Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مریم علیہا السلام اور حضرت جبرائیل علیہ السلام ۔ مروی ہے کہ جب آپ فرمان الہٰی تسلیم کر چکیں اور اس کے آگے گردن جھکا دی تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے ان کے کرتے کے گربیان میں پھونک ماری ۔ جس سے انہیں بحکم رب حمل ٹھہر گیا اب تو سخت گبھرائیں اور یہ خیال کلیجہ مسوسنے لگا کہ میں لوگوں کو کیا منہ دکھاؤں گی ؟ لاکھ اپنی برات پیش کروں لیکن اس انوکھی بات کو کون مانے گا ؟ اسی گھبراہٹ میں آپ تھیں کسی سے یہ واقعہ بیان نہیں کیا تھا ہاں جب آپ اپنی خالہ حضرت زکریا علیہا السلام کی بیوی کے پاس گئیں تو وہ آپ سے معانقہ کرکے کہنے لگیں بچی اللہ کی قدرت سے اور تمہارے خالو کی دعا سے میں اس عمر میں حاملہ ہوگئی ہوں ۔ آپ نے فرمایا خالہ جان میرے ساتھ یہ واقعہ گزرا اور میں بھی اپنے آپ کو اسی حالت میں پاتی ہوں چونکہ یہ گھرانہ نبی کا گھرانہ تھا ۔ وہ قدرت الہٰی پر اور صداقت مریم پر ایمان لائیں ۔ اب یہ حالت تھی کہ جب کبھی یہ دونوں پاک عورتیں ملاقات کرتیں تو خالہ صاحبہ یہ محسوس فرماتیں کہ گویا ان کا بچہ بھانجی کے بچے کے سامنے جھکتا ہے اور اس کی عزت کرتا ہے ۔ ان کے مذہب میں یہ جائز بھی تھا اسی وجہ سے حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اور آپ کے والد نے آپ کو سجدہ کیا تھا ۔ اور اللہ نے فرشتوں کو حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا لیکن ہماری شریعت میں یہ تعظیم اللہ کے لیے مخصوص ہو گئی اور کسی دوسرے کو سجدہ کرنا حرام ہو گیا کیونکہ یہ تعظیم الہٰی کے خلاف ہے ۔ اس کی جلالت کے شایان شان نہیں ۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام خالہ زاد بھائی تھے ۔ دونوں ایک ہی وقت حمل میں تھے ۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی والدہ اکثر حضرت مریم سے فرماتی تھیں کہ مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میرا بچہ تیرے بچے کے سامنے سجدہ کرتا ہے ۔ امام مالک رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں اس سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کیونکہ اللہ نے آپ کے ہاتھوں اپنے حکم سے مردوں کو زندہ کر دیا اور مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں کو بھلا چنگا کر دیا ۔ جمہور کا قول تو یہ ہے کہ آپ نو مہینے تک حمل میں رہے ۔ عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں آٹھ ماہ تک ۔ اسی لئے آٹھ ماہ کے حمل کا بچہ عموما زندہ نہیں رہتا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حمل کے ساتھ ہی بچہ ہو گیا ۔ یہ قول غریب ہے ۔ ممکن ہے آپ نے آیت کے ظاہری الفاظ سے یہ سمجھا ہو کیونکہ حمل کا الگ ہونے کا اور دردزہ کا ذکر ان آیتوں میں ف کے ساتھ ہے اور ف تعقیب کے لئے آتی ہے ۔ لیکن تعقیب ہر چیز کی اس کے اعتبار سے ہوتی ہے جیسے عام انسانوں کی پیدائش کا حال آیت قرآن ( وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَـةٍ مِّنْ طِيْنٍ 12 ؀ۚ ) 23- المؤمنون:12 ) میں ہوا ہے کہ ہم نے انسان کو بجتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا پھر اسے بصورت نطفہ رحم میں ٹھہرایا پھر نطفے کو پھٹکی بنایا پھر اس پھٹکی کو لو تھڑا بنایا ، پھر اس لوتھڑے میں ہڈیاں پیدا کیں ۔ یہاں بھی دو جگہ ف ہے اور ہے بھی تعقیب کے لیے ۔ لیکن حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ان دو حالتوں میں چالیس دن کا فاصلہ ہوتا ہے ۔ قرآن کریم کی آیت میں ہے ( اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً ۡ فَتُصْبِحُ الْاَرْضُ مُخْضَرَّةً ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَطِيْفٌ خَبِيْرٌ 63؀ۚ ) 22- الحج:63 ) کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش برساتا ہے ۔ پس زمین سرسبز ہوجاتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ پانی برسنے کے بعد سبزہ اگتا ہے ۔ حالانکہ ف یہاں بھی ہے پس تعقیب ہر چیز کے اعتبار سے ہوتی ہے ۔ سیدھی سی بات تو یہ ہے کہ مثل عادت عورتوں کے آپ نے حمل کا زمانہ پورا گزارا مسجد میں ہی ۔ مسجد کے خادم ایک صاحب اور تھے جن کا نام یوسف نجار تھا ۔ انہوں نے جب مریم علیہا السلام کا یہ حال دیکھا تو دل میں کچھ شک سا پیدا ہوا لیکن حضرت مریم کے زہد وتقوی ، عبادت وریاضت ، خشیت الہٰی اور حق بینی کو خیال کرتے ہوئے انہوں نے یہ برائی دل سے دور کرنی چاہی ، لیکن جوں جوں دن گزرتے گئے حمل کا اظہار ہوتا گیا اب تو خاموش نہ رہ سکے ایک دن با ادب کہنے لگے کہ مریم میں تم سے ایک بات پوچھتا ہوں ناراض نہ ہونا بھلا بغیر بیج کے کسی درخت کاہونا ، بغیر دانے کے کھیت کا ہونا ، بغیر باپ کے بچے کا ہونا ممکن بھی ہے ؟ آپ ان کے مطلب کو سمجھ گئیں اور جواب دیا کہ یہ سب ممکن ہے سب سے پہلے جو درخت اللہ تعالیٰ نے اگایاوہ بغیر بیج کے تھا ۔ سب سے پہلے جو کھیتی اللہ نے اگائی وہ بغیر دانے کی تھی ، سب سے پہلے اللہ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا وہ بےباپ کے تھے بلکہ بےماں کے بھی ان کی تو سمجھ میں آگیا اور حضرت مریم علیہا السلام اور اللہ کی قدرت کو نہ جھٹلا سکے ۔ اب حضرت صدیقہ نے جب دیکھا کہ قوم کے لوگ ان پر تہمت لگا رہے ہیں تو آپ ان سب کو چھوڑ چھاڑ کر دور دراز چلی گئیں ۔ امام محمد بن اسحاق رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں جب حمل کے حالات ظاہر ہوگئے قوم نے پھبتیاں پھینکی ، آوازے کسنے اور باتیں بنانی شروع کر دیں اور حضرت یوسف نجار جیسے صالح شخص پر یہ تہمت اٹھائی تو آپ ان سب سے کنارہ کش ہوگئیں نہ کوئی انہیں دیکھے نہ آپ کسی کو دیکھیں ۔ جب دردزہ اٹھا تو آپ کجھور کے ایک درخت کی جڑ میں آبیٹھیں کہتے ہیں کہ یہ خلوت خانہ بیت المقدس کی مشرقی جانب کا حجرہ تھا ۔ یہ بھی قول ہے کہ شام اور مصر کے درمیان آپ پہنچ چکی تھیں اس وقت بچہ ہونے کا درد شروع ہوا ۔ اور قول ہے کہ بیت المقدس سے آپ آٹھ میل چلی گئی تھیں اس بستی کا نام بیت لحم تھا ۔ معراج کے واقعہ کے بیان میں پہلے ایک حدیث گزری ہے جس میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی جگہ بھی بیت لحم تھا ۔ واللہ اعلم ۔ مشہور بات بھی یہی ہے اور نصرانیوں کا تو اس پر اتفاق ہے اور اس حدیث میں بھی ہے اگر یہ صحیح ہو ۔ اس وقت آپ موت کی تمنا کرنے لگیں کیونکہ دین کے فتنے کے وقت یہ تمنا بھی جائز ہے ۔ جانتی تھیں کہ کوئی انہیں سچا نہ کہے گا انکے بیان کردہ واقعہ کو ہر شخص گھڑنت سمجھے گا ۔ دنیا آپ کو پریشان کر دے گی اور عبادت واطمینان میں خلل پڑے گا ۔ ہر شخص برائی سے یاد کرے گا اور لوگوں پر برا اثر پڑے گا ۔ تو فرمانے لگیں کاش کہ میں اس حالت سے پہلے ہی اٹھالی جاتی بلکہ میں پیدا ہی نہ کی جاتی اس قدر شرم وحیا دامن گیر ہوئی کہ آپ نے اس تکلیف پر موت کو ترجیح دی اور تمنا کی کہ کاش میں کھوئی ہوئی اور یاد سے اتری ہوئی چیز ہو جاتی کہ نہ کوئی یاد کرے ۔ نہ ڈھونڈے ، نہ ذکر کرے ، احادیث میں موت مانگنے کی ممانعت وارد ہے ۔ ہم نے ان روایتوں کو آیت ( تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ ١٠١؁ ) 12- یوسف:101 ) ، کی تفسیر بیان کردیا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٣] سیدہ مریم میں روح جبرئیل نے پھونکی تھی یا اللہ تعالیٰ نے ؟ روایات میں ہے کہ یہ کہہ کر سیدنا جبریل نے سیدہ مریم کی قمیص کے گریبان میں روح پھونکی جسے سورة تحریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا : (فَنَفَخْنَا فِيْهِ مِنْ رُّوْحِنَا 12۝ۧ) 66 ۔ التحریم :12) ۔ یعنی یہ روح ہم نے پھونکی تھی۔ اسی سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ جبریل نے یہ کیوں کہا تھا تاکہ میں تجھے ایک پاکیزہ لڑکا عطا کروں اس نفخہ جبریل یا نفخہ الٰہی سے سیدہ مریم کو حمل قرار پا گیا۔ اسی وجہ سے آپ کو روح اللہ کہتے ہیں۔ - حمل کی وجہ سے سیدہ مریم کا بیت المقدس سے چلے جانا :۔ جب آپ حاملہ ہوگئیں تو اب شرم کے مارے وہاں رہنا گوارا نہ کیا اور آپ بیت المقدس کا حجرہ چھوڑ کر دور کسی مقام پر چلی گئیں۔ کہتے ہیں کہ یہ مقام بیت اللحم تھا جو وہاں سے تقریبا آٹھ میل دور ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَـحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهٖ مَكَانًا قَصِيًّا : ” قَصِيًّا “ ” قَصِیَ یَقْصَی قُصُوًّا “ ” رَضِیَ یَرْضَی “ کی طرح ناقص واوی ” عَلِمَ یَعْلَمُ “ سے ہے۔ ” قَصِيًّا أَيْ بَعِیْدًا “ یعنی دور۔ ” فَـحَمَلَتْهُ “ جبریل (علیہ السلام) کے یہ کہنے اور ان میں روح پھونکنے کے بعد وہ حاملہ ہوگئیں۔ روح پھونکنے کی کیفیت کے لیے دیکھیے سورة انبیاء (٩١) اور سورة تحریم (١٢) حاملہ ہونے کے بعد فطری تقاضے کے مطابق حمل کی مدت پوری کرنے کے دوران لوگوں کے طعن و ملامت سے بچنے کے لیے وہ بیت المقدس سے دور ایک مقام پر منتقل ہوگئیں۔ ابن کثیر (رض) نے وہب کا قول ذکر کیا ہے کہ وہ بیت اللحم میں منتقل ہوئیں، جو بیت المقدس سے آٹھ میل دور تھا اور وہیں عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت ہوئی۔ ابن کثیر نے فرمایا کہ نصاریٰ اس میں کوئی شک نہیں کرتے۔ مگر وہب کا قول اسرائیلیات ہی سے ماخوذ ہے، نہ اس کے صحیح ہونے کا یقین ہوسکتا ہے اور نہ نصاریٰ کے کہنے کا۔ البتہ اکثر علماء کا کہنا یہی ہے۔ حمل کے کتنا عرصہ بعد عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت ہوئی ؟ بعض مفسرین نے فرمایا کہ بس حمل ہونے کی دیر تھی کہ اس کے ساتھ ہی ولادت ہوگئی۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کے لیے یہ کچھ مشکل نہیں مگر یہ بات کسی قابل اعتماد ذریعے سے نہیں آئی اور وحئ الٰہی کے بغیر کسی واقعہ کے متعلق سیکٹروں برس بعد اگر کوئی شخص سنی سنائی بات بیان کرے تو خواہ وہ کتنا عظیم ہو، وہ بات یقین کی ٹھنڈک نہیں پہنچا سکتی۔ اس لیے ظاہر یہی ہے کہ حمل کی عام مدت پوری ہوئی اور جمہور مفسرین کا قول بھی یہی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - پھر (اس گفتگو کے بعد جبرئبل (علیہ السلام) نے ان کے گریبان میں پھونک مار دی جس سے) ان کے پیٹ میں لڑکا رہ گیا، پھر (جب اپنے وقت پر حضرت مریم کو بچہ کی پیدائش کے آثار محسوس ہوئے تو) اس حمل کو لئے ہوئے (اپنے گھر سے) کسی دور جگہ (چنگل پہاڑ میں) الگ چلی گئیں پھر (جب درد شروع ہوا تو) درد زِہ کی وجہ سے کھجور کے درخت کی طرف آئیں (کہ اس کے سہارے بیٹھیں اٹھیں، اب حالت یہ تھی کہ نہ کوئی انیس نہ جلیس، دور سے بےچین، ایسے وقت جو سامان راحت و ضرورت کا ہونا چاہئیے وہ ندارد ادھر بچہ ہونے پر بدنامی کا خیال، آخر گھبرا کر) کہنے لگیں کاش میں اس (حالت) سے پہلے مرگئی ہوتی اور ایسی نیست و نابود ہوجاتی کہ کسی کو یاد بھی نہ رہتی، پس (اسی وقت خدا تعالیٰ کے حکم سے حضرت) جبرئیل ( علیہ السلام) پہنچے اور ان کے احترام کی وجہ سے سامنے گئے بلکہ جس مقام پر حضرت مریم تھی اس سے اسفل مقام میں آڑ میں آئے اور انھوں) نے ان کے (اس) پائیں (مکان) سے ان کو پکارا۔ (جس کو حضرت مریم نے پہچانا کہ یہ اسی فرشتہ کی آواز ہے جو اوّل ظاہر ہوا تھا) کہ تم (بےسروسامانی سے یا خوف بدنامی سے) مغموم مت ہو، (کیونکہ بےسروسامانی کا تو یہ انتظام ہوا ہے کہ) تمہارے رب نے تمہارے پائیں (مکان) میں ایک نہر پیدا کردی ہے (جس کے دیکھنے سے اور پانی پینے سے فرحت طبعی ہو ونیز حسب روایت روح انکو اس وقت پیاس بھی لگی تھی اور حسب مسئلہ طبیہ گرم چیزوں کا استعمال قبل وضع مسہل ولادت و دافع فضلات ومقوی طبیعت بھی ہے اور پانی میں اگر سخونت (گرمی) بھی ہو جیسا بعض چشموں میں مشاہد ہے تو اور زیادہ مزاج کے موافق ہوگا، ونیز کھجور کثیر الغذاء مولد خون، مسمّن ومقوی گردہ کمر و مفاصل ہونے کی وجہ سے زچہ کے لئے سب غذاؤں اور دواؤں سے بہتر ہے اور حرارت کی وجہ سے جو اس کی مضرت کا احتمال ہے سو اوّل تو رطب میں حرارت کم ہے، دوسرے پانی سے اس کی اصلاح ہوسکتی ہے تیسرے مضرت کا ظہور جب ہوتا ہے کہ عضو میں ضعف ہو ورنہ کوئی چیز بھی کچھ نہ کچھ مضرت سے خالی نہیں ہوتی و نیز خرق عادت (کرامت) کا ظہور اللہ کے نزدیک مقبولیت کی علامت ہونے کی وجہ سے موجب مسرّت روحانی بھی ہے) اور اس کھجور کے تنہ کو (پکڑ کر) اپنی طرف ہلاؤ اس سے تم پر تروتازہ کھجوریں جھڑیں گی (کہ اس سے پھل کے کھانے میں لذت جسمانی اور بطور خرق عادت کے پھل کے آنے میں لذت روحانی مجتمع ہے) پھر (اس پھل کو) کھاؤ اور (وہ پانی) پیو اور آنکھیں ٹھنڈی کرو (یعنی بچہ کے دیکھنے سے اور کھانے پینے سے اور علامت قبول عنداللہ ہونے سے خوش رہو) پھر (جب بدنامی کے احتمال کا موقع آوے یعنی کوئی آدمی اس قصہ پر مطلع ہو تو اس کا یہ انتظام ہوا ہے کہ) اگر تم آدمیوں میں سے کسی کو بھی (آتا اور اعتراض کرتا) دیکھو تو (تم کچھ مت بولنا بلکہ اشارہ سے اس سے) کہہ دینا کہ میں نے تو اللہ کے واسطے (ایسے) روزہ کی منت مان رکھی ہے (جس میں بولنے کی بندش ہے) سو (اسوجہ سے) میں آج (دن بھر) کسی آدمی سے نہیں بولوں گی (اور خدا کے ذکر اور دعا میں مشغول ہونا اور بات ہے بس تم اتنا جواب دے کر بےفکر ہوجانا، اللہ تعالیٰ اس مولود مسعود کو خرق عادت کے طور پر بولتا کردے گا جس سے ظہور اعجاز دلیل نزاہت وعصمت ہوجاوے گی غرض ہر غم کا علاج ہوگیا۔ )

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَـحَمَلَتْہُ فَانْتَبَذَتْ بِہٖ مَكَانًا قَصِيًّا۝ ٢٢- حمل - الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل .- وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی:- وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] ،- ( ح م ل ) الحمل - ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ - وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔- نبذ - النَّبْذُ : إلقاء الشیء وطرحه لقلّة الاعتداد به، ولذلک يقال : نَبَذْتُهُ نَبْذَ النَّعْل الخَلِق، قال تعالی: لَيُنْبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ [ الهمزة 4] ، فَنَبَذُوهُ وَراءَ ظُهُورِهِمْ [ آل عمران 187] لقلّة اعتدادهم به، وقال : نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ [ البقرة 100] أي : طرحوه لقلّة اعتدادهم به، وقال : فَأَخَذْناهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْناهُمْ فِي الْيَمِ [ القصص 40] ، فَنَبَذْناهُ بِالْعَراءِ [ الصافات 145] ، لَنُبِذَ بِالْعَراءِ [ القلم 49] ، وقوله : فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال 58] فمعناه : ألق إليهم السّلم، واستعمال النّبذ في ذلک کاستعمال الإلقاء کقوله : فَأَلْقَوْا إِلَيْهِمُ الْقَوْلَ إِنَّكُمْ لَكاذِبُونَ [ النحل 86] ، وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل 87] تنبيها أن لا يؤكّد العقد معهم بل حقّهم أن يطرح ذلک إليهم طرحا مستحثّا به علی سبیل المجاملة، وأن يراعيهم حسب مراعاتهم له، ويعاهدهم علی قدر ما عاهدوه، وَانْتَبَذَ فلان : اعتزل اعتزال من لا يقلّ مبالاته بنفسه فيما بين الناس . قال تعالی: فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهِ مَکاناً قَصِيًّا[ مریم 22] وقعد نَبْذَةً ونُبْذَةً. أي : ناحية معتزلة، وصبيّ مَنْبُوذٌ ونَبِيذٌ کقولک : ملقوط ولقیط، لکن يقال : منبوذ اعتبارا بمن طرحه، وملقوط ولقیط اعتبارا بمن تناوله، والنَّبِيذُ : التّمرُ والزّبيبُ الملقَى مع الماء في الإناء، ثمّ صار اسما للشّراب المخصوص .- ( ن ب ذ) النبذ - کے معنی کسی چیز کو در خود اعتنا نہ سمجھ کر پھینک دینے کے ہیں اسی سے محاورہ مشہور ہے ۔ نبذ تہ نبذلنعل الخلق میں نے اسے پرانے جو تا کی طرح پھینک دیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَيُنْبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ [ الهمزة 4] وہ ضرور حطمہ میں ڈالا جائیگا ۔ فَنَبَذُوهُ وَراءَ ظُهُورِهِمْ [ آل عمران 187] تو انہونے اسے پس پشت پھینک دیا ۔ یعنی انہوں نے اسے قابل التفات نہ سمجھا نیز فرمایا ۔ نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ [ البقرة 100] تو ان بیس ایک فریق نے اس کو بےقدر چیز کی طرح پھینک دیا فَأَخَذْناهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْناهُمْ فِي الْيَمِ [ القصص 40] تو ہم نے ان کو اور ان کے لشکر کو پکڑ لیا ۔ اور دریا میں ڈال دیا ۔ فَنَبَذْناهُ بِالْعَراءِ [ الصافات 145] پھر ہم نے ان کو فراخ میدان میں ڈال دیا ۔ لَنُبِذَ بِالْعَراءِ [ القلم 49] تو وہ چٹیل میدان میں ڈال دیئے جاتے ۔ تو ان کا عہد انہی کی طرف پھینک دو اور برابر کا جواب دو میں کے معنی یہ ہیں کہ معاہدہ صلح سے دستبر ہونے کے لئے لہذا یہاں معاہدہ صلح ست دستبر دار ہونے کے لئے مجازا نبذا کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال 58] تو ان کے کلام کو مسترد کردیں گے اور ان سے نہیں کے کہ تم جھوٹے ہو اور اس دن خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے میں قول ( اور متکلم القاء کا لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت ۔ فَأَلْقَوْا إِلَيْهِمُ الْقَوْلَ إِنَّكُمْ لَكاذِبُونَ [ النحل 86] فانبذا الخ میں متنبہ کیا ہے کہ اس صورت میں ان کے معاہدہ کو مزید مؤکد نہ کیا جائے بلکہ حسن معاملہ سے اسے فسخ کردیا جائے اور ان کے رویہ کے مطابق ان سے سلوک کیا جائے یعنی جب تک وہ معاہدہ کو قائم رکھیں اسکا احترام کیا جائے فانتبذ فلان کے معنی اس شخص کی طرح یکسو ہوجانے کے ہیں جو اپنے آپ کو ناقابل اعتبار سمجھاتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهِ مَکاناً قَصِيًّا[ مریم 22] اور وہ اس بچے کے ساتھ حاملہ ہوگئیں اور اسے لے کر ایک دور جگہ چلی گئیں ۔ اور قعد نبذ ۃ کے معنی یکسو ہوکر بیٹھ جانے کے ہیں اور راستہ میں پڑے ہوئے بچے کو صبی منبوذ ونبیذ کہتے ہیں جیسا کہ اسئ ملقوط یا لقیط کہا جاتا ہے ۔ لیکن اس لحاظ سے کہ کسی نے اسے پھینک دیا ہے اسے منبوذ کہا جاتا ہے اور اٹھائے جانے کے لحاظ سے لقیط کہا جاتا ہے ۔ النبذ اصل میں انگور یا کجھور کو کہتے ہیں ۔ جو پانی میں ملائی گئی ہو ۔ پھر خاص قسم کی شراب پر بولا جاتا ہے ۔- قصی - القَصَى: البعد، والْقَصِيُّ : البعید . يقال : قَصَوْتُ عنه، وأَقْصَيْتُ : أبعدت، والمکان الأَقْصَى، والناحية الْقَصْوَى، ومنه قوله : وَجاءَ رَجُلٌ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ يَسْعى [ القصص - 20] ، وقوله : إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى [ الإسراء 1] يعني : بيت المقدس، فسمّاه الْأَقْصَى اعتبارا بمکان المخاطبین به من النبيّ وأصحابه، وقال : إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى[ الأنفال 42] . وقَصَوْتُ البعیر : قطعت أذنه، وناقة قَصْوَاءُ ، وحکوا أنه يقال : بعیر أَقْصَى، والْقَصِيَّةُ من الإبلِ : البعیدةُ عن الاستعمال .- ( ق ص و ) القصی - کے معنی بعد یعنی دوری کے ہیں اور قصی بعید کو کہا جاتا ہے محاورہ ہے : ۔ قصؤت عنہ میں اس سے دور ہوا اقصیہ میں نے اسے دور کردیا ۔ المکان الاقصی دور دراز جگہ الناحیۃ القصویٰ دور یا کنارہ اسی سے قرآن پاک میں ہے : ۔ وَجاءَ رَجُلٌ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ يَسْعى [ القصص اور ایک شخص شہر کی پر لی طرف سے دوڑتا ہوا آیا ۔ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى [ الإسراء 1] مسجد اقصی ٰ یعنی بیت المقدس تک ۔ میں المسجد الاقصیٰ سے مراد بیت المقدس ہے اور اسے الاقصیٰ مخاطبین یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کے مقام سکونت کے اعتبار سے کہا ہے ۔ کیونکہ وہ مدینہ سے دور تھی ۔ إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى[ الأنفال 42] جس وقت تم ( مدینے سے ) قریب ناکے پر تھے اور کافر بعید کے نا کے پر ۔ قصؤت البعیر کے معنی اونٹ کا کان قطع کرنے کے ہیں اور کان کٹی اونٹنی کو ناقۃ قصراء کہا جاتا ہے اور اس معنی میں بعیر اقصیٰ کا ماکورہ بھی منقول ہے قصیۃ اس اونٹنی کو کہا جاتا ہے جو کام کاج سے دور رکھی گئی ہو ( اصیل اونٹنی )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٢۔ ٢٣) چناچہ حضرت مریم (علیہ السلام) حاملہ ہوگئیں اور ان کا حمل نو ماہ کا تھا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایک دن کا تھا چناچہ وہ اس کی پیدائش کے وقت دور دراز مقام پر لوگوں سے علیحدہ کسی جگہ پر چلی گئیں اور دردزہ کی شدت کی وجہ سے ایک خشک کھجور کے درخت کی آڑ لی اور گھبرا کر بولیں کہ کاش میں اس بچہ سے پہلے ہی یا اس دن سے پہلے ہی مرگئی ہوتی اور ایسی نیست ونابود ہوجاتی کہ کسی کو یاد بھی نہ رہتی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢ (فَحَمَلَتْہُ فَانْتَبَذَتْ بِہٖ مَکَانًا قَصِیًّا)- اس پریشانی میں کہ حمل بڑھے گا تو لوگ کیا کہیں گے ‘ حضرت مریم تنہائی کی غرض سے بیت اللحم چلی گئیں ‘ جو ہیکل سلیمانی سے آٹھ میل کے فاصلے پر تھا۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :16 دور کے مقام سے مراد لحم ہے ۔ حضرت مریم کا اپنے اعتکاف سے نکل کر وہاں جانا ایک فطری امر تھا ۔ بنی اسرائیل کے مقدس ترین گھرانے بنی ہارون کی لڑکی ، اور پھر وہ جو بیت المقدس میں خدا کی عبادت کے لیئے وقف ہو کر بیٹھی تھی ، یکایک حاملہ ہو گئی ۔ اس حالت میں اگر وہ اپنی جائے اعتکاف پر بیٹھی رہتیں اور ان کا حمل لوگوں پر ظاہر ہو جاتا تو خاندان والے ہی نہیں قوم کے دوسرے لوگ بھی ان کا جینا مشکل کر دیتے ۔ اس لیئے بے چاری اس شدید آزمائش میں مبتلا ہونے کے بعد خاموشی کے ساتھ اپنے اعتکاف کا حجرہ چھوڑ کر نکل کھڑی ہوئیں تاکہ جب تک اللہ کی مرضی پوری ہو ، قوم کی لعنت ملامت اور عام بدنامی سے تو بچی رہیں ۔ یہ واقعہ بجائے خود اس بات کی بہت بڑی دلیل ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام باپ کے بغیر پیدا ہوئے تھے ۔ اگر وہ شادی شدہ ہوتیں اور شوہر ہی سے ان کے ہاں بچہ پیدا ہوتا تو کوءی وجہ نہ تھی کہ میکے اور سسرال سب کو چھوڑ چھاڑ کر وہ زچگی کے لئےتن تنہا ایک دور درا مقام پر چلی جاتیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani