک کے لئے جس جس سامان کی ضرورت اس زمانے میں تھی وہ سب کے سب ان کو عطا کردیئے گئے تھے۔
اِنَّا مَكَّنَّا لَہٗ فِي الْاَرْضِ وَاٰتَيْنٰہُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا ٨٤ۙ- مكن - المَكَان عند أهل اللّغة : الموضع الحاوي للشیء، قال : وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ [ الأعراف 10] - ( م ک ن ) المکان - اہل لغت کے نزدیک مکان اس جگہ کو کہتے ہیں جو کسی جسم پر حاوی ہو ۔ قرآن میں ہے ۔- وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ [ الأعراف 10] اور ہم نے زمین میں تمہارا ٹھکانا بنایا ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - شيء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم .- ( ش ی ء ) الشئی - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،- سبب - السَّبَبُ : الحبل الذي يصعد به النّخل، وجمعه أَسْبَابٌ ، قال : فَلْيَرْتَقُوا فِي الْأَسْبابِ [ ص 10] ، والإشارة بالمعنی إلى نحو قوله : أَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ يَسْتَمِعُونَ فِيهِ فَلْيَأْتِ مُسْتَمِعُهُمْ بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [ الطور 38] ، وسمّي كلّ ما يتوصّل به إلى شيء سَبَباً ، قال تعالی: وَآتَيْناهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَباً فَأَتْبَعَ سَبَباً [ الكهف 84- 85] ، ومعناه : أنّ اللہ تعالیٰ آتاه من کلّ شيء معرفة، وذریعة يتوصّل بها، فأتبع واحدا من تلک الأسباب، وعلی ذلک قوله تعالی: لَعَلِّي أَبْلُغُ الْأَسْبابَ أَسْبابَ السَّماواتِ [ غافر 36- 37] ، أي : لعلّي أعرف الذرائع والأسباب الحادثة في السماء، فأتوصّل بها إلى معرفة ما يدعيه موسی، وسمّي العمامة والخمار والثوب الطویل سَبَباً «1» ، تشبيها بالحبل في الطّول . وکذا منهج الطریق وصف بالسّبب، کتشبيهه بالخیط مرّة، وبالثوب الممدود مرّة . والسَّبُّ : الشّتم الوجیع، قال : وَلا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] ، وسَبَّهُمْ لله ليس علی أنهم يَسُبُّونَهُ صریحا، ولکن يخوضون في ذكره فيذکرونه بما لا يليق به، ويتمادون في ذلک بالمجادلة، فيزدادون في ذكره بما تنزّه تعالیٰ عنه . وقول الشاعر :- فما کان ذنب بني مالک ... بأن سبّ منهم غلاما فسب - بأبيض ذي شطب قاطع ... يقطّ العظام ويبري العصب - «2» فإنه نبّه علی ما قال الآخر :- ونشتم بالأفعال لا بالتّكلّم - «1» والسِّبُّ : الْمُسَابِبُ ، قال الشاعر :- لا تسبّنّني فلست بسبّي ... إنّ سبّي من الرّجال الکريم «2»- والسُّبَّةُ : ما يسبّ ، وكنّي بها عن الدّبر، وتسمیته بذلک کتسمیته بالسّوأة . والسَّبَّابَةُ سمّيت للإشارة بها عند السّبّ ، وتسمیتها بذلک کتسمیتها بالمسبّحة، لتحريكها بالتسبیح .- ( س ب ب ) السبب - اصل میں اس رسی کو کہتے ہیں جس سے درخت خرما وغیرہ پر چڑھا ( اور اس سے اترا ) جاتا ہے اس کی جمع اسباب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَرْتَقُوا فِي الْأَسْبابِ [ ص 10] تو ان کو چاہیئے کہ سیڑ ھیاں لگا کر ( آسمان پر ) چڑ ہیں اور یہ معنوی لحاظ سے آیت : ۔ أَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ يَسْتَمِعُونَ فِيهِ فَلْيَأْتِ مُسْتَمِعُهُمْ بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [ الطور 38] یا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے کہ اس پر چڑھ کر ( آسمان سے باتیں ) سن آتے ہیں کے مضمون کی طرف اشارہ ہے پھر اسی مناسبت سے ہر اس شے کو سبب کہا جاتا ہے ۔ جو دوسری شے تک رسائی کا ذریعہ بنتی ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَآتَيْناهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَباً فَأَتْبَعَ سَبَباً [ الكهف 84- 85] اور اسے ہر قسم کے ذرائع بخشے سو وہ ایک راہ پر چلا ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ہر چیز کی معرفت اور سامان و ذرائع عطا کئے تھے جس کے ذریعہ وہ اپنے مقصود تک پہنچ سکتا تھا ۔ چناچہ اس نے ایک ذریعہ اختیار کیا اور آیت کریمہ : ۔ لَعَلِّي أَبْلُغُ الْأَسْبابَ أَسْبابَ السَّماواتِ [ غافر 36- 37] تاکہ جو آسمان تک پہنچنے کے ذرائع ہیں ہم ان تک جا پہنچیں ۔ میں بھی اسباب سے مراد ذرائع ہی ہیں یعنی تاکہ ہم ان اسباب و ذرائع کا پتہ لگائیں جو آسمان میں پائے جاتے ہیں اور ان سے موسٰی کے مزعومہ خدا کے متعلق معلومات حاصل کریں اور عمامہ دوپٹہ اور ہر لمبے کپڑے کو طول میں رسی کے ساتھ تشبیہ دے کر بھی سبب کہا جاتا ہے اسی جہت سے شاہراہ کو بھی سبب کہہ دیا جاتا ہے جیسا کہ شاہراہ کو بھی خیط ( تاگا ) اور کبھی محدود کپڑے کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے : ۔ السبب ( مصدر ن ) کے معنی مغلظات اور فحش گالی دینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] تو جو لوگ خدا کے سوا ( دوسرے ) معبودوں کو حاجت روائی کے لئے بلایا ( یعنی ان کی پرشش کیا کرتے ہیں ) ان کو برا نہ کہو کہ یہ لوگ بھی ازراہ نادانی ناحق خدا کو برا کہہ بیٹھیں گے ۔ ان کے اللہ تعالیٰ کو گالیاں دینے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ صریح الفاظ میں اللہ تعالیٰ کو گالیاں دیں گے ۔ کیونکہ اس طرح مشرک بھی نہیں کرتا بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ جوش میں آکر شان الہی میں گستاخی کریں گے اور ایسے الفاظ استعمال کریں گے جو اس کی ذات کے شایاں شان نہیں جیسا کہ عام طور پر مجادلہ کے وقت ہوتا ہے کسی شاعر نے کہا ہے ۔ 220 ۔ فما کان ذنب بني مالک ... بأن سبّ منهم غلاما فسبّ 221 ۔ بأبيض ذي شطب قاطع ... يقطّ العظام ويبري العصببنی مالک کا صرف اتنا گناہ ہے کہ ان میں سے ایک لڑکے کو بخل پر عار دلائی گئی اور اس نے عار کے جواب میں سفید دھاری دار قاطع تلوار سے اپنی موٹی اونٹنیوں کو ذبح کر ڈالا جو ہڈیوں کو کاٹ ڈالتی ہو اور قصب یعنی بانس کو تراش دیتی ہو ۔ ان اشعار میں اس مضمون کی طرف اشارہ ہے جس کو دوسرے شاعر نے یوں ادا کیا ہے کہ ونشتم بالأفعال لا بالتّكلّمکہ ہم زبان کی بجائے افعال سے گالی دیتے ہیں ۔ اور سب ( فعل ) بمعنی دشنام دہندہ کیلئے آتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ لا تسبّنّني فلست بسبّي ... إنّ سبّي من الرّجال الکريم «2»مجھے گالی نہ دو تم مجھے گالی دینے کے لائق نہیں ہو کیونکہ نہایت شریف درجہ کا آدمی ہی مجھے گالی دے سکتا ہے ۔ السبۃ ہر وہ چیز جو عار و ننگ کی موجب ہو اور کنایہ کے طور پر دبر کو بھی سبۃ کہا جاتا ہے ۔ جیسا کہ اسے سوءۃ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ السبابۃ انگشت شہادت یعنی انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی کیونکہ گالی دیتے وقت اس کے ساتھ اشارہ کیا جاتا ہے جیسا کہ اس انگلی کو مسبحۃ ( انگشت شہادت ) کہا جاتا ہے کیونکہ تسبیح کے وقت اشارہ کے لئے اسے اوپر اٹھایا جاتا ہے ۔