Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

خود فریبی کے شکار لوگ مطلب یہ ہے کہ جب ان منافقوں کو صحابہ کی طرح اللہ تعالیٰ پر ، اس کے فرشتوں ، کتابوں اور رسولوں صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے ، موت کے بعد جی اٹھنے ، جنت دوزخ کی حقانیت کے تسلیم کرنے ، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کر کے نیک اعمال بجا لانے اور برائیوں سے رکے رہنے کو کہا جاتا ہے تو یہ فرقہ ایسے ایمان والوں کو بےوقوف قرار دیتا ہے ۔ ابن عباس ، ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ ، ربیع ، انس ، عبدالرحمن بن زید بن اسلم وغیرہ نے یہی تفسیر بیان کی ہے ۔ سفھاء سفیہ کی جمع ہے جیسے حکماء حکیم کی اور حلماء حلیم کی ۔ جاہل ، کم عقل اور نفع نقصان کے پوری طرح نہ جاننے والے کو سفیہ کہتے ہیں ۔ قرآن میں اور جگہ ہے آیت ( وَلَا تُؤْتُوا السُّفَھَاۗءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِىْ جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ قِيٰـمًا وَّارْزُقُوْھُمْ فِيْھَا وَاكْسُوْھُمْ وَقُوْلُوْا لَھُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا ) 4 ۔ النسآء:5 ) بیوقوفوں کو اپنے وہ مال نہ دے بیٹھو جو تمہارے قیام کا سبب ہیں ۔ عام مفسرین کا قول ہے کہ اس آیت میں سفہاء سے مراد عورتیں اور بچے ہیں ۔ ان منافقین کے جواب میں یہاں بھی خود پروردگار عالم نے جواب دیا اور تاکیداً حصر کے ساتھ فرمایا کہ بیوقوف تو یہی ہیں لیکن ساتھ ہی جاہل بھی ایسے ہیں کہ اپنی بیوقوفی کو جان بھی نہیں سکتے ۔ نہ اپنی جہالت و ضلالت کو سمجھ سکتے ہیں ، اس سے زیادہ ان کی برائی اور کمال اندھا پن اور ہدایت سے دوری اور کیا ہو گی؟

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

ف 1 ان منافقین نے ان صحابہ کو بیوقوف کہا جنہوں نے اللہ کی راہ میں جان و مال کی کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا اور آج کے منافقین یہ باور کراتے ہیں کہ نعوذ باللہ صحابہ کرام دولت ایمان سے محروم تھے اللہ تعالیٰ نے جدید و قدیم دونوں منافقین کی تردید فرمائی۔ فرمایا کسی اعلے ٰ تر مقصد کے لئے دینوی مفادات کو قربان کردینا بےوقوفی نہیں، عین عقلمندی اور سعادت ہے۔ صحابہ کرام نے اسی سعادت مندی کا ثبوت مہیا کیا۔ اس لئے وہ پکے مومن ہی نہیں بلکہ ایمان کے لئے ایک معیار اور کسوٹی ہیں، اب ایمان انہی کا معتبر ہوگا جو صحابہ کرام کی طرح ایمان لائیں گے (فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا) 002:137 ف 2 ظاہر بات ہے کہ (فوری فائدے) کے لئے (دیر سے ملنے والے فائدے) کو نظر انداز کردینا اور آخرت کی پائیدار اور دائمی زندگی کے مقابلے میں دنیا کی فانی زندگی کو ترجیح دینا اور اللہ کی بجائے لوگوں سے ڈرنا پرلے درجے کی سفاہت ہے جس کا ارتکاب ان منافقین نے کیا۔ یوں ایک مسلمہ حقیقت سے بےعلم رہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٩] اس آیت میں الناس سے مراد سچے مومن ہیں، یعنی مہاجرین و انصار وغیرہ اور منافق انہیں احمق اس لیے کہتے تھے کہ یہ سچے مومن تھے۔ منافقوں کی طرح مفاد پرست نہیں تھے بلکہ دین کی خاطر کٹھن سے کٹھن حالات کا مقابلہ کرنے حتیٰ کہ جان تک دینے کو بھی تیار رہتے تھے۔- [٢٠] یعنی وہ یہ نہیں جانتے کہ دین و ایمان اور اصولوں پر وقتی اور دنیوی مفادات کو ترجیح دینا ہی سب سے بڑی حماقت ہے اور یہ وقتی مفادات کیا تھے ؟ وہ مسلمانوں کی طرف سے ان کے جان و مال کی حفاظت، مسلمانوں سے رشتے ناطے کرنا اور اگر جنگ میں شامل ہوں۔ خواہ ان کے دلی ارادے کیسے ہی ناپاک ہوں۔ فتح کی صورت میں انہیں اموال غنیمت سے حصہ مل جاتا تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

النَّاسُ “ سے مراد صحابہ کرام (رض) ہیں جو خلوص دل سے ایمان لائے اور ایک ہی طرف کے ہوگئے اور اپنے کسی دنیوی نقصان کی پروا نہ کی، منافقین نے انھیں بیوقوف کہا اور اپنے آپ کو عقل مند، کیونکہ اپنے خیال میں انھوں نے دونوں طرف سے فائدہ اٹھایا اور اپنی دنیا کا نقصان نہ ہونے دیا۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین ہی کو بیوقوف قرار دیا، کیونکہ ان کا نہ مسلمانوں کے ہاں کچھ اعتبار رہا نہ کفار کے ہاں اور وہ چند روزہ زندگی کے فائدے کے لیے ہمیشہ کی زندگی کا نقصان کر بیٹھے۔ فرمایا یہ ایسے بیوقوف ہیں جنھیں اپنی بےوقوفی کا بھی علم نہیں۔ - اس آیت سے صحابہ کرام (رض) کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ منافقین کو ان کے ایمان جیسا ایمان لانے کا حکم دیا گیا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

چھٹی آیت میں منافقین کے سامنے صحیح ایمان کا ایک معیار رکھا گیا کہ اٰمِنُوْا كَمَآ اٰمَنَ النَّاس یعنی ایمان لاؤ جیسے ایمان لائے اور لوگ، اس میں ناس سے مراد باتفاق مفسرین صحابہ کرام ہیں کیونکہ وہی حضرات ہیں جو نزول قرآن کے وقت ایمان لائے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک صرف وہی ایمان معتبر ہے جو صحابہ کرام کے ایمان کی طرح ہو جن چیزوں میں جس کیفیت کے ساتھ ان کا ایمان ہے اسی طرح کا ایمان دوسروں کا ہوگا تو ایمان لیا جائے گا، ورنہ نہیں اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کریم کا ایمان ایک کسوٹی ہے جس پر باقی ساری امت کے ایمان کو پرکھا جائے گا جو اس کسوٹی پر صحیح نہ ہو اس کو شرعا ایمان اور ایسا کرنے والے کو مومن نہ کہا جائے گا اس کے خلاف کوئی عقیدہ اور عمل خواہ ظاہر میں کتنا ہی اچھا نظر آئے اور کتنی ہی نیک نیتی سے کیا جائے اللہ کے نزدیک ایمان معتبر نہیں ان لوگوں نے صحابہ کرام کو سفہاء یعنی بیوقوف کہا اور یہی ہر زمانے کے گمراہوں کا طریقہ رہا ہے کہ جو ان کو صحیح راہ بتلائے اس کو جاہل قرار دیتے ہیں مگر قرآن کریم نے بتلا دیا کہ درحقیقت وہ خود ہی بیوقوف ہیں کہ ایسی کھلی نشانیوں پر ایمان نہیں رکھتے،- یہ تیرہ (١٣) آیتیں منافقین کے حال و مثال پر مشتمل ہیں ان میں بہت سے احکام و مسائل اور اہم ہدایات بھی ہیں، - (١) کیا کفر ونفاق عہد نبوی کے ساتھ مخصوص تھا یا اب بھی موجود ہیں ؟- اس معاملہ میں صحیح یہ ہے کہ منافق کے نفاق کو پہچاننا اور اس کو منافق قرار دینا دو طریقوں سے ہوتا تھا ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بذریعہ وحی بتلا دیا کہ فلاں شخص دل سے مسلمان نہیں منافق ہے دوسرے یہ کہ اس کے کسی قول و فعل سے کسی عقیدہ اسلام کے خلاف کوئی بات یا اسلام کی مخالفت کا کوئی عمل ظاہر اور ثابت ہوجائے،- آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد انقطاع وحی کے سبب ان کے پہچاننے کی پہلی صورت تو باقی نہ رہی مگر دوسری صورت اب بھی موجود ہے جس شخص کے کسی قول وفعل سے اسلامی قطعی عقائد کی مخالفت یا ان پر استہزاء یا تحریف ثابت ہوجائے مگر وہ اپنے ایمان واسلام کا مدعی بنے تو وہ منافق سمجھا جائے گا ایسے منافق کا نام قرآن کریم کی اصطلاح میں ملحد ہے، الَّذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِيْٓ اٰيٰتِنَا (٤: ٤١) اور حدیث میں اس کو زندیق کے نام سے موسوم کیا گیا ہے مگر چونکہ اس کا کفر دلیل سے ثابت اور واضح ہوگیا اس لئے اس کا حکم سب کفار جیسا ہوگیا الگ کوئی حکم اس کا نہیں ہے اسی لئے علماء امت نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد منافقین کا قضیہ ختم ہوگیا اب جو مومن نہیں وہ کافر کہلائے گا - حضرت امام مالک سے عمدہ شرح بخاری میں نقل کیا گیا ہے کہ زمانہ نبوت کے نفاق کی یہی صورت ہے جس کو پہچانا جاسکتا ہے اور ایسا کرنے والے کو منافق کہا جاسکتا ہے

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا كَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ كَمَآ اٰمَنَ السُّفَہَاۗءُ۝ ٠ ۭ اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ السُّفَہَاۗءُ وَلٰكِنْ لَّا يَعْلَمُوْنَ۝ ١٣- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - سفه - السَّفَهُ : خفّة في البدن، ومنه قيل : زمام سَفِيهٌ: كثير الاضطراب، وثوب سَفِيهٌ: ردیء النّسج، واستعمل في خفّة النّفس لنقصان العقل، وفي الأمور الدّنيويّة، والأخرويّة، فقیل : سَفِهَ نَفْسَهُ [ البقرة 130] ، وأصله سَفِهَتْ نفسه، فصرف عنه الفعل نحو : بَطِرَتْ مَعِيشَتَها [ القصص 58] ، قال في السَّفَهِ الدّنيويّ : وَلا تُؤْتُوا السُّفَهاءَ أَمْوالَكُمُ [ النساء 5] ، وقال في الأخرويّ : وَأَنَّهُ كانَ يَقُولُ سَفِيهُنا عَلَى اللَّهِ شَطَطاً [ الجن 4] ، فهذا من السّفه في الدّين، وقال : أَنُؤْمِنُ كَما آمَنَ السُّفَهاءُ أَلا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهاءُ [ البقرة 13] ، فنبّه أنهم هم السّفهاء في تسمية المؤمنین سفهاء، وعلی ذلک قوله : سَيَقُولُ السُّفَهاءُ مِنَ النَّاسِ ما وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كانُوا عَلَيْها [ البقرة 142] - ( س ف ہ ) السفۃ اس کے اصل معنی جسمانی ہلکا پن کے ہیں اسی سے بہت زیادہ مضطرب رہنے والی مہار کو زمام سفیہ کہا جاتا ہے اور ثوب سفیہ کے معنی ردی کپڑے کے ہیں ۔ پھر اسی سے یہ لفظ نقصان عقل کے سبب خفت نفس کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے سفہ نفسہ جو اصل میں سفہ نفسہ ہے پھر اس سے فعل کے نسبت قطع کر کے بطور تمیز کے اسے منصوب کردیا ہے جیسے بطرت معشیتہ کہ یہ اصل میں بطرت معیشتہ ہے ۔ اور سفہ کا استعمال امور دنیوی اور اخروی دونوں کے متعلق ہوتا ہے چناچہ امور دنیوی میں سفاہت کے متعلق فرمایا : ۔ وَلا تُؤْتُوا السُّفَهاءَ أَمْوالَكُمُ [ النساء 5] اور بےعقلوں کو ان کا مال ۔۔۔۔۔۔ مت دو ۔ اور سفاہت اخروی کے متعلق فرمایا : ۔ وَأَنَّهُ كانَ يَقُولُ سَفِيهُنا عَلَى اللَّهِ شَطَطاً [ الجن 4] اور یہ کہ ہم میں سے بعض بیوقوف خدا کے بارے میں جھوٹ افتراء کرتے ہیں ۔ یہاں سفاہت دینی مراد ہے جس کا تعلق آخرت سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ أَنُؤْمِنُ كَما آمَنَ السُّفَهاءُ أَلا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهاءُ [ البقرة 13] تو کہتے ہیں بھلا جس طرح بیوقوف ایمان لے آئے ہیں اسی طرح ہم بھی ایمان لے آئیں : ۔ میں ان سفیہ کہہ کر متنبہ کیا ہے کہ ان کا مؤمنین کو سفھآء کہنا بنا بر حماقت ہے اور خود ان کی نادانی کی دلیل ہے ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ سَيَقُولُ السُّفَهاءُ مِنَ النَّاسِ ما وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كانُوا عَلَيْها [ البقرة 142] احمق لوگ کہیں گے کہ مسلمان جس قبلہ پر ( پہلے چلے آتے تھے ) اب اس سے کیوں منہ پھیر بیٹھے ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٣) اور جب یہود سے کہا جاتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن پاک پر ایمان لاؤ جیسا حضرت عبد اللہ (رض) بن سلام اور ان کے ساتھ ایمان لائے ہیں، تو کہتے ہیں کہ ہم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن پاک پر اس طرح ایمان لائیں جیسا کہ بیوقوف اور ذلیل لوگ ایمان لائے ہیں، آگاہ رہو بالیقین یہی لوگ بیوقوف اور ذلیل ہیں لیکن اس بات کو سمجھتے نہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ (وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا کَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ ) آخر دیکھو ‘ یہ دوسرے اہل ایمان ہیں ‘ جب بلاوا آتا ہے تو فوراً لبیک کہتے ہوئے حاضر ہوتے ہیں ‘ جبکہ تم نے اور ہی روش اختیار کر رکھی ہے۔ - (قَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ کَمَآ اٰمَنَ السُّفَھَآءُ ط) منافقینّ سچے اہل ایمان کے بارے میں کہتے تھے کہ انہیں تو اپنے نفع کی فکر ہے نہ نقصان کی ‘ نہ خطرات کا کوئی خیال ہے نہ اندیشوں کا کوئی گمان۔ جان ‘ مال اور اولاد کی کوئی پروا نہیں۔ یہ گھر بار کو چھوڑ کر آگئے ہیں ‘ اپنے بال بچے کفار مکہ کے رحم و کرم پر چھوڑ آئے ہیں کہ سرداران قریش ان کے ساتھ جو چاہیں سلوک کریں ‘ تو یہ تو بیوقوف لوگ ہیں۔ (آج کل آپ ایسے لوگوں کو کہتے ہیں) بھئی دیکھ بھال کر چلنا چاہیے ‘ دائیں بائیں دیکھ کر چلنا چاہیے۔ اپنے نفع و نقصان کا خیال کر کے چلنا چاہیے۔ ٹھیک ہے ‘ اسلام دین حق ہے ‘ لیکن بہرحال اپنی اور اپنے اہل و عیال کی مصلحتوں کو بھی دیکھنا چاہیے۔ یہ لوگ تو معلوم ہوتا ہے بالکل دیوانے اور ہوگئے ہیں۔ - (اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ السُّفَھَآءُ وَلٰکِنْ لاَّ یَعْلَمُوْنَ ) - وہ صادق الایمان جو ایمان کے ہر تقاضے کو پورا کرنے کے لیے ہر وقت حاضر ہیں ‘ ان سے بڑا عقل مند اور ان سے بڑا سمجھ دار کوئی نہیں۔ انہوں نے یہ جان لیا ہے کہ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے ‘ یہ زندگی تو عارضی ہے ‘ تو اگر کل کے بجائے آج ختم ہوجائے یا ابھی ختم ہوجائے تو کیا فرق پڑے گا ؟ یہاں سے جانا تو ہے ‘ آج نہیں تو کل ‘ کل نہیں تو پرسوں ‘ جانا تو ہے۔ تو عقل تو ان کے اندر ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :13 یعنی جس طرح تمہاری قوم کے دُوسرے لوگ سچائی اور خلوص کے ساتھ مسلمان ہوئے ہیں اسی طرح تم بھی اگر اسلام قبول کرتے ہو تو ایمانداری کے ساتھ سچے دل سے قبول کرو ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :14 وہ اپنے نزدیک ان لوگوں کو بے وقوف سمجھتے تھے جو سچائی کے ساتھ اسلام قبول کر کے اپنے آپ کو تکلیفوں اور مشقّتوں اور خطرات میں مُبتلا کر رہے تھے ۔ ان کی رائے میں یہ سراسر احمقانہ فعل تھا کہ محض حق اور راستی کی خاطر تمام ملک کی دُشمنی مول لے لی جائے ۔ ان کے خیال میں عقل مندی یہ تھی کہ آدمی حق اور باطل کی بحث میں نہ پڑے ، بلکہ ہر معاملے میں صرف اپنے مفاد کو دیکھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani