[٣٩] سیدنا ابراہیم کا اپنے باپ کو بت پرستی کی قباحتیں سمجھانا :۔ مروجہ شرک کی دو بڑی اقسام ہیں ایک بت پرستی دوسرے پیر پرستی۔ پیر خواہ زندہ ہو یا فوت شدہ۔ زندہ پیر کم از کم دیکھ تو سکتا ہے اور سن بھی سکتا ہے اور مادی وسائل کے ذریعہ مدد بھی کرسکتا ہے۔ مگر سیدنا ابراہیم کی قوم تو بت پرست تھی۔ جو نہ سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں۔ نہ حرکت کرسکتے ہیں بلکہ وہ اپنے وجود تک کے لئے انسانوں کے محتاج ہیں۔ پھر وہ دوسروں کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کیا خاک کرسکتے ہیں ؟
يٰٓاَبَتِ ’ کے معنی کے لیے دیکھیے سورة یوسف (٤) ۔- اِذْ قَالَ لِاَبِيْهِ يٰٓاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ ۔۔ : اس سے معلوم ہوا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کا والد بت پرست تھا۔ مزید دیکھیے سورة انعام (٧٤) ابراہیم (علیہ السلام) نے اسے نہایت ادب، نرمی، حسن اخلاق اور بہترین دلائل کے ساتھ بت پرستی ترک کرنے کی نصیحت کی کہ کہیں وہ بڑے پن اور ضد میں آکر حق سے انکار نہ کر دے۔ چناچہ سب سے پہلے انھوں نے اس سے ان بتوں کو پوجنے کی وجہ پوچھی کہ جن کی کسی عقل مند کے نزدیک کوئی وقعت ہی نہیں، خواہ وہ عالم ہو یا جاہل، کجا یہ کہ ان کی عبادت کی جائے، جو تعظیم، محبت اور عاجزی کا انتہائی مرتبہ ہے۔ کیونکہ عبادت تو اس کی ہونی چاہیے جو ہر طرح سے دوسروں سے غنی ہو، کسی کا محتاج نہ ہو، سب نعمتوں کا مالک ہو، سب کو پیدا کرنے والا، رزق دینے والا ہو، زندگی، موت، ثواب اور عذاب کا مالک ہو۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے اسے توجہ دلائی کہ صاحب عقل کو لازم ہے کہ جو بھی کرے کسی صحیح مقصد کے لیے کرے۔ کوئی بھی چیز یا شخص جو زندہ ہو، صاحب عقل ہو، سنتا دیکھتا ہو، کوئی فائدہ یا نقصان بھی پہنچا سکتا ہو مگر عدم سے وجود میں آیا ہو اور اس کا اختیار کسی اور کا عطا کردہ ہو تو عقل سلیم اس کی عبادت میں عار محسوس کرے گی، خواہ وہ کتنی اونچی مخلوق مثلاً انسان ہو یا فرشتہ، کیونکہ وہ خود اپنی ضروریات کے لیے اس ہستی کا محتاج ہے جو نہ اپنے وجود میں کسی کی محتاج ہے اور نہ اپنی بقا میں۔ پھر پتھر، لکڑی یا دھات کے بنے ہوئے بت یا مٹی اور اینٹوں سے بنی ہوئی قبریں کہ جن میں زندہ لوگوں والی کوئی خوبی ہے ہی نہیں، جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں، نہ کسی کے کام آسکیں، ان کی عبادت کیوں ؟
اپنے بڑوں کو نصیحت کرنے کا طریقہ اور اس کے آداب :- يٰٓاَبَتِ عربی لغت کے اعتبار سے یہ لفظ باپ کی تعظیم و محبت کا خطاب ہے۔ حضرت خلیل اللہ علیہ الصلوٰة والسلام کو حق تعالیٰ نے جو مقام جامعیت اوصاف و کمالات کا عطا فرمایا تھا، ان کی یہ تقریر جو اپنے والد کے سامنے ہو رہی ہے اعتدال مزاج اور رعایت اضداد کی ایک بےنظیر تقریر ہے کہ ایک طرف باپ کو شرک و کفر اور کھلی گمراہی میں نہ صرف مبتلا بلکہ اس کا داعی دیکھ رہے ہیں جس کے مٹانے ہی کے لئے خلیل اللہ پیدا کئے گئے ہیں، دوسری طرف باپ کا ادب اور عظمت و محبت ہے ان دونوں ضدوں کو حضرت خلیل اللہ نے کس طرح جمع فرمایا اول تو يٰٓاَبَتِ کا لفظ جو باپ کی مہربانی اور محبت کا داعی ہے ہر جملہ کے شروع میں اس لفظ سے خطاب کیا پھر کسی جملہ میں باپ کی طرف کوئی لفظ ایسا منسوب نہیں جس سے اس کی توہین یا دل آزاری ہو کہ اس کو گمراہ یا کافر کہتے بلکہ حکمت پیغمبرانہ کے ساتھ صرف ان کے بتوں کی بےبسی اور بےحسی کا اظہار فرمایا کہ ان کو خود اپنی غلط روش کی طرف توجہ ہوجائے۔ دوسرے جملہ میں اپنی اس نعمت کا اظہار فرمایا جو اللہ تعالیٰ نے ان کو علوم نبوت کی عطا فرمائی تھی تیسرے اور چوتھے جملے میں اس انجام بد سے ڈرایا جو اس شرک و کفر کے نتیجہ میں آنے والا تھا۔ اس پر بھی باپ نے بجائے کسی غور و فکر یا یہ کہ ان کی فرزندانہ گزارش پر کچھ نرمی کا پہلو اختیار کرتے پورے تشدد کے ساتھ خطاب کیا، انہوں نے تو خطاب يٰٓاَبَتِ کے پیارے لفظ سے کیا تھا جس کا جواب عرف میں یا بنی کے لفظ سے ہونا چاہئے تھا مگر آزر نے ان کا نام لے کر یا ابراہیم سے خطاب کیا اور ان کو سنگسار کرکے قتل کرنے کی دھمکی اور گھر سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔ اس کا جواب حضرت خلیل اللہ کی طرف سے کیا ملتا ہے وہ سننے اور یاد رکھنے کے قابل ہے فرمایا :
اِذْ قَالَ لِاَبِيْہِ يٰٓاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِيْ عَنْكَ شَـيْــــــًٔــا ٤٢- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- أب - الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب 6]- ( اب و ) الاب - ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔- عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ - بصر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔- وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ - غنی( فایدة)- أَغْنَانِي كذا، وأغْنَى عنه كذا : إذا کفاه . قال تعالی: ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة 28] ، ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد 2] ، لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران 10] ، - ( غ ن ی ) الغنیٰ- اور اغنانی کذا اور اغنی کذا عنہ کذا کسی چیز کا کا فی ہونا اور فائدہ بخشنا ۔ قر آں میں ہے : ما أَغْنى عَنِّي مالِيَهْ [ الحاقة 28] میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا ما أَغْنى عَنْهُ مالُهُ [ المسد 2] تو اس کا مال ہی اس کے کچھ کام آیا ۔۔۔۔ لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئاً [ آل عمران 10] نہ تو ان کا مال ہی خدا کے عذاب سے انہیں بچا سکے گا اور نہ ان کی اولاد ہی کچھ کام آئیگی
(٤٢) جب کہ انہوں نے اپنے باپ آزر سے کہا کہ اے میرے باپ تم اللہ تعالیٰ کے علاوہ ایسی چیزوں کی کیوں عبادت کرتے ہو جو نہ تمہاری پکار کو سنتے ہیں اور نہ تمہاری عبادت کو دیکھتے ہیں اور نہ عذاب الہی کے مقابلہ میں تمہاری کچھ مدد کرسکتے ہیں۔
آیت ٤٢ (اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ یٰٓاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَلَا یُبْصِرُ وَلَا یُغْنِیْ عَنْکَ شَیْءًا ) ” - اِن آیات کے حوالے سے یہ نکتہ لائق توجہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے والد کو مخاطب کرنے کا انداز انتہائی مؤدبانہ ہے : یٰٓاَبَتِ ‘ یٰٓاَ بَتِ (اے میرے ابا جان اے میرے ابا جان ) ۔ ایک داعی اور مبلغ کے لیے یہ گویا ایک مثال ہے کہ اگر اسے دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں اپنے سے کسی بڑے یا کسی بزرگ کو مخاطب کرنا ہو تو اس کا طرز تخاطب کیسا ہونا چاہیے۔ اس لحاظ سے یہ قرآن مجید کا بہترین مقام ہے۔
20: حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا باپ آزر نہ صرف بت پرست تھا، بلکہ خود بت تراشی کیا کرتا تھا۔