تقدس مریم اور عوام حضرت مریم علیہ السلام نے اللہ کے اس حکم کو بھی تسلیم کر لیا اور اپنے بچے کو گود میں لئے ہوئے لوگوں کے پاس آئیں ۔ دیکھتے ہی ہر ایک انگشت بدنداں رہ گیا اور ہر منہ سے نکل گیا کہ مریم تونے تو بڑا ہی برا کام کیا ۔ نوف بکالی کہتے ہیں کہ لوگ حضرت مریم کی جستجو میں نکلے تھے لیکن اللہ کی شان کہیں انہیں کھوج ہی نہ ملا ۔ راستے میں ایک چرواہا ملا اس سے پوچھا کہ ایسی ایسی عورت کو تو نے کہیں اس جنگل میں دیکھا ہے ؟ اس نے کہا نہیں ۔ لیکن میں نے رات کو عجیب بات دیکھی ہے کہ میری یہ تمام گائیں اس وادی کی طرف سجدے میں گر گئیں ۔ میں نے تو اس سے پہلے کبھی ایسا واقعہ نہیں دیکھا ۔ اور میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ اس طرف ایک نور نظر آرہا تھا ۔ وہ اس کی نشان دہی پر جا رہے تھے جو سامنے سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ بچے کو لئے ہوئے آتی دکھائی دی گیئں انہیں دیکھ کر آپ وہیں اپنے بچے کو گود میں لئے ہوئے بیٹھ گئیں ۔ ان سب نے آپ کو گھیر لیا اور باتیں بنانے لگے ۔ ان کا یہ کہنا کہ اے ہارون کی بہن اس سے مراد یہ ہے کہ آپ حضرت ہارون کی نسل سے تھیں ۔ یا آپ کے گھرانے میں ہارون نامی ایک صالح شخص تھا اور اسی کی سی عبادت وریاضت حضرت مریم صدیقہ کی تھی ۔ اس لئے انہیں ہارون کی بہن کہا گیا ۔ کوئی کہتا ہے ہارون نامی ایک بدکار شخص تھا اس لئے لوگوں نے طعن کی راہ سے انہیں اس کی بہن کہا ۔ ان سب اقوال سے بڑھ کر غریب قول ایک یہ بھی ہے کہ حضرت ہارون وموسیٰ کی وہی سگی بہن ہیں جنہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پیٹی میں ڈال کر دریا میں چھوڑا تھا تو ان سے کہا تھا کہ تم اس طرح اس کے پیچھے پیچھے کنارے کنارے جاؤ کہ کسی کو خیال بھی نہ گزرے ۔ یہ قول تو بالکل غلط ہوتا ہے اس لئے کہ قرآن سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے آخری نبی تھے آپ کے بعد صرف خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی نبی ہوئے ہیں ۔ چنانچہ صحیح بخاری شریف میں ہے آپ فرماتے ہیں کہ عیسیٰ بن مریم سے سب سے زیادہ قریب میں ہوں اس لئے کہ مجھ میں اور ان کے درمیان اور کوئی نبی نہیں گزرا ۔ پس اگر ماننا پڑے گا کہ آپ حضرت سلیمان علیہ السلام اور جضرت داؤد علیہ السلام سے بھی پہلے تھے کیونکہ قرآن کریم میں موجود ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد ہوئے ہیں ملاحظہ ہوآیت ( اَلَمْ تَرَ اِلَى الْمَلَاِ مِنْۢ بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِ يْلَ مِنْۢ بَعْدِ مُوْسٰى ٢٤٦ ) 2- البقرة:246 ) ، ان آیتوں میں حضرت داؤد کا واقعہ اور آپ کا جالوت کو قتل کرنا بیان ہوا ہے اور لفظ موجود ہیں کہ یہ موسیٰ کے بعد کا واقعہ ہے ۔ انہیں جو غلطی لگی ہے اس کی وجہ تورات کی یہ عبارت ہے جس میں ہے کہ جب حضرت موسیٰ مع بنی اسرائیل کے دریا سے پار ہوگئے اور فرعون مع اپنی قوم کے ڈوب مرا اس وقت مریم بنت عمران نے جو موسیٰ اور ہارون کی بہت تھیں ، دف پر اللہ کے شکر کے ترانے بلند کئے آپ کے ساتھ اور عورتیں بھی تھیں ۔ اس عبارت سے قرظی رحمۃ اللہ علیہ نے سمجھ لیا کہ یہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ہیں حالانکہ یہ محض غلط ہے ۔ ممکن ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن کا نام بھی مریم ہو لیکن یہ کہ یہی مریم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ماں تھیں اس کا کوئی ثبوت نہیں بلکہ یہ محض ناممکن ہے ہو سکتا ہے کہ نام دونوں کا ایک ہو ایک نام پر دوسرے نام رکھے جاتے ہیں ۔ بنی اسرائیل میں تو عادت تھی کہ وہ اپنے نبیوں ولیوں کے نام پر اپنے نام رکھتے تھے ۔ مسند احمد میں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران بھیجا وہاں مجھ سے بعض نصرانیوں نے پوچھا کہ تم یا اخت ہارون پڑھتے ہو حالانکہ موسیٰ علیہ السلام تو عیسیٰ علیہ السلام سے بہت پہلے گزرے ہیں مجھ سے کوئی جواب بن نہ پڑا جب میں مدینے واپس آیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ذکر کیا تو آپ نے فرمایا تم نے انہیں اسی وقت کیوں نہ جواب دے دیا کہ وہ لوگ اپنے اگلے نبیوں اور نیک لوگوں کے نام پر اپنے اور اپنی اولادوں کے نام برابر رکھا کرتے تھے ۔ صحیح مسلم شریف میں یہ بھی حدیث ہے امام ترمذی رحمۃ اللہ اسے حسن صحیح غریب بتلاتے ہیں ۔ ایک مرتبہ حضرت کعب نے کہا تھا کہ یہ ہارون حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بھائی ہارون نہیں اس پر ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انکار کیا تو آپ نے کہا کہ اگر آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا ہو تب تو ہمیں منظور ہے ورنہ تاریخی طور پر تو ان کے درمیان چھ سو سال کا فاصلہ ہے ۔ یہ سن کر ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا خاموش ہوگئیں ۔ اس تاریخ میں ہمیں قدرے تامل ہے ۔ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں حضرت مریم علیہ السلام کا گھرانہ اوپر سے ہی نیک صالح اور دیندار تھا اور یہ دینداری برابر گویا وراثتا چلی آرہی تھی ۔ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں اور بعض گھرانے اس کے خلاف بھی ہوتے ہیں کہ اوپر سے نیچے تک سب بد ہی بد ۔ یہ ہارون بڑے بزرگ آدمی تھے اس وجہ سے بنی اسرائیل میں ہارون نام رکھنے کا عام طور عام شوق ہوگیا تھا یہاں تک مذکور ہے کہ جس دن حضرت ہارون کا جنازہ نکلا ہے تو آپ کے جنازے میں اسی ہارون نام کے چالیس ہزار آدمی تھے ۔ الغرض وہ لوگ ملامت کرنے لگے کہ تم سے یہ برائی کیسے سرزد ہوگئی تم تو نیک کو کھ کی بچی ہو ماں باپ دونوں صالح سارا گھرانہ پاک پھر تم نے یہ کیا حرکت کی ؟ قوم کی یہ کڑوی کسیلی باتیں سن کر حسب فرمان آپ نے اپنے بچے کی طرف اشارہ کر دیا کہ اس سے پوچھ لو ۔ ان لوگوں کو تاؤ پر تاؤ آیا کہ دیکھو کیا ڈھٹائی کا جواب دیتی ہے گویا ہمیں پاگل بنا رہی ہے ۔ بھلا گود کے بچے سے ہم کیا پوچھیں گے اور وہ ہمیں کیا بتائے گا ؟ اتنے میں بن بلائے آپ بول اٹھے کہ لوگوں میں اللہ کا ایک غلام ہوں ۔ سب سے پہلا کلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہی ہے ۔ اللہ کی تنزیہ اور تعظیم بیان کی اور اپنی غلامی اور بندگی کا اعلان کیا اللہ کی ذات کو اولاد سے پاک بتایا بلکہ ثابت کر دیا کیونکہ اولاد غلام نہیں ہوتی پھر اپنی نبوت کا اظہار کر کہ مجھے اس نے کتاب دی ہے اور مجھے اپنا نبی بنایا ہے ۔ اس میں اپنی والدہ کی برات بیان کی بلکہ دلیل بھی دے دی کہ میں تو اللہ کا پیغمبر ہوں رب نے مجھے اپنی کتاب بھی عنایت فرما دی ہے ۔ کہتے ہیں کہ جب لوگ آپ کی والدہ ماجدہ سے باتیں بنا رہے تھے آپ اس وقت دودھ پی رہے تھے جسے چھوڑ کر بائیں کروٹ سے ہو کر ان کی طرف توجہ فرما کر یہ جواب دیا ۔ کہتے ہیں اس قول کے وقت آ پکی انگلی اٹھی ہوئی تھی اور ہاتھ مونڈھے تک اونچا تھا ۔ عکرمہ تو فرماتے ہیں مجھے اپنے کسی عمل کے اعلان کی اجازت ہے فرمایا بھلی بات کہنے اور بری بات کے روکنے کی اس لئے کہ یہی اصل دین ہے اور یہی انبیاء اللہ کا ورثہ ہے یہی کام ان کے سپرد ہوتا رہا ۔ پس جماعتی مسئلہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس عام برکت سے مراد بھلائی کا حکم اور برائی سے روکنا ہے ۔ جہاں بیٹھتے اٹھتے آتے جاتے یہ شغل برابر جاری رہتا ۔ کبھی اللہ کی باتیں پہنچانے سے نہ رکتے ۔ فرماتے ہیں مجھے حکم ملا ہے کہ زندگی بھر تک نماز وزکوۃ کا پابند رہوں ۔ یہی حکم ہمارے نبی علیہ الصلوۃ والسلام کو ملا ۔ ارشاد ہے ( واعبد ربک حتی یاتیک القین ) مرتے دم تک اپنے رب کی عبادت میں لگا رہ ۔ پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی فرمایا کہ اس نے مجھ پر یہ دونوں کام میری زندگی کے آخری لمحے تک لکھ دیے ہیں ۔ اس سے تقدیر کا ثبوت اور منکرین تقدیر کی تردید بھی ہو جاتی ہے ۔ رب کی اطاعت کے اس حکم کے ساتھ ہی مجھے اپنی والدہ کی خدمت گزاری کا بھی حکم ملا ہے ۔ عموما قرآن میں یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ بیان ہوتی ہیں جیسے آیت ( وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا 23 ) 17- الإسراء:23 ) اور آیت ( اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ ۭ اِلَيَّ الْمَصِيْرُ 14 ) 31- لقمان:14 ) میں ۔ اس نے مجھے گردن کش نہیں بنایا کہ میں اس کی عبادت سے یہ والدہ کی اطاعت سے سرکشی اور تکبر کروں اور بدبخت بن جاؤں ۔ کہتے ہیں جباروشقی وہ ہے جو غصے میں آکر خونریزی کر دے ۔ فرماتے ہیں ماں باپ کا نافرمان وہی ہوتا ہے جو بدبخت اور گردن کش ہو ۔ بدخلق وہی ہوتا ہے جو اکڑنے والا اور منافق ہو ۔ مذکور ہے کہ ایک مرتبہ آپ کے معجزوں کو دیکھ کر ایک عورت تعجب سے کہنے لگی مبارک ہے وہ پیٹ جس میں تو نے پرورش پائی اور مبارک ہے وہ سینہ جس نے تجھے دودھ پلایا ۔ آپ نے جواب دیا مبارک ہے وہ جس نے کتاب اللہ کی تلاوت کی پھر تابعداری کی ۔ اور سرکش اور بدبخت نہ بنا ۔ پھر فرماتے ہیں میری پیدائش کے دن ، موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کے دن میں مجھ پرسلامتی ہے اس سے بھی آپ کی عبودیت اور منجملہ مخلوق کے ایک مخلوق الہٰی ہونا ثابت ہورہا ہے کہ آپ مثل انسانوں کے عدم سے وجود میں آئے پھر موت کا مزہ بھی چکھیں گے ۔ پھر قیامت کے دن دوبارہ اٹھیں گے بھی ۔ لیکن ہاں یہ تینوں موقعے خوب سخت اور کٹھن ہیں آپ پر آسان اور سہل ہوں گے نہ کوئی گھبراہٹ ہوگی نہ پریشانی بلکہ امن چین اور سراسر سلامتی ہی سلامتی ۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ
[٢٧] یہود کی بہتان تراشیاں :۔ جس وجہ سے سیدہ مریم اس دور کے مکان میں جاگزیں ہوئی تھیں وہ تو پورا ہوچکا۔ اب وہ اسے اٹھائے ہوئے اور فرشتہ کی ہدایت کو پلے باندھے ہوئے اپنی قوم کے لوگوں کے ہاں آگئیں۔ اس امید پر کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے پہلے بروقت مدد فرمائی ہے اب بھی کوئی راہ نکال دے گا۔ جب وہ اپنے لوگوں کے پاس بچہ کو اٹھائے ہوئے پہنچیں تو انہوں نے بچہ کو دیکھ کر بغیر کچھ پوچھے ہی طعن و ملامت شروع کردی اور آسمان سر پر اٹھا لیا اور کہا کہ ہارون جیسے پاکیزہ خاندان کی اولاد ہوتے ہوئے یہ تو نے کیا گل کھلا دیا تم نے ہمارے پورے خاندان کی ناک کٹوا دی اور ہماری عزت خاک میں ملا دی۔ غرض بھانت بھانت کی بولیاں بولی جارہی تھیں۔ کسی نے کہا کہ تمہاری ماں (عمران کی بیوی) بھی ایک پاک باز اور عفیفہ عورت تھی اور باپ (عمران) بھی بڑا شریف آدمی تھا۔ پھر تجھ میں یہ بری خصلت کہاں سے آگئی ؟ غرض جتنے منہ اتنی باتیں ہوتی رہیں اور سیدہ مریم خاموشی اور تحمل سے یہ باتیں سنتی رہیں اور یہ باتیں کچھ غیر متوقع بھی نہ تھیں۔- سیدہ مریم ہارون کی بہن کیسے تھیں ؟ کہتے ہیں کہ سیدہ مریم کے ایک بھائی کا نام بھی ہارون تھا۔ اسی وجہ سے لوگوں نے سیدہ مریم کو اے ہارون کی بہن کہا تھا۔ ممکن ہے یہ بات بھی صحیح ہو مگر اس سے بہتر توجیہ وہی ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے اسی توجیہ کی تائید عام محاورہ عرب سے بھی ہوتی ہے۔ نیز درج ذیل حدیث بھی اسی توجیہ کی تائید کرتی ہے۔- سیدنا مغیرہ بن شعبہ کہتے ہیں کہ آپ نے مجھے نجران کے عیسائیوں کی طرف (مناظرہ کے لئے) بھیجا تو انہوں نے کہا : تم جو یا اخت ہارون پڑھتے ہو تو موسیٰ اور عیسیٰ میں تو کافی مدت ہے ؟ (پھر مریم ہارون یعنی موسیٰ کے بھائی، کی بہن کیسے ہوئی ؟ ) اور میں نہیں سمجھتا تھا کہ انھیں کیا جواب دوں۔ پھر میں نبی اکرم کے پاس آیا اور انھیں بتایا تو آپ نے فرمایا : تم نے انھیں یہ نہ بتایا کہ وہ لوگ اپنے سے پہلے کے نبیوں اور بزرگوں کے نام رکھا کرتے تھے (یعنی موسیٰ کے بھائی ہارون اور تھے اور مریم کا بھائی ہارون اور تھا) (ترمذی، ابو اب التفسیر)
ۚفَاَتَتْ بِهٖ قَوْمَهَا تَحْمِلُهٗ : اپنے بچے کی بات سن کر اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ کرامات دیکھ کر مریم [ کو اطمینان ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ اسے ذلیل نہیں ہونے دے گا۔ چناچہ وہ ایام نفاس گزرنے اور طبیعت بحال ہونے کے بعد کسی جھجک کے بغیر اپنے بچے کو اٹھائے ہوئے اپنے لوگوں کے پاس آگئیں۔- قَالُوْا يٰمَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَـيْـــــًٔـا فَرِيًّا : ” فَرَی یَفْرِیْ “ (ض) کا معنی چمڑے کو قطع کرنا ہے۔ ” فَرِيًّا “ بروزن ” فَعِیْلٌ“ بمعنی فاعل یا مفعول ہے، قطع کرنے والی یا قطع کی ہوئی، یعنی عام عادت اور معمول کے خلاف چیز، اس لیے اس کا معنی بعض نے عظیم، بعض نے عجیب اور بعض نے منکر یعنی انوکھی کیا ہے۔ بہتان کو بھی افترا کہتے ہیں، کیونکہ وہ بھی واقعہ کے خلاف ہوتا ہے۔ لفظی معنی ہے ” تو ایک انوکھی چیز کو آئی ہے “ یعنی تو نے ایک انوکھا کام کیا ہے۔ مراد کنواری کے ہاں بچے کی پیدائش ہے۔
خلاصہ تفسیر - (غرض مریم (علیہ السلام) کی اس کلام سے تسلی ہوئی عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے) پھر وہ ان کو گود میں لیے ہوئے (وہاں سے بستی کو چلیں اور) اپنی قوم کے پاس لائیں، لوگوں نے (جو دیکھا کہ ان کی شادی تو ہوئی نہ تھی یہ بچہ کیسا، بدگمان ہو کر) کہا اے مریم تم نے بڑے غضب کا کام کیا (یعنی نعوذ باللہ بدکاری کی، اور یوں تو بدکاری کوئی بھی کرے برا ہے لیکن تم سے ایسا فعل ہونا زیادہ غضب کی بات ہے کیونکہ) اے ہارون کی بہن (تمہارے خاندان میں کبھی کسی نے ایسا نہیں کیا چنانچہ) تمہارے باپ کوئی برے آدمی نہ تھے (کہ ان سے یہ اثر تم میں آیا ہو) اور نہ تمہاری ماں بدکار تھیں (کہ ان سے یہ اثر تم میں آیا ہو، پھر ہارون جو تمہارے رشتہ کے بھائی ہیں جن کا نام ان ہارون نبی کے نام پر رکھا گیا ہے وہ کیسے کچھ نیک شخص ہیں، غرض جس کا خاندان کا خاندان پاک صاف ہو اس سے یہ حرکت ہونا کتنا بڑا غضب ہے) پس مریم (علیہا السلام) نے (یہ ساری تقریر سن کر کوئی جواب نہ دیا بلکہ) بچہ کی طرف اشارہ کردیا (کہ اس سے کہو جو کچھ کہنا ہو یہ جواب دے گا) وہ لوگ (سمجھے کہ یہ ہمارے ساتھ تمسخر کرتی ہیں) کہنے لگے کہ بھلا ہم ایسے شخص سے کیونکر باتیں کریں جو ابھی گود میں بچہ ہی ہے (کیونکہ بات اس شخص سے کی جاتی ہے جو کہ وہ بھی بات چیت کرتا ہو، سو جب یہ بچہ ہے اور بات پر قادر نہیں، تو اس سے کیا بات کریں اتنے میں) وہ بچہ (خود ہی) بول اٹھا میں اللہ کا (خاص) بندہ ہوں ( نہ تو اللہ ہوں جیسا کہ جہلا نصاریٰ سمجھیں گے اور نہ غیر مقبول ہوں جیسا یہود سمجھیں گے اور بندہ ہونے کے اور پھر خاص ہونے کے یہ آثار ہیں کہ) اس نے مجھ کو کتاب (یعنی انجیل) دی (یعنی گو آئندہ دے گا مگر بوجہ یقینی ہونے کے ایسا ہی ہے جیسا کہ دے دی) اور اس نے مجھ کو نبی بنایا (یعنی بناوے گا) اور مجھ کو برکت والا بنایا (یعنی مجھ سے خلق کو دین کا نفع پہنچے گا) میں جہاں کہیں بھی ہوں (گا مجھ سے برکت پہنچے گی وہ نفع تبلیغ دین ہے خواہ کوئی قبول کرے یا نہ کرے انہوں نے تو نفع پہنچا ہی دیا) اس نے مجھ کو نماز اور زکوٰة کا حکم دیا جب تک میں (دنیا میں) زندہ ہوں (اور ظاہر ہے کہ آسمان پر جانے کے بعد مکلف نہیں رہے اور یہ دلیل ہے بندہ ہونے کی جیسا کہ دلائل ہیں خصوصیت کے) اور مجھ کو میری والدہ کا خدمت گذار بنایا (اور چونکہ بےباپ پیدا ہوئے ہیں اس لئے والدہ کی تخصیص کی گئی) اور اس نے مجھ کو سرکش بدبخت نہیں بنایا (کہ ادائے حق خالق یا ادائے حق والدہ سے سرکشی کروں یا حقوق و اعمال کے ترک سے بدبختی خریدلوں) اور مجھ پر (اللہ کی جانب سے) سلام ہے جس روز میں پیدا ہوا اور جس روز مروں گا (کہ وہ زمانہ قرب قیامت کا بعد نزول من السماء کے ہوگا) اور جس روز میں (قیامت میں) زندہ کر کے اٹھایاجاؤں گا (اور اللہ کا سلام دلیل ہے خاص بندہ ہونے کی) ۔- معارف مسائل - فَاَتَتْ بِهٖ قَوْمَهَا تَحْمِلُهٗ - ان الفاظ سے ظاہر یہی ہے کہ حضرت مریم کو جب غیبی بشارتوں کے ذریعہ اس کا اطمینان ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ مجھے بدنامی اور رسوائی سے بچاویں گے تو خود ہی اپنے نومولود بچے کو لے کر اپنے گھر واپس آگئیں۔ پھر یہ ایسی پیدائش کے کتنے دن بعد ہوئی۔ ابن عساکر کی روایت ابن عباس سے یہ ہے کہ ولادت سے چالیس روز بعد جب نفاس سے فراغت و طہارت ہوچکی اس وقت اپنے گھر والوں کے پاس آئیں۔ (روح المعافی)- شَـيْـــــًٔـا فَرِيًّا - لفظ فری عربی زبان میں دراصل کاٹنے اور پھاڑنے کے معنی میں آتا ہے جس کا یا جس چیز کے ظاہر ہونے میں غیر معمولی کاٹ چھانٹ ہو اس کو فری کہتے ہیں۔ ابو حیان نے فرمایا کہ ہر امر عظیم کو فری کہا جاتا ہے خواہ وہ اچھائی کے اعتبار سے عظیم ہو یا برائی کے اعتبار سے۔ اس جگہ بڑی برائی کے معنے میں استعمال ہوا ہے اور اس لفظ کا اکثر استعمال ایسی ہی چیز کے لیے معروف ہے جو اپنی شناعت اور برائی کے اعتبار سے غیر معمولی اور بڑی سمجھی جاتی ہو۔
فَاَتَتْ بِہٖ قَوْمَہَا تَحْمِلُہٗ ٠ۭ قَالُوْا يٰمَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَـيْـــــًٔـا فَرِيًّا ٢٧- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - حمل - الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل .- وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی:- وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] ،- ( ح م ل ) الحمل - ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ - وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔- فری - الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] ، - ( ف ری ) القری ( ن )- کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔- وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔
(٢٧) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) چالیس دن کے ہوئے تو وہ ان کو گود میں لے کر اپنی قوم کے پاس آئیں قوم بولی بڑے غضب کا کام کیا۔
آیت ٢٧ (فَاَتَتْ بِہٖ قَوْمَہَا تَحْمِلُہٗ )- حضرت مریم بڑے حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے نومولود بچے کو اٹھائے ہوئے اپنی قوم کی طرف آگئیں۔ بچے کی گفتگو والا معجزہ دیکھ لینے کے بعد آپ کو تسلی تھی کہ وہ خود ہی لوگوں کے سوالات کے جواب دے گا۔ آیت ٢٤ کے حوالے سے بچے کے کلام کرنے کا تذکرہ عام طور پر تفاسیر میں نہیں ملتا اور ” مِنْ تَحْتِھَا “ سے یہی سمجھا گیا ہے کہ اس موقع پر فرشتے ہی نے آپ کو پکارا تھا۔ بہرحال میری رائے یہ ہے کہ حضرت مریم کو اس وقت نیچے سے پکارنے والا آپ کا نومولود بیٹا تھا ‘ جس کی گفتگو سے آپ کو حوصلہ ملا اور آپ بچے کے ساتھ لوگوں کا سامنا کرنے پر آمادہ ہوئیں۔ واللہ اعلم - (قَالُوْا یٰمَرْیَمُ لَقَدْ جِءْتِ شَیْءًا فَرِیًّا)- ان کو دیکھتے ہی لوگوں نے طرح طرح کی باتیں کرنا شروع کردیں کہ تم نے یہ کیا غضب کیا تمہاری گود میں یہ کس کا بچہ ہے ؟ یہ تم نے بہت بری حرکت کی ہے ‘ وغیرہ۔
سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :19 ان لفاظ کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ انہیں ظاہری معنی میں لیا جائے اور یہ سمجھا جائے کہ حضرت مریم کا کوئی بھائی ہارون نامی ہو ۔ دوسرے یہ کہ عربی محاورے کے مطابق اخت ہارون کے معنی ہارون کے خاندان کی لڑکی لیے جائیں ، کیونکہ عربی میں یہ ایک معروف طرز بیان ہے ۔ مثلاً قبیلہ مضر کے آدمی کو یا اخامصہ ( اے مضر کے بھائی ) اور قبیلہ ہمدانی کے آدمی کو یا اخاھمدان ( اے ہمدان کے بھائی ) کہہ کر پکارتے ہیں ۔ پہلے کے حق میں دلیل ترجیح یہ ہے کہ بعض روایات میں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ معنی منقول ہوئے ہیں ۔ اور دوسرے معنی کی تائید میں دلیل یہ ہے کہ موقع و محل اس معنی کا تقاضا کرتا ہے ۔ کیونکہ اس واقعہ سے قوم میں جو ہیجان برپا ہوا تھا اس کی وجہ بظاہر یہ نہیں معلوم ہوتی کہ ہارون نامی ایک گمنام شخص کی کنواری بہن گود میں بچہ لیئے ہوئے آئی تھی ، بلکہ جس چیز نے لوگوں کا ایک ہجوم حضرت مریم کے گرد جمع کر دیا تھا وہ یہ ہو سکتی تھی کہ بنی اسرائیل کے مقدس ترین گھرانے ، خانوادۂ ہارون کی ایک لڑکی اس حالت میں پائی گئی ۔ اگرچہ ایک حدیث مرفوع کی موجودگی میں کوئی دوسری تاویل اصولاً قابل لحاظ نہیں ہو سکتی ، لیکن مسلم ، نسائی اور ترمذی وغیرہ میں یہ حدیث جن الفاظ میں نقل ہوئی ہے اس سے یہ مطلب نہیں نکلتا کہ ان الفاظ کے معنی لازماً ہارون کی بہن ہی ہیں ۔ مغیرہ رضی اللہ عنہ بن شعبہ کی روایت میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ نجران کے عیسائیوں نے حضرت مغیرہ کے سامنے یہ اعتراض پیش کیا کہ قرآن میں حضرت مریم کو ہارون کی بہن کہا گیا ہے ، حالانکہ حضرت ہارون ان سے سینکڑوں برس پہلے گزر چکے تھے ۔ حضرت مغیرہ ان کے اعتراض کا جواب نہ دے سکے اور انہوں نے آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ ماجرا عرض کیا ۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے یہ جواب کیوں نہ دے دیا کہ بنی اسرائیل اپنے نام انبیا اور صلحاء کے نام پر رکھتے تھے ؟ حضور کے اس ارشاد سے صرف یہ بات نکلتی ہے کہ جواب ہونے کے بجائے یہ جواب دے کر اعتراض رفع کیا جا سکتا تھا ۔
15: بچے کی پیدائش کے بعد حضرت مریم علیہما السلام پوری طرح مطمئن ہوچکی تھیں کہ جس اللہ تعالیٰ نے یہ بچہ اپنی خاص قدرت سے پیدا فرمایا ہے، وہی ان کی براءت بھی ظاہر فرمائے گا، اس لیے اب اطمینان کے ساتھ خود ہی بچے کو لے کر لوگوں کے سامنے تشریف لے گئیں