Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

پیدائش یحییٰ علیہ السلام ۔ بمطابق بشارت الہٰی حضرت زکریا علیہ السلام کے ہاں حضرت یحییٰ علیہ السلام پیدا ہوئے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں تورات سکھا دی جو ان میں پڑھی جاتی تھی اور جس کا احکام نیک لوگ اور انبیاء دوسروں کو بتلاتے تھے اس وقت ان کی عمر بچپن کی ہی تھی اسی لئے اپنی اس انوکھی نعمت کا بھی ذکر کیا کہ بچہ بھی دیا اور اسے آسمانی کتاب کا عالم بھی بچپن سے ہی کر دیا اور حکم دے دیا کہ حرص اجتہاد کوشش اور قوت کے ساتھ کتاب اللہ سیکھ لے ۔ ساتھ ہی ہم نے اسے اسی کم عمری میں فہم وعلم ، قوت وعزم ، دانائی اور حلم عطا فرمایا نیکیوں کی طرف بچپن سے ہی جھک گئے اور کوشش وخلوص کے ساتھ اللہ کی عبادت اور مخلوق کی خدمت میں لگ گئے ۔ بچے آپ سے کھیلنے کو کہتے تھے مگر یہ جواب پاتے تھے کہ ہم کھیل کے لئے پیدا نہیں کئے گئے ۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کا وجود حضرت زکریا علیہ السلام کے لئے ہماری رحمت کا کرشمہ تھا جس پر بجز ہمارے اور کوئی قادر نہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ بھی مروی ہے ۔ کہ واللہ میں نہیں جانتا کہ حنان کا مطلب کیا ہے لغت میں محبت شقفت رحمت وغیرہ کے معنی میں یہ آتا ہے بہ ظاہر یہ مطلب معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے اسے بچپن سے ہی حکم دیا اور اسے شفقت ومحبت اور پاکیزگی عطا فرمائی ۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ اسک شخص جہنم میں ایک ہزار سال تک یا حنان یا منان پکارتا رہے گا پس ہر میل کچیل سے ہر گناہ اور معصیت سے آپ بچے ہوئے تھے ۔ صرف نیک اعمال آپ کی عمر کا خلاصہ تھا آپ گناہوں سے اور اللہ کی نافرمانیوں سے یکسو تھے ساتھ ہی ماں باپ کے فرمابردار اطاعت گزار اور ان کے ساتھ نیک سلوک تھے کبھی کسی بات میں ماں باپ کی مخالفت نہیں کی کبھی ان کے فرمان سے باہر نہیں ہوتے کبھی ان کی روک کے بعد کسی کام کو نہیں کیا کوئی سرکشی کوئی نافرمانی کی خو آپ میں نہ تھی ۔ ان اوصاف جمیلہ اور خصائل حمیدہ کے بدلے تینوں حالتوں میں آپ کو اللہ کی طرف سے امن وامان اور سلامتی ملی ۔ یعنی پیدائش والے دن موت والے دن اور حشر والے دن ۔ یہی تینوں جگہیں گھبراہٹ کی اور انجان ہوتی ہیں ۔ انسان ماں کے پیٹ سے نکلتے ہی ایک نئی دنیا دیکھتا ہے جو اس کی آج تک کی دنیا سے عظیم الشان اور بالکل مختلف ہوتی ہے موت والے دن اس مخلوق سے وابسطہ پڑتا ہے جس سے حیات میں کبھی بھی واسطہ نہیں پڑا انہیں کبھی نہ دیکھا ۔ محشروالے دن بھی علی ہذالقیاس اپنے تئیں ایک بہت بڑے مجمع میں جو بالکل نئی چیز ہے دیکھ کر حیرت زدہ ہو جاتا ہے ۔ پس ان تینوں وقتوں میں اللہ کی طرف سے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو سلامتی ملی ۔ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمام لوگ قیامت کے دن کچھ نہ کچھ گناہ لے کر جائیں گے سوائے حضرت یحییٰ علیہ السلام کے ۔ حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ آپ نے گناہ بھی کبھی نہیں کیا ۔ یہ حدیث مرفوعا اور دوسندوں سے بھی مروی ہے لیکن وہ دونوں سندیں بھی ضغیف ہیں واللہ اعلم ۔ حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں حضرت یحییٰ علیہ السلام سے فرمانے لگے آپ میرے لئے استغفار کیجئے آپ مجھ سے بہتر ہیں حضرت یحییٰ علیہ السلام نے جواب دیا آپ مجھ سے بہتر ہیں حضرت عیسی ٰعلیہ السلام نے فرمایا میں نے آپ ہی اپنے اوپر سلام کیا اور آپ پر خود اللہ نے سلام کہا ۔ اب ان دونوں نے ہی اللہ کی فضیلت ظاہر کی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

12۔ 1 یعنی اللہ نے حضرت زکریا (علیہ السلام) کو یٰحیٰی (علیہ السلام) عطا فرمایا اور جب وہ کچھ بڑا ہوا، گو ابھی بچہ ہی تھا، اس اللہ نے کتاب کو مضبوطی سے پکڑنے یعنی اس پر عمل کرنے کا حکم دیا۔ کتاب سے مراد تورات ہے یا ان پر مخصوص نازل کردہ کوئی کتاب ہے جس کا ہمیں علم نہیں۔ 12۔ 2 حُکْم سے مراد دانائی، عقل، شعور، کتاب میں درج احکام دین کی سمجھ، علم وعمل کی جامعیت یا نبوت سے مراد ہے۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ اس امر میں کوئی مانع نہیں ہے کہ حکم میں یہ ساری ہی چیزیں داخل ہوں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٣] سیدنا یحییٰ کے اوصاف :۔ یعنی اللہ کی کتاب کو خود بھی سیکھو دوسروں کو بھی سکھاؤ۔ اس کے احکام پر خود بھی پوری طرح عمل کرو دوسروں کو بھی اس کی دعوت دو ۔ یہی وہ مشن تھا جس کے لئے سیدنا زکریا ( علیہ السلام) نے دعا کی تھی۔ چناچہ اللہ نے سیدنا یحییٰ کو سن رشد پر پہنچتے ہی منصب نبوت پر سرفراز فرما کر یہ حکم دے دیا تھا۔ اور ساتھ ہی قوت فیصلہ، قوت اجتہاد، تفقہ فی الدین، معاملات میں صحیح رائے قائم کرنے کی صلاحیت اور معاملات میں فیصلہ کرنے کا اختیار بھی دے دیا گیا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يٰــيَحْـيٰى خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍ ۔۔ : اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے بہت سی وہ باتیں چھوڑ دیں جو خود ہی سمجھ میں آجاتی ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ یحییٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے، کچھ سمجھدار ہوئے تو والد کے جانشین کے طور پر تیار کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم دیا کہ اے یحییٰ تورات کو قوت کے ساتھ پکڑو، یعنی اسے حفظ کرو، معانی و مطالب سمجھو، اس پر عمل کرو اور اس کے احکام پوری قوت کے ساتھ اپنے آپ پر اور پوری قوم پر نافذ کرو۔ اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے انھیں بچپن ہی میں فیصلہ کرنے کی قوت عطا فرما دی اور وہ نو عمری ہی میں اپنے والد کے علم و فضل، بنی اسرائیل کی سیادت اور وحی و نبوت کے وارث بن گئے اور پوری قوت سے بنی اسرائیل کو تورات پڑھانے اور فیصلے کرنے لگے۔ والد کمزور تھے اور یہ نوجوان، سو والد کی جگہ لوگوں کو کتاب کا علم سکھانے لگے۔ اگر کوئی کہے کہ بچپن میں یہ کیسے ہوسکتا ہے تو جواب اس کا یہ ہے کہ نبوت کا سارا معاملہ خرق عادت یعنی دنیا کے عام معمول، عادت اور دستور کے خلاف ہوتا ہے، اس لیے اس خرق عادت پر بھی تعجب نہیں ہونا چاہیے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰــيَحْـيٰى خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّۃٍ۝ ٠ۭ وَاٰتَيْنٰہُ الْحُكْمَ صَبِيًّا۝ ١٢ۙ- أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - قوی - القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] - ( ق وو ) القوۃ - یہ کبھی قدرت کے معنی میں اسرعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔ - حكم - والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58]- ( ح ک م ) حکم - الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔- صبا - الصَّبِيُّ : من لم يبلغ الحلم، ورجل مُصْبٍ : ذو صِبْيَانٍ. قال تعالی: قالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم 29] . وصَبَا فلان يَصْبُو صَبْواً وصَبْوَةً : إذا نزع واشتاق، وفعل فعل الصِّبْيَانِ. قال : أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُنْ مِنَ الْجاهِلِينَ [يوسف 33] ، وأَصْبَانِي فصبوت، والصَّبَا : الرّيح المستقبل للقبلة . وصَابَيْتُ السّيف : أغمدته مقلوبا، وصَابَيْتُ الرّمح : أملته، وهيّأته للطّعن . والصَّابِئُونَ : قوم کانوا علی دين نوح، وقیل لكلّ خارج من الدّين إلى دين آخر :- صَابِئٌ ، من قولهم : صَبَأَ نابُ البعیر : إذا طلع، ومن قرأ : صَابِينَ «2» فقد قيل : علی تخفیف الهمز کقوله : لا يَأْكُلُهُ إِلَّا الْخاطِؤُنَ «3» [ الحاقة 37] ، وقد قيل : بل هو من قولهم : صَبَا يَصْبُو، قال تعالی: وَالصَّابِئِينَ وَالنَّصاری[ الحج 17] . وقال أيضا : وَالنَّصاری وَالصَّابِئِينَ [ البقرة 62] .- ( ص ب و ) الصبی - نابالغ لڑکا رجل مصب عیال دار جس کے بچے نابالغ ہوں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم 29] ( وہ بولے کہ ) ہم اس سے جو کہ گود کا بچہ ہے کیونکر بات کریں ۔ صبا فلان یصبو صبوا وصبوۃ کسی چیز کی طرف مائل ہوکر بچوں کے سے کام کرنے لگا قرآن میں ہے : ۔ أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُنْ مِنَ الْجاهِلِينَ [يوسف 33] تو میں ان کی طرف مائل ہوجاؤ نگا اور نادانوں میں داخل ہوجاؤ نگا ۔ اصبانی فصبوت اس نے مجھے گرویدہ کیا چناچہ میں گر ویدہ ہوگیا ۔ الصبا ۔ پروائی ہوا ۔ صابیت السیف الٹی تلوار نیام میں ڈالی ۔ صابیت الرمح نیزہ مارنے کے لئے جھکا دیا ۔ الصابئون ایک فرقے کا نام ہے جو نوح (علیہ السلام) کے دین پر ہونے کا مدعی تھا اور ہر وہ آدمی جو ایک دین کو چھوڑ کر دوسرے دین میں داخل ہوجائے اسے صابئی کہا جاتا ہے صباء ناب البعیر کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں اونٹ کے کچلی نکل آئی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالصَّابِئِينَ وَالنَّصاری[ الحج 17] اور ستارہ پرست اور عیسائی ۔ وَالنَّصاری وَالصَّابِئِينَ [ البقرة 62] اور عیسائی یا ستارہ پرست ۔ اور ایک قرات میں صابین ( بدوں ہمزہ کے ) ہے بعض نے کہا ہے کہ ہمزہ تخفیف کے لئے حزف کردیا گیا ہے جیسا کہ آیت : ۔ لا يَأْكُلُهُ إِلَّا الْخاطِؤُنَ «3» [ الحاقة 37] جس کو گنہگاروں کے سوا کوئی نہیں کھائے گا ۔ میں الخاطون اصل میں خاطئون ہے ۔ اور بعض نے کہا نہیں بلکہ یہ صبا یصبو سے مشتق ہے جس کے معنی مائل ہونا اور جھکنا کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٢۔ ١٣۔ ١٤) پھر یحییٰ (علیہ السلام) نے جس وقت بالغ ہوئے اور سن شعور کو پہنچ گئے تو الہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ اے یحییٰ کتاب توریت میں جو احکامات ہیں ان کی پوری کوشش اور پابندی کے ساتھ پیروی کرو اور ہم نے یحییٰ (علیہ السلام) کو لڑکپن ہی میں عقل وعلم عطا کیا تھا اور خاص اپنی طرف سے ان کے والدین کے لیے رحمت اور صلہ رحمی یا یہ کہ ان کو دین میں صلاحیت عطا کی تھی۔- اور وہ اپنے رب کے بڑے تابعدار اور اپنے والدین کے بڑے خدمت گزار تھے اور وہ دین میں نافرمانی کرنیوالے اور غصہ میں قتل کرنے والے اور اپنے پروردگار کی نافرمانی کرنے والے نہیں تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٢ (یٰیَحْیٰی خُذِ الْکِتٰبَ بِقُوَّۃٍ )- کتاب سے مراد یہاں زبور ‘ تورات اور دیگر صحائف ہیں جو اس وقت بنی اسرائیل کے درمیان موجود تھے۔- (وَاٰتَیْنٰہُ الْحُکْمَ صَبِیًّا)- اب حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) کے خصوصی اوصاف بیان کیے جا رہے ہیں۔ یوں سمجھئے کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) اور حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) ( ) دونوں ایسی غیر معمولی شخصیات ہیں کہ ان جیسے اوصاف دوسرے انبیاء و رسل ( علیہ السلام) میں بھی نہیں پائے گئے۔ چناچہ حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) کو بچپن ہی میں حکمت عطا کردی گئی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :9 بیچ میں یہ تفصیل چھوڑ دی گئی ہے کہ اس فرمان الہی کے مطابق حضرت یحیی پیدا ہوئے اور جوانی کی عمر کو پہنچے ۔ اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ جب وہ سن رشد کو پہنچے تو کیا کام ان سے لیا گیا ۔ یہاں صرف ایک فقرے میں اس مشن کو بیان کر دیا گیا ہے جو منصب نبوت پر مامور کرتے وقت ان کے سپرد کیا گیا تھا ۔ یعنی وہ توراۃ پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوں اور بنی اسرائیل کو اس پر قائم کرنے کی کوشش کریں ۔ سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :10 حکم یعنی قوت فیصلہ ، قوت اجتہاد ، تفقہ فی الدین معاملات میں صحیح رائے قائم کرنی کی صلاحیت اور اللہ کی طرف سے معاملات میں فیصلہ دینے کا اختیار ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

8: کتاب سے مراد تورات ہے، اور مضبوطی کے ساتھ تھامنے کا مطلب یہ ہے کہ اس پر خود بھی پورا پورا عمل کرو۔ اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرو۔