Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

دیوار بنا دی گئی ۔ اس دیوار پر نہ تو چڑھنے کی طاقت یاجوج ماجوج کو ہے ، نہ وہ اس میں کوئی سوراخ کر سکتے ہیں کہ وہاں سے نکل آئیں ۔ چونکہ چڑھنا بہ نسبت توڑنے کے زیادہ آسان ہے اسی لئے چڑھنے میں ما اسطاعوا کا لفظ لائے اور توڑنے میں ما استطاعوا کا لفظ لائے ۔ غرض نہ تو وہ چڑھ کر آ سکتے ہیں نہ سوراخ کر کے ۔ مسند احمد میں حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر روز یاجوج ماجوج اس دیوار کو کھودتے ہیں یہاں تک کے قریب ہوتا ہے کہ سورج کی شعاع ان کو نظر آجائیں چونکہ دن گزر جاتا ہے ، اس لئے ان کے سردار کا حکم ہوتا ہے کہ اب بس کرو کل آکر توڑ دیں گے لیکن جب وہ دوسرے دن آتے ہیں ، تو اسے پہلے دن سے زیادہ مضبوط پاتے ہیں ۔ قیامت کے قریب جب ان کا نکلنا اللہ کو منظور ہو گا تو یہ کھودتے ہوئے جب دیوار کو چھلکے جیسی کر دیں گے تو ان کا سردار کہے گا اب چھوڑ دو کل انشاء اللہ اسے توڑ ڈالیں گے پس انشاء اللہ کہہ لینے کی برکت سے دوسرے دن جب وہ آئیں گے تو جیسی چھوڑ گئے تھے ۔ ویسی ہی پائیں گے فورا گرا دیں گے اور باہر نکل پڑیں گے ۔ تمام پانی چاٹ جائیں گے ، لوگ تنگ آکر قلعوں میں پناہ گزیں ہو جائیں گے ۔ یہ اپنے تیر آسمان کی طرف چلائیں گے اور مثل خون آلود تیروں کے ان کی طرف لوٹائے جائیں گے تو یہ کہیں گے زمین والے سب دب گئے آسمان والوں پر بھی ہم غالب آگئے اب ان کی گردنوں میں گلٹیاں نکلیں گی اور سب کے سب بحکم الہٰی اسی وبا سے ہلاک کر دئے جائیں گے ۔ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے کہ زمین کے جانوروں کی خوراک ان کے جسم وخون ہوں گے جس سے وہ خوب موٹے تازے ہوجائیں گے ۔ ابن ماجہ میں بھی یہ روایت ہے ۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ بھی اسے لائے ہیں اور فرمایا ہے یہ روایت غریب ہے سوائے اس سند کے مشہور نہیں ۔ اس کی سند بہت قوی ہے لیکن اس کا متن نکارت سے خالی نہیں ۔ اس لئے کہ آیت کے ظاہری الفاظ صاف ہیں کہ نہ وہ چڑھ سکتے ہیں نہ سوراخ کر سکتے ہیں کیونکہ دیوار ، نہایت ، مضبوط ، بہت پختہ اور سخت ہے ۔ کعب احبار رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ یاجوج ماجوج روزانہ اسے چاٹتے ہیں اور بالکل چھلکے جیسی کر دیتے ہیں پھر کہتے ہیں چلو کل توڑ دیں گے دوسرے دن جو آتے ہیں تو جیسی اصل میں تھی ویسی ہی پاتے ہیں آخری دن وہ بہ الہام الہٰی جاتے وقت انشاء اللہ کہیں گے دوسرے دن جو آئیں گے تو جیسی چھوڑ گئے تھے ، ویسی ہی پائیں گے اور توڑ ڈالیں گے ۔ بہت ممکن ہے کہ انہی کعب سے حضرت ابو ہریرہ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بات سنی ہو پھر بیان کی ہو اور کسی راوی کو وہم ہوگیا ہو اور اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سمجھ کر اسے مرفوعا بیان کر دیا ہو واللہ اعلم ۔ یہ جو ہم کہہ رہے ہیں اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے ۔ جو مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے بیدار ہوئے ، چہرہ مبارک سرخ ہو رہا تھا اور فرماتے جاتے تھے ۔ لا الہ اللہ عرب کی خرابی کا وقت قریب آگیا آج یاجوج ماجوج کی دیوار میں اتنا سوراخ ہوگیا پھر آپ نے اپنی انگلیوں سے حلقہ بنا کر دکھایا اس پر ام المومنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم بھلے لوگوں کی موجودگی میں بھی ہلاک کر دئیے جائیں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں جب خبیث لوگوں کی کثرت ہوجائے ۔ یہ حدیث بالکل صحیح ہے بخاری مسلم دونوں میں ہے ہاں بخاری شریف میں راویوں کے ذکر میں حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا ذکر نہیں ۔ مسلم میں ہے اور بھی اس کی سند میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جو بہت ہی کم پائی گئی ہیں مثلا زہری کی روایت عروہ سے حالانکہ یہ دونوں بزرگ تابعی ہیں اور چار عورتوں کا آپس میں ایک دوسرے سے روایت کرنا پھر چاروں عورتیں صحابیہ رضی اللہ عنہا ۔ پھر ان میں بھی دو حضور علیہ السلام کی بیویوں کی لڑکیاں اور دو آپ کی بیویاں رضی اللہ تعالیٰ عنہما ۔ بزار میں یہی روایت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی مروی ہے ( مترجم کہتا ہے اس تکلف کی اور ان مرفوع احادیث کے متعلق اس قول کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ ہم آیت قرآنی اور ان صحیح مرفوع احادیث کے درمیان بہت آسانی سے یہ تطبیق دے سکتے ہیں کہ کوئی ایسا سوراخ نہیں کر سکتے جس میں سے نکل آئیں ۔ پتلی کر دینا یا حلقیں کے برابر سوراخ کر دینا اور بات ہے جو مقصود ذوالقرنین کا اس دیوار کے بنانے سے تھا وہ بفضلہ حاصل ہے کہ نہ وہ اوپر سے اتر سکیں نہ توڑ کر یا سوراخ کر کے نکل سکیں اور اسی کی خبر آیت میں ہے اور اس کے خلاف کوئی حدیث نہیں ۔ واللہ اعلم مترجم ) اس دیوار کو بنا کر ذوالقرنین اطمینان کا سانس لیتے ہیں اور اللہ کا شکر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ لوگو یہ بھی رب کی رحمت ہے کہ اس نے ان شریروں کی شرارت سے مخلوق کو اب امن دے دیا ہاں جب اللہ کا وعدہ آجائے گا تو اس کا ڈھیر ہو جائے گا ۔ یہ زمین دوز ہوجائے گی ۔ مضبوطی کچھ کام نہ آئے گی ۔ اونٹنی کا کوہان جب اس کی پیٹھ سے ملا ہوا ہو تو عرب میں اسے ناقتہ دکاء کہتے ہیں ۔ قرآن میں اور جگہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے پہاڑ پر رب نے تجلی کی تو وہ پہاڑ زمین دوز ہوگیا وہاں بھی لفظ جعلہ دکاء ہے ۔ پس قریب بہ قیامت یہ دیوارپاش پاش ہو جائے گی اور ان کے نکلنے کا راستہ بن جائے گا ۔ اللہ کے وعدے اٹل ہیں ، قیامت کا آنا یقینی ہے ۔ اس دیوار کے ٹوٹتے ہی یہ لوگ نکل پڑیں گے اور لوگوں میں گھس جائیں گے اپنوں بیگانوں کی تمیز اٹھ جائے گی ۔ یہ واقعہ دجال کے آجانے کے بعد قیامت کے قیام سے پہلے ہوگا اس کا پورا بیان آیت ( اِذَا فُتِحَتْ يَاْجُوْجُ وَمَاْجُوْجُ وَهُمْ مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ يَّنْسِلُوْنَ 96؀ ) 21- الأنبياء:96 ) کی تفسیر میں آئے گا انشاء اللہ ۔ اس کے بعد صور پھونکا جائے گا اور سب جمع ہوجائیں گے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد یہ ہے کہ قیامت کے دن انسان جن سب خلط ملط ہو جائیں گے بنی خزارہ کے ایک شیخ کا بیان ابن جریر میں ہے کہ جب جن انسان آپس میں گتھم گھتا ہو جائیں گے اس وقت ابلیس کہے گا کہ میں جاتا ہوں معلوم کرتا ہوں کہ یہ کیا بات ہے ؟ مشرق کی طرف بھاگے گا لیکن وہاں فرشتوں کی جماعتوں کو دیکھ کر رک جائے گا اور لوٹ کر مغرب کو پہنچے گا ، وہاں بھی یہی رنگ دیکھ کر دائیں بائیں بھاگے گا لیکن چاروں طرف سے فرشتوں کا محاصرہ دیکھ کر ناامید ہو کر چیخ پکار شروع کر دے گا اچانک اسے ایک چھوٹاسا راستہ دکھائی دے گا ، اپنی ساری ذریات کو لے کر اس میں چل پڑے گا آگے جا کر دیکھے گا کہ دوزخ بھڑک رہی ہے ایک دروغہ جہنم اس سے کہے گا کہ اے موذی خبیث کیا اللہ نے تیرا مرتبہ نہیں بڑھایا تھا ؟ کیا تو جنتیوں میں نہ تھا ؟ یہ کہے گا آج ڈانٹ کیوں کرتے ہو ؟ آج تو چھٹکارے کا راستہ بتاؤ میں عبادت الہٰی کے لئے تیار ہوں اگر حکم ہو تو اتنی اور ایسی عبادت کروں کہ روئے زمین پر کسی نہ کی ہو ۔ درواغہ فرمائے گا اللہ تعالیٰ تیرے لئے ایک فریضہ مقرر کرتا ہے وہ خوش ہو کر کہے گا میں اس کے حکم کی بجاآوری کے لیے پوری مستعدی سے موجود ہوں ۔ حکم ہوگا کہ یہی کہ تم سب جہنم میں چلے چاؤ ۔ اب یہ خبیث ہکا بکا رہ جائے گا وہیں فرشتہ اپنے پر سے اسے اور اس کی تمام ذریت کو گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دے گا ۔ جہنم انہیں لے کر آدبوچے گی اور ایک مرتبہ تو وہ جھلائے گی کہ تمام مقرب فرشتے اور تمام نبی رسول گھٹنوں کے بل اللہ کے سامنے عاجزی میں گر پڑیں گے ۔ طبرانی میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں یاجوج ماجوج حضرت آدم علیہ السلام کی نسل سے ہیں اگر وہ چھوڑ دئے جائیں تو دنیا کی معاش میں فساد ڈال دیں ، ایک ایک اپنے پیچھے ہزار ہزار بلکہ زیادہ چھوڑ کر مرتا ہے پھر ان کے سوا تین امتیں اور ہیں تاویل مارس اور منسک ۔ یہ حدیث غریب ہے بلکہ منکر اور ضعیف ہے ۔ نسائی میں ہے کہ ان کی بیویاں بچے ایک ایک اپنے پیچھے ہزار ہزار بلکہ زیادہ چھوڑ کر مرتا ہے ۔ پھر فرمایا صور پھونک دیا جائے گا جیسے حدیث میں ہے کہ وہ ایک قرن ہے جس میں صور پھونک دیا جائے گا پھونکنے والے حضرت اسرافیل علیہ السلام ہوں گے ۔ جیسے کہ لمبی حدیث بیان ہوچکی ہے ۔ اور بھی بہت سی حدیث سے اس کا ثبوت ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں کیسے چین اور آرام سے بیٹھوں ؟ صور کو منہ سے لگائے ہوئے پیشانی جھکائے ہوئے ، کان لگائے ہوئے ، منتظر بیٹھا ہے کہ کب حکم ہو اور میں پھونک دوں ۔ لوگوں نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پھر ہم کیا کہیں ؟ فرمایا ( حسبنا اللہ ونعم الوکیل علی اللہ توکلنا ) پھر فرماتا ہے ہم سب کو حساب کے لئے جمع کریں گے سب کا حشر ہمارے سامنے ہو گا جیسے سورۃ واقعہ میں ہے کہ اگلے پچھلے سب کے سب مقررہ دن کے وقت اکٹھے کئے جائیں گے اور آیت میں ہے ( وَّحَشَرْنٰهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ اَحَدًا 47؀ۚ ) 18- الكهف:47 ) ہم سب کو جمع کریں گے ایک بھی تو باقی نہ بچے گا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٩] بعض روایات کے مطابق یہ دیوار پچاس میل لمبی ٢٩ فٹ اونچی اور ١٠ فٹ چوڑی تھی اور اس دیوار کا فائدہ تو اسی صورت میں ہوسکتا تھا کہ اس کی بلندی بھی کم از کم دونوں اطراف کی بلندی کے برابر تو ہو۔ اتنی بلندی کی وجہ سے اس کے اوپر چڑھا بھی نہیں جاسکتا تھا اور لوہے کی موٹی تعمیر شدہ دیوار ہونے کی وجہ سے اس میں شگاف بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَمَا اسْطَاعُوْٓا اَنْ يَّظْهَرُوْهُ ۔۔ : ” اسْطَاعُوْٓا “ بھی اصل میں ” اسْتَطَاعُوْا “ تھا، تخفیف کے لیے تاء حذف کردی۔ چڑھنے کے لیے ہلکا لفظ ” اسْطَاعُوْٓا “ اور نقب کے لیے بھاری لفظ ” اسْتَطَاعُوْا “ استعمال فرمایا، کیونکہ ایسی دیوار پر چڑھنا اس میں نقب کی بہ نسبت آسان ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَمَا اسْطَاعُوْٓا اَنْ يَّظْہَرُوْہُ وَمَا اسْتَطَاعُوْا لَہٗ نَقْبًا۝ ٩٧- الاستطاعۃ - . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] - ( ط و ع ) الطوع - الاستطاعۃ ( استفعال )- یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔ - ظھیر - ، وَما لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيرٍ [ سبأ 22] ، أي : معین «3» . فَلا تَكُونَنَّ ظَهِيراً لِلْكافِرِينَ- [ القصص 86] ، وَالْمَلائِكَةُ بَعْدَ ذلِكَ ظَهِيرٌ [ التحریم 4] ، وَكانَ الْكافِرُ عَلى رَبِّهِ ظَهِيراً- [ الفرقان ] ، أي : معینا للشّيطان علی الرّحمن . وقال أبو عبیدة «1» : الظَّهِيرُ هو المَظْهُورُ به . أي : هيّنا علی ربّه کا لشّيء الذي خلّفته، من قولک :- ظَهَرْتُ بکذا، أي : خلفته ولم ألتفت إليه .- ظھیر - الظھیر۔ مدد گار ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيرٍ [ سبأ 22] اور نہ ان میں سے کوئی خدا کا مددگار ہے ۔ فَلا تَكُونَنَّ ظَهِيراً لِلْكافِرِينَ [ القصص 86] تو تم ہر گز کافروں کے مددگار نہ ہونا ۔ وَالْمَلائِكَةُ بَعْدَ ذلِكَ ظَهِيرٌ [ التحریم 4] اور ان کے علاوہ اور فرشتے بھی مددگار ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَكانَ الْكافِرُ عَلى رَبِّهِ ظَهِيراً [ الفرقان اور کافر اپنے پروردگار کی مخالفت میں بڑا زورمارتا ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ کافر خدائے رحمٰن کی مخالفت میں شیطان کا مددگار بنا ہوا ہے ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ یہاں ظھیر کے معنی ہیں پس پشت ڈالا ہوا اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کافر کی مثال اس چیز کی سی ہے جسے بےوقعت سمجھ کر پس پشت ڈال دیا جائے اور یہ ظھر ت بکذا سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں میں نے اسے پس پشت ڈال دیا اور درخواعتناء نہ سمجھا ۔- نقب - النَّقْبُ في الحائِطِ والجِلْدِ کا لثَّقْبِ في الخَشَبِ ، يقال : نَقَبَ البَيْطَارُ سُرَّةَ الدَّابَّةِ بالمِنْقَبِ ، وهو الذي يُنْقَبُ به، والمَنْقَبُ : المکانُ الذي يُنْقَبُ ، ونَقْبُ الحائط، ونَقَّبَ القومُ :- سَارُوا . قال تعالی: فَنَقَّبُوا فِي الْبِلادِ هَلْ مِنْ مَحِيصٍ [ ق 36] وکلب نَقِيبٌ: نُقِبَتْ غَلْصَمَتُهُ لِيَضْعُفَ صَوْتُه . والنَّقْبَة : أوَّلُ الجَرَبِ يَبْدُو، وجمْعُها : نُقَبٌ ، والنَّاقِبَةُ : قُرْحَةٌ ، والنُّقْبَةُ :- ثَوْبٌ كالإِزَارِ سُمِّيَ بذلک لِنُقْبَةٍ تُجْعَلُ فيها تِكَّةٌ ، والمَنْقَبَةُ : طریقٌ مُنْفِذٌ في الجِبَالِ ، واستُعِيرَ لفعل الکريمِ ، إما لکونه تأثيراً له، أو لکونه مَنْهَجاً في رَفْعِهِ ، والنَّقِيبُ : الباحثُ عن القوم وعن أحوالهم، وجمْعه : نُقَبَاءُ ، قال : وَبَعَثْنا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيباً [ المائدة 12] .- ( ن ق ب ) النقب - کے معنی دیوار یا چمڑے میں سوراخ کرنے کے ہیں اور ثقب کے معنی لکڑی میں سوراخ کرنے کے محاورہ ہے ۔ نقب البیطار سر ۃ الدابۃ بیطار نے جانور کی ناف میں منقب نشتر کے ساتھ سوراخ کردیا منقب سوراخ کرنے کی جگہ ۔ نقب الحائط دیوار میں تقب لگائی گئی نقب القوم قوم کا چلنا پھرنا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَنَقَّبُوا فِي الْبِلادِ هَلْ مِنْ مَحِيصٍ [ ق 36] وہ شہروں میں گشت کرنے لگے کیا کہیں بھا گنے کی جگہ ہے کلب نقیب کتا جس کے گلے میں آواز کمزور کرنے کے لئے سوراخ کردیا گیا ہو ۔ النقبۃ ابتائی خارش ج نقب الناقبۃ ناسور زخم جو کئی روز تک ایک پہلو پر لیٹے رہنے کی وجہ سے پیدا ہوجاتا ہے النقبۃ ازار کی مثل ایک قسم کا کپڑا جس میں سوراخ ہونے کی وجہ سے تکہ لگایا جاتا ہے المنقبۃ اصل میں پہاڑ کے درہ کو کہتے ہیں ۔ اور بطور استعارہ شر یفانہ کارنامہ کو منقبۃ کہا جاتا ہے یا تو اس لئے کہ اس کا اچھا اثر باقی رہ جاتا ہے اور یا اس لئے کہ وہ بھی اس کی رفعت کے لئے بمنزلہ منہاج کے ہے ۔ النقیب کسی قوم کے حالات جاننے والا ج نقباء قرآن پاک میں ہے ۔ وَبَعَثْنا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيباً [ المائدة 12] اور ان میں ہم نے بارہ سر دار مقرر کئے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani