Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مسلمانو کافروں کی صورت لباس اور زبان میں مشابہت سے بچو اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو کافروں کی بول چال اور ان کے کاموں کی مشابہت سے روک رہا ہے یہودی بعض الفاظ زبان دبا کر بولتے تھے اور مطلب برا لیتے تھے جب انہیں یہ کہنا ہوتا کہ ہماری سنئے تو کہتے تھے راعنا اور مراد اس سے رعونت اور سرکشی لیتے تھے جیسے اور جگہ بیان ہے آیت ( من الذین ھادوا ) یعنی یہودیوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو باتوں کو اصلیت سے ہٹا دیتے ہیں اور کہتے ہیں ہم سنتے ہیں لیکن مانتے نہیں اپنی زبانوں کو موڑ توڑ کر اس دین میں طعنہ زنی کے لئے راعنا کہتے ہیں اگر یہ کہتے کہ ہم نے سنا اور مانا ہماری بات سنئے اور ہماری طرف توجہ کیجئے تو یہ ان کے لئے بہتر اور مناسب ہوتا لیکن ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے انہیں اپنی رحمت سے دور پھینک دیا ہے اس میں ایمان بہت ہی کم ہے احادیث میں یہ بھی آیا ہے کہ جب یہ لوگ سلام کرتے ہیں تو السام علیکم کہتے ہیں اور سام کے معنی موت کے ہیں تو تم ان کے جواب میں وعلیکم کہا کرو ہماری دعا ان کے حق میں قبول ہو گی اور ان کی بد دعا ہمارے حق میں مقبول نہیں ہو گی الغرض قول و فعل میں ان سے مشابہت کرنا منع ہے مسند احمد کی حدیث میں ہے میں قیامت کے قریب تلوار کے ساتھ بھیجا گیا ہوں میری روزی حق تعالیٰ نے میرے نیزے تلے لکھی ہے اس کے لئے ذلت اور پستی ہے مگر جو میرے احکام کے خلاف چلے کرے اور جو شخص کسی ( غیر مسلم ) قوم سے مشابہت کرے وہ انہی میں سے ہے ۔ ابو داؤد میں بھی یہ پچھلا حصہ مروی ہے اس آیت اور حدیث سے ثابت ہوا کہ کفار کے اقوال وافعال لباس عید اور عبادت میں ان کی مشابہت کرنا جو ہمارے لئے مشروع اور مقرر نہیں سخت منع ہے ایسا کرنے والوں کو شریعت میں عذاب کی دھمکی سخت ڈراوا اور حرمت کی اطلاع دی گئی ہے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب تم قرآن کریم میں آیت ( یا ایھا الذین امنوا ) سنو تو کان لگا دو اور دل سے متوجہ ہو جایا کرو کیونکہ یا تو کسی بھلائی کا حکم ہو گا یا کسی برائی سے ممانعت ہو گی حضرت خیثلہ فرماتے ہیں توراۃ میں بنی اسرائیل کو خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یاایھا المساکین فرمایا ہے لیکن امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آیت ( یا ایھا الذین امنوا ) کے معزز خطاب سے یاد فرمایا ہے راعنا کے معنی ہماری طرف کان لگانے کے ہیں بروزن عاطنا ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں اس کے معنی خلاف کے بھی ہیں یعنی خلاف نہ کہا کرو اس سے یہ بھی مروی ہے کہ مطلب یہ کہ آپ ہماری سنئے اور ہم آپ کی سنیں ۔ انصار نے بھی یہی لفظ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کہنا شروع کر دیا تھا جس سے قرآن پاک نے انہیں روک دیا حسن فرماتے ہیں راعن کہتے ہیں ( راعن مذاق کی بات کو کہتے ہیں ) یعنی تم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں اور اسلام سے مذاق نہ کیا کرو ۔ ابو صخر کہتے ہیں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم جانے لگتے تو جنہیں کوئی بات کہنی ہوتی وہ کہتے اپنا کان ادھر کیجئے اللہ تعالیٰ نے اس بے ادبی کے کلمہ سے روک دیا اور اپنے نبی کی عزت کرنے کی تعلیم فرمائی ۔ سدی کہتے ہیں رفاعہ بن زید یہودی حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کرتے ہوئے یہ لفظ کہا کرتا تھا مسلمانوں نے بھی یہ خیال کر کے یہ لفظ ادب کے ہیں یہی لفظ استعمال کرنے شروع کر دیئے جس پر انہیں روک دیا گیا جیسے سورۃ نساء میں ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ اس کلمہ کو اللہ نے برا جانا اور اس کے استعمال سے مسلمانوں کو روک دیا جیسے حدیث میں آیا ہے کہ انگور کو کرم اور غلام کو عبد نہ کہو وغیرہ اب اللہ تعالیٰ ان بد باطن لوگوں کے حسد و بغض کو بیان فرماتا ہے کہ اے مسلمانو تمہیں جو اس کامل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ کامل شریعت ملی ہے اس سے یہ تو جل بھن رہے ہیں ان سے کہ دو کہ یہ تو اللہ کا فضل ہے جسے چاہے عنایت فرمائے وہ بڑے ہی فضل و کرم والا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

104۔ 1 رَاعِنَا کے معنی ہیں، ہمارا لحاظ اور خیال کیجئے۔ بات سمجھ میں نہ آئے تو سامع اس لفظ کا استعمال کر کے متکلم کو اپنی طرف متوجہ کرتا تھا، لیکن یہودی اپنے بغض وعناد کی وجہ سے اس لفظ کو تھوڑا سا بگاڑ کر استعمال کرتے تھے جس سے اس کے معنی میں تبدیلی اور ان کے جذبہ عناد کی تسلی ہوجاتی، مثلا وہ کہتے رَعِینَا (اَحمْق) وغیرہ جیسے وہ السلام علیکم کی بجائے السام علیکم (تم پر موت آئے) کہا کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم ـ انْظُرْنَا کہا کرو۔ اس سے ایک تو یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ ایسے الفاظ جن میں تنقیص و اہانت کا شائبہ ہو، ادب و احترام کے پیش نظر کے طور پر ان کا استعمال صحیح نہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ کفار کے ساتھ افعال اوراقوال میں مشابہت کرنے سے بچا جائے تاکہ مسلمان (حدیث من تشبہ بقوم فھو منھم، ابوداؤد ( جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں شمار ہوگا) کی وعید میں داخل نہ ہوں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢٣] یہود کی شرارتیں راعِیْنَا کہنا :۔ یہود جب کبھی آپ کی مجلس میں بیٹھتے اور آپ کے ارشادات سنتے اور کسی بات کو دوبارہ سننے یا سمجھنے کی ضرورت پیش آتی تو ازراہ عناد (رَاعِنَا) کہنے کی بجائے زبان کو مروڑ دے کر راعِِیْنَا کہا کرتے۔ (رَاعِنَا) کا مطلب ہے ہماری طرف توجہ کیجئے۔ یعنی بات ذرا دہرا دیجئے اور راعِیْنَا کا معنی ہے ہمارے چرواہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہود کی شرارت پر مطلع کرتے ہوئے فرمایا کہ تم (رَاعِنَا) کہنا چھوڑ دو بلکہ اس کے بجائے اُنْظُرْنَا کہہ لیا کرو (اس کا معنی بھی وہی ہے جو راعنا کا ہے) اگر بات کو پہلے ہی توجہ سے سن لیا کرو کہ انظرنا بھی کہنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے تو یہ زیادہ مناسب ہے اور یہ شرارتی یہود تو ہیں ہی کافر۔ جو یقینا دردناک عذاب کے مستحق ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(رَاعِنَا) ” رَاعِ “ یہ باب مفاعلہ (مراعاۃ) سے فعل امر ہے، یعنی ہماری رعایت کیجیے۔ مسلمان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو متوجہ کرنے کے لیے یہ لفظ استعمال کرتے، یہودی بھی اس لفظ کے ساتھ آپ کو مخاطب کرتے، مگر زبان کو پیچ دے کر لفظ بدل دیتے، جیسا کہ سورة نساء (٤٦) میں ہے، جس سے وہ لفظ گالی بن جاتا۔ مفسرین نے اس کی دو صورتیں بیان فرمائی ہیں، ایک تو یہ کہ وہ ” رَاعِنَا “ کی بجائے ” رَاعِیْنَا “ کہتے، جس کا معنی ” ہمارا چرواہا “ ہے۔ دوسری یہ کہ وہ اسے رعونت سے اسم فاعل قرار دے کر ” رَاعِنًا “ کہتے جس کا معنی احمق ہے اور منادیٰ غیر معین کو خطاب کی وجہ سے منصوب ہے، پھر آپس میں جا کر خوش ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو آپ کے لیے یہ لفظ استعمال کرنے ہی سے منع فرما دیا اور ” انْظُرْنَا “ کہنے کا حکم دیا، ساتھ ہی فرمایا کہ غور سے سنو، تاکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو متوجہ کروانے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ اس سے یہودیوں کی دشمنی، ان کی طبیعت کی خست اور شرارت صاف واضح ہے۔ مسلمانوں کو ان کے اعمال کے علاوہ ان کے الفاظ و اقوال کی مشابہت سے بھی منع فرمایا گیا، جیسا کہ ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ )” جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انھی میں سے ہے۔ “ [ أبوداوٗد، اللباس، باب فی لبس الشھرۃ : ٤٠٣١ و حسنہ الألبانی ]- اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایسے الفاظ جن میں بےادبی یا گستاخی کا شبہ بھی پیدا ہوتا ہو، وہ استعمال کرنا درست نہیں۔ یہودیوں کی اسی طرح کی ایک اور کمینگی کا ذکر حدیث میں آیا ہے کہ وہ ” السلام علیکم “ کے بجائے ” اَلسَّامُ عَلَیْکُمْ “ کہتے، جس کا معنی ہے تم پر موت ہو۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے جواب میں صرف ” عَلَیْکَ “ کہنے کا حکم دیا کہ وہ تمہیں پر ہو۔ - [ مسلم، السلام، باب النہی عن ابتداء ۔۔ : ٢١٦٤

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- (بعض یہودیوں نے ایک شرارت ایجاد کی کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حضور میں آکر لفظ راعنا سے آپ کو خطاب کرتے جس کے معنی ان کی عبرانی زبان میں ایک بدعا کے ہیں اور وہ اسی نیت سے کہتے تھے مگر عربی زبان میں اسکے معنی ہماری مصلحت کی رعایت فرمائیے کے ہیں اس لئے عربی داں اس شرارت کو نہ سمجھ سکتے تھے اور اس اچھے معنی کے قصد سے بعضے مسلمان بھی حضور کو اس کلمہ سے خطاب کرنے لگے اس سے ان شریروں کو گنجائش ملی آپس میں بیٹھ کر ہنستے تھے کہ اب تک تو ہم ان کو خفیہ ہی برا کہتے تھے اب علانیہ کہنے کی تدبیر ایسی ہاتھ آگئی کہ مسلمان بھی اس میں شریک ہوگئے حق تعالیٰ نے اس گنجائش کے قطع کرنے کو مسلمانوں کو حکم دیا کہ) اے ایمان والو تم (لفظ) راعنا مت کہا کرو اور (اس کی جگہ لفظ) انظرنا کہہ دیا کرو (کیونکہ اس لفظ کے معنی اور راعنا کے معنی عربی زبان میں ایک ہی ہیں راعنا کہنے میں یہودیوں کی شرارت چلتی ہے اس لئے اس کو ترک کرکے دوسرا لفظ استعمال کرو) اور (اس حکم کو اچھی طرح) سن لیجئو (اور یاد رکھیو) اور (ان کافروں کو تو سزائے دردناک ہو (ہی) گی جو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں ایسی گستاخی اور وہ بھی چالاکی کے ساتھ کرتے ہیں) - مسئلہ : اس آیت سے یہ بات ہوئی کہ اگر اپنے کسی جائز فعل سے دوسروں کی ناجائز کاموں کی گنجائش ملتی معلوم ہو تو یہ جائز فعل بھی اس کے لئے جائز نہیں رہتا جیسے اگر کسی عالم کے جائز فعل سے جاہلوں کو مغالطہ میں پڑنے اور ناجائز کاموں میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہو تو اس عالم کا جائز فعل بھی ممنوع ہوجائے گا بشرطیکہ یہ فعل شرعا ضروری اور مقاصد شرعیہ میں سے نہ ہو اس کی مثالیں قرآن وسنت میں بہت ہیں اسی کی ایک دلیل وہ حدیث ہے جس میں ارشاد ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بیت اللہ کی تعمیر جو قریش نے زمانہ جاہلیت میں کی تھی اس میں کئی چیزیں بناء ابراہیمی کے خلاف کردی ہیں میرا دل چاہتا ہے کہ اس کو منہدم کرکے ازسر نو بناء ابراہیمی کے مطابق بنادوں لیکن اس سے ناواقف عوام کے فتنہ میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہے اس لئے بالفعل ایسا نہیں کرتا ایسے احکام کو اصول فقہ کی اصطلاح میں سد ذرائع سے تعبیر کیا جاتا ہے جو سبھی فقہاء کے نزدیک معتبر ہے خصوصاً حضرات حنابلہ اس کا زیادہ اہتمام کرتے ہیں (قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

رکوع نمبر 13- يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا۝ ٠ ۭ وَلِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ اَلِــيْمٌ۝ ١٠٤- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - لا - «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت .- ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] لا وأبيك ابنة العامريّ- «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] وقوله :- ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] .- فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه :- مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة :- لا حدّ. أي : لا أحد .- ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122]- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- رعی - الرَّعْيُ في الأصل : حفظ الحیوان، إمّا بغذائه الحافظ لحیاته، وإمّا بذبّ العدوّ عنه . يقال : رَعَيْتُهُ ، أي : حفظته، وأَرْعَيْتُهُ : جعلت له ما يرْعَى. والرِّعْيُ : ما يرعاه، والْمَرْعَى: موضع الرّعي، قال تعالی: كُلُوا وَارْعَوْا أَنْعامَكُمْ [ طه 54] ، أَخْرَجَ مِنْها ماءَها وَمَرْعاه[ النازعات 31] ، وَالَّذِي أَخْرَجَ الْمَرْعى [ الأعلی 4] ، وجعل الرَّعْيُ والرِّعَاءُ للحفظ والسّياسة . قال تعالی: فَما رَعَوْها حَقَّ رِعايَتِها[ الحدید 27] ، أي : ما حافظوا عليها حقّ المحافظة . ويسمّى كلّ سائس لنفسه أو لغیره رَاعِياً ، وروي : «كلّكم رَاعٍ ، وكلّكم مسئول عن رَعِيَّتِهِ» قال الشاعر :- ولا المرعيّ في الأقوام کالرّاعي وجمع الرّاعي رِعَاءٌ ورُعَاةٌ. ومُرَاعَاةُ الإنسان للأمر : مراقبته إلى ماذا يصير، وماذا منه يكون، ومنه : رَاعَيْتُ النجوم، قال تعالی: لا تَقُولُوا : راعِنا وَقُولُوا انْظُرْنا - [ البقرة 104] ، وأَرْعَيْتُهُ سمعي : جعلته راعیا لکلامه، وقیل : أَرْعِنِي سمعَك، ويقال : أَرْعِ علی كذا، فيعدّى بعلی أي : أبق عليه، وحقیقته : أَرْعِهِ مطّلعا عليه .- ( ر ع ی ) الرعی - ۔ اصل میں حیوان یعنی جاندار چیز کی حفاظت کو کہتے ہیں ۔ خواہ غذا کے ذریعہ ہو جو اسکی زندگی کی حافظ ہے یا اس سے دشمن کو دفع کرنے کے ذریعہ ہو اور رعیتہ کے معنی کسی کی نگرانی کرنے کے ہیں اور ارعیتہ کے معنی ہیں میں نے اسکے سامنے چارا ڈالا اور رعی چارہ یا گھاس کو کہتے ہیں مرعی ( ظرف ) چراگاہ ۔ قرآن میں ہے ۔ كُلُوا وَارْعَوْا أَنْعامَكُمْ [ طه 54] تم بھی کھاؤ اور اپنے چارپاؤں کو بھی چراؤ ۔ أَخْرَجَ مِنْها ماءَها وَمَرْعاها[ النازعات 31] اس میں سے اس کا پانی اور چارہ نکالا ۔ وَالَّذِي أَخْرَجَ الْمَرْعى [ الأعلی 4] اور جس نے ( خوش نما ) چارہ ( زمین سے ) نکالا ۔ رعی اور رعاء کا لفظ عام طور پر حفاظت اور حسن انتظام کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَما رَعَوْها حَقَّ رِعايَتِها[ الحدید 27] لیکن جیسے اس کی نگہداشت کرنا چاہئے تھی انہوں نے نہ کی ۔ اور ہر وہ آدمی جو دوسروں کا محافظ اور منتظم ہوا اسے راعی کہا جاتا ہے ۔ حدیث میں ہے ( 157) کلھم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ تم میں سے ہر شخص راعی ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے متعلق سوال ہوگا شاعر نے کہا ہے ( السریع ) ولا المرعيّ في الأقوام کالرّاعی اور محکوم قومیں حاکم قوموں کے برابر نہیں ہوسکتیں ۔ اور راعی کی جمع رعاء ورعاۃ آتی ہے ۔ المراعاۃ کسی کام کے انجام پر غور کرنا اور نہ دیکھنا کہ اس سے کیا صادر ہوتا ہے کہا جاتا ہے ۔ راعیت النجوم میں نے ستاروں کے غروب ہونے پر نگاہ رکھی ۔ قرآن میں ہے : لا تَقُولُوا : راعِنا وَقُولُوا انْظُرْنا[ البقرة 104]( مسلمانو پیغمبر سے ) راعنا کہہ کر مت خطاب کیا کرو بلکہ انظرنا کہا کرو ۔ کہا جاتا ہے : ارعیتہ سمعی ۔ میں نے اس کی بات پر کان لگایا یعنی غور سے اس کی بات کو سنا اسی طرح محاورہ ہے ۔ ارعنی سمعک میری بات سنیے ۔ اور ارع علٰی کذا ۔ کے معنی کسی پر رحم کھانے اور اسکی حفاظت کرنے کے ہیں ۔- نظر - النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب 53] أي :- منتظرین،- ( ن ظ ر ) النظر - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔- اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں - سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - ألم - الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» .- ( ا ل م ) الالم - کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے : یایھا الذین امنوا لا تقولوا راعنا (اے ایمان لانے والو، راعنا نہ کہا کرو) قطرب نے کہا ہے کہ آیت میں مذکورہ کلمہ اہل حجاز کا کلمہ ہے جسے وہ تمسخر کے طور پر کہتے تھے۔ ایک قول کے مطابق یہود یہ کلمہ کہتے تھے جس طرح ایک اور مقام پر قول باری ہے : ویقولون سمعنا وعصینا و اسمع غیر مسمع وراعنا لیا بالسنتھم وطعنا فی الدین (اور دین حق کے خلاف نیش زنی کرنے کے لئے اپنی زبانوں کو توڑ موڑ کر کہتے ہیں سمعنا وعصینا اور اسمع غیر مسمع اور راعنا) یہود یہ الفاظ آپس میں گٹھ جوڑ کر کے تمسخر کے طور پر کہتے۔ “(درج بالا الفاظ کا مفہوم سمجھنے کے لئے یہ نوٹ ملاحظہ کیجیے۔ مترجم)- جب انہیں یعنی یہود کو خدا کے احکام سنائے جاتے ہیں تو زور سے کہتے ہیں۔ سمعنا ہم نے سن لیا اور آہستہ سے کہتے ہیں۔ عصینا ہم نے قبول نہیں کیا یا اطعنا ہم نے قبول کیا کا تلفظ اس انداز سے زبان کو لچکا وے کر کرتے ہیں کہ عصینا بن جاتا ہے۔ دوران گفتگو میں جب وہ کوئی بات محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہنا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں اسمع سینے اور پھر ساتھ ہی غیر مسمع بھی کہتے ہیں جو ذومعنی ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ آپ ایسے محترم ہیں کہ آپ کو کوئی بات خلاف مرضی نہیں سنائی جاسکتی۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم اس قابل نہیں ہو کہ تمہیں کوئی کچھ سنائے ایک اور مطلب یہ ہے کہ خدا کرے تو بہرے ہو جائو۔ راعنا بھی ایک ذومعنی لفظ ہے۔ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دوران میں یہودیوں کو کبھی یہ کہنے کی ضرورت پیش آئی کہ ٹھہریے ۔ ذرا ہمیں یہ بات سمجھ لینے دیجیے، تو وہ راعنا کہتے تھے۔ اس لفظ کا ایک ظاہری مفہوم تو یہ تھا کہ ذرا ہماری رعایت کیجیے یا ہماری بات سن لیجیے، مگر اس لفظ میں کئی احتمالات اور بھی تھے مثلاً عربانی زبان میں اس سے ملتا جلتا ایک لفظ تھا جس کے معنی تھے : سن، تو بہرا ہوجائے۔ “ اور خود عربی میں اس کے ایک معنی صاحب رعونت اور جاہل و احمق کے بھی تھے۔ اور گفتگو میں یہ ایسے موقع پر بولا جاتا تھا جب یہ کہنا ہو کہ ” تم ہماری سنو تو ہم تمہاری سنیں۔ “(تفہیم القرآن جلد اول کچھ تصرف کے ساتھ)- یہود راعنا کا لفظ تمسخر کے طور پر کہتے تھے جیسا کہ یہ قول باری ہے : واذا جائوک حیرک بمالم یحیک بہ اللہ (اور جب یہ لوگ آپ کے پاس آتے ہیں تو ایسے لفظ سے آپ کو سلام کہتے ہیں جس سے اللہ نے آپ کو سلام نہیں کہا) یہودی جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آتے تو السلام علیک کہنے کی بجائے ” السام علیک “ کہتے جس کے معنی ہیں ” تم پر موت ہو۔ “ وہ یہ الفاظ اس طرح کہتے کہ سننے والوں کو وہم ہوتا کہ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کر رہے ہیں، چناچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی اس خباثت سے آگاہ مسلمانوں کو اس جیسے ذومعنی الفاظ کہنے سے روک دیا۔ قول باری : رعنا میں اگرچہ ” رعایت کیجیے اور ” ذرا ٹھہریے “ کے معانی موجود ہیں، لیکن جب اس لفظ کے اندر تمسخر کے معنی بھی موجود تھے جو یہودیوں کے ہاں مراد تھے تو مسلمانوں کو اس لفظ کے استعمال سے روک دیا گیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اگرچہ اس میں ذرا ٹھہریے “ کے معنی کا احتمال ہے، لیکن اس کا اطلاق تمسخر کے معنوں کا مقتضی ہو۔ اس کی مثل نعت میں موجود ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ وعد کے اسم کا اطلاق خیر اور شر دونوں پر ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے : وعدھا اللہ الذین کفروا (اس کا وعدہ اللہ نے ان لوگوں سے کیا ہے جنہوں نے کفر کیا) نیز فرمایا : ذلک وعد غیر مکذوب (یہ ایسا وعدہ ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا)- لیکن جب اس لفظ کا اطلاق ہوتا ہے تو اس سے خیر کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے شرکا مفہوم سمجھ میں نہیں آتا۔ قول باری : راعنا بھی دونوں باتوں کا احتمال رکھتا ہے، لیکن اطلاق کے وقت یہ لفظ ” ذرا ٹھہریے “ کے معنوں کی بہ نسبت تمسخر کے معنوں کے ساتھ اخص ہوتا ہے۔ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ہر ایسا لفظ جس میں خیر اور شر دونوں کا احتمال ہو تو اس کا اطلاق اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک اسے ایسے لفظ کے ساتھ مقید نہ کردیا جائے جو خیر کے معنی ادا کرتا ہو۔ نیز اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ دین میں تمسخر ممنوع ہے۔ اس طرح وہ لفظ بھی ممنوع ہے جو تمسخر کے معنی اور دیگر معنی کا احتمال رکھتا ہو۔ واللہ اعلم

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠٤) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان رکھنے والو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے (راعنا) یعنی اے اللہ تعالیٰ کے نبی اپنی گفتگو سنائیے، یہ نہ کہا کرو بلکہ یہ کہا کرو کہ ہماری جانب توجہ فرمائیے اور اے اللہ تعالیٰ کے نبی ہماری گفتگو سنیے اور لغت یہود میں اس کا یہ مطلب ہوتا تھا کہ اپنی بات پھر سنائیے تاکہ میں سنوں (اور یہودی بدنیتی سے ایسا کہتے تھے) اس وجہ سے مسلمانوں کو اس لفظ کے استعمال سے روکا گیا اور فرمایا کہ جس چیز کا حکم دیا جارہا ہے اسے پہلے ہی غور سے سن لو اور اس کی اطاعت کرو اور ان یہودیوں کے لیے تو ایسا دردناک عذاب ہے کہ اس کی سختی ان کے دلوں تک پہنچ جائے گی۔- شان نزول : (آیت) ”۔ یایھا الذین امنوا لاتقولواراعنا “۔ (الخ)- ابن منذر (رح) نے سدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ یہودیوں میں سے دو شخص مالک بن صیف اور رفاعہ بن یزید جب بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملتے تو ” راعنا “۔ کہتے اور ان کا یہ مطلب ہوتا کہ آپ ہمارے سامنے گفتگو فرمائیں مگر حقیقت ہمیں ہم آپ کی گفتگو کو نہیں سنتے، مسلمانوں نے یہ کلمہ یہودیوں کی زبان سے سن کر یہ سمجھ لیا کہ یہ ایسا کلمہ ہے جس کے ذریعہ یہودی اپنے انبیاء کرام کی تعظیم کرتے ہیں، تو انہوں نے بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کلمہ سے مخاطب کرنا شروع کردیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ” اے ایمان والو (آیت) ” راعنا “۔ مت کہا کرو بلکہ (آیت) ” انظرنا “۔ بولا کرو، ابو نعیم (رح) نے دلائل میں بواسطہ، سدی (رح) صغیر (رح) کلبی (رح) ، ابوصالح (رح) ، حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ ” راعنا “۔ یہودیوں کی زبان میں بہت بری گالی تھی، جب یہودیوں نے صحابہ کرام (رض) سے اس کلمہ کو سنا تو انہوں نے علی الاعلان حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ لفظ کہنا شروع کردیا۔ یہودی اس لفظ کو بولتے تھے اور آپس میں ہنستے تھے چناچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔- حضرت سعد بن معاذ (رض) نے یہ جب یہ آیت سنی تو یہودیوں سے کہا اے اللہ کے دشمنو اگر اس مجلس کے بعد میں تم میں سے کسی کو اس کلمہ کو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کہتے ہوئے سنا تو اس کی گردن کاٹ دوں گا اور ابن جریر (رح) نے ضحاک سے روایت کیا ہے کہ کوئی شخص حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے یہ کہتا تھا کہ اپنی گفتگو سے میری جانب متوجہ ہوجائیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ صحابہ کرام (رض) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتے تھے ” راعنا کسمعک “۔ یہودیوں نے بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آکر یہی کلمہ کہنا شروع کردیا تب یہ آیت نازل ہوئی، عطا سے مروی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں یہ انصار کی لغت تھی جس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور ابوالعالیہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ عرب جب آپس میں بات چیت کرتے تو ایک دوسرے سے کہتے تھے (ارعنی سمعک) چناچہ اس لفظ کے استعمال سے سب کو روک دیا گیا (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٤ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَقُوْلُوْا رَاعِنَا) (وَقُوْلُوا انْظُرْنَا) (وَاسْمَعُوْا ط) - قبل ازیں منافقین بنی اسرائیل کا ذکر ہوا تھا ‘ جن کا قول تھا : سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا۔ اب یہاں ان منافقین کا طرز عمل بیان ہو رہا ہے جو مسلمانوں میں شامل ہوگئے تھے اور یہود کے زیر اثر تھے۔ یہودی اور ان کے زیر اثر منافقین جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محفل میں بیٹھتے تھے تو اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کی کوئی بات انہیں سنائی نہ دیتی یا سمجھ میں نہ آتی تو وہ راعِنَا کہتے تھے ‘ جس کا مفہوم یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ذرا ہماری رعایت کیجیے ‘ بات کو دوبارہ دہرا دیجیے ‘ ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔ اہل ایمان بھی یہ لفظ استعمال کرنے لگے تھے۔ لیکن یہود اور منافقین اپنے خبث باطن کا اظہار اس طرح کرتے کہ اس لفظ کو زبان دباکر کہتے تو راعِیْنَا ہوجاتا (یعنی اے ہمارے چرواہے ) اس پر دل ہی دل میں خوش ہوتے اور اس طرح اپنی خباثت نفس کو غذا مہیاّ کرتے۔ اگر کوئی ان کو ٹوک دیتا کہ یہ تم کیا کہہ رہے ہو تو جواب میں کہتے ہم نے تو راعِنَا کہا تھا ‘ معلوم ہوتا ہے آپ کی سماعت میں کوئی خلل پیدا ہوچکا ہے۔ چناچہ مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ تم اس لفظ ہی کو چھوڑ دو ‘ اس کی جگہ کہا کرو : اُنْظُرْنَا۔ یعنی اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری طرف توجہ فرمایئے یا ہمیں مہلت دیجیے کہ ہم بات کو سمجھ لیں۔ اور دوسرے یہ کہ توجہ سے بات کو سنا کرو تاکہ دوبارہ پوچھنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ - (وَلِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ )

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :107 اس رکُوع اور اس کے بعد والے رکوع میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اختیار کرنے والوں کو ان شرارتوں سے خبردار کیا گیا ہے جو اسلام اور اسلامی جماعت کے خلاف یہُودیوں کی طرف سے کی جارہی تھیں ، ان شبہات کے جوابات دیے گئے ہیں جو یہ لوگ مسلمانوں کے دلوں میں پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے ، اور ان خاص خاص نکات پر کلام کیا گیا ہے جو مسلمانوں کے ساتھ یہُودیوں کی گفتگو میں زیرِ بحث آیا کرتے تھے ۔ اس موقع پر یہ بات پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینے پہنچے اور ان اطراف میں اسلام کی دعوت پھیلنی شروع ہوئی ، تو یہُودی جگہ جگہ مسلمانوں کو مذہبی بحثوں میں اُلجھانے کی کوشش کرتے تھے ، اپنی موشگافیوں اور تشکیکات اور سوال میں سے سوال نکالنے کی بیماری ان سیدھے اور سچے لوگوں کو بھی لگانا چاہتے تھے اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آ کر پُرفریب مکّارانہ باتیں کر کے اپنی گھٹیا درجے کی ذہنیّت کا ثبُوت دیا کرتے تھے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :108 یہُودی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آتے ، تو اپنے سلام اور کلام میں ہر ممکن طریقے سے اپنے دل کا بخار نکالنے کی کوشش کرتے تھے ۔ ذُو معنی الفاظ بولتے ، زور سے کچھ کہتے اور زیرِ لب کچھ اور کہہ دیتے ، اور ظاہری ادب آداب برقرار رکھتے ہوئے درپردہ آپ کی توہین کرنے میں کوئی دقیقہ اُٹھا نہ رکھتے تھے ۔ قرآن میں آگے چل کر اس کی متعدد مثالیں بیان کی گئی ہیں ۔ یہاں جس خاص لفظ کے استعمال سے مسلمانوں کو روکا گیا ہے ، یہ ایک ذُومعنی لفظ تھا ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کے دَوران میں یہُودیوں کو کبھی یہ کہنے کی ضرورت پیش آتی کہ ٹھیریے ، ذرا ہمیں یہ بات سمجھ لینے دیجیے ، تو وہ رَاعِنَا کہتے تھے ۔ اس لفظ کا ظاہری مفہوم تو یہ تھا کہ ذرا ہماری رعایت کیجیے یا ہماری بات سُن لیجیے ۔ مگر اس میں کئی احتمالات اور بھی تھے ۔ مثلاً عبرانی میں اس سے مِلتا جُلتا ایک لفظ تھا ، جس کے معنی تھے”سُن ، تو بہرا ہو جائے “ ۔ اور خُود عربی میں اس کے ایک معنی صاحب رعونت اور جاہل و احمق کے بھی تھے ۔ اور گفتگو میں یہ ایسے موقع پر بھی بولا جاتا تھا جب یہ کہنا ہو کہ تم ہماری سُنو ، تو ہم تمہاری سُنیں ۔ اور ذرا زبان کو لچکا دے کر رَاعِیْنَا بھی بنا لیا جاتا تھا ، جس کے معنی ”اے ہمارے چرواہے“ کے تھے ۔ اس لیے مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ تم اس لفظ کے استعمال سے پرہیز کرو اور اس کے بجائے اُ نْظُرْ نَا کہا کرو ۔ یعنی ہماری طرف توجہ فرمائیے یا ذرا ہمیں سمجھ لینے دیجیے ۔ پھر فرمایا کہ ”توجّہ سے بات کو سُنو“ ، یعنی یہُودیوں کو تو بار بار یہ کہنے کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر توجّہ نہیں کرتے اور ان کی تقریر کے دَوران میں وہ اپنے ہی خیالات میں اُلجھے رہتے ہیں ، مگر تمہیں غور سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سننی چاہییں تاکہ یہ کہنے کی ضرورت ہی نہ پیش آئے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

70: مدینہ میں رہنے والے بعض یہودیوں کی ایک شرارت یہ تھی کہ وہ جب حضور اکرم (صلی اﷲ علیہ وسلم) سے ملتے تو آپ سے کہتے تھے ’’رَاعِنَا‘‘۔ عربی میں اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ ’’ہماری رعایت فرمائیے‘‘، اس لحاظ سے یہ لفظ ٹھیک تھا اور اس میں گستاخی کے کوئی معنیٰ نہیں تھے۔ لیکن عبرانی زبان میں جو یہودیوں کی مذہبی زبان تھی، اس سے ملتا جلتا ایک لفظ بددُعا اور گالی کے طور پر استعمال ہوتا تھا، نیز اگر اسی لفظ میں عین کو ذرا کھینچ کر بولا جائے تو وہ رَاعِنَا بن جاتا ہے۔ جس کے معنیٰ ہیں: ’’ہمارے چرواہے ‘‘ غرض یہودیوں کی اصل نیت اس لفظ کو خراب معنیٰ میں استعمال کرنے کی تھی، لیکن چونکہ عربی میں بظاہر اس کا مطلب ٹھیک تھا، اس لئے بعض مخلص مسلمانوں نے بھی یہ لفظ بولنا شروع کردیا۔ یہودی اس بات سے بڑے خوش ہوتے اور اندر اندر مسلمانوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ اس لئے اس آیت نے مسلمانوں کو اس شرارت پر متنبہ بھی کردیا، آئندہ اس لفظ کے استعمال پر پابندی بھی لگادی اور یہ سبق بھی دے دیا کہ ایسے الفاظ کا استعمال مناسب نہیں ہے جن میں کسی غلط مفہوم کا احتمال ہو یا ان سے کوئی غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہو۔ نیز اگلی آیت میں اس سارے عناد کی اصل وجہ بھی بتادی کہ درحقیقت ان کو یہ حسد ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے نبوت کی نعمت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کیوں عطا فرمادی ہے۔ رَاعِنَا کے بجائے اُنْظُرْنَا کا لفظ سکھا دیا کیونکہ اس کے معنیٰ ہیں ’’ہم پر (شفقت کی) نظر فرمائیے‘‘ اور معنیٰ کا اِحتمال نہیں۔