اللہ تعالیٰ کا امین فرشتہ ۔ فرمان ہے کہ جن کے دلوں میں توحید رچی ہوئی ہے اور جن کے اعمال میں سنت کانور ہے ضروری بات ہے کہ ہم اپنے بندوں کے دلوں میں ان کی محبت پیدا کردیں گے ۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرنے لگتا ہے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بلا کر فرماتا ہے کہ میں فلاں سے محبت رکھتا ہوں تو بھی فلاں انسان سے محبت رکھ ۔ اللہ کا یہ امین فرشتہ بھی اس سے محبت کرنے لگتا ہے پھر آسمانوں کے فرشتے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں پھر اس کی مقبولیت زمین پراتاری جاتی ہے اور جب کسی بندے سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوجاتا ہے تو جبرائیل علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ اس سے میں ناخوش ہوں تو بھی اس سے عداوت رکھ حضرت جبرائیل علیہ السلام بھی اس کے دشمن بن جاتے ہیں پھر آسمانوں میں ندا کر دیتے ہیں کہ فلاں دشمن الہٰی تم سب اس سے بیزار رہنا چنانچہ آسمان والے اس سے بگڑتے بیٹھتے ہیں پھر وہی غضب اور ناراضگی زمین پر نازل ہوتی ہے ۔ ( بخاری مسلم وغیرہ ) مسند احمد میں ہے کہ جو بندہ اپنے مولا کی مرضی کا طالب ہو جاتا ہے اور اس کی خوشی کے کاموں میں مشغول ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ عزوجل جبرائیل علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ میرا فلاں بندہ مجھے خوش کرنا چاہتا ہے سنو میں اس سے خوش ہوگیا میں نے اپنی رحمتیں اس پر نازل کرنی شروع کر دیں ۔ پس حضرت جبرائیل علیہ السلام ندا کرتے ہیں کہ فلاں پر رحمت الہٰی ہو گئی پھر حاملان عرش بھی یہی منادی کرتے ہیں پھر ان کے پاس والے غرض ساتوں آسمانوں میں یہ آواز گونج جاتی ہے پھر زمین پر اس کی مقبولیت اترتی ہے ۔ یہ حدیث غریب ہے ایسی ہی ایک اور حدیث بھی مسند احمد میں غرابت والی ہے جس میں یہ بھی ہے کہ محبت اور شہرت کسی کی برائی یا بھلائی کے ساتھ آسمانوں سے اللہ کی جانب سے اترتی ہے ۔ ابن ابی حاتم میں اسی قسم کی حدیث کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس آیت قرآنی کو پڑھنا بھی مروی ہے ۔ پس مطلب آیت کا یہ ہوا کہ نیک عمل کرنے والے ایمانداروں سے اللہ خود محبت کرتا ہے اور زمین پر بھی ان کی محبت اور مقبولیت اتاری جاتی ہے ۔ مومن ان سے محبت کرنے لگتے ہیں ان کا ذکر خیر ہوتا ہے اور ان کی موت کے بعد بھی ان کی بہترین شہرت باقی رہتی ہے ۔ مصرم بن حبان کہتے ہیں کہ جو بندہ سچے اور مخلص دل سے اللہ کی طرف جھکتا ہے اللہ تعالیٰ مومنوں کے دلوں کو اس کی طرف جھکا دیتا ہے وہ اس سے محبت اور پیار کرنے لگتے ہیں ۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے بندہ جو بھلائی برائی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اسی کی چادر اوڑھا دیتا ہے حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے ارادہ کیا کہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح سے کروں گا کہ تمام لوگوں میں میری نیکی کی شہرت ہوجائے اب وہ عبادت الہی کی طرف جھک پڑا جب دیکھو نماز میں ۔ مسجد میں سب سے اول آئے اور سب کے بعد جائے اسی طرح سات ماہ اسے گزر گئے لیکن اس نے جب بھی سنا یہی سنا کہ لوگ اسے ریا کار کہتے ہیں اس نے یہ حالت دیکھ کر اب اپنے جی میں عہد کر لیا کہ میں صرف اللہ کی خوشنودی کے لئے عمل کروں گا کسی عمل میں تو نہ بڑھا لیکن خلوص کے ساتھ اعمال شروع کردئے نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑے ہی دنوں میں ہر شخص کی زبان سے نکلنے لگا کہ اللہ تعالیٰ فلان شخص پر رحم فرمائے اب تو وہ واقعی اللہ والا بن گیا ہے پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی ۔ ابن جریر میں ہے کہ یہ آیت حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہجرت کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن یہ قول درست نہیں اس لئے کہ یہ پوری سورت مکے میں نازل ہوئی ہے ہجرت کے بعد اس سورت کی کسی آیت کا نازل ہونا ثابت نہیں ۔ اور جو اثر امام صاحب نے وارد کیا ہے وہ سندا بھی صحیح نہیں واللہ اعلم ۔ ہم نے قرآن کو اے نبی تیری زبان میں یعنی عربی زبان میں بالکل آسان کر کے نازل فرمایا ہے جو فصاحت وبلاغت والی بہترین زبان ہے تاکہ تو انہیں جو اللہ کا خوف رکھتے ہیں ، دلوں میں ایمان اور ظاہر میں نیک اعمال رکھتے ہیں ، اللہ کی بشارتیں سنادے اور جو حق سے ہٹے ہوئے باطل پر مٹے ہوئے استقامت سے دور خود بنیی میں مخمور جھگڑالو جھوٹے اندھے بہرے فاسق فاجر ظالم گنہگار بد کردار ہیں انہیں اللہ کی پکڑ سے اور اس کے عذاب سے متنبہ کر دے جیسے قریش کے کفار وغیرہ ۔ بہت سی امتوں کو جنہوں نے اللہ کے ساتھ کفر کیا تھا نبیوں کا انکار کیا تھا ہم نے ہلاک کر دیا ۔ جن میں سے ایک بھی باقی نہیں بچا ایک کی آواز بھی دنیا میں نہیں رہی رکز کے لفظی معنی ہلکی اور دھیمی آواز کے ہیں ۔
96۔ 1 یعنی دنیا میں لوگوں کے دلوں میں اس کی نیکی اور پارسائی کی وجہ سے محبت پیدا کر دے گا، جیسا کہ حدیث میں آتا ہے جب اللہ تعالیٰ کسی (نیک) بندے کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے تو اللہ جبرائیل (علیہ السلام) کو کہتا ہے، میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر۔ پس جبرائیل (علیہ السلام) بھی اس سے محبت کرنی شروع کردیتے ہیں پھر جبرائیل (علیہ السلام) آسمان میں منادی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں آدمی سے محبت کرتا ہے، پس تمام آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، پھر زمین میں اس کے لئے قبولیت اور پذیرائی رکھ دی جاتی ہے (صحیح بخاری) ۔
[٨٢] انبیاء اور صالحین سے لوگ محبت اور بدکرداروں سے نفرت کیوں کرتے ہیں ؟:۔ یہ آیت اس دور میں نازل ہوئی جب صحابہ کرام (رض) مجبور و مقہور تھے۔ قریشی سرداروں کے ہاتھوں ستم رسیدہ تھے اور ان کی نگاہوں میں حقیر تھے۔ اس آیت میں ان کے لئے ایک بہت بڑی خوشخبری بھی ہے اور پیشین گوئی بھی پھر ایک وقت آیا جب صحابہ کرام (رض) کو اللہ تعالیٰ نے وہ عزت عطا فرمائی کہ سارا جہان ان سے محبت رکھنے اور ان کے گن گانے لگا۔ آج تک یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ یہ بات صرف صحابہ کرام (رض) سے ہی مخصوص نہیں بلکہ جو بھی ایماندار اعمال صالحہ بجا لائے گا۔ ابتداء ً خواہ لوگ اس کی طرف متوجہ نہ ہوں یا اسے اس راہ میں تکلیفیں بھی پہنچیں لیکن جلد ہی اللہ تعالیٰ انھیں عزت بخشیں گے اور لوگوں میں ان کی مقبولیت اور محبت پیدا ہوجائے گی۔ اس کے برعکس بےایمان اور بدکردار لوگوں کی خواہ ابتدا میں کتنی ہی عزت ہو لیکن وہ با لآخر لوگوں کی نظروں سے گرجاتے ہیں۔ اور لوگ ان سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ یہ سب کچھ کیسے اور کیوں ہوتا ہے اس کی تفسیر درج ذیل حدیث میں ملاحظہ فرمائیے :- سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتے ہیں تو جبریل کو پکار کر کہتے ہیں کہ میں فلاں بندے سے محبت رکھتا ہوں تم بھی اس سے محبت رکھو۔ پھر جبریل آسمان میں پکارتے ہیں۔ پھر اہل زمین میں اس کی محبت نازل کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول کا یہی مطلب ہے اور جب اللہ کسی بندے سے ناراض ہوجاتے ہیں تو جبریل سے کہتے ہیں : میں فلاں بندے سے ناراض ہوں تم بھی اس سے ناراض ہوجاؤ۔ پھر یہی بغض اس کے لئے اہل زمین میں نازل کیا جاتا ہے (ترمذی، ابو اب التفسیر)
سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا : ” وُدٌّ“ اور ” حُبٌّ“ ہم معنی ہیں۔ ” وُدًّا “ کی تنوین تعظیم کے لیے ہے۔ کافروں کے برے عقائد و اعمال اور ان کے انجام بد کا ذکر کرنے کے بعد ایمان اور عمل صالح والوں پر اپنے انعامات کا ذکر فرمایا۔ اس آیت کے تین معنی ہوسکتے ہیں اور تینوں درست ہیں، جن کی قرآن و حدیث سے تائید ہوتی ہے۔ اللہ کے کلام سے بڑھ کر جامع کلام کوئی نہیں کہ جس کے تھوڑے سے کلمات میں بہت سے معانی جمع ہیں۔ پہلا معنی یہ ہے کہ جو لوگ صدق دل سے ایمان لائے اور انھوں نے اس دعویٰ کی تصدیق کے لیے کتاب و سنت کے مطابق اخلاص کے ساتھ عمل کیے (کیونکہ عمل صالح کے تین اجزا ہیں : ایمان، اخلاص اور اتباع کتاب و سنت) تو اللہ تعالیٰ بہت جلد ایمان والوں کے دلوں میں ان کے لیے عظیم محبت رکھ دے گا، جب کہ دشمنوں کے دلوں میں ان کی ہیبت اور رعب ڈال دے گا، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رعب ایک مہینے کی مسافت پر دور دشمن پر پڑجاتا تھا۔ اصبہانی نے فرمایا کہ یہ محبت انھیں لوگوں کی محبت حاصل کرنے کی کسی کوشش یا لوگوں کی دوستی کے اسباب میں سے کسی سبب، مثلاً قرابت، کسی پر احسان، مروت یا خوش اخلاقی وغیرہ کے بغیر محض رحمٰن کی عنایت سے حاصل ہوتی ہے (جن لوگوں سے وہ ملا بھی نہیں ہوتا وہ بھی اس سے محبت رکھتے ہیں) ۔ (بقاعی) صفت رحمٰن اور دلوں میں محبت پیدا کرنے کے درمیان مناسبت بالکل واضح ہے۔ قرآن مجید میں اس کی مثال موسیٰ (علیہ السلام) کو محبوب خلائق بنانا ہے، فرمایا : (وَاَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّيْ ) [ طٰہٰ : ٣٩ ] ” اور میں نے تجھ پر اپنی طرف سے عظیم محبت ڈال دی۔ “ اسی طرح ” رَبُّنَا اللّٰه “ (ہمارا رب اللہ ہی ہے) کہہ کر استقامت اختیار کرنے والوں کو فرشتے بشارت دیتے ہیں : (نَحْنُ اَوْلِيٰۗــؤُكُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِ ) [ حٰمٓ السجدۃ : ٣١ ] ” ہم تمہارے دوست ہیں دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی۔ “ اور ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِذَا أَحَبَّ اللّٰہُ الْعَبْدَ نَادَی جِبْرِیْلَ إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ فُلاَنًا فَأَحْبِبْہُ فَیُحِبُّہٗ جِبْرِیْلُ فَیُنَادِیْ جِبْرِیْلُ فِیْ أَھْلِ السَّمَاءِ إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ فُلاَنًا فَأَحِبُّوْہٗ فَیُحِبُّہٗ أَھْلُ السَّمَاءِ ثُمَّ یُوْضَعُ لَہٗ الْقَبُوْلُ فِي الْأَرْضِ ) [ بخاري، بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ صلوات اللہ علیہم : ٣٢٥٩، ٧٤٨٥ ] ” جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبریل کو بلاتا ہے (اور کہتا ہے کہ) بیشک اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے تو بھی اس سے محبت کر، تو جبریل بھی اس سے محبت کرتا ہے اور آسمان والوں میں اعلان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں سے محبت کرتا ہے، اس لیے تم سب اس سے محبت کرو، تو آسمان والے اس سے محبت کرتے ہیں، پھر اس کے لیے زمین میں قبولیت رکھ دی جاتی ہے۔ “ - صحیح مسلم میں مزید یہ الفاظ ہیں : ( وَإِذَا أَبْغَضَ اللّٰہُ عَبْدًا دَعَا جِبْرَءِیْلَ فَیَقُوْلُ إِنِّيْ أُبْغِضُ فُلَانًا فَأَبْغِضْہُ ، قَالَ : فَیُبْغِضُہُ جِبْرَءِیْلُ ، ثُمَّ یُنَادِيْ فِيْ أَھْلِ السَّمَاءِ إِنَّ اللّٰہَ یُبْغِضُ فُلَانًا فَأَبْغِضُوْہُ ، قَالَ فَیُبْغِضُوْنَہُ ، ثُمَّ تُوْضَعُ لَہُ الْبَغْضَاءُ فِي الْأَرْضِ ) ” اور جب وہ کسی بندے سے بغض رکھتا ہے تو جبریل کو بلاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں فلاں سے بغض رکھتا ہوں، تم بھی اس سے بغض رکھو۔ “ فرمایا : ” تو جبریل اس سے بغض رکھتا ہے، پھر وہ آسمان والوں میں اعلان کردیتا ہے کہ اللہ فلاں سے بغض رکھتا ہے، اس لیے تم بھی اس سے بغض رکھو۔ “ فرمایا : ” تو وہ اس سے بغض رکھتے ہیں، پھر اس کے لیے زمین میں دلی دشمنی رکھ دی جاتی ہے۔ “ [ مسلم، البر والصلۃ، باب إذا أحب اللہ عبدا، أمر جبرئیل۔۔ : ٢٦٣٧ ] واضح رہے کہ یہ آیت مکہ معظمہ میں نازل ہوئی جہاں مسلمان انتہائی مظلومیت و کس مپرسی کی زندگی بسر کر رہے تھے، گویا اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ فرمایا کہ عنقریب حالات بدلیں گے (لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوں گے) اور تم ذلیل و رسوا ہونے کے بجائے محبوب خلائق بن کر زندگی گزارو گے۔ چناچہ یہ وعدہ پورا ہوا اور رہتی دنیا تک لوگوں کے دلوں میں صحابہ کرام (رض) کی وہ محبت پیدا ہوئی جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ - دوسرا معنی اس آیت کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایمان اور عمل صالح والوں کے لیے آپس میں محبت پیدا فرما دے گا، جو پہلے جانی دشمن تھے ایمان کے بعد دلی دوست بن جائیں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( ۭهُوَ الَّذِيْٓ اَيَّدَكَ بِنَصْرِهٖ وَبِالْمُؤْمِنِيْنَ 62ۙ وَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِهِمْ ۭ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوْبِهِمْ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ اَلَّفَ بَيْنَهُمْ ۭاِنَّهٗ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ ) [ الأنفال : ٦٢، ٦٣ ] ” وہی ہے جس نے تجھے اپنی مدد کے ساتھ اور مومنوں کے ساتھ قوت بخشی اور ان کے دلوں کے درمیان الفت ڈال دی۔ اگر تو زمین میں جو کچھ ہے، سب خرچ کردیتا ان کے دلوں میں الفت نہ ڈالتا اور لیکن اللہ نے ان کے درمیان الفت ڈال دی، بیشک وہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔ “ یہ رحمٰن کی اس رحمت ہی کا نتیجہ ہے کہ مدتوں لڑنے والے اوس و خزرج بھائی بھائی بن گئے، حبش کے بلال، روم کے صہیب، ایران کے سلمان، مدینہ کے انصار اور مکہ کے قریش آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور ” اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ“ کا عملی نقشہ دنیا کے سامنے آگیا۔ اگر ان کی کوئی باہمی رنجش رہ بھی گئی تو اللہ تعالیٰ نے جنت میں جانے سے پہلے اسے دور کرنے کا وعدہ فرمایا۔ دیکھیے سورة حجر (٤٧) جیسا کہ اوپر گزرا، یہ محبت ایمان داروں کے دلوں میں پیدا ہوتی ہے، کفار کے دلوں میں نہیں، اس کی مثال ثمامہ بن اثال اور ہند بنت عتبہ (رض) ہیں جنھوں نے شہادت دی کہ اسلام لانے سے پہلے ان کے نزدیک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ مبغوض کوئی نہ تھا، لیکن پھر ایمان لانے کے بعد آپ سے بڑھ کر محبوب کوئی نہ تھا۔ - تیسرا معنی یہ ہے کہ ” وُدًّا “ مصدر بمعنی اسم مفعول ہے، محبوب چیز، یعنی ایمان اور عمل صالح والے جو چیز محبوب رکھیں گے، پسند کریں گے رحمٰن جنت میں انھیں وہی عطا فرمائے گا، جیسا کہ فرمایا : (وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَشْتَهِيْٓ اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَدَّعُوْنَ ) [ حٰآ السجدۃ : ٣١ ] ” اور تمہارے لیے اس (جنت) میں وہ کچھ ہے جو تمہارے دل چاہیں گے اور تمہارے لیے اس میں وہ کچھ ہے جو تم مانگو گے۔ “ یہ معنی ابومسلم نے بیان فرمایا ہے۔ (قاسمی)
سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا، یعنی ایمان اور عمل صالح پر قائم رہنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ کردیتے ہیں دوستی اور محبت، یعنی ایمان اور عمل صالح جب مکمل ہوں اور بیرونی عوارض سے خالی ہوں تو ان کا خاصہ یہ ہے کہ مومنین صالحین کے درمیان آپس میں بھی الفت و محبت ہوجاتی ہے۔ ایک نیک صالح آدمی دوسرے نیک آدمی سے مانوس ہوتا ہے اور دوسرے تمام لوگوں اور مخلوقات کے دلوں میں بھی اللہ تعالیٰ ان کی محبت پیدا فرما دیتے ہیں۔- بخاری، مسلم، ترمذی، وغیرہ نے حضرت ابوہریرہ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ حق تعالیٰ جب کسی بندے کو پسند فرماتے ہیں تو جبرئیل امین سے کہتے ہیں کہ میں فلاں آدمی سے محبت کرتا ہوں تم بھی ان سے محبت کرو۔ جبرئیل امین سارے آسمانوں میں اس کی منادی کرتے ہیں اور سب آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں پھر یہ محبت زمین پر نازل ہوتی ہے (تو زمین والے بھی سب اس محبوب خدا سے محبت کرنے لگتے ہیں) اور فرمایا کہ قرآن کریم کی یہ آیت اس پر شاہد ہے یعنی (آیت) اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا (روح المعانی) اور ہرم بن حیان نے فرمایا کہ جو شخص اپنے پورے دل سے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ تمام اہل ایمان کے دل اس کی طرف متوجہ فرما دیتے ہیں۔ (قرطبی)- حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰة والسلام نے جب اپنی اہلیہ ہاجرہ اور شیر خوار صاحبزادہ اسماعیل (علیہ السلام) کو مکہ کے خشک پہاڑوں کے درمیان ریگستان میں بحکم خدا تعالیٰ چھوڑ کر ملک شام واپس جانے کا ارادہ فرمایا تو ان کے لئے بھی دعا مانگی تھی (آیت) فَاجْعَلْ اَفْىِٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِيْٓ اِلَيْهِمْ یعنی یا اللہ میرے بےکس اہل و عیال کے لئے آپ کچھ لوگوں کے قلوب کو مائل اور متوجہ فرما دیجئے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہزاروں سال گزر چکے ہیں کہ مکہ اور اہل مکہ کی محبت ساری دنیا کے دلوں میں بھر دی گئی ہے اور دنیا کے ہر گوشے سے بڑی بڑی محنت و مشقت اٹھا کر اور عمر بھر کی کمائی خرچ کر کے لوگ پہنچتے رہتے ہیں اور دنیا کے ہر گوشہ کی چیزیں مکہ معظمہ کے بازار میں دستیاب ہوتی ہیں۔
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَيَجْعَلُ لَہُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا ٩٦- أمن - والإِيمان - يستعمل تارة اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ويقال لكلّ واحد من الاعتقاد والقول الصدق والعمل الصالح : إيمان . قال تعالی: وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمانَكُمْ [ البقرة 143] أي : صلاتکم، وجعل الحیاء وإماطة الأذى من الإيمان - قال تعالی: وَما أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنا وَلَوْ كُنَّا صادِقِينَ [يوسف 17] قيل : معناه : بمصدق لنا، إلا أنّ الإيمان هو التصدیق الذي معه أمن، وقوله تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيباً مِنَ الْكِتابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ [ النساء 51] فذلک مذکور علی سبیل الذم لهم،- ( ا م ن ) الامن - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلما ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست (2 ۔ 62) میں امنوا کے یہی معنی ہیں اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید ہوۃ کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ اور کبھی ایمان کا لفظ بطور مدح استعمال ہوتا ہے اور اس سے حق کی تصدیق کرکے اس کا فرمانبردار ہوجانا مراد ہوتا ہے اور یہ چیز تصدیق بالقلب اقرار باللسان اور عمل بالجوارح سے حاصل ہوتی ہے اس لئے فرمایا ؛۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ ( سورة الحدید 19) اور جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبر پر ایمان لائے ہیں روہی صدیق میں یہی وجہ ہے کہ اعتقاد قول صدق اور عمل صالح میں سے ہر ایک کو ایمان کہا گیا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ وَمَا كَانَ اللهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ( سورة البقرة 143) ۔ اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یوں ہی کھودے (2 ۔ 143) میں ایمان سے مراد نماز ہے اور (16) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیا اور راستہ سے تکلیف کے دور کرنے کو جزو ایمان قرار دیا ہے اور حدیث جبرائیل میں آنحضرت نے چھ باتوں کو کو اصل ایمان کہا ہے اور آیت کریمہ ؛۔ وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ ( سورة يوسف 17) اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچ ہی کہتے ہوں باور نہیں کریں گے (12 ۔ 17) میں مومن بمعنی مصدق ہے ۔ لیکن ایمان اس تصدیق کو کہتے ہیں جس سے اطمینان قلب حاصل ہوجائے اور تردد جاتا رہے اور آیت کریمہ :۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ ( سورة النساء 44 - 51) من ان کی مذمت کی ہے کہ وہ ان چیزوں سے امن و اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں جو باعث امن نہیں ہوسکتیں کیونکہ انسان فطری طور پر کبھی بھی باطل پر مطمئن نہیں ہوسکتا ۔ - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - ودد - الودّ : محبّة الشیء، وتمنّي كونه، ويستعمل في كلّ واحد من المعنيين علی أن التّمنّي يتضمّن معنی الودّ ، لأنّ التّمنّي هو تشهّي حصول ما تَوَدُّهُ ، وقوله تعالی: وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم 21]- ( و د د ) الود ۔- کے معنی کسی چیز سے محبت اور اس کے ہونے کی تمنا کرنا کے ہیں یہ لفظ ان دونوں معنوں میں الگ الگ بھی استعمال ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ کسی چیز کی تمنا اس کی محبت کے معنی کو متضمعن ہوتی ہے ۔ کیونکہ تمنا کے معنی کسی محبوب چیز کی آرزو کرنا کے ہوتے ہیں ۔ اور آیت : ۔ وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم 21] اور تم میں محبت اور مہربانی پیدا کردی ۔
قول باری ہے (ان الذین امنوا وعملوا الصلحات سیجعل لھم الرحمٰن وداً ۔ یقینا جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور عمل صالح کر رہے ہیں عنقریب رحمان ا ن کے دلوں میں محبت پیدا کر دے گا) ان کی تفسیر میں دو قول ہیں۔ ایک تو یہ کہ آخرت میں یہ ایک دوسرے سے اسی طرح محبت کریں گے جس طرح والد کو اپنی اولاد سے محبت ہوتی ہے۔ دوسرا قول حضرت ابن عباس اور مجاہد کا ہے کہ دنیا کے اندر محبت پیدا کر دے گا۔
(٩٦) بیشک جو لوگ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان لائے اور اچھے کام کیے تو اللہ تعالیٰ ان سے محبت فرمائے گا اور ان کے لیے مومنین کے دلوں میں خاص طور پر محبت پیدا کر دے گا۔- شان نزول ( آیت) ”۔ ان الذین وعملوا الصلحت “۔ (الخ)- ابن جریر (رح) نے عبدالرحمن بن عوف سے روایت کیا ہے کہ جب انہوں نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تو مکہ مکرمہ سے اپنے ساتھیوں کی جدائی کی وجہ سے جن میں سے شیبہ، عتبہ، امیہ بن خلف تھے، افسوس ہوا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے اللہ تعالیٰ ان کے لیے محبت پیدا کر دے گا یعنی مسلمانوں کے دلوں میں ان کے لیے محبت پیدا کر دے گا۔
آیت ٩٦ (اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَہُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا ) ” - یہ فرمان مکہ کے کٹھن حالات میں مؤمنین کے لیے ایک خوش خبری تھی کہ بلاشبہ ابھی اہل ایمان کے لیے بہت مشکل وقت ہے ‘ انہیں ہر طرف سے مخالفت اور طعن وتشنیع کا سامنا ہے ‘ لیکن بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے جب یہی لوگ محبوبان خلائق ہوں گے۔ ابوبکر (رض) کی شخصیت پر لوگ عقیدت و محبت کے پھول نچھاور کریں گے ‘ اور بلال (رض) کی تعظیم و تکریم دلوں پر راج کرے گی۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ” جب اللہ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو وہ جبرائیل ( علیہ السلام) کو بلا کر فرماتا ہے : مجھے اپنے فلاں بندے سے محبت ہے ‘ لہٰذا تم بھی اسے محبوب رکھو۔ چناچہ جبرائیل اسے محبوب رکھتے ہیں ‘ پھر وہ آسمان میں اعلان کردیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص کو محبوب رکھتا ہے ‘ پس تم سب بھی اس کو محبوب رکھو۔ چناچہ آسمان والے اس سے محبت کرنے لگ جاتے ہیں “۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” پھر اس کی مقبولیت زمین میں رکھ دی جاتی ہے۔ “ (١) یعنی اہل زمین کے دلوں میں اس کی محبت ڈال دی جاتی ہے اور اس طرح اللہ کا محبوب بندہ خلق خدا کا بھی محبوب بن جاتا ہے۔
سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :53 یعنی آج مکے کی گلیوں میں وہ ذلیل و رسوا کیے جارہے ہیں ۔ مگر یہ حالت دیر پا نہیں ہے ۔ قریب ہے وہ وقت جبکہ اپنے اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ کی وجہ سے وہ محبوب خلائق ہو کر رہیں گے ۔ دل ان کی طرف کھنچیں گے ۔ دنیا ان کے آگے پلکیں بچھائے گی ۔ فسق و فجور ، رعونت اور کبر ، جھوٹ اور ریا کاری کے بل پر جو سیادت قیادت چلتی ہو وہ گردنوں کو چاہے جھکالے ، دلوں کو مسخر نہیں کر سکتی ۔ اس کے برعکس جو لوگ صداقت ، دیانت ، اخلاص اور حسن اخلاق کے ساتھ راہ راست کی طرف دعوت دیں ، ان سے اول چاہے دنیا کتنی ہی اپرائے ، آخر کار وہ دلوں کو موہ لیتے ہیں اور بد دیانت لوگوں کا جھوٹ زیادہ دیر تک ان کا راستہ روکے نہیں رہ سکتا ۔
37: یعنی اس وقت تو مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ کفار ان کی مخالفت پر تلے ہوئے ہیں۔ لیکن عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب مخلوق خدا کے دلوں میں ان مسلمانوں کی محبت پیدا ہوجائے گی۔