Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

عیار مقروض اور حضرت خباب ۔ حضرت خباب بن ارت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں لوہار تھا اور میرا کچھ قرض عاص بن وائل کے ذمے تھا میں اس سے تقاضا کرنے کو گیا تو اس نے کہا میں تو تیرا قرض اس وقت تک ادا نہ کروں گا جب تک کہ تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری سے نہ نکل جائے میں نے کہا میں تو یہ کفر اس وقت تک بھی نہیں کر سکتا کہ تو مر کر دوبارہ زندہ ہو ۔ اس کافر نے کہا بس تو پھر یہی رہی جب میں مرنے کے بعد زندہ ہوں گا تو ضرور مجھے میرا مال اور میری اولاد بھی ملے گی وہیں تیرا قرض بھی ادا کردوں گا تو آجانا ۔ اس پر یہ آیت اتری ۔ ( بخاری مسلم ) دوسری روایت میں ہے کہ میں نے مکے میں اس کی تلوار بنائی تھی اس کی اجرت میری ادھار تھی ۔ فرماتا ہے کہ کیا اسے غیب کی خبر مل گئی ؟ یا اس نے اللہ رحمان سے کوئی قول قرار لے لیا ؟ اور روایت میں ہے کہ اس پر میرے بہت سے درہم بطور قرض کے چڑھ گئے اس لئے مجھے جو جواب دیا میں نے اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا اس پر یہ آیتیں آتری اور روایت میں ہے کہ کئی ایک مسلمانوں کا قرض اس کے ذمے تھا ان کے تقاضوں پر اس نے کہاکہ کیا تمہارے دین میں یہ نہیں کہ جنت میں سونا چاندی ریشم پھل پھول وغیرہ ہوں گے ؟ ہم نے کہا ہاں ہے تو کہا بس تو یہ چیزیں مجھے ضرور ملیں گی میں وہیں تم سب کو دے دوں گا ۔ پس یہ آیتیں فردا تک اتریں ۔ ولدا کی دوسری قرأت واؤ کے پیش سے بھی ہے معنی دونوں کے ایک ہی ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ زبر سے تو مفرد کے معنی میں ہے اور پیش سے جمع کے معنی میں ہے ۔ قیس قبیلے کی یہی لغت ہے واللہ اعلم ۔ اس مغرور کو جواب ملتا ہے کہ کیا اسے غیب پر اطلاع ہے ؟ اسے آخرت کے اپنے انجام کی خبر ہے ؟ جو یہ قسمیں کھا کر کہہ رہا ہے ؟ یا اس نے اللہ سے کوئی قول وقرار ، عہد وپیمان لیا ہے یا اس نے اللہ کی توحید مان لی ہے کہ اس کی وجہ سے اسے دخول جنت کا یقین ہو ؟ چنانچہ آیت ( لَا يَمْلِكُوْنَ الشَّفَاعَةَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَهْدًا 87؀ۘ ) 19-مريم:87 ) میں اللہ کی وحدانیت کے کلمے کا قائل ہو جانا ہی مراد لیا گیا ہے ۔ پھر اس کے کلام کی تاکید کے ساتھ نفی کی جاتی ہے ۔ اور اس کے خلاف موکد بیان ہو رہا ہے کہ اس کا یہ غرور کا کلمہ بھی ہمارے ہاں لکھا جا چکا ہے اس کا کفر بھی ملنا تو کجا اس کے برعکس دنیا کا مال ومتاع اور اولاد وکنبہ بھی اس سے چھین لیا جائے گا اور وہ تن تنہا ہمارے حضور میں پیش ہو گا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قرأت میں ( ونرثہ ماعندہ ) ہے ۔ اس کی جمع جتھا اور اس کے عمل ہمارے قبضے میں ہیں ۔ یہ تو خالی ہاتھ سب کچھ چھوڑ چھاڑ ہمارے سامنے پیش ہو گا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٠] خباب بن ارت کی مزدوری آخرت کو دینے والا :۔ اس آیت کا روئے سخن ایک قریشی سردار عاص بن وائل سہمی سے ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :- سیدنا خباب بن ارت کہتے ہیں کہ میں مکہ میں لوہار کا پیشہ کیا کرتا تھا۔ میں نے عاص بن وائل سہمی کے لئے ایک تلوار بنائی۔ میں اس کی مزدوری مانگنے کے لئے عاص کے پاس گیا وہ کہنے لگا۔ میں اس وقت تک تجھے مزدوری نہیں دوں گا۔ جب تک تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پھر نہ جائے۔ میں نے کہا جب اللہ تجھے موت دے گا پھر تجھے زندہ کرے گا، میں تو اس وقت تک بھی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار نہیں کروں گا ۔ وہ کہنے لگا : اچھا اگر اللہ مجھے مرنے کے بعد زندہ کرے گا تو پھر مجھے مال اور اولاد بھی دے گا (اس وقت میں تمہارا حساب چکا دوں گا) اس وقت اللہ نے یہ آیات نازل فرمائیں (بخاری، کتاب التفسیر، ترمذی، ابو اب التفسیر)- اسی عاص بن وائل کے بیٹے سیدنا عمرو بن عاص ہیں۔ جب یہ ابھی اسلام نہیں لائے تھے تو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے مسلمانوں کی واپسی کا مطالبہ کرنے والے قریشی وفد کے نمائندے تھے۔ پھر جب اسلام لائے تو اسلام کی بیش بہا خدمات سرانجام دی تھیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَفَرَءَيْتَ الَّذِيْ كَفَرَ بِاٰيٰتِنَا ۔۔ : اوپر کی آیات میں حشر کے یقینی ہونے کے دلائل بیان فرمائے اور کفار کے شبہات کا جواب دیا تھا، اب ان لوگوں کا قول نقل فرمایا جو حشر میں طعن کرتے ہوئے اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ صحیحین میں ہے، خباب بن ارت (رض) بیان کرتے ہیں : (کُنْتُ قَیْنًا فِي الْجَاھِلِیَّۃِ وَکَانَ لِيْ عَلَی الْعَاصِ بْنِ وَاءِلٍ دَیْنٌ فَأَتَیْتُہُ أَتَقَاضَاہٗ ، قَالَ : لاَ أُعْطِیْکَ حَتّٰی تَکْفُرَ بِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْتُ لاَ أَکْفُرُ حتّٰی یُمِیْتَکَ اللّٰہُ ثُمَّ تُبْعَثَ ، قَالَ دَعْنِيْ حتّٰی أَمُوْتَ وَ أُبْعَثَ فَسَأُوْتِیْ مَالًا وَوَلدًا فَأَقْضِیْکَ فَنَزَلَتْ : (اَفَرَءَيْتَ الَّذِيْ كَفَرَ بِاٰيٰتِنَا وَقَالَ لَاُوْتَيَنَّ مَالًا وَّوَلَدًا 77؀ۭاَطَّلَعَ الْغَيْبَ اَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَهْدًا ) [ بخاری، البیوع، باب ذکر الفین والحداد : ٢٠٩١۔ مسلم، : ٣٥، ٣٦؍ ٢٧٩٥ ] ” میں زمانۂ جاہلیت میں لوہار کا کام کیا کرتا تھا اور میرا عاص بن وائل (ایک مال دار کافر) پر کچھ قرض تھا۔ میں (ایک دن) تقاضے کے لیے اس کے پاس گیا، وہ کہنے لگا : ” میں تمہارا قرض اس وقت تک ادا نہیں کروں گا جب تک تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت سے انکار نہ کرو۔ “ خباب (رض) نے کہا : ” اللہ کی قسم میں (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت سے) ہرگز انکار نہیں کروں گا، یہاں تک کہ تو مر کر دوبارہ زندہ ہوجائے۔ “ کافر کہنے لگا : ” جب میں مر کر دوبارہ زندہ ہوں گا تو تم میرے پاس آنا، اس وقت میرے پاس خوب مال بھی ہوگا اور اولاد بھی، میں تمہارا قرض ادا کروں گا۔ “ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ (چار آیات ” فَرْداً “ تک) نازل فرمائیں۔ “ اس واقعہ میں کفار کا قیامت سے مذاق کی صورت میں انکار کرنا بھی ہے اور اس کے خیال میں بالفرض قائم ہونے کی صورت میں دنیا پر قیاس کرتے ہوئے وہاں بھی مال و اولاد ملنے کے یقین کا اظہار بھی ہے۔ ایک ہی سانس میں اللہ تعالیٰ کے قیامت قائم کرنے پر قادر ہونے سے انکار ہے اور اسی سانس میں قیامت کے دن اسے مال و اولاد دینے پر قادر ہونے کا اظہار ہے۔ مشرک ایسے ہی جاہل ہوتے ہیں۔ یہاں چونکہ زیادہ نمایاں قیامت کے دن دنیا کی طرح مال و اولاد ملنے کے یقین کا اظہار ہے، اس لیے اس سے پہلے آیات (٧٣، ٧٤) میں اس کا رد کیا ہے، اب مزید تین آیات میں اس کا رد فرمایا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھلا آپ نے اس شخص (کی حالت) کو بھی دیکھا جو ہماری آیتوں کے ساتھ (جن کا حق یہ ہے کہ ان پر ایمان لایا جاتا جن میں سے آیات بعث بھی ہیں) کفر کرتا ہے اور (علیٰ سبیل الاستہزاء) کہتا ہے کہ مجھ کو (آخرت میں) مال اور اولاد ملیں گے (مطلب یہ کہ اس کی حالت بھی قابل تعجب ہے آگے اس کا رد ہے کہ) کیا یہ شخص غیب پر مطلع ہوگیا ہے یا اس نے اللہ تعالیٰ سے کوئی عہد (اس بات کا) لے لیا ہے (یعنی اس دعوے کا علم آیا بلا واسطہ اسباب ہوا ہے کہ علم غیب ہے یا بواسطہ اسباب ہوا ہے پھر چونکہ وہ دعویٰ حکم عقلی تو ہے نہیں بلکہ امر نقلی ہے۔ اس لئے صرف دلیل نقلی کہ اخبار خداوندی ہے اس کی دلیل ہو سکتی ہے سو دونوں طریق مفقود ہیں اول تو عقلاً بھی ممتنع ہے اور دوسرا وقوعاً منتفی ہے) ہرگز نہیں (محض غلط کہتا ہے اور) ہم اس کا کہا ہوا بھی لکھ لیتے ہیں (اور وقت پر یہ سزا دیں گے کہ) اس کے لئے عذاب بڑھاتے چلے جائیں گے اور اس کی کہی ہوئی چیزوں کے ہم مالک رہ جاویں گے (یعنی وہ تو دنیا سے مر جاوے گا اور اموال و اولاد پر کوئی اس کا اختیار نہ رہے گا ہم ہی سب کے مالک رہیں گے اور قیامت میں ہم اس کو نہ دیں گے بلکہ) وہ ہمارے پاس (مال و اولاد سے) تنہا ہو کر آوے گا اور لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر اور معبود تجویز کر رکھے ہیں تاکہ ان کے لئے وہ (عند اللہ) باعث عزت ہوں (جیسا اس آیت میں حکایت ہے یَقُولُونَ ھٓوُلَآءِ شُفَعَآوُنَا عند اللّٰہِ سو ایسا) ہرگز نہیں ہوگا بلکہ وہ تو (قیامت میں خود) ان کی عبادت ہی کا انکار کر بیٹھیں گے (جیسا سورة یونس کے تیسرے رکوع میں گزر چکا قال شُرَکَآوُھُم مَا کُنتُم اِیَّانَا تَعبُدُونَ ) اور (الٹے) ان کے مخالف ہوجاویں گے، (قالاً بھی جیسا گزرا اور حالاً بھی کہ بجائے عزت کے سبب ذلت ہوجاویں گے اور معبودین میں اصنام بھی ہوں گے سو ان کا ناطق ہونا جیسا یکفرون کا مقتضا ہے مثل نطق جوارح کے مستبعد و مستغرب نہیں)- معارف و مسائل - لَاُوْتَيَنَّ مَالًا وَّوَلَدًا، بخاری و مسلم میں حضرت خباب بن الارت کی روایت ہے کہ ان کا کچھ قرض عاص بن وائل کے ذمہ تھا یہ ان کے پاس تقاضہ کے لئے گئے اس نے کہا میں تو تمہارا قرض اس وقت تک نہیں دوں گا جب تک تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کفر و انکار کا معاملہ نہ کرو۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں یہ کام نہیں کرسکتا جب تک کہ تم مرو پھر زندہ ہو۔ عاص بن وائل نے کہا کہ اچھا کیا میں مر کر پھر زندہ ہوں گا۔ اگر ایسا ہے تو بس تمہارا قرض بھی اسی وقت چکاؤں گا جب دوبارہ زندہ ہوں گا کیونکہ اس وقت بھی میرے پاس مال اور اولاد ہوں گے۔ (قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَفَرَءَيْتَ الَّذِيْ كَفَرَ بِاٰيٰتِنَا وَقَالَ لَاُوْتَيَنَّ مَالًا وَّوَلَدًا۝ ٧٧ۭ- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین،- والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں - اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - ولد - الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11]- ( و ل د ) الولد - ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٧) اور کیا آپ نے عاص بن وائل کی حالت کو بھی دیکھا جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کا انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آخرت کے بارے میں جو بیان کرتے ہیں اگر وہ ٹھیک ہے تو مجھے وہاں بھی مال واولاد ملے گا۔- شان نزول : ( آیت) ”۔ افرء یت الذی کفر بایتنا “۔ (الخ)- امام بخاری (رح) ومسلم (رح) نے حضرت خباب بن ارت سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ میں عاص بن وائل سہمی کے پاس اپنے قرض کی واپسی کے لیے آیا تو عاص کہنے لگا کہ جب تک تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کفر نہ کرے گا تیرے قرض نہ ادا کروں گا، حضرت خباب نے فرمایا کہ اگر تو مر کر پھر زندہ ہوجائے گا تب بھی کفر نہ کروں گا اس پر عاص نے کہا کہ میں مروں گا پھر زندہ ہوں گا، حضرت خباب (رض) نے فرمایا ہاں عاص کہنے لگا تو میرے پاس جب ہی آنا میرے پاس اس وقت بھی مال واولاد سب کچھ ہوگا، تیرا قرض ادا کروں گا اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی یعنی کیا بھلا آپ نے اس شخص کو بھی دیکھا جو ہماری آیات کے ساتھ کفر کرتا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٧ (اَفَرَءَ یْتَ الَّذِیْ کَفَرَ بِاٰیٰتِنَا وَقَالَ لَاُوْتَیَنَّ مَالًا وَّوَلَدًا ) ” - یہ بھی وہی مضمون ہے جو سورة الکہف کے پانچویں رکوع میں دو اشخاص کے مکالمے کے سلسلے میں گزر چکا ہے۔ وہاں بھی بالکل اسی سوچ کے حامل مالدار شخص کا ذکر ہے جس نے اللہ کے نیک بندے کو مخاطب کر کے کہا تھا : (وَمَآ اَظُنُّ السَّاعَۃَ قَآءِمَۃً لا وَّلَءِنْ رُّدِدْتُّ اِلٰی رَبِّیْ لَاَجِدَنَّ خَیْرًا مِّنْہَا مُنْقَلَبًا ) کہ میں تو نہیں سمجھتا کہ قیامت واقعی برپا ہوگی ‘ لیکن بالفرض اگر ایسا ہوا بھی تو میں دنیا کی طرح وہاں بھی نوازا جاؤں گا اور تم جو یہاں جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہو وہاں بھی اسی حال میں رہو گے۔ - آیت زیر نظر میں یہی نظریہ قریش مکہ کے حوالے سے دہرایا گیا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ ہم جوُ پر تعیش زندگی کے مزے لے رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ہم سے خوش ہے۔ چناچہ ہمیں آخرت میں بھی اسی طرح سے کثرت مال و اولاد سے نوازا جائے گا۔ ان الفاظ کا ایک مفہوم یہ بھی مراد لیا جاسکتا ہے کہ وہ اسی دنیا میں آئندہ بھی کثرت مال و اولاد کی توقع لیے بیٹھے تھے ‘ مگر مجھے ان مفسرین کی رائے سے اتفاق ہے جن کے نزدیک یہ ان کی آخرت کی توقع کا ذکر ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :47 یعنی وہ کہتا ہے کہ تم مجھے خواہ کتنا ہی گمراہ و بدکار کہتے رہو اور عذاب الہی کے ڈراوے دیا کرو ، میں تو آج بھی تم سے زیادہ خوشحال ہوں اور آئندہ بھی مجھ پر نعمتوں کی بارش ہوتی رہے گی ۔ میری دولت دیکھو ، میری وجاہت اور ریاست دیکھو ، میرے نامور بیٹوں کو دیکھو ، میری زندگی میں آخر تمھیں کہاں یہ آثار نظر آتے ہیں کہ خدا کا مغضوب ہوں ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ مکے میں کسی ایک شخص کے خیالات نہ تھے بلکہ کفار مکہ کا ہر شیخ اور سردار اسی خبط میں مبتلا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

35: صحیح بخاری میں حضرت خباب بن ارت (رض) نے بیان فرمایا ہے کہ میں نے مکہ مکرمہ میں لوہار کا پیشہ اختیار کر رکھا تھا اور (اسی سلسلے میں) میرے کچھ پیسے مکہ مکرمہ کے ایک کافر سردار عاص بن وائل کے ذمے واجب ہوگئے تھے۔ میں اس سے اپنا حق مانگنے کے لیے گیا تو اس نے قسم کھا کر کہا کہ : میں تمہارے پیسے اس وقت تک نہیں دوں گا جب تک تم محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہ جھٹلاؤ۔ میں نے کہا کہ تم مر کر دوبارہ زندہ ہوجاؤ تب بھی میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلا نہیں سکتا۔ اس پر عاص بن وائل نے کہا۔ اچھا جب میں مر کر دوبارہ زندہ ہوں گا تو وہاں بھی میرے پاس بہت سا مال اور اولاد ہوگی، اس وقت میں تمہارے پیسے ادا کردوں گا۔ اس موقع پر یہ آیات نازل ہوئی تھیں۔