حضرت ادریس علیہ السلام کا تعارف ۔ حضرت ادریس علیہ السلام کا بیان ہو رہا ہے کہ آپ سچے نبی تھے اللہ کے خاص بندے تھے ۔ آپ کو ہم نے بلند مکان پر اٹھالیا ۔ صحیح حدیث کے حوالے سے پہلے گزر چکا ہے کہ چوتھے آسمان پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ادریس علیہ السلام سے ملاقات کی ۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک عجیب وغریب اثر وارد کیا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا کہ اس آیت کا مطلب کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ حضرت ادریس علیہ السلام کے پاس وحی آئی کہ کل اولاد آدم کے نیک اعمال کے برابر صرف تیرے نیک اعمال میں اپنی طرف ہر روز چڑھاتا ہوں ۔ اس پر آپ نے ذکر کیا میرے پاس یوں وحی آئی ہے اب تم ملک الموت سے کہو کہ وہ میری موت میں تاخیر کریں تو میں نیک اعمال میں اور اور بڑھ جاؤں ۔ اس فرشتے نے آپ کو اپنے پروں میں بٹھا کر آسمان پر چڑھا دیا جب چوتھے آسمان پر آپ پہنچے تو ملک الموت کو دیکھا ، فرشتے نے آپ سے حضرت ادریس علیہ السلام کی بابت سفارش کی تو ملک الموت نے فرمایا وہ کہاں ہیں ؟ اس نے کہایہ ہیں میرے بازو پر بیٹھے ہوئے آپ نے فرمایا سبحان اللہ مجھے یہاں اس آسمان پر اس کی روح کے قبض کرنے کا حکم ہو رہا ہے چنانچہ اسی وقت ان کی روح قبض کر لی گئی ۔ یہ ہیں اس آیت کے معنی ۔ لیکن یہ یاد رہے کہ کعب رحمۃ اللہ علیہ کا یہ بیان اسرائیلیات میں سے ہے اور اس کے بعض میں نکارت ہے واللہ اعلم ۔ یہی روایت اور سند سے ہے اس میں یہ بھی ہے کہ آپ نے بذریعہ اس فرشتے کو پچھوایا تھا کہ میری عمر کتنی باقی ہے ؟ اور روایت میں ہے کہ فرشتے کے اس سوال پر ملک الموت نے جواب دیا کہ میں دیکھ لوں دیکھ کر فرمایا صرف ایک آنکھ کی پلک کے برابر اب جو فرشتہ اپنے پر تلے دیکھتا ہے تو حضرت ادریس علیہ السلام کی روح پرواز ہو چکی تھی ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ درزی تھے سوئی کے ایک ایک ٹانکے پر سبحان اللہ کہتے ۔ شام کو ان سے زیادہ نیک عمل آسمان پر کسی کے نہ چڑھتے مجاہد رحمۃ اللہ علیہ تو کہتے ہیں حضرت ادریس علیہ السلام آسمانوں پر چڑھالئے گئے ۔ آپ مرے نہیں بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح بےموت اٹھا لئے گئے اور وہیں انتقال فرماگئے ۔ حسن رحمۃ اللہ علیہ کہتے بلند مکان سے مراد جنت ہے ۔
[٥٣] سیدنا ادریس کا زمانہ اور مرکز تبلیغ :۔ سیدنا ادریس سیدنا نوح سے بہت پہلے مبعوث ہوئے تھے آپ کا مرکز تبلیغ بابل تھا۔ آپ کی قوم ستارہ پرست اور مظاہر پرست تھی۔ آپ علم ہندسہ، حساب اور نجوم میں ماہر تھے۔ نیز قلم سے لکھنا، کپڑاسینا، ناپ تول کے آلات اور اسلحہ کا بنانا انہی کے دور میں شروع ہوا۔ آپ بلند پایہ خطیب تھے اور ہرمس الہرامسہ کا خطاب پایا۔ آپ کی قوم نے آپ کی دعوت ماننے سے انکار کردیا اور مخالفت پر اتر آئے۔ آخر آپ ہجرت کرکے مصر چلے آئے۔ جہاں بہت سے لوگ آپ پر ایمان لے آئے۔ معراج کی رات رسول اللہ کی آپ سے چوتھے آسمان پر ملاقات ہوئی تھی۔
وَاذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِدْرِيْسَ ۔۔ : یہ چھٹا قصہ ادریس (علیہ السلام) کا ہے، بعض مفسرین نے ادریس (علیہ السلام) کو بنی اسرائیل کے انبیاء میں شمار کیا ہے اور دلیل یہ دی ہے کہ معراج کے موقع پر جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” مَرْحَبًا بالنَّبِیِّ الصَّالِحِ وَالْأَخِ الصَّالِحِ “ (صالح نبی اور صالح بھائی کو مرحبا) کہہ کر خطاب کیا اور آدم اور ابراہیم (علیہ السلام) کی طرح ” مَرْحَبًا بالْوَلَدِ الصَّالِحِ “ (صالح بیٹے کو مرحبا) نہیں کہا۔ حافظ ابن حجر (رض) کے مطابق امام بخاری (رض) کی یہی رائے ہے، کیونکہ ” بَابُ ذِکْرِ إِدْرِیْسَ عَلَیْہِ السَّلاَم “ میں وہ حدیث معراج لائے ہیں۔ دیکھیے فتح الباری ” بَابُ ذِکْرِ اِدْرِیْسَ عَلَیْہِ السَّلاَم “ اس سے پہلے باب میں امام بخاری نے فرمایا : ” ابن مسعود اور ابن عباس (رض) سے ذکر کیا جاتا ہے کہ الیاس ہی ادریس ہیں۔ “ حافظ ابن حجر (رض) نے اس قول کے لانے کو بھی امام بخاری کی اس رائے کا اظہار کہا ہے کہ ادریس (علیہ السلام) نوح (علیہ السلام) سے پہلے نہیں بلکہ بعد میں ہوئے ہیں، کیونکہ قرآن مجید میں الیاس (علیہ السلام) کو نوح یا ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں شمار فرمایا گیا ہے۔ دیکھیے سورة انعام (٨٤، ٨٥) لیکن اکثر مفسرین کی تحقیق یہ ہے کہ ان کا زمانہ نوح (علیہ السلام) سے بھی پہلے کا ہے، چناچہ بخاری نے ” بَابُ ذِکْرِ إِدْرِیْسَ عَلَیْہِ السَّلاَم “ کے ترجمۃ الباب میں فرمایا : ” وَ ھُوَ جَدُّ أَبِيْ نُوْحٍ وَ یُقَالُ جَدُّ نُوْحٍ عَلَیْہُمَا السَّلاَمُ “ یعنی وہ نوح (علیہ السلام) کے والد کے دادا ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ نوح (علیہ السلام) کے دادا ہیں۔ ابن جریر، قرطبی اور ابن کثیر کی رائے بھی یہی ہے، دلیل اسی سورت کی آیت (٥٨) کی تفسیر میں آرہی ہے۔
وَاذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِدْرِيْسَ ، حضرت ادریس (علیہ السلام) حضرت نوح (علیہ السلام) سے ایک ہزار سال پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) کے اجداد میں سے ہیں (روح المعافی بحوالہ مستدرک حاکم) اور یہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد پہلے نبی و رسول ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے تیس صحیفے نازل فرمائے (کمافی حدیث ابی ذر زمخشری) اور ادریس (علیہ السلام) سب سے پہلے انسان ہیں جن کو علم نجوم اور حساب بطور معجزہ عطا کیا گیا (بحر محیط) اور سب سے پہلے انسان ہیں جنہوں نے قلم سے لکھنا اور کپڑا سینا ایجاد کیا ان سے پہلے لوگ عموماً جانوروں کی کھال بجائے لباس استعمال کرتے تھے اور سب سے پہلے ناپ تول کے طریقے بھی آپ نے ہی ایجاد فرمائے اور اسلحہ کی ایجاد بھی آپ سے شروع ہوئی۔ آپ نے اسلحہ تیار کر کے بنو قابیل سے جہاد کیا (بحر محیط، قرطبی، مظہری، روح)
وَاذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِدْرِيْسَ ٠ۡاِنَّہٗ كَانَ صِدِّيْقًا نَّبِيًّا ٥٦ۤۙ- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ - نبی - النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة «2» ، وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» «3» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک .- ( ن ب و ) النبی - بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔
(٥٦۔ ٥٧) اور قرآن کریم میں حضرت ادریس (علیہ السلام) کا بھی ذکر کیجیے بیشک وہ اپنے ایمان میں بڑے سچے نبی تھے اور ہم نے ان کو جنت میں بلند مرتبہ تک پہنچایا۔
آیت ٥٦ (وَاذْکُرْ فِی الْْکِتٰبِ اِدْرِیْسَز) ” - حضرت ادریس ( علیہ السلام) ‘ حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد اور حضرت نوح (علیہ السلام) سے قبل زمانے میں مبعوث ہوئے۔ ان سے پہلے ذریت آدم ( علیہ السلام) میں حضرت شیث ( علیہ السلام) گزر چکے تھے۔ تورات میں ان کا نام ” حنوک “ مذکور ہے۔ ان کا ذکر قرآن میں نہیں ہے۔ حضرت ادریس اور حضرت شیث ( علیہ السلام) دونوں نبی تھے ‘ جبکہ ان کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) پہلے رسول کے طور پر مبعوث ہوئے۔- (اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا ) ” - اس سے پہلے آیت ٤١ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی ” صِدِّیْقًا نَّبِیًّا “ کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ یعنی مزاج کے اعتبار سے حضرت ادریس ( علیہ السلام) کی مناسبت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ تھی۔ دونوں شخصیات صدیقیت کے مزاج کی حامل تھیں۔
سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :33 حضرت ادریس کے متعلق اختلاف ہے ۔ بعض کے نزدیک وہ بنی اسرائیل میں سے کوئی نبی تھے ۔ مگر اکثریت اس طرف گئی ہے کہ وہ حضرت نوح سے بھی پہلے گزرے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی صحیح حدیث ہم کو ایسی نہیں ملی جس سے ان کی شخصیت کے تعین میں کوئی مدد ملتی ہو ۔ البتہ قرآن کا ایک اشارہ اس خیال کی تائید کرتا ہے کہ وہ حضرت نوح سے مقدم ہیں ۔ کیونکہ بعد والی آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ نبی ( جن کا ذکر اوپر گزرا ہے ) آدم کی اولاد ، نوح کی اولاد ، ابراہیم کی اولاد اور اسرائیل کی اولاد سے ہیں ۔ اب یہ ظاہر ہے کہ حضرت یحیی ، عیسی اور موسی علیہ السلام تو بنی اسرائیل میں سے ہیں ، حضرت اسماعیل ، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہم السلام اولاد ابراہیم سے ہیں اور حضرت ابراہیم اولاد نوح سے ، اس کے بعد صرف حضرت ادریس ہی رہ جاتے ہیں جن کے متعلق یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ اولاد آدم سے ہیں ۔ مفسرین کا عام خیال یہ ہے کہ بائیبل میں جن بزرگ کا نام حنوک ( ) بتایا گیا ہے ، وہی حضرت ادریس ہیں ۔ ان کے متعلق بائیبل کا بیان یہ ہے: اور حنوک پینسٹھ برس کا تھا جب اس سے متوسلح پیدا ہوا اور متوسلح کی پیدائش کے بعد حنوک تین سو برس تک خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ غائب ہوگیا کیونکہ خدا نے اسے اٹھا لیا ۔ ( پیدائش ، باب 5 ۔ آیت 24 ۔ ) تلمود کی اسرائیلی روایات میں ان کے حالات زیادہ تفصیل کے ساتھ بتائے گئے ہیں ۔ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت نوح سے پہلے جب بنی آدم میں بگاڑ کی ابتدا ہوئی تو خدا کے فرشتے نے حنوک کو ، جو لوگوں سے الگ تھلگ زاہدانہ زندگی بسر کرتے تھے ، پکارا کہ اے حنوک ، اٹھو ، گوشہ عزلت سے نکلو اور زمین کے باشندوں میں چل پھر کر ان کو راستہ بتاؤ ۔ جس پر ان کو چلنا چاہیے اور وہ طریقے بتاؤ جن پر انہیں عمل کرنا چاہیے؛ یہ حکم پاکر وہ نکلے اور انہوں نے جگہ جگہ لوگوں کو جمع کر کے وعظ و تلقین کی اور نسل انسانی نے ان کی اطاعت قبول کر کے اللہ کی بندگی اختیار کر لی ۔ حنوک 353برس تک نسل انسانی پر حکمران رہے ۔ ان کی حکومت انصاف اور حق پرستی کی حکومت تھی ۔ ان کے عہد میں زمین پر خدا کی رحمتیں برستی رہیں ۔ 18-21 ) )