Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

23۔ 1 موت کی آرزو اس ڈر سے کی کہ میں بچے کے مسئلے پر لوگوں کو کس طرح مطمئن کرسکوں گی، جب کہ میری بات کی کوئی تصدیق کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوگا۔ اور یہ تصور بھی روح فرسا تھا کہ کہاں شہرت ایک عابدہ و زاہدہ کے طور پر ہے اور اس کے بعد لوگوں کی نظروں میں بدکار ٹھہروں گی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٤] یعنی زچگی کے درد سے بےتاب ہو کر اٹھیں اور ایک کھجور کے تنے کا سہارا لیا۔ کیفیت یہ تھی ایک تو درد زہ کی شدت کی تکلیف، دوسرے تنہائی و بیکسی، تیسرے اشیائے خوردنی اور دیگر ضروریات کا فقدان۔ حتی ٰ کہ پانی تک موجود نہ تھا اور سب سے زیادہ پریشان کن بات آئندہ بدنامی اور رسوائی کا تصور تھا۔ اب سب باتوں سے آپ اس قدر پریشان ہوئیں کہ بےاختیار منہ سے یہ الفاظ نکل گئے۔ کاش میں آج سے پہلے ہی مرچکی ہوتی اور لوگوں کے حافظہ سے بھی اتر چکی ہوتی۔- جو حضرات معجزات کے منکر ہیں۔ وہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کو قرآنی تصریحات کے علی الرغم فطری پیدائش قرار دیتے ہیں اور اس سلسلہ میں انھیں اناجیل کی روایات قبول کرنے میں بھی کچھ باک نہیں ہوتا۔ پھر لطف کی بات یہ ہے کہ انجیل میں تو فقط سیدہ مریم کی یوسف نجار سے منگنی کا ذکر ہے مگر یہ حضرات باقاعدہ نکاح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور سیدہ مریم کے اس جملہ کاش میں اس سے پہلے مرچکی ہوتی اور میرا نام و نشان بھی باقی نہ رہتا کی تعبیر یہ پیش کرتے ہیں کہ یہ جملہ انہوں نے درد زہ کی شدت کی وجہ سے کہا تھا۔ یہ تعبیر اس لحاظ سے غلط ہے کہ درد زہ ہر عورت کو ہوتی ہے اور ہر وضع حمل کے وقت ہوتی ہے۔ لیکن صرف اس درد کی بنا پر کسی عورت نے کبھی موت کی آرزو نہیں کی۔ بلکہ عورتیں ایسے موقعوں پر ہمیشہ یہ درد خوشی کے ساتھ برداشت کرتی ہیں بالخصوص اس صورت میں کہ بچہ بھی پہلونٹی کا ہو اور پھر اولاد بھی نرینہ ہو۔ لہذا منکرین معجزات یا نیچری حضرات کی یہ تاویل صرف اللہ کی آیات کا مذاق ہی نہیں بلکہ تجربہ کی کسوٹی پر بھی غلط ثابت ہوتی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَاَجَاۗءَهَا الْمَخَاضُ ۔۔ : ” جَاءَ یَجِيْءُ مَجِیْءًا “ کا معنی ہے آنا اور ” أَجَاءَ یُجِيْءُ “ (افعال) کا معنی ہے لانا، مگر اس کے مفہوم میں مجبور کرکے لانا پایا جاتا ہے۔ (زمحشری) ” الْمَخَاضُ “ عورت کو بچے کی پیدائش کے وقت ہونے والا درد، یعنی درد زِہ۔ ” مَخِضَتِ الْمَرْأَۃُ “ (ع) جب عورت کے ہاں پیدائش کا وقت قریب ہو۔ یہ ” مَخْضٌ“ سے ماخوذ ہے، جس کا معنی شدید حرکت ہے اور یہ نام رکھنے کی وجہ ولادت کے قریب ماں کے پیٹ میں بچے کا شدت سے حرکت کرنا ہے۔ یعنی درد زِہ کی شدت سے مجبور ہو کر وہ کھجور کے ایک تنے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئیں اور آنے والے وقت کا تصور کرکے، جب ہر طرف سے برائی کی تہمت لگے گی، طعنے ملیں گے، گزشتہ زندگی کی ساری نیکی، پاک بازی اور شرافت کا خاکہ اڑایا جائے گا، کہنے لگیں کہ اے کاش میں اس سے پہلے مرگئی ہوتی اور کسی کو یاد ہی نہ ہوتا کہ کوئی مریم بھی تھی۔- 3 یہ آیت دلیل ہے کہ دین میں فتنے کے وقت موت کی تمنا جائز ہے۔ حدیث میں کسی تکلیف مثلاً مرض یا فقر وغیرہ کی وجہ سے موت کی تمنا سے منع کیا گیا ہے، چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم میں سے کوئی شخص موت کی تمنا کسی تکلیف کی وجہ سے جو اسے پہنچے، ہرگز نہ کرے، اگر اسے ضرور ہی کرنی ہے تو یوں کہے : ( اَللّٰھُمَّ أَحْیِنِيْ مَا کَانَتِ الْحَیَاۃُ خَیْرًا لِّيْ وَتَوَفَّنِيْ إِذَا کَانَتِ الْوَفَاۃُ خَیْرًا لِّيْ ) ” اے اللہ مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک زندہ رہنا میرے لیے بہتر ہو اور مجھے فوت کرلے جب وفات میرے لیے بہتر ہو۔ “ [ بخاری، المرضٰی، باب تمنی المریض الموت : ٥٦٧١ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف مسائل - تمنائے موت کا حکم - یہ تمنّا موت اگر غم دنیا سے تھی تب تو غلبہ حال کو اس کا عذر کیا جاوے گا جس میں انسان من کُلّ الوجود مکلف نہیں رہتا اور اگر غم دین سے تھا کہ لوگ بدنام کریں گے اور شاید مجھے اس پر صبر نہ ہوسکے تو بےصبری کی معصیت میں ابتلا ہوگا، موت سے اس معصیت کی حفاظت رہے گی تو ایسی تمنّا ممنوع نہیں ہے اور اگر شبہ ہو کہ حضرت مریم کو جو کہا گیا کہ تم کہہ دینا کہ میں نے نذر کی ہے سو انہوں نے نذز تو نہ کی تھی، جواب یہ ہے کہ اسی سے یہ حکم بھی مفہوم ہوگیا کہ تم نذر بھی کرلینا اور اس کو ظاہر کردینا۔ - سکوت کا روزہ شریعت قبل از اسلام یہ بھی عبادت میں داخل تھا کہ بولنے کا روزہ رکھے، صبح سے رات برے کلام گالی گلوچ، جھوٹ، غیبت وغیرہ سے پرہیز کیا جائے۔ عام گفتگو ترک کرنا اسلام میں کوئی عبادت نہیں رہی اس لئے اس کی نذر ماننا بھی جائز نہیں۔ لما رواہ ابوداؤد مرفوعا لایتم بعد احتلام ولاصمات یوم الی اللیل وحسنہ السیوطی والعزیزی یعنی بچہ بالغ ہونے کے بعد باپ کے مرنے سے یتیم نہیں کہلاتا، اس پر احکام یتیم کے جاری نہیں ہوتے اور صبح سے شام تک خاموش رہنا تو (اسلام میں) کوئی عبادت نہیں۔ اور درد زِہ میں پانی اور کھجور کا استعمال بھی مفید ہے اور اکل وشرب کا حکم بظاہر اباحت کے لئے معلوم ہوتا ہے۔ واللہ اعلم - بغیر مرد کے تنہا عورت سے بچہ پیدا ہوجانا خلاف عقل نہیں - اور حمل وتولد بلا توسط مرد کے خارق عادت (معجزہ) ہے اور خوارق میں کتنا ہی استبعاد ہو مضائقہ نہیں بلکہ وصف اعجاز کا اور زیادہ ظہور ہے لیکن اس میں اسوجہ سے زیادہ استبعاد بھی نہیں کہ حسب تصریح کتب طب عورت کی منی میں قوت منعقدہ کے ساتھ قوت عاقدہ بھی ہے اس لئے مرض رجا میں اعضاء کی کچھ ناتمام صورت بھی بن جاتی ہے ہے کما صرح بہ فی القانون، پس اگر یہی قوت عاقدہ اور بڑھ جائے تو زیادہ مستبعد نہیں ہے۔ (بیان القران) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم علیہا اسلام کو کھجور کا درخت ہلانے کا حکم دیا، حالانکہ اس کی قدرت میں تحصیل رزق کے لئے کوشش کرنے کا سبق ملتا ہے اور یہ بھی بتلانا ہے کہ رزق کے حاصل کرنے میں کوشش اور محنت کرنا توکل کے خلاف نہیں۔ (رُوح المعَانی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاَجَاۗءَہَا الْمَخَاضُ اِلٰى جِذْعِ النَّخْلَۃِ۝ ٠ۚ قَالَتْ يٰلَيْتَنِيْ مِتُّ قَبْلَ ھٰذَا وَكُنْتُ نَسْـيًا مَّنْسِـيًّا۝ ٢٣- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- خوض - الخَوْضُ : هو الشّروع في الماء والمرور فيه، ويستعار في الأمور، وأكثر ما ورد في القرآن ورد فيما يذمّ الشروع فيه، نحو قوله تعالی: وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ : إِنَّما كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ- [ التوبة 65] ، وقوله : وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خاضُوا[ التوبة 69] ، ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ- [ الأنعام 91] ، وَإِذا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آياتِنا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ [ الأنعام 68] ، وتقول : أَخَضْتُ دابّتي في الماء، وتخاوضوا في الحدیث :- تفاوضوا .- ( خ و ض ) الخوض - ( ن ) کے معنی پانی میں اترنے اور اس کے اندر چلے جانے کے ہیں بطور استعارہ کسی کام میں مشغول رہنے پر بولا جاتا ہے قرآن میں اس کا زیادہ تر استعمال فضول کاموں میں لگے رہنا ہر ہوا ہے چناچہ فرمایا : وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ : إِنَّما كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ [ التوبة 65] اور اگر تم ان سے ( اس بارے میں ) دریافت کرو تو کہیں گے کہ ہم عورتوں ہی بات چیت اور دل لگی کرتے تھے ۔ وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خاضُوا[ التوبة 69] اور جس طرح وہ باطل میں ٖڈوبے رہے اسی طرح تم باطل میں ڈوبے رہے ۔ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ [ الأنعام 91] پھر ان کو چھوڑ دو کہ اپنی بیہودہ بکواس میں کھیلتے رہیں ۔ وَإِذا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آياتِنا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ [ الأنعام 68] اور جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیتوں کے بارے میں بیہودہ بکواس کر رہے ہیں تو ان سے الگ ہوجاؤ ۔ یہاں تک کہ اور باتوں میں مشغول ہوجائیں ۔ کہا جاتا ہے : ۔ میں نے اپنی سواری کو پانی میں ڈال دیا ۔ باہم باتوں میں مشغول ہوگئے ۔- جذع - الجِذْعُ جمعه جُذُوع، قال : فِي جُذُوعِ النَّخْلِ [ طه 71] .- جَذَعْتُهُ : قطعته قطع الجذع، والجَذَع من الإبل : ما أتت لها خمس سنین، ومن الشاة : ما تمّت له سنة . ويقال للدهم الإزالة : الجذع، تشبيها بالجذع من الحیوان .- ( ج ذ ع ) الجذع - درخت کا تنہ ۔ ج جذوع قرآن میں :۔ فِي جُذُوعِ النَّخْلِ [ طه 71] جذعہ ( ف ) شاخ یا تنے کی طرح کا ٹ ڈالنا ۔ الجذع ( من الابل ) شتر بسال پنجم ( من الشا ۃ ) گو سپند بسال دوم اور چوپایوں کے ساتھ تشبیہ دے کر زمانہ کو بھی جذع کہا جاتا ہے ( کیونکہ زمانہ بھی کبھی بوڑھا نہیں ہوتا ۔- نخل - النَّخْلُ معروف، وقد يُستعمَل في الواحد والجمع . قال تعالی: كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ- [ القمر 20] وقال : كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ خاوِيَةٍ [ الحاقة 7] ، وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ- [ الشعراء 148] ، وَالنَّخْلَ باسِقاتٍ لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق 10] وجمعه : نَخِيلٌ ، قال : وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ [ النحل 67] والنَّخْلُ نَخْل الدّقيق بِالْمُنْخُل، وانْتَخَلْتُ الشیءَ : انتقیتُه فأخذْتُ خِيارَهُ.- ( ن خ ل ) النخل - ۔ کھجور کا درخت ۔ یہ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ خاوِيَةٍ [ الحاقة 7] جیسے کھجوروں کے کھوکھلے تنے ۔ كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر 20] اور کھجوریں جن کے خوشے لطیف اور نازک ہوتے ہیں ۔ وَالنَّخْلَ باسِقاتٍ لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق 10] اور لمبی لمبی کھجوریں جن کا گا بھاتہ بہ تہ ہوتا ہے اس کی جمع نخیل آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ [ النحل 67] اور کھجور کے میووں سے بھی ۔ النخل ( مصدر کے معنی چھلنی سے آٹا چھاننے کے ہیں اور انتخلت الشئی کے معنی عمدہ چیز منتخب کرلینے کے ؛- ليت - يقال : لَاتَهُ عن کذا يَلِيتُهُ : صرفه عنه، ونقصه حقّا له، لَيْتاً. قال تعالی: لا يَلِتْكُمْ مِنْ أَعْمالِكُمْ شَيْئاً [ الحجرات 14] أي : لا ينقصکم من أعمالکم، لات وأَلَاتَ بمعنی نقص، وأصله : ردّ اللَّيْتِ ، أي : صفحة العنق . ولَيْتَ : طمع وتمنٍّ. قال تعالی: لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلاناً خَلِيلًا [ الفرقان 28] ، يَقُولُ الْكافِرُ يا لَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ 40] ، يا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا [ الفرقان 27] ، وقول الشاعر : ولیلة ذات دجی سریت ... ولم يلتني عن سراها ليت - «1» معناه : لم يصرفني عنه قولي : ليته کان کذا . وأعرب «ليت» هاهنا فجعله اسما، کقول الآخر :إنّ ليتا وإنّ لوّا عناء«2» وقیل : معناه : لم يلتني عن هواها لَائِتٌ.- أي : صارف، فوضع المصدر موضع اسم الفاعل .- ( ل ی ت ) لا تہ - ( ض ) عن کذا لیتا ۔ کے معنی اسے کسی چیز سے پھیر دینا اور ہٹا دینا ہیں نیز لا تہ والا تہ کسی کا حق کم کرنا پوا را نہ دینا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لا يَلِتْكُمْ مِنْ أَعْمالِكُمْ شَيْئاً [ الحجرات 14] تو خدا تمہارے اعمال میں سے کچھ کم نہیں کرے گا ۔ اور اس کے اصلی معنی رد اللیت ۔ یعنی گر دن کے پہلو کو پھیر نے کے ہیں ۔ لیت یہ حرف طمع وتمنی ہے یعنی گذشتہ کوتاہی پر اظہار تاسف کے لئے آتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلاناً خَلِيلًا [ الفرقان 28] کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا يَقُولُ الْكافِرُ يا لَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ 40] اور کافر کہے کا اے کاش میں مٹی ہوتا يا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا [ الفرقان 27] کہے گا اے کاش میں نے پیغمبر کے ساتھ رستہ اختیار کیا ہوتا ۔ شاعر نے کہا ہے ( 406 ) ولیلۃ ذات وجی سریت ولم یلتنی عن ھوا ھا لیت بہت سی تاریک راتوں میں میں نے سفر کئے لیکن مجھے کوئی پر خطر مر حلہ بھی محبوب کی محبت سے دل بر داشت نہ کرسکا ( کہ میں کہتا کاش میں نے محبت نہ کی ہوتی ۔ یہاں لیت اسم معرب اور لم یلت کا فاعل ہے اور یہ قول لیتہ کان کذا کی تاویل میں سے جیسا کہ دوسرے شاعر نے کہا ہے ( 403 ) ان لینا وان لوا عناء ۔ کہ لیت یا لو کہنا سرا سرباعث تکلف ہے بعض نے کہا ہے کہ پہلے شعر میں لیت صدر بمعنی لائت یعنی اس فاعلی ہے اور معنی یہ ہیں کہ مجھے اس کی محبت سے کوئی چیز نہ پھیر سکی ۔- نسی - النِّسْيَانُ : تَرْكُ الإنسانِ ضبطَ ما استودِعَ ، إمَّا لضَعْفِ قلبِهِ ، وإمَّا عن غفْلةٍ ، وإمَّا عن قصْدٍ حتی يَنْحَذِفَ عن القلبِ ذِكْرُهُ ، يقال : نَسِيتُهُ نِسْيَاناً. قال تعالی: وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] ، فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة 14] ، فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف 63] ، لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف 73] ، فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة 14] ، ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر 8] ، سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی 6] إِخبارٌ وضَمَانٌ من اللهِ تعالیٰ أنه يجعله بحیث لا يَنْسَى ما يسمعه من الحقّ ، وكلّ نسْيانٍ من الإنسان ذَمَّه اللهُ تعالیٰ به فهو ما کان أصلُه عن تعمُّدٍ. وما عُذِرَ فيه نحو ما رُوِيَ عن النبيِّ صلَّى اللَّه عليه وسلم : «رُفِعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأُ وَالنِّسْيَانُ» فهو ما لم يكنْ سَبَبُهُ منه . وقوله تعالی: فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة 14] هو ما کان سببُهُ عن تَعَمُّدٍ منهم، وترْكُهُ علی طریقِ الإِهَانةِ ، وإذا نُسِبَ ذلك إلى اللہ فهو تَرْكُهُ إيّاهم استِهَانَةً بهم، ومُجازاة لِما ترکوه . قال تعالی: فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف 51] ، نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة 67] وقوله : وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر 19] فتنبيه أن الإنسان بمعرفته بنفسه يعرف اللَّهَ ، فنسیانُهُ لله هو من نسیانه نَفْسَهُ. وقوله تعالی: وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف 24] . قال ابن عباس : إذا قلتَ شيئا ولم تقل إن شاء اللَّه فَقُلْهُ إذا تذكَّرْتَه «2» ، وبهذا أجاز الاستثناءَ بعد مُدَّة، قال عکرمة «3» : معنی «نَسِيتَ» : ارْتَكَبْتَ ذَنْباً ، ومعناه، اذْكُرِ اللهَ إذا أردتَ وقصدتَ ارتکابَ ذَنْبٍ يكنْ ذلک دافعاً لك، فالنِّسْيُ أصله ما يُنْسَى کالنِّقْضِ لما يُنْقَض، - ( ن س ی ) النسیان - یہ سنیتہ نسیانا کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کو ضبط میں نہ رکھنے کے ہیں خواہ یہ ترک ضبط ضعف قلب کی وجہ سے ہو یا ازارہ غفلت ہو یا قصدا کسی چیز کی یاد بھلا دی جائے حتیٰ کہ وہ دل سے محو ہوجائے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] ہم نے پہلے آدم (علیہ السلام) سے عہد لیا تھا مگر وہ اسے بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف 63] تو میں مچھلی وہیں بھول گیا ۔ اور مجھے آپ سے اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف 73] کہ جو بھول مجھ سے ہوئی اس پر مواخذاہ نہ کیجئے فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة 14] مگر انہوں نے بھی اس نصیحت کا جوان کو کی گئی تھی ایک حصہ فراموش کردیا ۔ ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر 8] پھر جب وہ اس کو اپنی طرف سے کوئی نعمت دے دیتا ہے تو جس کام کے لئے پہلے اس کو پکارتا ہے اسے بھول جاتا ہے اور آیت سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی 6] ہم تمہیں پڑھائیں گے کہ تم فراموش نہ کرو گے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے ایسا بنادے گا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سنو گے اسے بھولنے نہیں پاؤ گے پھر ہر وہ نسیان جو انسان کے قصد اور ارداہ سے ہو وہ مذموم ہے اور جو بغیر قصد اور ارادہ کے ہو اس میں انسان معزور ہے اور حدیث میں جو مروی ہے رفع عن امتی الخطاء والنیان کہ میری امت کو خطا اور نسیان معاف ہے تو اس سے یہی دوسری قسم کا نسیان مراد ہے یعنیوی جس میں انسان کے ارادہ کو دخل نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ میں نسیان بمعنی اول ہے یعنی وہ جس میں انسان کے قصد اور ارادہ کو دخل ہو اور کسی چیز کو حقیر سمجھ کرا سے چھوڑ دیا جائے ۔ پھر جب نسیان کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس سے ازراہ اہانث انسان کو چھوڑ ینے اور احکام الہیٰ کے ترک کرنے کی وجہ سے اسے سزا دینے کے معنی مراد ہوتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف 51] تو جس طرح یہ لوگ اس دن کے آنے کو بھولے ہوئے تھے اس طرح آج ہم بھی انہیں بھلا دیں گے ۔ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة 67] انہوں نے خدا کو بھلا یا تو خدا نے بھی ان کو بھلا دیا ۔ وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر 19] اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے انہیں ایسا کردیا کہ خود اپنے تئیں بھول گئے ۔ میں متنبہ کیا ہے کہ انسان اپنے نفس کی معرفت حاصل کرنے سے ہی معرفت الہیٰ حاصل کرسکتا ہے لہذا انسان کا اللہ تعالیٰ کو بھلا دینا خود اپنے آپکو بھال دینے کے مترادف ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف 24] اور جب خدا کا نام لینا بھال جاؤ تو یاد آنے پر لے لو ۔ کے ابن عباس نے یہ معنی کئے ہیں کہ جب تم کوئی بات کہو اور اس کے ساتھ انشاء اللہ کہنا بھول جاؤ تو یاد آنے پر انشاء اللہ کہہ لیا کرو ۔ اسی لئے ابن عباس کے نزدیک حلف میں کچھ مدت کے بعد بھی انشاء اللہ کہنا جائز ہے اور عکرمہ نے کہا ہے کہ نسیت بمعنی ارتکبت ذنبا کے ہے ۔ اور آیت کے معنی یہ ہیں ۔ کہ جب تمہیں کسی گناہ کے ارتکاب کا خیال آئے تو اس وسوسہ کو دفع کرنے کے لئے خدا کے ذکر میں مشغول ہوجایا کرو تاکہ وہ وسوسہ دفع ہوجائے ۔ النسی کے اصل معنی ماینسیٰ یعنی فراموش شدہ چیز کے ہیں جیسے نقض بمعنی ماینقض آتا ہے ۔ مگر عرف میں نسی اس معمولی چیز کو کہتے ہیں جو در خود اعتناء نہ سمجھی جائے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

موت کی تمنا جائز نہیں - قول باری ہے (قالت یلیتنی مت قبل ھذا وکتت نسیاً منسیاً وہ کہنے لگی۔ کاش میں اس سے پہلے ہی مرجاتی اور میرا نام و نشان نہ رہتا۔ “) کچھ حضرات کا قول ہے کہ حضرت مریم نے موت کی اس لئے تمنا کی تھی کہ جنسی ملاپ کے بغیر بچے کو جنم دینے کی حالت پر پہنچ گئی تھیں۔ لیکن یہ بات غلط ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس حالت میں مبتلا کر کے ان کی آزمائش کی تھی اور وہ اس کے اس فیصلے پر راضی تھیں اور اللہ کی فرماں برداری پر کمربستہ تھیں۔ اللہ تعالیٰ کے فیصلوں پر اظہار ناپسندیدگی معصیت ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صرف وہی فعل و قوع پذیر ہوتا ہے جو حکمت اور صواب پر مبنی ہوتا ہے۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ حضرت مریم نے اس وجہ سے موت کی تمنا نہیں کی تھی بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں معلوم تھا کہ لوگ ان پر زنا کاری کی تہمت لگائیں گے اور اس کی بنا پر گنہگار قرار پائیں گے۔ اس لئے یہ تمنا کی تھی کہ کاش ان کی وجہ سے لوگوں کے گناہ میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی وہ مرچکی ہوتیں

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٣ (فَاَجَآءَ ہَا الْمَخَاضُ اِلٰی جِذْعِ النَّخْلَۃِ )- ولادت کے وقت جب درد زہ کی شدت بڑھی تو حضرت مریم نے سہارے کے لیے ایک کھجور کے تنے کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ یہ درد کی شدت کو برداشت کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ اگر عورت وضع حمل کے وقت کسی چیز کو مضبوطی سے تھام لے تو اس میں درد کو برداشت کرنے کی ہمت پیدا ہوجاتی ہے۔- (قَالَتْ یٰلَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ہٰذَا وَکُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا)- اللہ کی وہ بندی ممکنہ اندیشوں سے کانپ رہی تھی کہ اب میں اس بچے کا کیا کروں گی ؟ لوگوں کو کیا منہ دکھاؤں گی ؟ دنیا کیا کہے گی ؟ کاش یہ وقت آنے سے پہلے ہی مجھے موت آگئی ہوتی اور میری یاد تک لوگوں کے ذہنوں سے محو ہوچکی ہوتی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :17 ان الفاظ سے اس پریشان کا اندازہ کیا جا سکتا ہے جس میں حضرت مریم اس وقت مبتلا تھیں ۔ موقع کی نزاکت ملحوظ رہے تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ان کی زبان سے یہ الفاظ دردِزہ کی تکلیف کی وجہ سے نہیں نکلے تھے ، بلکہ یہ فکر ان کو کھائے جا رہی تھی کہ اللہ تعالی نے جس خطرناک آزمائش میں انہیں ڈالا ہے اس سے کس طرح بخیریت عہدہ برآ ہوں ۔ حمل کو تو اب تک کسی نہ کسی طرح چھپا لیا ۔ اب اس بچے کو کہاں لے جائیں ۔ بعد کا یہ فقرہ فرشتے نے ان سے کہا غم نہ کر اس بات کو واضح کر رہا ہے کہ حضرت مریم نے یہ الفاظ کیوں کہے تھے ۔ شادی شدہ لڑکی کے ہاں جب پہلا بچہ پیدا ہو رہا ہو تو چاہے تکلیف سے کتنی ہی تڑپے ، اسے رنج و غم کبھی لاحق نہیں ہوا کرتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

12: ایک پاکباز عورت کو کنوارے پن میں بچہ پیدا ہونے کے تصور سے جو بے چینی ہو سکتی ہے، وہ ظاہر ہے۔ اگرچہ عام حالات میں موت کی تمنا کرنا منع ہے، لیکن کسی دینی نقصان کے اندیشے سے ایسی تمنا منع نہیں۔ اور ایسا لگتا ہے کہ شدید بے چینی کے عالم میں حضرت مریم علیہما السلام کو فرشتے کی دی ہوئی بشارتوں کی طرف وقتی طور سے دھیان نہیں رہا۔ اس لیے بے ساختہ یہ کلمات زبان سے نکلے۔