( تبدیلی یا تنسیخ ۔ اللہ تعالیٰ مختار کل ہے حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں نسخ کے معنی بدل کے ہیں مجاہد فرماتے ہیں مٹانے کے معنی ہیں جو ( کبھی ) لکھنے میں باقی رہتا ہے اور حکم بدل جاتا ہے حضرت ابن مسعود کے شاگرد اور ابو العالیہ اور محمد بن کعب قرظی سے بھی اسی طرح مروی ہے ضحاک فرماتے ہیں بھلا دینے کے معنی ہیں عطا فرماتے ہیں چھوڑ دینے کے معنی ہیں سدی کہتے ہیں اٹھا لینے کے معنی ہیں جیسے آیت الشیخ والشیختہ اذا زنیا فارجمو ھما البتتہ یعنی زانی مرد و عورت کو سنگسار کر دیا کرو اور جیسے آیت ( لو کان لابن ادم و ادیان من ذھب لابتغی لھما ثالثا یعنی ابن آدم کو اگر دو جنگل سونے کے مل جائیں جب بھی وہ تیسرے کی جستجو میں رہے گا ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ احکام میں تبدیلی ہم کر دیا کرتے ہیں حلال کو حرام حرام کو حلال جائز کو ناجائز ناجائز کو جائز وغیرہ امر و نہی روک اور رخصت جائز اور ممنوع کاموں میں نسخ ہوتا ہے ہاں جو خبریں دی گئی ہیں واقعات بیان کئے گئے ہیں ان میں رد و بدل و ناسخ و منسوخ نہیں ہوتا ، نسخ کے لفظی معنی نقل کرنے کے بھی ہیں جیسے کتاب کے ایک نسخے سے دوسرا نقل کر لینا ۔ اسی طرح یہاں بھی چونکہ ایک حکم کے بدلے دوسرا حکم ہوتا ہے اس لئے نسخ کہتے ہیں خواہ وہ حکم کا بدل جانا ہو خواہ الفاظ کا ۔ علماء اصول کی عبارتیں اس مسئلہ میں گو مختلف ہیں مگر معنی کے لحاظ سے سب قریب قریب ایک ہی ہیں ۔ نسخ کے معنی کسی حکم شرعی کا پچھلی دلیل کی رو سے ہٹ جانا ہے کبھی ہلکی چیز کے بدلے بھاری اور کبھی بھاری کے بدلہ ہلکی اور کبھی کوئی بدل ہی نہیں ہوتا ہے نسخ کے احکام اس کی قسمیں اس کی شرطیں وغیرہ ہیں اس کے لئے اس فن کی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہئے تفصیلات کی بسط کی جگہ نہیں طبرانی میں ایک روایت ہے کہ دو شخصوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سورت یاد کی تھی اسے وہ پڑھتے رہے ایک مرتبہ رات کی نماز میں ہر چند اسے پڑھنا چاہا لیکن یاد نے ساتھ نہ دیا گھبرا کر خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا آپ نے فرمایا یہ منسوخ ہو گئی اور بھلا دی گئی دلوں میں نکال لی گئی تم غم نہ کرو بےفکر ہو جاؤ حضرت زہری نون خفیفہ پیش کے ساتھ پڑھتے تھے اس کے ایک راوی سلیمان بن راقم ضعیف ہیں ۔ ابو بکر انباری نے بھی دوسری سند سے اسے مرفوع روایت کیا ہے جیسے قرطبی کا کنا ہے ۔ ننسھا کو ننساھا بھی پڑھا گیا ہے ۔ ننساھا کے معنی موخر کرنے پیچھے ہٹا دینے کے ہیں ۔ حضرت ابن عباس اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں یعنی ہم اسے چھوڑ دیتے ہیں منسوخ کرتے ہیں ابن مروی ہے ہم اسے موخر کرتے ہیں اور ملتوی کرتے ہیں عطیہ عوفی کہتے ہیں ۔ یعنی منسوخ نہیں کرتے سدی اور ربیع بھی یہی کہتے ہیں ضحاک فرماتے ہیں ناسخ کو منسوخ کے پیچھے رکھتے ہیں ابو العالیہ کہتے ہیں اپنے پاس اسے روک لیتے ہیں حضرت عمر نے خطبہ میں ننسلھا پڑھا اور اس کے معنی موخر ہونے کے بیان کئے ننسھا جب پڑھیں تو یہ مطلب ہو گا کہ ہم اسے بھلا دیں ۔ اللہ تعالیٰ جس حکم کو اٹھا لینا چاہتا تھا وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھلا دیتا تھا اس طرح وہ آیت اٹھ جاتی تھی ۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ننسھا پڑھتے تھے تو ان سے قسم بن ربیعہ نے کہا کہ سعید بن مسیب تو ننساھا پڑھتے ہیں تو آپ نے فرمایا سعید پر یا سعید کے خاندان پر تو قرآن نہیں اترا ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت ( سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسٰٓى ) 87 ۔ الاعلی:6 ) ہم تجھے پڑھائیں گے جسے تو نہ بھولے گا اور فرماتا ہے آیت ( وَاذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِيْتَ ) 18 ۔ الکہف:24 ) جب بھول جائے تو اپنے رب کو یاد کر ۔ حضرت عمر کا فرمان ہے کہ علی سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے ہیں اور ابی سے زیادہ اچھے قرآن کے قاری ہیں اور ہم ابی کا قول چھوڑ دیتے ہیں اس لئے کہ ابی کہتے ہیں میں نے تو جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اسے نہیں چھوڑوں گا اور فرماتے ہیں وما نسخ الخ یعنی ہم جو منسوخ کریں یا بھلا دیں اس سے بہتر لاتے ہیں یا اس جیسا ( بخاری و مسند احمد ) اس سے بہتر ہوتا ہے یعنی بندوں کی سہولت اور ان کے آرام کے لحاظ سے یا اس جیسا ہوتا ہے لیکن مصلحت الٰہی اس سابقہ چیز میں ہوتی ہے مخلوق میں تغیر و تبدل کرنے والا پیدائش اور حکم کا اختیار رکھنے والا ۔ ایک اللہ تعالیٰ ہی ہے جس طرح جسے چاہتا ہے بناتا ہے جسے چاہے نیک بختی دیتا ہے جسے چاہے بدبختی دیتا ہے جسے چاہے تندرستی جسے چاہے بیماری ، جسے چاہے توفیق جسے چاہے بےنصیب کر دے ۔ بندوں میں جو حکم چاہے جاری کرے جسے چاہے حلال جسے چاہے حرام فرما دے جسے چاہے رخصت دے جسے چاہے روک دے وہ حاکم مطلق ہے جیسے چاہے احکام جاری فرمائے کوئی اس کے حکم کو رد نہیں کر سکتا جو چاہے کرے کوئی اس سے باز پرس نہیں کر سکتا وہ بندوں کو آزماتا ہے اور دیکھتا ہے کہ وہ نبیوں اور رسولوں کے کیسے تابعدار ہیں کسی چیز کا کسی سے باز پرس نہیں کر سکتا وہ بندوں کو آزماتا ہے اور دیکھتا ہے کہ وہ نبیوں اور رسولوں کے کیسے تابعدار ہیں کسی چیز کا مصلحت کی وجہ سے حکم دیا پھر مصلحت کی وجہ سے ہی اس حکم کو ہٹا دیا اب آزمائش ہوتی ہے نیک لوگ اس وقت بھی اطاعت کے لئے کمر بستہ تھے اور اب بھی ہیں لیکن بد باطن لوگ باتیں بناتے ہیں اور ناک بھوں چڑھاتے ہیں حالانکہ تمام مخلوق کو اپنے خالق کی تمام باتیں ماننی چاہئیں اور ہر حال میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنی چاہئے اور جو وہ کہے اسے دل سے سچا ماننا چاہئے ، جو حکم دے بجا لانا چاہئے جس سے روکے رک جانا چاہئے ، اس مقام پر بھی یہودیوں کا زبردست رد ہے اور ان کے کفر کا بیان ہے کہ وہ نسخ کے قائل نہ تھے بعض تو کہتے تھے اس میں عقلی محال لازم آتا ہے اور بعض نقلی محال بھی مانتے تھے اس آیت میں گو خطاب فخر عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے مگر دراصل یہ کلام یہودیوں کو سنانا ہے جو انجیل کو اور قرآن کو اس وجہ سے نہیں مانتے تھے کہ ان میں بعض احکام توراۃ کے منسوخ ہو گئے تھے اور اسی وجہ سے وہ ان نبیوں کی نبوت کے بھی منکر ہو گئے تھے اور صرف عناد و تکبر کی بنا تھی ورنہ عقلاً نسخ محال نہیں اس لئے کہ جس طرح وہ اپنے کاموں میں با اختیار رہے اسی طرح اپنے حکموں میں بھی با اختیار رہے جو چاہے اور جب چاہے پیدا کرے جسے چاہے اور جس طرح چاہے اور جس وقت چاہے رکھے ۔ اسی طرح جو چاہے اور جس وقت چاہے حکم دے اس حاکموں کے حاکم کا حاکم کون؟ اسی طرح نقلاً بھی یہ ثابت شدہ امر ہے اگلی کتابوں اور پہلی شریعتوں میں موجود ہے حضرت آدم کی بیٹیاں بیٹے آپس میں بھائی بہن ہوتے تھے لیکن نکاح جائز تھا پھر اسے حرام کر دیا نوح علیہ السلام جب کشتی سے اترتے ہیں تب تمام حیوانات کا کھانا حلال تھا لیکن پھر بعض کی حلت منسوخ ہو گئی دو بہنوں کا نکاح اسرائیل اور ان کی اولاد پر حلال تھا لیکن پھر توراۃ میں اور اس کے بعد حرام ہو گیا ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کی قربانی کا حکم دیا پھر قربان کرنے سے پہلے ہی منسوخ کر دیا بنو اسرائیل کو حکم دیا جاتا ہے کہ بچھڑا پوجنے میں جو شامل تھے سب اپنی جانوں کو قتل کر ڈالیں لیکن پھر بہت سے باقی تھے کہ یہ حکم منسوخ ہو جاتا ہے اسی طرح کے اور بہت سے واقعات موجود ہیں اور خود یہودیوں کو ان کا اقرار ہے لیکن پھر بھی قرآن اور نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہہ کر نہیں مانتے کہ اس سے اللہ کے کلام میں نسخ لازم آتا ہے اور وہ محال ہے ، بعض لوگ جو اس کے جواب میں لفظی بحثوں میں پڑ جاتے ہیں وہ یاد رکھیں کہ اس سے دلالت نہیں بدلتی اور مقصود وہی رہتا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت یہ لوگ اپنی کتابوں میں پاتے تھے آپ کی تابعداری کا حکم بھی دیکھتے تھی یہ بھی معلوم تھا کہ آپ کی شریعت کے مطابق جو عمل نہ ہو وہ مقبول نہیں ہو گیا یہ اور بات ہے کہ کوئی کہے کہ اگلی شریعتیں صرف آپ کے آنے تک ہی تھیں اس لئے یہ شریعت ان کی ناسخ نہیں یا کہے کہ ناسخ ہے بہر صورت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔ اس لئے کہ آپ آخری کتاب اللہ کے پاس سے ابھی ابھی لے کر آئے ہیں پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نسخ کے جواز کو بیان فرما کر اس ملعون گروہ یہود کا رد کیا سورۃ آل عمران میں بھی جس کے شروع میں بنی اسرائیل کو خطا کیا گیا ہے نسخ کے واقع ہونے کا ذکر موجود ہے فرماتا ہے آیت ( کل الطعام ) الخ یعنی سبھی کھانے بنی اسرائیل پر حلال تھے مگر جس چیز کو حضرت اسرائیل نے اپنے اوپر حرام کر لیا تھا اس کی مزید تفسیر وہیں آئے گی انشاء اللہ تعالیٰ مسلمان کل کے کل متفق ہیں کہ احکام باری تعالیٰ میں نسخ کا ہونا جائز ہے بلکہ واقع بھی ہے اور پروردگار کی حکمت بالغہ کا دستور بھی یہی ہے ابو مسلم اصبہانی مفسر نے لکھا ہے کہ قرآن میں نسخ واقع نہیں ہوتا لیکن اس کا یہ قول ضعیف اور مردود اور محض غلط اور جھوٹ ہے جہاں نسخ قرآن موجود ہے اس کے جاب میں گو بعض نے بہت محنت سے اس کی تردید کی ہے لیکن محض بےسود دیکھئے پہلے اس عورت کی عدت جس کا خاوند مر جائے ایک سال تھی لیکن پھر چار مہینے دس دن ہوئی اور دونوں آیتیں قرآن پاک میں موجود ہیں قبلہ پہلے بیت المقدس تھا ۔ پھر کعبتہ اللہ ہوا اور دوسری آیت صاف اور پہلا حکم بھی ضمناً مذکور ہے پہلے کے مسلمانوں کو حکم تھا کہ ایک ایک مسلمان دس دس کافروں سے لڑے اور ان کے مقابلے سے نہ ہٹے لیکن یہ پھر حکم منسوخ کر کے دو دو کے مقابلہ میں صبر کرنے کا حکم ہوا اور دونوں آیتیں کلام اللہ میں موجود ہیں پہلے حکم تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کرنے سے پہلے کچھ صدقہ دے یا کرو پھر یہ حکم منسوخ ہوا اور دونوں آیتیں قرآن کریم میں موجود ہیں وغیرہ واللہ اعلم ۔
107۔ 1 نسخ کے لغوی معنی تو منسوخ کرنے کے ہیں، لیکن شرعی اصطلاح میں ایک حکم بدل کر دوسرا حکم نازل کرنے کے ہیں یہ نسخ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا جیسے آدم (علیہ السلام) کے زمانے میں سگے بہن بھائی کا آپس میں نکاح جائز تھا بعد میں اسے حرام کردیا گیا وغیرہ، اسی طرح قرآن میں بھی اللہ تعالیٰ نے بعض احکام منسوخ فرمائے اور ان کی جگہ نیا حکم نازل فرمایا۔ یہودی تورات کو ناقابل نسخ قرار دیتے تھے اور قرآن پر بھی انہوں نے بعض احکام کے منسوخ ہونے کی وجہ سے اعتراض کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید فرمائی کہا کہ زمین اور آسمان کی بادشاہی اسی کے ہاتھ میں ہے، وہ جو مناسب سمجھے کرے، جس وقت جو حکم اس کی مصلحت و حکمت کے مطابق ہو، اسے نافذ کرے اور جسے چاہے منسوخ کر دے، یہ اس کی قدرت ہی کا مظاہرہ ہے۔ بعض قدیم گمراہوں (مثلا ابو مسلم اصفہانی معتزلی) اور آجکل کے بھی بعض متجددین نے یہودیوں کی طرح قرآن میں نسخ ماننے سے انکار کیا۔ لیکن صحیح بات وہی ہے جو مزکورہ سطروں میں بیان کی گئی ہے، سابقہ صالحین کا عقیدہ بھی اثبات نسخ ہی رہا ہے۔
[١٢٥] یہود جن جن طریقوں سے لوگوں کو اسلام سے متنفر کرنے کا کردار ادا کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ قرآن کو مشکوک قرار دیا جائے۔ وہ لوگوں سے کہتے کہ اگر قرآن بھی منزل من اللہ ہے اور تورات تو منزل من اللہ ہے ہی۔ پھر قرآن اور تورات کے احکام میں اختلاف کیوں ہے ؟ اس اعتراض کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ قرآن میں ایک حکم نازل ہوتا ہے پھر اس کی جگہ کوئی اور حکم آجاتا ہے تو کیا اللہ تعالیٰ کو یہ علم نہیں کہ میں پہلے کیا حکم دے چکا ہوں اور اب کیا دے رہا ہوں ؟ یہود کے ایسے ہی اعتراضات کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دیا ہے اور فرمایا کہ عیب نہ پہلے حکم میں تھا اور نہ دوسرے حکم میں ہے۔ حالات اور موقع کی مناسبت سے جس طرح کے احکام کی ضرورت ہوتی ہے، ویسے ہی دیئے جاتے ہیں اور تمہیں یہ جان لینا چاہیے کہ اللہ مالک الملک ہے وہ جیسے چاہے حکم دے سکتا ہے۔ پہلے کے احکام منسوخ بھی کرسکتا ہے اور نئے دے بھی سکتا ہے۔- اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ کی آیات میں تبدیلی دو طرح سے قرآن میں واقع ہوئی ہے۔ ایک نسخ سے دوسرے بھلا دینے سے۔ یہاں ہم ان دونوں قسموں کی تفصیل بیان کریں گے :- متقدمین نے نسخ کا مفہوم بہت وسیع معنوں میں لیا۔ وہ احکام میں تدریج کو بھی نسخ کے معنوں میں لیتے تھے اور اس طرح انہوں نے آیات منسوخہ کی تعداد پانچ سو تک شمار کردی جب کہ احکام میں تدریج پر نسخ کا اطلاق درست نہیں۔ نسخ سے مراد کسی حکم کا اٹھ جانا ہے اس لحاظ سے شاہ ولی اللہ (رح) نے آیات منسوخہ صرف پانچ شمار کی ہیں۔ جن کی مثالیں درج ذیل ہیں۔- ١۔ اللہ تعالیٰ نے سورة بقرہ کی آیت نمبر ١٨١ میں فرمایا کہ آیت ( كُتِبَ عَلَيْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَكَ خَيْرَۨا ښ الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ بالْمَعْرُوْفِ ١٨٠ۭ ) 2 ۔ البقرة :180) اس آیت کی رو سے میت پر والدین اور اپنے قریبی رشتہ داروں کے حق میں مرنے سے پہلے وصیت کرنا فرض تھا۔ پھر جب سورة نساء کی آیت نمبر ١١ اور ١٢ میں اللہ تعالیٰ نے میراث کے حصے خود ہی والدین اوراقربین کے حق میں مقرر فرما دیئے تو اس آیت کا حکم منسوخ ہوگیا اور میت پر وصیت کرنا فرض نہ رہا۔ بلکہ اب وہ صرف غیر ذوی الفروض کے حق میں ہی وصیت کرسکتا ہے اور وہ بھی زیادہ سے زیادہ تہائی مال تک، نیز یہ وصیت فرض نہیں بلکہ اختیاری ہے اور مستحب ہے۔- ٢۔ اللہ تعالیٰ نے سورة نساء کی آیت نمبر ١٥ میں زانیہ عورت کی یہ سزا مقرر فرمائی کہ بقیہ عمر اسے گھر میں مقید رکھا جائے۔ اور ساتھ ہی یہ بھی ذکر فرمایا کہ شاید اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی نئی سزا مقرر فرما دے۔ پھر جب سورة نور نازل ہوئی جس میں زانی مرد کو اور زانی عورت کو سو سو کوڑے مارنے کا ذکر ہے تو اس حکم سے پہلی سزا کا حکم اٹھ گیا۔ یعنی وہ منسوخ ہوگئی۔- ٣۔ سورة بقرہ کی آیت نمبر ٢٤٠ کی رو سے میت کے وارثوں پر فرض تھا کہ وہ اس کی بیوہ کو ایک سال گھر سے نہ نکالیں اور اس کا خرچ برداشت کریں۔ بعد میں جب بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن مقرر ہوگئی۔ نیز آیت میراث کی رو سے خاوند کے ترکہ میں بیوی کا حصہ بھی مقرر ہوگیا تو اس آیت کا حکم منسوخ ہوگیا۔ اب بیوہ کے حق میں تو یہ حکم ہوا کہ وہ بس عدت کے ایام اپنے مرنے والے شوہر کے ہاں گزارے۔ بعد میں وہ آزاد ہے اور اس دوران نان و نفقہ بھی وارثوں کے ذمہ اور ترکہ سے ہی ہوگا اور سال بھر کے خرچہ کا مسئلہ میراث میں حصہ ملنے سے حل ہوگیا۔- مندرجہ مثالیں ایسی ہیں جن میں سابقہ آیت کا حکم قطعاً منسوخ ہے۔ اب ہم کچھ ایسی مثالیں بیان کرتے ہیں۔ جن میں دونوں قسم کے حکم حالات کے تقاضوں کے تحت ساتھ ساتھ چلتے ہیں مثلاً :- ١۔ سورة انفال (جو جنگ بدر کے فوراً بعد نازل ہوئی تھی) کی آیت نمبر ٦٥ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جرأت ایمانی کا معیار مقرر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک مسلمان کو دس کافروں پر غالب آنا چاہیے۔ یہ حکم ان مسلمانوں کے لیے تھا جو علم و عمل میں پختہ اور ہر طرح کی سختیاں برداشت کرچکے تھے اور ان کا اللہ تعالیٰ پر توکل کامل تھا۔ بعد میں اسلام لانے والے مسلمان جن کی تربیت بھی پوری طرح نہ ہوسکی تھی۔ ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے معیار میں کافی تخفیف کرتے ہوئے اگلی آیت میں فرمایا کہ ان میں سے بھی ایک مسلمان کو کم از کم دو کافروں پر ضرور غالب آنا چاہیے۔ اب اس بعد والے حکم سے پہلا حکم منسوخ نہیں ہوا۔ بلکہ جب بھی کسی خطہ میں تحریک جہاد شروع ہوگی تو حالات کے مطابق دونوں قسم کے احکام لاگو ہوں گے۔- ٢۔ سورة محمد کی آیت نمبر ٤ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جنگ کے بعد جنگی قیدیوں کو خواہ فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے یا احسان رکھ کر۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنگی قیدیوں کو لونڈی غلام بنانے سے منع فرما دیا ہے۔ دوسری طرف سورة احزاب کی آیت نمبر ٥٠ کی رو سے عام مسلمان تو درکنار خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جنگی قیدیوں کو لونڈی غلام بنانے بلکہ لونڈیوں سے تمتع کی بھی اجازت فرما رہے ہیں اور ان دونوں طرح سے احکام میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کا ناسخ نہیں ہے۔ بلکہ حالات کے تقاضوں کے مطابق دونوں میں سے کسی نہ کسی پر عمل درآمد ہوگا اور ایسی مثالیں قرآن میں اور بھی بہت ہیں۔- آیات میں تبدیلی کی دوسری صورت اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی کہ ہم اس آیت یا اس جملہ کو بھلا ہی دیتے ہیں۔ جیسا کہ سورة اعلیٰ میں فرمایا : آیت ( سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسٰٓى ۙ ) 87 ۔ الأعلی :6) یعنی ہم تمہیں پڑھائیں گے جسے تم بھولو گے نہیں مگر جو اللہ چاہے۔ اور اس بھلانے کی صورت یہ ہوتی تھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر سال رمضان میں حضرت جبریل (علیہ السلام) کے ساتھ نازل شدہ قرآن کریم کا دور کیا کرتے، اس دوران جن الفاظ یا جس جملہ کو منسوخ کرنا اللہ کو منظور ہوتا تھا وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھول جاتے تھے اور جبریل (علیہ السلام) بھی اس کا تکرار نہیں کرتے تھے۔ ایسے نسخ کی بھی چند مثالیں درج ذیل ہیں۔- ١۔ اللہ تعالیٰ نے سورة بقرہ کی آیت نمبر ٢٦ میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس بات سے نہیں شرماتا کہ وہ مچھر یا اس سے بھی کسی حقیر مخلوق کی مثال بیان کرے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی آیت بھی نازل کی تھی جس میں مچھر کی مثال بیان کی گئی تھی۔ جسے کافروں نے اضحوکہ بنایا تھا اور چونکہ وہ مچھر کی مثال والی آیت قرآن میں موجود نہیں۔ لہذا اس کے متعلق یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ بھلا دی گئی تھی۔- ٢۔ سورة نساء کی آیت نمبر ٢٤ میں آیت (فَـمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْھُنَّ 24) 4 ۔ النسآء :24) کے بعد آیت (الیٰ اَجَلٍٍ مُسَمًّی) کے الفاظ بھی نازل ہوئے تھے جس کی رو سے مجاہدین کے لیے محاذ جنگ کے دوران متعہ حلال ہوتا رہا۔ لیکن بالآخر اس کی ابدی حرمت ہوگئی تو یہ آخری الفاظ بھی اللہ تعالیٰ نے بھلا دیئے اور شامل قرآن نہ ہو سکے۔ْ ،- ٣۔ آیت رجم بھی اس قبیل سے ہے جس کے متعلق حضرت عمر (رض) نے اپنی آخری زندگی کے ایک خطبہ میں برسر منبر فرمایا تھا۔ اس کتاب اللہ میں رجم کے حکم کی بھی آیت تھی۔ جسے ہم نے پڑھا، یاد کیا۔ اور اس پر عمل بھی کیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں بھی رجم ہوا اور ہم نے بھی رجم کیا۔ مجھے ڈر ہے کہ کچھ زمانہ گزرنے کے بعد کوئی یہ نہ کہنے لگے کہ ہم رجم کو کتاب اللہ میں نہیں پاتے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اس فریضہ کو جسے اللہ نے اپنی کتاب میں اتارا چھوڑ کر مرجائیں۔ کتاب اللہ میں رجم کا حکم مطلق حق ہے اس پر جو زنا کرے اور شادی شدہ ہو۔ خواہ مرد ہو یا عورت، جبکہ اس کے زنا پر کوئی شرعی ثبوت یا حمل موجود ہو۔ (بخاری، کتاب المحاربین۔ باب رجم الحبلیٰ ) - رہی یہ بات کہ اگر یہ آیت منسوخ ہوگئی یا بھلا دی گئی تو اس کا حکم کیسے باقی رہ گیا۔ یہ تفصیل سورة نور کی آیت نمبر ٢ کے تحت ملاحظہ فرمائی جائے۔ یہاں صرف یہ بات چل رہی ہے کہ منزل من اللہ وحی میں سے اللہ کی حکمت کے تحت کچھ آیات یا جملے یا الفاظ بھلا بھی دیئے گئے اور کچھ احکام منسوخ بھی ہوئے ہیں۔ چونکہ مسلمانوں میں بھی ایک فرقہ قرآن میں کسی طرح کے نسخ کا قائل نہیں لہذا یہ مثالیں پیش کرنا ضروری سمجھا گیا، اور ان پر اکتفا کیا گیا۔ حالانکہ قرآن میں ایسی اور بھی مثالیں موجود ہیں۔- بعض روایات میں آیا ہے بعض صحابہ (رض) کہتے تھے کہ ہم فلاں آیت پڑھا کرتے تھے جو بعد میں منسوخ ہوگئی۔ ان روایات کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ بعض دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی آیت کی تشریح میں کوئی جملہ فرما دیا لیکن صحابہ (رض) نے اسے آیت کا حصہ ہی سمجھ لیا، پھر جب ایسے جملوں کا قرآن کے ان اجزاء سے مقابلہ کیا گیا جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لکھوائے تھے۔ تب صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو معلوم ہوا کہ وہ جملے قرآن کی آیت کا حصہ نہیں تھے اور اس کی بھی کئی مثالیں احادیث میں موجود ہیں۔
نسخ کا معنی ہے بعد میں آنے والے حکم کے ساتھ پہلے کسی حکم کو ختم کردینا، جیسے پہلے بیت المقدس قبلہ مقرر ہوا، پھر بیت اللہ کی طرف منہ کرنے کا حکم ہوا اور جیسے ہماری شریعت میں پہلی شریعتوں کے بہت سے احکام منسوخ کردیے گئے۔ یہودی نسخ کے منکر تھے، اسی لیے انھوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو جھٹلایا کہ انھوں نے تورات کے بعض احکام کیوں منسوخ کیے۔ قرآن پر بھی انھوں نے اعتراض کیا کہ جب پہلا حکم اللہ تعالیٰ کا تھا اور درست تھا تو وہ منسوخ کیوں ہوا ؟ اللہ تعالیٰ نے اس کے کئی جواب دیے، پہلے جواب کی تفصیل یہ ہے کہ پہلا حکم درحقیقت ہوتا ہی اتنی مدت کے لیے ہے، نسخ اس مدت کے ختم ہونے کا اعلان ہے۔ اس وقت تک وہ پہلا حکم عین حکمت تھا، بعد میں اس جیسے یا اس سے بہتر دوسرے حکم کی ضرورت تھی تو وہ جاری کردیا گیا۔ کائنات میں ہر وقت اس کا مشاہدہ ہو رہا ہے۔ نطفہ سے علقہ، پھر مضغہ، پھر ہڈیاں، پھر جنین، پھر بچپن، جوانی، بڑھاپا، موت اور قیامت سب نسخ ہی کی صورتیں ہیں۔ مختلف موسم مثلاً سردی، پھر بہار، پھر گرمی، پھر برسات، اسی طرح رات دن کا چکر اس کی مثالیں ہیں۔ طبیب کا مریض کے لیے ایک نسخہ تجویز کرنا، پھر نئی صورت حال کے لیے دوسرا نسخہ تجویز کرنا بھی اس کی مثال ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ پہلا نسخہ غلط تھا۔ ایک جواب اس اعتراض کا یہ دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر اپنا حکم منسوخ نہ کرسکتا ہو تو وہ عاجز ٹھہرا، چناچہ فرمایا : ” کیا تمہیں معلوم نہیں کہ بیشک اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ “ مزید فرمایا : ” کیا تمہیں معلوم نہیں کہ زمین و آسمان کی بادشاہت اللہ ہی کے لیے ہے۔ “ وہ بادشاہ ہی کیا ہوا جو پہلے حکم کی جگہ نیا حکم نافذ نہ کرسکے۔ - قرآن کے ساتھ قرآن منسوخ ہوسکتا ہے اور سنت بھی، اسی طرح سنت کے ساتھ سنت منسوخ ہوسکتی ہے اور قرآن بھی، کیونکہ دونوں وحی الٰہی ہیں اور وحی الٰہی کے ساتھ وحی الٰہی منسوخ ہوسکتی ہے۔- قرآن سے قرآن کے نسخ کی مثال : سورة نساء (١٥) میں اللہ تعالیٰ نے زنا کرنے والی عورتوں کی سزا مقرر فرمائی کہ انھیں گھروں میں بند رکھو، یہاں تک کہ انھیں موت اٹھا لے جائے، یا اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی راستہ بنا دے، پھر سورة نور کے شروع میں زانی مرد اور زانیہ عورت کو سو سو کوڑے مارنے کا حکم دیا گیا۔ مزید دیکھیے سورة انفال (٦٥، ٦٦) اور مجادلہ (١٢، ١٣ ) - قرآن کے ساتھ سنت کے نسخ کی مثال : جیسے شروع شروع میں روزے کی حالت میں مغرب کے بعد سو جانے کے بعد کھانا پینا اور بیوی کے پاس جانا منع تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ وَابْتَغُوْا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ ۠وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا) [ البقرہ : ١٨٧ ] قبلہ کی تبدیلی بھی قرآن کے ساتھ سنت کے نسخ کی مثال ہے۔ سنت کے ساتھ سنت منسوخ ہونے کی مثال : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( نَہَیْتُکُمْ عَنْ زِیَارَۃِ الْقُبُوْرِ فَزُوْرُوْہَا وَ نَہَیْتُکُمْ عَنْ لُحُوْمِ الْأَضَاحِیْ فَوْقَ ثَلاَثٍ ، فَأَمْسِکُوْا مَا بَدَا لَکُمْ )” میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا سو ان کی زیارت کرو اور میں نے تمہیں تین راتوں سے زیادہ قربانیوں کے گوشت ( ذخیرہ کرنے) سے منع کیا تھا، سو انھیں رکھ لو، جب تک تمہاری مرضی ہو۔ “ [ مسلم، الأضاحی، باب بیان ما کان من النہی ۔۔ : ١٩٧٧، عن بریدۃ (رض) ]- سنت صحیحہ کے ساتھ قرآن کے نسخ کی مثال خواہ وہ متواتر نہ ہو : جیسا کہ سورة نساء میں اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کا ذکر فرمایا جن سے نکاح حرام ہے، ان میں دو بہنوں کو ایک نکاح میں جمع کرنا بھی حرام ہے، پھر فرمایا : (وَاُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَاۗءَ ذٰلِكُمْ ) [ النساء : ٢٤ ] ” ان کے سوا سب عورتوں سے نکاح تمہارے لیے حلال ہے۔ “ اس آیت کی رو سے خالہ اور اس کی بھانجی، پھوپھی اور اس کی بھتیجی کو ایک نکاح میں جمع کرنا جائز ہے، مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرما دیا تو حرام ہوگیا اور اس پر امت متفق ہے۔ تنبیہ درحقیقت یہ سنت کے ساتھ کتاب اللہ سے زائد حکم کی مثال ہے، بعض لوگ کتاب اللہ پر زیادتی کو نسخ کہتے ہیں، ان کے قول کے مطابق یہ نسخ کی مثال ہے، ورنہ شیخ محمد بن صالح عثیمین (رح) نے فرمایا کہ سنت کے ساتھ قرآن کے نسخ کی کوئی قابل اطمینان مثال مجھے نہیں ملی۔ - نسخ احکام میں ہوتا ہے خبر میں نہیں، ورنہ ہر جھوٹا شخص، جب اس کی پیشین گوئی یا گزشتہ یا موجود واقعے کی کوئی خبر غلط نکلے، کہہ دے گا وہ منسوخ ہوگئی، جیسے مرزا قادیانی کے مریدوں کا حال ہے۔ - بعض آیات و احکام جنھیں باقی رکھنا مقصود نہ تھا، اللہ تعالیٰ نے بھلا دیے، جیسا کہ فرمایا : (سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسٰٓى، اِلَّا مَا شَاۗءَ اللّٰهُ ) [ الأعلٰی : ٦، ٧ ] ” ہم ضرور تجھے پڑھائیں گے تو تو نہیں بھولے گا۔ مگر جو اللہ چاہے۔ “
خلاصہ تفسیر :- (تبدیل قبلہ کا واقعہ جب ہوا تو یہود نے اس پر طعن کیا اور مشرکین بھی بعض احکام کی منسوخی پر زبان طعن دراز کرتے تھے حق تعالیٰ ان کے طعن اور اعتراض کا جواب دیتے ہیں کہ) ہم کسی آیت کا جو حکم موقوف کردیتے ہیں (گو آیت قرآن میں یا ذہنوں میں باقی رہے) یا اس آیت (ہی) کی (ذہنوں سے) فراموش کردیتے ہیں تو (یہ کوئی اعتراض کی بات نہیں کیونکہ اس میں بھی مصلحت ہوتی ہے چنانچہ) ہم اس آیت سے بہتر یا اس آیت ہی کے مثل (بجائے اس کے دوسری چیز) لے آتے ہیں (اے معترض) کیا تجھ کو یہ معلوم نہیں کہ حق تعالیٰ ہر شے پر قدرت رکھتے ہیں (پس ایسے قادر کو مصالح کی رعایت کیا مشکل ہے اور) کیا تجھ کو یہ معلوم نہیں کہ حق تعالیٰ ایسے ہیں کہ خاص انہی کی سلطنت آسمانوں اور زمین پر ہے (جب ان کی اس قدرت و سلطنت میں کوئی شریک وسہیم نہیں ہے تو ان مصلحتوں کی رعایت کرکے دوسرا حکم دے دینے میں کون مزاحمت کرسکتا ہے غرض حکم ثانی کی تجویز سے بھی مانع نہیں اور اس حکم کے جاری کردینے میں بھی کوئی مانع نہیں) اور (یہ بھی سمجھ رکھو کہ) تمہارا حق تعالیٰ کے سوا کوئی یار و مددگار بھی نہیں پس جب وہ پار ہیں تو احکام میں مصلحت کی ضرور رعایت کریں گے اور جب مددگار ہیں تو ان احکام پر عمل کرنے کے وقت تمہارے مخالفین کی مزاحمت سے بھی ضرور محفوظ رکھیں گے، البتہ اگر اس ضرر سے بڑھ کر کوئی نفع اخروی ملنے والا ہو تو ظاہراً مخالف کا مسلط ہوجانا اور بات ہے،- معارف و مسائل :- مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَةٍ اَوْ نُنْسِهَا اس آیت میں کسی آیت قرآن کے منسوخ ہونے کی جتنی صورتیں ہوسکتی ہیں سب کو جمع کردیا ہے نسخ کے معنی لغت میں زائل کرنے اور لکھنے کے آتے ہیں اس پر تمام مفسرین امت کا اتفاق ہے کہ اس آیت میں نسخ سے مراد کسی حکم کا زائل کرنا یعنی منسوخ کرنا ہے اور اسی لئے اصطلاح کتاب وسنت میں نسخ ایک حکم کے بجائے کوئی دوسرا حکم جاری کرنے کو کہا جاتا ہے خواہ وہ دوسرا حکم یہی ہو کہ سابق حکم بالکل ختم کردیا جائے یا یہ ہو کہ اس کی جگہ دوسرا عمل بتلایا جائے،- احکام الہیہ میں نسخ کی حقیقت :- دنیا کی حکومتوں اور اداروں میں کسی حکم کو منسوخ کرکے دوسرا حکم جاری کردینا مشہور و معروف ہے لیکن انسانوں کے احکام میں نسخ کبھی اس لئے ہوتا ہے کہ پہلے کسی غلط فہمی سے ایک حکم جاری کردیا بعد میں حقیقت معلوم ہوئی تو حکم بدل دیا کبھی اس لئے ہوتا ہے کہ جس وقت یہ حکم جاری کیا گیا اس وقت کے حالات کے مناسب تھا اور آگے آنے والے واقعات و حالات کا اندازہ نہ تھا جب حالات بدلے تو حکم بھی بدلنا پڑا یہ دونوں صورتیں احکام خداوندی میں نہیں ہوسکتی،- ایک تیسری صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ حکم دینے والے کو اول ہی سے یہ بھی معلوم تھا کہ حالات بدلیں گے اور اس وقت یہ حکم مناسب نہیں ہوگا دوسرا حکم دینا ہوگا یہ جانتے ہوئے آج ایک حکم دے دیا اور جب اپنے علم کے مطابق حالات بدلے تو اپنی قرارداد سابق کے مطابق حکم بھی بدل دیا اس کی مثال ایسی ہے کہ مریض کے موجودہ حالات کو دیکھ کر حکیم یا ڈاکٹر ایک دوا تجویز کرتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ دو روز اس دوا کے استعمال کرنے کے بعد مریض کا حال بدلے گا اس وقت مجھے دوسری دوا تجویز کرنا ہوگی یہ سب جانتے ہوئے وہ پہلے دن ایک دوا تجویز کرتا ہے جو اس دن کے مناسب ہے دو دن کے بعد حالات بدلنے پر دوسری دوا تجویز کرتا ہے،- ماہر حکیم ڈاکٹر یہ بھی کرسکتا ہے کہ پہلے ہی دن پورے علاج کا نظام لکھ کر دیدے کہ دو روز تک یہ دوا استعمال کرو پھر تین روز فلاں دوا پھر ایک ہفتہ فلاں دوا لیکن یہ مریض کی طبیعت پر بےوجہ کا ایک بار بھی ڈالنا ہے اس میں غلط فہمی کی وجہ سے عملی خلل کا بھی خطرہ ہے اس لئے وہ پہلے ہی سے سب تفصیلات نہیں بتلاتا،- اللہ جل شانہ کے احکام میں اور اس کی نازل کی ہوئی کتابوں میں صرف یہی آخری صورت نسخ کی ہوسکتی ہے اور ہوتی رہی ہے ہر آنے والی نبوت اور ہر نازل ہونے والی کتاب نے پچھلی نبوت اور کتاب کے بہت سے احکام کو منسوخ کرکے نئے احکام جاری کئے اور اسی طرح ایک ہی نبوت و شریعت میں ایسا ہوتا رہا کہ کچھ عرصہ تک ایک حکم رہا پھر بتقاضائے حکمت خداوندی اس کو بدل کر دوسرا حکم نافذ کردیا گیا صحیح مسلم کی حدیث میں ہے۔ - لم تکن نبوۃ قط الاتناسخت (مسلم) - یعنی کبھی کوئی نبوت نہیں آئی جس نے احکام میں نسخ اور رد وبدل نہ کیا ہو (قرطبی) - جاہلانہ شبہات :- البتہ کچھ جاہل یہودیوں نے اپنی جہالت سے احکام الہیہ کے نسخ کو دنیوی احکام کے نسخ کی پہلی دونوں صورتوں پر قیاس کرکے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر زبان طعن دراز کی اسی کے جواب میں یہ آیات نازل ہوئیں (ابن جریر، ابن کثیروغیرہ) - مسلمانوں میں سے فرقہ معتزلہ کے بعض لوگوں نے شاید ان مخالفین کے طعن سے بچنے کی یہ راہ نکالی کہ احکام الہیہ میں نسخ ہونے کا امکان تو ہے کوئی امر اس امکان کے لئے مانع نہیں لیکن پورے قرآن میں نسخ کا وقوع کہیں نہیں ہوا نہ کوئی آیت ناسخ ہے نہ منسوخ یہ قول ابومسلم اصفہانی کی طرف منسوب کیا جاتا ہے جس پر علماء امت نے ہمیشہ رد ونکیر فرمایا ہے تفسیر روح المعانی میں ہے،- واتفقت اہل الشرائع علیٰ جواز النسخ ووقوعہ وخالفت الیہود غیر العیسویۃ فی جو ازہ وقالوا یمتنع عقلاً وابو مسلم الاصفہانی فی وقوعہ فقال انہ و ان جاز عقلا لکنہ لم یقع، (روح، ص ٣٥٢ ج ١) - تمام اہل شرائع کا نسخ کے جواز اور وقوع دونوں پر اتفاق ہے صرف یہودیوں نے بجز عیسویہ کے امکان نسخ کا انکار کیا ہے اور ابو مسلم اصفہانی نے وقوع کا انکار کیا ہے وہ کہتا ہے کہ نسخ احکام الہیہ میں ممکن تو ہے مگر کہیں واقع ہوا نہیں، - اور امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں فرمایا،- معرفۃ ہذا الباب اکیدۃ وفائدتہ عظیمۃ لاتستغنی عن معرفتہ العلماء ولا ینکرہ الا الجہلۃ الاغبیاء (قرطبی ص ٥٥ ج ١) - باب نسخ کی معرفت بہت ضروری ہے اور فائدہ اس کا بہت بڑا ہے اس کی معرفت سے علماء مستغنی نہیں ہوسکتے اور جاہلوں بیوقوفوں کے سوا اس کا کوئی انکار نہیں کرسکتا،- قرطبی نے اس جگہ ایک واقعہ حضرت علی (رض) کا بھی نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ وہ مسجد میں تشریف لائے تو کوئی آدمی وعظ کہہ رہا تھا آپ نے لوگوں سے پوچھا یہ کیا کررہا ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ وعظ و نصیحت کررہا ہے آپ نے فرمایا نہیں یہ کوئی وعظ نصیحت نہیں کرتا بلکہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ میں فلاں بن فلاں ہوں سو پہچانو پھر اس شخص کو بلوا کر پوچھا کہ کیا تم قرآن و حدیث کے ناسخ منسوخ احکام کو جانتے ہو ؟ اس نے کہا کہ نہیں میں نہیں جانتا حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ ہماری مسجد سے نکل جاؤ آئندہ کبھی یہاں وعظ نہ کہو،- قرآن وسنت میں نسخ کے وجود وقوع کے متعلق صحابہ کرام (رض) اجمعین وتابعین کے اتنے آثار و اقوال موجود ہیں جن کو نقل کرنا مشکل ہے تفسیر ابن جریر ابن کثیر درمنثور وغیرہ میں اسانید قویہ صحیحہ کے ساتھ بھی بہت سی روایات مذکور ہیں اور روایات ضعیفہ کا تو شمار نہیں، - اسی لئے امت میں یہ مسئلہ ہمیشہ اجماعی رہا ہے صرف ابومسلم اصفہانی اور چند معتزلہ نے وقوع نسخ کا انکار کیا ہے جن پر امام رازی نے تفسیر کبیر میں شرح وبسط کے ساتھ رد کیا ہے،- نسخ کے مفہوم میں متقدمین ومتاخرین کی اصطلاحوں میں فرق :- چونکہ نسخ کے اصطلاحی معنی تبدیل حکم کے ہیں اور یہ تبدیلی جس طرح ایک حکم کو بالکلیہ منسوخ کرکے اس کی جگہ دوسرا حکم لانے میں ہے جیسے بیت المقدس کے بجائے بیت اللہ کو قبلہ بنادینا اسی طرح کسی مطلق یا عام حکم میں کسی قید وشرط کو بڑھا دینا بھی ایک قسم کی تبدیلی ہے اسلام امت نے نسخ کو اسی عام معنی میں استعمال فرمایا ہے جس میں کسی حکم کی پوری تبدیلی بھی داخل ہے اور جزوی تبدیلی قید وشرط یا استثناء وغیرہ کی بھی اس میں شامل ہے اسی لئے متقدمین حضرات کے نزدیک قرآن میں آیات منسوخہ پانسو تک شمار کی گئی ہیں،- حضرات متاخرین نے صرف اس تبدیلی کا نام نسخ رکھا ہے جس کی پہلے حکم کے ساتھ کسی طرح تطبیق نہ ہو سکے ظاہر ہے کہ اس اصطلاح کے مطابق آیات منسوخہ کی تعداد بہت گھٹ جائے گی، اسی کا لازمی اثر یہ تھا کہ متقدمین نے تقریباً پانسو آیات قرآنی میں نسخ ثابت کیا تھا جس میں معمولی سی تبدیلی قید وشرط یا استثناء وغیرہ کو بھی شامل کیا تھا اور حضرات متأخرین میں علامہ سیوطی نے صرف بیس آیتوں کو منسوخ قرار دیا ان کے بعد حضرت شاہ ولی اللہ (رح) نے ان میں بھی تطبیق کی صورت پیدا کرکے صرف پانچ آیتوں کو منسوخ فرمایا ہے جن میں کوئی تطبیق بغیر تاویل بعید کے نہیں ہوسکتی یہ امر اس لحاظ سے مستحسن ہے کہ احکام میں اصل بقاء حکم ہے نسخ خلاف اصل ہے اس لئے جہاں آیت کے معمول بھا ہونے کی کوئی توجیہ ہوسکتی ہے اس میں بلاضرورت نسخ ماننا درست نہیں، - لیکن اس تقلیل کا یہ منشاء ہرگز نہیں ہوسکتا کہ مسئلہ نسخ اسلام یا قرآن پر کوئی عیب تھا جس کے ازالہ کی کوشش چودہ سو برس تک چلتی رہی آخری انکشاف حضرت شاہ ولی اللہ کا ہوا جس میں گھٹتے گھٹتے پانچ رہ گئی اور اب اس کا انتظار ہے کہ کوئی جدید محقق ان پانچ کا بھی خاتمہ کرکے بالکل صفر تک پہنچادے،- مسئلہ نسخ کی تحقیق میں ایسا رخ اختیار کرنا نہ اسلام اور قرآن کی کوئی صحیح خدمت ہے اور نہ ایسا کرنے سے صحابہ کرام (رض) اجمعین وتابعین اور پھر چودہ سو برس کے علماء متقدمین ومتاخرین کے مقالات وتحقیقات کو دھویا جاسکتا ہے اور نہ مخالفین کی زبان طعن اس سے بند ہوسکتی ہے بلکہ اس زمانے کے ملحدین کے ہاتھ میں یہ ہتھیار دینا ہے کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چودہ سو برس تک تمام علماء امت کچھ کہتے رہے ہوں اور آخر میں اس کا غلط ہونا ثابت ہوجائے معاذ اللہ اگر یہ دروازہ کھلے گا تو قرآن اور شریعت سے امن اٹھ جائے گا اس کی کیا ضمانت ہے کہ آج جو کسی نے تحقیق کی وہ کل کو غلط ثابت نہیں ہوجائیں گی، - عصر حاضر میں بعض علماء کی ایسی تحریریں نظر سے گذری ہیں جھنوں نے آیت مذکورہ ماننسخ کو متضمن معنے شرط پر ہونے کی وجہ سے ایک قضیہ فرضیہ مثل لو کان فیھما الھۃ اور لو کان للرحمٰن ولد قرار دے کر صرف امکان نسخ کی دلیل بنایا اور وقوع انکار کیا حالانکہ تضمن معنی شرط اور قضیہ شرطیہ بحرف لو میں بڑا فرق ہے اور وہی استدلال ہے جو ابوم سلم اصفہانی اور معتزلہ پیش کرتے ہیں،- لیکن صحابہ کرام (رض) اجمعین وتابعین کی تفسریں اور پوری امت کے تراجم دیکھنے کے بعد اس کو مدلول قرآنی کہنا کسی طرح قابل قبول نہیں ہوسکتا صحابہ کرام نے اسی آیت سے وقوع نسخ پر استدلال کیا ہے اور متعدد واقعات شمار کرائے ہیں (ابن کثیر، ابن جریر وغیرہ) - یہی وجہ ہے کہ امت کے متقدمین ومتاخرین میں کسی نے بھی وقوع نسخ کا مطلقاً انکار نہیں کیا خود حضرت شاہ ولی اللہ نے تطبیق کرکے تعداد تو کم بتلائی مگر مطلقاً وقوع نسخ کا انکار نہیں فرمایا ان کے بعد بھی اکابر علماء دیوبند بلا استثناء سبھی وقوع نسخ کے قائل چلے آئے ہیں جن میں متعدد حضرات کی مستقل یا جزوی تفسیریں بھی موجود ہیں کسی نے بھی نسخ کے وقوع کا مطلقاً انکار نہیں کیا، واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم،- او ننسھا یہ مشہور قرات کے مطابق انسا اور نسیان سے ماخوذ ہے معنی یہ ہیں کہ کبھی نسخ آیت کی یہ صورت بھی ہوتی ہے کہ وہ آیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تمام صحابہ کرام (رض) اجمعین کے ذہنوں سے بالکل بھلا دینے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آئندہ اس پر عمل کرانا مقصود نہیں، - نسخ کے متعلق بقیہ احکام کی تفصیلات کی یہاں گنجائش نہیں اس کا اصل محل اصول فقہ کی کتابیں ہیں۔
مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَۃٍ اَوْ نُنْسِہَا نَاْتِ بِخَيْرٍ مِّنْہَآ اَوْ مِثْلِہَا ٠ ۭ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ١٠٦- نسخ - النَّسْخُ : إزالةُ شَيْءٍ بِشَيْءٍ يَتَعَقَّبُهُ ، كنَسْخِ الشَّمْسِ الظِّلَّ ، والظِّلِّ الشمسَ ، والشَّيْبِ الشَّبَابَ. فَتَارَةً يُفْهَمُ منه الإزالة، وتَارَةً يُفْهَمُ منه الإثباتُ ، وتَارَةً يُفْهَم منه الأَمْرَانِ. ونَسْخُ الکتاب : إزالة الحُكْمِ بحکم يَتَعَقَّبُهُ. قال تعالی: ما نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِها نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْها - [ البقرة 106] قيل : معناه ما نُزيل العملَ بها، أو نحْذِفها عن قلوب العباد، وقیل : معناه :- ما نُوجِده وننزِّله . من قولهم : نَسَخْتُ الکتابَ ، وما نَنْسأُه . أي : نُؤَخِّرُهُ فلَمْ نُنَزِّلْهُ ، فَيَنْسَخُ اللَّهُ ما يُلْقِي الشَّيْطانُ [ الحج 52] . وَنَسْخُ الکتابِ : نَقْلُ صُورته المجرَّدة إلى کتابٍ آخرَ ، وذلک لا يقتضي إزالةَ الصُّورَةِ الأُولی بل يقتضي إثباتَ مثلها في مادَّةٍ أُخْرَى، كاتِّخَاذِ نَقْشِ الخَاتم في شُمُوعٍ كثيرة، - ( ن س خ ) النسخ اس کے اصل معنی ایک چیز کو زائل کر کے دوسری کو اس کی جگہ پر لانے کے ہیں ۔ جیسے ۔ دھوپ کا سائے کو۔ اور سائے کا دھوپ کو زائل کر کے اس کی جگہ لے لینا یا جوانی کے بعد بڑھاپے کا آنا و غیرذلک پھر کبھی اس سے صرف ازالہ کے معنی مراد ہوتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ فَيَنْسَخُ اللَّهُ ما يُلْقِي الشَّيْطانُ [ الحج 52] تو جو دو سوسہ شیطان ڈلتا ہے خدا اس کو دور کردیتا ہے ۔ اور کبھی صرف اثبات کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور کبھی اس سے معا دونوں مفہوم ہوتے ہیں ۔ لہذا نسخ الکتاب یعنی کتاب اللہ کے منسوخ ہونے سے ایک حکم نازل کرنا مراد ہوتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ ما نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِها نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْها[ البقرة 106] ہم جس آیت کو منسوخ کردیتے ہیں یا اسے فراموش کردیتے ہیں ۔ تو اس سے بہتر یا ویسی ہی اور آیت بھیج دیتے ہیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے نسخ اور انساء کے معنی اس پر عمل سے منع کرنے یا لوگوں کے دلوں سے فراموش کردینے کے لئے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ یہ نسخت الکتاب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی کتاب کو نقل کرنے کے ہیں اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ جو آیت بھی ہم نازل کرتے ہیں یا اس کے نزدل کو ایک وقت تک کے لئے ملتوی رکھتے ہیں تو اس سے بہتر یاویسی ہی اور آیت بھیج دیتے ہیں ۔ نسخ الکتاب کے معنی کتاب کی کاپی کرنے کے ہیں یہ پہلی صورت کے ازالہ کو مقتضی نہیں ہے بلکہ کسی دوسرے مادہ ہیں اس جیسی دوسری صؤرت کے اثبات کو چاہتا ہے جیسا کہ بہت سے شمعوں میں انگوٹھی کا نقض بنا دیا جاتا ہے ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- نسی - النِّسْيَانُ : تَرْكُ الإنسانِ ضبطَ ما استودِعَ ، إمَّا لضَعْفِ قلبِهِ ، وإمَّا عن غفْلةٍ ، وإمَّا عن قصْدٍ حتی يَنْحَذِفَ عن القلبِ ذِكْرُهُ ، يقال : نَسِيتُهُ نِسْيَاناً. قال تعالی: وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] ، فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة 14] ، فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف 63] ، لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف 73] ، فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة 14] ، ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر 8] ، سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی 6] إِخبارٌ وضَمَانٌ من اللهِ تعالیٰ أنه يجعله بحیث لا يَنْسَى ما يسمعه من الحقّ ، وكلّ نسْيانٍ من الإنسان ذَمَّه اللهُ تعالیٰ به فهو ما کان أصلُه عن تعمُّدٍ. وما عُذِرَ فيه نحو ما رُوِيَ عن النبيِّ صلَّى اللَّه عليه وسلم : «رُفِعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأُ وَالنِّسْيَانُ» فهو ما لم يكنْ سَبَبُهُ منه . وقوله تعالی: فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة 14] هو ما کان سببُهُ عن تَعَمُّدٍ منهم، وترْكُهُ علی طریقِ الإِهَانةِ ، وإذا نُسِبَ ذلك إلى اللہ فهو تَرْكُهُ إيّاهم استِهَانَةً بهم، ومُجازاة لِما ترکوه . قال تعالی: فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف 51] ، نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة 67] وقوله : وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر 19] فتنبيه أن الإنسان بمعرفته بنفسه يعرف اللَّهَ ، فنسیانُهُ لله هو من نسیانه نَفْسَهُ. وقوله تعالی: وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف 24] . قال ابن عباس : إذا قلتَ شيئا ولم تقل إن شاء اللَّه فَقُلْهُ إذا تذكَّرْتَه «2» ، وبهذا أجاز الاستثناءَ بعد مُدَّة، قال عکرمة «3» : معنی «نَسِيتَ» : ارْتَكَبْتَ ذَنْباً ، ومعناه، اذْكُرِ اللهَ إذا أردتَ وقصدتَ ارتکابَ ذَنْبٍ يكنْ ذلک دافعاً لك، فالنِّسْيُ أصله ما يُنْسَى کالنِّقْضِ لما يُنْقَض، - ( ن س ی ) النسیان - یہ سنیتہ نسیانا کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کو ضبط میں نہ رکھنے کے ہیں خواہ یہ ترک ضبط ضعف قلب کی وجہ سے ہو یا ازارہ غفلت ہو یا قصدا کسی چیز کی یاد بھلا دی جائے حتیٰ کہ وہ دل سے محو ہوجائے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] ہم نے پہلے آدم (علیہ السلام) سے عہد لیا تھا مگر وہ اسے بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف 63] تو میں مچھلی وہیں بھول گیا ۔ اور مجھے آپ سے اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف 73] کہ جو بھول مجھ سے ہوئی اس پر مواخذاہ نہ کیجئے فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة 14] مگر انہوں نے بھی اس نصیحت کا جوان کو کی گئی تھی ایک حصہ فراموش کردیا ۔ ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر 8] پھر جب وہ اس کو اپنی طرف سے کوئی نعمت دے دیتا ہے تو جس کام کے لئے پہلے اس کو پکارتا ہے اسے بھول جاتا ہے اور آیت سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی 6] ہم تمہیں پڑھائیں گے کہ تم فراموش نہ کرو گے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے ایسا بنادے گا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سنو گے اسے بھولنے نہیں پاؤ گے پھر ہر وہ نسیان جو انسان کے قصد اور ارداہ سے ہو وہ مذموم ہے اور جو بغیر قصد اور ارادہ کے ہو اس میں انسان معزور ہے اور حدیث میں جو مروی ہے رفع عن امتی الخطاء والنیان کہ میری امت کو خطا اور نسیان معاف ہے تو اس سے یہی دوسری قسم کا نسیان مراد ہے یعنیوی جس میں انسان کے ارادہ کو دخل نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ میں نسیان بمعنی اول ہے یعنی وہ جس میں انسان کے قصد اور ارادہ کو دخل ہو اور کسی چیز کو حقیر سمجھ کرا سے چھوڑ دیا جائے ۔ پھر جب نسیان کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس سے ازراہ اہانث انسان کو چھوڑ ینے اور احکام الہیٰ کے ترک کرنے کی وجہ سے اسے سزا دینے کے معنی مراد ہوتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف 51] تو جس طرح یہ لوگ اس دن کے آنے کو بھولے ہوئے تھے اس طرح آج ہم بھی انہیں بھلا دیں گے ۔ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة 67] انہوں نے خدا کو بھلا یا تو خدا نے بھی ان کو بھلا دیا ۔ وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر 19] اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے انہیں ایسا کردیا کہ خود اپنے تئیں بھول گئے ۔ میں متنبہ کیا ہے کہ انسان اپنے نفس کی معرفت حاصل کرنے سے ہی معرفت الہیٰ حاصل کرسکتا ہے لہذا انسان کا اللہ تعالیٰ کو بھلا دینا خود اپنے آپکو بھال دینے کے مترادف ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف 24] اور جب خدا کا نام لینا بھال جاؤ تو یاد آنے پر لے لو ۔ کے ابن عباس نے یہ معنی کئے ہیں کہ جب تم کوئی بات کہو اور اس کے ساتھ انشاء اللہ کہنا بھول جاؤ تو یاد آنے پر انشاء اللہ کہہ لیا کرو ۔ اسی لئے ابن عباس کے نزدیک حلف میں کچھ مدت کے بعد بھی انشاء اللہ کہنا جائز ہے اور عکرمہ نے کہا ہے کہ نسیت بمعنی ارتکبت ذنبا کے ہے ۔ اور آیت کے معنی یہ ہیں ۔ کہ جب تمہیں کسی گناہ کے ارتکاب کا خیال آئے تو اس وسوسہ کو دفع کرنے کے لئے خدا کے ذکر میں مشغول ہوجایا کرو تاکہ وہ وسوسہ دفع ہوجائے ۔ النسی کے اصل معنی ماینسیٰ یعنی فراموش شدہ چیز کے ہیں جیسے نقض بمعنی ماینقض آتا ہے ۔ مگر عرف میں نسی اس معمولی چیز کو کہتے ہیں جو در خود اعتناء نہ سمجھی جائے - أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعرأتيت المروءة من بابها فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم 27] . يقال : أتيته وأتوته ويقال للسقاء إذا مخض وجاء زبده : قد جاء أتوه، وتحقیقه : جاء ما من شأنه أن يأتي منه، فهو مصدر في معنی الفاعل . وهذه أرض کثيرة الإتاء أي : الرّيع، وقوله تعالی: مَأْتِيًّا[ مریم 61] مفعول من أتيته . قال بعضهم معناه : آتیا، فجعل المفعول فاعلًا، ولیس کذلک بل يقال : أتيت الأمر وأتاني الأمر، ويقال : أتيته بکذا وآتیته كذا . قال تعالی: وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء 54] .[ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . والإِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247] .- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو أَتَى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت وَجَاءَ رَبُّكَ [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) " اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ ارض کثیرۃ الاباء ۔ زرخیز زمین جس میں بکثرت پیداوار ہو اور آیت کریمہ : إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيًّا [ مریم : 61] بیشک اس کا وعدہ آیا ہوا ہے ) میں ماتیا ( فعل ) اتیتہ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے بعض علماء کا خیال ہے کہ یہاں ماتیا بمعنی آتیا ہے ( یعنی مفعول بمعنی فاعل ) ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ محاورہ میں اتیت الامر واتانی الامر دونوں طرح بولا جاتا ہے اتیتہ بکذا واتیتہ کذا ۔ کے معنی کوئی چیز لانا یا دینا کے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ مُلْكًا عَظِيمًا [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- مثل - والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] .- ( م ث ل ) مثل ( ک )- المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔- الف ( ا)- الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع :- نوع في صدر الکلام .- ونوع في وسطه .- ونوع في آخره .- فالذي في صدر الکلام أضرب :- الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية .- فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] .- والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم .- وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة :- 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر 37] .- الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو :- أسمع وأبصر .- الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم 11] ونحوهما .- الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو :- العالمین .- الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد .- والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين .- والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو :- اذهبا .- والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ .- ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1) أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَلَسْتُ بِرَبِّكُم [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ أَوَلَا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں " کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا الْعَالَمِينَ [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ اذْهَبَا [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب : 10] فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف " اشباع پڑھاد یتے ہیں )- «لَمْ»- وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی 6]- ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - شيء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم .- ( ش ی ء ) الشئی - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،- قَدِيرُ :- هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] .- القدیر - اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔
سنت کے ذریعے قرآن کے نسخ اور وجوہ نسخ کا بیان - ارشاد باری ہے : ماننسخ من ایۃ او ننسھا نات بخیر منھا او مثلھا۔ (ہم اپنی جس آیت کو منسوخ کردیتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں اس کی جگہ اس سے بہتر لاتے ہیں یا کم از کم ویسی ہی) کچھ حضرات کا قول ہے کہ نسخ ازالہ کو کہتے ہیں اور کچھ دیگر حضرات نسخ کو ابدال (بدل دینے) کا نام دیتے ہیں۔ ارشاد باری ہے : فینسخ اللہ ما ینقی الشیطان (اللہ تعالیٰ اس چیز کو منسوخ کردیتا ہے جس کا شیطان القا کرتا ہے) یعنی اسے زائل اور باطل کر کے اس کی جگہ آیات محکمات نازل کردیتا ہے۔ ایک قول کے مطابق نسخ نقل کو کہتے ہیں اور سا کی بنیاد یہ قول باری ہے : انا کنا نستنسخ ما کنتم تعملون (تم جو کچھ بھی کرتے رہتے تھے ہم سب لکھواتے یعنی نقل کراتے جاتے تھے۔ )- مذکورہ بالا اختلاف اصل لغت میں اس لفظ کے معنی موضوع لہ کے بارے میں ہے۔ لغت میں اس لفظ کے جو بھی معنی ہوں، اطلاق شرع میں اس کے معنی حکم اور تلاوت کی مدت کے بیان کئے گئے ہیں نسخ کبھی تلاوت کے اندر ہوتا ہے اور حکم باقی رہتا ہے اور کبھی حکم کے اندر ہوتا ہے اور تلاوت باقی رہتی ہے نسخ کی صرف یہی دو صورتیں ہیں۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ غیر فقیہ قسم کے بعض متاخرین کا خیال ہے کہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت میں کوئی نسخ نہیں ہے، نیز یہ کہ ہمارے شریعت میں نسخ کی جن صورتوں کا ذکر ہے ان سے انبیائے متقدمین کی شرائط کا نسخ مراد ہے۔ مثلاً سبت اور مشرق و مغرب کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا وغیرہ۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آخری نبی ہیں اور آپ کی لائی ہوئی شریعت قیامت تک باقی رہنے والی شریعت ہے۔ ان صاحب کو اگرچہ فصاحت و بلاغت نیز علم لغت کا وافر حصہ عطا ہوا تھا لیکن علم فقہ اور اس کے نصول سے انہیں کوئی حصہ نصیب نہیں ہوا تھا۔ یہ صاحب سلیم الاعتقاد تھے اور ان کی ظاہری حالت کے سوا ان کے بارے میں کسی اور طرح کا گمان نہیں کیا جاسکتا، لیکن یہ اپنا مذکورہ بالا قول بیان کر کے توفیق سے دور چلے گئے ہیں۔ کیونکہ ان سے پہلے کسی نے بھی اس قول کا اظہار نہیں کیا، بلکہ امت کے سلف اور خلف نے اللہ کے دین اور اس کی شریعت سے بہت سے احکام کے نسخ کا مفہوم اخذ کیا ہے اور انہوں نے ہم تک اسے ایسی صورت میں نقل کردیا ہے جس میں انہیں کوئی شک نہیں ہے اور نہ وہ اس میں تاویل ہی کو جائز سمجھتے ہیں جس طرح امت نے یہ سمجھا ہے کہ قرآن میں عام، خاص، محکم اور متشابہ کا وجود ہے۔ اس لئے قرآن اور سنت میں نسخ کی بات رد کرنے والا قرآن کے خاص، عام، محکم اور متشابہ کو رد کرنے والے کی طرح ہوگا۔ اس بارے میں تمام اقوال کا ورود اور ان کی نقل یکساں طریقے سے ہوئی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ان صاحب نے ناسخ و منسوخ آیات اور ان کے احکام کے سلسلے میں ایسے اقدامات کا ارتکاب کیا ہے جن کی وجہ سے ان کا یہ قول امت کے اقوال کے دائرے سے خارج ہوگیا ہے اور اس کے ساتھ ان صاحب کو معانی کے بیان میں تعسف اور زبردستی کا مظاہرہ کرنا پڑا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے یہ قول کس بنا پر اختیار کیا ہے غالب گمان یہ ہے کہ انہوں نے اس بارے میں ناقلین کی نقل کے متعلق اپنی کم علمی کی بنا پر یہ مسلک اپنایا ہے حالانکہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ :” جو شخص قرآن میں اپنی رائے سے کچھ کہے اور درست کہے تو بھی وہ خط اکار ہے۔ “ اللہ تعالیٰ ہمیں اور انہیں معاف کرے۔ ہم نے اصول فقہ کے اندر نسخ کی صورتوں پر نیز ان کے جواز اور عدم جواز پر سیر حاصل بحث کی ہے اور اس کے کسی پہلو کو بھی تشنہ نہیں چھوڑا ہے۔- قول باری : اوننسھا کی تفسیر میں ایک قول ہے کہ یہ نسیان سے ہے اور دوسری قرأت ” ننساھا “ جو تاخیر سے ماخوذ ہے کہا جاتا ہے ” نسات الثی “ (میں نے یہ کام مئوخر کردیا) ” نسیئہ “ اس دین اور قرض کو کہتے ہیں جس کی ادائیگی مئوخر کردی جائے۔ اسی سے یہ قول باری ہے : انما النسئی زیادۃ فی الکفر (نسی تو کفر میں ایک مزید کافرانہ حرکت ہے) یعنی سال کے مہینوں کو آگے پیچھے کردینا۔ اگر آیت میں مذکورہ زیر بحث لفظ سے نسیان مراد ہے تو پھر مفہوم یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ان سے تلاوت کو بھلا دیتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ اس کی قرأت نہیں کرسکتے۔ اس کی دو میں سے ایک صورت ہوتی یا تو انہیں حکم دیا جاتا کہ وہ اس کی تلاوت ترک کردیں اور پھر وہ اسے چند دنوں کے اندر بھلا دیتے یا یہ کہ اس حکم کے تحت اسے اچانک بھلا دیتے اور ان کے ذہنوں سے اسے رفع کرلیا جاتا۔ اس طرح یہ امر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معجزہ بن جاتا۔ اگر زیر بحث آیت کی قرأت : اوننساھا ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مذکورہ آیت کو موخر کر کے اسے نازل نہیں کرتا ہے، بلکہ اس کی جگہ ایسی آیت نازل کردیتا ہے جو مصلحت کے اعتبار سے مئوخر شدہ آیت کے قائم مقام دین جاتی ہے یا بندوں کے لئے زیادہ مناسب ہوتی ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ اللہ تعالیٰ اس آیت کے انزال کو آنے والے وقت کے لئے موخر کردیتا ہے اور اگر وہ اسے مقدم وقت میں نازل کر بھی دے تو اس کے بدل کے طور پر کوئی اور آیت آ جاتی ہے جو مصلحت کے اعتبار سے نازل شدہ آیت کی قائمقام بن جاتی ہے۔- قول باری : نات بخیر منھا او مثلھا کی تفسیر کے سلسلے میں حضرت ابن عباس اور قتادہ سے مروی ہے کہ ہم ایسی آیت لاتے ہیں جو تسہیل اور تیسیر کے اعتبار سے تمہارے لئے بہتر ہوتی ہے۔ مثلاً پہلے حکم ہوا کہ جنگ کے اندر ایک مسلمان دس کافروں کے مقابل ی سے منہ نہ موڑے اور پھر فرمایا : الان خفف اللہ عنکم (اب اللہ نے تمہارا بوجھ ہلکا کردیا) یا ہم ایسی آیت لاتے ہیں جو پہلی آیت کی مثل ہوتی ہے۔ مثلاً پہلے بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا اور پھر حکم ہوا کہ نماز میں کعبہ کی طرف رخ کیا جائے۔- حسن بصری سے زیر بحث آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ ہم ایسی آیت لاتے ہیں جو فی الوقت بھلائی کی کثرت کے اعتبار سے پہلی آیت سے بہتر یا اس کی مثل ہوتی ہے اس طرح تمام حضرات کے اتفاق سے یہ نتیجہ نکلا کہ زیر بحث آیت سے مراد یہ ہے کہ ایسی آیت آتی ہے جو تمہارے لئے تخفیف یا مصلحت کے اعتبار سے بہتر ہوتی ہے۔ سلف میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ آنے اولی آیت تلاوت کے اندر پہلی آیت سے بہتر ہوتی ہے، کیونکہ یہ کہنا جائز ہی نہیں ہے کہ قرآن کا کوئی حصہ کسی دوسرے حصے سے تلاوت اور نظم کے اعتبار سے بہتر ہے، اس لئے کہ سارا قرآن اللہ کا معجز کلام ہے۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ بعض لوگوں نے سنت کے ذریعے قرآن کے نسخ کے جواز کے امتناع پر استدلال کیا ہے کہ سنت خواہ جیسی بھی ہو قرآن سے بہتر نہیں ہوسکتی، لیکن یہ قول کئی وجوہ سے قائل کے اغفال پر مبنی ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ یہ مراد لینا جائز ہی نہیں ہے کہ ناسخ آیت تلاوت اور نظم کے اندر منسوخ شدہ آیت سے بہتر ہوتی ہے اس لئے کہ اعجاز نظم کے اندر ناسخ اور منسوخ دونوں آیتیں یکساں حیثیت کی حامل ہوتی ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ سلف کا اس پر اتفاق ہے کہ نسخ کے سلسلے میں نظر قرآنی مراد نہیں ہے کیونکہ اس بارے میں سلف کا قول یا تو تخفیف کے معنوں پر محمول ہے یا مصلحت کے معنوں پر اور یہ چیز کبھی سنت کے ذریعے اس طرح عمل میں آتی ہے جس طرح یہ قرآن کے ذریعے وجود میں آتی ہے۔ ان حضرات میں سے کسی نے نہیں کہا کہ اس سے تلاوت مراد ہے۔ اس بنا پر زیر بحث آیت کی سنت کے ذریعے قرآن کے نسخ پر دلالت اس کے جواز کے امتناع پر دلالت کی بہ نسبت زیادہ واضح ہے۔ نیز اس دلالت کی حقیقت صرف تلاوت کے نسخ کی مقتضی ہے۔ آیت کے اندر مذکورہ حکم کے نسخ کی نہیں۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(ما ننسخ من ایۃ الخ) اور آیت تلاوت کا اسم ہے اور نسخ تلاوت نسخ حکم کا موجب نہیں ہے اور جب بات اس طرح ہے تو پھر مذکورہ آیت سے یہ معنی اخذ کرنا جائز ہے کہ ” ہم جس آیت کی تلاوت منسوخ کردیتے یا اسے بھلا دیتے ہیں، تو ہم تمہارے لئے محکم سنت یا کسی اور چیز کی صورت میں اس سے بہتر بات لے آتے ہیں۔ “ اس مسئلے پر ہم نے اصول فقہ کے اندر سیر حاصل بحث کی ہے۔ “ شائقین میں سے جو حضرات پسند کریں یہ ہماری اس مذکورہ کتاب میں دیکھ لیں۔
(١٠٦) اب اللہ تعالیٰ ان احکام کی حکمت بیان فرماتے ہیں جو قرآن کریم میں منسوخ کردیے گئے ہیں اور جو منسوخ نہیں کیے گئے۔- قریش کہتے تھے اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کسی بات کے کرنے کا ہمیں حکم دیتے ہیں اور پھر خود ہی اس سے منع بھی کردیتے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہم بس ایسے حکم کو کہ جس پر عمل ہوچکا ہے اسے تبدیل کرتے ہیں کہ پھر اس پر عمل نہ کیا جائے یا اس آیت ہی کو مٹا دیتے ہیں مگر اس پر عمل منسوخ نہیں ہوتا تو پھر ہم منسوخ شدہ سے زیادہ فائدہ مند اور عمل میں زیادہ آسان یا ثواب نفع اور عمل میں اسی جیسی جبرئیل امین (علیہ السلام) کے ذریعے سے دوسری آیت اتار دیتے ہیں، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ ناسخ ومنسوخ میں سے ہر ایک چیز پر قدرت رکھنے والے ہیں۔- شان نزول : (آیت) ” ماننسخ من ایۃ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) نے عکرمہ (رح) کے حوالہ سے حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ بعض اوقات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر رات کو وحی آتی ہے اور دن میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو بھول جاتے تھے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ہم کسی آیت کا حکم جو موقوف کردیتے ہیں الخ۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
آیت ١٠٦ (مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِہَا) - ایک تو ہے نسخ یعنی کسی آیت کو منسوخ کردینا اور ایک ہے حافظے سے ہی کسی شے کو محو کردینا۔ - (نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْہَا اَوْ مِثْلِہَا ط) - (اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ) اسے ہر شے کا اختیار حاصل ہے۔- اس آیت کا اصل مفہوم اور پس منظر سمجھ لیجیے۔ آپ کو معلوم ہے کہ اللہ کا دین آدم ( علیہ السلام) سے لے کر ایں دم تک ایک ہی ہے۔ نوح (علیہ السلام) کا دین ‘ موسیٰ (علیہ السلام) کا دین ‘ عیسیٰ ( علیہ السلام) کا دین اورٌ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دین ایک ہی ہے ‘ جبکہ شریعتوں میں فرق رہا ہے۔ اس فرق کا اصل سبب یہ ہے کہ نوع انسانی مختلف اعتبارات سے ارتقاء کے مراحل طے کر رہی تھی۔ ذہنی پختگی ‘ شعور کی پختگی اور پھر تمدنی ارتقاء ( ) مسلسل جاری تھا۔ لہٰذا اس ارتقاء کے جس مرحلے میں رسول آئے اسی کی مناسبت سے ان کو تعلیمات دے دی گئیں۔ ان تعلیمات کے کچھ حصے ایسے تھے جو ابدی ( ) ہیں ‘ وہ ہمیشہ رہیں گے ‘ جبکہ کچھ حصے زمانے کی مناسبت سے تھے۔ چناچہ جب اگلا رسول آتا تو ان میں سے کچھ چیزوں میں تغیر و تبدلّ ہوجاتا ‘ کچھ چیزیں نئی آ جاتیں اور کچھ پرانی ساقط ہوجاتیں۔ یہ معاملہ نسخ کہلاتا ہے۔ یا تو اللہ تعالیٰ تعینّ کے ساتھ کسی حکم کو منسوخ فرما دیتے ہیں اور اس کی جگہ نیا حکم بھیج دیتے ہیں ‘ یا کسی شے کو سرے َ سے لوگوں کے ذہنوں سے خارج کردیتے ہیں۔ یہودی یہ اعتراض کر رہے تھے کہ اگر یہ دین وہی ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کا تھا تو پھر شریعت پوری وہی ہونی چاہیے۔ یہاں اس اعتراض کا جواب دیا جا رہا ہے۔ - پھر ناسخ و منسوخ کا مسئلہ قرآن میں بھی ہے۔ قرآن میں بھی تدریج کے ساتھ شریعت کی تکمیل ہوئی ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا تھا ‘ شریعت کا ابتدائی خاکہ ( ) سورة البقرۃ میں مل جاتا ہے ‘ لیکن شریعت کی تکمیل سورة المائدۃ میں ہوئی ہے۔ یہ جو تقریباً پانچ چھ سال کا عرصہ ہے اس میں کچھ احکام دیے گئے ‘ پھر ان میں ردّ و بدل کر کے نئے احکام دیے گئے اور پھر آخر میں یہ ارشاد فرمادیا گیا : (اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط) (المائدۃ : ٣) آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو بحیثیت دین پسند کرلیا ہے۔ تو یہ ناسخ و منسوخ کا مسئلہ صرف سابقہ شریعتوں اور شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مابین ہی نہیں ہے ‘ بلکہ خود شریعت محمدی (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) میں بھی زمانی اعتبار سے ارتقاء ہوا ہے۔ مثال کے طور پر پہلے شراب کے بارے میں حکم دیا گیا کہ اس میں گناہ کا پہلو زیادہ ہے ‘ اگرچہ کچھ فائدے بھی ہیں۔ اس کے بعد حکم آیا کہ اگر شراب کے نشے میں ہو تو نماز کے قریب مت جاؤ۔ پھر سورة المائدۃ میں آخری حکم آگیا اور اسے گندا شیطانی کام قرار دے کر فرمایا گیا : (فَھَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَھُوْنَ ) تو کیا اب بھی باز آتے ہو یا نہیں ؟ اس طرح تدریجاً احکام آئے اور آخری حکم میں شراب حرام کردی گئی۔ یہاں فرمایا کہ اگر ہم کسی حکم کو منسوخ کرتے ہیں یا اسے بھلا دیتے ہیں تو اس سے بہتر لے آتے ہیں یا کم از کم اس جیسا دوسرا حکم لے آتے ہیں۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے ‘ اس کا اختیار کامل ہے ‘ وہ مالک الملک ہے ‘ دین اس کا ہے ‘ اس میں وہ جس طرح چاہے تبدیلی کرسکتا ہے۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :109 یہ ایک خاص شُبہہ کا جواب ہے جو یہُودی مسلمانوں کے دلوں میں ڈالنے کی کوشش کرتے تھے ۔ ان کا اعتراض یہ تھا کہ اگر پچھلی کتابیں بھی خدا کی طرف سے آئی تھیں اور یہ قرآن بھی خدا کی طرف سے ہے ، تو ان کے بعض احکام کی جگہ اس میں دُوسرے احکام کیوں دیے گئے ہیں؟ ایک ہی خدا کی مختلف وقتوں میں مختلف احکام کیسے ہو سکتے ہیں ؟ پھر تمہارا قرآن یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہُودی اور عیسائی اس تعلیم کے ایک حصّے کو بھُول گئے جو انہیں دی گئی تھی ۔ آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خدا کی دی ہوئی تعلیم اور وہ حافظوں سے محو ہو جائے؟ یہ ساری باتیں وہ تحقیق کی خاطر نہیں ، بلکہ اس لیے کرتے تھے کہ مسلمانوں کو قرآن کے مِن جانب اللہ ہونے میں شک ہو جائے ۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں مالک ہوں ، میرے اختیارات غیر محدُود ہیں ، اپنے جس حکم کو چاہوں منسُوخ کر دوں اور جس چیز کو چاہوں ، حافظوں سے محو کر دوں ۔ مگر جس چیز کو میں منسُوخ کرتا ہوں ، اس سے بہتر چیز اس کی جگہ پر لاتا ہوں ، یا کم از کم وہ اپنے محل میں اتنی ہی مفید اور مناسب ہوتی ہے جتنی پہلی چیز اپنے محل میں تھی ۔
71: اللہ تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ وہ محتلف زمانوں کے حالات کی مناسبت سے شریعت کے فروعی احکام میں تبدیلی فرماتے رہے ہیں، اگرچہ دین کے بنیادی عقائد مثلاً توحید رسالت آخرت وغیرہ ہر دور میں ایک رہے ہیں لیکن جو عملی احکام حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دئے گئے تھے، ان میں سے بعض حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دور میں تبدیل کردئے گئے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ان میں مزید تبدیلیاں واقع ہوئیں، اسی طرح جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شروع میں نبوت عطا ہوئی تو آپ کی دعوت کو مختلف مراحل سے گزرنا تھا، مسلمانوں کو طرح طرح کے مسائل درپیش تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے احکام میں تدریج اختیار فرمائی، کسی وقت ایک حکم دیا گیا بعد میں اس کی جگہ دوسرا حکم آگیا، جیسا کہ قبلے کی تعین میں احکام بدلے گئے، جن کی کچھ تفصیل آگے آیت ١١٥ میں آرہی ہے، فروعی احکام میں ان حکیمانہ تبدیلیوں کو اصطلاح میں‘‘ نسخ ’’ کہتے ہیں، یہودیوں نے بالخصوص اور دوسرے کافروں نے بالعموم اس پر یہ اعتراض اٹھایا کہ اگر یہ سارے احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں توان میں یہ تبدیلیاں کیوں ہورہی ہیں، یہ آیت کریمہ اس سوال کے جواب میں نازل ہوئی ہے، جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے مطابق بدلتے ہوئے حالات میں یہ تبدیلیاں کرتے ہیں اور جو حکم بھی منسوخ کیا جاتا ہے اس کی جگہ ایسا حکم لایاجاتا ہے جو بدلے ہوئے حالات میں زیادہ مناسب اور بہتر ہوتا ہے یا کم از کم اتنا ہی بہتر ہوتا ہے جتنا بہتر پہلا حکم تھا۔