Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

39۔ 1 روز قیامت کو یوم حسرت کہا، اس لئے کہ اس روز سب ہی حسرت کریں گے۔ بدکار حسرت کریں گے کہ کاش انہوں نے برائیاں نہ کی ہوتیں اور نیکوکار اس بات پر حسرت کریں گے کہ انہوں نے اور زیادہ نیکیاں کیوں نہیں کمائیں ؟ 39۔ 2 یعنی حساب کتاب کر کے صحیفے لپیٹ دیئے جائیں گے اور جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے۔ حدیث میں آتا ہے کہ اس کے بعد موت کو ایک مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا اور جنت اور دوزخ کے درمیان کھڑا کردیا جائے گا، جنتیوں اور دوزخیوں دونوں سے پوچھا جائے گا، اسے پہچانتے ہو، یہ کیا ہے ؟ وہ کہیں گے، ہاں یہ موت ہے پھر ان کے سامنے اسے ذبح کردیا جائے گا اور اعلان کردیا جائے گا کہ اہل جنت تمہارے لئے جنت کی زندگی ہمیشہ کے لئے ہے، اب موت نہیں آئے گی۔ دوزخیوں سے کہا جائے گا۔ اے دوزخیو تمہارے لئے دوزخ کا عذاب دائمی ہے۔ اب موت نہیں آئے گی (صحیح بخاری)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٥] یوم حسرت۔ موت کو مینڈھے کی شکل میں ذبح کرنا ہے :۔ کافروں کے پچھتانے کے مواقع تو بہت ہوں گے۔ مگر آخری موقع غالبا ً وہ ہوگا جب اہل جنت کو جنت جانے کا اور اہل دوزخ کو دوزخ میں جانے کا فیصلہ سنا دیا جائے گا جیسا کہ درج ذیل حدیث میں آیا ہے :- سیدنا ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : (قیامت کے دن) موت کو ایک چتکبرے مینڈھے کی شکل میں لے کر آئیں گے۔ پھر ایک پکارنے والا پکارے گا : اے اہل جنت وہ ادھر دیکھیں گے تو فرشتہ کہے گا : تم اس مینڈھے کو پہچانتے ہو ؟ وہ کہیں گے ہاں ۔ یہ موت ہے اور ہم سب اس کا مزہ چکھ چکے ہیں پھر وہ پکارے گا، دوزخ والو وہ لوگ بھی گردن اٹھا کر ادھر دیکھنے لگیں گے تو فرشتہ کہے گا : تم اس مینڈھے کو پہچانتے ہو ؟ وہ کہیں گے : ہاں یہ موت ہے، ہم سب اس کو دیکھ چکے ہیں ۔ اس وقت وہ مینڈھا ذبح کردیا جائے گا۔ اس کے بعد وہ فرشتہ کہے گا : جنت والو تمہیں ہمیشہ بہشت میں رہنا ہے اور دوزخ والو تمہیں بھی ہمیشہ دوزخ میں رہنا ہے۔ اب کسی کو موت نہیں آئے گی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی ( وَاَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ اِذْ قُضِيَ الْاَمْرُ ۘ وَهُمْ فِيْ غَفْلَةٍ وَّهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ 39 ۔ ) 19 ۔ مریم :39) (بخاری۔ کتاب التفسیر، ترمذی، ابو اب التفسیر)- اس دن کافر سب کچھ خوب دیکھ رہے ہوں گے اور سن بھی رہے ہوں گے مگر ہر طرف سے ناامید ہو کر حسرت سے اپنے ہاتھ کاٹیں گے۔ مگر اس وقت کچھ فائدہ نہ ہوگا

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ ۔۔ : مراد قیامت کا دن ہے جس میں حسرت اور پچھتاوے کے سوا کوئی چارۂ کار نہ ہوگا۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورة زمر (٥٦) ، انعام (٣١) اور بقرہ (١٦٧) ۔- اِذْ قُضِيَ الْاَمْرُ ۘ وَهُمْ فِيْ غَفْلَةٍ ۔۔ : ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( یُؤْتٰی بالْمَوْتِ کَھَیْءَۃِ کَبْشٍ أَمْلَحَ فَیُنَادِيْ مُنَادٍ یَا أَھْلَ الْجَنَّۃِ فَیَشْرَءِبُّوْنََ وَ یَنْظُرُوْنَ فَیَقُوْلُ ھَلْ تَعْرِفُوْنَ ھٰذَا ؟ فَیَقُوْلُوْنَ نَعَمْ ھٰذَا الْمَوْتُ وَکُلُّھُمْ قَدْ رَاٰہُ ثُمَّ یُنَادِیْ یَا أَہْلَ النَّارِ فَیَشْرَءِبُّوْنَ وَ یَنْظُرُوْنَ فَیَقُوْلُ ہَلْ تَعْرِفُوْنَ ہٰذَا ؟ فَیَقُوْلُوْنَ نَعَمْ ، ہٰذَا الْمَوْتُ وَ کُلُّہُمْ قَدْ رَاٰہُ فَیُذْبَحُ ثُمَّ یَقُوْلُ یَا أَہْلَ الْجَنَّۃِ خُلُوْدٌ فَلَا مَوْتَ وَ یَا أَھْلَ النَّارِ خُلُوْدٌ فَلاَ مَوْتَ ، ثُمَّ قَرَأَ : (وَاَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ اِذْ قُضِيَ الْاَمْرُ وَهُمْ فِيْ غَفْلَةٍ ) وَھٰؤُلَاءِ فِيْ غَفْلَۃٍ أَھْلُ الدُّنْیَا (وَّهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ ) [ بخاري، التفسیر، باب قولہ عز وجل : ( و أنذرھم یوم الحسرۃ ): ٤٧٣٠ ] ” موت کو ایک چتکبرے مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا، پھر ایک آواز دینے والا آواز دے گا : ” اے جنت والو “ تو وہ سر اٹھائیں گے اور دیکھیں گے۔ وہ کہے گا : ” کیا تم اسے پہچانتے ہو ؟ “ وہ کہیں گے : ” ہاں یہ موت ہے “ اور وہ سب اسے دیکھ چکے ہوں گے، پھر وہ آواز دے گا : ” اے آگ والو “ تو وہ سر اٹھائیں گے اور دیکھیں گے، وہ کہے گا : ” کیا تم اسے پہچانتے ہو ؟ “ وہ کہیں گے : ” ہاں یہ موت ہے “ اور وہ سب اسے دیکھ چکے ہوں گے تو اسے ذبح کردیا جائے گا۔ پھر وہ کہے گا : ” اے جنت والو (اب) ہمیشگی ہے، کوئی موت نہیں اور اے آگ والو (اب) ہمیشگی ہے، کوئی موت نہیں۔ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی : (وَاَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ اِذْ قُضِيَ الْاَمْرُ ۘ وَهُمْ فِيْ غَفْلَةٍ ) (اور انھیں پچھتاوے کے دن سے ڈرا جب فیصلہ کردیا جائے گا اور وہ سراسر غفلت میں ہیں) یعنی وہ سراسر دنیا کی غفلت میں ہیں اور ایمان نہیں لاتے۔ “ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا موت کے ذبح کے ذکر کے بعد اس آیت کو پڑھنا دلیل ہے کہ ” قُضِيَ الْاَمْرُ “ (فیصلہ کردیے جانے) سے مراد موت کا ذبح کردیا جانا ہے۔ مسند احمد (٣؍٩، ح : ١١٠٧٢) میں اسی حدیث کے شروع میں ہے کہ جب (تمام) جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

يَوْمَ الْحَسْرَةِ اس روز کو یوم الحسرت اس لئے کہا گیا ہے کہ اہل جہنم کو تو یہ حسرت ہونا ظاہر ہے کہ اگر وہ مومن صالح ہوتے تو ان کو جنت ملتی اب جہنم کے عذاب میں گرفتار ہیں۔ ایک خاص قسم کی حسرت اہل جنت کو بھی ہوگی جیسا کہ طبرانی اور ابو یعلی نے بروایت حضرت معاذ یہ حدیث روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اہل جنت کو کسی چیز پر حسرت نہ ہوگی بجز ان لمحات وقت کے جو بغیر ذکر اللہ کے گزر گئے۔ اور بغوی بروایت ابوہریرہ نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہر مرنے والے کو حسرت و ندامت سے سابقہ پڑے گا۔ صحابہ کرام نے سوال کیا کہ یہ ندامت و حسرت کس بناء پر ہوگی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ نیک اعمال کرنے والے کو اس پر حسرت ہوگی کہ اور زیادہ نیک اعمال کیوں نہ کر لئے کہ اور زیادہ درجات جنت ملتے اور بدکار آدمی کو اس پر حسرت ہوگی کہ وہ اپنی بدکاری سے باز کیوں نہ آگیا۔ (مظہری)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاَنْذِرْہُمْ يَوْمَ الْحَسْرَۃِ اِذْ قُضِيَ الْاَمْرُ۝ ٠ۘ وَہُمْ فِيْ غَفْلَۃٍ وَّہُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ۝ ٣٩- نذر - وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14]- والنَّذِيرُ :- المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذر - الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔- النذ یر - کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔- حسر - الحسر : كشف الملبس عمّا عليه، يقال :- حسرت عن الذراع، والحاسر : من لا درع عليه ولا مغفر، والمِحْسَرَة : المکنسة، وفلان کريم المَحْسَر، كناية عن المختبر، وناقة حَسِير : انحسر عنها اللحم والقوّة، ونوق حَسْرَى، والحاسر : المُعْيَا لانکشاف قواه، ويقال للمعیا حاسر ومحسور، أمّا الحاسر فتصوّرا أنّه قد حسر بنفسه قواه، وأما المحسور فتصوّرا أنّ التعب قد حسره، وقوله عزّ وجل : يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خاسِئاً وَهُوَ حَسِيرٌ [ الملک 4] ، يصحّ أن يكون بمعنی حاسر، وأن يكون بمعنی محسور، قال تعالی: فَتَقْعُدَ مَلُوماً مَحْسُوراً [ الإسراء 29] . والحَسْرةُ : الغمّ علی ما فاته والندم عليه، كأنه انحسر عنه الجهل الذي حمله علی ما ارتکبه، أو انحسر قواه من فرط غمّ ، أو أدركه إعياء من تدارک ما فرط منه، قال تعالی: لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ آل عمران 156] ، وَإِنَّهُ لَحَسْرَةٌ عَلَى الْكافِرِينَ [ الحاقة 50] ، وقال تعالی: يا حَسْرَتى عَلى ما فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ [ الزمر 56] ، وقال تعالی: كَذلِكَ يُرِيهِمُ اللَّهُ أَعْمالَهُمْ حَسَراتٍ عَلَيْهِمْ [ البقرة 167] ، وقوله تعالی: يا حَسْرَةً عَلَى الْعِبادِ [يس 30] ، وقوله تعالی: في وصف الملائكة : لا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبادَتِهِ وَلا يَسْتَحْسِرُونَ [ الأنبیاء 19] ، وذلک أبلغ من قولک : ( لا يحسرون) .- ( ح س ر ) الحسر - ( ن ض ) کے معنی کسی چیز کو ننگا کرنے اور حسرت عن الذارع میں نے آستین چڑھائی الحاسر بغیر زرہ مابغیر خود کے ۔ المحسرۃ فلان کریم الحسر کنایہ یعنی ناقۃ حسیر تھکی ہوئی اور کمزور اونٹنی جسکا گوشت اور قوت زائل ہوگئی ہو اس کی جمع حسریٰ ہے الحاسر ۔ تھکا ہوا ۔ کیونکہ اس کے قویٰ ظاہر ہوجاتے ہیں عاجز اور درماندہ کو حاسربھی کہتے ہیں اور محسورۃ بھی حاسرۃ تو اس تصور کے پیش نظر کہ اس نے خود اپنے قوٰی کو ننگا کردیا اور محسور اس تصور پر کہ درماندگی نے اس کے قویٰ کو ننگا دیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خاسِئاً وَهُوَ حَسِيرٌ [ الملک 4] تو نظر ( ہر بار ) تیرے پاس ناکام اور تھک کر لوٹ آئے گی ۔ میں حسیر بمعنی حاسرۃ بھی ہوسکتا ہے اور کہ ملامت زدہ اور درماندہ ہوکر بیٹھ جاؤ ۔ الحسرۃ ۔ غم ۔ جو چیز ہاتھ سے نکل جائے اس پر پشیمان اور نادم ہونا گویا وہ جہالت اور غفلت جو اس کے ارتکاب کی باعث تھی وہ اس سے دیر ہوگئی یا فرط غم سے اس کے قوی ننگے ہوگئے یا اس کوتاہی کے تدارک سے اسے درماند گی نے پالیا قرآن میں ہے : ۔ لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ آل عمران 156] ان باتوں سے مقصود یہ ہے کہ خدا ان لوگوں کے دلوں میں افسوس پیدا کردے ۔ وَإِنَّهُ لَحَسْرَةٌ عَلَى الْكافِرِينَ [ الحاقة 50] نیز یہ کافروں کے لئے ( موجب ) حسرت ہے ۔ يا حَسْرَتى عَلى ما فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ [ الزمر 56] اس تقصیر پر افسوس ہے جو میں نے خدا کے حق میں کی ۔ كَذلِكَ يُرِيهِمُ اللَّهُ أَعْمالَهُمْ حَسَراتٍ عَلَيْهِمْ [ البقرة 167] اسی طرح خدا ان کے اعمال انہیں حسرت بنا کر دکھائے گا ۔ يا حَسْرَةً عَلَى الْعِبادِ [يس 30] بندوں پر افسوس ہے اور فرشتوں کے متعلق فرمایا : ۔ لا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبادَتِهِ وَلا يَسْتَحْسِرُونَ [ الأنبیاء 19] وہ اس کی عبادت سے نہ کنیا تے ہیں اور نہ در ماندہ ہوتے ہیں ۔ اس میں سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے ۔- قضی - الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی:- وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] أي : أمر بذلک،- ( ق ض ی ) القضاء - کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - غفل - الغَفْلَةُ : سهو يعتري الإنسان من قلّة التّحفّظ والتّيقّظ، قال تعالی: لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] - ( غ ف ل ) الغفلتہ - ۔ اس سہو کو کہتے ہیں جو قلت تحفظ اور احتیاط کی بنا پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] بیشک تو اس سے غافل ہو رہا تھا - أمن - والإِيمان - يستعمل تارة اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ويقال لكلّ واحد من الاعتقاد والقول الصدق والعمل الصالح : إيمان . قال تعالی: وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمانَكُمْ [ البقرة 143] أي : صلاتکم، وجعل الحیاء وإماطة الأذى من الإيمان - قال تعالی: وَما أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنا وَلَوْ كُنَّا صادِقِينَ [يوسف 17] قيل : معناه : بمصدق لنا، إلا أنّ الإيمان هو التصدیق الذي معه أمن، وقوله تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيباً مِنَ الْكِتابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ [ النساء 51] فذلک مذکور علی سبیل الذم لهم،- ( ا م ن ) الامن - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلما ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست (2 ۔ 62) میں امنوا کے یہی معنی ہیں اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید ہوۃ کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ اور کبھی ایمان کا لفظ بطور مدح استعمال ہوتا ہے اور اس سے حق کی تصدیق کرکے اس کا فرمانبردار ہوجانا مراد ہوتا ہے اور یہ چیز تصدیق بالقلب اقرار باللسان اور عمل بالجوارح سے حاصل ہوتی ہے اس لئے فرمایا ؛۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ ( سورة الحدید 19) اور جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبر پر ایمان لائے ہیں روہی صدیق میں یہی وجہ ہے کہ اعتقاد قول صدق اور عمل صالح میں سے ہر ایک کو ایمان کہا گیا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ وَمَا كَانَ اللهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ( سورة البقرة 143) ۔ اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یوں ہی کھودے (2 ۔ 143) میں ایمان سے مراد نماز ہے اور (16) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیا اور راستہ سے تکلیف کے دور کرنے کو جزو ایمان قرار دیا ہے اور حدیث جبرائیل میں آنحضرت نے چھ باتوں کو کو اصل ایمان کہا ہے اور آیت کریمہ ؛۔ وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ ( سورة يوسف 17) اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچ ہی کہتے ہوں باور نہیں کریں گے (12 ۔ 17) میں مومن بمعنی مصدق ہے ۔ لیکن ایمان اس تصدیق کو کہتے ہیں جس سے اطمینان قلب حاصل ہوجائے اور تردد جاتا رہے اور آیت کریمہ :۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ ( سورة النساء 44 - 51) من ان کی مذمت کی ہے کہ وہ ان چیزوں سے امن و اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں جو باعث امن نہیں ہوسکتیں کیونکہ انسان فطری طور پر کبھی بھی باطل پر مطمئن نہیں ہوسکتا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٩) اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان لوگوں کو پچھتاوے کے دن سے ڈرائیے جب کہ حساب و کتاب سے فراغت ہوجائے گی۔ اور جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں داخل کر دے جائیں گے اور جنت دوزخ کے درمیان موت کو ذبح کردیا جائے گا اور وہ لوگ اس چیز سے نادانی اور غفلت میں پڑے ہوئے ہیں، اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم اور موت کے بعد پھر جی اٹھنے پر ایمان نہیں لاتے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani