ف 1 فساد، اصلاح کی ضد ہے۔ کفر و معصیت سے زمین میں فساد پھیلاتا ہے اور اطاعت الٰہی سے امن و سکون ملتا ہے۔ ہر دور کے منافقین کا کردار یہی رہا ہے کہ پھیلاتے وہ فساد ہیں اشاعت وہ منکرات کی کرتے ہیں اور پامال حدود الٰہی کو کرتے ہیں اور سمجھتے اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ اصلاح اور ترقی کے لئے کوشاں ہیں۔
[١٨] یعنی اس لگائی بجھائی اور ان کی حرکات و سکنات سے کافروں کا بھی ان سے اعتماد اٹھ جائے گا اور ان کی حیثیت دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا کے مصداق ہوجائے گی تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ ان کے اعمال سراسر فتنہ و فساد پر مشتمل تھے۔
اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰكِنْ لَّا يَشْعُرُوْنَ ١٢- «أَلَا»«إِلَّا»هؤلاء - «أَلَا» للاستفتاح، و «إِلَّا» للاستثناء، وأُولَاءِ في قوله تعالی: ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران 119] وقوله : أولئك : اسم مبهم موضوع للإشارة إلى جمع المذکر والمؤنث، ولا واحد له من لفظه، وقد يقصر نحو قول الأعشی: هؤلا ثم هؤلا کلّا أع طيت نوالا محذوّة بمثال - الا) الا یہ حرف استفتاح ہے ( یعنی کلام کے ابتداء میں تنبیہ کے لئے آتا ہے ) ( الا) الا یہ حرف استثناء ہے اولاء ( اولا) یہ اسم مبہم ہے جو جمع مذکر و مؤنث کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس کا مفرد من لفظہ نہیں آتا ( کبھی اس کے شروع ۔ میں ھا تنبیہ بھی آجاتا ہے ) قرآن میں ہے :۔ هَا أَنْتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ ( سورة آل عمران 119) دیکھو تم ایسے لوگ ہو کچھ ان سے دوستی رکھتے ہواولائک علیٰ ھدی (2 ۔ 5) یہی لوگ ہدایت پر ہیں اور کبھی اس میں تصرف ( یعنی بحذف ہمزہ آخر ) بھی کرلیا جاتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع (22) ھؤلا ثم ھؤلاء کلا اعطیتہ ت نوالا محذوۃ بمشال ( ان سب لوگوں کو میں نے بڑے بڑے گرانقدر عطیئے دیئے ہیں - فسد - الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] ، - ( ف س د ) الفساد - یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔- شعور - الحواسّ ، وقوله : وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات 2] ، ونحو ذلك، معناه : لا تدرکونه بالحواسّ ، ولو في كثير ممّا جاء فيه لا يَشْعُرُونَ : لا يعقلون، لم يكن يجوز، إذ کان کثير ممّا لا يكون محسوسا قد يكون معقولا .- شعور - حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے ۔
(١٢) جان لو یہی رکاوٹ ڈالنے والے ہیں، لیکن ان کے ضعیف لوگ نہیں سمجھتے کہ ان کے سردار ہی انکو گمراہ کررہے ہیں۔
آیت ١٢ ( اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰکِنْ لاَّ یَشْعُرُوْنَ ) - یہی تو ہیں جو فساد پھیلانے والے ہیں۔ اس لیے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت تو زمین میں اصلاح کے لیے ہے۔ اس اصلاح کے لیے کچھ آپریشن کرنا پڑے گا۔ اس لیے کہ مریض اس درجے کو پہنچ چکا ہے کہ آپریشن کے بغیر اس کی شفا ممکن نہیں ہے۔ اب اگر تم اس آپریشن کے راستے میں رکاوٹ بنتے ہو تو درحقیقت تم فساد مچا رہے ہو ‘ لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں۔ آیت کے آخری الفاظ (وَلٰکِنْ لاَّ یَشْعُرُوْنَ ) سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ شعوری نفاق اور شے ہے ‘ جبکہ یہاں سارا تذکرہ غیر شعوری نفاق کا ہو رہا ہے۔