Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ذوالقرنین کا تعارف ۔ ذوالقرنین ایک راہ لگ گئے زمین کی ایک سمت یعنی مغربی دانب کوچ کر دیا ۔ جو نشانات زمین پر تھے ان کے سہارے چل کھڑے ہوئے ۔ جہاں تک مغربی رخ چل سکتے تھے چلتے رہے یہاں تک کہ اب سورج کے غروب ہونے کی جگہ تک پہنچ گے ۔ یہ یاد رہے کہ اس سے مراد آسمان کا وہ حصہ نہیں جہاں سورج غروب ہوتا ہے کیونکہ وہاں تک تو کسی کا جانا ناممکن ہے ۔ ہاں اس رخ جہاں تک زمین پر جانا ممکن ہے ۔ حضرت ذوالقرنین پہنچ گئے ۔ اور یہ جو بعض قصے مشہور ہیں کہ سورج کے غروب ہونے کی جگہ سے بھی آپ تجاوز کر گئے اور سورج مدتوں ان کی پشت پر غروب ہوتا رہا یہ بےبنیاد باتیں ہیں اور عموما اہل کتاب کی خرافات ہیں اور ان میں سے بھی بددینوں کی گھڑنت ہیں اور محض دروغ بےمروغ ہیں ۔ الغرض جب انتہائے مغرب کی سمت پہنچ گئے تو یہ معلوم ہوا کہ گویا بحر محیط میں سورج غروب ہو رہا ہے ۔ جو بھی کسی سمندر کے کنارے کھڑا ہو کر سورج کو غروب ہوتے ہوئے دیکھے گا تو بظاہر یہی منظر اس کے سامنے ہو گا کہ گویا سورج پانی میں ڈوب رہا ہے ۔ حالانکہ سورج چوتھے آسمان پر ہے اور اس سے الگ کبھی نہیں ہوتا حمئۃ یا تو مشتق ہے حماۃ سے یعنی چکنی مٹی ۔ آیت قرآنی ( وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنِّىْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ 28؀ ) 15- الحجر:28 ) میں اس کا بیان گزر چکا ہے ۔ یہی مطلب ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سن کر حضرت نافع نے سنا کہ حضرت کعب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے تم ہم سے زیادہ قرآن کے عالم ہو لیکن میں تو کتاب میں دیکھتا ہوں کہ وہ سیاہ رنگ مٹی میں غائب ہوجاتا تھا ۔ ایک قرأت میں فی عین حامیۃ ہے یعنی گرم چشمے میں غروب ہونا پایا ۔ یہ دونوں قرأتیں مشہور ہیں اور دونوں درست ہیں خواہ کوئی سی قرأت پڑھے اور ان کے معنی میں بھی کوئی تفاوت نہیں کیونکہ سورج کی نزدیکی کی وجہ سے پانی گرم ہو اور وہاں کی مٹی کے سیاہ رنگ کی وجہ سے اس کا پانی کیچڑ جیسا ہی ہو ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ سورج کو غروب ہوتے دیکھ کر فرمایا اللہ کی بھڑکی آگ میں اگر اللہ کے حکم سے اس کی سوزش کم نہ ہوجاتی تو یہ تو زمین کی تمام چیزوں کو جھلس ڈالتا ۔ اس کی صحت میں نظر ہے بلکہ مرفوع ہونے میں بھی بہت ممکن ہے کہ یہ عبداللہ بن عمرو کا اپنا کلام ہو اور ان دو تھیلوں کی کتابوں سے لیا گیا ہو جو انہیں یرموک سے ملے تھے واللہ اعلم ۔ ابن حاتم میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سورہ کہف کی یہی آیت تلاوت فرمائی تو آپ نے ( عین حامیۃ ) پڑھا اس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہم تو حمئۃ پڑھتے ہیں ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا آپ کس طرح پڑھتے ہیں انہوں نے جواب دیا جس طرح آپ نے پڑھا ۔ اس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میرے گھر میں قرآن کریم نازل ہوا ہے ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت کعب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آدمی بھیجا کہ بتلاؤ سورج کہاں غروب ہوتا ہے ؟ تورات میں اس کے متعلق کچھ ہے ؟ حضرت کعب رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا کہ اسے عربیت والوں سے پوچھنا چاہئے ، وہی اس کے پورے عالم ہیں ۔ ہاں تورات میں تو میں یہ پاتا ہوں کہ وہ پانی اور مٹی میں یعنی کیچڑ میں چھپ جاتا ہے اور مغرب کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا ۔ یہ سب قصہ سن کرا بن حاضر نے کہا اگر میں اس وقت ہوتا تو آپ کی تائید میں تبع کے وہ دو شعر پڑھ دیتا جس میں اس نے ذو القرنین کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مشرق ومغرب تک پہنچا کیونکہ اللہ کے حکم نے اسے ہر قسم کے سامان مہیا فرمائے تھے اس نے دیکھا کہ سورج سیاہ مٹی جیسے کیچڑ میں غروب ہوتا نظر آتا ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا اس شعر میں تین لفظ ہیں خلب ، ثاط اور حرمد ۔ ان کے کیا معنی ہیں ؟ مٹی ، کیچڑا اور سیاہ ۔ اسی وقت حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے غلام سے یا کسی اور شخص سے فرمایا یہ جو کہتے ہیں لکھ لو ۔ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سورہ کہف کی تلاوت حضرت کعب رحمۃ اللہ علیہ نے سنی اور جب آپ نے حمئۃ پڑھا تو کہا کہ واللہ جس طرح تورات میں ہے اسی طرح پڑھتے ہوئے میں نے آپ ہی کو سنا تورات میں بھی یہی ہے کہ وہ سیاہ رنگ کیچڑ میں ڈوبتا ہے وہیں ایک شہر تھا جو بہت بڑا تھا اس کے بارہ ہزار دروازے تھے اگر وہاں شور غل نہ ہو تو کیا عجب کہ ان لوگوں کو سورج کے غروب ہونے کی آواز تک آئے وہاں ایک بہت بڑی امت کو آپ نے بستا ہوا پایا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس بستی والوں پر بھی انہیں غلبہ دیا اب ان کے اختیار میں تھا کہ یہ ان پر جبر وظلم کریں یا ان میں عدل وانصاف کریں ۔ اس پر ذوالقرنین نے اپنے عدل وایمان کا ثبوت دیا اور عرض کیا کہ جو اپنے کفر وشرک پر اڑا رہے گا اسے تو ہم سزا دیں گے قتل وغارت سے یا یہ کہ تانبے کے برتن کو گرم آگ کر کے اس میں ڈال دیں گے کہ وہیں اس کا مرنڈا ہو جائے یا یہ کہ سپاہیوں کے ہاتھوں انہیں بدترین سزائیں کرائیں گے واللہ اعلم ۔ اور پھر جب وہ اپنے رب کی طرف لوٹایا جائے گا تو وہ اسے سخت تر اور دردناک وعذاب کرے گا ۔ اس سے قیامت کے دن کا بھی ثبوت ہوتا ہے ۔ اور جو ایمان لائے ہماری توحید کی دعوت قبول کر لے اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت سے دست برداری کر لے اسے اللہ اپنے ہاں بہترین بدلہ دے گا اور خودہم بھی اس کی عزت افزائی کریں گے اور بھلی بات کہیں گے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

85۔ 1 دوسرے سبب کے معنی راستے کے کئے گئے ہیں یا یہ مطلب ہے کہ اللہ کے دیے ہوئے وسائل سے مزید وسائل تیار اور مہیا کئے، جس طرح اللہ کے پیدا کردہ لوہے سے مختلف قسم کے ہتھیار اور اسی طرح دیگر خام مواد سے بہت سی اشیاء بنائی جاتی ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَاَتْبَعَ سَبَبًا : ” تَبِعَ “ ساتھ گیا، ” أَتْبَعَ “ (افعال) ساتھ لے گیا، یعنی اس نے اپنے اقتدار کو مضبوط اور وسیع کرنے کے لیے اور پوری زمین پر اللہ کا کلمہ غالب کرنے کے لیے ایک لمبے سفر کی تیاری کی اور اس کے لیے درکار افواج، اسلحہ اور سامان سفر ساتھ لے کر مغرب کی طرف جہاد فی سبیل اللہ کے لیے نکل پڑا۔ راستے میں ہر مقابل کو زیر کرتا ہوا اور ہر رکاوٹ کو روندتا ہوا زمین کے اس حصے تک جا پہنچا جہاں تک اس وقت آبادی موجود تھی اور سفر ممکن تھا، اس سے آگے سمندر سے پہلے وسیع و عریض دلدلی علاقہ تھا، جس میں نہ خشکی کے ذرائع سے سفر ہوسکتا تھا، نہ بحری ذرائع سے۔ وہاں اس نے سورج غروب ہونے کا مشاہدہ کیا تو وہ اسے ایک کیچڑ والے چشمے میں غروب ہوتا ہوا نظر آیا، کیونکہ آگے سمندر کے اثر سے اور چشموں کی کثرت سے زمین دلدل اور کیچڑ بنی ہوئی تھی۔ جس طرح سمندر، صحرا یا میدان میں سے جو چیز بھی سامنے ہو سورج اسی میں غروب ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ بعض لوگوں نے جو اعتراض کیا ہے کہ قرآن کے بیان کے مطابق سورج کیچڑ والے چشمے میں غروب ہوتا ہے، انھوں نے غور ہی نہیں کیا کہ قرآن نے ذوالقرنین کا مشاہدہ بیان فرمایا ہے اور اب بھی دیکھنے والے کو ایسے ہی نظر آئے گا۔ اصل حقیقت دوسری جگہ بیان فرمائی ہے، فرمایا : (وَالشَّمْسُ تَجْرِيْ لِمُسْتَــقَرٍّ لَّهَا ) [ یٰس : ٣٨ ] ” اور سورج اپنے ایک ٹھکانے کے لیے چل رہا ہے۔ (جسے اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے) ۔ “- قُلْنَا يٰذَا الْقَرْنَيْنِ ۔۔ : یعنی مغرب کی طرف آبادی کے آخری حصے میں اس نے ایک قوم کو پایا تو ہم نے کہا کہ اے ذو القرنین تمہیں اختیار ہے، چاہو تو انھیں قتل، قید یا غلامی کی صورت میں یا جس طرح چاہو سزا دو ، یا ان کے بارے میں کوئی نیک سلوک اختیار کرو۔ - 3 اللہ تعالیٰ کے فرمان ” قُلْنَا يٰذَا الْقَرْنَيْنِ “ (ہم نے کہا اے ذو القرنین ) کو بعض مفسرین نے ذوالقرنین کے نبی ہونے کی دلیل قرار دیا ہے، مگر یہ الفاظ اس مفہوم کے لیے صریح نہیں ہیں، کیونکہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے ساتھ طالوت کی طرح کوئی نبی ہو، جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے اسے یہ پیغام دیا ہو، جیسے فرمایا : (فَقُلْنَا اضْرِبُوْهُ بِبَعْضِهَا ) [ البقرۃ : ٧٣ ] ” تو ہم نے کہا اس پر اس کا کوئی ٹکڑا مارو۔ “ یا اس قوم کو مکمل طور پر ذوالقرنین کے اختیار میں دینے کی حالت کو ان الفاظ میں ادا کیا گیا ہو، اس لیے اکثر سلف اس کے نبی ہونے کے قائل نہیں۔ البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اللہ کا نیک، مخلص اور مجاہد بندہ تھا، جس نے اپنے آرام کو چھوڑ کر ساری زندگی غلبۂ اسلام کے لیے جہاد میں صرف کردی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

فَاَتْبَعَ سَبَبًا مراد یہ ہے کہ سامان تو ہر قسم کے اور دنیا کے ہر خطہ میں پہنچنے کے ان کو دیدئیے گئے تھے انہوں نے سب سے پہلے جانب مغرب سفر کے سامان سے کام لیا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاَتْبَعَ سَبَبًا۝ ٨٥- تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك - قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] ، - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - سبب - السَّبَبُ : الحبل الذي يصعد به النّخل، وجمعه أَسْبَابٌ ، قال : فَلْيَرْتَقُوا فِي الْأَسْبابِ [ ص 10] ، والإشارة بالمعنی إلى نحو قوله : أَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ يَسْتَمِعُونَ فِيهِ فَلْيَأْتِ مُسْتَمِعُهُمْ بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [ الطور 38] ، وسمّي كلّ ما يتوصّل به إلى شيء سَبَباً ، قال تعالی: وَآتَيْناهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَباً فَأَتْبَعَ سَبَباً [ الكهف 84- 85] ، ومعناه : أنّ اللہ تعالیٰ آتاه من کلّ شيء معرفة، وذریعة يتوصّل بها، فأتبع واحدا من تلک الأسباب، وعلی ذلک قوله تعالی: لَعَلِّي أَبْلُغُ الْأَسْبابَ أَسْبابَ السَّماواتِ [ غافر 36- 37] ، أي : لعلّي أعرف الذرائع والأسباب الحادثة في السماء، فأتوصّل بها إلى معرفة ما يدعيه موسی، وسمّي العمامة والخمار والثوب الطویل سَبَباً «1» ، تشبيها بالحبل في الطّول . وکذا منهج الطریق وصف بالسّبب، کتشبيهه بالخیط مرّة، وبالثوب الممدود مرّة . والسَّبُّ : الشّتم الوجیع، قال : وَلا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] ، وسَبَّهُمْ لله ليس علی أنهم يَسُبُّونَهُ صریحا، ولکن يخوضون في ذكره فيذکرونه بما لا يليق به، ويتمادون في ذلک بالمجادلة، فيزدادون في ذكره بما تنزّه تعالیٰ عنه . وقول الشاعر :- فما کان ذنب بني مالک ... بأن سبّ منهم غلاما فسب - بأبيض ذي شطب قاطع ... يقطّ العظام ويبري العصب - «2» فإنه نبّه علی ما قال الآخر :- ونشتم بالأفعال لا بالتّكلّم - «1» والسِّبُّ : الْمُسَابِبُ ، قال الشاعر :- لا تسبّنّني فلست بسبّي ... إنّ سبّي من الرّجال الکريم «2»- والسُّبَّةُ : ما يسبّ ، وكنّي بها عن الدّبر، وتسمیته بذلک کتسمیته بالسّوأة . والسَّبَّابَةُ سمّيت للإشارة بها عند السّبّ ، وتسمیتها بذلک کتسمیتها بالمسبّحة، لتحريكها بالتسبیح .- ( س ب ب ) السبب - اصل میں اس رسی کو کہتے ہیں جس سے درخت خرما وغیرہ پر چڑھا ( اور اس سے اترا ) جاتا ہے اس کی جمع اسباب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَرْتَقُوا فِي الْأَسْبابِ [ ص 10] تو ان کو چاہیئے کہ سیڑ ھیاں لگا کر ( آسمان پر ) چڑ ہیں اور یہ معنوی لحاظ سے آیت : ۔ أَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ يَسْتَمِعُونَ فِيهِ فَلْيَأْتِ مُسْتَمِعُهُمْ بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [ الطور 38] یا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے کہ اس پر چڑھ کر ( آسمان سے باتیں ) سن آتے ہیں کے مضمون کی طرف اشارہ ہے پھر اسی مناسبت سے ہر اس شے کو سبب کہا جاتا ہے ۔ جو دوسری شے تک رسائی کا ذریعہ بنتی ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَآتَيْناهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَباً فَأَتْبَعَ سَبَباً [ الكهف 84- 85] اور اسے ہر قسم کے ذرائع بخشے سو وہ ایک راہ پر چلا ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ہر چیز کی معرفت اور سامان و ذرائع عطا کئے تھے جس کے ذریعہ وہ اپنے مقصود تک پہنچ سکتا تھا ۔ چناچہ اس نے ایک ذریعہ اختیار کیا اور آیت کریمہ : ۔ لَعَلِّي أَبْلُغُ الْأَسْبابَ أَسْبابَ السَّماواتِ [ غافر 36- 37] تاکہ جو آسمان تک پہنچنے کے ذرائع ہیں ہم ان تک جا پہنچیں ۔ میں بھی اسباب سے مراد ذرائع ہی ہیں یعنی تاکہ ہم ان اسباب و ذرائع کا پتہ لگائیں جو آسمان میں پائے جاتے ہیں اور ان سے موسٰی کے مزعومہ خدا کے متعلق معلومات حاصل کریں اور عمامہ دوپٹہ اور ہر لمبے کپڑے کو طول میں رسی کے ساتھ تشبیہ دے کر بھی سبب کہا جاتا ہے اسی جہت سے شاہراہ کو بھی سبب کہہ دیا جاتا ہے جیسا کہ شاہراہ کو بھی خیط ( تاگا ) اور کبھی محدود کپڑے کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے : ۔ السبب ( مصدر ن ) کے معنی مغلظات اور فحش گالی دینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] تو جو لوگ خدا کے سوا ( دوسرے ) معبودوں کو حاجت روائی کے لئے بلایا ( یعنی ان کی پرشش کیا کرتے ہیں ) ان کو برا نہ کہو کہ یہ لوگ بھی ازراہ نادانی ناحق خدا کو برا کہہ بیٹھیں گے ۔ ان کے اللہ تعالیٰ کو گالیاں دینے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ صریح الفاظ میں اللہ تعالیٰ کو گالیاں دیں گے ۔ کیونکہ اس طرح مشرک بھی نہیں کرتا بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ جوش میں آکر شان الہی میں گستاخی کریں گے اور ایسے الفاظ استعمال کریں گے جو اس کی ذات کے شایاں شان نہیں جیسا کہ عام طور پر مجادلہ کے وقت ہوتا ہے کسی شاعر نے کہا ہے ۔ 220 ۔ فما کان ذنب بني مالک ... بأن سبّ منهم غلاما فسبّ 221 ۔ بأبيض ذي شطب قاطع ... يقطّ العظام ويبري العصببنی مالک کا صرف اتنا گناہ ہے کہ ان میں سے ایک لڑکے کو بخل پر عار دلائی گئی اور اس نے عار کے جواب میں سفید دھاری دار قاطع تلوار سے اپنی موٹی اونٹنیوں کو ذبح کر ڈالا جو ہڈیوں کو کاٹ ڈالتی ہو اور قصب یعنی بانس کو تراش دیتی ہو ۔ ان اشعار میں اس مضمون کی طرف اشارہ ہے جس کو دوسرے شاعر نے یوں ادا کیا ہے کہ ونشتم بالأفعال لا بالتّكلّمکہ ہم زبان کی بجائے افعال سے گالی دیتے ہیں ۔ اور سب ( فعل ) بمعنی دشنام دہندہ کیلئے آتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ لا تسبّنّني فلست بسبّي ... إنّ سبّي من الرّجال الکريم «2»مجھے گالی نہ دو تم مجھے گالی دینے کے لائق نہیں ہو کیونکہ نہایت شریف درجہ کا آدمی ہی مجھے گالی دے سکتا ہے ۔ السبۃ ہر وہ چیز جو عار و ننگ کی موجب ہو اور کنایہ کے طور پر دبر کو بھی سبۃ کہا جاتا ہے ۔ جیسا کہ اسے سوءۃ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ السبابۃ انگشت شہادت یعنی انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی کیونکہ گالی دیتے وقت اس کے ساتھ اشارہ کیا جاتا ہے جیسا کہ اس انگلی کو مسبحۃ ( انگشت شہادت ) کہا جاتا ہے کیونکہ تسبیح کے وقت اشارہ کے لئے اسے اوپر اٹھایا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani