Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

98۔ 1 احساس کے معنی ہیں، حس کے ذریعے سے معلومات حاصل کرنا۔ یعنی کیا تو ان کو آنکھوں سے دیکھ سکتا یا ہاتھوں سے چھو سکتا ہے ؟ استفہام انکاری ہے۔ یعنی ان کا وجود ہی دنیا میں نہیں ہے کہ تو انھیں دیکھ یا چھو سکے یا دیکھ سکے یا اس کی ہلکی سی آواز ہی تجھے کہیں سے سنائی دے سکے۔ حضرت عمر (رض) کے قبول اسلام کے متعدد اسباب بیان کئے گئے ہیں۔ بیض تاریخ وسیر کی روایتات میں اپنی بہن اور بہنوئی کے گھر میں سورة طہ کا سننا اور اس سے مثاثر ہونا بھی مذکور ہے۔ (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَكَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْنٍ ۔۔ : یہاں گزشتہ آیت میں مذکور سخت جھگڑالو قوم کو ان سے پہلی سخت جھگڑالو قوموں کی ہلاکت کا ذکر کرکے ڈرایا گیا ہے کہ ہم نے ان سے پہلے ایسی کتنی ہی سخت ضدی قوموں کو ہلاک کردیا۔ غور سے دیکھو ان میں سے کوئی تمہیں کہیں کھٹکتا ہے، یا اس کی بھنک ہی کان میں پڑتی ہے ؟ یہی حال اس زمانے کے کافروں کا ہونے والا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزًا، رکز وہ مخفی آواز ہے جو سمجھ میں نہ آئے جیسے مرنے والے کی زبان لڑکھڑانے کے بعد جو آواز ہوتی ہے مطلب آیت کا یہ ہے کہ یہ سب حکومت و سلطنت والے اور شوکت و حشمت اور طاقت و قوت والے جب اللہ کے عذاب میں پکڑے گئے اور فنا کئے گئے تو ایسے ہوگئے کہ ان کی کوئی مخفی آواز اور حس و حرکت بھی سنائی نہیں دیتی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَكَمْ اَہْلَكْنَا قَبْلَہُمْ مِّنْ قَرْنٍ ۝ ٠ۭ ہَلْ تُـحِسُّ مِنْہُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَوْ تَسْمَعُ لَہُمْ رِكْزًا۝ ٩٨ۧ- هلك - الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه :- افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله :- وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] ويقال : هَلَكَ الطعام .- والثالث :- الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار :- وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية 24] .- ( ھ ل ک ) الھلاک - یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ایک یہ کہ - کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔- دوسرے یہ کہ - کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ - موت کے معنی میں - جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔- قرن - والقَرْنُ : القوم المُقْتَرِنُونَ في زمن واحد، وجمعه قُرُونٌ. قال تعالی: وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس 13] ،- ( ق ر ن ) قرن - ایک زمانہ کے لوگ یا امت کو قرن کہا جاتا ہے اس کی جمع قرون ہے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس 13] اور تم سے پہلے ہم کئی امتوں کو ۔ ہلاک کرچکے ہیں - حسس - فحقیقته : أدركته بحاستي، وأحست مثله، لکن حذفت إحدی السینین تخفیفا نحو : ظلت، وقوله تعالی: فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسى مِنْهُمُ الْكُفْرَ [ آل عمران 52]- ( ح س س )- احسستہ کے اصل معنی بھی کسی چیز کو محسوس کرنے کے ہیں اور احسنت بھی احسست ہی ہے مگر اس میں ایک سین کو تحقیقا حذف کردیا گیا ہے جیسا کہ ظلت ( میں ایک لام مخذوف ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسى مِنْهُمُ الْكُفْرَ [ آل عمران 52] جب عیسٰی ( (علیہ السلام) ) نے ان کی طرف سے نافرمانی ( اور نیت قتل ) دیکھی ۔- سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ - ركز - الرِّكْزُ : الصّوت الخفيّ ، قال تعالی: هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً- [ مریم 98] ، ورَكَزْتُ كذا، أي : دفنته دفنا خفيّا، ومنه : الرِّكَازُ للمال المدفون، إمّا بفعل آدميّ كالکنز، وإمّا بفعل إلهيّ کالمعدن، ويتناول الرِّكَازُ الأمرین، وفسّر قوله صلّى اللہ عليه وسلم : «وفي الرِّكَازِ الخمس» «1» ، بالأمرین جمیعا، ويقال رَكَزَ رمحه، ومَرْكَزُ الجند : محطّهم الذي فيه رَكَزُوا الرّماح .- ( ر ک ز ) الرکز - دھیمی آواز ( یا آہٹ ) کو کہتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم 98] اب تم ان میں سے کسی کو ( بھی ) دیکھتے ہو یا ان کی بھنک بھی سنتے ہو ۔ اور رکزت کذا ۔ کے معنی ہیں میں نے اسے مخفی طور پر دفن کردیا اسی سے الرکاز ہے جس کے معنی دفینہ ہیں ۔ خواہ اسے کسی انسان نے دفن کیا ہو ، جیسے خزانہ وغیرہ یا قدرتی طور پر زمین کے اندر پایا جائے جیسے معدنیات اور الرکاز کا لفظ ان دونوں کو شامل ہے ۔ اور حدیث (159) وفی الرکاز الخمس ( رکاز میں خمس ہے ) میں رکاز کے دونوں معنی بیان کیے گئے ہیں ۔ عام محاورہ ہے :۔ رکز رمحہ اس نے اپنا نیزہ زمین میں گاڑ دیا اور فوج کی فرود گاہ کو مرکز کہا جاتا ہے کیونکہ وہ جہاں ڈیرہ ڈالتے ہیں ۔ وہاں زمین میں اپنے نیزے ( جھنڈے ) گاڑ دیتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩٨) ان میں سے کسی کو دیکھتے ہیں یا ان میں سے کسی کی کوئی ہلکی آواز بھی سنتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٩٨ (وَکَمْ اَہْلَکْنَا قَبْلَہُمْ مِّنْ قَرْنٍط ہَلْ تُحِسُّ مِنْہُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَوْ تَسْمَعُ لَہُمْ رِکْزًا ) ” - کیا آج قوم ثمود کی کہیں آہٹ سنائی دیتی ہے ؟ یا قوم عاد کا کوئی نام و نشان نظر آتا ہے ؟ ماضی کی تمام نافرمان قوموں کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کر کے نسیاً منسیاً کردیا گیا ہے۔ چناچہ قریش مکہّ جو آج کفر و سرکشی میں حد سے بڑھے جا رہے ہیں وہ بھی اسی انجام سے دو چار ہوسکتے ہیں۔- بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ‘ ونفعنی وایاکم بالآیات والذِّکر الحکیم ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani