Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٦] یعنی اس دن نہ کسی کا ملک باقی رہے گا نہ ملک باقی رہے گی۔ ہر چیز براہ راست مالک حقیقی کی طرف لوٹ جائے گی۔ وہی علی الاطلاق ہر چیز کا مالک و مختار ہوگا۔ اور وہی ہر چیز کا وارث ہوگا۔ ملک وملک کے لمبے چوڑے دعویٰ رکھنے والے وہاں خالی ہاتھ اللہ کے سامنے پیش ہوں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْاَرْضَ ۔۔ : اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت کا اظہار کرتے ہوئے اپنا ذکر تین دفعہ جمع متکلم کی ضمیر سے کیا ہے۔ دنیا کے بادشاہ بھی حکم دیتے وقت یا اپنی شان و شوکت کے اظہار کے وقت کہا کرتے ہیں کہ ” ہم حکم دیتے ہیں “ ” ہم یہ کریں گے “ وغیرہ، حالانکہ وہ اکیلے حکم دے رہے ہوتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ جس کی عظمت کی کوئی حد نہیں، اکیلا ہونے کے باوجود اپنی عظمت کے اظہار کے لیے کیوں نہ فرمائے گا کہ بیشک ہم، ہم ہی زمین کے وارث ہوں گے۔ اردو ترجمے میں ” ہی “ کا لفظ تیسرے ” ہم “ کی جگہ لگایا گیا ہے، جو لفظ ” نَرِثُ “ میں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ سب فنا ہوجائیں گے اور ہمارے سوا ان کا وارث (پیچھے رہنے والا) کوئی نہ ہوگا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْاَرْضَ وَمَنْ عَلَيْہَا وَاِلَيْنَا يُرْجَعُوْنَ۝ ٤٠ۧ- ورث - الوِرَاثَةُ والإِرْثُ : انتقال قنية إليك عن غيرک من غير عقد، ولا ما يجري مجری العقد، وسمّي بذلک المنتقل عن الميّت فيقال للقنيةِ المَوْرُوثَةِ : مِيرَاثٌ وإِرْثٌ. وتُرَاثٌ أصله وُرَاثٌ ، فقلبت الواو ألفا وتاء، قال تعالی: وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر 19] وقال عليه الصلاة والسلام : «اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» «2» أي :- أصله وبقيّته، قال الشاعر :- 461-- فينظر في صحف کالرّيا ... ط فيهنّ إِرْثٌ کتاب محيّ- «3» ويقال : وَرِثْتُ مالًا عن زيد، ووَرِثْتُ زيداً :- قال تعالی: وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل 16] ، وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء 11] ، وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة 233] ويقال : أَوْرَثَنِي الميّتُ كذا، وقال : وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً- [ النساء 12] وأَوْرَثَنِي اللهُ كذا، قال : وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 59] ، وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان 28] ، وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب 27] ، وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ- الآية [ الأعراف 137] ، وقال : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً- [ النساء 19] ويقال لكلّ من حصل له شيء من غير تعب : قد وَرِثَ كذا، ويقال لمن خُوِّلَ شيئا مهنّئا : أُورِثَ ، قال تعالی: وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف 72] ، أُولئِكَ هُمُ الْوارِثُونَ الَّذِينَ يَرِثُونَ [ المؤمنون 10- 11] وقوله : وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ- [ مریم 6] فإنه يعني وِرَاثَةَ النّبوّةِ والعلمِ ، والفضیلةِ دون المال، فالمال لا قدر له عند الأنبیاء حتی يتنافسوا فيه، بل قلّما يقتنون المال ويملکونه، ألا تری أنه قال عليه الصلاة- ( ور ث ) الوارثۃ - ولا رث کے معنی عقد شرعی یا جو عقد کے قائم مقام ہے اوکے بغیر کسی چیز کے ایک عقد کے قائم مقام ہے کے بغیر کسی چیز کے ایک شخص کی ملکیت سے نکل کر دسرے کی ملکیت میں چلے جانا کئے ہیں اسی سے میت کی جانب سے جو مال ورثاء کی طرف منتقل ہوتا ہے اسے اذث تراث اور کیراث کہا جاتا ہے اور تراث اصل میں وراث ہے واؤ مضموم کے شروع میں آنے کی وجہ سے اسے تا سے تبدیل کرلو اسے چناچہ قرآن میں سے ۔ وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر 19] اور حج کے موقعہ پر آنحضرت نے فرمایا : ۔ کہ اپنے مشاعر ( مواضع نسکہ ) پر ٹھہرے رہو تم اپنے باپ ( ابراہیم کے ورثہ پر ہو ۔ تو یہاں ارث کے معنی اصل اور بقیہ نشان کے ہیں ۔۔ شاعر نے کہا ہے ( 446 ) فینظر فی صحف کالریا فیھن ارث کتاب محی وہ صحیفوں میں تالت باندھنے والے کی طرح غور کرتا ہے جن میں کہ مٹی ہوئی کتابت کا بقیہ ہے ۔ اور محاورہ میں ورث مالا عن زید وو رثت زیدا ( میں زید کا وارث بنا دونوں طرح بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل 16] اور سلیمان داؤد کے قائم مقام ہوئے ۔ وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء 11] اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں ۔- وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة 233] اور اسی طرح نان ونفقہ بچے کے وارث کے ذمہ ہے - يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً [ النساء 19] مومنوں تم کو جائز نہیں ہے کہ زبر دستی عورتوں کے وارث بن جاؤ ۔ اور اوثنی المیت کذا کے معنی ہیں میت نے مجھے اتنے مال کا وارث بنایا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً [ النساء 12] اور اگر ایسے مرد یا عورت کی میراث ہو جس کے نہ باپ ہو نہ بیٹا ۔ اور اور ثنی اللہ کذا کے معنی کسی چیز کا وارث بنا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 59] اور بنی اسرائیل کو کتاب کا وارث بنایا ۔ وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان 28] اور ان کی زمین کا تم کو وارث بنایا : ۔ وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب 27] اور جو لوگ ( کمزور سمجھے جاتے تھے ان کو وارث کردیا ۔ وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الآية [ الأعراف 137] ہر وہ چیز جو بلا محنت ومشقت حاصل ہوجائے اس کے متعلق ورث کذا کہتے ہیں اور جب کسی کو خوشگوار چیز بطور دی جانے تو اورث کہا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔- وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف 72] اور یہ جنت جس کے تم مالک کردیئے گئے ہو - رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٠) اور ہم تمام زمین اور اہل زمین کے مالک ہیں یعنی آخر ایک دن سب مریں گے اور سب کے ہم ہی وارث ہیں، ہم مارتے اور زندہ کرتے ہیں اور قیامت کے دن یہ سب ہمارے ہی پاس لوٹائے جائیں گے، پھر م ان کو ان کے اعمال کی جزا دیں گے یعنی نیکی کے بدلے نیکی اور برائی کے بدلے برائی پائیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٠ (اِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْاَرْضَ وَمَنْ عَلَیْہَا) - اس دن روئے زمین کی حکمرانی اور دنیوی مال و متاع کی ملکیت کے عارضی دعویدار سب کے سب ختم ہوجائیں گے اور اس سب کچھ کی وراثت ظاہری طور پر بھی ہمیں منتقل ہوجائے گی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :25 یہاں وہ تقریر ختم ہوتی ہے جو عیسائیوں کو سنانے کے لیئے نازل فرمائی گئی تھی ۔ اس تقریر کی عظمت کا صحیح اندازہ اسی وقت ہو سکتا ہے جبکہ آدمی اس کو پڑھتے وقت وہ تاریخی پس منظر نگاہ میں رکھے جو ہم نے اس سورے کے درمیان میں کیا ہے ۔ یہ تقریر اس موقع پر نازل ہوئی تھی جبکہ مکے کے مظلوم مسلمان ایک عیسائی سلطنت میں پناہ لینے کے لیئے جار ہے تھے ، اور اس غرض کے لیئے نازل کی گئی تھی کہ جب وہاں مسیح کے متعلق اسلامی عقائد کا سوال چھڑے تو یہ سرکاری بیان عیسائیوں کو سنا دیا جائے ۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت اس امر کا ہو سکتا ہے کہ اسلام نے مسلمانوں کو کسی حال میں بھی حق و صداقت کے معاملے میں مداہنت برتنا نہیں سکھایا ہے ۔ پھر وہ سچے مسلمان جو حبش کی طرف ہجرت کر کے گئے تھے ، ان کی قوت ایمانی بھی حیرت انگیز ہے کہ انہوں نے عین دربار شاہی میں ایسے نازک موقع پر اٹھ کر یہ تقریر سنا دی جبکہ نجاشی کے تمام اہل دربار رشوت کھا کر انہیں ان کے دشمنوں کے سپرد کردینے پر تل گئے تھے ۔ اس وقت اس امر کا پورا خطرہ تھا ۔ کہ مسیحیت کے بنیادی عقائد پر اسلام کا یہ بے لاگ تبصرہ سن کر نجاشی بھی بگڑ جائے گا اور ان مظلوم مسلمانوں کو قریش کے قصائیوں کے حوالے کر دے گا ۔ مگر اس کے باوجود انہوں نے کلمہ حق پیش میں ذرہ برابر تامل نہ کیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani