84۔ 1 اور جب وہ مہلت ختم ہوجائے گی تو عذاب الٰہی ان کیلئے ہمیشگی کے لئے بن جائیگا۔ آپ کو جلدی کرنے کی ضرورت نہیں ہے
[٧٦] جو لوگ شیطان کے فریب میں آجاتے ہیں تو پھر شیطان انھیں اپنی انگلیوں پرنچاتے رہتے ہیں۔ اس طرح ان کی گمراہی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے وہ جو کام کرتے ہیں سرکشی اور نافرمانی کا ہی کرتے ہیں اور ہم یہ سب کچھ ان کے نامہ اعمال میں محفوظ کرتے جارہے ہیں۔ لہذا آپ ان کے بارے میں جلدی نہ کریں اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے دن گنے جاچکے ہیں۔ لہذا آپ ان پر عذاب کے لئے جلدی نہ کریں جتنے ان کی مہلت کے دن باقی ہیں وہ پورے ہو لینے دیں۔
ۙفَلَا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ : یعنی ایسا نہ کریں کہ جس طرح وہ شیاطین کے ابھارنے سے برائیوں میں جلدی کرتے ہیں کہ آپ بھی ان پر جلدی عذاب لانے کا مطالبہ کرنے لگیں، بلکہ صبر اور حوصلے سے انتظار کریں اور ان پر حجت پوری ہونے دیں۔ دیکھیے سورة احقاف (٣٥) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلتَّأَنِّيْ مِنَ اللّٰہِ وَالْعَجَلَۃُ مِنَ الشَّیْطَانِ ) [ مسند أبی یعلٰی : ٤٢٥٦۔ السنن الکبرٰی للبیہقی : ٢٠٧٦٧۔ سلسلۃ الأحادیث صحیحۃ : ٤؍٢٩٤، ح : ١٧٩٥، عن أنس ] ” اناۃ (بردباری، وقار، آہستہ روی) اللہ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے۔ “ ۭ اِنَّمَا نَعُدُّ لَهُمْ عَدًّا : آدمی کے اطمینان، صبر و ثبات اور خوشی کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہوسکتی کہ اس کا سب سے زیادہ قوت والا مددگار مسلسل اس کے دشمن کی نگرانی کر رہا ہو اور نہ دشمن کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی چیز پریشان کن ہوسکتی ہے۔ فرمایا، ہم تو بس ان کو دی ہوئی مہلت کا ایک ایک سانس گن رہے ہیں اور گنی ہوئی چیز نے آخر ختم ہونا ہے، پھر یہ کسی صورت بچ نہیں سکیں گے، تو پھر جلدی کیسی ؟ دیکھیے سورة ہود (٨) روزوں کے جلدی گزرنے کی وجہ بھی ” اَیَّاماً مَّعْدُوْدَاتٍ “ فرمائی۔ بعض سلف یہ آیت پڑھتے تو روتے اور کہتے کہ گنتی ختم ہونے کا نتیجہ تیری جان کا نکلنا ہے، تیرا قبر میں داخل ہونا اور تیرا اہل و عیال سے جدا ہونا ہے۔ ایک اور بزرگ نے فرمایا، ہر سانس جو تجھے زندگی بخش رہا ہے تیری زندگی کے سانسوں کی گنتی کم کرتا جا رہا ہے، پھر اس شخص کی زندگی کا کیا حال ہے جسے زندہ رکھنے والی چیز ہی اس کی زندگی کے زوال کا باعث ہے۔ ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے - إِِنَّ الْحَبِیْبَ مِنَ الْأَحْبَابِ مُخْتَلَسٌ- لاَ یَمْنَعُ الْمَوْتَ بَوَّابٌ وَلَا حَرَسُ- وَکَیْفَ یَفْرَحُ بالدُّنْیَا وَلَذَّتِھَا - فَتًی یُعَدُّ عَلَیْہِ اللَّفْظُ وَالنَّفَسُ- ” ہر دوست اپنے دوستوں سے اچانک چھین لیا جانے والا ہے۔ موت کو کوئی دربان روک سکتا ہے، نہ کوئی پہرے دار۔ دنیا اور اس کی لذت کے ساتھ کیسے خوش ہوسکتا ہے وہ جوان جس کا ایک ایک لفظ اور سانس گنا جا رہا ہو۔ “ (روح المعانی)
اِنَّمَا نَعُدُّ لَهُمْ عَدًّا، مطلب یہ ہے کہ آپ ان کے عذاب کے بارے میں جلدی نہ کریں وہ تو عنقریب ہونے ہی والا ہے کیونکہ ہم نے ان کو گنے چنے ایام اور جو مدت دنیا میں رہنے کی دی ہے وہ بہت جلدی پوری ہونے والی ہے اس کے بعد عذاب ہی عذاب ہے نَعُدُّ لَهُمْ ، یعنی ہم ان کیلئے شمار کرتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی کوئی چیز آزاد نہیں ان کی عمر کے دن رات گنے ہوئے ہیں، ان کے سانس، ان کی نقل و حرکت کا ایک ایک قدم، ان کی لذات ان کی زندگی کا ایک ایک لحظہ ہم گن رہے ہیں، یہ گنتی پوری ہوتے ہی ان پر عذاب ٹوٹ پڑے گا۔- مامون رشید نے ایک مرتبہ سورة مریم پڑھی۔ جب اس آیت پر پہنچے تو حاضرین مجلس جو علماء فقہاء تھے ان میں سے ابن سماک کی طرف اشارہ کیا کہ اس کے متعلق کچھ کہیں۔ انہوں نے عرض کیا کہ جب ہماری سانس گنے ہوئے ہیں ان پر زیادتی نہیں ہو سکتی تو یہ کس قدر جلد ختم ہوجائیں گے اسی کو بعض شعراء نے کہا ہے - حیاتک انفاس تعد فکلما مضی نفس منک انتقصت بہ جزءًا - یعنی تیری زندگی کے سانس گنے ہوئی ہیں، جب ایک سانس گزرتا ہے تو تیری زندگی کا ایک جز کم ہوجاتا ہے کہا جاتا ہے کہ انسان دن رات میں چوبیس ہزار سانس لیتا ہے۔ (قرطبی)- اور بعض حضرات نے فرمایا - وکیف یفرح بالدنیا ولذ تھا فتی یعد علیہ اللفظ والنفس - یعنی دنیا اور اس کی لذت پر وہ شخص کیسے مگن اور بےفکر ہوسکتا ہے جس کے الفاظ اور سانس گنے جارہے ہوں (روح)
فَلَا تَعْجَلْ عَلَيْہِمْ ٠ۭ اِنَّمَا نَعُدُّ لَہُمْ عَدًّا ٨٤ۚ- عجل - العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2» . قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] ،- ( ع ج ل ) العجلۃ - کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔ - عد - العَدَدُ : آحاد مركّبة، وقیل : تركيب الآحاد، وهما واحد . قال تعالی: عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5]- ( ع د د ) العدد - ( گنتی ) آحا د مرکبہ کو کہتے ہیں اور بعض نے اس کے معنی ترکیب آحاد یعنی آجا د کو ترکیب دینا بھی کئے ہیں مگر ان دونوں معنی کا مرجع ایک ہی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] بر سوں کا شمار اور ( کاموں ) کا حساب
آیت ٨٤ (فَلَا تَعْجَلْ عَلَیْہِمْ ط) ” - عجلت کی نفی پر مبنی یہ مضمون اس سورت میں یہاں دوسری مرتبہ آیا ہے۔ آیت ٦٤ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن مجید کے بارے میں جلدی کرنے سے منع فرمایا گیا تھا کہ وحی کے سلسلے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شوق اپنی جگہ مگر اللہ کی حکمت اور مشیت یہی ہے کہ اس کی تنزیل ایک خاص تدریج سے ہو۔ اب آیت زیر نظر میں فرمایا جا رہا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار مکہ کے بارے میں ایسا خیال اپنے دل میں نہ لائیں کہ انہوں نے ظلم و سرکشی کی انتہا کردی ہے ‘ اس لیے ان کا فیصلہ چکا دینا چاہیے۔ سورة الانعام اور اس کے بعد سب مکی سورتوں میں مسلسل قریش مکہ کی سازشوں ‘ کٹ حجتیوں اور مخالفانہ سرگرمیوں کی تفصیلات بیان ہوئی ہیں ‘ مگر اس کے باوجود فرمایا جا رہا ہے کہ ابھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے بارے میں فیصلے کے لیے جلدی نہ کیجیے۔ - (اِنَّمَا نَعُدُّ لَہُمْ عَدًّا ) ” - ہمارے ہاں ہر کام ایک فطری تدریج اور باقاعدہ نظام الاوقات کے تحت طے پاتا ہے۔ چناچہ ان کے بارے میں فیصلہ بھی ہم اپنی مشیت اور حکمت کے مطابق کریں گے۔ ان کا ایک ایک عمل لکھا جا رہا ہے ‘ ان کی ایک ایک حرکت ریکارڈ ہو رہی ہے ‘ اسی ریکارڈ کے مطابق ان سے جوابدہی ہوگی اور بالآخر ان کے کرتوتوں کی سزا انہیں مل کر رہے گی۔
سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :51 مطلب یہ ہے کہ ان کی زیادتیوں پر تم بے صبر نہ ہو ۔ ان کی شامت قریب آلگی ہے ۔ پیمانہ بھرا چاہتا ہے ۔ اللہ کی دی ہوئی مہلت کے کچھ دن باقی ہیں ، انہیں پورا ہو لینے دو ۔