Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

حدود الہٰی کے محافظ ۔ نیک لوگوں کا خصوصا انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر کیا جو حدود الہٰی کے محافظ ، نیک اعمال کے نمونے بدیوں سے بچتے ہیں ۔ اب برے لوگوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ ان کے بعد کے زمانے والے ایسے ہوئے کہ وہ نمازوں تک سے بےپرواہ بن گئے اور جب نماز جیسے فریضے کی اہمیت کو بھلا بیٹھے تو ظاہر ہے کہ اور واہیات کی وہ کیا پرواہ کریں گے ؟ کیونکہ نماز تو دین کی بنیاد ہے اور تمام اعمال سے افضل وبہتر ہے ۔ یہ لوگ نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑگئے دنیا کی زندگی پر اطمینان سے ریجھ کئے انہیں قیامت کے دن سخت خسارہ ہوگا بڑے گھاٹے میں رہیں گے ۔ نماز کے ضائع کرنے سے مراد یا تو اسے بالکل ہی چھوڑنا بیٹھنا ہے ۔ اسی لئے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور بہت سے سلف خلف کا مذہب ہے کہ نماز کا تارک کافر ہے ۔ یہی ایک قول حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ہے کیونکہ حدیث میں ہے کہ بندے اور شرک کے درمیان نماز کا چھوڑنا ہے ۔ دوسری حدیث میں ہے کہ ہم میں اور ان میں فرق نماز کا ہے جس نے نماز چھوڑ دی وہ کافر ہوگیا ۔ اس مسئلہ کو تقصیل سے بیان کرنے کا یہ مقام نہیں ۔ یا نماز کے ترک سے مراد نماز کے وقتوں کی صحیح طور پر پابندی کا نہ کرنا ہے کیونکہ ترک نماز تو کفر ہے ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ قرآن کریم میں نماز کا ذکر بہت زیادہ ہے ، کہیں نمازوں میں سستی کرنے والوں کے عذاب کا بیان ہے ، کہیں نماز کی مداوت کا فرمان ہے ، کہیں محافظت کا ۔ آپ نے فرمایا ان سے مراد وقتوں میں سستی نہ کرنا اور وقتوں کی پابندی کرنا ہے ۔ لوگوں نے کہا ہم تو سمجھتے تھے کہ اس سے مراد نمازوں کا چھوڑ دینا اور نہ چھوڑنا ہے ۔ آپ نے فرمایا یہ تو کفر ہے ۔ حضرت مسروق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں پانچوں نمازوں کی حفاظت کرنے والا غافلوں میں نہیں لکھا جاتا ، ان کا ضائع کرنا اپنے آپ کو ہلاک کرنا ہے اور ان کا ضائع کرنا ان کے وقتوں کی پابندی نہ کرنا ہے ۔ خلیفۃ المسلمین امیرالمومنین حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا کہ اس سے مراد سرے سے نماز چھوڑ دینا نہیں بلکہ نماز کے وقت کو ضائع کر دینا ہے ۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ بدترین لوگ قریب بہ قیامت آئیں گے جب کہ اس امت کے صالح لوگ باقی نہ رہے ہوں گے اس وقت یہ لوگ جانوروں کی طرح کودتے پھاندتے پھریں گے ۔ عطابن ابو رباح رحمۃ اللہ علیہ یہی فرماتے ہیں کہ یہ لوگ آخری زمانے میں ہوں گے ۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ اس امت کے لوگ ہوں گے جو چوپایوں اور گدھوں کی مانند راستوں میں اچھل کود کریں گے اور اللہ تعالیٰ سے جو آسمان میں ہے بالکل نہ ڈریں گے اور نہ لوگوں سے شرمائیں گے ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ناخلف لوگ ساٹھ سال کے بعد ہوں گے جو نمازوں کو ضائع کر دیں گے اور شہوت رانیوں میں لگ جائیں گے اور قیامت کے دن خمیازہ بھگتیں گے ۔ پھر ان کے بعد وہ نالائق لوگ آئیں گے جو قرآن کی تلاوت تو کریں گے لیکن ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا ۔ یاد رکھو قاری تین قسم کے ہوتے ہیں مومن منافق اور فاجر ۔ راوی حدیث حضرت ولید سے جب ان کے شاگرد نے اس کی تفصیل پوچھی تو آپ نے فرمایا ایماندار تو اس کی تصدیق کریں گے ۔ نفاق والے اس پر عقیدہ نہ رکھیں گے اور فاجر اس سے اپنی شکم پری کرے گا ۔ ابن ابی حاتم کی ایک غریب حدیث میں ہے کہ حضرت مائی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اصحاب صفہ کے لیے جب کچھ خیرات بھجواتیں تو کہہ دیتیں کہ بربری مرد وعورت کو نہ دینا کیونکہ میں نے رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ یہی وہ ناخلف ہیں جن کا ذکر اس آیت میں ہے ۔ محمد بن کعب قرظی کا فرمان ہے کہ مراد اس سے مغرب کے بادشاہ ہیں جو بدترین بادشاہ ہیں ۔ حضرت کعب بن احبار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اللہ کی قسم میں منافقوں کے وصف قرآن کریم میں پاتا ہوں ۔ یہ نشے پینے والے ، نمازیں چھوڑنے والے ، شطرنج چوسر وغیرہ کھیلنے والے ، عشا کی نمازوں کے وقت سو جانے والے ، کھانے پینے میں مبالغہ اور تکلف کرکے پیٹو بن کرکھانے والے ، جماعتوں کو چھوڑنے والے ۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں مسجدیں ان لوگوں سے خالی نظر آتی ہیں اور بیٹھکیں بارونق بنی ہوئی ہیں ۔ ابو شہب عطا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں حضرت داؤد علیہ السلام پر وحی آئی کہ اپنے ساتھیوں کو ہوشیار کر دے کہ وہ اپنی نفسانی خواہشوں سے باز رہیں جن کے دل خواہشوں کے پھیر میں رہتے ہیں ، میں ان کی عقلوں پر پردہ ڈال دیتا ہوں جب کوئی بندہ شہوت میں اندھا ہوجاتا ہے تو سب سے ہلکی سزا میں اسے یہ دیتا ہوں کہ اپنی اطاعت سے اسے محروم کر دیتا ہوں ۔ مسند احمد میں ہے مجھے اپنی امت میں دو چیزوں کا بہت ہی خوف ہے ایک تو یہ کہ لوگ جھوٹ کے اور بناؤ کے اور شہوت کے پیچھے پڑ جائیں گے اور نمازوں کو چھوڑ بیٹھیں گے ، دوسرے یہ کہ منافق لوگ دنیا دکھاوے کو قرآن کے عامل بن کر سچے مومنوں سے لڑیں جھگڑیں گے ۔ غیا کے معنی خسران اور نقصان اور برائی کے ہیں ۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ غی جہنم کی ایک وادی کا نام ہے جو بہت گہری ہے اور نہایت سخت عذابوں والی ۔ اس میں خون پیپ بھرا ہوا ہے ۔ ابن جریر میں ہے لقمان بن عامر فرماتے ہیں میں حضرت ابو امامہ صدی بن عجلان باہلی رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور ان سے التماس کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی حدیث مجھے سنائیں ۔ آپ نے فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر دس اوقیہ کے وزن کا کوئی پتھر جہنم کے کنارے سے جہنم میں پھنکا جائے تو وہ پچاس سال تک تو جہنم کی تہ میں نہیں پہنچ سکتا ۔ پھر وہ غی اور اثام میں پہنچے گا ۔ غی اور اثام جہنم کے نیچے کے دو کنویں ہیں جہاں دوزخیوں کا لہو پیپ جمع ہوتا ہے ۔ غی کا ذکر آیت ( فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا 59؀ۙ ) 19-مريم:59 ) میں ہے اور اثام کا ذکر آیت ( وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا 68؀ۙ ) 25- الفرقان:68 ) میں ہے اس حدیث کو فرمان رسول سے روایت کرنا منکر ہے اور یہ حدیث کی رو سے بھی غریب ہے ۔ پھر فرماتا ہے ہاں جو ان کاموں سے توبہ کرلے یعنی نمازوں کی سستی اور خواہش نفسانی کی پیروی چھوڑ دے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ کو قبول فرمالے گیا اس کی عاقبت سنوار دے گا اسے جہنم سے بچا کر جنت میں پہنچائے گا ، توبہ اپنے سے پہلے کے تمام گناہوں کو معاف کرا دیتی ہے ۔ اور حدیث میں ہے کہ توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے بےگناہ ۔ یہ لوگ جو نیکیاں کریں ان کے اجر انہیں ملیں گے کسی ایک نیکی کا ثواب کم نہ ہوگا ۔ توبہ سے پہلے کے گناہوں پر کوئی پکڑ نہ ہوگی ۔ یہ ہے کرم اس کریم کا اور یہ ہے حلم اس حلیم کا کہ توبہ کے بعد اس گناہ کو بالکل مٹا دیتا ہے ناپید کر دیتا ہے ۔ سورہ فرقان میں گناہوں کا ذکر فرما کر ان کی سزاؤں کا بیان کر کے پھر استثنا کیا اور فرمایا کہ اللہ غفور ورحیم ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

59۔ 1 انعام یافتہ بندگان الٰہی کا تذکرہ کرنے کے بعد ان لوگوں کا ذکر کیا جا رہا ہے، جو ان کے برعکس اللہ کے احکام سے غفلت و اعراض کرنے والے ہیں۔ نماز ضائع کرنے سے مراد یا تو بالکل نماز کا ترک ہے جو کفر ہے یا ان کے اوقات کو ضائع کرنا ہے یعنی وقت پر نماز نہ پڑھنا، جب جی چاہا، نماز پڑھ لی، یا بلا عذر اکٹھی کر کے پڑھنا کبھی دو ، کبھی چار، کبھی ایک اور کبھی پانچوں نمازیں۔ یہ بھی تمام صورتیں نماز ضائع کرنے کی ہیں جس کا مرتکب سخت گناہ گار اور آیت میں بیان کردہ وعید کا سزاوار ہوسکتا ہے۔ غیا کے معنی ہلاکت، انجام بد کے ہیں یا جہنم کی ایک وادی کا نام ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٥] نماز کی اہمیت اور تعلق باللہ :۔ ارکان اسلام میں سے سب سے اہم رکن نماز ہے۔ جس سے ایک مسلمان کا اللہ کے ساتھ تعلق قائم رہتا ہے۔ اگر نماز چھوڑ دی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ سے انسان کا تعلق منقطع ہوگیا۔ اسی لئے آپ نے فرمایا کہ جس نے نماز جان بوجھ کر چھوڑی وہ کافر ہوگیا اور اسی لئے نماز کو باقاعدگی کے ساتھ ادا کرنے کی کتاب و سنت میں بار بار تاکید آئی ہے۔ حتیٰ کہ نماز نہ مریض کو معاف ہوسکتی ہے نہ سفر میں اور نہ میدان جنگ کے مختلف حالات میں حالات کے مطابق شریعت نے رخصتیں تو دی ہیں مگر نماز کو کسی بھی حالت میں ترک نہیں کیا جاسکتا۔- نمازوں کے ضائع کرنے سے مراد صرف یہ نہیں کہ انہوں نے نماز چھوڑ دی تھی، بلکہ نماز کو جماعت سے ادا نہ کرنا۔ بروقت ادا نہ کرنا، سستی اور بےدلی سے ادا کرنا، بغیر سوچے سمجھے جلد جلد ٹھونگیں مار لینا وغیرہ وغیرہ سب باتیں نماز کو ضائع کرنے کے ضمن میں آتی ہیں۔- [٥٥ـ۔ الف ] غیّ کا مفہوم :۔ اللہ سے تعلق منقطع ہوجانے کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان اپنی خواہشات کا پیروکار اور غلام بن جاتا ہے اور یہی کچھ شیطان چاہتا ہے اور ایسے شخص کے لئے گمراہی کی راہیں کھلتی جاتی ہیں اور بعض لوگوں نے اس کا یوں ترجمہ کیا ہے کہ عنقریب یہ لوگ غیّ میں ڈالے جائیں گے۔ حدیث میں ہے کہ غیّ دوزخ میں ایک وادی یا نالہ ہے جس میں دوزخیوں کا لہو اور پیپ بہے گا اور اس میں زانی، شراب خور، سود خور اور ماں باپ کو ستانے والے ڈالے جائیں گے۔ گویا نمازیں ضائع کرنے والے بھی اسی وادی میں ڈالے جائیں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَخَــلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ : لفظ ” خَلْفٌ“ لام کے سکون کے ساتھ ” اولاد “ ، واحد و جمع دونوں کے لیے ایک ہی لفظ آتا ہے اور اکثر بری اولاد اور مذمت کے لیے استعمال ہوتا ہے اور لام کے فتحہ کے ساتھ ” خَلَفٌ“ ” جانشین “ کے معنی میں آتا ہے، وہ چاہے اولاد ہو یا کوئی اور۔ اس کا استعمال اکثر مدح و تعریف کے لیے ہوتا ہے اور دونوں لفظ ایک دوسرے کی جگہ بھی استعمال ہوتے ہیں۔- اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ : نماز ضائع کرنے میں سب سے پہلے اس عقیدے کی ایجاد ہے کہ ایمان صرف دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کا نام ہے اور ان دونوں چیزوں سے ایمان مکمل ہوجاتا ہے۔ عمل کرے تو اچھا ہے، درجہ بڑھ جائے گا، ورنہ ایمان میں نہ کمی ہوتی ہے نہ اضافہ، جب کہ اللہ تعالیٰ نے نماز کو ایمان قرار دیا ہے، فرمایا : (وَمَا كَان اللّٰهُ لِـيُضِيْعَ اِيْمَانَكُمْ ) [ البقرۃ : ١٤٣] ” اور اللہ کبھی ایسا نہیں کہ تمہارا ایمان ضائع کر دے۔ “ مگر ان لوگوں نے نماز کو ایمان ماننے سے انکار کردیا، پڑھنے والا بھی مومن، نہ پڑھنے والا بھی، جو انکار نہ کرے پکا مومن۔ پھر اس عقیدے کی ایجاد کہ نماز تو دل کی ہوتی ہے، قیام، سجدے اور رکوع کی کیا ضرورت ہے اور اسے طریقت اور معرفت قرار دینا نماز ضائع کرنے کا عام بہانہ ہے۔ - اس کے علاوہ نماز کو صحیح وقت پر نہ پڑھنا، یا اسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق نہ پڑھنا، کبھی پڑھنا، کبھی نہ پڑھنا، یا سرے سے اسے ترک کردینا، سب نماز ضائع کرنے کی صورتیں ہیں۔ نماز ترک کردینے سے انسان کے پاس اسلام کی آخری عملی شہادت بھی ختم ہوجاتی ہے۔ اس لیے امام احمد کے قول اور امام شافعی کے ایک قول کے مطابق نماز کا تارک کافر ہے۔ یہاں تفصیل کا موقع نہیں، دیکھیے سورة توبہ کی آیات (٥) اور (١١) کی تفسیر۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک حدیث اس بحث کے لیے فیصلہ کن نظر آتی ہے، ابو امامہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَتُنْتَقَضَنَّ عُرَی الإِْسْلَامِ عُرْوَۃً عُرْوَۃً فَکُلَّمَا انْتَقَضَتْ عُرْوَۃٌ تَشَبَّثَ النَّاس بالَّتِيْ تَلِیْھَا فَأَوَّلُھُنَّ نَقْضًا الْحُکْمُ وَ آخِرُھُنَّ الصَّلَاۃُ ) [ صحیح ابن حبان، التاریخ، باب ذکر الأخبار بأن أول ما یظھر۔۔ : ٦٧١٥۔ مسند أحمد : ٥؍٢٥١، ح : ٢٢٢٢٢ ] ” اسلام کی کڑیاں ایک ایک کرکے ٹوٹتی جائیں گی، جب بھی کوئی کڑی ٹوٹے گی تو لوگ اس کے بعد والی کو مضبوطی سے پکڑ لیں گے، چناچہ سب سے پہلے ٹوٹنے والی کڑی ” حکم “ ہوگی (یعنی اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلے کرنا) اور سب سے آخری کڑی نماز ہوگی۔ “ - وَاتَّـبَعُوا الشَّهَوٰتِ : انسان میں کئی شہوات و خواہشات پائی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر خواہش کی تکمیل کے لیے جائز طریقے بتائے ہیں، مثلاً عبادت کی جبلی خواہش پوری کرنے کے لیے اپنے ایک ہی رب اللہ تعالیٰ کی عبادت اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طریقے کے مطابق کرنا، جنسی خواہش کے لیے نکاح کرنا اور لونڈیاں رکھنا۔ مالی حرص کے لیے جائز طریقے سے مال کمانا، خرچ کرنا اور اس کی زکاۃ دینا، غصے کی جبلت کا رخ کفار اور دشمنان اسلام کے ساتھ جہاد کی طرف موڑنا، غرض ہر فطری جذبے کو پورا کرنے کا سامان بھی فرمایا اور اللہ کے حکم سے تجاوز پر حد بھی نافذ فرمائی۔ شرک کو ناقابل معافی جرم قرار دیا، زنا پر حد رکھی، قوم لوط کے عمل کو حرام قرار دیا، سود کو حرام قرار دیا، ڈاکے اور چوری کی حد مقرر کی، قتل یا زخمی کرنے والوں پر قصاص یا دیت لازم فرمائی۔ پہلے انبیاء کے نالائق جانشینوں نے جس طرح اللہ کے احکام کی پیروی کے بجائے اپنی خسیس خواہشات کی پیروی کی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیش گوئی کے مطابق ہماری امت کے خواہش پرستوں نے بھی وہی کام کیا، بلکہ انھوں نے اپنے پاس سے ایسے فقہی ضابطے بنائے اور انھیں اللہ کا حکم باور کروایا کہ جن سے اللہ کی حدود سرے سے باطل ہوگئیں۔ ساتھ ہی ہر حرام کام کی سزا سے بچنے کے لیے اس کا نام بدل دیا، یا اس کی حد سے بچنے کا حیلہ ایجاد کردیا۔ وحدت الوجود اور تصور شیخ کے شرکیہ عقیدے اور عمل کو طریقت اور معرفت کا خوش نما نام دے لیا۔ زنا کی سزا سے بچنے کے لیے کہہ دیا کہ اجرت پر لا کر عورت سے زنا کرنے پر حد نہیں۔ زنا کا نام حلالہ اور متعہ رکھ دیا۔ ماں، بہن، بیٹی اور دوسری محرمات سے، یہ جانتے ہوئے کہ حرام ہیں، نکاح کرکے زنا کرے تو حد معاف قرار دی۔ کانوں اور آنکھوں کے زنا کو سماع، روح کی غذا یا آرٹ اور فنون لطیفہ کہہ دیا۔ سود حلال کرلیا مگر نام اس کا منافع رکھ دیا۔ دار الحرب میں سود کو بالکل ہی جائز قرار دے لیا۔ جان بوجھ کر زکوٰۃ سے بچنے کے لیے کوئی بھی حیلہ کرنا جائز کردیا اور کہہ دیا کہ یہ مکروہ بھی نہیں۔ کوئی خوبصورت لڑکی پسند آجائے اور جھوٹے گواہ بھگتا کر قاضی سے اپنے حق میں فیصلہ کروا کر اس سے زنا کرلے تو اسے اللہ کے ہاں بھی گرفت سے بری قرار دیا۔ زنا پر پکڑا جائے، چار گواہ بھی بھگت جائیں مگر زانی کے صرف یہ کہہ دینے سے کہ یہ میری بیوی ہے، حد ختم کردی، خواہ وہ بیوی ہونے کا کوئی ثبوت بھی پیش نہ کرسکے اور خواہ وہ عورت چیختی چلاتی رہے کہ میں اس کی بیوی نہیں بلکہ فلاں کی بیوی ہوں۔ انگور اور کھجور کے سوا کسی بھی چیز سے بنی ہوئی شراب حلال قرار دی اور نشہ آنے کے باوجود بھی اس سے حد ساقط کردی اور نام بدل کر نبیذ، طلا یا کوئی اور رکھ لیا۔ قتل جان بوجھ کر کرے مگر تیز دھار آلے سے نہ کرے، یا آگ اور فائر سے نہ کرے تو قصاص ختم کردیا، خواہ جان بوجھ کر اس سے بدفعلی کرکے مار دے، یا پتھروں سے مار دے، یا برف کے بلاک میں رکھ کر یا ڈبو کر مار دے، یا اسے قید کرکے بھوکا مار دے، یا دیوار میں چن کر مار دے، قصاص ختم کردیا، صرف دیت لی جاسکتی ہے۔ چوری شہادتوں - سے ثابت ہوجائے مگر صرف چور کے دعویٰ کردینے سے کہ میں اس کا مالک ہوں، خواہ وہ مالک ہونے کی کوئی دلیل بھی نہ دے، حد موقوف کردی گئی۔ غرض یہود و نصاریٰ اور مشرکین کے ہاں جان، مال اور عزت و آبرو اس قدر برباد نہیں تھی جس قدر مسلمانوں نے خواہش پرستی میں آ کر اسے برباد کیا اور نام اس کا قوانین اسلام رکھ دیا۔ ان لوگوں نے تو یہ سب کچھ حیلے ایجاد کرکے کیا مگر موجودہ اکثر مسلم حکمرانوں نے حیلے کا تکلف بھی چھوڑ دیا اور صاف الفاظ میں حکم الٰہی کو وحشیانہ کہہ کر اسلام کی آخری کڑی نماز سے بھی فارغ ہوگئے۔ غرض رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وہ بات سچی ہوگئی : ( لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَنْ قَبْلَکُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتّٰی لَوْ سَلَکُوْا حُجْرَ ضَبٍّ لَسَلَکْتُمُوْہُ ) [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب نزول عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) : ٣٤٥٦، عن أبي سعید (رض) ]” تم اپنے سے پہلوں کے طریقوں پر چل نکلو گے (جس طرح) بالشت بالشت کے ساتھ اور ہاتھ ہاتھ کے ساتھ (برابر ہوتا ہے) حتیٰ کہ اگر وہ سانڈے کے بل میں داخل ہوئے ہیں تو تم بھی اس میں ضرور داخل ہو گے۔ “ نتیجہ مسلمانوں کی غلامی اور اللہ کے دشمنوں کے ان پر مسلط ہونے کی صورت میں سب کے سامنے ہے، جسے اللہ نے ” غَیًّا “ (گمراہی) فرمایا ہے۔ علاج اس کا بھی وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں بیان فرمایا ہے۔- فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا : ” گمراہی کو ملیں گے “ کا مطلب یہ ہے کہ دنیا و آخرت دونوں میں جنت کی راہ نہیں پاسکیں گے اور اس سے بھٹکے ہی رہیں گے۔ ابن عباس (رض) نے ” غَيًّا “ کی تفسیر خسارا فرمائی ہے۔ [ طبري بسند ثابت ] ” غَيًّا “ کی تفسیر جہنم کی ایک وادی یا کنواں صحیح سند کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یا ابن مسعود (رض) سے ثابت نہیں۔ ہاں، یہ درست ہے کہ ساری کی ساری جہنم ہی گمراہی کا انجام بد ہے، جسے مجرم جا ملیں گے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - پھر ان (مذکورین) کے بعد (بعض) ایسے ناخلف پیدا ہوئے جنہوں نے نماز کو برباد کیا (خواہ اعتقاد کہ انکار کیا یا عملاً کہ اس کے ادا کرنے میں یا حقوق و آداب ضروریہ میں کوتاہی کی) اور (نفسانی جائز) خواہشوں کی پیروی کی (جو ضروری طاقت سے غافل کرنے والی تھیں) سو یہ لوگ عنقریب (آخرت میں) خرابی دیکھیں گے (خواہ ابدی ہو یا غیر ابدی) ہاں مگر جس نے ( کفر و معصیت سے) توبہ کرلی (اور مطلب کفر سے توبہ کرنے کا یہ ہے کہ) ایمان لے آیا اور (معصیت سے توبہ کرنا یہ ہے کہ) نیک کام کرنے لگا سو یہ لوگ (بلاخرابی دیکھے) جنت میں جاویں گے اور (جزا ملنے کے وقت) ان کا ذرا نقصان نہ کیا جاوے گا (یعنی ہر نیک عمل کی جزا ملے گی یعنی) ان ہمیشہ رہنے کے باغوں میں (جاویں گے) جن کا رحمٰن نے اپنے بندوں سے غائبانہ وعدہ فرمایا ہے (اور) اس کے وعدہ کی ہوئی چیز کو یہ لوگ ضرور پہنچیں گے اس (جنت) میں وہ لوگ کوئی فضول بات نہ سننے پاویں گے (کیونکہ وہاں فضول بات ہی نہ ہوگی) بجز (فرشتوں اور ایک دوسرے کے) سلام (کرنے) کے (اور ظاہر ہے کہ سلام سے بہت ہی خوشی اور راحت ہوتی ہے تو وہ فضول نہیں) اور ان کو کھانا صبح و شام ملا کرے گا (یعنی یہ تو معین طور پر ہوگا اور یوں دوسرے وقت بھی اگر چاہیں گے ملے گا) یہ جنت (جس کا ذکر ہوا) ایسی ہے کہ ہم اپنے بندوں میں سے اس کا مالک ایسے لوگوں کو بناویں گے جو کہ خدا سے ڈرنے والے ہوں (جو مبنیٰ ہے ایمان اور عمل صالح کا)- معارف ومسائل - خَلف، یہ لفظ بسکون لام برے قائم بقام بری اولاد کے لئے اور بفتح لام اچھے قائم مقام اور اچھی اولاد کے لئے استعمال ہوتا ہے (مظہری) مجاہد کا قول ہے کہ یہ واقعہ قرب قیامت میں صلحاء امت کے ختم ہوجانے کے بعد ہوگا کہ نماز کی طرف التفات نہ رہے گا اور فسق و فجور کھلم کھلا ہونے لگے گا۔- نماز بےوقت یا بلا جماعت پڑھنا اضاعت نماز اور گناہ عظیم ہے :- اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ ، نماز کے ضائع کرنے سے مراد جمہور مفسرین عبداللہ بن مسعود، نخعی، قاسم، مجاہد، ابراہیم، عمر بن عبدالعزیز وغیرہ کے نزدیک نماز کو اس وقت سے موخر کر کے پڑھنا ہے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ نماز کے آداب و شرائط میں سے کسی میں کوتاہی کرنا جس میں وقت بھی داخل ہے اضاعت نماز میں شامل ہے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اضاعت صلوٰۃ سے مراد بےجماعت کے گھر میں نماز پڑھ لینا ہے (قرطبی، بحر محیط)- حضرت فاروق اعظم نے اپنے سب عمال حکومت کو یہ ہدایت نامہ لکھ کر بھیجا تھا :- ان اھم امرکم عندی الصلوٰة۔ فمن ضیعھا فھو لما سواھا اضیع (مؤ طاء مالک)- میرے نزدیک تمہارے سب کاموں میں سب سے زیادہ اہم نماز ہے تو جو شخص نماز کو ضائع کرتا ہے وہ دوسرے تمام احکام دین کو بھی اور زیادہ ضائع کرے گا۔- حضرت حذیفہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز کے آداب اور تعدیل ارکان میں کوتاہی کرتا ہے تو اس سے دریافت کیا کہ تم کب سے یہ نماز پڑھتے ہو، اس نے کہا کہ چالیس سال سے، حضرت حذیفہ نے فرمایا کہ تم نے ایک بھی نماز نہیں پڑھی اور اگر تم اسی طرح نمازیں پڑھتے ہوئے مر گئے تو یاد رکھو کہ فطرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف مرو گے۔- ترمذی میں حضرت ابو مسعود انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو نماز میں اقامت نہ کرے۔ مراد یہ ہے کہ جو رکوع اور سجدہ میں اور رکوع سے کھڑے ہو کر یا دو سجدوں کے درمیان سیدھا کھڑا ہونا یا سیدھا بیٹھنے کا اہتمام نہ کرے اس کی نماز نہیں ہوتی۔- خلاصہ یہ ہے کہ جس شخص نے وضو اور طہارت میں کوتاہی کی یا نماز کے رکوع سجدے میں یا ان دونوں کے درمیان سیدھا کھڑے ہونے بیٹھنے میں جلد بازی کی اس نے نماز کو ضائع کردیا۔- حضرت حسن نے اضاعت صلوٰة اور اتباع شہوات کے بارے میں فرمایا کہ مسجدوں کو معطل کردیا اور صنعت و تجارت اور لذات و خواہشات میں مبتلا ہوگئے۔- امام قرطبی ان روایات کو نقل کر کے فرماتے ہیں کہ آج اہل علم اور معروف بالصلاح لوگوں میں ایسے آدمی پائے جاتے ہیں جو نماز کے آداب سے غافل، محض نقل و حرکت کرتے ہیں۔ یہ چھٹی ہجری کا حال تھا جس میں ایسے لوگ خال خال پائے جاتے تھے آج یہ صورت حال نمازیوں میں عام ہوگئی، الا ماشاء اللہ۔ نعوذ باللہ من شرور انفسنا واعمالنا - وَاتَّـبَعُوا الشَّهَوٰتِ ، شہوات سے مراد دنیا کی وہ لذتیں ہیں جو انسان کو اللہ کی یاد اور نماز سے غافل کریں، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ شاندار مکانوں کی تعمیر اور ایسی شاندار سواریوں کی سواری جس پر لوگوں کی نظریں اٹھیں، اور ایسا لباس جس میں عام لوگوں میں امتیاز کی شان نظر آئے شہوات مذکورہ میں داخل ہیں (قرطبی)- فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا، لفظ غیّ عربی زبان میں رشاد کے بالمقابل ہے ہر بھلائی اور خیر کو رشاد اور ہر برائی اور شر کو غیّ کہا جاتا ہے حضرت عبداللہ بن مسعود سے منقول ہے کہ غیّ جہنم کے ایک غار کا نام ہے جس میں سارے جہنم سے زیادہ طرح طرح کے عذاب جمع ہیں۔- ابن عباس نے فرمایا کہ غیّ جہنم کے ایک غار کا نام ہے جس سے جہنم بھی پناہ مانگتی ہے اس کو اللہ تعالیٰ نے اس زنا کار کے لئے تیار کیا ہے جو اپنی زنا کاری پر مصر اور عادی ہے اور اس شراب خور کے لئے جو شراب کا عادی ہے اور اس سود خور کے لئے جو سود خوری سے باز نہیں آتا اور ان لوگوں کے لئے جو ماں باپ کی نافرمانی کریں اور جھوٹی شہادت دینے والوں کے لئے اور اس عورت کے لئے جو کسی دوسرے بچہ کو اپنے شوہر کا بچہ بنا دے۔ (قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَخَــلَفَ مِنْۢ بَعْدِہِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَاتَّـبَعُوا الشَّہَوٰتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا۝ ٥٩ۙ- خلف - والخِلافةُ النّيابة عن الغیر إمّا لغیبة المنوب عنه، وإمّا لموته، وإمّا لعجزه، وإمّا لتشریف المستخلف . وعلی هذا الوجه الأخير استخلف اللہ أولیاء ه في الأرض، قال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ فِي الْأَرْضِ [ فاطر 39] ،- ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے )- الخلافۃ کے معنی دوسرے کا نائب بننے کے ہیں ۔ خواہ وہ نیابت اس کی غیر حاضری کی وجہ سے ہو یا موت کے سبب ہو اور ریا اس کے عجز کے سبب سے ہوا دریا محض نائب کو شرف بخشے کی غرض سے ہو اس آخری معنی کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء کو زمین میں خلافت بخشی ۔ ہے چناچہ فرمایا :۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ الْأَرْضِ [ الأنعام 165] اور وہی تو ہے جس نے زمین میں تم کو اپنا نائب بنایا ۔- خُلف ( عهد شكني)- والخُلْفُ : المخالفة في الوعد . يقال : وعدني فأخلفني، أي : خالف في المیعاد بما أَخْلَفُوا اللَّهَ ما وَعَدُوهُ [ التوبة 77] ، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يُخْلِفُ الْمِيعادَ [ الرعد 31] - ( خ ل ف ) خُلف - الخلف کے معنی وعدہ شکنی کے میں محاورہ ہے : اس نے مجھ سے وعدہ کیا مگر اسے پورا نہ کیا ۔ قرآن میں ہے ۔ بِما أَخْلَفُوا اللَّهَ ما وَعَدُوهُ [ التوبة 77] کہ انہوں نے خدا سے جو وعدہ کیا تھا اسکے خلاف کیا ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يُخْلِفُ الْمِيعادَ [ الرعد 31] بیشک خدا خلاف وعدہ نہیں کرتا ۔ - ضيع - ضَاعَ الشیءُ يَضِيعُ ضَيَاعاً ، وأَضَعْتُهُ وضَيَّعْتُهُ. قال تعالی: لا أُضِيعُ عَمَلَ عامِلٍ مِنْكُمْ [ آل عمران 195] - ( ض ی ع ) ضاع - ( ض ) الشیئ ضیاعا کے معنی ہیں کسی چیز کا ہلاک اور تلف کرنا ۔ قرآن میں ہے : لا أُضِيعُ عَمَلَ عامِلٍ مِنْكُمْ [ آل عمران 195] اور ( فرمایا ) کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کرتا ۔- صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك - قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] ، - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - شها - أصل الشَّهْوَةِ : نزوع النّفس إلى ما تریده، وذلک في الدّنيا ضربان : صادقة، وکاذبة، فالصّادقة : ما يختلّ البدن من دونه كشهوة الطّعام عند الجوع، والکاذبة : ما لا يختلّ من - دونه، وقد يسمّى الْمُشْتَهَى شهوة، وقد يقال للقوّة التي تَشْتَهِي الشیء : شهوة، وقوله تعالی:- زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَواتِ [ آل عمران 14] ، يحتمل الشّهوتین، وقوله : اتَّبَعُوا الشَّهَواتِ [ مریم 59] ، فهذا من الشّهوات الکاذبة، ومن الْمُشْتَهِيَاتِ المستغنی عنها، وقوله في صفة الجنّة : وَلَكُمْ فِيها ما تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ [ فصلت 31] ، وقوله : فِي مَا اشْتَهَتْ أَنْفُسُهُمْ- [ الأنبیاء 102] ، وقیل : رجل شَهْوَانٌ ، وشَهَوَانِيٌّ ، وشیء شَهِيٌّ.- ( ش ھ و ) الشھوہ - کے معنی ہیں نفس کا اس چیز کی طرف کھینچ جاتا جسے وہ چاہتا ہے و خواہشات دنیوی دوقسم پر ہیں صادقہ اور کاذبہ سچی خواہش وہ ہے جس کے حصول کے بغیر بدن کا نظام مختل ہوجاتا ہے جیسے بھوک کے وقت کھانے کی اشتہا اور جھوٹی خواہش وہ ہے جس کے عدم حصول سے بدن میں کوئی خرابی پیدا نہیں ہوتی ۔ پھر شھوۃ کا لفظ کبھی اس چیز پر بولاجاتا ہے ۔ جس کی طرف طبیعت کا میلان ہو اور کبھی خود اس قوت شہویہ پر اور آیت کریمہ ؛زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَواتِ [ آل عمران 14] لوگوں کو ان کی خواہشوں کی چیزیں ( بڑی ) زینت دار معلوم وہوتی ہیں۔ میں شہو ات سے دونوں قسم کی خواہشات مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ : اتَّبَعُوا الشَّهَواتِ [ مریم 59] اور خواہشات نفسانی کے پیچھے لگ گئے ۔ میں جھوٹی خواہشات مراد ہیں یعنی ان چیزوں کی خواہش جن سے استغناء ہوسکتا ہو ۔ اور جنت کے متعلق فرمایا : وَلَكُمْ فِيها ما تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ [ فصلت 31] اور وہاں جس ( نعمت کو تمہارا جی چاہے گا تم کو ملے گا ۔ فِي مَا اشْتَهَتْ أَنْفُسُهُمْ [ الأنبیاء 102] اور جو کچھ ان جی چاہے گا اس میں ۔۔۔ رجل شھوان وشھوانی خواہش کا بندہ شمئ لذیز چیز ۔ مرغوب شے ۔ - غوی - الغَيُّ : جهل من اعتقاد فاسد، وذلک أنّ الجهل قد يكون من کون الإنسان غير معتقد اعتقادا لا صالحا ولا فاسدا، وقد يكون من اعتقاد شيء فاسد، وهذا النّحو الثاني يقال له غَيٌّ. قال تعالی: ما ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوى[ النجم 2] ، وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِّ [ الأعراف 102] . وقوله : فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا[ مریم 59] ، أي : عذابا، فسمّاه الغيّ لمّا کان الغيّ هو سببه، وذلک کتسمية الشیء بما هو سببه، کقولهم للنّبات ندی .- وقیل معناه : فسوف يلقون أثر الغيّ وثمرته . قال :- وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء 91] ، وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء 224] ، إِنَّكَ لَغَوِيٌّ مُبِينٌ [ القصص 18] ، وقوله : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوى- [ طه 121] ، أي : جهل، وقیل : معناه خاب نحو قول الشاعر :- ومن يغو لا يعدم علی الغيّ لائما - «2» وقیل : معنی ( غَوَى) فسد عيشُه . من قولهم :- غَوِيَ الفصیلُ ، وغَوَى. نحو : هوي وهوى، وقوله : إِنْ كانَ اللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُغْوِيَكُمْ- [هود 34] ، فقد قيل : معناه أن يعاقبکم علی غيّكم، وقیل : معناه يحكم عليكم بغيّكم . وقوله تعالی: قالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنا هؤُلاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنا أَغْوَيْناهُمْ كَما غَوَيْنا تَبَرَّأْنا إِلَيْكَ [ القصص 63] ، إعلاما منهم أنّا قد فعلنا بهم غاية ما کان في وسع الإنسان أن يفعل بصدیقه، فإنّ حقّ الإنسان أن يريد بصدیقه ما يريد بنفسه، فيقول : قد أفدناهم ما کان لنا وجعلناهم أسوة أنفسنا، وعلی هذا قوله تعالی: فَأَغْوَيْناكُمْ إِنَّا كُنَّا غاوِينَ [ الصافات 32] ، فَبِما أَغْوَيْتَنِي [ الأعراف 16] ، وقال : رَبِّ بِما أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ [ الحجر 39] .- ( غ و ی ) الغی - ۔ اس جہالت کو کہتے ہیں جو غلطاعتقاد پر مبنی ہو ۔ کیونک جہالت کبھی تو کسی عقیدہ پر مبنی ہوتی ہے اور کبھی عقیدہ کو اس میں داخل نہیں ہوتا پہلی قسم کی جہالت کا نام غی ) گمراہی ہے قرآن پاک میں ہے : ما ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوى[ النجم 2] کہ تمہارے رفیق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) نہ رستہ بھولے ہیں اور نہ بھٹکے ہیں ۔ وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِّ [ الأعراف 102] اور ان ( کفار ) کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچے جاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا[ مریم 59] سو عنقریب ان کو گمراہی ( کی سزا ) ملے گی ۔ میں غی سے عذاب مراد ہے اور عذاب کو غی اس لئے کہاجاتا ہے کہ گمراہی عذاب کا سبب بنتی ہے لہذا - عذاب کو غی کہنا مجازی ہے یعنی کسی شے کو اس کے سبب نام سے موسوم کردینا جیسا کہ نبات کو ندی ( طرادت ) کہہ دیتے ہیں ۔ بعض نے آیت کے یہ معنی کہتے ہیں کہ یہ لوگ عنقریب ہی اپنی گمراہی کا نتیجہ اور ثمرہ پالیں گے مگر مآل کے لحاظ سے دونوں معنی ایک ہی ہیں ۔ غاو بھٹک جانے والا گمراہ جمع غادون وغاوین جیسے فرمایا : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء 91] اور دوزخ گمراہوں کے سامنے لائی جائے گی ۔ وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء 224] اور شاعروں کی پیروی گمرا ہلوگ کیا کرتے ہیں ۔ ( الغوی ۔ گمراہ غلط رو ۔ جیسے فرمایا :إِنَّكَ لَغَوِيٌّ مُبِينٌ [ القصص 18] کہ تو تو صریح گمراہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوى[ طه 121] اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا ( تو وہ اپنے مطلوب سے ) بےراہ ہوگئے ۔ میں غویٰ کے معنی یہ ہیں ک آدم نے جہالت کا ارتکاب کیا اور بعض نے اس کے معنی خاب کئ ہیں یعنی انہوں نے سراسر نقصان اٹھایا ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) (334) ومن یغولا بعدم علی الغی لائما اور اگر ناکام ہوجائے تو ناکامی پر بھی ملامت کرنے والون کی کمی نہیں ہے ؛بعض نے غوی کے معنی ففدعیشہ کئے ہیں یعنی اس کی زندگی تباہ ہوگئی اور یہ غوی الفصیل وغویٰ جیسے ھویٰ وھوی ٰ ۔ سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں اونٹ کے بچے نے بہت زیادہ دودھ پی لیا جس سے اسے بدہضمی ہوگئی اور آیت کریمہ : إِنْ كانَ اللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُغْوِيَكُمْ [هود 34] اور اگر خدا یہ چاہے کہ تمہیں گمراہ کرے ۔ میں یغویکم سے مراد گمراہی کی سزا دینے کے ہیں اور بعض نے اس کے معنی گمراہی کا حکم لگانا بھی کئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : قالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنا هؤُلاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنا أَغْوَيْناهُمْ كَما غَوَيْنا تَبَرَّأْنا إِلَيْكَ [ القصص 63]( تو جن لوگوں پر ) عذاب کا حکم ثابت ہوچکا ہوگا وہ کہیں گے کہ ہمارے پروردگار ی وہ لوگ ہیں جن کو ہم نے گمراہی کیا تھا اور جس طرح ہم خود گمراہ تھے اسی سطرح انہیں گمراہ کیا تھا ۔ میں بتایا گیا ہے کہ کفار قیامت کے دن اعلان کریں گے کہ ہم ان کے ساتھ انتہائی مخلصانہ سلوک کیا تھا جو کہ ایک انسان اپنے دوست سے کرسکتا ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

نماز کو ضائع کرنا کیسے ہے ؟- قول باری ہے (اضاعوا الصلوۃ جنہوں نے نماز کو ضائع کیا) حضرت عمر بن عبدالعزیز کا قول ہے کہ نمازوں کو ان کے اصل اوقات سے موئخر کر کے انہوں نے نمازوں کو ضائع کیا۔ اس تاویل کی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد سے بھی تائید ہوتی ہے کہ (لیس التفریط فی التوم انما التفریط ان یدعھا حتی یدخل وقت الاخریٰ نماز میں کوتاہی سوتے رہنے کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ کوتاہی یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کو مئوخر رکھے یہاں تک کہ دوسری نماز کا وقت داخل ہوجائے۔ محمد بن کعب کا قول ہے کہ انہوں نے نمازوں کی ادائیگی نہ کر کے انہیں ضائع کردیا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٩) پھر ان انبیاء کرام اور صالحین کے بعد ایسے ناخلف پیدا ہوئے جنہوں نے نماز کو چھوڑ دیا اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کیا اور دنیا میں نفسانی لذتوں اور خواہشات کی پیروی کی اور سگی بہنوں سے شادی کرنا شروع کردی، یہ نالائق یہود ہیں سو یہ لوگ عنقریب غیتی وادی جہنم میں گریں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٩ (فَخَلَفَ مِنْم بَعْدِہِمْ خَلْفٌ) ” - ” خَلْف “ کا لفظ جب ” ل “ ساکن کے ساتھ آتا ہے تو اس کے معنی ” نا خلف “ کے لیے جاتے ہیں۔ یعنی اپنے اسلاف کے کردار کے خلاف عمل کرنے والے اور ان کی نیک نامی اور بزرگی کوّ بٹہ لگانے والے لوگ۔- (اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَاتَّبَعُوا الشَّہَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا ) ” - یعنی عنقریب وہ گمراہی کے انجام سے دو چار ہوں گے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :35 یعنی نماز پڑھنی چھوڑ دی ، یا نماز سے غفلت اور بے پروائی برتنے لگے ۔ یہ ہر امت کے زوال و انحطاط کا پہلا قدم ہے ۔ نماز وہ اولین رابطہ ہے جو مومن کا زندہ اور عملی تعلق خدا کے ساتھ شب و روز جوڑے رکھتا ہے اور اسے خدا پرستی کے مرکز و محور سے بچھڑنے نہیں دیتا ۔ یہ بندھن ٹوٹتے ہی آدمی خدا سے دور اور دور تر ہوتا چلا جاتا ہے حتی کہ عملی تعلق سے گزر کر اس کا خیالی تعلق بھی خدا کے ساتھ باقی نہیں رہتا ۔ اسی لئے اللہ تعالی نے یہاں یہ بات ایک قاعدہ کلیہ کے طور پر بیان فرمائی ہے کہ پچھلے تمام انبیا کی امتوں کا بگاڑ نماز ضائع کرنے سے شروع ہوا ہے ۔ سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :36 یہ تعلق باللہ کی کمی اور اس کے فقدان کا لازمی نتیجہ ہے ۔ نماز کی اضاعت سے جب دل خدا کی یاد سے غافل رہنے لگے تو جوں یہ غفلت بڑھتی گئی ، خواہشات نفس کی بندگی میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ ان کے اخلاق اور معاملات کا ہر گوشہ احکام الہی کے بجائے اپنے من مانے طریقوں کا پابند ہو کر رہا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

30: یعنی ان کی گمراہی کا نتیجہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کی صورت میں ان کے سامنے آجائے گا۔