لا تعلق ہونے کا اعلان ۔ خلیل اللہ علیہ السلام ماں باپ کو رشتے کنبے کو قوم وملک کو اللہ کے دین پر قربان کرچکے سب سے یک طرف ہوگئے اپنی برات اور علیحدگی کا اعلان کر دیا تو اللہ نے ان کی نسل جاری کردی آپ کے ہاں حضرت اسحاق علیہ السلام پیدا ہوئے اور حضرت اسحاق کے ہاں یعقوب علیہ السلام ہوئے ۔ جیسے فرمان ہے ( وَيَعْقُوْبَ نَافِلَةً ۭ وَكُلًّا جَعَلْنَا صٰلِحِيْنَ 72 ) 21- الأنبياء:72 ) اور آیت میں ہے ( وَمِنْ وَّرَاۗءِ اِسْحٰقَ يَعْقُوْبَ 71 ) 11-ھود:71 ) یعنی اسحاق کے پیچھے یعقوب پس حضرت اسحاق حضرت یعقوب علیہ السلام کے والد تھے جیسے سورہ بقرہ کی آیت ( اَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاۗءَ اِذْ حَضَرَ يَعْقُوْبَ الْمَوْتُ ١٣٣ ) 2- البقرة:133 ) ، میں صاف لفظ ہیں کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے انتقال کے وقت اپنے بچوں سے پوچھا کہ تم سب میرے بعد کس کی عبادت کروگے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ اسی اللہ کی جس کی عبادت آپ کرتے ہیں اور آپ کے والد ابراہیم اسماعیل اور اسحاق علیہ السلام ۔ پس یہاں مطلب یہ ہے کہ ہم نے اس کی نسل جاری رکھی بیٹا دیا بیٹے کے ہاں بیٹا دیا اور دونوں نبی بنا کر آپ کی آنکھیں ٹھنڈی کیں ۔ یہ ظاہر ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بعد آپ کے فرزند حضرت یوسف علیہ السلام بھی نبی بنائے گئے تھے ان کا ذکر یہاں نہیں کیا اس لئے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی نبوت کے وقت خلیل اللہ علیہ السلام زندہ نہ تھے یہ دونوں نبوتیں یعنی حضرت اسحاق علیہ السلام ویعقوب علیہ السلام کی نبوت آپ کی زندگی میں آپ کے سامنے تھی اس لئے اس احسان کا ذکر بیان فرمایا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب سوال ہوا کہ سب سے بہتر شخص کون ہے فرمایا ، یوسف بن یعقوب نبی اللہ بن اسحاق نبی اللہ بن ابراہیم نبی اللہ وخلیل اللہ ۔ اور حدیث میں ہے کریم بن کریم بن کریم بن کریم ، یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم ہیں ۔ علیہم الصلوۃ والسلام ۔ ہم نے انہیں اپنی بہت ساری رحمتیں دیں اور ان کا ذکر خیر اور ثنا جمیل کو دنیا میں ان کے بعد بلندی کے ساتھ باقی رکھا یہاں تک کہ ہر مذہب والے ان کے گن گاتے ہیں ۔ فصلوۃ اللہ وسلامہ علہیم اجمعین ۔
49۔ 1 حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے بیٹے یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر بھی بیٹے کے ساتھ اور بیٹے ہی کی طرح کیا۔ مطلب یہ ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) توحید الٰہی کی خاطر باپ کو، گھر کو اور اپنے پیارے وطن کو چھوڑ کر بیت المقدس کی طرف ہجرت کر گئے، تو ہم نے انھیں اسحاق و یعقوب (علیہما السلام) سے نوازا تاکہ ان کی انس و محبت، باپ کی جدائی کا صدمہ بھلا دے۔
[٤٥] ہجرت کے بعد اللہ کا ابراہیم (علیہ السلام) کو اولاد عطا کرنا :۔ جب آپ نے اللہ کی راہ میں اپنے گھر کو اور گھر والوں کو خیر باد کہتے ہوئے ہجرت اختیار کی تو اللہ نے ان کا نعم البدل اولاد کی شکل میں انھیں عطا فرمایا۔ جو بہرحال چھوڑے ہوئے رشتہ داروں سے بہتر تھے تاکہ غریب الوطنی کی وحشت دور ہو اور انس و سکون حاصل کریں، اولاد بھی ایسی جو سب نبی تھے۔ سیدنا اسحاق بھی نبی پھر ان کے بیٹے یعقوب بھی نبی پھر انہی کی اولاد سے یعنی بنی اسرائیل میں سینکڑوں نبی پیدا ہوئے۔
فَلَمَّا اعْتَزَلَهُمْ وَمَا يَعْبُدُوْنَ ۔۔ : وطن سے ہجرت اور مشرکین سے کنارہ کشی کے عوض اللہ تعالیٰ نے انھیں جو بیشمار نعمتیں عطا کیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ انھیں بڑی شان والا بیٹا اور پوتا یعنی اسحاق اور یعقوب ( علیہ السلام) عطا کیے، تاکہ ان کا دل لگ جائے اور بےوطنی سے وحشت نہ ہو۔ - وَكُلًّا جَعَلْنَا نَبِيًّا : یہ آیت دلیل ہے کہ اسحاق اور یعقوب (علیہ السلام) ان کی زندگی ہی میں نبی بن چکے تھے، کیونکہ اگر بعد میں نبی بننا مراد ہوتا تو یوسف (علیہ السلام) کا بھی ذکر ہوتا، کیونکہ وہ بھی نبی تھے۔ بیٹے اور پوتے کی خوشی ہی کچھ کم نہیں ہوتی، کجا یہ کہ ان کی پہلے ہی خوش خبری بھی مل جائے (ہود : ٧١) اور اپنی آنکھوں سے انھیں نبوت کے عالی مقام پر فائز بھی دیکھ لیا جائے۔ یہاں اسماعیل (علیہ السلام) کا ذکر نہیں فرمایا، کیونکہ وہ ان کے پاس نہیں رہے۔ ان کا ذکر الگ آگے آ رہا ہے۔- 3 یہ آیت اس حقیقت کی بھی ایک مثال ہے کہ جو شخص اللہ کی خاطر کوئی چیز چھوڑ دے تو اللہ تعالیٰ اس سے کہیں بہتر چیز اسے عطا فرماتا ہے۔
فَلَمَّا اعْتَزَلَهُمْ وَمَا يَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۙ وَهَبْنَا لَهٗٓ اِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ ، اس جملے سے پہلے جملے میں ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ قول آیا ہے کہ میں امید کرتا ہوں کہ میں اپنے پروردگار سے دعا کرنے میں ناکام و نامراد نہیں ہوں گا۔ ظاہر یہ ہے کہ گھر اور خاندان سے جدائی کے بعد تنہائی کی وحشت وغیرہ کے اثرات سے بچنے کی دعا مراد تھی مذکورہ جملہ میں اس دعا کی قبولیت اس طرح بیان فرمائی گئی ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کے لئے اپنے گھر، خاندان اور ان کے معبودوں کو چھوڑ دیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی مکافات اس طرح فرمائی کہ ان کو صاحبزادہ اسحٰق (علیہ السلام) عطا فرمایا اور ساتھ ہی اس کا عمر دراز پانا اور صاحب اولاد ہونا بھی لفظ یعقوب بڑھا کر ذکر فرما دیا اور صاحبزادہ کا عطا ہونا اس کی دلیل ہے کہ اس سے پہلے نکاح ہوچکا تھا، تو اس کا حاصل یہ ہوا کہ باپ کے خاندان سے بہتر ایک مستقل خاندان دے دیا جو انبیاء صلحاء پر مشتمل تھا۔
فَلَمَّا اعْتَزَلَہُمْ وَمَا يَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ ٠ۙ وَہَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ ٠ۭ وَكُلًّا جَعَلْنَا نَبِيًّا ٤٩- وهب - الهِبَةُ : أن تجعل ملكك لغیرک بغیر عوض . يقال : وَهَبْتُهُ هِبَةً ومَوْهِبَةً ومَوْهِباً. قال تعالی:- وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام 84] ، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ- [إبراهيم 39] ، إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم 19] - ( و ہ ب ) وھبتہ - ( ف ) ھبۃ وموھبۃ ومو ھبا بلا عوض کوئی چیز دے دینا یا کچھ دینا قرآن میں ہے : ۔ وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام 84] اور ہم نے ان کو اسحاق اور یعقوب ) بخشے ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ [إبراهيم 39] خدا کا شکر ہے جس نے مجھے بڑی عمر اسماعیل اور اسحاق بخشے ۔ إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم 19] انہوں نے کہا کہ میں تو تمہارے پروردگار کا بھیجا ہوا یعنی فر شتہ ہوں اور اسلئے آیا ہوں کہ تمہیں پاکیزہ لڑکا بخشوں ۔ - جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- نبی - النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة «2» ، وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» «3» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک .- ( ن ب و ) النبی - بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔
(٤٩) چناچہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان لوگوں اور ان بتوں سے علیحدہ ہوگئے تو ہم نے ان کو حضرت (اسحاق (علیہ السلام) بیٹا اور (حضرت یعقوب (علیہ السلام) پوتا عطا کیا۔