96۔ 1 یعنی دونوں پہاڑوں کے سروں کے درمیان جو خلا تھا، اسے لوہے کی چھوٹی چھوٹی چادروں سے پر کردیا۔ 96۔ 2 پگھلا ہوا سیسہ، یا لوہا یا تانبا۔ یعنی لوہے کی چادروں کو خوب گرم کر کے ان پر پگھلا ہوا لوہا، تانبا یا سیسہ ڈالنے سے وہ پہاڑی درہ یا راستہ ایسا مضبوط ہوگیا کہ اسے عبور کر کے یا توڑ کر یاجوج ماجوج کا ادھر دوسری طرف انسانی آبادیوں میں آنا ناممکن ہوگیا۔
[٧٨] سد ذوالقرنین :۔ پہلے لوہے کے بڑے بڑے تختوں کی اوپر نیچے تہیں جمائی گئیں جب ان کی بلندی دونوں طرف کی گھاٹیوں تک پہنچ گئی تو لوگوں کو حکم دیا کہ خوب آگ دھونکو اور اس کام کے لیے لکڑی اور کوئلہ کو استعمال میں لایا گیا جب لوہا آگ کی طرح سرخ ہوگیا تو پگھلا ہوا تانبہ اوپر سے ڈالا گیا جو لوہے کی چادروں کی درزوں میں جم کر پیوست ہوگیا اور یہ سب کچھ مل کر پہاڑ سا بن گیا بظاہر ایسی دیوار کی تعمیر ایک حیران کن اور بالخصوص اس دور میں ایک خرق عادت واقعہ معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اگر ہم اہرام مصر اور ان کے دور تعمیر کی طرف نظر کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں ایسے ایسے آلات تعمیر پائے جاتے تھے جن کا آج تصور بھی نہیں ہوسکتا۔
ۙاٰتُوْنِيْ زُبَرَ الْحَدِيْدِ ۭ حَتّٰى اِذَا سَاوٰى ۔۔ : ” زُبَرَ “ ” زُبْرَۃٌ“ کی جمع ہے، جیسا کہ ” غُرْفَۃٌ“ کی جمع ” غُرَفٌ“ ہے، معنی ہے لوہے کے بڑے بڑے ٹکڑے۔ پہاڑوں کے درمیان ان کی بلندی کے برابر لوہے کے بڑے بڑے ٹکڑے مہیا کرنا، انھیں اوپر پہنچانا اور جوڑنا ہمارے اس ترقی یافتہ دور میں بھی امر محال نظر آتا ہے، مگر اہرام مصر کو دیکھیں تو ماننا پڑتا ہے کہ ہم سے ہزاروں سال پہلے جر ثقیل (وزنی اشیاء کو کھینچنے اور اوپر لے جانے) کا علم آج سے بہت آگے تھا۔ چناچہ ذوالقرنین نے پہاڑوں کے دونوں کناروں کے برابر لوہے کے بڑے بڑے ٹکڑے جوڑنے کے بعد یک جان کرنے کے لیے انھیں آگ سے سرخ کرنے کا حکم دیا، ادھر تانبے کو پگھلانے کا بندوبست کیا۔ جب لوہے کی اینٹیں اور تختے سراسر آگ بن گئے تو اس نے کہا، اب پگھلا ہوا تانبا لاؤ، تاکہ میں اس پر ڈالوں۔ اس طرح وہ لوہے اور تانبے کی بہت موٹی، مضبوط اور پہاڑوں کے برابر بلند اور چکنی دیوار بن گئی، جس پر نہ یاجوج ماجوج چڑھ سکتے تھے، نہ اس میں سوراخ کرسکتے تھے۔ ہزاروں فٹ اونچی اس دیوار کو بنانے میں سائنس کے کیا کیا علوم استعمال ہوئے، لوہے اور تانبے کی کتنی مقدار صرف ہوئی، اتنی بلندی پر لوہے کو کیسے سرخ کیا گیا اور تانبے کی اتنی مقدار اس قدر بلندی پر پہنچانے تک کیسے پگھلی ہوئی حالت میں رکھی گئی اور اتنی موٹی دیوار جب سرخ ہوئی ہوگی تو اس کے پاس کھڑا ہو کر پگھلا ہوا تانبا کیسے ڈالا گیا ہوگا، پھر یہ کام کتنی مدت میں مکمل ہوا، یہ سب کچھ اب صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ اس سارے عمل میں ذوالقرنین بہ نفس نفیس کام میں شریک رہا، بلکہ اپنے ہاتھوں سے کام کرتا رہا۔ یہی سنت ہمارے پیارے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہے کہ آپ کعبہ کی تعمیر میں، مسجد نبوی بنانے اور خندق کھودنے میں بہ نفس نفیس برابر شریک رہے۔
اٰتُوْنِيْ زُبَرَ الْحَدِيْدِ ٠ۭ حَتّٰٓي اِذَا سَاوٰى بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ قَالَ انْفُخُوْا ٠ۭ حَتّٰٓي اِذَا جَعَلَہٗ نَارًا ٠ۙ قَالَ اٰتُوْنِيْٓ اُفْرِغْ عَلَيْہِ قِطْرًا ٩٦ۭ- زبر - الزُّبْرَةُ : قطعة عظیمة من الحدید، جمعه زُبَرٌ ، قال : آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف 96] ، وقد يقال : الزُّبْرَةُ من الشّعر، جمعه زُبُرٌ ، واستعیر للمجزّإ، قال : فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُراً- [ المؤمنون 53] ، أي : صاروا فيه أحزابا .- وزَبَرْتُ الکتاب : کتبته کتابة غلیظة، وكلّ کتاب غلیظ الکتابة يقال له : زَبُورٌ ، وخصّ الزَّبُورُ بالکتاب المنزّل علی داود عليه السلام، قال : وَآتَيْنا داوُدَ زَبُوراً- [ النساء 163] ، وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ- [ الأنبیاء 105] ، وقرئ زبورا «1» بضم الزاي، وذلک جمع زَبُورٍ ، کقولهم في جمع ظریف : ظروف، أو يكون جمع زِبْرٍ «2» ، وزِبْرٌ مصدر سمّي به کالکتاب، ثم جمع علی زُبُرٍ ، كما جمع کتاب علی كتب، وقیل : بل الزَّبُورُ كلّ کتاب يصعب الوقوف عليه من الکتب الإلهيّة، قال : وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء 196] ، وقال :- وَالزُّبُرِ وَالْكِتابِ الْمُنِيرِ [ آل عمران 184] ، أَمْ لَكُمْ بَراءَةٌ فِي الزُّبُرِ [ القمر 43] ، وقال بعضهم : الزَّبُورُ : اسم للکتاب المقصور علی الحکم العقليّة دون الأحكام الشّرعيّة، والکتاب : لما يتضمّن الأحكام والحکم، ويدلّ علی ذلك أنّ زبور داود عليه السلام لا يتضمّن شيئا من الأحكام . وزِئْبُرُ الثّوب معروف «1» ، والْأَزْبَرُ : ما ضخم زُبْرَةُ كاهله، ومنه قيل : هاج زَبْرَؤُهُ ، لمن يغضب «2» .- ( زب ر) الزبرۃ - لوہے کی کڑی کو کہتے ہیں اور اس کی جمع زبر آتی ہے قرآن میں ہے :۔ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف 96]( اچھا ) لوہے کی سلیں ہم کو لادو ۔ اور کبھی زبرۃ کا لفظ بالوں کے گچھا پر بولا جاتا ہے اس کی جمع ، ، زبر ، ، آتی ہے اور استعارہ کے طور پر پارہ پارہ کی ہوئی چیز کو زبر کہاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُراً [ المؤمنون 53] پھر لوگوں نے آپس میں پھوٹ کرکے اپنا ( اپنا ) دین جدا جدا کرلیا ۔ زبرت الکتاب میں نے کتاب کو موٹے خط میں لکھا اور ہر وہ کتاب جو جلی اور گاڑھے خط میں لکھی ہوئی ہو اسے زبور کہاجاتا ہے لیکن عرف میں زبور کا لفظ اس آسمانی کتاب کے لئے مخصوص ہوچکا ہے ۔ جو حضرت داؤد (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَآتَيْنا داوُدَ زَبُوراً [ النساء 163] اور ہم نے داود (علیہ السلام) کو زبور عطا کی ۔ وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی توراۃ ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ اس میں ایک قرات زبور ( بضمہ زاء ) بھی ہے ۔ جو یا تو زبور بفتحہ زا کی جمع ہے جیسے طریف جمع ظرورف آجاتی ہے اور یا زبر ( بکسر ہ زا) کی جمع ہے ۔ اور زبد گو اصل میں مصدر ہے لیکن بطور استعارہ اس کا اطاق کتاب پر ہوتا ہے جیسا کہ خود کتاب کا لفظ ہے کہ اصل میں مصدر ہے ۔ لیکن بطور اسم کے استعمال ہوتا ہے پھر جس طرح کتاب کی جمع کتب آتی ہے اسطرح زبر کی جمع زبد آجاتی ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ زبور کتب الہیہ میں سے ہر اس کتاب کو کہتے ہیں جس پر واقفیت دشوار ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء 196] اس میں شک نہیں کہ یہ ( یعنی اس کی پیشین گوئی ) اگلے پیغمبروں کی کتابوں میں موجود ہے ۔ وَالزُّبُرِ وَالْكِتابِ الْمُنِيرِ [ آل عمران 184] اور صحیفے اور روشن کتاب لائے تھے ۔ أَمْ لَكُمْ بَراءَةٌ فِي الزُّبُرِ [ القمر 43] یا تمہارے لئے صحیفوں میں معافی ( لکھی ہوئی ) ہے ۔ اور بعض کا قول ہے کہ زبور اس کتاب کا نام ہے جو صرف حکم عقلیہ پر مشتمل ہو اور اس میں احکام شرعیہ نہ ہوں ۔ اور الکتاب ہر اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو احکام حکم دونوں پر مشتمل ہو ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی زبور میں کوئی حکم شرعی نہیں ہے ۔ زئبرالثوب کپڑے کارواں ۔ اسی سے کہاجاتا ہے ھاج زئبرہ وہ غصہ سے بھڑک اٹھا ۔ اور بڑے کندھوں والے شخص کو ازبر کہاجاتا ہے ۔- سوا ( مساوات برابر)- الْمُسَاوَاةُ : المعادلة المعتبرة بالذّرع والوزن، والکيل،- وتَسْوِيَةُ الشیء : جعله سواء، إمّا في الرّفعة، أو في الضّعة، وقوله : الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ [ الانفطار 7] ، أي : جعل خلقتک علی ما اقتضت الحکمة، وقوله :- وَنَفْسٍ وَما سَوَّاها [ الشمس 7] ، فإشارة إلى القوی التي جعلها مقوّمة للنّفس، فنسب الفعل إليها، وکذا قوله : فَإِذا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] ، - ( س و ی ) المسا واۃ - کے معنی وزن کیل یا مسا حت کے لحاظ سے دو چیزوں کے ایک دوسرے کے برابر ہونے کے ہیں - التسویۃ کے معنی کسی چیز کو ہموار کرنے ہیں اور آیت : ۔ الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ [ الانفطار 7] دو ہی تو ہے ) جس نے تجھے بنایا اور تیرے اعضاء کو ٹھیک کیا ۔ میں سواک سے مراد یہ ہے کہ انسان کی خلقت کو اپنی حکمت کے اقتضاء کے مطابق بنایا اور آیت : ۔ وَنَفْسٍ وَما سَوَّاها [ الشمس 7] اور انسان کی اور اس کی جس نے اس کے قوی کو برابر بنایا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ فَإِذا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] جب اس کو ( صورت انسانیہ میں ) درست کرلوں اور اس میں ( اپنی بےبہا چیز یعنی ) روح پھونک دوں ۔ - صدف - صَدَفَ عنه : أعرض إعراضا شدیدا يجري مجری الصَّدَفِ ، أي : المیل في أرجل البعیر، أو في الصّلابة كَصَدَفِ الجبل أي : جانبه، أو الصَّدَفِ الذي يخرج من البحر . قال تعالی:- فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَّبَ بِآياتِ اللَّهِ وَصَدَفَ عَنْها[ الأنعام 157] ، سَنَجْزِي الَّذِينَ يَصْدِفُونَ- الآية إلى بِما کانُوا يَصْدِفُونَ [ الأنعام 157] «3» .- ( ص د ف )- صدف عنہ کے معنی سخت اعراض برتنے کے ہیں اور الصدف اصل میں (1) پہاڑ کے کنارہ (2) سیپ اور (3) اونٹ کی ٹانگوں میں کجی کو کہتے ہیں ۔ پھر ٹانگوں کے ٹیڑھے پن یا پہاڑ اور سیپ کی سختی کے اعتبار سے شدت اعراض کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَّبَ بِآياتِ اللَّهِ وَصَدَفَ عَنْها[ الأنعام 157] تو اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو خدا کی آیتوں کی تکذیب کرے اور ان سے منہ پھیر لے جو ہماری آیتوں سے اعراض برتتے ہیں اس اعراض کے سبب ہم ان کو ۔۔۔۔ سزادیں گے ۔- نفخ - النَّفْخُ : نَفْخُ الرِّيحِ في الشیءِّ. قال تعالی: يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه 102] ، وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف 99] ، ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر 68] ، وذلک نحو قوله : فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر 8] ومنه نَفْخُ الرُّوح في النَّشْأَة الأُولی، قال : وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي - [ الحجر 29]- ( ن ف خ ) النفخ - کے معنی کسی چیز میں پھونکنے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه 102] ، اور جس دن صور پھونکا جائیگا ۔ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف 99] اور جس وقت ) صؤر پھونکا جائے گا ۔ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر 68] پھر دوسری دفعہ پھونکا جائے گا ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر 8] جب صور پھونکا جائے گا ۔ اور اسی سے نفخ الروح ہے جس کے معنی اس دنیا میں کسی کے اندر روح پھونکنے کے ہیں چناچہ آدم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي[ الحجر 29] اور اس میں اپنی بےبہا چیز یعنی روح پھونک دوں ۔- نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - فرغ - الفَرَاغُ : خلاف الشّغل، وقد فَرَغَ فَرَاغاً وفُرُوغاً ، وهو فَارِغٌ. قال تعالی: سَنَفْرُغُ لَكُمْ أَيُّهَ الثَّقَلانِ [ الرحمن 31] ، وقوله تعالی: وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص 10] ، أي : كأنّما فَرَغَ من لبّها لما تداخلها من الخوف وذلک کما قال الشاعر : كأنّ جؤجؤه هواء - «1» وقیل : فَارِغاً من ذكره، أي أنسیناها ذكره حتی سکنت واحتملت أن تلقيه في الیمّ ، وقیل : فَارِغاً ، أي : خالیا إلّا من ذكره، لأنه قال : إِنْ كادَتْ لَتُبْدِي بِهِ لَوْلا أَنْ رَبَطْنا عَلى قَلْبِها [ القصص 10] ، ومنه قوله تعالی: فَإِذا فَرَغْتَ فَانْصَبْ [ الشرح 7] ، وأَفْرَغْتُ الدّلو :- صببت ما فيه، ومنه استعیر : أَفْرِغْ عَلَيْنا صَبْراً [ الأعراف 126] ، وذهب دمه فِرْغاً «2» ، أي : مصبوبا . ومعناه : باطلا لم يطلب به، وفرس فَرِيغٌ: واسع العدو كأنّما يُفْرِغُ العدو إِفْرَاغاً ، وضربة فَرِيغَةٌ: واسعة ينصبّ منها الدّم .- ( ف ر غ ) الفراغ - یہ شغل کی ضد ہے ۔ اور فرغ ( ن ) فروغا خالی ہونا فارغ خالی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص 10] اور موسٰی کی ماں کا دل بےصبر ہوگیا ۔ یعنی خوف کی وجہ سے گویا عقل سے خالی ہوچکا تھا جیسا کہ شاعر نے کہا ہے کان جو جو ہ ھواء گویا اس کا سینہ ہوا ہو رہا تھا ۔ اور بعض نے فارغا کے معنی موسیٰ (علیہ السلام) کے خیال سے خالی ہونا کئے ہیں یعنی ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کا خیال ان کے دل سے بھلا دیا حتی کہ وہ مطمئن ہوگئیں اور موسیٰ (علیہ السلام) کو دریامیں ڈال دینا انہوں نے گوارا کرلیا بعض نے فارغا کا معنی اس کی یاد کے سوا باقی چیزوں سے خالی ہونا بھی کئے ہیں ۔ جیسا کہ اس کے بعد کی آیت : ۔ إِنْ كادَتْ لَتُبْدِي بِهِ لَوْلا أَنْ رَبَطْنا عَلى قَلْبِها [ القصص 10] اگر ہم ان کے دل کو مضبوط نہ کرتے تو قریب تھا کہ وہ اس قصے کو ظاہر کردیں سے معلوم ہوتا ہے اور اسی سے فرمایا : ۔ فَإِذا فَرَغْتَ فَانْصَبْ [ الشرح 7] تو جب فارغ ہوا کرو عبادت میں محنت کیا کروں سَنَفْرُغُ لَكُمْ أَيُّهَ الثَّقَلانِ [ الرحمن 31] اے دونوں جماعتوں ہم عنقریب تمہاری طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔ اور افرغت الدلو کے معنی ڈول سے پانی بہا کر اسے خالی کردینا کے ہیں چناچہ آیت کریمہ : ۔ أَفْرِغْ عَلَيْنا صَبْراً [ الأعراف 126] ہم پر صبر کے دہانے کھول دے بھی اسی سے مستعار ہے ذھب دمہ فرغا اس کا خون رائیگاں گیا ۔ فرس فریغ وسیع قدم اور تیز رفتار گھوڑا گویا وہ دوڑ کر پانی کی طرح بہہ ر ہا ہے ۔ ضربۃ فریغۃ وسیع زخم جس سے خون زور سے بہہ رہا ہو ۔- قَطِرَانُ : - ما يَتَقَطَّرُ من الهناء . قال تعالی: سَرابِيلُهُمْ مِنْ قَطِرانٍ [إبراهيم 50] ، وقرئ : ( من قِطْرٍ آنٍ ) أي : من نحاس مذاب قد أني حرّها، وقال : آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْراً [ الكهف 96] أي : نحاسا مذاب - القطران - کے معنی پگھل ہوئی رال یا گیند ھک کے ہیں قرآن میں ہے سَرابِيلُهُمْ مِنْ قَطِرانٍ [إبراهيم 50] ان کے کرتے گند ھک کے ہوں گے ۔ ایک قراءت میں قطرآ ن ہے جس کے معنی پگھلے ہوئے گرم تانبے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْراً [ الكهف 96]( اب ) میرے پاس تانبا لاؤ کہ اس پر پگھلا کر ڈال دوں یہاں قطرا کے معنی پگھلا ہوا تا نبا کے ہیں ۔
(حَتّٰى اِذَا سَاوٰى بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ )- جب لوہے کے تختوں کو جوڑ کر انہوں نے دونوں پہاڑوں کے درمیانی درّے میں دیوار کھڑی کردی تو : - (قَالَ انْفُخُوْا)- اس نے بڑے پیمانے پر آگ جلا کر ان تختوں کو گرم کرنے کا حکم دیا۔- (حَتّٰى اِذَا جَعَلَهٗ نَارًا)- جب لوہے کے وہ تختے گرم ہو کر سرخ ہوگئے تو :- (قَالَ اٰتُوْنِيْٓ اُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْرًا)- اور یوں ذوالقرنین نے لوہے کے تختوں اور پگھلے ہوئے تانبے کے ذریعے سے ایک انتہائی مضبوط دیوار بنا دی۔ اس دیوار کے آثار بحیرۂ کیسپین کے مغربی ساحل کے ساتھ ساتھ دار یال اور دربند کے درمیان اب بھی موجود ہیں۔ یہ دیوار پچاس میل لمبی انتیس فٹ اونچی اور دس فٹ چوڑی تھی۔ آج سے سینکڑوں سال پہلے لوہے اور تانبے کی اتنی بڑی (مصر کے اسوان ڈیم سے بھی بڑی جسے اَسَدّ الاعلٰی کہا جاتا ہے) دیوار تعمیر کرنا یقیناً ایک بہت بڑا کارنامہ تھا۔
49: ذوالقرنین نے پہلے لوہے کی بڑی بڑی چادریں پہاڑوں کے درمیان رکھ کر درے کو پاٹ دیا، پھر ان چادروں کو آگ سے گرم کرکے ان پر پگھلا ہوا تانبہ ڈالا، تاکہ وہ چادروں کی درمیانی درازوں میں جاکر بیٹھ جائے اور اس طرح یہ دیوار نہایت مضبوط بن گئی۔