5۔ 1 اس ڈر سے مراد یہ ہے کہ اگر میرا کوئی وارث میری مسند وعظ وارشاد نہیں سنبھالے گا تو میرے قرابت داروں میں اور تو کوئی اس مسند کا اہل نہیں ہے۔ میرے قرابت دار بھی تیرے راستے سے گریز و انحراف نہ اختیار کرلیں۔ 5۔ 2 اپنے پاس سے کا مطلب یہی ہے کہ گو ظاہری اسباب اس کے ختم ہوچکے ہیں، لیکن تو اپنے فضل خاص سے مجھے اولاد سے نواز دے۔
[٧] سیدنا زکریا کی بیٹے کے لئے دعا کرنا :۔ یعنی لڑکا طلب کرنے سے میری اصل غرض یہ ہے کہ وہ میرا صحیح جانشین ثابت ہو۔ کیونکہ دوسرے میرے بھائی بند جو مجھے نظر آرہے ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو میرے بعد دعوت دین اور تبلیغ کے کام کو سنبھال سکے۔
وَاِنِّىْ خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِنْ وَّرَاۗءِيْ ۔۔ :” الْمَوَالِيَ “ ” مَوْلٰی “ کی جمع ہے۔ یہاں مراد قریبی رشتے دار اور چچوں کے بیٹے ہیں جو اولاد نہ ہونے کی صورت میں وارث بنتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ مجھے ان میں سے کوئی شخص ایسا نظر نہیں آتا جو اس لائق ہو کہ میرے مرنے کے بعد بنی اسرائیل کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے سکے اور میرا اور آل یعقوب کا علمی و عملی وارث بن سکے، جس سے تیرے دین پر عمل اور اس کی دعوت و تبلیغ کا سلسلہ جاری رہ سکے، بلکہ مجھے ان سے خطرہ ہے کہ وہ دین کو بگاڑیں گے اور اپنی من مانیاں کریں گے، جیسا کہ سورة اعراف (١٦٩) میں بنی اسرائیل میں سے کتاب کے وارث بننے والے بعض لوگوں کا حال ذکر ہوا ہے۔- 3 بعض لوگ اس آیت کو انبیاء کی دنیاوی جائداد کی وراثت کی دلیل بناتے ہیں، حالانکہ ان آیات ہی میں اس کا رد موجود ہے، کیونکہ زکریا (علیہ السلام) ایسے وارث کی دعا کر رہے ہیں جو ان کا اور آل یعقوب کا وارث بنے۔ ظاہر ہے کہ اولاد تو اپنے باپ کی دنیوی جائداد کی وارث ہوتی ہے، پورے خاندان اور قوم کی وارث نہیں ہوتی، اس لیے یہاں علمی ورثہ ہی مراد ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لاَ نُوْرَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَۃٌ ) [ بخاري، ، فرض الخمس، باب فرض الخمس : ٣٠٩٣، عن أبي بکر (رض) ]” ہمارا (یعنی انبیاء کا) کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔ “ جو لوگ کہتے ہیں کہ ابوبکر (رض) نے فاطمہ (رض) کو فدک اور دوسری جائدادوں میں سے ورثہ نہیں دیا، انھیں سوچنا چاہیے کہ انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا عباس (رض) کو اور اپنی بیٹی عائشہ (رض) اور دوسری ازواج مطہرات کو بھی تو حصہ نہیں دیا اور دلیل کے طور پر یہ (مذکورہ بالا) حدیث پڑھی۔ پھر اگر انھوں نے حصہ نہیں دیا تو علی (رض) ہی اپنی خلافت میں عباس اور حسن و حسین (رض) کو اور امہات المومنین کو وہ حصہ دے کر اپنے فرض سے سبک دوش ہوجاتے، مگر ان کا ابوبکر (رض) کے فیصلے پر کار بند رہنا اس حدیث کی عملی تائید و تصدیق ہے۔ مزید دیکھیے سورة نمل کی آیت (١٦) ۔- وَكَانَتِ امْرَاَتِيْ عَاقِرًا : ” عَاقِرًا “ وہ ہے جس کے ہاں اولاد نہ ہوتی ہو۔ یہ لفظ مرد اور عورت دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ” کَانَت “ کا لفظ ہمیشگی پر دلالت کرتا ہے، اس لیے ترجمہ ” شروع سے بانجھ ہے “ کیا گیا ہے۔ اتنے الحاح و اصرار سے اپنی ضرورت بیان کرنے کے بعد اپنی صلب سے وارث عطا کرنے کی دعا کی، جو ان کی اور آل یعقوب (علیہ السلام) کی نبوت، علم اور اوصاف حمیدہ کا وارث بنے۔
الْمَوَالِيَ ، مولیٰ کی جمع ہے۔ عربی زبان میں یہ لفظ بہت سے معانی کے لیے استعمام ہوتا ہے ان میں سے ایک معنی چچا زاد بھائی اور اپنے عصبات کے بھی آتے ہیں اس جگہ وہی مراد ہے۔
وَاِنِّىْ خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِنْ وَّرَاۗءِيْ وَكَانَتِ امْرَاَتِيْ عَاقِرًا فَہَبْ لِيْ مِنْ لَّدُنْكَ وَلِيًّا ٥ۙ- خفی - خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] ،- ( خ ف ی ) خفی ( س )- خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔- مولي - والمَوْلَى يقال للمعتِقِ ، والمعتَقِ ، والحلیفِ ، وابنِ العمِّ ، والجارِ ، وكلِّ من وَلِيَ أمرَ الآخرِ فهو وَلِيُّهُ ، ويقال : فلان أَوْلَى بکذا . أي أحری،- الوالیٰ کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ غلام کو آزاد کرنے والا آزاد شدہ غلام حلیف عمر زاد بھائی پڑوسی ۔ اور ہر وہ شخص جو دوسرے کے معاملہ کا والی ہو وہ ابھی اس کا مولا کہلاتا ہے :- الولاء میراث جو آزاد کردہ غلام سے حاصل ہوتی ہے اور احادیث میں ولاء کی اور اس کے ہبہ سے منع کیا گیا ہے ۔ الموالااۃ کے معنی متا بعت کے ہیں یعنی اشیاء کا یکے بعد دیگر واقع ہونا ۔- وراء - ( وَرَاءُ ) إذا قيل : وَرَاءُ زيدٍ كذا، فإنه يقال لمن خلفه . نحو قوله تعالی:- وَمِنْ وَراءِ إِسْحاقَ يَعْقُوبَ [هود 71] ،- ( و ر ی ) واریت - الورآء کے معنی خلف یعنی پچھلی جانب کے ہیں مثلا جو زہد کے پیچھے یا بعد میں آئے اس کے متعلق ورآء زید کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ وَراءِ إِسْحاقَ يَعْقُوبَ [هود 71] اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوش خبری دی ۔ - عقر - عقر - عُقْرُ الحوض والدّار وغیرهما : أصلها ويقال :- له : عَقْرٌ ، وقیل : ( ما غزي قوم في عقر دارهم قطّ إلّا ذلّوا) «4» ، وقیل للقصر : عُقْرَة . وعَقَرْتُهُ أصبت : عُقْرَهُ ، أي : أصله، نحو، رأسته، ومنه :- عَقَرْتُ النّخل : قطعته من أصله، وعَقَرْتُ البعیر : نحرته، وعقرت ظهر البعیر فانعقر، قال :- فَعَقَرُوها فَقالَ تَمَتَّعُوا فِي دارِكُمْ [هود 65] ، وقال تعالی: فَتَعاطی فَعَقَرَ [ القمر 29] ، ومنه استعیر : سرج مُعْقَر، وکلب عَقُور، ورجل عاقِرٌ ، وامرأة عاقر : لا تلد، كأنّها تعقر ماء الفحل . قال : وَكانَتِ امْرَأَتِي عاقِراً [ مریم 5] ، وَامْرَأَتِي عاقِرٌ [ آل عمران 40] ، وقد عَقِرَتْ ، والعُقْرُ : آخر الولد . وبیضة العقر کذلک، والعُقَار : الخمر لکونه کالعاقر للعقل، والمُعَاقَرَةُ : إدمان شربه، وقولهم للقطعة من الغنم : عُقْرٌ فتشبيه بالقصر، فقولهم : رفع فلان عقیرته، أي : صوته فذلک لما روي أنّ رجلا عُقِرَ رِجْلُهُ فرفع صوته «5» ، فصار ذلک مستعارا للصّوت، والعقاقیر : أخلاط الأدوية، الواحد : عَقَّار - . ( ع ق ر ) العقر - کے معنی حوض یا مکان کے اصل اور وسط کے ہیں اور اسے عقر بھی کہتے ہیں حدیث میں ہے (42) ماغزی قوم فی عقر دارھم قط الا ذلو ا کہ کسی قوم پر ان کے گھروں کے وسط میں حملہ نہیں کیا جاتا مگر وہ ذلیل ہوجاتی ہیں اور تصر یعنی محل کو عقرۃ کہاجاتا ہے ۔ عقرتہ اس کی عقر یعنی جڑپر مارا ۔ جیسا کہ راستہ کے معنی ہیں میں نے اس کے سر پر مارا اسی سے عقرت النخل ہے جس کے معنی ہیں میں نے کھجور کے درخت کو جڑ سے کاٹ دیا ۔ عقرت البعیر اونٹ کی کو نچیں کاٹ دیں اسے ہلاک کردیا عقرت ظھر البعیر اونٹ کی پشت کو رخمی کردیا انعقر ظھرہ اس کی پیٹھ زخمی ہوگئی قرآن میں ہے : فَعَقَرُوها فَقالَ تَمَتَّعُوا فِي دارِكُمْ [هود 65] مگر انہوں نے اس کی کو نچیں کاٹ ڈالیں تو صالح نے کہا کہ اپنے گھروں میں فائدہ اٹھالو ۔- ۔ فَتَعاطی فَعَقَرَ [ القمر 29] تو اس نے جسارت کرکے اونٹنی کو پکڑا اور اس کی کو نچیں کاٹ ڈالیں اور اسی سے بطور استعارہ کہاجاتا ہے ۔ سرج شعقر زخمی کردینے والی زین ۔ کلب عقور کاٹ کھانے والا کتا ، درندہ جانور رجل عاقر بانجھ مرد ۔ امرءۃ عاقر بانچھ عورت گو یا وہ مرد کے نطفہ کو قطع کردیتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانَتِ امْرَأَتِي عاقِراً [ مریم 5] اور میری بیوی بانجھ ہے ۔ اور میری بیوی بانجھ ہے ۔ قد عقرت وہ بانجھ ہوگئی ۔ العقر آخری بچہ بیضۃ العقر آخری انڈا عقار ( پرانی ) شراب کیونکہ وہ عقل کو قطع کردیتی ہے ۔ المعاقرۃ کے معنی ہیں شراب نوشی کا عادی ہونا اور قصر کے ساتھ تشبیہ دے کر بکریوں کی ٹکڑی کو بھی عقر کہاجاتا ہے ۔ رفع فلان عقیرتہ فلاں نے آواز بلند کی مروی ہے کہ ایک آدمی کی ٹانگ کٹ گئی وہ چلایا تو اس وقت سے بطور استعارہ عقر کا لفظ بلند آواز کے معنی میں ہونے لگا ہے ۔ عقاقیر جڑی بوٹیاں ۔ اس کا واحد عقار ہے ۔- وهب - الهِبَةُ : أن تجعل ملكك لغیرک بغیر عوض . يقال : وَهَبْتُهُ هِبَةً ومَوْهِبَةً ومَوْهِباً. قال تعالی:- وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام 84] ، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ- [إبراهيم 39] ، إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم 19] - ( و ہ ب ) وھبتہ - ( ف ) ھبۃ وموھبۃ ومو ھبا بلا عوض کوئی چیز دے دینا یا کچھ دینا قرآن میں ہے : ۔ وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام 84] اور ہم نے ان کو اسحاق اور یعقوب ) بخشے ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ [إبراهيم 39] خدا کا شکر ہے جس نے مجھے بڑی عمر اسماعیل اور اسحاق بخشے ۔ إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم 19] انہوں نے کہا کہ میں تو تمہارے پروردگار کا بھیجا ہوا یعنی فر شتہ ہوں اور اسلئے آیا ہوں کہ تمہیں پاکیزہ لڑکا بخشوں ۔ - لدن - لَدُنْ أخصّ من «عند» ، لأنه يدلّ علی ابتداء نهاية . نحو : أقمت عنده من لدن طلوع الشمس إلى غروبها، فيوضع لدن موضع نهاية الفعل .- قال تعالی: فَلا تُصاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْراً [ الكهف 76]- ( ل دن ) لدن - ۔ یہ عند سے اخص ہے کیونکہ یہ کسی فعل کی انتہاء کے آغاز پر دلالت کرتا ہے ۔ جیسے قمت عند ہ من لدن طلوع الشمس الیٰ غروبھا آغاز طلوع شمس سے غروب آفتاب اس کے پاس ٹھہرا رہا ۔ قرآن میں ہے : فَلا تُصاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْراً [ الكهف 76] تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھئے گا کہ آپ کو مجھے ساتھ نہ رکھنے کے بارے میں میری طرف سے عذر حاصل ہوگا ۔
قول باری ہے وانی خفت الموالی من ورائی مجھے اپنے پیھچے اپنے بھائی بندوں کی برائیوں کا خوف ہے ) مجاہد، قتادہ، ابو صالح اور سدی سے مروی ہے کہ الموالی عصبہ کو کہتے ہیں جو حضرت زکریا (علیہ السلام) کے بنو اعمام تھے۔ آپ کو دین کے بارے میں ان کی برائیوں کا خوف تھا اس لئے کہ وہ بنی اسرائیل کے بدترین لوگ تھے۔- نبوت کی میراث - قول باری ہے (فھب لی من لدنک ولیا یرثنی ویرث من آل یعقوب ۔ تو مجھے اپنے فضل خاص سے ایک ورث عطا کر دے جو میرا وارث بھی ہو اور آل یعقوب کی میراث بھی پائے) آپ نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی کہ ایک بیٹا عطا ہوجائے جو میری موت کے بعد دین کے امور کی نگہداشت کرے اور اس پر عمل پیرا رہے۔ کیونکہ مجھے خوف ہے کہ میرے چچا زاد بھائی کہیں دین کو بدل نہ ڈالیں۔ قتادہ نے حسن بصری سے قول باری (یرثنی و یرث من ال یعقوب) کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ اس سے مراد حضرت زکریا (علیہ السلام) کی نبوت اور ان کا علم ہے۔ خصیف نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) ہے اولاد تھے، آپ کے ہاں کوئی بچہ پیدا نہیں ہوتا تھا۔ آپ نے اپنے رب سے ایک بچے کا سوال کیا اور فرمایا کہ یہ بچہ میرا وارث بھی ہو اور آل یعقوب کی میراث بھی پائے۔ یعنی اسے نبوت ملے۔ ابوصالح سے بھی اسی قسم کی تفسیر مروی ہے۔ حضرت ابن عباس نے یہ ذکر کیا کہ وہ بچہ مال کا وارث بنے گا اور آل یعقوب سے اسے نبوت کی میراث ملے گی۔ اس طرح حضرت ابن عباس نے نبوت پر میراث کے لفظ کے اطلاق کو درست قرار دیا ۔ اسی طرح یہ جائز ہے کہ قول باری (یرثنی) سے یہ مراد لی جائے کہ ” وہ میرے علم کا وارث بنے۔ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (العلماء ورثۃ الانبیاء وان الانبیاء لم یور ثوا دینا لا ولا درھما وانما ورثوا العلم ۔ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ انبیاء نے اپنی میراث میں دنیار و درہم نہیں چھوڑے انہوں نے اپنی میراث میں صرف علم چھوڑا ہے ) اسی طرح آپ کا ارشاد ہے (کونوا علی مشاعرکم … یعنی بعرفات … فانکم علی ارث من ارث ابراہیم۔ مناسک حج ادا کرنے کے مقامات پر پہنچو، یعنی عرفات میں، اس لئے کہ تم ابراہیم (علیہ السلام) کی میراث کے امین ہو۔ )- زہری نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا۔” میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ (لا نورث ماترکناصدقۃ، ہم کسی کو اپنی میراث کا وارث نہیں بناتے، ہم جو کچھ چھوڑ جائیں گے وہ صدقہ ہوگا) زہری نے مالک بن اوس بن احدثان سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر نے چند صحابہ کرام کو جن میں حضرت عثمان، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف حضرت زبیر اور حضرت طلحہ تھے، یہ فرمایا : میں آپ حضرات کو اللہ کی قسم دے کر جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں، پوچھتا ہوں کیا آپ لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا :” ہم کسی کو وارث نہیں بناتے ، ہم جو کچھ چھوڑ جائیں گے وہ صدقہ ہوگا۔ “ ان حضرات نے حضرت عمر کے سوال کا جواب اثبات میں دای۔ صحابہ کی اس جماعت کی روایت سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ انبیاء (علیہم السلام) کسی کو مال کا وارث نہیں بناتے۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے اپنے قول یرثنی (میرا وارث بنے) سے مال کی وراثت مراد نہیں لی ہے۔ اللہ کے ایک نبی کے لئے یہ درست نہیں کہ وہ اس بارے میں پریشا ن ہوں کہ ان کی موت کے بعد ان کا مال کس طرح حق دار تک پہنچے گا۔ بلکہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کو حقیقی پریشانی یہ تھی کہ ان کے بنو اعمام ان کی موت کے بعد کہیں ان کے علوم اور ان کی کتاب پر قبضہ نہ جمالیں اور پھر ان میں تحریف و تبدیل کے ذریعے مال کمانا شروع کردیں اور اس طرح ان کے لائے ہوئے دین کو بگاڑ کر رکھ دیں اور لوگوں کو صحیح دین تک پہنچنے کی راہ میں حائل ہوجائیں۔- نذر عہد قدیم میں - قول باری ہے (انی نذرت للرحمن صوماً فلن اکلم الیوم انسیاً میں ن ے رحمان کے لئے روزے کی نذر مانی ہے اس لئے آج میں کسی سے نہ بولوں گی) آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ترک کلام اور سکوت اختیار کرلینا اس زمانے میں عبادت میں شمار ہوتا تھا۔ اگر یہ بات اس طرح نہ ہوتی تو حضرت مریم (علیہ السلام) ترک کلام کی نذر نہ مانتیں اور نذر ماننے کے بعد اس پر عمل پیرا نہ ہوتیں۔ معمر نے قتادہ سے قول باری (انی نذرت للرحمٰن صوماً ) کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ بعض قرأت میں ” صوما “ کی بجائے ” صمتاً “ ہے۔ صوم سے حضرت مریم کی مرادصمت یعنی خاموشی اور ترک کلام تھی۔ اس پر ان کا یہ قول دلالت کرتا ہے جو قرآن کے الفاظ میں اس طرح بیان ہوا ہے (فلن اکلم الیوم انسیاً ) یہ حکم اب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس روایت کی بنا پر منسوخ ہے جس میں ذکر ہے کہ آپ نے دن بھر رات تک خاموش رہنے سے منع فرمایا ہے۔ سدی کا قول ہے کہ اس زمانے میں جو شخص روزہ رکھتا وہ لوگوں سے گفتگو نہ کرتا تاہم حضرت مریم کو اپنے بارے میں اطلاع دینے کی اجازت دی گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا (علیہ السلام) کو تین دنوں تک کلام کرنے سے روک رکھا تھا اور اسی چیز کو ان کے لئے ان کے بچے کی پیدائش کے قوت کی نشانی قرار دیا تھا۔ اس طرح حضرت زکریا (علیہ السلام) کو کسی مرضی یا گونگے پن کے بغیر ہی بات کرنے سے روک دیا گیا تھا۔
(٥۔ ٦) اور اپنے بعد اپنے وارثوں کے بارے میں اندیشے میں مبتلا ہوں کہ کہیں میرے علم اور تقوے کا میرے بعد کوئی وارث نہ ہو یا یہ کہ میرے ورثہ کم ہیں اور میری بیوی حسنہ ہمشیرہ ام مریم بنت عمران بن ماثان بانجھ ہے لہذا آپ خاص اپنی رحمت سے ایسا فرزند عطا فرمائیے جو کہ میرے خاص علوم میں میرا وارث بنے اور یعقوب (علیہ السلام) کے خاندان کے موروثی علوم میں ان کا وارث بنے اگر ان میں یہ علوم اور بادشاہت ہوں (حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا خاندان حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی ننھیال تھی) اور اس کا اپنا پسندیدہ اور نیکوکار بنائیے۔
آیت ٥ (وَاِنِّیْ خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِنْ وَّرَآءِ یْ ) - مجھے اپنے ورثاء میں کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جو میرے بعد ہیکل سلیمانی کا متولی اور میرا جانشین بننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔- (وَکَانَتِ امْرَاَتِیْ عَاقِرًا فَہَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا)- یہاں ” ولی “ لفظ بہت اہم ہے ‘ یعنی مجھے ایسا ساتھی عطا کر جو میرے مشن میں میرا دوست وبازو بن سکے۔
سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :3 مطلب یہ ہے کہ ابیاہ کے خاندان میں میرے بعد کوئی ایسا نظر نہیں آتا جو دینی اور اخلاقی حیثیت سے اس منصب کا اہل ہو جسے میں سنبھالے ہوئے ہوں ۔ آگے جو نسل اٹھتی نظر آ رہی ہے اس کے لچھن بگڑے ہوئے ہیں ۔
2: یعنی میری کوئی اولاد تو ہے نہیں، اور میرے پیچھے میرے چچازاد بھائی اپنے علم اور تقوی کے اعتبار سے اس مقام پر نہیں ہیں کہ وہ میرے مشن کو آگے جاری رکھ سکیں، اس لئے مجھے ان سے اندیشہ ہے کہ وہ دین کی خدمت نہیں کرسکیں گے، لہذا مجھے ایسا بیٹا عطا فرمادیجئے جو میرے علوم نبوت کا وراث ہو، حضرت زکریا (علیہ السلام) کی اس دعا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے جواب میں بیٹا عطا فرمانے کا تذکرہ پیچھے سورۂ آل عمران (٣: ٣٨ تا ٤٠) میں بھی گزرچکا ہے ان آیتوں کے حواشی بھی ملاحظہ فرمالئے جائیں۔