Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨] علماء انبیاء کے وارث ہیں :۔ یہاں وراثت سے مراد علم دین کی وراثت ہے۔ کیونکہ انبیاء کی یہی وراثت ہوتی ہے۔ جیسا کہ ارشاد نبوی ہے ان العلماء ھم ورثۃ الانبیائ (بخاری، کتاب العلم، باب العلم قبل القول والعمل) یعنی علماء حضرات ہی انبیاء کے وارث ہوتے ہیں پھر میرے اس لڑکے کو اپنا پسندیدہ بھی بنایا اس کا یہ مطلب ہے کہ اس کے اخلاق و کردار اس قدر پاکیزہ ہوں کہ وہ سب لوگوں کی نظر میں مقبول و محبوب اور پسندیدہ ہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا : ” رَضِيًّا “ ” فَعِیْلٌ“ بمعنی ” مَفْعُوْلٌ“ ہے، مطلب پسند کیا ہوا، یعنی وہ اللہ تعالیٰ اور لوگوں، سب کا پسندیدہ ہو۔ اللہ جسے پسند کرلے لوگ بھی اس سے محبت کرتے ہیں، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِذَا أَحَبَّ اللّٰہُ الْعَبْدَ نَادَی جِبْرِیْلَ إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ فُلَانًا فَأَحْبِِبْہُ فَیُحِبُّہٗ جِبْرِیْلُ فَیُنَادِيْ جِبْرِیْلُ فِيْ أَھْلِ السَّمَاءِ إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ فُلاَنًا فَأَحِبُّوْہٗ فَیُحِبُّہٗ أَھْلُ السَّمَاءِ ثُمَّ یُوْضَعُ لَہٗ الْقَبُوْلُ فِي الْأَرْضِ ) [ بخاری، بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ صلوات اللّٰہ علیہم : ٣٢٠٩، عن أبي ہریرہ (رض) ] ” جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبریل (علیہ السلام) سے کہتا ہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے تو بھی اس سے محبت کر، تو جبریل (علیہ السلام) بھی اس سے محبت کرتے ہیں، پھر جبریل (علیہ السلام) آسمان والوں میں اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت کرتے ہیں، سو تم بھی اس سے محبت کرو، تو آسمان والے اس سے محبت کرتے ہیں، پھر اس کے لیے زمین میں قبولیت رکھ دی جاتی ہے۔ “ - 3 زکریا (علیہ السلام) کی بیٹے کے لیے دعا ایک تو یہاں آئی ہے، ایک سورة آل عمران (٣٨) میں اور ایک سورة انبیاء (٨٩) میں۔ تینوں جگہ ہی الفاظ معانی کا خزینہ اور موتیوں کا نگینہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی اور بانجھ اور بوڑھی بیوی کو اولاد کے قابل بنا کر یحییٰ (علیہ السلام) عطا فرما دیے۔ دیکھیے سورة انبیاء (٩٠) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

انبیاء (علیہ السلام) کے مال میں وراثت نہیں چلتی۔- يَّرِثُنِيْ وَيَرِثُ مِنْ اٰلِ يَعْقُوْبَ ، باتفاق جمہور علماء اس جگہ وراثت سے وراثت مالی مراد نہیں، کیونکہ اول تو حضرت زکریا کے پاس کوئی بڑی دولت ہونا ثابت نہیں جس کی فکر ہو کہ اس کا وارث کون ہوگا اور ایک پیغمبر کی شان سے بھی ایسی فکر کرنا بعید ہے اس کے علاوہ صحیح حدیث جس پر صحابہ کرام کا اجماع ثابت ہے اسمیں ہے - ان العلماء ورثۃ الانبیاء وان الانبیاء لم یورثوا دینارا ولا درھما انما ورثوا لعلم فمن اخذہ اخذ بحظ وافر (رواہ احمد و ابوداؤد و ابن ماجہ والترمذی)- ترجمہ بیشک علماء وارث ہیں انبیاء کے کیونکہ انبیاء - علیہم السلام دنیار و درہم کی وراثت نہیں چھوڑتے - بلکہ ان کی وراثت علم ہوتا ہے جس نے علم حاصل - کرلیا اس نے بڑی دولت حاصل کرلی۔ - یہ حدیث کتب شیعہ کافی، کلینی وغیرہ میں بھی موجود ہے، اور صحیح بخاری میں حضرت صدیقہ عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- لانورث وماترکنا صدقة - ہم انبیاء کی مالی وراثت کسی کو نہیں ملتی ہم جو مال چھوڑیں وہ صدقہ ہے۔ - اور خود اس آیت میں یرثنی کے بعد ویرث من ال یعقوب کا اضافہ اس کی دلیل ہے کہ وراثت مالی مراد نہیں کیونکہ جس لڑکے کی پیدائش کی دعا کی جارہی ہے اس کا آل یعقوب کے لیے مالی وارث بننا بظاہر حال ممکن نہیں کیونکہ آل یعقوب کے وارث ان کے عصبات قریبہ ہوں گے اور وہ وہی موالی ہیں جن کا ذکر اس آیت میں کیا گیا وہ بلاشبہ قرابت وعصوبت میں حضرت یحییٰ (علیہ السلام) سے اقرب ہیں اقرب کے ہوتے ہوئے عصبہ بعید کو وراثت ملنا اصول وراثت کے خلاف ہے۔ - روح المعانی میں کتب شیعہ سے یہ بھی نقل کیا ہے :- روی الکلینی فی الکافی عن ابی البختری عن عبداللہ قال ان سلیمان وارث داؤد وان محمدا ورث سلیمان۔- سلیمان (علیہ السلام) داؤد (علیہ السلام) کے وارث ہوئے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سیلمان علیہٰ السلام کے وارث ہوئے۔ - (علیہ السلام) یہ ظاہر ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت سیلمان (علیہ السلام) کی مالی وراثت ملنے کا کوئی احتمال و امکان ہی نہیں، مراد اس سے علوم نبوت کی وراثت ہے اس سے معلوم ہوا کہ ورث سلیمن داؤد میں بھی وراثت مالی مراد نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يَّرِثُنِيْ وَيَرِثُ مِنْ اٰلِ يَعْقُوْبَ۝ ٠ۤۖ وَاجْعَلْہُ رَبِّ رَضِيًّا۝ ٦- ورث - الوِرَاثَةُ والإِرْثُ : انتقال قنية إليك عن غيرک من غير عقد، ولا ما يجري مجری العقد، وسمّي بذلک المنتقل عن الميّت فيقال للقنيةِ المَوْرُوثَةِ : مِيرَاثٌ وإِرْثٌ. وتُرَاثٌ أصله وُرَاثٌ ، فقلبت الواو ألفا وتاء، قال تعالی: وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر 19] وقال عليه الصلاة والسلام : «اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» «2» أي :- أصله وبقيّته، قال الشاعر :- 461-- فينظر في صحف کالرّيا ... ط فيهنّ إِرْثٌ کتاب محيّ- «3» ويقال : وَرِثْتُ مالًا عن زيد، ووَرِثْتُ زيداً :- قال تعالی: وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل 16] ، وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء 11] ، وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة 233] ويقال : أَوْرَثَنِي الميّتُ كذا، وقال : وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً- [ النساء 12] وأَوْرَثَنِي اللهُ كذا، قال : وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 59] ، وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان 28] ، وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب 27] ، وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ- الآية [ الأعراف 137] ، وقال : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً- [ النساء 19] ويقال لكلّ من حصل له شيء من غير تعب : قد وَرِثَ كذا، ويقال لمن خُوِّلَ شيئا مهنّئا : أُورِثَ ، قال تعالی: وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف 72] ، أُولئِكَ هُمُ الْوارِثُونَ الَّذِينَ يَرِثُونَ [ المؤمنون 10- 11] وقوله : وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ- [ مریم 6] فإنه يعني وِرَاثَةَ النّبوّةِ والعلمِ ، والفضیلةِ دون المال، فالمال لا قدر له عند الأنبیاء حتی يتنافسوا فيه، بل قلّما يقتنون المال ويملکونه، ألا تری أنه قال عليه الصلاة- ( ور ث ) الوارثۃ - ولا رث کے معنی عقد شرعی یا جو عقد کے قائم مقام ہے اوکے بغیر کسی چیز کے ایک عقد کے قائم مقام ہے کے بغیر کسی چیز کے ایک شخص کی ملکیت سے نکل کر دسرے کی ملکیت میں چلے جانا کئے ہیں اسی سے میت کی جانب سے جو مال ورثاء کی طرف منتقل ہوتا ہے اسے اذث تراث اور کیراث کہا جاتا ہے اور تراث اصل میں وراث ہے واؤ مضموم کے شروع میں آنے کی وجہ سے اسے تا سے تبدیل کرلو اسے چناچہ قرآن میں سے ۔ وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر 19] اور حج کے موقعہ پر آنحضرت نے فرمایا : ۔ کہ اپنے مشاعر ( مواضع نسکہ ) پر ٹھہرے رہو تم اپنے باپ ( ابراہیم کے ورثہ پر ہو ۔ تو یہاں ارث کے معنی اصل اور بقیہ نشان کے ہیں ۔۔ شاعر نے کہا ہے ( 446 ) فینظر فی صحف کالریا فیھن ارث کتاب محی وہ صحیفوں میں تالت باندھنے والے کی طرح غور کرتا ہے جن میں کہ مٹی ہوئی کتابت کا بقیہ ہے ۔ اور محاورہ میں ورث مالا عن زید وو رثت زیدا ( میں زید کا وارث بنا دونوں طرح بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل 16] اور سلیمان داؤد کے قائم مقام ہوئے ۔ وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء 11] اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں ۔- وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة 233] اور اسی طرح نان ونفقہ بچے کے وارث کے ذمہ ہے - يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً [ النساء 19] مومنوں تم کو جائز نہیں ہے کہ زبر دستی عورتوں کے وارث بن جاؤ ۔ اور اوثنی المیت کذا کے معنی ہیں میت نے مجھے اتنے مال کا وارث بنایا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً [ النساء 12] اور اگر ایسے مرد یا عورت کی میراث ہو جس کے نہ باپ ہو نہ بیٹا ۔ اور اور ثنی اللہ کذا کے معنی کسی چیز کا وارث بنا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 59] اور بنی اسرائیل کو کتاب کا وارث بنایا ۔ وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان 28] اور ان کی زمین کا تم کو وارث بنایا : ۔ وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب 27] اور جو لوگ ( کمزور سمجھے جاتے تھے ان کو وارث کردیا ۔ وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الآية [ الأعراف 137] ہر وہ چیز جو بلا محنت ومشقت حاصل ہوجائے اس کے متعلق ورث کذا کہتے ہیں اور جب کسی کو خوشگوار چیز بطور دی جانے تو اورث کہا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔- وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف 72] اور یہ جنت جس کے تم مالک کردیئے گئے ہو - جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- رضي - يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی:- رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ- [ التوبة 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] ، والرِّضْوَانُ :- الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ- [ الحدید 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ- [ البقرة 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ.- ( ر ض و ) رضی - ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ،

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦ (یَّرِثُنِیْ وَیَرِثُ مِنْ اٰلِ یَعْقُوْبَ )- مجھے ایک ایسے ساتھی کی ضرورت ہے جو میری دینی و روحانی وراثت کو سنبھال سکے ‘ اور میری وراثت کیا یہ تو آل یعقوب ( علیہ السلام) کی وراثت ہے۔ اس مقدس مشن کو آگے بڑھانے کے لیے مجھے ایک ایسا وارث عطا کر جو واقعی اس منصب کا اہل ہو۔ - (وَاجْعَلْہُ رَبِّ رَضِیًّا)- رَضِیّ فعیل کے وزن پر ہے ‘ چناچہ اس میں راضی (وہ جو راضی ہو) اور مرضِیّ (جس کو راضی کردیا گیا ہو) دونوں کیفیتوں کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ جیسے سورة البینہ (آیت ٨) میں فرمایا گیا : (رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ ط) کہ اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے۔ اسی طرح سورة الفجر میں نفس مطمئنہ کے حوالے سے فرمایا گیا : (ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً ) ” تو لوٹ جا اپنے پروردگار کی طرف اس حال میں کہ تو اس سے راضی ‘ وہ تجھ سے راضی “ ۔۔ اس دعا کے جواب میں حضرت زکریا (علیہ السلام) کو بشارت دی گئی :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :4 یعنی مجھے صرف اپنی ذات ہی کا وارث مطلوب نہیں ہے بلکہ خانوادہ یعقوب کی بھلائیوں کا وارث مطلوب ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

3: ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ میراث پانے سے حضرت زکریا (علیہ السلام) کا مطلب مال ودولت کی میراث نہیں تھا ؛ بلکہ علوم نبوت کی میراث پانا مراد تھا ؛ کیونکہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد سے مالی وارثت پانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لہذا انکی دعا اس اصول کے خلاف نہیں جو معروف حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمایا ہے کہ انبیاء (علیہ السلام) کا ترکہ ان کے وارثوں میں تقسیم نہیں ہوتا۔