87۔ 1 یعنی جو کفر و شرک پر جما رہے گا، اسے ہم سزا دیں گے یعنی پچھلی غلطیوں پر مواخذہ نہیں ہوگا۔
[٧٣] ذوالقرنین کا مغربی قوم سے سلوک :۔ چناچہ ذوالقرنین نے دوسری راہ اختیار کی کہ اس قوم کو پوری طرح سمجھایا جائے اور انھیں اسلام کی دعوت دی جائے اور یہ فیصلہ کیا کہ اس کے نتیجہ میں جو لوگ اکڑ جائیں گے اور ظالموں کی روش اختیار کریں گے ہم صرف انھیں ہی سزا دیں گے اور انھیں سے سختی کا برتاؤ کریں گے پھر موت کے بعد جب ایسا آدمی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہوگا تو وہ اسے سخت عذاب بھی دے گا لیکن جو لوگ اس دعوت کو قبول کرلیں گے اور اپنا طرززندگی بدل کر نیک کام کرنے لگیں گے ان کو اللہ کے ہاں اچھا اجر ملے گا اور ہم بھی ان سے نرمی کا برتاؤ کریں گے جیسا کہ ہر عادل بادشاہ کی یہ صفت ہوتی ہے کہ وہ غلبہ پانے کے بعد بدکردار لوگوں سے سختی سے پیش آتے ہیں اور بھلے لوگوں سے مہربانی کرتے اور ان سے مہربانی سے پیش آتے ہیں۔
قَالَ اَمَّا مَنْ ظَلَمَ ۔۔ : ذوالقرنین نے اپنی فتح و قوت کے نشے میں آکر سب کو تہ تیغ کرنے یا غلام بنانے کے بجائے ہر ایک سے وہ سلوک کرنے کا اظہار کیا جس کے وہ لائق تھا۔ ” قَالَ اَمَّا مَنْ ظَلَمَ “ (جو شخص ظلم کرے گا) سے مراد کفار و مشرکین ہیں۔ دیکھیے سورة انعام (٨٢) اس کا ایک قرینہ یہ ہے کہ ان کے مقابلے میں ایمان اور عمل صالح والوں کا ذکر ہے، یعنی کفار و مشرکین میں سے ہر ایک سے اس کے حسب حال سخت سزا کا سلوک کروں گا، جنگ پر آمادہ لوگوں کو قتل اور قید کروں گا اور غلام بناؤں گا۔ دوسروں سے جزیہ لے کر غلام بنا کر رکھوں گا، پھر قیامت کے دن وہ اپنے کفر و شرک کی بہت بری سزا پائیں گے۔ رہے ایمان اور عمل صالح والے تو ان کے لیے بدلے میں بھلائی ہی بھلائی ہے اور ہم ان کے ساتھ اپنے تمام معاملات میں آسانی کا سلوک کریں گے۔ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اپنی جنگوں میں اسی پر عمل فرمایا۔
قَالَ اَمَّا مَنْ ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُہٗ ثُمَّ يُرَدُّ اِلٰى رَبِّہٖ فَيُعَذِّبُہٗ عَذَابًا نُّكْرًا ٨٧- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - رد - الرَّدُّ : صرف الشیء بذاته، أو بحالة من أحواله، يقال : رَدَدْتُهُ فَارْتَدَّ ، قال تعالی: وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] - ( رد د ) الرد ( ن )- اس کے معنی کسی چیز کو لوٹا دینے کے ہیں خواہ ذات شے کہ لوٹا یا جائے یا اس کی حالتوں میں سے کسی حالت کو محاورہ ہے ۔ رددتہ فارتد میں نے اسے لوٹا یا پس وہ لوٹ آیا ۔ قرآن میں ہے :۔- وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] ( مگر بکے ) لوگوں سے اس کا عذاب تو ہمیشہ کے لئے ٹلنے والا ہی نہیں ۔ - نكر - الإِنْكَارُ : ضِدُّ العِرْفَانِ. يقال : أَنْكَرْتُ كذا، ونَكَرْتُ ، وأصلُه أن يَرِدَ علی القَلْبِ ما لا يتصوَّره، وذلک ضَرْبٌ من الجَهْلِ. قال تعالی: فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ- [هود 70] ، فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58]- وقد يُستعمَلُ ذلک فيما يُنْكَرُ باللّسانِ ، وسَبَبُ الإِنْكَارِ باللّسانِ هو الإِنْكَارُ بالقلبِ لکن ربّما يُنْكِرُ اللّسانُ الشیءَ وصورتُه في القلب حاصلةٌ ، ويكون في ذلک کاذباً. وعلی ذلک قوله تعالی: يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل 83] ، فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ- ( ن ک ر )- الانکار ضد عرفان اور انکرت کذا کے معنی کسی چیز کی عدم معرفت کے ہیں اس کے اصل معنی انسان کے دل پر کسی ایسی چیز کے وارد ہونے کے ہیں جسے وہ تصور میں نہ لاسکتا ہو لہذا یہ ایک درجہ جہالت ہی ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ [هود 70] جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہین جاتے ( یعنی وہ کھانا نہین کھاتے ۔ تو ان کو اجنبی سمجھ کر دل میں خوف کیا ۔ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58] تو یوسف (علیہ السلام) کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ اس کو نہ پہچان سکے ۔ اور کبھی یہ دل سے انکار کرنے پر بولا جاتا ہے اور انکار لسانی کا اصل سبب گو انکار قلب ہی ہوتا ہے ۔ لیکن بعض اوقات انسان ایسی چیز کا بھی انکار کردیتا ہے جسے دل میں ٹھیک سمجھتا ہے ۔ ایسے انکار کو کذب کہتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ۔ يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل 83] یہ خدا کی نعمتوں سے واقف ہیں مگر واقف ہوکر ان سے انکار کرتے ہیں ۔ فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [ المؤمنون 69] اس وجہ سے ان کو نہیں مانتے ۔
آیت ٨٧ (قَالَ اَمَّا مَنْ ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُهٗ ثُمَّ يُرَدُّ اِلٰى رَبِّهٖ فَيُعَذِّبُهٗ عَذَابًا نُّكْرًا)- یہاں ظلم سے مراد کفر اور شرک بھی ہوسکتا ہے۔