Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

83۔ 1 یعنی گمراہ کرتے، بہکاتے اور گناہ کی طرف کھینچ کرلے جاتے ہیں

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ۧاَلَمْ تَرَ اَنَّآ اَرْسَلْنَا الشَّيٰطِيْنَ ۔۔ :” اَزَّا “ قاموس میں ہے : ” أَزَّ یَءِزُّ “ اور ” اَزَّ یَؤُزُّ اَزًّا “ (ض، ن) ” أَزَّ الشَّیْءَ “ اس نے کسی چیز کو سخت حرکت دی۔ ” اَزَّ النَّارَ “ اس نے آگ کو بھڑکایا۔ ” اَزَّتِ الْقِدْرُ “ ہانڈی سخت ابلنے لگی۔ ” أَزِیْزٌ کَأَزِیْزِ الْمِرْجَلِ “ ہانڈی ابلنے جیسی آواز۔ یعنی کیا تمہیں معلوم نہیں کہ کافر لوگ، جنھوں نے طے کر رکھا ہے کہ انھوں نے کسی صورت حق کو تسلیم نہیں کرنا، ہم نے ان پر شیاطین کو مسلط کردیا ہے، جو انھیں برائی پر شدت سے ابھارتے رہتے ہیں اور انھیں گناہوں کی آگ میں اس طرح مسلسل جھونکے رکھتے ہیں کہ وہ اسی پیچ و تاب میں ہانڈی کی طرح ابلتے اور شعلوں کی طرح بھڑکتے رہتے ہیں۔ (بقاعی) اس آیت کی ہم معنی اور وضاحت کرنے والی آیات کے لیے دیکھیے سورة زخرف (٣٦، ٣٧) ، حم السجدہ (٢٥) ، اعراف (٢٠٢) اور بنی اسرائیل (٦٤) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (آپ جو ان کی گمراہی سے غم کرتے ہیں تو) کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ہم نے شیاطین کو کفار پر (ابتلاءً ) چھوڑ رکھا ہے کہ وہ ان کو (کفر و ضلال پر) خوب ابھارتے (اور اکساتے) رہتے ہیں (پھر جو خود ہی اپنے اختیار سے اپنے بدخواہ کے بہکانے میں آجاوے اس کا کیوں غم کیا جاوے) سو (جب شیاطین ابتلاءً مسلط ہوئے ہیں اور تعجیل سزائے مستحق میں ابتلاء رہتا نہیں تو) آپ ان کے لئے جلدی (عذاب ہونے کی درخواست) نہ کیجئے ہم ان کی باتیں (جن پر سزا ہوگی) خود شمار کر رہے ہیں، (اور وہ سزا ان روز واقع ہوگی) جس روز ہم متقیوں کو رحمٰن (کے دار النعیم) کی طرف مہمان بنا کر جمع کریں گے اور مجرموں کو دوزخ کی طرف پیاسا ہانکیں گے (اور کوئی ان کا سفارشی بھی نہ ہوگا کیونکہ وہاں) کوئی سفارش کا اختیار نہ رکھے گا مگر ہاں جس نے رحمان کے پاس سے اجازت لی ہے (وہ انبیاء و صلحاء ہیں اور اجازت خاص ہے مومنین کے ساتھ پس کفار محل شفاعت نہ ہوئے) ۔- معارف ومسائل - تَـــؤ ُ زُّهُمْ اَزًّا، عربی لغت میں لفظ ھَزَّ ، اَزَّ ، فَزَّ ، حَضَّ ، سب ایک معنی میں ہیں یعنی کسی کام کے لئے ابھارنا اور آمادہ کرنا۔ خفت و شدت اور کمی زیادتی کے لحاظ سے ان میں باہمی فرق ہے۔ لفظ اَزَّ کے معنی پوری قوت اور تدبیر و تحریک کے ذریعہ کسی شخص کو کسی کام کے لئے آمادہ بلکہ مجبور کردینے کے ہیں معنی آیت کے یہ ہیں کہ شیاطین ان کو اعمال بد پر ابھارتے رہتے ہیں اور ان کی خوبیاں ان کے دل پر مسلط کردیتے ہیں خرابیوں پر نظر نہیں ہونے دیتے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ تَرَ اَنَّآ اَرْسَلْنَا الشَّيٰطِيْنَ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ تَـــؤُزُّہُمْ اَزًّا۝ ٨٣ۙ- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- أزّ- قال تعالی: تَؤُزُّهُمْ أَزًّا[ مریم 83] أي : ترجعهم إرجاع القدر إذا أزّت، أي : اشتدّ غلیانها . وروي أنّه عليه الصلاة والسلام : «كان يصلّي ولجوفه أزيز كأزيز المرجل» وأزّه أبلغ من هزّه .- ( ا زز ) آیت کریمہ ؛۔ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا ( سورة مریم 83) کے معنی ہیں کہ وہ ان کو برا نگیختہ کرتے رہتے ہیں یہ ازت القدر سے ہے جس کے معنی ہیں :۔ ہانڈی میں جوش اور ابال آگیا ( اسی مناسبت سے در غلانا یا ابھارنا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ) ایک روایت میں ہے ؛۔ (7) انہ (علیہ الصلوۃ والسلام) کان یصلی ولجوفہ ازیر کا زیر المرجل کہ آنحضرت نماز پڑھتے تو آپ کے اندروں سے ہانڈی کے کھدکھارنے کی ( طرح رونے کی ) آواز آتی ۔ ازہ اس کو بھر کا یا اور جھنجھوڑا یہ ھذہ سے ابلغ ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٣۔ ٨٤) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ہم نے شیاطین کو کفار پر مسلط کر رکھا ہے وہ ان کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر خوب اکساتے اور ان کو گمراہ کرتے رہتے ہیں تو آپ ان پر جلدی نزول عذاب کی درخواست نہ کیجیے ہم ان میں سے ایک کو شمار کر رہے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨٣ (اَلَمْ تَرَ اَ نَّآ اَرْسَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ تَؤُزُّہُمْ اَزًّا ) ” - چونکہ ایسے لوگ خود شیاطین کی رفاقت اختیار کرتے ہیں اس لیے ہم شیاطین کو ان پر مستقل طور پر مسلط کردیتے ہیں تاکہ وہ انہیں گناہوں اور سرکشی پر مسلسل ابھارتے رہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani