Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

28۔ 1 ہارون سے مراد ممکن ہے ان کا کوئی عینی یا علاتی بھائی ہو، یہ بھی ممکن ہے ہارون سے مراد ہارون رسول (برادر موسیٰ علیہ السلام) ہی ہوں اور عربوں کی طرح ان کی نسبت اخوت ہارون کی طرف کردی، جیسے کہا جاتا ہے، تقویٰ و پاکیزگی اور عبادت میں حضرت ہارون (علیہ السلام) کی طرح انھیں سمجھتے ہوئے، انھیں کی مثل اور مشابہت میں اخت ہارون کہا ہو، اس کی مثالیں قرآن کریم میں بھی موجود ہیں (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاُخْتَ هٰرُوْنَ مَا كَانَ اَبُوْكِ ۔۔ : مریم [ کے بھائی کا نام ہارون تھا جو اپنی نیکی اور شرافت میں مشہور تھا، یعنی ایسے صالح بھائی کی بہن، ایسے باپ کی بیٹی جو کسی طرح برا نہ تھا اور ایسی ماں کی بیٹی جس میں بدکاری کی کوئی خصلت نہ تھی، تو نے یہ کیا گل کھلا دیا ؟ ان الفاظ میں وہ مریم [ کو اشارتاً برائی سے متہم کر رہے تھے۔ ” کسی طرح برا “ اور ” بدکاری کی کسی خصلت والی “ کا مفہوم ” امْرَاَ سَوْءٍ “ اور ” بَغِيًّا “ کے نکرہ ہونے سے واضح ہو رہا ہے، جو عموم پر دلالت کرتا ہے۔- عظیم پیغمبر موسیٰ (علیہ السلام) کے بھائی کا نام بھی ہارون تھا اور وہ بھی نبی تھے۔ اس آیت میں مذکور ہارون کو بعض اہل کتاب نے موسیٰ (علیہ السلام) کا بھائی ہارون سمجھ لیا اور اعتراض جڑ دیا کہ مریم [ ہارون (علیہ السلام) کی بہن کیسے ہوسکتی ہیں، ان کے درمیان تو مدت دراز ہے۔ علمائے اسلام نے اس کے مختلف جواب دیے ہیں، مثلاً یہ کہ ہارون (علیہ السلام) کی بہن سے مراد ہارون (علیہ السلام) جیسی نیک اور صالح خاتون ہے وغیرہ۔ مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے بعد وہ سب جواب محض تکلف ہیں۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ اس آیت میں مذکور ہارون مریم [ کے بھائی تھے۔ یہ ایک حسن اتفاق ہے کہ موسیٰ و ہارون (علیہ السلام) کے والد بھی عمران تھے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ مریم اور ان کے بھائی ہارون کے والد بھی عمران تھے۔ مغیرہ بن شعبہ (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نجران بھیجا تو وہاں کے لوگوں (نصاریٰ ) نے کہا، یہ بتاؤ کہ تم جو پڑھتے ہو ” يٰٓاُخْتَ هٰرُوْنَ “ (اے ہارون کی بہن ) موسیٰ (علیہ السلام) تو عیسیٰ (علیہ السلام) سے اتنی مدت پہلے تھے۔ میں واپس آیا اور اس بات کا ذکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَلاَ أَخْبَرْتَہُمْ أَنَّہُمْ کَانُوْا یُسَمُّوْنَ بِأَنْبِیَاءِہِمْ وَالصَّالِحِیْنَ قَبْلَہُمْ ) [ ترمذی، تفسیر القرآن، باب و من سورة مریم : ٣١٥٥۔ مسلم : ٢١٣٥ ] ” تم نے انھیں یہ کیوں نہ بتایا کہ وہ لوگ اپنے سے پہلے انبیاء اور صالحین کے ناموں پر (اپنے بچوں کے) نام رکھتے تھے (یعنی مریم [ کے بھائی کا نام ہارون، موسیٰ (علیہ السلام) کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کے نام پر رکھا گیا تھا) ۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) يٰٓاُخْتَ هٰرُوْنَ حضرت ہارون (علیہ السلام) جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بھائی اور ساتھی تھے حضرت مریم کے زمانے سے سینکڑوں برس پہلے گزر چکے تھے یہاں حضرت مریم کو ہارون کی بہن قرار دینا ظاہر ہے کہ اپنے اس ظاہری مفہوم کے اعتبار سے نہیں ہوسکتا اسی لیے جب حضرت مغیرہ بن شعبہ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل نجران کے پاس بھیجا تو انہوں نے سوال کیا کہ تمہارے قرآن میں حضرت مریم کو اخت ہارون کہا گیا ہے حالانکہ ہارون (علیہ السلام) ان سے بہت قرنوں پہلے گزر چکے ہیں حضرت مغیرہ کو اس کا جواب معلوم نہ تھا جب واپس آئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا ذکر کیا آپ نے فرمایا کہ تم نے ان سے یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ اہل ایمان کی عادت یہ ہے کہ تبرکا انبیاء علیہہم السلام کے ناموں پر اپنے نام رکھتے ہیں اور ان کی طرف نسبت کیا کرتے ہیں ( رواہ احمد و مسلم والترمذی والنسائی) اس حدیث کے مطلب میں دو احتمال ہیں۔ ایک یہ کہ حضرت مریم کی نسبت حضرت ہارون کی طرف اس لیے کردی گئی کہ وہ ان کی نسل و اولاد میں سے ہیں اگرچہ زمانہ کتنا ہی بعید ہوگیا ہو جیسے عرب کی عادت ہے، کہ قبلہ تمیم کے آدمی کو اخاتمیم اور عرب کے آدمی کو اخاعرب بولتے ہیں۔ دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ یہاں ہارون سے مراد ہارون نبی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے رفیق مراد نہیں بلکہ حضرت مریم کے اپنے بھائی کا نام ہارون تھا جو تبرکاً حضرت ہارون نبی کے نام پر رکھا گیا تھا اس طرح مریم کو اخت ہارون کہنا اپنے حقیقی مفہوم کے اعتبار سے درست ہوگیا۔- (آیت) مَا كَانَ اَبُوْكِ امْرَاَ سَوْءٍ ان الفاظ قرآن سے اس طرف اشارہ ہے کہ جو شخص اولیاء اللہ اور صالحین کی اولاد میں ہو وہ اگر کوئی برا کام کرتا ہے تو وہ عام لوگوں کے گناہ سے زیادہ بڑا گناہ ہوتا ہے کیونکہ اس سے اس کے بڑوں کی رسوائی اور بدنامی ہوتی ہے اس لیے اولاد صالحین کو اعمال صالحہ اور تقویٰ کی زیادہ فکر کرنا چاہیے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓاُخْتَ ہٰرُوْنَ مَا كَانَ اَبُوْكِ امْرَاَ سَوْءٍ وَّمَا كَانَتْ اُمُّكِ بَغِيًّا۝ ٢٨ۖۚ- أخ - أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف 85] ، - ( اخ و ) اخ - ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔ أَخَا عَادٍ ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔- هرن - هَارُونُ اسم أعجميّ ، ولم يرد في شيء من کلام العرب .- بغي - البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى،- والبَغْيُ علی ضربین :- أحدهما محمود، وهو تجاوز العدل إلى الإحسان، والفرض إلى التطوع .- والثاني مذموم، وهو تجاوز الحق إلى الباطل، أو تجاوزه إلى الشّبه، تعالی: إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الشوری 42] - ( ب غ ی ) البغی - کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ روی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ - بغی دو قسم پر ہے ۔- ( ١) محمود - یعنی حد عدل و انصاف سے تجاوز کرکے مرتبہ احسان حاصل کرنا اور فرض سے تجاوز کرکے تطوع بجا لانا ۔- ( 2 ) مذموم - ۔ یعنی حق سے تجاوز کرکے باطل یا شہاتت میں واقع ہونا چونکہ بغی محمود بھی ہوتی ہے اور مذموم بھی اس لئے آیت کریمہ : ۔ السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ( سورة الشوری 42) الزام تو ان لوگوں پر ہے ۔ جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں ۔- سَّيِّئَةُ :- الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] - سَّيِّئَةُ :- اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :،- ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] جو برے کام کرے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٨) اے ہارون کی بہن تمہارے باپ کوئی برے آدمی نہ تھے ہارون کی عبادت و پرہیزگاری میں تشبیہ دے کر ان کی بہن کہا کیوں کہ ہارون (علیہ السلام) بہت نیک انسان تھے یا یہ کہ ہارون (علیہ السلام) بڑے آدمی تھے، لہذا ان کے ساتھ تشیبہ دے دی،

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٨ (یٰٓاُخْتَ ہٰرُوْنَ مَا کَانَ اَبُوْکِ امْرَاَ سَوْ ءٍ وَّمَا کَانَتْ اُمُّکِ بَغِیًّا)- حضرت مریم کو ہارون کی بہن کہنے کی وجہ یا تو یہ ہوسکتی ہے کہ ان کا ہارون نامی کوئی بھائی ہو ‘ یا یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) کی نسل سے ہونے کی وجہ سے ایک برگزیدہِ جدّ امجد کے طور پر آپ ( علیہ السلام) کا نام لیا گیا ہو کہ دیکھو کس عظیم شخصیت کی نسل سے تمہارا تعلق ہے اور حرکت تم نے کس قدر گری ہوئی کی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :19 ( الف ) جو لوگ حضرت عیسیٰ کی معجزانہ پیدائش کے منکر ہیں وہ آخر اس بات کی کیا معقول توجیہہ کرسکتے ہیں کہ حضرت مریم کے بچہ لئے ہوئے آنے پر قوم کیوں چڑھ کر آئی اور ان پر یہ طعن اور ملامت کی بوچھاڑ اس نے کیوں کی؟

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

16: یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے ہوں، اور ان کے قبیلے کی طرف منسوب کر کے ان کو ہارون کی بہن کہہ دیا گیا ہو، جیسے حضرت ہود علیہ السلام کو ’’عاد کا بھائی‘‘ کہا گیا ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اُن کے کسی بھائی کا نام ہارون ہو، اور چونکہ وہ نیک نام بزرگ تھے، اس لئے اُن کی قوم نے اُن کا حوالہ دیا ہو۔