انبیاء کی جماعت کا ذکر ۔ فرمان الہٰی ہے کہ یہ ہے جماعت انبیاء یعنی جن کا ذکر اس سورت میں ہے یا پہلے گزرا ہے یا بعد میں آئے گا یہ لوگ اللہ کے انعام یافتہ ہیں ۔ پس یہاں شخصیت سے جنس کی طرف استطراد ہے ۔ یہ ہیں اولاد آدم سے یعنی حضرت ادریس صلوات اللہ وسلامہ علیہ اور اولاد سے ان کی جو حضرت نوح کے ساتھ کشتی میں سوار کرا دئے گئے تھے اس سے مراد حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ صلوات اللہ ہیں ۔ اور ذریت ابراہیم علیہ السلام سے مراد حضرت اسحاق ، حضرت یعقوب حضرت اسماعیل ہیں اور ذریت اسرائیل سے مراد حضرت موسیٰ ، حضرت ہارون ، حضرت زکریا ، حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ ہیں علیہم السلام ۔ یہی قول ہے حضرت سدی رحمۃاللہ علیہ اور ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ کا ۔ اسی لئے ان کے نسب جداگانہ بیان فرمائے گئے کہ گو اولاد آدم میں سب ہیں مگر ان میں بعض وہ بھی ہیں جو ان بزرگوں کی نسل سے نہیں جو حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھی تھے کیونکہ حضرت ادریس تو حضرت نوح علیہ السلام کے دادا تھے ۔ میں کہتا ہوں بظاہر یہی ٹھیک ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے اوپر کے نسب میں اللہ کے پیغمبر حضرت ادریس علیہ السلام ہیں ۔ ہاں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت ادریس بنی اسرائیلی نبی ہیں ۔ یہ کہتے ہیں کہ معراج والی حدیث میں حضرت ادریس کا بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہنا مروی ہے کہ مرحبا ہو بنی صالح اور بھائی صالح کو مرحبا ہو ۔ تو بھائی صالح کہا نہ کہ صالح ولد جیسے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت آدم علیہما السلام نے کہا تھا ۔ مروی ہے کہ حضرت ادریس علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام سے پہلے کے ہیں ۔ آپ نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ لا الہ الا اللہ کے قائل اور معتقدین بن جاؤ پھر جو چاہو کرو لیکن انہوں نے اس کا انکار کیا اللہ عزوجل نے ان سب کو ہلاک کر دیا ۔ ہم نے اس آیت کو جنس انبیاء کے لئے قرار دیا ہے اس کی دلیل سورہ انعام کی وہ آیتیں ہیں جن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام ، حضرت اسحاق علیہ السلام ، حضرت یعقوب علیہ السلام ، حضرت نوح علیہ السلام ، حضرت داؤد علیہ السلام ، حضرت سیلمان علیہ السلام ، حضرت ایوب علیہ السلام ، حضرت یوسف علیہ السلام ، حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت ہارون علیہ السلام ، حضرت زکریا علیہ السلام ، حضرت یحییٰ علیہ السلام ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام ، حضرت الیاس علیہ السلام ، حضرت اسماعیل علیہ السلام ، حضرت یونس علیہ السلام ، وغیرہ کا ذکر ہے اور تعریف کرنے کے بعد فرمایا ( اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ ۭ قُلْ لَّآ اَسْــــَٔـلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا ۭاِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٰي لِلْعٰلَمِيْنَ 90ۧ ) 6- الانعام:90 ) یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی تو ابھی ان کی ہدایت کی اقتدا کر اور یہ بھی فرمایا ہے کہ نبیوں میں سے بعض کے واقعات ہم نے بیان کر دیے ہیں اور بعض کے واقعات تم تک پہنچے ہی نہیں ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت مجاہد رحمۃاللہ علیہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا کہ کیا سورہ ص میں سجدہ ہے آپ نے فرمایا ہاں پھر اسی آیت کی تلاوت کر کے فرمایا تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی اقتدا کا حکم کیا گیا ہے اور حضرت داؤد علیہ السلام بھی مقتدا نبیوں میں سے ہیں ۔ فرمان ہے کہ ان پیغمبروں کے سامنے جب کلام اللہ شریف کی آیتیں تلاوت کی جاتی تھیں تو اس کے دلائل وبراہین پر خشوع وخضوع کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا شکر واحسان مانتے ہوئے روتے گڑگڑاتے سجدے میں گر پڑتے تھے اسی لئے اس آیت پر سجدہ کرنے کا حکم علماء کا متفق علیہ مسئلہ ہے تاکہ ان پیغمبروں کی اتباع اور اقتدا ہو جائے ۔ امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سورہ مریم کی تلاوت کی اور جب اس آیت پر پہنچے تو سجدہ کیا پھر فرمایا سجدہ تو کیا لیکن وہ رونا کہاں سے لائیں ؟ ( ابن ابی حاتم اور ابن جریر )
58۔ 1 گویا اللہ کی آیات کو سن کر وجد کی کیفیت کا طاری ہوجانا اور عظمت الٰہی کے آگے سجدہ ریز ہوجانا، بندگان الٰہی کی خاص علامت ہے۔ سجدہ تلاوت کی مسنوں دعا یہ ہے (وَ سَجَدَ وَ جْھِیَ لِلَّذِیْ خَلَہُ ، وَصَوَّرَہُ ، وَ شَقَّ سَمْعَہُ وَ بَصَرَہَ بِحَوْلِہِ وَ قُوَّتِہِ ) (ابو داؤد، ترمذی، نسائی۔ بحالہ مشکوۃ، باب سجود القرآن) بعض روایات میں اضافہ ہے۔
[٥٤] سلسلہ نبوت کا اختصاص :۔ مذکورہ بالا انبیاء میں سے صرف سیدنا ادریس ہیں جو نوح (علیہ السلام) سے پہلے مبعوث ہوئے لہذا آپ صرف اولاد آدم سے ہوئے، باقی سب انبیاء یا تو نوح (علیہ السلام) کی اولاد سے تھے یا ان لوگوں کی اولاد سے جو نوح (علیہ السلام) کے ہمراہ کشتی میں سوار ہوئے تھے اور سلسلہ نبوت یوں چلتا ہے کہ آدم کی پیدائش سے پیشتر یہ سلسلہ نبوت جنوں میں تھا پھر چونکہ آدم اشرف المخلوقات تھے تو سلسلہ نبوت سیدنا آدم اور ان کی اولاد کی طرف منتقل ہوگیا۔ پھر یہ سلسلہ نوح اور اولاد نوح سے مختص ہوا پھر سیدنا ابراہیم اور ان کی اولاد سے، پھر اس کے بعد یہ سلسلہ اسرائیل (یعقوب) کی اولاد سے مختص ہوا۔ صرف نبی آخر الزمان سیدنا اسماعیل کی اولاد سے تھے اور ان انبیاء پر یہ انعام اس لئے ہوا کہ یہی لوگ اپنے اپنے دور کی بہترین شخصیات تھے اور ان لوگوں کا یہ حال تھا کہ جب انھیں اللہ کی آیات سنائی جاتیں تو ان کے دلوں پر رقت طاری ہوجاتی، اللہ کے انعامات کو یاد کر کر کے ان کے سر جھکے جاتے تھے۔ پھر وہ اللہ سے ہر وقت ڈرتے بھی رہتے تھے اور اللہ کی آیات سنتے تو ان کے ڈر میں مزید اضافہ ہوجاتا اور وہ روتے ہوئے اللہ کے سامنے سربسجود ہوجاتے تھے۔- علماء کا اجماع ہے کہ اس آیت پر سجدہ کرنا چاہئے تاکہ ان مقربین کے طرز عمل کو یاد کرکے ان سے ایک طرح کی مشابہت حاصل ہوجائے اور حدیث میں ہے کہ قرآن کی تلاوت کرو تو رؤو اور اگر رونا نہ آئے تو (کم ازکم) رونے کی صورت بنا لو، (شرح السنۃ بحوالہ مشکوٰۃ، کتاب الفتن، باب صفۃ النار و اھلہا۔ الفصل الثانی)
اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ ۔۔ : مراد وہ انبیاء ہیں جن کا اس سورت میں ذکر ہے۔ یہ دس ہیں جن میں پہلے زکریا اور آخری ادریس (علیہ السلام) ہیں۔ ابن کثیر نے فرمایا، سدی اور ابن جریر اور قرطبی ( ) نے فرمایا : ” یہاں آدم کی اولاد سے مراد ادریس ہیں اور نوح کے ساتھ سوار ہونے والوں کی اولاد سے مراد ابراہیم ہیں اور ابراہیم کی اولاد سے مراد اسحاق، یعقوب اور اسماعیل ہیں اور اسرائیل کی اولاد سے مراد موسیٰ ، ہارون، زکریا، یحییٰ اور عیسیٰ ابن مریم ہیں۔ “ ابن جریر فرماتے ہیں : ” اسی لیے ان کے نسب الگ الگ ذکر فرمائے ہیں، ورنہ آدم کی اولاد تو سب ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ان میں وہ بھی ہیں جو ان لوگوں کی اولاد میں سے نہیں جو نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں تھے اور وہ ادریس ہیں جو نوح (علیہ السلام) کے دادا ہیں۔ “ ابن کثیر نے فرمایا : ” یہی بات زیادہ ظاہر ہے کہ ادریس (علیہ السلام) نوح (علیہ السلام) کے آبائی نسب میں شامل ہیں۔ “- رہا ادریس (علیہ السلام) کا ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیٹے کے بجائے بھائی کہنا، تو یہ تواضع سے بھی ہوسکتا ہے اور امام بخاری کا حدیث معراج کو لانا ”ڎوَّرَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِيًّا “ کی تفسیر کے طور پر بھی ہوسکتا ہے اور جو ادریس اور الیاس ( علیہ السلام) کو ایک قرار دینا ہے تو صحابہ کرام اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کریں تو وہ بات یقینی ہے، ورنہ وحی الٰہی کے بغیر ہزاروں سال پہلے کے متعلق ان کی بات یقینی کیسے ہوسکتی ہے ؟ خصوصاً جب یہ بھی امکان ہو کہ وہ بات اہل کتاب میں سے کسی سے سن کر بیان ہوئی ہے۔ اس لیے امام بخاری کا ادریس (علیہ السلام) کو جزم کے ساتھ نوح (علیہ السلام) کے والد کا دادا قرار دینا ہی راجح معلوم ہوتا ہے۔ (واللہ اعلم)- وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا۔۔ : چند انبیاء ( علیہ السلام) کے نام ذکر کرنے کے بعد ان الفاظ کے ساتھ تمام انبیاء کو بھی شامل فرما دیا، جیسا کہ سورة انعام کی آیت (٨٧) میں ہے۔ اس آیت میں جو فرمایا : (ۭاِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّبُكِيًّا) اس میں صراحت فرمائی کہ ان انبیاء کے سامنے جب رحمٰن کی آیات پڑھی جاتیں تو وہ روتے ہوئے سجدے میں گرجاتے۔ ” ّبُكِيًّا “ ” بَکَی یَبْکِیْ بُکَاءً “ (ض) سے اسم فاعل ” بَاکٍ “ کی جمع ہے۔ ابن کثیر نے فرمایا کہ اہل علم کا اجماع ہے کہ انبیاء کی اقتدا میں یہاں سجدہ کرنا مشروع ہے۔ ابن ابی حاتم اور ابن جریر نے ذکر فرمایا : ( قَرَأَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ سُوْرَۃَ مَرْیَمَ فَسَجَدَ وَقَالَ ھٰذَا السُّجُوْدُ فَأَیْنَ الْبُکِیُّ ؟ ) ” عمر بن خطاب (رض) نے سورة مریم پڑھی تو سجدہ کیا اور فرمایا : ” یہ تو سجدہ ہوا مگر رونے والے کہاں ہیں ؟ “ حکمت بن بشیر نے اسے صحیح کہا ہے۔ آیات الٰہی سن کر رونا، دل کا ڈر جانا، رونگٹے کھڑے ہونا اور روتے ہوئے سجدے میں گر جانا، یہ صفات اللہ تعالیٰ نے اپنے متقی اور نیک بندوں کی بیان کی ہیں۔ دیکھیے سورة بنی اسرائیل (١٠٧ تا ١٠٩) ، مائدہ (٨٣) ، انفال (٢) اور زمر (٢٣) وغیرہ۔
اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ مِنْ ذُرِّيَّةِ اٰدَمَ ، اس سے مراد صرف حضرت ادریس (علیہ السلام) ہیں، وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ اس سے مراد صرف ابراہیم (علیہ السلام) ہیں، وَّمِنْ ذُرِّيَّةِ اِبْرٰهِيْمَ ، اس سے مراد اسماعیل و اسحٰق و یعقوب (علیہم السلام) ہیں، وَاِسْرَاۗءِيْلَ ۡ اس سے مراد حضرت موسیٰ و ہارون و حضرت زکریا و یحییٰ و عیسیٰ (علیہم السلام) ہیں۔- اِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّبُكِيًّا، سابقہ آیات میں چند اکابر انبیاء (علیہم السلام) کا ذکر خاص طور سے کیا گیا ہے جس میں ان کی عظمت شان کو بیان کیا گیا ہے، چونکہ انبیاء کی عظمت میں عوام سے غلو کرنے کا خطرہ تھا جیسے یہود نے حضرت عزیر کو اور نصارٰی نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا ہی بنادیا اس لئے اس مجموعہ کے بعد ان سب کا اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ گزار اور خوف و خشیت سے بھرپور ہونا اس آیت میں ذکر فرما دیا گیا تاکہ افراط وتفریط کے درمیان رہیں۔ (بیان القرآن)- تلاوت قرآن کے وقت بکاء یعنی آب دیدہ ہونا صفت انبیاء ہے :- اس سے معلوم ہوا کہ آیات قرآن کی تلاوت کے وقت بکاء (رونے) کی کیفیت پیدا ہونا محمود اور انبیاء (علیہم السلام) کا وصف ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اور صحابہ وتابعین اور اولیاء اللہ سے بکثرت اس کے واقعات منقول ہیں۔- قرطبی نے فرمایا کہ علماء نے اس بات کو مستحب قرار دیا ہے کہ قرآن کریم میں جو آیت سجدہ تلاوت کی جائے اس کے سجدے میں اس کے مناسب دعا کی جائے، مثلاً سورة سجدہ میں یہ دعا کریں اللھم اجعلنی من الساجدین لوجھک المسبحین بحمدک واعوذ بک ان اکون من المستکبرین عن امرک اور سبحان الذی کے سجدہ میں یہ دعا کریں اللھم اجعلنی من الباکین الیک الخاشعین لک اور آیت مذکورہ خَرُّوْا سُجَّدًا کے وجدہ میں یہ دعا کریں اللھم اجعلنی من عبادک المنعم علیہم المھدیین الساجدین لک الباکین عند تلاوة ایاتک (قرطبی)
اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَيْہِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ مِنْ ذُرِّيَّۃِ اٰدَمَ ٠ۤ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ ٠ۡوَّمِنْ ذُرِّيَّۃِ اِبْرٰہِيْمَ وَاِسْرَاۗءِيْلَ ٠ۡوَمِمَّنْ ہَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا ٠ۭ اِذَا تُتْلٰى عَلَيْہِمْ اٰيٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّبُكِيًّا ٥٨۞- نعم - النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] - ( ن ع م ) النعمۃ - اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔- ذر - الذّرّيّة، قال تعالی: وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124]- ( ذ ر ر) الذریۃ ۔- نسل اولاد ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124] اور میری اولاد میں سے بھی - آدم - آدم أبو البشر، قيل : سمّي بذلک لکون جسده من أديم الأرض، وقیل : لسمرةٍ في لونه . يقال : رجل آدم نحو أسمر، وقیل : سمّي بذلک لکونه من عناصر مختلفة وقوی متفرقة، كما قال تعالی: مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ نَبْتَلِيهِ [ الإنسان 2] . ويقال : جعلت فلاناً أَدَمَة أهلي، أي : خلطته بهم وقیل : سمّي بذلک لما طيّب به من الروح المنفوخ فيه المذکور في قوله تعالی: وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] ، وجعل له العقل والفهم والرّوية التي فضّل بها علی غيره، كما قال تعالی: وَفَضَّلْناهُمْ عَلى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنا تَفْضِيلًا [ الإسراء 70] ، وذلک من قولهم : الإدام، وهو ما يطيّب به الطعام وفي الحدیث : «لو نظرت إليها فإنّه أحری أن يؤدم بينكما» أي : يؤلّف ويطيب .- ( ادم ) ادم - ۔ ابوالبشیر آدم (علیہ السلام) بعض نے کہا ہے ۔ کہ یہ ادیم لارض سے مشتق ہے اور ان کا نام آدم اس لئے رکھا گیا ہے کہ ان کے جسم کو بھی ادیم ارض یعنی روئے زمین کی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ ادمۃ سے مشتق ہے جس کے معنی گندمی رنگ کے ہیں ۔ چونکہ آدم (علیہ السلام) بھی گندمی رنگ کے تھے اس لئے انہیں اس نام سے مسوسوم کیا گیا ہے چناچہ رجل آدم کے معنی گندمی رنگ مرد کے ہیں ۔ اور بعض آدم کی وجہ تسمیہ بیان ہے کہ وہ مختلف عناصر اور متفرق قویٰ کے امتزاج سے پیدا کئے گئے تھے ۔ جیسا کہ آیت أَمْشَاجٍ نَبْتَلِيهِ ( سورة الإِنْسان 2) مخلوط عناصر سے ۔۔۔۔ کہ اسے آزماتے ہیں ۔ سے معلوم ہوتا ہے۔ چناچہ محاورہ ہے جعلت فلانا ادمہ اھلی میں فلاں کو اپنے اہل و عیال میں ملالیا مخلوط کرلیا ۔ بعض نے کہا ہے کہ آدم ادام سے مشتق ہے اور ادام ( سالن وغیرہ ہر چیز کو کہتے ہیں جس سے طعام لو لذیز اور خوشگوار محسوس ہو اور آدم میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی روح ڈال کر اسے پاکیزہ بنا دیا تھا جیسے کہ آیت و نفخت فیہ من روحی (38 ۔ 72) اور اس میں اپنی روح پھونک دوں ۔ میں مذکور ہے اور پھر اسے عقل و فہم اور فکر عطا کرکے دوسری مخلوق پر فضیلت بھی دی ہے جیسے فرمایا : وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا ( سورة الإسراء 70) اور ہم نے انہیں اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ اس بناء پر ان کا نام آدم رکھا گیا ہے اور حدیث میں ہے (8) لو نظرت الیھا فانہ احری ان یودم بینکما اگر تو اسے اپنی منگیرکو ایک نظر دیکھ لے تو اس سے تمہارے درمیان الفت اور خوشگواری پیدا ہوجانے کا زیادہ امکان ہے ۔- حمل - الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل .- وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی:- وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] ،- ( ح م ل ) الحمل - ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ - وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔- نوح - نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس .- ( ن و ح ) نوح - ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- اجتباء - : الجمع علی طریق الاصطفاء . قال عزّ وجل : فَاجْتَباهُ رَبُّهُ [ القلم 50] ، وقال تعالی: وَإِذا لَمْ تَأْتِهِمْ بِآيَةٍ قالُوا : لَوْلا اجْتَبَيْتَها [ الأعراف 203] ، أي : يقولون : هلّا جمعتها، تعریضا منهم بأنک تخترع هذه الآیات ولیست من اللہ . واجتباء اللہ العبد : تخصیصه إياه بفیض إلهيّ يتحصل له منه أنواع من النعم بلا سعي من العبد، وذلک للأنبیاء وبعض من يقاربهم من الصدیقین والشهداء، كما قال تعالی: وَكَذلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ [يوسف 6] ، فَاجْتَباهُ رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ [ القلم 50] ، وَاجْتَبَيْناهُمْ وَهَدَيْناهُمْ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [ الأنعام 87] ، وقوله تعالی: ثُمَّ اجْتَباهُ رَبُّهُ فَتابَ عَلَيْهِ وَهَدى [ طه 122] ، وقال عزّ وجل : يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ [ الشوری 13] ، وذلک نحو قوله تعالی: إِنَّا أَخْلَصْناهُمْ بِخالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ [ ص 46] .- الاجتباء ( افتعال )- کے معنی انتخاب کے طور پر کسی چیز کو جمع کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ وَإِذا لَمْ تَأْتِهِمْ بِآيَةٍ قالُوا : لَوْلا اجْتَبَيْتَها [ الأعراف 203] اور جب تم ان کے پاس ( کچھ دنوں تک ) کوئی آیت نہیں لاتے تو کہتے ہیں کہ تم نے ( اپنی طرف سے ) کیوں نہیں بنائی ہیں کے معنی یہ ہوں گے کہ تم خد ہی ان کو تالیف کیوں نہیں کرلیتے دراصل کفار یہ جملہ طنزا کہتے تھے کہ یہ آیات اللہ کی طرف سے نہیں ہیں بلکہ تم کود ہی اپنے طور بنالیتے ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ کا کسی بندہ کو جن لینا کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ اسے اپنے فیض کے لئے برگزیدہ کرلیتا ہے جسے گونا گون نعمتیں جدو جہد کے بغیر حاصل ہوجاتی ہیں یہ انبیاء کے ساتھ خاص ہے اور صدیقوں اور شہدوں کے لئے جوان کئ قریب درجہ حاصل کرلیتے ہیں ۔ جیسا کہ یوسف کے متعلق فرمایا : ۔ وَكَذلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ [يوسف 6] اور اسی طرح خدا تمہیں برگزیدہ ( ممتاز ) کرے گا ۔ فَاجْتَباهُ رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ [ القلم 50] پھر پروردگار نے ان کو برگزیدہ کر کے نیکو کاروں میں کرلیا ۔ وَاجْتَبَيْناهُمْ وَهَدَيْناهُمْ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [ الأنعام 87] ان کو برگزیدہ بھی کیا تھا اور سیدھا رستہ بھی دکھا یا تھا ۔ ثُمَّ اجْتَباهُ رَبُّهُ فَتابَ عَلَيْهِ وَهَدى [ طه 122] پھر ان کے پروردگار نے ان کو نواز اتو ان پر مہر بانی سے توجہ فرمائی اور سیدھی راہ بتائی ۔ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ [ الشوری 13] جس کو چاہتا ہے اپنی بارگاہ کا برگزیدہ کرلیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرے اسے اپنی طرف رستہ دکھا دیتا ہے اس احتیاء کو دوسرے مقام پر اخلاص سے تعبیر فرمایا ہے ۔ إِنَّا أَخْلَصْناهُمْ بِخالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ [ ص 46] ہم نے ان کو ایک ( صفت ) خاص ( اخرت ) کے گھر کی یا سے ممتاز کیا تھا ۔- تلو - تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] - ( ت ل و ) تلاہ ( ن )- کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- خر - فَكَأَنَّما خَرَّ مِنَ السَّماءِ [ الحج 31] ، وقال تعالی: فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ [ سبأ 14] ، وقال تعالی: فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ [ النحل 26] ، فمعنی خَرَّ سقط سقوطا يسمع منه خریر، والخَرِير يقال لصوت الماء والرّيح وغیر ذلک ممّا يسقط من علوّ.- وقوله تعالی: خَرُّوا سُجَّداً [ السجدة 15] - ( خ ر ر ) خر - ( ن ) خر یر ا کے معنی کسی چیز کے آواز کے ساتھ نیچے گرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ - فَكَأَنَّما خَرَّ مِنَ السَّماءِ [ الحج 31] جب عصا گر پرا تب جنوں کو معلوم ہوا ۔ تو وہ گویا ایسا ہے جیسے آسمان سے گر پڑے ۔ فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ [ النحل 26] اور چھت ان پر ان کے اوپر سے گر پڑی الخریر پانی وغیرہ کی آواز کو کہتے ہیں جو اوپر سے گر رہاہو اور آیت کریمہ : ۔ - خَرُّوا سُجَّداً [ السجدة 15] تو سجدے میں گر پڑتے میں خرو ا کا لفظ دو معنوں پر دلالت کرتا ہے یعنی ( 1) گرنا اور ( 2 ) ان سے تسبیح کی آواز کا آنا ۔ اور اس کے بعد آیت سے تنبیہ کی ہے کہ ان کا سجدہ ریز ہونا اللہ تعالیٰ کی تسبیح کے ساتھ تھا نہ کہ کسی اور امر کے ساتھ ۔- سجد - السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات،- وذلک ضربان : سجود باختیار،- ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] ، أي : تذللوا له، - وسجود تسخیر،- وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15] - ( س ج د ) السجود - ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ )- سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری - جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا :- ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔- سجود تسخیر ی - جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15]- اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )- بكي - بَكَى يَبْكِي بُكًا وبُكَاءً ، فالبکاء بالمدّ : سيلان الدمع عن حزن وعویل، يقال إذا کان الصوت أغلب کالرّغاء والثغاء وسائر هذه الأبنية الموضوعة للصوت، وبالقصر يقال إذا کان الحزن أغلب، وجمع البَاكِي بَاكُون وبُكِيّ ، قال اللہ تعالی: خَرُّوا سُجَّداً وَبُكِيًّا [ مریم 58]- ( ب ک ی ) بکی - یبکی کا مصدر بکی وبکاء یعنی ممدود اور مقصور دونوں طرح آتا ہے اور اس کے معنی غم کے ساتھ آنسو بہانے اور رونے کے ہیں اگر آواز غالب ہو تو اسے بکاء ( ممدود ) کہا جاتا ہے جیسے ؎ رغاء وثغاء اور اس نوع کے دیگر اوزاں جو صوت کے لئے وضع کئے گئے ہیں اور اگر غم غالب ہو تو اسے بکی ( بالقصر ) کہا جاتا ہے الباکی رونے والا غم اور اندوہ سے آنسو بہانے والا اس کی جمع باکون وب کی آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ خَرُّوا سُجَّداً وَبُكِيًّا [ مریم 58] تو سجدے میں کر پڑتے اور روتے رہتے تھے ۔
آیت سجدہ قاری اور سامع دونوں کے لئے یکساں حکم رکھتی ہے - قول باری ہے (اذا یتلی علیھم ایات الرحمٰن خروا سجداً ویکیاً ۔ ان کا حال یہ تھا کہ جب رحمان کی آیات ان کو سنائی جاتیں تو روتے روتے سجدے میں گرجاتے تھے) اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ آیت سجدہ کو سننے والا اور اسے پڑھنے والا دونوں کی حیثیت یکساں ہے نیز یہ کہ سب پر سجدہ کرنا لازم ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے آیت سجدہ سن کر سجدہ کرنے والوں کی تعریف کی ہے ۔ نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے ایک مرتبہ جمعہ کے خطبہ کے دوران منبر پر سجدے کی آیت تلاوت فرمائی۔ اس کے بعد آپ منبر سے نیچے اترے اور سجدہ کیا نیز تمام حاضرین نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ کیا۔ عطیہ نے حضرت ابن عمر سے نیز سعید بن جبیر اور سعید بن المسیب سے روایت کی ہے کہ ان حضرات نے فرمایا ہے کہ جو لوگ آیت سجدہ سن لیں ان پر سجدہ فرض ہوتا ہے۔ ابو اسحاق نے سلیما ن بن حنظلہ شیبانی سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں۔” میں نے ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس سجدے کی آیت تلاوت کی۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا۔” سجدے اس شخص پر فرض ہے جو سجدے کے لئے بیٹھا ہو۔ “ سعید بن المسیب نے حضرت عثمان سے بھی اسی طرح کی روایت ک ی ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت عثمان نے اس شخص پر سجدہ واجب کردیا جو اس کے لئے بیٹھا ہو، اگر کوئی شخص سجدے کی آیت سن کر سجدہ کرنے کے لئے بیٹھا رہے تو اس سے حکم میں کوئی فرق نہیں پڑے گا اس لئے کہ سجدے کو واجب کرنے والا سبب تو آیت سجدہ کا سننا ہے۔ اس کے بعد نیت کی بن اپر اس کے وجوب کے حکم میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔- خشیت اللہ کی بنا پر رونے سے نما ز فاسد نہیں ہوتی - اس آیت میں یہ دلالت بھی موجود ہے کہ اللہ کے خوف سے نماز کے اندر رونے کی بنا پر نماز فاسد نہیں ہوتی۔
(٥٧) اور جن حضرات کا ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ، حضرت اسمعیل (علیہ السلام) ، حضرت اسحاق (علیہ السلام) ، حضرت یعقوب (علیہ السلام) ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ، حضرت ہارون (علیہ السلام) ، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ، حضرت زکریا (علیہ السلام) حضرت یحییٰ (علیہ السلام) ، حضرت ادریس (علیہ السلام) ، اسی طرح دیگر تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے نبوت و رسالت اور اسلام کے ساتھ خاص انعام فرمایا ہے یہ سب حضرت آدم (علیہ السلام) کی نسل میں سے تھے اور کچھ ان میں سے ان لوگوں کی نسل میں سے تھے جن کو ہم نے نوح (علیہ السلام) کے ساتھ ان کی اولاد میں سے کشتی میں سوار کیا تھا اور بعض ان میں سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد یعنی حضرت اسماعیل (علیہ السلام) و حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی اولاد میں سے تھے اور بعض ان میں سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی نسل یعنی حضرت یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائیوں کی اولاد میں سے تھے اور ان لوگوں میں سے جن کو ہم نے ایمان کے ساتھ سرفرازی عطا فرمائی اور اسلام اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کی توفیق کی بناء پر منتخب کیا وغیرہ جیسا کہ حضرت عبدالسلام وغیرہ جب ان حضرات کے سامنے اللہ تعالیٰ کی آیات جن میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا بھی ذکر ہوتا ہے تو سجدہ کرتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے خوف سے روتے ہوئے گر جاتے ہیں۔
آیت ٥٨ (اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ ) ” - سورۃ النساء کی آیت ٦٩ میں مُنْعَمْ عَلَیھِم لوگوں کے جن چار طبقات کا بیان ہے ‘ ان میں سے اعلیٰ ترین طبقہ کے افراد یعنی انبیاء کرام (علیہ السلام) کا یہاں اللہ کے انعامات کے حوالے سے تذکرہ فرمایا جا رہا ہے۔
29: یہ سجدے کی آیت ہے۔ جو کوئی شخص عربی میں یہ آیت پڑھے۔ یا سنے اس پر سجدہ تلاوت واجب ہے۔ْ