82۔ 1 عِزًّا کا مطلب ہے یہ معبود ان کے لئے عزت کا باعث اور مددگار ہوں گے اور ضِدًّا کے معنی ہیں، دشمن، جھٹلانے والے اور ان کے خلاف دوسروں کے مددگار۔ یعنی یہ معبود ان کے گمان کے برعکس ان کے حمایتی ہونے کی بجائے، ان کے دشمن، ان کو جھٹلانے والے اور ان کے خلاف ہونگے۔
[٧٥] یعنی وہ کہہ دیں گے کہ ہم نے ان سے کب کہا تھا کہ وہ ہماری عبادت کیا کریں۔ نیز ہمیں تو آج تک یہ معلوم نہ ہوسکا کہ وہ ہماری عبادت کرتے بھی رہے ہیں یا نہیں ؟
كَلَّا ۭ سَيَكْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِهِمْ : انکار اس معنی میں کریں گے کہ وہ کہیں گے، ہم نے کبھی ان سے نہیں کہا تھا کہ ہماری عبادت کرو، یا ہمیں مصیبت کے وقت پکارو اور نہ ہمیں یہ خبر تھی کہ وہ ہماری عبادت کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات کئی جگہ بیان فرمائی ہے۔ دیکھیے سورة یونس (٢٨، ٢٩) ، نحل (٨٦) ، قصص (٦٣) ، فاطر (١٣، ١٤) اور احقاف (٥، ٦) اسی طرح کفار بھی اپنے معبودوں کی عبادت سے مکر جائیں گے اور ان کے خلاف ہوجائیں گے، بلکہ قسم کھا کر کہیں گے کہ اللہ کی قسم ہم مشرک نہیں تھے۔ دیکھیے سورة انعام (٢٣) بلکہ وہ اور ان کے معبود ایک دوسرے کو لعنت کریں گے۔ دیکھیے عنکبوت (٢٥) اور سورة بقرہ (١٦٦، ١٦٧) ۔- وَيَكُوْنُوْنَ عَلَيْهِمْ ضِدًّا : یعنی بجائے اس کے کہ وہ ان کے لیے بچاؤ یا عزت کا سبب بنیں، الٹا ان کی پکڑ کا سبب بنیں گے اور قیامت کے دن ان کے شدید مخالف اور ان کے لیے باعث حسرت ہوں گے۔ بیشمار معبودوں کے لیے ” ضِدًّا “ واحد کا لفظ استعمال فرمایا، کیونکہ ” ضِدًّا “ کا لفظ مصدر ہے، جو واحد و جمع اور مذکر و مؤنث سب کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ ان پوجنے والوں کے خلاف ان کے معبودوں کے اتحاد و اتفاق کی وجہ سے ان کو ” شَیْءٌ وَاحِدٌ“ (ایک ہی چیز) فرض کرکے واحد کا صیغہ لایا گیا ہے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام مسلمانوں کے متعلق فرمایا : ( وَ ھُمْ یَدٌ عَلٰی مَنْ سِوَاھُمْ ) [ أبوداوٗد، الدیات، باب أیُقاد المسلم من الکافر ؟ : ٤٥٣٠۔ نسائی : ٤٧٣٨۔ صحیح الجامع : ٦٦٦٦ ] ” وہ اپنے سوا سب کے مقابلے میں ایک ہاتھ ہوتے ہیں۔ “
وَيَكُوْنُوْنَ عَلَيْهِمْ ضِدًّا، یعنی یہ خود تراشیدہ بت اور معبود باطل جن کی عبادت اس لئے کرتے تھے کہ یہ ان کے مددگار ثابت ہوں گے محشر میں اس کے برعکس یہ ان کے دشمن ہوجاویں گے اللہ تعالیٰ ان کو نطق و زبان عطا فرماویں گے اور یہ بولیں گے کہ یا اللہ ان کو عذاب و سزا دیجئے کہ انہوں نے تجھ کو چھوڑ کر ہمیں معبود بنا لیا تھا۔ (قرطبی)
كَلَّا ٠ۭ سَيَكْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِہِمْ وَيَكُوْنُوْنَ عَلَيْہِمْ ضِدًّا ٨٢ۧ- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - ضد - قال قوم : الضِّدَّانِ الشيئان اللّذان تحت جنس واحدٍ «2» ، وينافي كلّ واحد منهما الآخر في أوصافه الخاصّة، وبینهما أبعد البعد کالسّواد والبیاض، والشّرّ والخیر، وما لم يکونا تحت جنس واحد لا يقال لهما ضِدَّانِ ، کالحلاوة والحرکة . قالوا : والضِّدُّ هو أحد المتقابلات، فإنّ المتقابلین هما الشيئان المختلفان، اللّذان کلّ واحد قبالة الآخر، ولا يجتمعان في شيء واحد في وقت واحد، وذلک أربعة أشياء :- الضِّدَّانِ کالبیاض والسّواد، والمتناقضان :- کالضّعف والنّصف، والوجود والعدم، کالبصر والعمی، والموجبة والسّالبة في الأخبار، نحو : كلّ إنسان هاهنا، ولیس کلّ إنسان هاهنا «3» . وكثير من المتکلّمين وأهل اللغة يجعلون کلّ ذلک من المُتَضَادَّاتِ ، ويقولون : الضِّدَّانِ ما لا يصحّ اجتماعهما في محلّ واحد . وقیل : اللہ تعالیٰ لا ندّ له ولا ضِدَّ ، لأنَّ النِّدَّ هو الاشتراک في الجوهر، والضِّدَّ هو أن يعتقب الشيئان المتنافیان علی جنس واحد، والله تعالیٰ منزّه عن أن يكون جوهرا، فإذا لا ضِدَّ له ولا ندّ ، وقوله : وَيَكُونُونَ عَلَيْهِمْ ضِدًّا [ مریم 82] ، أي : منافین لهم .- ( ض دد )- بعض نے کہا ہے ضدان ان دو چیزوں کو کہا جاتا ہے جو ایک جنس کے تحت ہوں مگر ان میں سے ہر ایک اپنے خصوصی اوصاف کے باعث دوسری سے مخالف ہو اور ان میں انتہائی بعد پایا جائے ۔ جیسے سفیدی وسیاہی اور خیروشر اور جو دومتغایر چیزیں ایک جنس کے تحت نہ ہوں انہیں ضدان نہیں کہا جاتا ہے جیسے حلاوت اور حرکت ۔ علماء نے کہا ہے کہ ضد متقابلات کی ایک قسم کا نام ہے کیونکہ وہ دو چیزیں جن میں ذاتی اختلاف ہو اور یہ دونوں بیک وقت ایک جگہ میں اکٹھی نہ ہوسکتی ہوں انہیں متقابلین کہاجاتا ہے اور تقابل چار قسم پر ہے (1) تقابل تضاد جیسے سفیدی اور سیاہی (2) تقابل تناقض جیسے ضعف ( دوچند ) اور نصف (3) تقابل عدم ملکہ جیسے بصر و عمی ۔ (4) تقابل ایجاب وسلب جو جملہ خبریہ میں ہوتا ہے جیسے اکثر متکلمین اور ا ہل لغت ان سب کو تقابل تضاد کی فہرست میں شامل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ضدان ان دوچیزوں کو کہاجا تا ہے جو ایک محل میں جمع نہ ہوسکتی ہوں اور ذات باری تعالیٰ کے متعلق لاندلہ ولا ضلہ لہ کہہ کر دونوں کو نفی کی جاتی ہے کیونکہ ند شریک فی الجوہر کو کہتے ہیں اور ان دو متخالف چیزوں کو ایک دوسری کی ضد کہاجاتا ہے جو ایک جنس کے تحت علی سبیل التعاقب پائی جاتی ہوں اور چونکہ ذات باری تعالیٰ جو ہریت اور جنسیت دونوں سے منزہ ہے اس لئے نہ اس کا کوئی ندہوسکتا ہے اور ضد اور آیت کریمہ : وَيَكُونُونَ عَلَيْهِمْ ضِدًّا [ مریم 82] اور وہ انکے دشمن اور مخالف ہوں گے ۔ میں ضد کے معنی دشمن اور مخالف کے ہیں ۔
(٨٢) ہرگز یہ بت ان کی عذاب الہی سے حفاظت نہیں کرسکتے بلکہ ان کے وہ معبود تو ان کی عبادت ہی کا انکار کردیں گے اور ان کے یہ بت ان کفار کے خلاف اور ان کے عذاب کی زیادتی کی حمایت کریں گے۔
آیت ٨٢ (کَلَّاط سَیَکْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِہِمْ ) ” - یہ مضمون قرآن میں بار بار آیا ہے کہ وہ ہستیاں جنہیں یہ لوگ اللہ کا شریک ٹھہراتے رہے ہوں گے ‘ وہ فرشتے ہوں ‘ اولیاء اللہ ہوں یا انبیاء ہوں ‘ قیامت کے دن وہ سب ایسے مشرکین سے اظہار برا ءت کردیں گے اور کہیں گے کہ ہمیں تو معلوم ہی نہیں تھا کہ تم لوگ دنیا میں ہماری پرستش کرتے رہے ہو ‘ ہم سے دعائیں مانگتے رہے ہو اور سمجھتے رہے ہو کہ ہم تم لوگوں کو اللہ کے عذاب سے چھڑا لیں گے
سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :50 یعنی وہ کہیں گے کہ نہ ہم نے کبھی ان سے کہا تھا ہماری عبادت کرو ، اور نہ ہمیں یہ خبر تھی کہ یہ احمق لوگ ہماری عبادت کر رہے ہیں ۔