Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اصحاف کہف اصحاف کہف کا قصہ اجمال کے ساتھ بیان ہو رہا ہے پھر تفصیل کے ساتھ بیان ہو گا فرماتا ہے کہ وہ واقعہ ہماری قدرت کے بیشمار واقعات میں سے ایک نہایت معمولی واقعہ ہے ۔ اس سے بڑے بڑے نشان روز مرہ تمہارے سامنے ہیں آسمان زمین کی پیدائش رات دن کا آنا جانا سورج چاند کی اطاعت گزاری وغیرہ قدرت کی ان گنت نشانیاں ہیں جو بتلایا رہی ہیں کہ اللہ کی قدرت بے انداز ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے اس پر کوئی مشکل نہیں اصحاب کہف سے تو کہیں زیادہ تعجب خیز اور اہم نشان قدرت تمہارے سامنے دن رات موجود ہیں کتاب و سنت کا جو علم میں نے تجھے عطا فرمایا ہے وہ اصحاب کہف کی شان سے کہیں زیادہ ہے ۔ بہت سی حجتیں میں نے اپنے بندوں پر اصحاب کہف سے زیادہ واضح کر دی ہیں کہف کہتے ہیں پہاڑی غار کو وہیں یہ نوجوان چھپ گئے تھے رقیم یا توایلہ کے پاس کی وادی کا نام ہے یا ان کی اس جگہ کی عمارت کا نام ہے یہ کسی آبادی کا نام ہے یا اس پہاڑ کا نام ہے اس پہاڑ کا نام نجلوس بھی آیا ہے غار کا نام حیزوم کہا گیا ہے اور ان کے کتے کا نام حمران بتایا گیا ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سارے قرآن کو میں جانتا ہوں لیکن لفظ حنان اور لفظ اواہ اور لفظ رقیم کو ۔ مجھے نہیں معلوم کہ رقیم کسی کتاب کا نام ہے یا کسی بنا کا ۔ اور روایت میں آپ سے مروی ہے کہ وہ کتاب ہے ۔ سعید کہتے ہیں کہ یہ پتھر کی ایک لوح تھی جس پر اصحاب کہف کا قصہ لکھ کر غار کے دروازے پر اسے لگا دیا گیا تھا ۔ عبد الرحمن کہتے ہیں قرآن میں ہے کتاب مرقوم پس آیت کے ظاہری الفاظ تو اس کی تائید کرتے ہیں اور یہی امام ابن جریر رضی اللہ عنہ کا مختار قول ہے کہ رقیم فعیل کے زون پر مرقوم کے معنی میں ہے جیسے مقتول قتیل اور مجروح جریح واللہ اعلم ۔ یہ نوجوان اپنے دین کے بچاؤ کیلئے اپنی قوم سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے کہ کہیں وہ انہیں دین سے بہکا نہ دیں ایک پہاڑ کے غار میں گھس گئے اور اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ ہمیں اپنی جانب سے رحمت عطا فرما ہمیں اپنی قوم سے چھپائے رکھ ۔ ہمارے اس کام میں اچھائی کا انجام کر ۔ حدیث کی ایک دعا میں ہے کہ اللہ اے اللہ جو فیصلہ تو ہمارے حق میں کرے اسے انجام کے لحاظ سے بھلا کر ۔ مسند میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعا میں عرض کرتے کہ اے اللہ ہمارے تمام کاموں کا انجام اچھا کر اور ہمیں دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذابوں سے بچا لے ۔ یہ غار میں جا کر جو پڑ کر سوئے تو برسوں گزر گئے پھر ہم نے انہیں بیدار کیا ایک صاحب درہم لے کر بازار سے سودا خریدنے چلے ؟ اسے ہم بھی معلوم کریں ۔ امد کے معنی عدد یا گنتی کے ہیں اور کہا گیا ہم کہ غایت کے معنی میں بھی یہ لفظ آیا ہے جیسے کہ عرب کے شاعروں نے اپنے شعروں میں اسے غایت کے معنی میں باندھا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

9۔ 1 یعنی یہ واحد بڑی اور عجیب نشانی نہیں ہے۔ بلکہ ہماری ہر نشانی ہی عجیب ہے۔ یہ آسمان و زمین کی پیدائش اور اس کا نظام، شمس و قمر اور کواکب کی تسخیر، رات اور دن کا آنا جانا اور دیگر بیشمار نشانیاں، کیا تعجب انگیز نہیں ہیں۔ کَھْف اس غار کو کہتے ہیں جو پہاڑ میں ہوتا ہے۔ رقیم، بعض کے نزدیک اس بستی کا نام ہے جہاں سے یہ نوجوان گئے تھے، بعض کہتے ہیں اس پہاڑ کا نام ہے جس میں غار واقع تھا بعض کہتے ہیں رَقِیْم بمعنی مَرْقُوْم ہے اور یہ ایک تختی ہے لوہے یا سیسے کی، جس میں اصحاب کہف کے نام لکھے ہوئے ہیں۔ اسے رقیم اس لئے کہا گیا ہے کہ اس پر نام تحریر ہیں۔ حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا کہ پہلی بات زیادہ صحیح ہے۔ جس پہاڑ میں یہ غار واقع ہے اس کے قریب ہی ایک آبادی ہے جسے اب الرقیب کہا جاتا ہے جو مرور زمانہ کے سبب الرقیم کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨] قریش مکہ کے تین تاریخی سوال :۔ اس تمہید کے بعد اب کفار مکہ کے ان سوالوں کے جوابات کا آغاز ہو رہا ہے جو انہوں نے اہل کتاب سے پوچھ کر اور ان کے مشورہ سے آپ سے پوچھے تھے کفار مکہ دراصل یہ چاہتے تھے کہ وہ آپ سے قرون گذشتہ کے متعلق کچھ ایسے تاریخی سوال کریں جن کا کم از کم مشرکین مکہ اور عام اہل عرب کو کچھ علم نہ تھا۔ چناچہ انہوں نے اس معاملہ میں اہل کتاب کے عالموں سے مدد لی۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ آپ سے ایسے سوال کرنے سے پتہ چل جائے گا کہ آیا یہ شخص فی الواقع نبی ہے یا نہیں۔ اگر یہ جواب نہ دے سکے تو اس کا جھوٹا ہونا ثابت ہوجائے گا اور اگر درست جواب دے دے تو معلوم ہوجائے گا کہ اس کے پاس واقعی کوئی علم غیب کا ذریعہ موجود ہے۔ گویا ان سوالوں سے دراصل ان کا مقصود آپ کی نبوت کا امتحان تھا چناچہ اہل کتاب نے جو سوالات قریش مکہ کو بتائے ان میں سرفہرست اصحاب کہف کا قصہ تھا پھر دوسرے نمبر پر قصہ موسیٰ و خضر اور تیسرے نمبر پر ذوالقرنین کا قصہ تھا۔ بعض روایات کے مطابق دوسرا سوال قصہ موسیٰ و خضر کے بجائے روح کے متعلق تھا جس کا ذکر پہلے سورة بنی اسرائیل میں گذر چکا ہے یہ بات اس لیے درست معلوم نہیں ہوتی کہ ان دونوں سورتوں کے نزول کے درمیان ایک طویل مدت ہے۔ ترتیب نزولی کے لحاظ سے سورة بنی اسرائیل کا نمبر ٥٠ جبکہ اس سورة کا نمبر ٦٩ ہے علاوہ ازیں اس سورة میں ان ہی تین قصوں کا ذکر آیا ہے۔- اللہ تعالیٰ نے ان تین سوالوں کا جواب ہی نازل نہیں فرمایا بلکہ ایسے امور کی بھی ساتھ ساتھ وضاحت کردی ہے جو انسانی ہدایت کے لیے نہایت ضروری ہیں جیسا کہ قرآن کریم کے انداز بیان کا خاصہ ہے علاوہ ازیں ان قصوں کو اس انداز سے بیان کیا گیا ہے کہ جو بہت حد تک قریش مکہ کے حالات سے مطابقت رکھتے تھے۔- کہف اور رقیم کے معنی :۔ کہف کسی پہاڑ کی اس کھوہ کو کہتے ہیں جو کھلی اور کشادہ ہو اور اگر تنگ ہو تو اسے غار کہتے ہیں اور رقیم، مرقوم کے معنوں میں ہے یعنی یہ اصحاب کہف یک دم معاشرہ سے غائب ہوگئے اور تلاش بسیار کے باوجود ان کا پتہ نہ چل سکا تو ان سرکاری مفرور مجرموں کے نام اور پتے قلمبند کرلیے گئے جو مدتوں حکومت کے ریکارڈ میں رہے اور بعض لوگوں کے خیال کے مطابق یہ نام اس وقت ریکاڑد کیے گئے تھے جب لوگوں کو ان کا پتہ چل گیا ان کا چرچا عام ہوا اور یہ لوگ دوبارہ اس غار میں داخل ہوگئے تو لوگوں نے ان کے نام اور پتے وغیرہ لکھ کر غار سے باہر کتبہ لگا دیا اور ان کے مختصر حالات بھی درج کردیئے گئے۔- غار والوں کا قصہ چونکہ بعث بعد الموت پر ایک واضح دلیل اور خرق عادت امر تھا لہذا اس قصہ کا آغاز ہی اس جملہ سے کیا گیا کہ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ قصہ اللہ تعالیٰ کی حیران کن نشانیوں میں سے ایک بڑی اہم نشانی تھی ؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دوسری نشانیاں اس واقعہ سے بہت زیادہ حیران کن ہیں جو کائنات میں ہر سو بکھری ہوئی ہیں اور خود ان کی اپنی جانوں کے اندر بھی موجود ہیں۔ بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ جو کچھ پہلے تخلیق کرچکا ہے اس کے مقابلے میں بعث بعدالموت اس کے لیے بہت آسان اور حقیر چیز ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ۭاَمْ حَسِبْتَ ۔۔ :” الْكَهْفِ “ پہاڑ میں وسیع غار۔ ” الرَّقِيْمِ “ بمعنی ” مَرْقُوْمٌ“ یعنی لکھی ہوئی تختی یا سل یا کتاب والے۔ ان لوگوں کو ” اصحاب الرقیم “ اس لیے کہتے ہیں کہ جب وہ اچانک غائب ہوگئے اور بہت تلاش کے باوجود نہ ملے تو ان کے نام ایک تختی یا سل پر لکھ کر خزانے میں محفوظ کردیے گئے، یا یہ کہ ان کے پاس شریعت کے احکام پر مشتمل لکھی ہوئی کتاب تھی۔ (شنقیطی) یا یہ کہ ان کے جاگنے کے بعد لوگوں نے غار پر ایک تختی نصب کردی جس پر ان کے نام لکھے ہوئے تھے۔ ۭاَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ ۔۔ : اس آیت کی تفسیر جو اکثر مفسرین، مثلاً طبری، ابن کثیر، شنقیطی (رح) نے کی ہے، یہ ہے کہ ” اَمْ “ منقطعہ انکار کے لیے ہے۔ شنقیطی (رض) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے فرما رہے ہیں کہ کیا تم نے اصحاب کہف کے قصے کو ہماری نشانیوں میں بڑی عجیب نشانی سمجھ لیا ہے۔ بیشک لوگ اسے بہت بڑی اور عجیب بات سمجھیں، مگر یہ ہماری قدرت اور عظیم نشانیوں کے سامنے کچھ عجیب نہیں، کیونکہ ہمارا آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کرنا، پھر زمین میں اس کی زینت کی ہر چیز پیدا کرنا، پھر قیامت کے دن اسے چٹیل میدان بنادینا اصحاب کہف کے معاملے سے بہت زیادہ عجیب ہے، جنھیں ہم نے تین سو نو (٣٠٩) سال سلائے رکھا، پھر دوبارہ اٹھا دیا۔ اس کی دلیل بہت سی آیات ہیں، ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کے ذکر سے پہلے زمین اور اس کی زینت پیدا کرنے، پھر اسے چٹیل میدان بنانے کا ذکر فرمایا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ قصہ ان چیزوں کے مقابلے میں کچھ عجیب نہیں جو اس سے کہیں بڑی ہیں۔ قرآن مجید میں بہت سی جگہ لوگوں کو توجہ دلائی گئی ہے کہ آسمان و زمین کو پیدا کرنا لوگوں کو پیدا کرنے سے بہت بڑی بات ہے، جیسا کہ فرمایا : (لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ) [ المؤمن : ٥٧ ] ” یقیناً آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کرنا لوگوں کو پیدا کرنے سے بہت بڑا ہے۔ “ اور دیکھیے نازعات (٢٧ تا ٣٣) یاد رہے کہ ” اصحاب کہف “ اور ” اصحاب رقیم “ ایک ہی گروہ کے نام ہیں اور صحیح بخاری میں مذکور غار کے اندر پناہ لینے والے تین آدمیوں کا اس واقعہ سے تعلق بہت بعید ہے، جن میں سے ایک والدین سے حسن سلوک کرنے والا، ایک پاک دامن رہنے والا اور ایک اجرت پر مزدور رکھنے والا تھا۔ اور یہ بات یاد رکھیں کہ اصحاب کہف کے قصے، ان کے ناموں اور یہ کہ وہ زمین کے کس حصے میں تھے ؟ اس سب سے متعلق نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے علاوہ کوئی بات ثابت نہیں جو قرآن سے زائد ہو۔ مفسرین نے ان کے متعلق بہت سی اسرائیلی روایات بیان کی ہیں جن کے قابل اعتماد نہ ہونے کی وجہ سے ہم نے ان کی طرف توجہ نہیں کی۔ “ (شنقیطی ملخصاً )- ایک اور تفسیر جو پہلی تفسیر کے علاوہ صاحب روح المعانی اور ابن عاشور ; وغیرہ نے ذکر فرمائی ہے، یہ ہے کہ ” حِسْبَانٌ“ گمان اور علم دونوں معنوں میں آتا ہے، ہاں ” اَم “ انکار کے لیے نہیں بلکہ تقریری ہے، یعنی یہ بتانے کے لیے ہے کہ یقیناً یہ لوگ واقعی عجیب تھے۔ گویا یہ کہا گیا : ” اِعْلَمْ أَنَّھُمْ عَجَبٌ“ ” جان لے کہ یقیناً وہ لوگ بڑے عجیب تھے۔ “ جیسا کہ تم کہتے ہو : ” أَعَلِمْتَ أَنَّ فُلاَنًا فَعَلَ کَذَا “ ” کیا تمہیں معلوم ہے کہ فلاں نے اس طرح کیا۔ “ یعنی یقیناً اس نے اس طرح کیا ہے۔ ان مفسرین کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے واقعے کا عجیب ہونا ذکر کرنے کے بعد تفصیل سے واقعہ بیان کر رہے ہیں، تاکہ مخاطب کو سننے کا شوق پیدا ہوجائے۔ یہ تفسیر بھی ہوسکتی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

تشریح اللغات :- کہف، پہاڑی غار جو وسیع ہو اس کو کہف کہتے ہیں، جو وسیع نہ ہو اس کو غار کہا جاتا ہے، رقیم، لفظی اعتبار سے بمعنے المرقوم ہے، یعنی لکھی ہوئی چیز اس مقام پر اس سے کیا مراد ہے، اس میں مفسرین کے اقوال مختلف ہیں، ضحاک اور سدی اور ابن جبیر (رض) بروایت ابن عباس (رض) اس کے معنی ایک لکھی ہوئی تختی کے قرار دیتے ہیں، جس پر بادشاہ وقت نے اصحاب کہف کے نام کندہ کر کے غار کے دروازہ پر لگا دیا تھا، اسی وجہ سے اصحاب کہف کو اصحاب الرقیم بھی کہا جاتا ہے، قتادہ، عطیہ، عوفی، مجاہد کا قول یہ ہے کہ رقیم اس پہاڑ کے نیچے کی وادی کا نام ہے جس میں اصحاب کہف کا غار تھا، بعض نے خود اس پہاڑ کو رقیم کہا ہے، حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ رقیم کسی لکھی ہوئی تختی کا نام ہے یا کسی بستی کا، کعب احبار، وہب بن منبہ حضرت ابن عباس (رض) سے یہ روایت کرتے ہیں کہ رقیم، ایلہ یعنی عقبہ کے قریب ایک شہر کا نام ہے جو بلاد روم میں واقع ہے۔- فتیۃ، فتی کی جمع ہے، جس کے معنی ہیں نوجوان۔- (آیت) فَضَرَبْنَا عَلٰٓي اٰذَانِهِمْ کے لفظی معنی کانوں کو بند کردینے کے ہیں، غفلت کی نیند کو ان الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے، کیونکہ نیند کے وقت سب سے پہلے آنکھ بند ہوتی ہے، مگر کان اپنا کام کرتے رہتے ہیں، آواز سنائی دیتی ہے، جب نیند مکمل اور غالب ہوجاتی ہے تو کان بھی اپنا کام چھوڑ دیتے ہیں، اور پھر بیداری میں سب سے پہلے کان اپنا کام شروع کرتے ہیں کہ آواز سے سونے والا چونکتا ہے پھر بیدار ہوتا ہے۔- خلاصہ تفسیر :- کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ غار والے اور پہاڑ والے (یہ دونوں ایک ہی جماعت کے لقب ہیں) ہماری عجائبات (قدرت) میں سے کپھ تعجب کی چیز تھے (جیسا کہ یہود نے کہا تھا کہ ان کا واقعہ عجیب ہے، یا خود ہی سوال کرنے والے کفار قریش نے اس کو عجیب سمجھ کو سوال کیا تھا، اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب بنا کر دوسروں کو سنانا مقصود ہے کی یہ واقعہ بھی اگرچہ عجیب ضرور ہے مگر اللہ تعالیٰ کی دوسری عجائبات قدرت کے مقابلہ میں ایسا قابل تعجب نہیں جیسا ان لوگوں نے سمجھا ہے، کیونکہ زمین و آسمان اور چاند و سورج اور تمام کائنات زمین و آسمان کو عدم سے وجود میں لانا اصل عجائب نہیں، اس تمہید کے بعد اصحاب کہف کا قصہ اس طرح بیان فرمایا اور) وہ وقت قابل ذکر ہے جبکہ ان نوجوانوں کے (ایک بےدین بادشاہ کی گرفت سے بھاگ کر) اس غار میں (جس کا قصہ آگے آتا ہے) جا کر پناہ لی پھر (اللہ تعالیٰ سے اس طرح دعا مانگی) کہا کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو اپنے پاس سے رحمت کا سامان عطا فرمائیے اور ہمارے (اس) کام میں درستی کا سامان مہیا کر دیجئے (غالبا رحمت سے مراد حصول مقصود ہے اور درستی کے سامان سے مراد وہ اسباب و مقدمات ہیں جو حصول مقصد کے لئے عادۃ ضروری ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو قبول فرمایا، اور ان کی حفاظت اور تمام پریشانیوں سے نجات دینے کی صورت اس طرح بیان فرمائی کہ) سو ہم نے اس غار میں ان کے کانوں پر سالہا سال تک نیند کا پردہ ڈال دیا پھر ہم نے ان کو (نیند سے) اٹھایا تاکہ ہم (ظاہری طور پر بھی) معلوم کرلیں کہ (غار میں رہنے کی مدت میں بحث و اختلاف کرنے والوں میں سے) کونسا گروہ ان کے رہنے کی مدت سے زیادہ واقف تھا (نیند سے بیدار ہونے کے بعد ان میں ایک گروہ کا قول تو یہ تھا کہ ہم پورا دن یا کچھ حصہ ایک دن کا سوئے ہیں، دوسرے گروہ نے کہا کہ اللہ ہی جانتا ہے کہ تم کتنے دن سوتے رہے، آیت میں اشارہ اسی طرف ہے کہ یہ دوسرا گروہ ہی زیادہ حقیقت شناس تھا، جس نے مدت کی تعیین کو اللہ کے حوالہ کیا، کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہ تھی)- معارف و مسائل :- قصہ اصحاب کہف و رقیم :- اس قصہ میں چند مباحث ہیں، اول یہ کہ اصحاب کہف و اصحاب رقیم ایک ہی جماعت کے دو نام ہیں، یا یہ الگ الگ دو جماعتیں ہیں، اگرچہ کسی صحیح حدیث میں اس کی کوئی تصریح نہیں، مگر امام بخاری نے اپنی کتاب صحیح میں اصحاب الکہف اور اصحاب الرقیم دو عنوان الگ الگ دئیے، پھر اصحاب الرقیم کے تحت وہ مشہور قصہ تین شخصوں کے غار میں بند ہوجانے پھر دعاؤں کے ذریعہ راستہ کھل جانے کا ذکر کیا ہے، جو تمام کتب حدیث میں مفصل موجود ہے، امام بخاری کی اس صنیع سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان کے نزدیک اصحاب کہف ایک جماعت ہے، اور اصحاب رقیم ان تین شخصوں کو کہا گیا ہے جو کسی زمانے میں چھپے تھے، پھر پہاڑ سے ایک بڑا پتھر اس غار کے دہانے پر آ گرا جس سے غار بالکل بند ہوگیا، ان کے نکلنے کا راستہ نہیں رہا، ان تینوں سے اپنے اپنے خاص نیک اعمال کا واسطہ کر کے اللہ سے دعا کی کہ یہ کام اگر ہم نے خالص آپ کی رضا کے لئے کیا تھا تو اپنے فضل سے ہمارا راستہ کھول دے، پہلے شخص کی دعا سے پتھر کچھ سرک گیا، روشنی آنے لگی، دوسرے کی دعا سے اور زیادہ سرکا، پھر تیسرے کی دعا سے راستہ بالکل کھل گیا۔- لیکن حافظ ابن حجر نے شرح بخاری میں یہ واضح کیا کہ ازروئے روایت حدیث اس کی کوئی صریح دلیل نہیں ہے کہ اصحاب رقیم مذکورہ تین شخصوں کا نام ہے، بات صرف اتنی ہے کہ واقعہ غار کے ایک راوی حضرت نعمان بن بشیر (رض) کی روایت میں بعض راویوں نے یہ اضافہ نقل کیا ہے کہ حضرت نعمان بن بشیر (رض) نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رقیم کا ذکر کرتے ہوئے سنا آپ غار میں بند رہ جانے والے تین آدمیوں کا واقعہ سنا رہے تھے، یہ اضافہ فتح الباری میں بزار اور طبرانی کی روایت سے نقل کیا ہے، مگر اول تو اس حدیث کے عام راویوں کی روایات جو صحاح ستہ اور حدیث کی دوسری کتابوں میں مفصل موجود ہیں، ان میں کسی نے حضرت نعمان بن بشیر (رض) کا یہ جملہ نقل نہیں کیا، خود بخاری کی روایت بھی اس جملے سے خالی ہے، پھر اس جملے میں بھی اس کی تصریح نہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غار میں بند ہونے والے ان تین شخصوں کو اصحاب الرقیم فرمایا تھا، بلکہ الفاظ یہ ہیں کہ آپ رقیم کا ذکر فرما رہے تھے، اس ضمن میں ان تین شخصوں کا ذکر فرمایا، لفظ رقیم کی مراد کے متعلق صحابہ وتابعین اور عام مفسرین میں جو اختلاف اقوال اوپر نقل کیا گیا ہے وہ خود اس کی دلیل ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے رقیم کی کوئی مراد متعین کرنے کے بارے میں کوئی روایت حدیث نہیں تھی، ورنہ کیسے ممکن تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک لفظ کی مراد خود متعین فرما دیں، پھر صحابہ وتابعین اور دوسرے مفسرین اس کے خلاف کوئی قول اختیار کریں، اسی لئے حافظ ابن حجر شارح بخاری نے اصحاب کہف و رقیم کے دو الگ الگ جماعتیں ہونے سے انکار فرمایا، اور صحیح یہ قرار دیا کہ یہ دونوں ایک ہی جماعت کے نام ہیں، غار میں بند ہوجانے والے تین شخصوں کا ذکر رقیم کے ذکر کے ساتھ آ گیا ہو تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہی تین شخص اصحاب الرقیم تھے۔- حافظ ابن حجر نے اس جگہ یہ بھی واضح کردیا کہ قرآن نے جو قصہ اصحاب کہف کا بیان کیا ہے اس کا سیاق خود یہ بتلا رہا ہے کہ اصحاب کہف و رقیم ایک ہی جماعت ہے، یہی وجہ ہے کہ جمہور مفسرین اور محدثین ان دونوں کے ایک ہی ہونے پر متفق ہیں۔- دوسرا مسئلہ اس جگہ خود اس قصے کی تفصیلات کا ہے جس کے دو حصے ہیں ایک وہ جو اس قصہ کی روح اور اصل مقصود ہے، جس سے یہود کے سوال کا جواب بھی ملتا ہے اور مسلمانوں کے لئے ہدایات و نصائح بھی، دوسرا حصہ وہ ہے جس کا تعلق اس قصہ کی صرف تاریخی اور جغرافیائی حیثیت سے ہے، بیان مقصود میں اس کا کوئی خاص دخل نہیں، مثلا یہ قصہ کس زمانے میں اور کس شہر اور بستی میں پیش آیا، جس کافر بادشاہ سے بھاگ کر ان لوگوں نے غار میں پناہ لی تھی وہ کون تھا، اس کے کیا عقائد و خیالات تھے، اور اس نے ان لوگون کے ساتھ کیا معاملہ کیا جس سے یہ بھاگنے اور غار میں چھپنے پر مجبور ہوگئے، پھر یہ کہ ان لوگوں کی تعداد کیا تھی، اور زمانہ دراز تک سونے رہنے کا کل زمانہ کتنا تھا، اور پھر یہ لوگ اب تک زندہ ہیں یا مر گئے۔- قرآن حکیم نے اپنے حکیمانہ اصول اور اسلوب خاص کے تحت سارے قرآن میں ایک قصہ یوسف (علیہ السلام) کے سوا کسی قصے کو پوری تفصیل اور ترتیب سے بیان نہیں کیا، جو عام تاریخی کتابوں کا طریقہ ہے، بلکہ ہر قصے کے صرف وہ اجزا موقع بموقع بیان فرمائے ہیں جن سے انسانی ہدایات اور تعلیمات کا تعلق تھا۔ (قصہ یوسف (علیہ السلام) کو اس اسلوب سے مستثنی کرنے کی وجہ سورة یوسف کی تفسیر میں گزر چکی ہے) ۔ - قصہ اصحاب کہف میں بھی یہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ قرآن میں اس کے صرف وہ اجزاء بیان کئے گئے جو مقصود اصلی سے متعلق تھے، باقی اجزا جو خالص تاریخی یا جغرافیائی تھے ان کا کوئی ذکر نہیں فرمایا، اصحاب کہف کی تعداد اور سونے کے زمانے کی مدت کے سوالات کا ذکر تو فرمایا اور جواب کی طرف اشارہ بھی فرمایا مگر ساتھ ہی یہ بھی ہدایت کردی کہ ایسے مسائل میں زیادہ غور و فکر اور بحث و تکرار مناسب نہیں ان کو حوالہ بخدا تعالیٰ کرنا چاہئے۔- یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن کا فرض منصبی معانی قرآن کو بیان کرنا ہے آپ نے بھی کسی حدیث میں ان اجزاء قصہ کو بیان نہیں فرمایا، اور اکابر صحابہ وتابعین نے اسی قرآنی اسلوب کی بنا پر ایسے معاملات میں ضابطہ کار یہ قرار دیا کہ :- اَبْھِمُوْا مَآ اَبْھَمَہ اللّٰہ (اتقان، سیوطی) " یعنی جس غیر ضروری چیز کو اللہ تعالیٰ نے مبہم رکھا تم بھی اسے مبہم رہنے دو (کہ اس میں بحث و تحقیق کچھ مفید نہیں " )- اکابر صحابہ وتابعین کے اس طرز عمل کا مقتضی یہ تھا کہ اس تفسیر میں بھی ان اجزاء قصہ کو نظر انداز کردیا جائے جن کو قرآن اور حدیث نے نظر انداز کیا ہے، لیکن یہ زمانہ وہ ہے جس میں تاریخی اور جغرافیائی انکشافات ہی کو سب سے بڑا کمال سمجھ لیا گیا ہے، اور متاخرین علمائے تفسیر نے اسی لیے کم و بیش ان اجزا کو بھی بیان فرما دیا ہے، اس لئے زیر نظر تفسیر میں قصے کے وہ اجزا جو خود قرآن میں مذکور ہیں ان کا بیان تو آیات قرآن کی تفسیر کے تحت آجائے گا، باقی تاریخی اور جغرافیائی اجزائے قصہ کو یہاں بقدر ضرورت بیان کیا جاتا ہے، اور بیان کرنے کے بعد بھی آخری نتیجہ وہی رہے گا کہ ان معاملات میں کوئی قطعی فیصلہ ناممکن ہے، کیونکہ اسلامی اور پھر مسیحی تاریخوں میں اس کے متعلق جو کچھ لکھا گیا ہے وہ خود اس قدر مختلف اور متضاد ہے کہ ایک مصنف اپنی تحقیق و رائے کے پیش نظر مقدمات و قرائن کی مدد سے کسی ایک چیز کو متعین کرتا ہے تو دوسرا اسی طرح دوسری صورت کو ترجیح دیتا ہے۔- دین کی حفاظت کے لئے غاروں میں پناہ لینے والوں کے واقعات مختلف شہروں اور خطوں میں متعدد ہوئے ہیں :- مورخین کے اختلافات کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ دین مسیح (علیہ السلام) میں چونکہ رہبانیت کو دین کا سب سے بڑا کام سمجھ لیا گیا تھا تو ہر خطے اور ہر ملک میں ایسے واقعات متعدد پیش آئے ہیں کہ کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے غاروں میں پناہ گزین ہوگئے وہیں عمریں گذار دیں، اب جہاں جہاں ایسا کوئی واقعہ پیش آیا ہے اس پر مورخ کو اصحاب کہف کا گمان ہوجانا کچھ بعید نہیں تھا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَہْفِ وَالرَّقِيْمِ۝ ٠ۙ كَانُوْا مِنْ اٰيٰتِنَا عَجَــبًا۝ ٩- حسب ( گمان)- والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] - ( ح س ب ) الحساب - اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ - صحب - الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، - ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40]- ( ص ح ب ) الصاحب - ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ - كهف - الْكَهْفُ : الغار في الجبل، وجمعه كُهُوفٌ. قال تعالی: أَنَّ أَصْحابَ الْكَهْفِ الآية [ الكهف 9] .- ( ک ہ ف )- الکھف کے معنی پہاڑ میں غار کے ہیں اس کو جمع کھوف آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : أَنَّ أَصْحابَ الْكَهْفِ الآية [ الكهف 9] کہ غار اور لوح والے ۔- رقم - الرَّقْمُ : الخطّ الغلیظ، وقیل : هو تعجیم الکتاب . وقوله تعالی: كِتابٌ مَرْقُومٌ- [ المطففین 9] ، حمل علی الوجهين، وفلان يَرْقُمُ في الماء «2» ، يضرب مثلا للحذق في الأمور، وأصحاب الرَّقِيمِ «3» ، قيل : اسم مکان، وقیل : نسبوا إلى حجر رُقِمَ فيه أسماؤهم، ورَقْمَتَا الحمار : للأثر الذي علی عضديه، وأرض مَرْقُومَةٌ: بها أثر نبات، تشبيها بما عليه أثر الکتاب، والرُّقْمِيَّاتُ : سهام منسوبة إلى موضع بالمدینة .- ( ر ق م ) الرقم - کے معنی گاڑھے خط کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ رقم کے معنی کتاب پر اعراب اور نقطے لگانے کے ہیں ۔ اور آیت ؛كِتابٌ مَرْقُومٌ [ المطففین 9] وہ ایک کتاب ہے ( وقتا فوقتا ) اس کی خانہ پری ہوتی رہتی ہے ۔ میں مرقوم کے دونوں معنی ہوسکتے ہیں یعنی گاڑھے اور جلی خط میں لکھی ہوئی یا نقطے لگائی ہوئی ۔ اور جو شخص کسی کام کا ماہر اور حاذق ہو اس کے متعلق ضرب المثل کے طور پر کہا جاتا ہے ۔ فلان یرقم فی الماء یعنی وہ ماہر ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛أَنَّ أَصْحابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ [ الكهف 9] کہ غار اور لوح والے ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ رقیم ایک مقام کا نام ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ یہ اس پتھر کی طرف نسبت ہے جس میں ان کے نام کنندہ تھے اور گدھے کے دونوں بازؤوں پر جو نشان ہوتے ہیں انہیں رقمتا الحمار کہا جاتا ہے اور ارض مرقومۃ تھوڑی گھاس والی زمین کو کہتے ہیں گو یا وہ کتابت کے نشانات کی طرح ہے ۔ الرقمیات تیروں کو کہتے ہیں جو مدینہ کے ایک مقام کی طرف منسوب ہیں ۔- عجب - العَجَبُ والتَّعَجُّبُ : حالةٌ تعرض للإنسان عند الجهل بسبب الشیء، ولهذا قال بعض الحکماء : العَجَبُ ما لا يُعرف سببه، ولهذا قيل : لا يصحّ علی اللہ التَّعَجُّبُ ، إذ هو علّام الغیوب لا تخفی عليه خافية . يقال : عَجِبْتُ عَجَباً ، ويقال للشیء الذي يُتَعَجَّبُ منه : عَجَبٌ ، ولما لم يعهد مثله عَجِيبٌ. قال تعالی: أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا - [يونس 2] ، تنبيها أنهم قد عهدوا مثل ذلک قبله، وقوله : بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ- [ ق 2] ، وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد 5] ،- ( ع ج ب ) العجب اور التعجب - اس حیرت کو کہتے ہیں جو کسی چیز کا سبب معلوم نہ ہونے کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوجاتی ہے اسی بنا پر حکماء نے کہا ہے کہ عجب اس حیرت کو کہتے ہیں جس کا سبب معلوم نہ ہو اس لئے اللہ تعالیٰ پر تعجب کا اطلاق جائز نہیں ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ تو علام الغیوب ہے اس بنا پر کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے عجبت عجبا ( س ) میں نے تعجب کیا عجب ہر وہ بات جس سے تعجب پیدا ہوا اور جس جیسی چیز عام طور نہ دیکھی جاتی ہوا ہے عجیب کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا[يونس 2] کیا لوگوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ ہم نے وحی بھیجی ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ آنحضرت کی طرف وحی بھیجنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ پہلے سے سلسلہ وحی کو جانتے ہیں نیز فرمایا : ۔ بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ [ ق 2] بلکہ ان لوگوں نے تعجب کیا ہے کہ انہی میں سے ایک ہدایت کرنے والا ان کے پاس آیا ۔ وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد 5] اور اگر تم عجیب بات سننی چاہو تو کافروں کا یہ کہنا عجیب ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ غار والے اور پہاڑ والے ہماری عجائبات قدرت چاند، سورج آسمان و زمین ستارے اور سمندر وغیرہ میں سے کوئی تعجب کی چیز ہیں۔- کہف اس پہاڑ کا نام ہے جس میں وہ غار تھا اور رقیم وہ پیتل کی تختی ہے جس پر ان نوجوانوں کے نام اور ان کا واقعہ مرقوم تھا یا یہ کہ اس وادی کا نام ہے جس میں کہف پہاڑ تھا یا یہ کہ رقیم ایک شہر کا نام ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٩ (اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيْمِ ۙ كَانُوْا مِنْ اٰيٰتِنَا عَجَبًا)- اب اصحاب کہف کے متعلق اس سوال کے جواب کا آغاز ہو رہا ہے جو یہود مدینہ نے قریش مکہ کے ذریعے حضور سے پوچھا تھا۔ کہف کے معنی غار کے ہیں اور رقیم سے مراد وہ تختی ہے جس پر اصحاب کہف کے حالات لکھ کر اسے غار کے دہانے پر لگا دیا گیا تھا۔ اس نسبت سے انہیں اصحاب کہف بھی کہا جاتا ہے اور اصحاب الرقیم بھی۔ مراد یہ ہے کہ تم لوگ شاید اصحاب کہف کے واقعہ کو ایک بہت غیر معمولی واقعہ اور ہماری ایک بڑی عجیب نشانی سمجھتے ہو مگر تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہماری تخلیق اور صناعی میں تو اس سے بھی بڑے بڑے عجائبات موجود ہیں۔ - اس قصے کے بارے میں اب تک جو ٹھوس حقائق ہمارے سامنے آئے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے : حضرت مسیح کی فلسطین میں بعثت کے وقت بظاہر یہاں ایک یہودی بادشاہ کی حکمرانی تھی مگر اس بادشاہ کی حیثیت ایک کٹھ پتلی سے زیادہ نہ تھی اور عملی طور پر یہ پورا علاقہ رومن ایمپائر ہی کا حصہ تھا۔ رومی حکمران مذہباً بت پرست تھے جبکہ فلسطین کے مقامی باشندے اہل کتاب (یہودی) تھے۔ حضرت مسیح کے رفع سماوی کا واقعہ ٣٠ اور ٣٣ عیسوی کے لگ بھگ پیش آیا۔ اس کے بعد یہودیوں کی ایک بغاوت کے جواب میں رومی جنرل ٹائیٹس نے ٧٠ عیسوی میں یروشلم پر حملہ کر کے اس شہر کو بالکل تباہ و برباد کردیا ہیکل سلیمانی مسمار کردیا گیا یہودیوں کا قتل عام ہوا اور جو یہودی قتل ہونے سے بچ گئے انہیں ملک بدر کردیا گیا۔ مقامی عیسائیوں کو اگرچہ علاقے سے بےدخل تو نہ کیا گیا مگر حضرت عیسیٰ کے پیروکار اور موحد ہونے کی وجہ سے انہیں رومیوں کی طرف سے اکثر ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ اسی حوالے سے رومی بادشاہ دقیانوس ( ) کے دربار میں چند راسخ العقیدہ موحد نوجوانوں کی پیشی ہوئی۔ بادشاہ کی طرف سے ان نوجوانوں پر واضح کیا گیا کہ وہ اپنے عقائد کو چھوڑ کر بت پرستی اختیار کرلیں ورنہ انہیں سولی پر چڑھا دیا جائے گا۔ بادشاہ کی طرف سے انہیں اس فیصلے کے لیے مناسب مہلت دی گئی۔ اسی مہلت کے دوران انہوں نے شہر سے نکل کر کسی غار میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا۔ جب یہ لوگ غار میں پناہ گزیں ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے ان پر ایسی نیند طاری کردی کہ وہ تقریباً تین سو سال تک سوتے رہے۔ (سورۃ البقرۃ آیت ٢٥٩ میں بھی اسی نوعیت کے ایک واقعہ کا ذکر ہے کہ حضرت عزیر کو ان کی موت کے سو سال بعد زندہ کردیا گیا) اور ان کی نیند کے دوران ان کی کروٹیں بدلنے کا بھی باقاعدہ اہتمام رہا۔ جس غار میں اصحاب کہف سو رہے تھے وہ ایسی جگہ پر واقع تھی جہاں لوگوں کا آنا جانا بالکل نہیں تھا۔ اس غار کا دہانہ شمال کی جانب تھا جس کی وجہ سے اس کے اندر روشنی منعکس ہو کر تو آتی تھی لیکن براہ راست روشنی یا دھوپ نہیں آتی تھی۔ اس طرح کے غاروں کا ایک سلسلہ افسس شہر (موجودہ ترکی) کے علاقے میں پایا جاتا ہے جبکہ ہندوستان (ایجنٹا) میں بھی ایسے غار موجود ہیں۔- بعد ازاں قسطنطین ( ) نامی فرمانروا نے عیسائیت قبول کرلی اور اس کی وجہ سے پوری رومن ایمپائر بھی عیسائی ہوگئی۔ پھر ٤٠٠ عیسوی کے لگ بھگ کے عہد حکومت میں اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کو جگایا۔ جاگنے کے بعد انہوں نے اپنے ایک ساتھی کو چاندی کا ایک سکہ دے کر کھانا لینے کے لیے شہر بھیجا اور ساتھ ہدایت کی کہ وہ محتاط رہے ایسا نہ ہو ان کے غار میں چھپنے کی خبر بادشاہ تک پہنچ جائے۔ (وہ اپنی نیند کو معمول کی نیند سمجھ رہے تھے اور ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ تین سو سال تک سوئے رہے تھے۔ ) بہرحال کھانا لانے کے لیے جانے والا ان کا ساتھی اپنی تین سو سال پرانی وضع قطع اور کرنسی کی وجہ سے پکڑا گیا اور یوں ان کے بارے میں تمام معلومات لوگوں تک پہنچ گئیں۔ جب لوگوں کو حقیقت حال کا علم ہوا تو ہم مذہب ہونے کی وجہ سے عیسائی آبادی کی طرف سے ان کی بہت عزت افزائی کی گئی۔ اس کے بعد وہ لوگ غار میں پھر سے سوگئے یا اللہ تعالیٰ نے ان پر موت طاری کردی۔ ان لوگوں کی طبعی موت کے بعد غار کے دہانے کو بند کردیا گیا اور ایک تختی پر ان لوگوں کا احوال لکھ کر اسے اس جگہ پر نصب کردیا گیا۔ اصحاب کہف کا یہ قصہ گبن کی کتاب میں بھی کے عنوان سے موجود ہے۔ اس قصے کا ذکر چونکہ رومن لٹریچر میں تھا اور یہودی ان تمام تفصیلات سے آگاہ تھے اس لیے انہوں نے یہ سوال حضور سے امتحاناً پوچھ بھیجا تھا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :6 عربی زبان میں کہف وسیع غار کو کہتے ہیں اور غار کا لفظ تنگ کھوہ کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ مگر اردو میں غار کہف کا ہم معنی ہے ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :7 الرقیم کے معنی میں اختلاف ہے ۔ بعض صحابہ و تابعین سے منقول ہے کہ یہ اس بستی کا نام ہے جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا ، اور وہ اَیلہ ( یعنی عَقَبہ ) اور فلسطین کے درمیان واقع تھی ۔ اور بعض قدیم مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ کتبہ ہے جو اس غار پر اصحاب کہف کی یادگار میں لگایا گیا تھا ۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی تفسیر ترجمان القرآن میں پہلے معنی کو ترجیح دی ہے اور یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ مقام وہی ہے جسے بائیبل کی کتاب یشوع ( باب ۱۸ ۔ آیت ۲۷ ) میں رقم یا راقم کیا گیا ہے ۔ پھر وہ اسے نبطیوں کے مشہور تاریخی مرکز پیڑا کا قدیم نام قرار دیتی ہیں ۔ لیکن انہوں نے اس بات پر غور نہیں فرمایا کہ کتاب یشوع میں رقم یا راقم کا ذکر بنی بن یمین کی میراث کے سلسلے میں آیا ہے اور خود اسی کتاب کے بیان کی رو سے اس قبیلے کی میراث کا علاقہ دریائے اردن اور بحر لوط کی مغرب میں واقع تھا جس میں پیڑا کے ہونے کا کوئی امکان نہیں ۔ پیڑا کے کھنڈر جس علاقے میں پائے گئے ہیں اس کے اور بنی بن یمین کی میراث کے درمیان تو یہوواہ اور ادومیہ کا پورا علاقہ حائل تھا ۔ اسی بنا پر جدید زمانے کے محققین آثار قدیمہ نے یہ بات ماننے میں سخت تامل کیا ہے کہ پیڑا اور راقم ایک چیز ہیں ( ملاحظہ ہو انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا طبع ۱۹٤٦ جلد ۱۷ ۔ ص ٦۵۸ ) ۔ ہمارے نزدیک صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ رقیم سے مراد کتبہ ہے ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :8 یعنی کیا تم اس خدا کی قدرت سے ، جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے ، اس بات کو کچھ بعید سمجھتے ہو کہ وہ چند آدمیوں کو دو تین سو برس تک سلائے رکھے اور پھر ویسا ہی جوان و تندرست جگا اٹھائے جیسے وہ سوئے تھے ؟ اگر سورج اور چاند اور زمین کی تخلیق پر تم نے کبھی غور کیا ہوتا تو تم ہرگز یہ خیال نہ کرتے کہ خدا کے لیے یہ کوئی بڑا مشکل کام ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

3: ان حضرات کے واقعے کا خلاصہ قرآنِ کریم کے بیان کے مطابق یہ ہے کہ یہ کچھ نوجوان تھے جو ایک مشرک بادشاہ کے عہد حکومت میں توحید کے قائل تھے۔ بادشاہ نے ان کو توحید پر ایمان رکھنے کی بنا پر پریشان کیا تو یہ حضرات شہر سے نکل کر ایک غار میں چھپ گئے تھے۔ وہاں اﷲ تعالیٰ نے ان پر گہری نیند طاری فرمادی، اور یہ تین سو نو(۳۰۹) سال تک اُسی غار میں پڑے سوتے رہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس نیند کے دوران اپنی قدرت کاملہ سے ان کی زندگی کو بھی سلامت رکھا، اور اُن کے جسم بھی گلنے سڑنے سے محفوظ رہے۔ تین سو نو سال بعد اُن کی آنکھ کھلی تو انہیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنی لمبی مدت تک سوتے رہے ہیں۔ لہٰذا ان کو بھوک محسوس ہوئی تو اپنے میں سے ایک صاحب کو کچھ کھانا خرید کر لانے کے لئے شہر بھیجا، اور یہ ہدایت کی کہ احتیاط کے ساتھ شہر میں جائیں، تاکہ ظالم بادشاہ کو پتہ نہ چل سکے۔ اﷲ تعالیٰ کا کرنا یسا ہوا کہ اس تین سو سال کے عرصے میں وہ ظالم بادشاہ مرکھپ گیا تھا، اور ایک نیک اور صحیح العقیدہ شخص بادشاہ بن چکا تھا۔ یہ صاحب جب شہر میں پہنچے تو کھانا خریدنے کے لئے وہی پُرانا سکہ پیش کیا جو تین سو سال پہلے اس ملک میں چلا کرتا تھا، دُکان دار نے وہ پرانا سکہ دیکھا تو اس طرح یہ بات سامنے آئی کہ یہ حضرات صدیوں تک سوتے رہے تھے۔ بادشاہ کو پتہ چلا تو اُس نے ان لوگوں کو بڑی عزّت اور اکرام کے ساتھ اپنے پاس بلایا، اور بالآخر جب اُن حضرات کی وفات ہوئی تو اُن کی یادگار میں ایک مسجد تعمیر کی۔ عیسائیوں کے یہاں یہ واقعہ ’’سات سونے والوں‘‘ ( ) کے نام سے مشہور ہے۔ معروف مؤرخ ایڈورڈ گبن نے اپنی مشہور کتاب ’’زَوال و سقوطِ سلطنتِ رُوم‘‘ میں بیان کیا ہے کہ وہ ظالم بادشاہ ڈوسیس تھا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروؤں پر ظلم ڈھانے میں بہت مشہور ہے۔ اور یہ واقعہ ترکی کے شہر افسس میں پیش آیا تھا۔ جس بادشاہ کے زمانے میں یہ حضرت بیدار ہوئے، گبن کے بیان کے مطابق وہ تھیوڈوسیس تھا۔ مسلمان مؤرخین اور مفسرین نے بھی اس سے ملتی جلتی تفصیلات بیان فرمائی ہیں، اور ظالم بادشاہ کا نام دقیانوس ذکر کیا ہے۔ ہمارے دور کے بعض محققین کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ اُردُن کے شہر عمان کے قریب پیش آیا تھا جہاں ایک غار میں کچھ لاشیں اب تک موجود ہیں۔ یہ تحقیق میں نے تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب ’’جہانِ دیدہ‘‘ میں بیان کردی ہے۔ لیکن ان میں سے کوئی بات بھی اتنی مستند نہیں ہے کہ اس پر بھروسہ کیا جاسکے۔ قرآنِ کریم کا اُسلوب یہ ہے کہ وہ کسی واقعے کی اُتنی ہی تفصیل بیان فرماتا ہے جو فائدہ مند ہو۔ اس سے زیادہ تفصیلات میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ان حضرات کو ’’اصحاب الکہف‘‘ (غار والے) کہنے کی وجہ تو ظاہر ہے کہ اُنہوں نے غار میں پناہ لی تھی۔ لیکن ان کو ’’رقیم‘‘ والے کیوں کہتے ہیں؟ اس کے بارے میں مفسرین کی رائیں مختلف ہیں۔ بعض حضرات کا کہنا یہ ہے کہ ’’رقیم‘‘ اُس غار کے نیچے والی وادی کا نام ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ’’رقیم‘‘ تختی پر لکھے ہوئے کتبے کو کہتے ہیں، اور ان حضرات کے انتقال کے بعد اُن کے نام ایک تختی پر کتبے کی صورت میں لکھوا دئیے گئے تھے، اس لئے ان کو ’’اصحاب الرقیم‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ تیسرے بعض حضرات کا خیال ہے کہ یہ اُس پہاڑ کا نام ہے جس پر وہ غار واقع تھا۔ واللہ سبحانہ اعلم۔ 4: جن لوگوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے ان نوجوانوں کے بارے میں سوال کیا تھا، اُنہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اُن کا واقعہ بڑا عجیب ہے۔ اس آیت میں اُنہی کے حوالے سے یہ فرمایا جا رہا ہے کہ اﷲ تعالیٰ قدرت کے پیشِ نظر یہ واقعہ کوئی بہت عجیب نہیں ہے، کیونکہ اُس کی قدرت کے کرشمے تو بیشمار ہیں۔