بتوں کی پوجا ۔ مشرکین مکہ جو بت پرست ہیں اور اپنے آپ کو خلیل اللہ کا متبع خیال کرتے ہیں ان کے سامنے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ بیان کیجئے ۔ اس سچے نبی نے اپنے باپ کی بھی پرواہ نہ کی اور اس کے سامنے بھی حق کو واضح کردیا اور اسے بت پرستی سے روکا ۔ صاف کہاکہ کیوں ان بتوں کی پوجا پاٹ کر رہے ہوں جو نہ نفع پہنچا سکیں نہ ضرر ۔ فرمایا کہ میں بیشک آپ کا بچہ ہوں لیکن اللہ کا علم جو میرے پاس ہے آپ کے پاس نہیں آپ میری اتباع کیجئے میں آپ کو راہ راست دکھاؤں گا برائیوں سے بچادوں گا ۔ ابا جی یہ بت پرستی توشیطان کی تابعداری ہے وہی اس کی راہ سمجھاتا ہے اور وہی اس سے خوش ہوتا ہے ۔ جیسے سورہ یاسین میں ہے ( اَلَمْ اَعْهَدْ اِلَيْكُمْ يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطٰنَ ۚ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ 60ۙ ) 36-يس:60 ) ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے انسانوں کیا میں نے تم سے عہد نہیں لیا تھا کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور آیت میں ہے ( اِنْ يَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖٓ اِلَّآ اِنَاثًا ۚ وَاِنْ يَّدْعُوْنَ اِلَّا شَيْطٰنًا مَّرِيْدًا ١١٧ۙ ) 4- النسآء:117 ) ، یہ لوگ تو عورتوں کو پکارتے ہیں اور اللہ کو چھوڑتے ہیں دراصل یہ سرکش شیطان کے پکارنے والے ہیں آپ نے فرمایا شیطان اللہ کا نافرمان ہے ، مخالف ہے ، اس کی فرمابرداری سے تکبر کرنے والا ہے ، اسی وجہ سے راندہ درگاہ ہوا ہے اگر تو نے بھی اس کی اطاعت کی تو وہ اپنی حالت پر تجھے بھی پہنچادے گا ۔ ابا جان آپ کے اس شرک وعصیان کی وجہ سے مجھے تو خوف ہے کہ کہیں آپ پر اللہ کا کوئی عذاب نہ آجائے اور آپ شیطان کے دوست اور اس کے ساتھی نہ بن جائیں اور اللہ کی مدد اور اس کا ساتھ آپ سے چھوٹ نہ جائے ۔ دیکھو شیطان خود بیکس بےبس ہے اس کی تابعداری آپ کو بری جگہ پہنچا دے گی ۔ جیسے فرمان باری ہے ۔ ( تَاللّٰهِ لَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ فَهُوَ وَلِيُّهُمُ الْيَوْمَ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ 63 ) 16- النحل:63 ) یعنی یہ یقینی اور قسمیہ بات ہے کہ تجھ سے پہلے کی امتوں کی طرف بھی ہم نے رسول بھیجے لیکن شیطان نے ان کی بداعمالیاں انہیں مزین کر کے دکھلائیں اور وہی ان کا ساتھی بن گیا لیکن کام کچھ نہ آیا اور قیامت کے دن عذاب الیم میں پھنس گئے ۔
41۔ 1 صدیق صدق (سچائی سے مبالغے کا صیغہ ہے۔ بہت راست باز، یعنی جس کے قول وعمل میں مطابقت اور راست بازی اس کا شعار ہو۔ صدیقیت کا یہ مقام، نبوت کے بعد سب سے اعلٰی ہے ہر نبی اور رسول بھی اپنے وقت کا سب سے بڑا راست باز اور صداقت شعار ہوتا ہے، اس لئے وہ صدیق بھی ہوتا ہے۔ تاہم ہر صدیق، نبی نہیں ہوتا۔ قرآن کریم میں حضرت مریم کو صدیقہ کہا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تقویٰ و طہارت اور راست بازی میں بہت اونچے مقام پر فائز تھیں تاہم نبیہ نہیں تھیں۔ امت محمدیہ میں بھی صدیقین ہیں۔ اور ان میں سر فہرست حضرت ابوبکر صدیق (رض) ہیں جو انبیاء کے بعد امت میں خیر البشر تسلیم کئے گئے ہیں۔ رَ ضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ۔
[٣٧] سیدنا ابراہیم کے قصہ کا روئے سخن بالخصوص قریش مکہ کی طرف ہے۔ جو اپنے آپ کو دین ابراہیم کا پیروکار بتاتے تھے۔ انھیں بتایا یہ جارہا ہے کہ وہ مشرک نہیں بلکہ توحید پرست تھے۔ انہوں نے اپنے مشرک آباء واجداد کی تقلید کو چھوڑ دیا تھا۔ تمہیں بھی چھوڑ دینا چاہئے۔ مشرک قوم اور مشرک باپ نے طرح طرح کی دھمکیاں دیں مگر انہوں نے شرک کی باتیں تسلیم کرنے پر گھر بار چھوڑنے اور ترک وطن کو ترجیح دی۔ ایک تم ہو جو اپنے شرک پر اتنے مصر ہو کہ توحید پرستوں کو اذیتیں دے دے کر انھیں ہجرت پر مجبور کردیا ہے۔ پھر تمہارے اس اتباع دین ابراہیمی میں کون سی صداقت ہے ؟- [٣٨] اور سیدنا ابراہیم تو قول کے سچے اور اپنی عملی زندگی میں بھی راست باز انسان تھے اور صدیق ہونے کے علاوہ وہ نبی بھی تھے۔ بعض لوگ اسی آیت سے استدلال کرکے بخاری کی درج ذیل حدیث کی صحت کا انکار کردیتے ہیں :- سیدنا ابراہیم کے تین جھوٹ والی حدیث پر اعتراض اور اس کا جواب :۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : کہ سیدنا ابراہیم نے کبھی جھوٹ نہ بولا سوائے تین مرتبہ کے۔ دو مرتبہ تو اللہ کے واسطے ان کا یہ کہنا کہ انی سقیم اور یہ کہنا کہ (بَلْ فَعَلَه ٗٗ ڰ كَبِيْرُهُمْ ھٰذَا فَسْـَٔــلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا يَنْطِقُوْنَ 63) 21 ۔ الأنبیاء :63) یہ دونوں اللہ کے لئے تھے اور آپ نے فرمایا کہ ایک دن وہ اور (ان کی بیوی) سارہ اس حال میں جارہے تھے کہ ایک ظالم بادشاہ پر ان کا گزر ہوا۔ کسی نے بادشاہ سے کہا کہ یہاں ایک شخص آیا ہے جس کے ساتھ اس کی خوبصورت بیوی بھی ہے۔ اس بادشاہ نے سیدنا ابراہیم کو بلوا بھیجا اور سارہ کی بابت پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ سیدنا ابراہیم نے کہہ دیا : یہ میری بہن ہے پھر وہ سارہ کے پاس گئے اور کہا : سارہ اس وقت روئے زمین پر میرے اور تمہارے سوا کوئی مومن نہیں ہے اور اس ظالم نے مجھ سے پوچھا تھا تو میں نے کہہ دیا کہ یہ میری (دینی) بہن ہے۔ پس تم مجھے جھوٹا نہ کرنا (بخاری۔ کتاب الانبیائ۔ باب قول اللہ (وَاتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِيْمَ خَلِيْلًا ١٢٥۔ ) 4 ۔ النسآء :125)- ١۔ ان تین جھوٹوں میں سے دو کا ذکر تو قرآن کریم میں موجود ہے۔ بتوں کو توڑا تو آپ نے تھا لیکن پوچھنے پر کہہ دیا کہ اس بڑے بت نے انھیں توڑا ہے اس طرح جب ان کی قوم جشن منانے نکلی اور آپ کو ساتھ لے جانے کو کہا تو آپ نے کہہ دیا کہ میں بیمار ہوں۔ پھر اسی وقت جاکر ان کے بت بھی توڑ ڈالے تو پھر بیمار کیسے تھے ؟ کیا یہ باتیں خلاف واقعہ نہیں تھیں ؟ لہذا معترضین کا اصل رخ قرآن کی طرف ہونا چاہئے نہ کہ حدیث کی تکذیب کی طرف۔- ٢۔ رسول اللہ نے خود ابتداء وضاحت سے یہ الفاظ فرما دیئے کہ سیدنا ابراہیم نے کبھی جھوٹ نہیں بولا یہ ان کے فی الواقع صدیق ہونے کی بہت بڑی شہادت ہے کہ ان سے ١٧٥ سالہ زندگی میں تین سے زیادہ مرتبہ جھوٹ سرزد نہیں ہوا۔ اب آپ اپنی زندگی کے شب و روز پر نگاہ ڈالئے کہ آپ ساری زندگی میں نہیں بلکہ صرف ایک دن رات میں کتنی مرتبہ جھوٹ بولتے ہیں اور دانستہ بھی اور نادانستہ بھی اور پھر خود ہی فیصلہ کرلیجئے کہ اگر ایک شخص سے ١٧٥ سال کی زندگی میں تین سے زیادہ جھوٹ سرزد نہ ہوں تو اس کو صدیق کہا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ پھر ان تینوں واقعات کے لئے ٹھوس بنیادیں بھی موجود ہیں۔ یعنی ان میں دو جھوٹ تو آپ نے مشرکین پر حجت قائم کرنے اور کلمہ حق کو سربلند کرنے کے بولے جیسا کہ حدیث بالا سے ثابت ہے اور تیسرا جس کا ذکر حدیث میں ہے وہ آپ نے اپنی جان بچانے کے لئے بولا تھا۔ شاہ مصر کا دستور یہ تھا کہ وہ حسین عورت کو زبردستی چھین لیتا۔ اگر اس کے ساتھ اس کا خاوند ہوتا تو اسے مروا ڈالتا اور اگر اس کے ساتھ بھائی یا کوئی دوسرا رشتہ دار ہوتا تو اس سے عورت تو چھین لیتا مگر اس کی جان سے درگزر کرتا تھا۔ اب اگر سیدنا ابراہیم نے اپنی جان بچانے کی خاطر جھوٹ بولا بھی تھا (حالانکہ وہ بھی ایک طرح سے جھوٹ نہیں بنتا جیسا کہ حدیث کے الفاظ بتا رہے ہیں) آخر اس میں قیامت کون سی آگئی ؟ جان بچانے کی خاطر اگر مردار تک کھا لینا جائز ہے تو جھوٹ بولنا کیوں جائز نہیں ہوسکتا۔ وہ کون سی شریعت ہے جس میں اس قدر سختی روا رکھی گئی ہو۔ جان بچانے کے لئے تو اللہ نے کلمہ کفر تک کہہ دینے کی بھی اجازت دے دی ہے بشرطیکہ دل میں کوئی ایسی بات نہ ہو (٣٨: ١٤) تو پھر کیا جھوٹ بولنا اس سے بھی بڑا جرم ہے ؟ جھوٹ گناہ اس صورت میں ہے جب اس کی زد کسی کے حقوق پر پڑتی ہو اور جتنی زیادہ زد پڑتی ہو اتنا ہی زیادہ کبیرہ گناہ بنتا جاتا ہے۔ ہمیشہ سچ بولنا اور جھوٹ سے بچنا شریعت کا ایک بڑا بھاری کلیہ ہے لیکن استثناء اس میں بھی موجود ہے جبکہ اصلاح اور خیر کا پہلو نمایاں ہو اور شریعت کی نگاہوں میں وہ فی الواقع اصلاح اور خیر ہو۔ مثلا میاں بیوی کے درمیان صلح کرانے کے لئے شریعت نے باتیں بنانے اور جھوٹ بول کر صلح کرا دینے کو گناہ نہیں بلکہ مستحسن قرار دیا ہے۔ اسی طرح جہاد میں دشمن کو ہراساں کرنے کے لئے بھی ایسی باتوں کی اجازت ہے۔ حالانکہ لغوی لحاظ سے ان باتوں پر بھی لفظ کذب کا اطلاق ہوسکتا ہے۔
ۧوَاذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِبْرٰهِيْمَ : اس سورت کا اصل موضوع توحید و نبوت اور حشر کے واقعات بیان کرنا ہے۔ توحید کے منکر دو قسم کے لوگ تھے، ایک یہود و نصاریٰ جنھوں نے عیسیٰ اور عزیر ( علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قرار دے لیا اور اس طرح شرک میں مبتلا ہوگئے، چناچہ پچھلی آیات میں مریم اور مسیح (علیہ السلام) کا قصہ بیان کرکے ان کے غلط عقائد کی تردید فرمائی۔ دوسرے مشرکین عرب، جو بت پرستی میں مبتلا تھے اور اس غلط عقیدے کے باوجود ابراہیم (علیہ السلام) کے دین پر قائم ہونے کے دعوے دار تھے۔ یہاں سے ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ بیان کرکے ان کی تردید مقصود ہے، تاکہ معلوم ہو کہ کس طرح ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ اور قوم کو بت پرستی سے نکالنے کی کوشش کی اور بالآخر وطن اور رشتہ داروں کو چھوڑ کر اللہ کی راہ میں ہجرت کی، مگر تم ہو کہ ایک طرف تو ان کی اولاد میں سے ہو اور ان کے دین پر ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہو، لیکن دوسری طرف بت پرستی کی لعنت میں گرفتار ہو اور توحید کی آواز اٹھانے والوں کو وطن سے نکل جانے پر مجبور کر رہے ہو۔ اگر واقعی تم ابراہیم (علیہ السلام) کے دین کے پیرو ہو تو اس شرک پر عمل پیرا ہونے اور توحید پرستوں سے دشمنی کا کیا مطلب ؟- اِنَّهٗ كَانَ صِدِّيْقًا نَّبِيًّا : ” صِدِّيْقًا “ ” صِدْقٌ“ سے مبالغہ ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو صدیق اس لیے فرمایا کہ وہ بات میں بہت سچے تھے اور اپنے رب کے ساتھ معاملے میں بھی سچے تھے۔ اللہ کی خاطر گھر سے بےگھر ہونا، آگ میں جلنے کو گوارا کرنا، وطن سے بےوطن ہونا، پردیس میں اپنی عزت و ناموس کے خطرے میں ہونے کو برداشت کرنا، بیوی بچے کو بےآباد سنگلاخ وادی میں چھوڑنا، اکلوتے بیٹے کو ذبح کرنے کے حکم کی تعمیل، اسّی (٨٠) برس کی عمر میں ختنے کا حکم ہونے پر فوراً عمل کرنا، یہ ان کے ہر معاملہ میں صدق کی چند مثالیں ہیں۔ ” صِدِّيْقًا “ کی مزید تفسیر کے لیے دیکھیے سورة نساء (٦٩) اور یوسف (٤٦) ۔
خلاصہ تفسیر - اور (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اس کتاب (یعنی قرآن) میں (لوگوں کے سامنے حضرت) ابراہیم (علیہ السلام) کا (قصہ) ذکر کیجئے (تاکہ ان کو توحید و رسالت کا مسئلہ زیادہ منکشف ہوجاوے) وہ (ہر قول فعل میں) بڑے راستی والے (تھے اور) پیغمبر تھے (اور وہ قصہ جس کا ذکر کرنا اس جگہ مقصود ہے اس وقت ہوا تھا) جب کہ انہوں نے اپنے باپ سے (جو کہ مشرک تھا) کہا کہ اے میرے باپ تم ایسی چیز کی کیوں عبادت کرتے ہو جو نہ کچھ سنے اور نہ کچھ دیکھے اور نہ تمہارے کچھ کام آسکے (مراد بت ہیں حالانکہ اگر کوئی دیکھتا سنتا کچھ کام آتا بھی ہو مگر واجب الوجود نہ ہو تب بھی لائق عبادت نہیں چہ جائے کہ ان اوصاف سے بھی عادی ہو تو وہ بدرجہ اولیٰ لائق عبادت نہ ہوگا) اے میرے باپ میرے پاس ایسا علم پہنچا ہے جو تمہارے پاس نہیں آیا (مراد اس سے وحی ہے جس میں احتمال غلطی کا ہو ہی نہیں سکتا پس میں جو کچھ کہہ رہا ہوں قطعاً حق ہے جب یہ بات ہے) تو تم میرے کہنے پر چلو میں تم کو سیدھا رستہ بتلاؤں گا (اور وہ توحید ہے) اے میرے باپ تم شیطان کی پرستش مت کرو (یعنی شیطان کو اور اس کی عبادت کو تو تم بھی برا سمجھتے ہو اور بت پرستی میں شیطان پرستی بالیقین لازم ہے کہ وہی یہ حرکت کراتا ہے۔ اور کسی کی ایسی اطاعت کرنا کہ حق تعالیٰ کے مقابلے میں بھی اس کی تعلیم کو حق سمجھے یہی عبادت ہے پس بت پرستی میں شیطان پرستی ہوئی اور) بیشک شیطان (حضرت) رحمان کا نافرمانی کرنے والا ہے (تو وہ کب اطاعت کے لائق ہوگا) اے میرے باپ، میں اندیشہ کرتا ہوں (اور وہ اندیشہ یقینی ہے) کہ تم پر کوئی عذاب نہ آپڑے (خواہ دنیا میں یا آخرت میں) پھر تم (عذاب میں) شیطان کے ساتھی ہوجاؤ (یعنی جب اطاعت میں اس کا ساتھ دو گے تو نفس عقوبت میں بھی اس کا ساتھ ہوگا گو شیطان کو دنیا میں عذاب نہ ہوا اور اس شیطان کی معیت اور مشارکت فی العقوبت کو کوئی اپنی بھلائی چاہنے والا پسند نہ کرے گا۔- ابرہیم (علیہ السلام) کی یہ تمام تر نصائح سن کر) باپ نے جواب دیا کہ کیا تم میرے معبودوں سے پھرے ہوئے ہو اے ابراہیم (اور اس لئے مجھے بھی منع کرتے ہو یاد رکھو) اگر تم (اب بتوں کی مذمت سے اور مجھ کو ان کی عبادت سے منع کرنے سے) باز نہ آئے تو میں ضرور تم کو مار پتھروں کے سنگسار کر دوں گا (پس تم اس سے باز آجاؤ) اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مجھ (کو کہنے سننے) سے برکنار رہو، ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا (بہتر) میرا سلام لو (اب تم سے کہنا سننا بےسود ہے) اب میں تمارے لئے اپنے رب سے مغفرت کی (اس طرح) درخواست کروں گا (کہ تم کو ہدایت کرے جس پر مغفرت مرتب ہوتی ہے) بیشک وہ مجھ پر بہت مہربان ہے (اس لئے اسی سے عرض کروں گا جس کا قبول فرمانا یا نہ فرمانا دونوں مختلف اعتبار سے رحمت اور مہربانی ہے) اور (تم اور تمہارے مذہب جب میری حق بات کو بھی مانتے تو تم میں رہنا فضول ہے اس لئے) میں تم لوگوں سے اور جن کی تم خدا کو چھوڑ کر عبادت کر رہے ہو ان سے (بدناً بھی) کنارہ کرتا ہوں (جیسا قلباً پہلے ہی سے برکنار ہوں، یعنی یہاں رہتا بھی نہیں) اور (اطمینان سے علیحدہ ہو کر) اپنے رب کی عبادت کروں گا (کیونکہ یہاں رہ کر اس میں بھی مزاحمت ہوگی) امید (یعنی یقین) ہے کہ اپنے رب کی عبادت کر کے محروم نہ رہوں گا (جیسا بت پرست اپنے باطل معبودوں کی عبادت کر کے محروم رہتے ہیں، غرض اس گفتگو کے بعد ان سے اس طرح علیحدہ ہوئے کہ ملک شام کی طرف ہجرت کر کے چلے گئے) پس ان لوگوں سے اور جن کی وہ لوگ خدا کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے ان سے (اس طرح) علیحدہ ہوگئے (تو) ہم نے ان کو اسحاق (بیٹا) اور یعقوب (پوتا) عطا فرمایا (جو کہ رفاقت کے لئے ان کی بت پرست برادری سے بدرجہا بہتر تھے) اور ہم نے (ان دونوں میں) ہر ایک کو نبی بنایا اور ان سب کو ہم نے (طرح طرح کے کمالات دے کر) اپنی رحمت کا حصہ دیا اور (آئندہ نسلوں میں) ہم نے ان کا نام نیک اور بلند کیا ( کہ سب تنظیم اور ثناء کے ساتھ ذکر کرتے ہیں اور اسحٰق کے قبل اسماعیل ان ہی صفات کے ساتھ عطا ہوچکے تھے)- معارف و مسائل - صدیق کی تعریف :- صِدِّيْقًا نَّبِيًّا، لفظ صدیق بکسر صاد قرآن کا ایک اصطلاحی لفظ ہے اس کے معنے اور تعریف میں علماء کے اقوال مختلف ہیں۔ بعض نے فرمایا کہ جس شخص نے عمر میں کبھی جھوٹ نہ بولا ہو وہ صدیق ہے اور بعض نے فرمایا کہ جو شخص اعتقاد اور قول و عمل ہر چیز میں صادق ہو یعنی جو دل میں اعتقاد ہو ٹھیک وہی زبان پر وہ اور اس کا ہر فعل اور ہر حرکت و سکون اسی اعتقاد اور قول کے تابع ہو۔ روح المعانی اور مظہری وغیرہ میں اسی آخری معنے کو اختیار کیا ہے اور پھر صدیقیت کے درجات متفاوت ہیں۔ اصل صدیق تو نبی و رسول ہی ہوسکتا ہے اور ہر نبی و رسول کے لئے صدیق ہونا وصف لازم ہے مگر اس کا عکس نہیں کہ جو صدیق ہو اس کا نبی ہونا ضروری ہو بلکہ غیر نبی بھی جو اپنے نبی و رسول کے اتباع میں صدق کا یہ مقام حاصل کرلے وہ بھی صدیق کہلائے گا۔ حضرت مریم کو خود قرآن کریم نے امہ صدیقہ کا خطاب دیا ہے حالانکہ جمہور امت کے نزدیک وہ نبی نہیں، اور کوئی عورت نبی نہیں ہو سکتی۔
وَاذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِبْرٰہِيْمَ ٠ۥۭ اِنَّہٗ كَانَ صِدِّيْقًا نَّبِيًّا ٤١- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔
(٤١) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ بیان کیجیے وہ اپنے ایمان کے ساتھ بڑے راست بازی اور اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے۔
آیت ٤١ (وَاذْکُرْ فِی الْْکِتٰبِ اِبْرٰہِیْمَط اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا ۔ ) ” - صِدِّیقًا نَبِیًّا ایک نئی ترکیب ہے ‘ جو قرآن حکیم میں یہاں پہلی مرتبہ آئی ہے۔ یہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اور آیت ٥٦ میں حضرت ادریس (علیہ السلام) کو صِدِّیقاً نَبِیًّا فرمایا گیا ہے ‘ جبکہ آیات ٥١ اور ٥٤ میں بالترتیب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو رَسُولاً نَّبِیًّا کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ گویا یہ دو الگ الگ تراکیب ہیں اور ظاہر ہے کہ ہر ایک کا اپنا الگ مفہوم ہے۔ اگرچہ میرے علم کی حد تک ان الفاظ یا تراکیب کی طرف کسی نے توجہ نہیں کی ‘ بلکہ مجھے اس وقت سخت حیرت ہوئی جب میں نے ایک معروف عالم دین اور مفسر قرآن سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے حیرت سے پوچھا کہ کیا واقعی ایسا ہے ؟ یعنی کیا واقعی قرآن میں دو انبیاء کے بارے میں صِدِّیقًا نَبِیًّا اور دو کے بارے میں رَسُوْلًا نَّبِیًّا کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ؟ وہ خود قرآن کی مکمل تفسیر لکھ چکے تھے مگر اس طرف ان کا دھیان ہی نہیں گیا تھا۔ بہر حال میں چاہتا ہوں کہ یہ نکتہ جس حد تک اللہ تعالیٰ نے مجھ پر منکشف فرمایا ہے اس حد تک میں دوسروں تک پہنچا دوں۔ - ان دو تراکیب کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے تو سورة الفاتحہ کی یہ آیات مدنظر رکھیں جن میں ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں : (اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ) ” اے اللہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا ‘ ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا “۔ اور پھر سورة النساء کی اس آیت پر غور کریں جس میں ان لوگوں کے بارے میں وضاحت کی گئی ہے جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوا ہے : (وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓءِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْنَیْ وَالشُّہَدَآءِ وَالصّٰلِحِیْنَج وَحَسُنَ اُولٰٓءِکَ رَفِیْقًا ) ۔ اس آیت میں ان لوگوں کے چار درجات بیان ہوئے ہیں جو مُنْعَمْ عَلَیْھِمْ کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان میں سب سے اوپر انبیاء کا درجہ ہے ‘ پھر صدیقین کا ‘ پھر شہداء کا اور نیچے پر صالحین ہیں ‘ یعنی نیک دل ‘ مخلص مسلمان جو صادق القول اور صادق الایمان ہیں۔ اگر نیچے سے اوپر کی طرف ارتقاء کے حوالے سے دیکھاجائے تو پر پہلا درجہ مؤمنین صالحین کا ہے۔ اگر کوئی اس درجہ سے ترقی کرے گا تو اس کے لیے درجہ شہادت ہے اور پھر اس سے اوپر درجہ صدیقیت۔ اس لحاظ سے درجہ صدیقیت گویا کسی بھی انسان کے لیے روحانی ترقی کے مدارج میں بلند ترین درجہ ہے ‘ کیونکہ اس کے اوپر نبوت کا درجہ ہے ‘ جو اکتسابی نہیں ‘ سراسر وہبی ہے اور اب وہ دروازہ نوع انسانی کے لیے مستقل طور پر بند ہوچکا ہے۔ ِصدیقینّ اور شہداء کے فرق کو سائیکالوجی کی دو جدید اصطلاحات کے ذریعے اس طرح سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو مختلف مزاج پر پیدا فرمایا ہے۔ مزاج اور رویے کے اعتبار سے جدید سائیکالوجی انسانوں کو بنیادی طور پر دو گروہوں میں تقسیم کرتی ہے۔ جو لوگ مجلس پسند ہوں ‘ تنہائی سے گھبراتے ہوں ‘ ہر وقت سیر سپاٹے کرنے ‘ لوگوں سے ملنے جلنے اور خوش گپیوں میں خوش رہتے ہوں ‘ انہیں بیروں بیں ( ) کہا جاتا ہے۔ ان کے برعکس تنہائی پسند ‘ غور وفکر کرنے والے ‘ اپنے خیالوں میں مگن رہنے اور محفلوں سے حتی المقدور اجتناب کرنے والے لوگ دروں بین ( ) کہلاتے ہیں۔ ان کے علاوہ ایک تیسری کیفیت ان دو رویوں کے خوبصورت توازن سے پیدا ہوتی ہے۔ چناچہ ایسے لوگ جن کی شخصیات میں مذکورہ دونوں رویے توازن کے ساتھ موجود ہوں وہ کہلاتے ہیں ‘ لیکن ایسا شاذو نادر ہی ہوتا ہے کہ ایک شخص میں دونوں رویے توازن کے ساتھ موجود ہوں۔ اس لیے قسم کے لوگ عملاً بہت ہی کم ہوتے ہیں اور عمومی طور پر دنیا میں مزاج کے اعتبار سے مندرجہ بالا دو اقسام کے لوگ ہی پائے جاتے ہیں۔ دروں بین ( ) قسم کے لوگ غور و فکر کی عادت کے باعث فطرت کے حقائق کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ کائنات کے بارے میں سوچ بچار کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی آفاقی آیات ان سے ہم کلام ہوتی ہیں اور اس سلسلے میں اہم حقائق ان پر منکشف ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی فطرت سلیمہ اور عقل سلیم کی راہنمائی میں اللہ کو بھی پہچان لیتے ہیں ‘ آخرت کی ضرورت اور حقیقت کو بھی سمجھ لیتے ہیں اور یہ بھی جان جاتے ہیں کہ بندگی صرف اللہ ہی کی کرنی چاہیے۔ لیکن بندگی کا طریقہ کیا ہو ؟ اس کا انہیں علم نہیں ہوتا۔ اس کے لیے وہ اللہ سے راہنمائی کی التجا کرتے ہیں : (اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ) (الفاتحہ) ۔ یہ لوگ دراصل صدیقین ہوتے ہیں اور ان کی شان یہ ہے کہ جونہی کوئی الہامی دعوت ان تک پہنچتی ہے وہ اسے اس انداز میں لپک کر قبول کرتے ہیں گویا مدت سے اسی کے منتظر بیٹھے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے قبول اسلام کا واقعہ اس حقیقت پر شاہد ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ میں نے جس کے سامنے بھی ایمان کی دعوت پیش کی اس نے کچھ نہ کچھ تو قف ضرور کیا ‘ سوائے ابوبکر (رض) کے۔ یعنی آپ (رض) نے ایک لمحے کے لیے بھی توقف نہیں کیا اور دعوت پر ایسے لبیک کہا جیسے وہ اس کے انتظار میں بیٹھے تھے۔- البتہ بیروں بین ( ) قسم کے لوگ چونکہ خود کو کھیل کود ‘ سیرو شکار ‘ میل ملاقات وغیرہ میں مصروف رکھتے ہیں ‘ اس لیے ان کا طبعی میلان غور و فکر کی طرف نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ کسی الہامی دعوت کو سمجھنے میں ہمیشہ دیر کردیتے ہیں ‘ اور جب وہ کسی ایسے معاملے کی طرف متوجہ بھی ہوتے ہیں تو اکثر جذباتی انداز میں ہوتے ہیں۔ لیکن جب وہ کسی نظریے یا دعوت کو قبول کرلیتے ہیں تو عام طور پر زیادہ متحرک اور فعال ثابت ہوتے ہیں اور یوں مسابقت میں بظاہر سے آگے نکل جاتے ہیں۔ چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو حضرت ابو بکرصدیق (رض) نے جہاں ایک لمحے کے توقف کے بغیر قبول کرلیا وہاں حضرت عمر اور حضرت حمزہ (رض) کو اس طرف متوجہ ہونے میں چھ سال لگ گئے۔ حضرت عمر (رض) تو بنو عدی میں سے تھے اور آپ (رض) کی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بظاہر زیادہ قربت نہیں تھی ‘ مگر حضرت حمزہ (رض) تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سگے چچا اور دودھ شریک تھے۔ وہ بچپن میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کھیلے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہت محبت بھی کرتے تھے ‘ لیکن اس سب کچھ کے باوجود چھ سال تک آپ (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کی طرف کبھی سنجیدگی سے غور ہی نہیں کیا اور جب ایمان لائے تو حادثاتی اور جذباتی انداز میں لائے۔- ایک روز شکار سے واپس آئے تو ابھی گھر میں داخل بھی نہیں ہوئے تھے کہ لونڈی نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ابوجہل کی گستاخی کے بارے میں خبر دی۔ بس یہ سنتے ہی آگ بگولا ہوگئے۔ گھر جانے کے بجائے سیدھے ابوجہل کے پاس پہنچے۔ جاتے ہی اس کے سر پر کمان دے ماری اور اسے للکارا کہ آج سے میں بھی ایمان لے آیا ہوں ‘ تم میرا مقابلہ کرسکتے ہو تو آؤ میدان میں ایسے ہی حضرت عمر (رض) بھی جذباتی انداز میں ایمان لائے۔ گھر سے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (معاذ اللہ ) قتل کرنے کے ارادے سے نکلے۔ جذبات کی رو میں ہی بہن اور بہنوئی سے جا الجھے۔ بہن کی غیر معمولی استقامت دیکھی تو سوچنے پر مجبور ہوئے اور جب سنجیدگی سے غور کیا تو یکدم دل کی دنیا ہی بدل گئی۔ پھر کیا تھا ؟ وہی شمشیر برہنہ جو قتل کے ارادے سے لے کر نکلے تھے ‘ گردن میں لٹکائے غلاموں کی طرح در نبوت پر حاضر ہوئے اور اسلام قبول کرلیا۔ بہر حال اس تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ دروں بین ( ) قسم کے لوگ صدیقین اور بیروں بین ( ) مزاج کے افراد شہداء ہوتے ہیں۔ - انسانی مزاج کا یہ فرق انبیاء کی شخصیات میں بھی پایا جاتا ہے۔ کچھ انبیاء کا مزاج صدیقین سے مناسبت رکھتا ہے اور کچھ کا شہداء سے۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بارے میں روایات ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شکار کے بہت شوقین تھے اور اسی شوق میں کئی کئی دن گھر سے باہر رہتے تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دو مرتبہ آپ ( علیہ السلام) سے ملنے کے لیے گئے ‘ مگر آپ ( علیہ السلام) کے گھر سے باہر ہونے کی وجہ سے دونوں مرتبہ باپ بیٹے کی ملاقات نہ ہوسکی۔ اسی طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا مزاج بھی جلالی تھا۔ آپ ( علیہ السلام) نے مصر میں ایک آدمی کو مکاّ رسید کیا تو اس کی جان ہی نکل گئی۔ انسانی مزاج کی اس تشریح کے اعتبار سے میرا خیال ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت ادریس (علیہ السلام) کی شخصیات صدیقیت کے ساتھ مناسبت رکھتی تھیں ‘ اس لیے وہ صدیق نبی قرار پائے ‘ جبکہ حضرت اسماعیل اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شخصیات شہداء جیسی تھیں ‘ چناچہ وہ رسول نبی کہلائے۔ اس سلسلے میں یہ نکتہ بھی مد نظر رہنا چاہیے کہ رسالت اور شہادت کے الفاظ کی آپس میں خصوصی مناسبت ہے۔ ہر رسول کو اپنی قوم کی طرف شاہد بنا کر بھیجا گیا۔ کار رسالت یعنی دعوت و تبلیغ اور اتمام حجت میں عمل کا پہلو غالب ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں بھی سورة الاحزاب میں فرمایا گیا : (یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا ) ” اے نبی بلاشبہ ہم نے آپ کو بھیجا ہے گواہی دینے والا اور خوشخبری سنانے والا اور خبردار کرنے والا “۔ اسی طرح سورة النساء میں بھی ہم پڑھ چکے ہیں : (فَکَیْفَ اِذَا جِءْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍم بِشَہِیْدٍ وَّجِءْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَآءِ شَہِیْدًا ۔ ) ” پھر کیا حال ہوگا جب ہم لائیں گے ہر امت میں سے ایک گواہ اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ کو ہم لائیں گے ان پر گواہ “۔ اس ساری وضاحت کاُ لبّ لباب یہ ہے کہ مذکورہ آیات میں شہداء کا مزاج رکھنے والے انبیاء کو رَسُولاً نَّبِیًّا اور صدیقیت کے مزاج کے حامل انبیاء کو صِدِّیقاً نَبِیًّا کے لقب سے یاد فرمایا گیا ہے۔ سورة الحدید کے مطالعے کے دوران اس کی آیت ١٩ : (اُولٰٓءِکَ ہُمُ الصِّدِّیْقُوْنَق وَالشُّہَدَآءُ عِنْدَ رَبِّہِمْ ط) کے حوالے سے اس موضوع پر ان شاء اللہ مزید گفتگو ہوگی۔
سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :26 یہاں سے خطاب کا رخ اہل مکہ کی طرف پھر رہا ہے جنہوں نے اپنے نوجوان بیٹوں ، بھائیوں ، اور دوسرے رشتہ داروں کو اسی طرح خدا پرستی کے جرم میں گھر چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا جس طرح حضرت ابراہیم کو ان کے باپ اور بھائی بندوں دیس سے نکال دیا تھا ۔ اس غرض کے لیئے دوسرے انبیاء کو چھوڑ کر خاص طور پر ابراہیم کے قصے کا انتخاب اس لیئے کیا گیا کہ قریش کے لوگ ان کو اپنا پیشوا مانتے تھے اور انہی کی اولاد ہونے پر عرب میں اپنا فخر جتایا کرتے تھے ۔