Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

عیسیٰ علیہ السلام کا تعارف اس مبارک سورت کے شروع میں اس بات کا ثبوت گزر چکا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے ہیں ۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے باپ کے بغیر اپنے حکم سے حضرت مریم صدیقہ کے بطن سے پیدا کیا ہے ۔ اس لئے یہاں ان لوگوں کی نادانی بیان ہو رہی ہے جو آپ کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے ہیں ۔ جس سے ذات الہٰی پاک ہے ۔ ان کے قول کو بیان فرمایا ۔ پھر فرمایا یہ بڑی بھاری بات ہے ادا اور ادا تینوں لغت ہیں لیکن مشہور ادا ہے ۔ ان کی یہ بات اتنی بری ہے کہ آسمان کپکپا کر ٹوٹ پڑے اور زمین جھٹکے لے لے کر پھٹ جائے ۔ اس لئے کہ زمین وآسمان اللہ تعالیٰ کی عزت وعظمت جانتی ہے ، ان میں رب کی توحید سمائی ہوئی ہے انہیں معلوم ہے کہ ان بدکار بےسمجھ انسانوں نے اللہ کی ذات پر تہمت باندھی ہے نہ اس کی جنس کا کوئی نہ اس کی ماں نہ اولاد نہ اس کے شریک نہ اس جیسا کوئی ۔ تمام مخلوق اس کی وحدانیت کی شاہد ہے کائنات کا ایک ایک ذرہ اس کی توحید پر دلالت کرنے والا ہے ۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنے والوں کے شرک سے ساری مخلوق کانپ اٹھتی ہے ۔ قریب ہوتا ہے کہ انتظام کائنات درہم برہم ہوجائے ۔ شرک کے ساتھ کوئی نیکی کار آمد نہیں ہوتی ۔ کیا عجب کہ اس کے برعکس توحید کے ساتھ کے گناہ کل کے کل اللہ تعالیٰ معاف فرما دے ۔ جیسے کہ حدیث میں ہے اپنے مرنے والوں کو لا الہ اللہ کی تلقین کرو ۔ موت کے وقت جس نے اسے کہہ لیا اس کے لیے جنت واجب ہوگئی ۔ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم جس نے زندگی میں کہہ لیا ؟ فرمایا اس کے لئے اور زیادہ واجب ہوگئی ۔ قسم اللہ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ زمین وآسمان اور ان کی اور ان کے درمیان کی اور ان کے نیچے کی تمام چیزیں ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دی جائیں اور لا الہ الا اللہ کی شہادت دوسرے پلڑے میں رکھی جائے تو وہ ان سب سے وزن میں بڑھ جائے اسی کی مزید دلیل وہ حدیث ہے جس میں توحید کے ایک چھوٹے سے پرچے کا گناہوں کے بڑے بڑے دفتروں سے وزنی ہو جانا آیا ہے واللہ اعلم ۔ پس ان کا یہ مقولہ اتنا بد ہے جسے سن کر آسمان بوجہ اللہ کی عظمت کے کانپ اٹھے اور زمین بوجہ غضب کے پھٹ جائے اور پہاڑ پاش پاش ہوجائیں ۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ایک پہاڑ دوسرے پہاڑ سے دریافت کرتا ہے کہ کیا آج کوئی ایسا شخص بھی تجھ پر چڑھا جس نے اللہ کا ذکر کیا ہو؟ وہ خوشی سے جواب دیتا ہے کہ ہاں ۔ پس پہاڑ بھی باطل اور جھوٹ بات کو اور بھلی بات کو سنتے ہیں اور کلام نہیں کرتے ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ مروی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جب زمین کو اور اس کے درختوں کو پیدا کیا تو ہر درخت ابن آدم کو پھل پھول اور نفع دیتا تھا مگر جب زمین پر رہنے والے لوگوں نے اللہ کے لئے اولاد کا لفظ بولا تو زمین ہل گئی اور درختوں میں کانٹے پڑ گئے ۔ کعب کہتے ہیں ملائیکہ غضبناک ہوگئے اور جہنم زور شور سے بھڑک اٹھی ۔ مسند احمد میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ لوگوں کی ایذاء دہندہ باتوں پر اللہ سے زیادہ صابر کوئی نہیں ۔ لوگ اس کے ساتھ شریک کرتے ہیں ، اس کی اولادیں مقرر کرتے ہیں اور وہ انہیں عافیت دے رہا ہے ، روزیاں پہنچا رہا ہے ، برائیاں ان سے ٹالتا رہتا ہے ۔ پس ان کی اس بات سے کہ اللہ کی اولاد ہے زمین وآسمان اور پہاڑ تک تنگ ہیں اللہ کی عظمت وشان کے لائق نہیں کہ اس کے ہاں اولاد ہو ۔ اس کے لڑکے لڑکیاں ہوں اس لئے کہ تمام مخلوق اس کی غلامی میں ہے اس کی جوڑ کا یا اس جیسا کوئی اور نہیں زمین وآسمان میں جو ہیں سب اس کے زیر فرمان اور حاضر باش غلام ہیں وہ سب کا آقا سب کا پالنہار سب کا خبر لینے والا ہے ۔ سب کی گنتی اس کے پاس ہے سب کو اس کے علم نے گھیر رکھا ہے سب اس کی قدرت کے احاطے میں ہیں ۔ ہر مرد وعورت چھوٹے بڑے کی اسے اطلاع ہے شروع پیدائش سے ختم دنیا تک کا اسے علم ہے اس کا کوئی مددگار نہیں نہ اس کا شریک وساجی ۔ ہر ایک بےیارو مددگار اس کے سامنے قیامت کے روز پیش ہونے والا ہے ساری مخلوق کے فیصلے اس کے ہاتھ میں ہیں ۔ وہی وحدہ لاشریک لہ سب کے حساب کتاب چکائے گا جو چاہے گا کرے گا عادل ہے ظالم نہیں کسی کی حق تلفی اس کی شان سے بعید ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

پہلی آیات سے مناسبت یہ ہے کہ جب شفاعت کی نفی فرمائی اور سب سے بڑھ کر شفاعت کی حق دار اولاد ہوتی ہے، اس لیے ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دے رکھی تھی، تو اللہ تعالیٰ نے ان کی بات کی نفی فرمائی، تاکہ خاص و عام ہر سفارشی کی نفی ہوجائے اور ہر اس عزت کی نفی ہوجائے جس کے حصول کا باعث وہ اپنے معبودوں کو سمجھتے تھے۔ (بقاعی)- وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا : اللہ تعالیٰ نے ان کا قول نقل کرتے ہوئے ساتھ ہی اس کے باطل ہونے کی دلیل بھی ذکر فرما دی کہ وہ کہتے ہیں کہ اس رحمٰن نے اولاد بنا رکھی ہے جس کی بےپناہ رحمت سے ساری کائنات وجود میں آئی ہے اور ہر چیز اپنی بقا کے لیے اسی کی محتاج ہے، جبکہ وہ کسی کا محتاج نہیں، سب اس کے محتاج ہیں، فرمایا : (يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاۗءُ اِلَى اللّٰهِ ) [ فاطر : ١٥ ] ” اے لوگو تم ہی اللہ کی طرف محتاج ہو اور اللہ ہی سب سے بےپروا، تمام تعریفوں کے لائق ہے۔ “ بیٹا باپ کا محتاج نہیں ہوتا، بلکہ باپ اپنی کمزوری کی وجہ سے اولاد کا محتاج ہوتا ہے اور جس عقیدے، یعنی مسیح کو کفارہ بنانے کے لیے اسے اللہ کا بیٹا قرار دیا ہے، اللہ تعالیٰ کو رحمٰن ماننے کے بعد اس کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔- 3 یہود عزیر (علیہ السلام) کو اور نصاریٰ مسیح (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہتے تھے اور مشرکین عرب فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے، جبکہ امت مسلمہ کے کئی نادان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کا جزو قرار دیتے ہیں۔ ۭلَقَدْ جِئْتُمْ شَـيْــــــًٔـا اِدًّا ۔۔ : اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد قرار دینے والوں کا ذکر غائب کے صیغے کے ساتھ تھا، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے شدت غضب میں ان ظالموں کو مخاطب فرما کر بات کی اور تاکید کے دو لفظوں ” لام “ اور ” قَدْ “ کے ساتھ، جن کے جمع ہونے سے قسم کا مفہوم پیدا ہوجاتا ہے، فرمایا قسم ہے کہ تم ایک بہت ہی بھاری بات تک آپہنچے ہو، جو اس قدر خوفناک اور بھاری ہے کہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کے تصور اور اس بات کے بوجھ سے ” سَبْعٌ شِدَادٌ“ یعنی ساتوں نہایت مضبوط آسمان پھٹ پڑیں، یہ وسیع اور محکم زمین شق ہوجائے اور انتہائی ٹھوس اور سخت پہاڑ مٹی کی بوسیدہ دیوار کی طرح ڈھے کر گرپڑیں کہ ان لوگوں نے (یہاں پھر نفرت سے مشرکوں کا ذکر غائب کے صیغے کے ساتھ کیا ہے) رحمن کے لیے اولاد کا دعویٰ کردیا، حالانکہ رحمٰن کے لائق ہی نہیں کہ وہ (کسی کو بھی، خواہ پیغمبر ہو یا فرشتہ) اولاد بنائے۔ قوسین کے الفاظ مفعول اول ہیں جو محذوف ہیں، ” وَلَداً “ مفعول ثانی ہے، یعنی اس کی اولاد ہونا ناممکن اور محال ہے، اس لیے کہ اولاد ہم جنس ہوتی ہے اور اللہ کا کوئی ہم جنس نہیں۔ پھر اولاد کمزوری میں سہارے کے لیے ہوتی ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ ہر کمزوری سے پاک اور اپنی ذات وصفات میں ہر ایک سے بےنیاز ہے۔ وہ ہمیشہ سے عزیز و غالب ہے اور ہمیشہ عزیز و غالب رہے گا۔ دیکھیے سورة بنی اسرائیل کی آخری آیت کی تفسیر۔ اس کے علاوہ اولاد بیوی سے ہوتی ہے اور خاوند بیوی کا محتاج ہوتا ہے، جب اللہ کی بیوی ہی نہیں اور وہ کسی کا محتاج ہی نہیں تو اولاد کیسی ؟ فرمایا : (اَنّٰى يَكُوْنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّلَمْ تَكُنْ لَّهٗ صَاحِبَةٌ ) [ الأنعام : ١٠١ ] ” اس کی اولاد کیسے ہوگی، جبکہ اس کی کوئی بیوی نہیں۔ “- اٰتِي الرَّحْمٰنِ عَبْدًا : آسمان و زمین میں جو بھی ہے اس کا غلام بن کر حاضر ہونے والا ہے۔ اگر کوئی اولاد ہوتی تو غلام کیسے ہوتی ؟ - لَقَدْ اَحْصٰىهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا : اللہ تعالیٰ نے سب کا احاطہ کر رکھا ہے، ایک ایک اس کے شمار میں ہے اور سب اکیلے اکیلے اس کے پاس آنے والے ہیں، اگر زمین و آسمان میں کوئی بھی اس کی اولاد ہوتا تو یقیناً اسے معلوم ہوتا۔ کیا تم اللہ سے بھی زیادہ باخبر ہو، فرمایا : ( قُلْ اَتُنَبِّـــــُٔوْنَ اللّٰهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ ) [ یونس : ١٨ ] ” کہہ دے کیا تم اللہ کو اس چیز کی خبر دیتے ہو جسے وہ نہ آسمانوں میں جانتا ہے اور نہ زمین میں ؟ “ نیز دیکھیے سورة یونس (٦٨) ، بنی اسرائیل (٤٠) اور نجم (١٩ تا ٢٢) ابوموسیٰ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَیْسَ أَحَدٌ أَصْبَرَ عَلٰی أَذًی سَمِعَہٗ مِنَ اللّٰہِ إِنَّھُمْ لَیَدْعُوْنَ لَہٗ وَلَدًا وَ إِنَّہٗ لَیُعَافِیْھِمْ وَیَرْزُقُھُمْ ) [ بخاری، الأدب، باب الصبر في الأذی : ٦٠٩٩ ] ” اللہ تعالیٰ سے زیادہ تکلیف دہ بات پر صبر کرنے والا، جسے وہ سن رہا ہو اور کوئی نہیں۔ لوگ اس کے لیے اولاد بتاتے ہیں اور وہ (اس کے باوجود) انھیں عافیت دیتا ہے اور رزق دیتا ہے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور یہ (کافر) لوگ کہتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ نے اولاد (بھی) اختیار کر رکھی ہے (چنانچہ نصارٰی کثرت سے اور یہود قلت سے اور مشرکین عرب اس عقیدہ فاسدہ میں مبتلا تھے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ) تم نے (جو) یہ (بات کہی تو) ایسی سخت حرکت کی ہے کہ اس کے سبب کچھ بعید نہیں کہ آسمان پھٹ پڑیں اور زمین کے ٹکڑے اڑ جاویں اور پہاڑ ٹوٹ کر گر پڑیں اس بات سے کہ یہ لوگ خدا تعالیٰ کی طرف اولاد کی نسبت کرتے ہیں حالانکہ خدا تعالیٰ کی شان نہیں کہ وہ اولاد اختیار کرے (کیونکہ) جتنے کچھ بھی آسمانوں اور زمینوں میں ہیں سب خدا تعالیٰ کے روبرو غلام ہو کر حاضر ہوتے ہیں (اور) اس نے سب کو (اپنی قدرت میں) احاطہ کر رکھا ہے اور (اپنے علم سے) سب کو شمار کر رکھا ہے (یہ حالت تو ان کی فی الحال ہے) اور قیامت کے روز سب کے سب اس کے پاس تنہا حاضر ہوں گے (کہ ہر شخص خدا ہی کا محتاج اور محکوم ہوگا، پس اگر خدا کے اولاد ہو تو خدا ہی کی طرح وجوب وجود و لوازم وجوب کے ساتھ موصوف ہونا چاہئے اور خدا کی یہ صفات ہیں جو مذکور ہوئیں، عموم قدرت، عموم علم۔ اور غیر خدا کی یہ صفتیں ہیں افتقار وانقیاد جو ضد ہیں وجوب کے پھر ضدین کا اجتماع کیونکر ہوسکتا ہے) ۔- بلا شبہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے اللہ تعالیٰ (ان کو علاوہ نعم مذکورہ اخرویہ کے دنیا میں یہ نعمت دے گا کہ) ان کے لئے (خلائق کے دل میں) محبت پیدا کر دے گا سو (آپ ان کو یہ بشارت دیدیجئے کیونکہ) ہم نے اس قرآن کو آپ کی زبان (عربی) میں اس لئے آسان کیا ہے کہ آپ اس سے متقیوں کو خوشخبری سنا دیں اور (نیز) اس سے جھگڑالو آدمیوں کو خوف دلاویں اور (ان خوف کی چیزوں میں سے نقمت دنیویہ کا ایک یہ بھی مضمون ہے کہ) ہم نے ان کے قبل بہت سے گروہوں کو (عذاب و قہر سے) ہلاک کردیا ہے (سو) کیا آپ ان میں سے کسی کو دیکھتے ہیں یا ان (میں سے کسی) کی کوئی آہستہ آواز سنتے ہیں ( یہ کنایہ ہے بےنام و نشان ہونے سے سو کفار اس نقمت دنیویہ کے بھی مستحق ہیں گو کسی مصلحت سے کسی کافر کے لئے اس کا وقوع نہ ہو مگر اندیشہ کے قابل تو ہے) ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا۝ ٨٨ۭ- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه»- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - ولد - الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11]- ( و ل د ) الولد - ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٨۔ ٨٩۔ ٩٠) اور یہود بھی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیز (علیہ السلام) کو بیٹا بنا لیا ایسی سخت حرکت اور بڑی بھاری بات ہے کہ اس بات کی وجہ سے کوئی بعید نہیں کہ آسمان پھٹ پڑیں اور زمین کے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اڑ جائیں اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر اڑ جائیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani