Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

57۔ 1 حضرت ادریس علیہ السلام، کہتے ہیں کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد پہلے نبی تھے اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے یا ان کے والد کے دادا تھے، انہوں نے ہی سب سے پہلے کپڑے سیئے، بلندی مکان سے مراد ؟ بعض مفسرین نے اس کا مفہوم رُفِعَ اِلَی السَّمَآء سمجھا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرح انھیں بھی آسمان پر اٹھا لیا گیا لیکن قرآن کے الفاظ اس مفہوم کے لئے صاف نہیں ہیں اور کسی صحیح حدیث میں بھی یہ بیان نہیں ہوا۔ البتہ اسرائیلی روایات میں ان کے آسمان پر اٹھائے جانے کا ذکر ملتا ہے جو اس مفہوم کے اثبات کے لئے کافی نہیں۔ اس لئے زیادہ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اس سے مراد مرتبے کی وہ بلندی ہے جو نبوت سے سرفراز کر کے انھیں عطا کی گئی۔ واللہ اعلم

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَّرَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِيًّا : حدیث معراج میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چوتھے آسمان پر ان سے ملاقات مذکور ہے۔ حافظ ابن حجر (رض) نے فرمایا کہ اس مقام کے ” مَكَانًا عَلِيًّا “ (بہت اونچا مقام) ہونے میں کوئی شک نہیں۔ بعض لوگوں نے جو کہا ہے کہ انھیں زندہ آسمان پر اٹھایا گیا، تو یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی قوی سند کے ساتھ ثابت نہیں بلکہ صرف کعب کا قول ہے جو اسرائیلی روایات بیان کرتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ڎوَّرَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِيًّا، یعنی ہم نے ادریس (علیہ السلام) کو مقام بلند پر اٹھا لیا معنی یہ ہیں کہ ان کو نبوت و رسالت اور قرب الہٰی کا خاص مقام عطا فرمایا گیا۔ اور بعض روایات میں جو ان کا آسمان پر اٹھانا منقول ہے ان کے متعلق ابن کثیر نے فرمایا :- ھذا من اخبار کعب الاحبار الاسرائیلیات وفی بعضہ نکارة- یہ کعب احبار کی اسرائیلی روایات میں سے ہے اور ان میں سے بعض میں نکارت و اجنبیت ہے۔- اور قرآن کریم کے الفاظ مذکورہ بہرحال اس معاملہ میں صریح نہیں کہ یہاں رفعت درجہ مراد ہے یا زندہ آسمان میں اٹھانا مراد ہے اس لئے ان کا رفع الی السماء قطعی نہیں اور تفسیر قرآن اس پر موقف نہیں۔ (بیان القرآن)- فائدہ از بیان القرآن رسول اور نبی کی تعریف میں فرق اور باہمی نسبت :- رسول اور نبی کی تعریف میں متعدد اقوال ہیں، آیات مختلف میں غور کرنے سے جو بات احقر کے نزدیک محقق ہوئی وہ یہ ہے کہ ان دونوں کے مفہوم میں نسبت عموم و خصوص من وجہ کی ہے۔ رسول وہ ہے جو مخاطبین کو شریعت جدیدہ پہنچائے خواہ وہ شریعت خود اس رسول کے اعتبار سے بھی جدید ہو جیسے تورات وغیرہ یا صرف ان کی امت کے اعتبار سے جدید ہو جیسے اسماعیل (علیہ السلام) کی شریعت وہ دراصل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قدیم شریعت ہی تھی لیکن قوم جرہم جن کی طرف ان کو مبعوث فرمایا تھا ان کو اس شریعت کا علم پہلے سے نہ تھا، حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہی کے ذریعہ ہوا۔ اس معنی کے اعتبار سے رسول کے لئے نبی ہونا ضروری نہیں جیسے فرشتے کہ وہ رسول تو ہیں مگر نبی نہیں ہیں یا جیسے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے فرستادہ قاصد جن کو آیت قرآن ۘاِذْ جَاۗءَهَا الْمُرْسَلُوْنَ میں رسول گہا گیا ہے حالانکہ وہ انبیاء نہیں تھے۔- اور نبی وہ ہے جو صاحب وحی ہو خواہ شریعت جدیدہ کی تبلیغ کرے یا شریعت قدیمہ کی جیسے اکثر انبیاء بنی اسرائیل شریعت موسویہ کی تبلیغ کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایک اعتبار سے لفظ رسول نبی سے عام ہے اور دوسرے اعتبار سے لفظ نبی بہ نسبت رسول کے عام ہے جس جگہ یہ دونوں لفظ ایک ساتھ استعمال کئے گئے جیسا کہ آیات مذکورہ میں رسولاً نبیاً ، آیا ہے وہاں تو کوئی اشکال نہیں کہ خاص اور عام دونوں جمع ہو سکتے ہیں کوئی تضاد نہیں لیکن جس جگہ یہ دو لفظ باہم متقابل آئے ہیں جیسے وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ وَّلَا نَبِيٍّ میں تو اس جگہ بقرینہ مقام لفظ نبی کو خاص اس شخص کے معنی میں لیا جائے گا جو شریعت سابقہ کی تبلیغ کرتا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَّرَفَعْنٰہُ مَكَانًا عَلِيًّا۝ ٥٧- رفع - الرَّفْعُ في الأجسام الموضوعة إذا أعلیتها عن مقرّها، نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ- [ البقرة 93] ، قال تعالی: اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد 2] - ( ر ف ع ) الرفع - ( ف ) کے معنی اٹھانے اور بلند کرنے کے ہیں یہ مادی چیز جو اپنی جگہ پر پڑی ہوئی ہو اسے اس کی جگہ سے اٹھا کر بلند کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 93] اور ہم نے طو ر پہاڑ کو تمہارے اوپر لاکر کھڑا کیا ۔ اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد 2] وہ قادر مطلق ہے جس نے آسمان کو بدوں کسی سہارے کے اونچا بناکر کھڑا کیا ۔ - علي - العُلْوُ : ضدّ السُّفْل، والعَليُّ : هو الرّفيع القدر من : عَلِيَ ، وإذا وصف اللہ تعالیٰ به في قوله : أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [ الحج 62] ، إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً [ النساء 34] ، فمعناه : يعلو أن يحيط به وصف الواصفین بل علم العارفین . وعلی ذلك يقال : تَعَالَى، نحو : تَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ النمل 63] - ( ع ل و ) العلو - العلی کے معنی بلند اور بر تر کے ہیں یہ علی ( مکسر اللام سے مشتق ہے جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی صفت - واقع ہو جیسے : ۔ أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [ الحج 62] إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً [ النساء 34] تو اس کے معنی ہوتے ہیں وہ ذات اس سے بلند وبالا تر ہے کوئی شخص اس کا وصف بیان کرسکے بلکہ عارفین کا علم بھی وہاں تک نہیں پہچ سکتا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٧ (وَّرَفَعْنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا ) ” - اسرائیلی روایات کے زیر اثربعض لوگوں نے اس سے رفع سماوی مراد لیا ہے کہ حضرت ادریس ( علیہ السلام) کو بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی طرح زندہ اٹھا لیا تھا۔ معراج کے موقع پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چوتھے آسمان پر حضرت ادریس ( علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی تھی۔ لیکن حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے بارے میں الفاظ قرآنی بہت واضح ہیں : (رَافِعُکَ اِلَیَّ ) (آل عمران : ٥٥) کہ میں آپ ( علیہ السلام) کو اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔ ان الفاظ سے رفع سماوی کا مفہوم متعین ہوجاتا ہے ‘ جبکہ حضرت ادریس ( علیہ السلام) کے بارے میں آیت زیر نظر میں لفظ ” رفع “ کے ساتھ ” اِلٰی “ کی عدم موجودگی میں یہ مفہومّ متعین نہیں ہوتا۔ چناچہ یہاں پر اس لفظ کا یہی مفہوم مراد لیا جاسکتا ہے کہ ہم نے انہیں بلند مقام عطا کیا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :34 اس کا سیدھا سادھا مطلب تو یہ ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت ادریس کو بلند مرتبہ عطا کیا تھا ، لیکن اسرائیلی روایات سے منتقل ہو کر یہ بات ہمارے ہاں بھی مشہور ہوگئی کہ اللہ تعالی نے حضرت ادریس کو آسمان پر اٹھا لیا ۔ بائیبل میں تو صرف اسی قدر ہے کہ وہ غائب ہو گئے کیونکہ خدا نے ان کو اٹھا لیا مگر تلمود میں اس کا ایک طویل قصہ بیان ہوا ہے جس کا خاتمہ اس پر ہوتا ہے کہ ۔ حنوک ایک بگولے میں آتش رتھ اور گھوڑوں سمیت آسمان پر چڑھ گئے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

28: اس سے مراد نبوّت و رسالت اور تقویٰ اور بزرگی کا اعلی مرتبہ ہے جو ان کے زمانے میں انہی کو عطا ہوا۔ بائبل میں ان کے بارے میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اِنہیں زندہ آسمان پر اٹھا لیا تھا۔ تفسیر کی بعض کتابوں میں بھی ایسی کچھ روایتیں آئی ہیں جن کی بنیاد پر کہا گیا ہے کہ اِس آیت میں اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ لیکن یہ روایتیں سند کے اعتبار سے نہایت کمزور اور ناقابل اعتبار ہیں۔