97۔ 1 قرآن کو آسان کرنے کا مطلب اس زبان میں اتارنا ہے جس کو پیغمبر جانتا تھا یعنی عربی زبان میں، پھر اس کے مضمون کا کھلا ہونا، واضح اور صاف ہونا۔ 97۔ 2 لُدَّا (أَلَدُّ کی جمع) کے معنی جھگڑا لو کے ہیں مراد کفار و مشرکین ہیں۔
[٨٣] قوما لُدّا سے مراد ہٹ دھرم، جھگڑالو اور کج بحثی کرنے والے قریشی سردار ہیں۔ جو ہر بات میں میں میخ نکالنے کے عادی تھے۔ انھیں ہی یہ تنبیہ کی جارہی ہے کہ تمہارے جیسی بہت سی اقوام کو ہم نے یوں تہس نہس کردیا کہ ان کا نام و نشان تک صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہے۔ اور ان کی شیخیوں، گستاخیوں اور لن ترانیوں کی آج بھنک تک سنائی نہیں دیتی۔
فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰهُ بِلِسَانِكَ ۔۔ : یہ ساری سورت بلکہ پورا قرآن متقین کو خوش خبری اور منکرین کو ڈرانے کے لیے ہے۔ اس آیت سے پہلی آیات میں بھی اللہ تعالیٰ کی اولاد بتانے والوں کی تردید اور ان کا انجام بد مذکور ہے اور ایمان اور عمل صالح والوں کو حصول محبت کی خوش خبری دی گئی ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس مقصد کے لیے قرآن مجید میں تین خوبیاں رکھنے کا ذکر فرمایا، تاکہ بشارت و نذارت بہترین طریقے سے ہو سکے۔ پہلی یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اسے آسان کردیا ہے اور اللہ کی آسان کی ہوئی چیز سے زیادہ آسان کیا چیز ہوگی۔ دیکھیے سورة قمر (١٧) دوسری یہ کہ اسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان ” عربی “ میں اتارا جس سے زیادہ بات واضح کرنے کی خوبی کسی زبان میں نہیں اور جس کے اولین مخاطب یہ زبان بولنے والے تھے، جو اس زبان کے باریک سے باریک اشاروں کو بھی سمجھتے تھے۔ دیکھیے سورة شعراء (١٩٢ تا ١٩٥) ، یوسف (١، ٢) ، زخرف (١ تا ٣) اور نحل (١٠٣) ۔ - تیسری یہ کہ اس کے ساتھ خوش خبری دینے اور ڈرانے کے لیے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ دے کر بھیجا گیا، جو خود اہل عرب سے تھے، تاکہ وہ اسے پڑھ کر سنائیں اور عمل کر کے دکھائیں۔ دیکھیے سورة نحل (٤٤) پہلی خوبی لفظ ” يَسَّرْنٰهُ “ میں، دوسری ” بِلِسَانِكَ “ میں اور تیسری ” لِتُبَشِّرَ بِهِ “ اور ” تُنْذِرَ بِهٖ “ کے صیغہ خطاب میں بیان ہوئی ہے۔- ” لُّدًّا “” أَلَدُّ “ کی جمع ہے، سخت جھگڑالو اور ضدی شخص، جو کسی طرح حق بات کو نہ مانے۔ اس سے مراد قریش اور دوسرے معاند کفار ہیں۔ دیکھیے سورة زخرف (٥٧، ٥٨) ۔
فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الْمُتَّقِيْنَ وَتُنْذِرَ بِہٖ قَوْمًا لُّدًّا ٩٧- سير - السَّيْرُ : المضيّ في الأرض، ورجل سَائِرٌ ، وسَيَّارٌ ، والسَّيَّارَةُ : الجماعة، قال تعالی: وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف 19] ، يقال : سِرْتُ ، وسِرْتُ بفلان، وسِرْتُهُ أيضا، وسَيَّرْتُهُ علی التّكثير - ( س ی ر ) السیر - ( ض) کے معنی زمین پر چلنے کے ہیں اور چلنے والے آدمی کو سائر وسیار کہا جاتا ہے ۔ اور ایک ساتھ چلنے والوں کی جماعت کو سیارۃ کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف 19] ( اب خدا کی شان دیکھو کہ اس کنویں کے قریب ) ایک قافلہ دار ہوا ۔- لسن - اللِّسَانُ : الجارحة وقوّتها، وقوله : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه 27] يعني به من قوّة لسانه، فإنّ العقدة لم تکن في الجارحة، وإنما کانت في قوّته التي هي النّطق به، ويقال : لكلّ قوم لِسَانٌ ولِسِنٌ بکسر اللام، أي : لغة . قال تعالی: فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان 58] ، وقال : بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء 195] ، وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ- [ الروم 22] فاختلاف الْأَلْسِنَةِ إشارة إلى اختلاف اللّغات، وإلى اختلاف النّغمات، فإنّ لكلّ إنسان نغمة مخصوصة يميّزها السّمع، كما أنّ له صورة مخصوصة يميّزها البصر .- ( ل س ن ) اللسان - ۔ زبان اور قوت گویائی کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه 27] اور میری زبان کی گرہ گھول دے ۔ یہاں لسان کے معنی قلت قوت گویائی کے ہیں کیونکہ وہ بندش ان کی زبان پر نہیں تھی بلکہ قوت گویائی سے عقدہ کشائی کا سوال تھا ۔ محاورہ ہے : یعنی ہر قوم را لغت دلہجہ جدا است ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان 58]( اے پیغمبر ) ہم نے یہ قرآن تمہاری زبان میں آسان نازل کیا ۔ بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء 195] فصیح عربی زبان میں ۔ اور آیت کریمہ : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم 22] اور تمہاری زبانوں اور نگوں کا اختلاف ۔ میں السنہ سے اصوات اور لہجوں کا اختلاف مراد ہے ۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح دیکھنے میں ایک شخص کی صورت دوسرے سے نہیں ملتی اسی طرح قوت سامعہ ایک لہجہ کو دوسرے سے الگ کرلیتی ہے ۔- بشر - واستبشر :- إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] .- ( ب ش ر ) البشر - التبشیر - کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ فَبَشِّرْ عِبَادِ ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔- لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔- وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا - نذر - وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14]- والنَّذِيرُ :- المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذر - الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔- النذ یر - کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - لدد - الْأَلَدُّ : الخصیم الشّديد التّأبّي، وجمعه : لُدٌّ. قال تعالی: وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ- [ البقرة 204] ، وقال : وَتُنْذِرَ بِهِ قَوْماً لُدًّا [ مریم 97] . وأصل الألدّ : الشّديد اللَّدَدُ ، أي : صفحة العنق، وذلک إذا لم يمكن صرفه عمّا يريده، وفلان يَتَلَدَّدُ ، أي : يتلفّت، واللَّدُودُ ما سقي الإنسان من دواء في أحد شقّي فمه، وقد الْتَدَدْتُ ذلك .- ( ل د د ) الالد - ۔ سخت جھگڑا لو آدمی کو کہتے ہیں جو کسی کی بات مانتا ہی ن ہو ۔ اس کی جمع لد آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ [ البقرة 204] حالانکہ وہ سخت جھگڑالو ہے ۔ وَتُنْذِرَ بِهِ قَوْماً لُدًّا [ مریم 97] تاکہ اس کے ذریعہ سخت جھگڑا لو قوم کے بدانجام سے آگاہ کرو ۔ اصل میں الد شدید اللد د یعنی اس آدمی کو کہتے ہیں ۔ جس کی گردن کا پہو بڑا سخت ہو ۔ اور مجازا اس شخص پر بولاجاتا ہے جسے اس کے ارادہ سے پھیرا نہ جاسکے ۔ فلان یتلدد فلاں گردن موڑ کر رخ پھیر تا ہے ۔ اللدود ۔ وہ دو اجومنہ کی ایک جانب سے پلائی جائے ۔ التددت ۔ لدو دلینا ۔
(٩٧) اور ہم نے اس قرآن کریم کی قرأت کو آپ پر اس لیے آسان کیا ہے تاکہ آپ اس سے کفر وشرک اور برائیوں سے بچنے والوں کو خوشخبری سنائیں اور اس کے ذریعے سے جھگڑا لو لوگوں کو خوف دلائیں۔
آیت ٩٧ (فَاِنَّمَا یَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِکَ ) ” - قرآن کی زبان سہل ممتنع کا خوبصورت نمونہ ہے۔ عام قرآنی عبارت سلیس اور آسان عربی زبان میں ہے۔ اس میں ثقیل اور مشکل الفاظ شاذ ہی کہیں نظر آتے ہیں۔ - (لِتُبَشِّرَ بِہِ الْمُتَّقِیْنَ وَتُنْذِرَ بِہٖ قَوْمًا لُّدًّا ) ” - یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کا ذریعہ اور وسیلہ ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات کا مرکز و محور اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا آلۂ انقلاب یہی قرآن ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی کے ذریعے سے وعظ و تذکیر کا فریضہ انجام دیں اور اسی کی مدد سے انذار وتبشیر کا حق ادا کریں : (فَذَکِّرْ بالْقُرْاٰنِ مَنْ یَّخَافُ وَعِیْدِ ) (قٓ) ” تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نصیحت کرتے رہیں قرآن کے ساتھ ہر اس شخص کو جو ڈرتا ہے میری وعید سے “۔ قرآن ایک مؤثر اور جامع وعظ بھی ہے اور تزکیہ نفس کے لیے شافی و کافی دوا بھی۔ اس حقیقت کا اعلان سورة یونس میں اس طرح کیا گیا ہے : (یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ قَدْجَآءَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِلا وَہُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ) ” اے لوگو آگئی ہے تمہارے پاس نصیحت تمہارے رب کی طرف سے اور تمہارے سینوں (کے روگ) کی شفاء اور ہدایت ‘ اور اہل ایمان کے حق میں (بہت بڑی) رحمت “۔ اور سورة بنی اسرائیل کی آیت ٨٢ میں یہی مضمون ان الفاظ میں بیان ہوا ہے : (وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ہُوَشِفَآءٌ وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ) ” اور ہم نازل کرتے ہیں قرآن سے (وہ چیز) جو شفاء اور رحمت ہے مومنین کے لیے۔ “