11۔ 1 مِحْرَاب سے مراد حجرہ ہے جس میں وہ اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ یہ حَرْب سے ہے جس کے معنی لڑائی کے ہیں۔ گویا عبادت گاہ میں اللہ کی عبادت کرنا ایسے ہے گویا وہ شیطان سے لڑ رہا ہے۔ 11۔ 2 صبح وشام اللہ کی تسبیح سے مراد عصر اور فجر کی نماز ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ دو وقتوں میں اللہ کی تسبیح و تمحید اور پاکی کا خصوصی اہتمام کرو۔
فَخَرَجَ عَلٰي قَوْمِهٖ مِنَ الْمِحْرَابِ : ” الْمِحْرَابِ “ نماز کی جگہ، یا وہ کمرہ جس میں وہ عبادت کیا کرتے تھے، یا مسجد، کیونکہ بنی اسرائیل کی مساجد کو ” مَحَارِیْبُ “ کہا جاتا تھا، کیونکہ وہ ایسے مقامات ہیں جن میں شیطانوں سے حرب (جنگ) کی جاتی ہے۔ (طنطاوی)- فَاَوْحٰٓى اِلَيْهِمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُكْرَةً وَّعَشِـيًّ : یعنی حمل کی نشانی کے طور پر زبان بند ہوگئی تو اشارے سے لوگوں کو پہلے اور پچھلے پہر اللہ تعالیٰ کی تسبیح کا حکم دیا، کیونکہ خود انھیں علامت ظاہر ہونے پر اللہ کی طرف سے یہی حکم تھا، جیسا کہ فرمایا : (وَاذْكُرْ رَّبَّكَ كَثِيْرًا وَّسَبِّحْ بالْعَشِيِّ وَالْاِبْكَارِ ) [ آل عمران : ٤١ ] ” اور اپنے رب کو بہت یاد کر اور شام اور صبح تسبیح بیان کر۔ “
فَخَرَجَ عَلٰي قَوْمِہٖ مِنَ الْمِحْرَابِ فَاَوْحٰٓى اِلَيْہِمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُكْرَۃً وَّعَشِـيًّا ١١- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - حرب - الحَرْبُ معروف، والحَرَب : السّلب في الحرب ثم قد سمّي كل سلب حربا، قال :- والحرب فيه الحرائب، وقال :- والحرب مشتقة المعنی من الحرب - «5» وقد حُرِبَ فهو حَرِيب، أي : سلیب، والتّحریب : إثارة الحرب، ورجل مِحْرَب، كأنه آلة في الحرب، والحَرْبَة : آلة للحرب معروفة، وأصله الفعلة من الحرب أو من الحراب، ومِحرابُ المسجد قيل : سمّي بذلک لأنه موضع محاربة الشیطان والهوى، وقیل : سمّي بذلک لکون حقّ الإنسان فيه أن يكون حریبا من أشغال الدنیا ومن توزّع الخواطر، وقیل : الأصل فيه أنّ محراب البیت صدر المجلس، ثم اتّخذت المساجد فسمّي صدره به، وقیل : بل المحراب أصله في المسجد، وهو اسم خصّ به صدر المجلس، فسمّي صدر البیت محرابا تشبيها بمحراب المسجد، وكأنّ هذا أصح، قال عزّ وجل :- يَعْمَلُونَ لَهُ ما يَشاءُ مِنْ مَحارِيبَ وَتَماثِيلَ [ سبأ 13] .- والحِرْبَاء : دویبة تتلقی الشمس كأنها تحاربها، والحِرْبَاء : مسمار، تشبيها بالحرباء التي هي دویبة في الهيئة، کقولهم في مثلها : ضبّة وکلب، تشبيها بالضبّ والکلب .- ( ح ر ب ) الحرب جنگ کا راز ۔ اور فتحۃ را کے ساتھ لڑائی میں کسی کا مال چھیننے کے ہیں پھر ہر قسم کے سب کے حرب کہاجاتا ہے اور حرب معنوی لحاظ سے حرب سے مشتق ہے کہا جاتا ہے ۔ حرب الرجل ان کا سامان چھین لیا گیا فھو حریب یعنی لٹا ہوا ۔ التحریب لڑائی کا بھڑکا نا ۔ رجل محرب جنگجو گویا وہ لڑائی بھڑکانے کا آلہ ہے ۔ الحربۃ بر چھا ۔ اصل میں یہ حرب یا حراب سے فعلۃ کے وزن پر ہے اور مسجد کے محراب کو محراب یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ شیطان اور خواہشات نفسانی سے جنگ کرنے کی جگہ ہے اور یا اس لئے کہ اس جگہ میں کھڑے ہو کر عبادت کرنیوالے پر حق یہ ہے کہ دنیوی کاروبار ۔ اور پریشان خیالیوں سے یک سو ہوجانے ۔ بعض کہتے ہیں کہ اصل میں محراب البیت صدر مجلس کو کہتے ہیں اسی بنا پر جب مسجد میں امام کی گہ بنائی گئی تو اسے بھی محراب کہہ دیا گیا ۔ اور بعض نے اس کے برعکس محراب المسجد کو اصل اور محراب البیت کو اس کی فرع نانا ہے اور یہی زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَعْمَلُونَ لَهُ ما يَشاءُ مِنْ مَحارِيبَ وَتَماثِيلَ [ سبأ 13] وہ جو چاہتے یہ ان کے لئے بناتے یعنی محراب اور مجسمے ۔ الحرباء گرگٹ کیونکہ وہ سورج کے سامنے اس طرح بیٹھ جاتی ہے گویا اس سے جنگ کرنا چاہتی ہے نیز زرہ کے حلقہ یا میخ کو بھی صوری مشابہت کی بنا پر حرباء کہاجاتا ہے جیسا کہ ضب اور کلب کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے اس کی بعض حصوں کو ضبہ اور کلب کہہ دیتے ہیں ۔ - وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - سبح - السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] ، ولجري الفرس نحو :- وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ- [ الصافات 143] ،- ( س ب ح ) السبح - اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر - ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے - بكر - أصل الکلمة هي البُكْرَة التي هي أوّل النهار، فاشتق من لفظه لفظ الفعل، فقیل : بَكَرَ فلان بُكُورا : إذا خرج بُكْرَةً ، والبَكُور : المبالغ في البکرة، وبَكَّر في حاجته وابْتَكَر وبَاكَرَ مُبَاكَرَةً.- وتصوّر منها معنی التعجیل لتقدمها علی سائر أوقات النهار، فقیل لكلّ متعجل في أمر : بِكْر، قال الشاعر - بكرت تلومک بعد وهن في النّدى ... بسل عليك ملامتي وعتاب - وسمّي أول الولد بکرا، وکذلك أبواه في ولادته [إيّاه تعظیما له، نحو : بيت الله، وقیل :- أشار إلى ثوابه وما أعدّ لصالحي عباده ممّا لا يلحقه الفناء، وهو المشار إليه بقوله تعالی: وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ ] «3» [ العنکبوت 64] ، قال الشاعر - يا بکر بكرين ويا خلب الکبد - «4» فبکر في قوله تعالی: لا فارِضٌ وَلا بِكْرٌ [ البقرة 68] . هي التي لم تلد، وسمّيت التي لم تفتضّ بکرا اعتبارا بالثيّب، لتقدّمها عليها فيما يراد له النساء، وجمع البکر أبكار . قال تعالی:إِنَّا أَنْشَأْناهُنَّ إِنْشاءً فَجَعَلْناهُنَّ أَبْکاراً [ الواقعة 35- 36] . والبَكَرَة : المحالة الصغیرة، لتصوّر السرعة فيها .- ( ب ک ر )- اس باب میں اصل کلمہ بکرۃ ہے جس کے معنی دن کے ابتدائی حصہ کے ہیں پھر اس سے صیغہ فعل مشتق کرکے کہا جاتا ہے ۔ بکر ( ن ) فلان بکورا کسی کام کو صبح سویرے نکلنا ۔ البکور ( صیغہ مبالغہ ) بہت سویرے جانے والا ۔ بکر ۔ صبح سورے کسی کام کے لئے جانا اور بکرۃ دن کا پہلا حصہ ) چونکہ دن کے باقی حصہ پر متقدم ہوتا ہے اس لئے اس سے شتابی کے معنی لے کر ہر اس شخص کے معلق بکدرس ) فعل استعمال ہوتا ہے جو کسی معاملہ میں جلد بازی سے کام نے شاعر نے کہا ہے وہ کچھ عرصہ کے بعد جلدی سے سخاوت پر ملامت کرنے لگی میں نے کہا کہ تم پر مجھے ملامت اور عتاب کرنا حرام ہے ۔ بکر پہلا بچہ اور جب ماں باپ کے پہلا بچہ پیدا ہو تو احتراما انہیں بکر ان کہا جاتا ہے جیسا کہ بیت اللہ بولا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ ثواب الہی اور ان غیر فانی نعمتوں کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے تیار کی ہیں جس کی طرف آیت کریمہ : ۔ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ ] «3» [ العنکبوت 64] اور ( ہمیشہ کی زندگی ( کا مقام تو آخرت کا گھر ہے میں اشارہ فرمایا ہے شاعر نے کہا ہے ع ( رجز ) ( 23 ) اے والدین کے اکلوتے بیٹے اور جگر گوشے ۔ پس آیت کریمہ : ۔ لا فارِضٌ وَلا بِكْرٌ [ البقرة 68] نہ تو بوڑھا ہو اور نہ بچھڑا ۔ میں بکر سے نوجوان گائے مراد ہے جس نے ابھی تک کوئی بچہ نہ دیا ہو ۔ اور ثیب کے اعتبار سے دو شیزہ کو بھی بکر کہا جاتا ہے کیونکہ اسے مجامعت کے لئے ثیب پر ترجیح دی جاتی ہے بکر کی جمع ابکار آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْشَأْناهُنَّ إِنْشاءً فَجَعَلْناهُنَّ أَبْکاراً [ الواقعة 35- 36] ہم نے ان ( حوروں ) کو پیدا کیا تو ان کو کنوار یاں بنایا ۔ البکرۃ چھوٹی سی چرخی ۔ کیونکہ وہ تیزی کے ساتھ گھومتی ہے ۔- عشا - العَشِيُّ من زوال الشمس إلى الصّباح . قال تعالی: إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحاها[ النازعات 46] ، والعِشَاءُ : من صلاة المغرب إلى العتمة، والعِشَاءَانِ : المغرب والعتمة «1» ، والعَشَا : ظلمةٌ تعترض في العین، - ( ع ش ی ) العشی - زوال آفتاب سے لے کر طلوع فجر تک کا وقت قرآن میں ہے : ۔ إِلَّا عَشِيَّةً أَوْضُحاها[ النازعات 46] گویا ( دنیا میں صرف ایک شام یا صبح رہے تھے ۔- العشاء - ( ممدود ) مغرب سے عشا کے وقت تک اور مغرب اور عشا کی نمازوں کو العشاء ن کہا جاتا ہے اور العشا ( توندی تاریکی جو آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے رجل اعثی جسے رتوندی کی بیمار ی ہو اس کی مؤنث عشراء آتی ہے ۔
محراب کیا ہے ؟- قول باری ہے (فخرج علی قومہ من المحراب۔ چناچہ وہ محراب سے نکل کر اپنی قوم کے سامنے آئے) ابوعبیدہ کا قول ہے کہ محراب صدر مجلس یعنی بیٹھنے کی جگہ کے درمیان والے حصے کو کہتے ہیں۔ اسی سے مسجد کا محراب نکلا ہے۔ ایک قول کے مطابق محراب غرفہ یعنی بالا خانہ کو کہتے ہیں۔ اسی سے قول باری ہے (اذ تسوروا المحراب ۔ جب وہ دیوار پھاند کر حجرہ میں آ گئے ) ایک اور قول ہے کہ محراب مصلی یعنی نماز پڑھنے کی جگہ کو کہتے ہیں۔- گونگے کے اشارے سے عمل درآمد ہوسکتا ہے - قول باری ہے (فاوحی الیھم اس نے انہیں اشارے سے کہا) ایک قول کے مطابق حضرت زکریاعلیہ السلام نے اپنی قوم کو ہاتھ کے اشارے سے کہا اس طرح ہاتھ کے اشارے نے اس مقام پر قول کی جگہ سے لی اس لئے کہ اشارے سے وہی کچھ بتادیا گیا جو قول کے ذریعے بتایا جاسکتا تھا۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ گونگے کے اشارے پر عمل درآمد ہوسکتا ہے اور اس کا یہ اشارہ اس کے ذمہ عائد ہونے والے امور میں قول کے قائم مقام سمجھا جائے گا، تاہم فقہاء کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ایک تندرست انسان کا اشارہ جسے گونگے پن کی کوئی بیماری نہ ہو، اس کے قول کے قائم مقام نہیں قرار دیا جاسکتا۔ گونگے انسان کے اشارے کو یہ حیثیت اس لئے دی گئی کہ گونگا اپنی مشق کی وجہ سے، نیز عادت اور ضرورت کی بنا پر اشارے سے وہ کچھ بتاسکتا ہے جو قول کے ذریعے معلوم کیا جاسکتا ہے۔ اس کے برعکس ایک تندرست انسان کی یہ مشق اور عادت نہیں ہوتی اس لئے یہ عملدرآمد کے قابل نہیں ہے۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر کسی شخص کی زبان میں رکاوٹ ہو اور زبان پوری طرح نہ چلتی ہو اور اس نے اشارے سے کسی وصیت وغیرہ کی بات کی ہو تو اس کی اس وصیت پر عمل درآمد نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ ایسے شخص کی یہ مستقل عادت اور مشق نہیں ہوتی کہ اسے گونگے کی طرح تسلیم کرلیا جائے۔
(١١) چناچہ مسجد سے اپنی قوم کے پاس تشریف لائے اور ان کو اشارہ سے یا زمین پر لکھ کر فرمایا کہ صبح و شام اللہ کی تعالیٰ کی عبادت اور پاکی بیان کرنے میں مصروف رہو۔
آیت ١١ (فَخَرَجَ عَلٰی قَوْمِہٖ مِنَ الْمِحْرَابِ ) - اپنی عبادت ‘ رازو نیاز اور مناجات کے بعد حضرت زکریا (علیہ السلام) اپنے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے لوگوں کی طرف آئے۔- (فَاَوْحٰٓی اِلَیْہِمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُکْرَۃً وَّعَشِیًّا)- آپ ( علیہ السلام) نے لوگوں کو اشاروں کنایوں سے سمجھایا کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بہت اہم فیصلہ ہونے جا رہا ہے ‘ لہٰذا تم لوگ صبح وشام کثرت سے اللہ کی تسبیح وتحمید کرتے رہو۔ عربی میں ” وحی “ کے لغوی معنی ہیں : الاعلام بالسِّر والخِفاء ‘ یعنی کسی کو اشارے سے کوئی بات اس طرح بتانا کہ دوسروں کو پتا نہ چلے۔ انبیاء ورسل (علیہ السلام) کی طرف جو وحی آتی ہے اس کی کیفیت بھی یہی ہوتی ہے۔ وحی کی مختلف صورتوں کا تذکرہ (بیان القرآن ‘ جلد اول کے آغاز میں) ” تعارف قرآن “ کے ضمن میں آچکا ہے۔ آگے سورة الشوریٰ میں بھی اس کا ذکر آئے گا۔ - حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) کی ولادت کے بعد اب ان کو براہ راست مخاطب کیا جا رہا ہے :
سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :7 محراب کی تشریح کے لیئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، آل عمران ، حاشیہ 36 سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :8 اس واقعے کی جو تفصیلات لوقا کی انجیل میں بیان ہوئی ہیں انہیں ہم یہاں نقل کر دیتے ہیں تا کہ لوگوں کے سامنے قرآن کی روایت کے ساتھ مسیحی روایت بھی رہے ۔ درمیان میں قوسین کی عبارتیں ہماری اپنی ہیں : یہود یہ کے بادشاہ ہیروویس کے زمانے میں ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، بنی اسرائیل ، حاشیہ 9 ) ابیاہ کے فریق سے زکریاہ نام کا ایک کاہن تھا اور اس کی بیوی ہارون کی اولاد میں سے تھی اس کا نام الیشبع ( ) تھا ۔ اور وہ خدا کے حضور راستباز اور خداوند کے سب احکام و قوانین پر بے عیب چلنے والے تھے ۔ اور ان کے اولاد نہ تھی کیونکہ الیشبع بانجھ تھی اور وہ دونوں عمر رسیدہ تھے ۔ جب وہ خدا کے حضور اپنے فریق کی باری پر کہانت کا کام دیتا تھا تو ایسا ہوا کہ کہانت کے دستور کے موافق اس کے نام کا قرعہ نکلا کہ خداوند کے مقدس میں جا کر خوشبو جلائے ۔ اور لوگوں کی ساری جماعت خوشبو جلا تے وقت باہر دعا کر رہی تھی کہ خداوند کا فرشتہ خوشبو کے مذبح کی داہنی طرف کھڑا ہوا اس کو دکھائی دیا ۔ اور زکریا دیکھ کر گھبرایا اور اس پر دہشت چھا گئی ۔ مگر فرشتے نے اس سے کہا اے زکریا خوف نہ کر کیونکہ تیری دعا سن لی گئی ( حضرت زکریا کی دعا کا ذکر بائیبل میں کہیں نہیں ہے ) اور تیرے لیئے تیری بیوی الیشبع کے بیٹا ہو گا ۔ تو اس کا نام یوحنا ( یعنی یحیی ) رکھنا اور تجھے خوشی و خرمی ہوگی اور بہت سے لوگ اس کی پیدائش کے سبب سے خوش ہوں گے کیونکہ وہ خداوند کے حضور میں بزرگ ہو گا ( سورہ آل عمران میں اس کے لیئے لفظ سیداً استعمال ہوا ہے ) اور ہرگز نہ مے اور نہ کوئی اور شراب پیے گا ( تقیاً ) اور اپنی ماں کے بطن ہی سے روح القدس سے بھر جائے گا ( واتینہ الحکم صبیاً ) اور بہت سے بنی اسرائیل کو خداوند کی طرف جو ان کا خدا ہے پھیرے گا ۔ اور وہ ایلیاہ ( الیاس علیہ السلام ) کی روح اور قوت میں سے اس کے آگے آگے چلے گا کہ والدوں کے دل اولاد کی طرف اور نافرمانوں کی راستبازوں کی دانائی پر چلنے کی طرف پھیرے اور خداوند کے لیئے ایک مستعد قوم تیار کرے زکریا نے فرشتے سے کہا میں اس بات کو کس طرح جانوں ؟ کیونکہ میں بوڑھا ہوں اور میری بیوی عمر رسیدہ ہے ۔ فرشتے نے اس سے کہا میں جبرائیل ہوں خدا کے حضور کھڑا رہتا ہوں اور اس لیئے بھیجا گیا ہوں کہ تجھے ان باتوں کی خوش خبری دوں ۔ اور دیکھ جس دن تک یہ باتیں واقع نہ ہولیں تو چپکا رہے گا اور بول نہ سکے گا اس لیئے کہ تو نے میری باتوں کا جو اپنے وقت پر پوری ہوں گی یقین نہ کیا ۔ ( یہ بیان قرآن سے مختلف ہے ۔ قرآن اسے نشانی قرار دیتا ہے اور لوقا کی روایت اسے سزا کہتی ہے ۔ نیز قرآن صرف تین دن کی خاموشی کا ذکر کرتا ہے اور لوقا کہتا ہے کہ اس وقت سے حضرت یحیی کی پیدائش تک حضرت زکریا گونگے رہے ) اور لوگ زکریا کی راہ دیکھتے اور تعجب کرتے تھے کہ اسے مقدس میں کیوں دیر لگی ۔ جب وہ باہر آیا تو ان سے بول نہ سکا ۔ پس انہوں نے معلوم کیا کہ اس نے مقدس میں رویا دیکھی ہے اور وہ ان سے اشارے کرتا تھا اور گونگا ہی رہا ۔ ( لوقا ۔ باب ۔ 1 ۔ آیت 5تا 22 ۔ )