Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

سناٹے کی آغوش میں زندگی اب جہاں پر بیت اللہ بنا ہوا ہے یہاں ایک ٹیلہ تھا اور سنسان بیابان تھا کوئی اپنے سہنے والا وہاں نہ تھا یہاں پہنچ کر ماں بیٹے کو بٹھا کر پاس تھوڑی سی کھجوریں اور مشکیزہ پانی کا رکھ کر آپ چلے گئے جب خلیل اللہ نے پیٹھ موڑی اور جانے لگے تو مائی حاجرہ نے آواز دی اے خلیل اللہ ہمیں اس دہشت و وحشت والے بیابان میں یکہ و تنہا چھوڑ کر جہاں ہمارا کوئی مونس و ہمدم نہیں آپ کہاں تشریف لے جا رہے ہیں؟ لیکن حضرت ابراہیم نے کوئی جواب نہ دیا بلکہ اس طرف توجہ تک نہ کی ، منہ موڑ کر بھی نہ دیکھا حضرت ہاجرہ کے بار بار کہنے پر بھی آپ نے التفات نہ فرمایا تو آپ فرمانے لگیں اللہ کے خلیل آپ ہمیں کسے سونپ چلے؟ آپ نے کہا اللہ تعالیٰ کو کہا اے خلیل اللہ کیا اللہ تعالیٰ کا آپ کو یہ حکم ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں مجھے اللہ کا یہی حکم ہے یہ سن کر ام اسمٰعیل کو تسکین ہو گئی اور فرمانے لگیں پھر تشریف لے جائیے وہ اللہ جل شانہ ہمیں ہرگز ضائع نہ کرے گا اسی کا بھروسہ اور اسی کا سہارا ہے ۔ حضرت ہاجرہ لوٹ گئیں اور اپنے کلیجہ کی ٹھنڈک اپنی آنکھوں کے نور ابن نبی اللہ کو گود میں لے کر اس سنسان بیابان میں اس ہو کے عالم میں لاچار اور مجبور ہو کر بیٹھ رہیں ۔ حضرت ابراہیم جب ثنیہ کے پاس پہنچے اور یہ معلوم کر لیا کہ اب حضرت ہاجرہ پیچھے نہیں اور وہاں سے یہاں تک ان کی نگاہ کام بھی نہیں کر سکتی تو بیت اللہ شریف کی طرف متوجہ ہو کر ہاتھ اٹھا کر دعا کی اور کہا آیت ( رَبَّنَآ اِنِّىْٓ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ بِوَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ ) 14 ۔ ابراہیم:37 ) الہ العالمین میں نے اپنے بال بچوں کو ایک غیر آباد جنگل میں تیرے برگزیدہ گھر کے پاس چھوڑا ہے تاکہ وہ نماز قائم کریں تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف جھکا دے اور انہیں پھلوں کی روزیاں دے شاید وہ شکر گزاری کریں آپ نے یہ دعا کر کے حکم اللہ بجا لا کر اپنی اہل و عیال کو اللہ کے سپرد کر کے چلے گئے ادھر حضرت ہاجرہ صبر و شکر کے ساتھ بچے سے دل بہلانے لگیں جب تھوڑی سی کھجوریں اور ذرا سا پانی ختم ہو گیا اب اناج کا ایک دانہ پاس ہے نہ پانی کا گھونٹ خود بھی بھوکی پیاسی ہیں اور بچہ بھی بھوک پیاس سے بیتاب ہے یہاں تک کہ اس معصوم نبی زادے کا پھول سا چہرہ کمھلانے لگا اور وہ تڑپنے اور بلکنے لگا مامتا بھری ماں کبھی اپنی تنہائی اور بےکسی کا خیال کرتی ہے کبھی اپنے ننھے سے اکلوتے بچے کا یہ حال بغور دیکھتی ہے اور سہمی جاتی ہے معلوم ہے کہ کسی انسان کا گزر اس بھیانک جنگل میں نہیں ، میلوں تک آبادی کا نام و نشان نہیں کھانا تو کہاں؟ پانی کا ایک قطرہ بھی میسر نہیں آ سکتا آخر اس ننھی سی جان کا یہ ابتر حال نہیں دیکھا جاتا تو اٹھ کر چلی جاتی ہیں اور صفا پہاڑ جو پاس ہی تھا اس پر چڑھ جاتی ہیں اور میدان کی طرف نظر دواڑاتی ہیں کہ کوئی آتا جاتا نظر آ جائے لیکن نگاہیں مایوسی کے ساتھ چاروں طرف ڈالتی ہیں اور کسی کو بھی نہ دیکھ کر پھر وہاں سے اتر آتی ہیں اور اسی طرح درمیانی تھوڑا سا حصہ دوڑ کر باقی حصہ جلدی جلدی طے کر کے پھر صفا پر چڑھتی ہیں اسی طرح سات مرتبہ کرتی ہیں ہر بار آ کر بچہ کو دیکھ جاتی ہیں اس کی حالت ساعت بہ ساعت بگڑتی جا رہی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں صفا مروہ کی سعی جو حاجی کرتے ہیں اس کی ابتدا یہی سے ساتویں مرتبہ جب حضرت ہاجرہ مروہ پر آتی ہیں تو کچھ آواز کان میں پڑتی ہے آپ خاموش ہو کر احتیاط کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوتی ہیں کہ یہ آواز کیسی؟ آواز پھر آتی ہے اور اس مرتبہ صاف سنائی دیتی ہے تو آپ آواز کی طرف لپک کر آتی ہیں اور اب جہاں زمزم ہے وہاں حضرت جبرائیل کو پاتی ہیں حضرت جبرائیل پوچھتے ہیں تم کون ہو؟ آپ جواب دیتی ہیں میں ہاجرہ ہوں میں حضرت ابراہیم کے لڑکے کی ماں ہوں فرشتہ پوچھتا ہے ابراہیم تمہیں اس سنسان بیابان میں کسے سونپ گئے ہیں؟ آپ فرماتی ہیں اللہ کو فرمایا پھر تو وہ کافی ہے حضرت ہاجرہ نے فرمایا اے غیبی شخص آواز تو میں نے سن لی کیا کچھ میرا کام بھی نکلے گا ؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اپنی ایڑی زمین رگڑی وہیں زمین سے ایک چشمہ پانی کا ابلنے لگا ۔ حضرت ہاجرہ علیہما السلام نے ہاتھ سے اس پانی کو مشک میں بھرنا شروع کیا مشک بھر کر پھر اس خیال سے کہ پانی ادھر ادھر بہ کر نکل نہ جائے آس پاس باڑ باندھنی شروع کر دی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ ام اسمٰعیل پر رحم کرے اگر وہ اس طرح پانی کو نہ روکتیں تو زم زم کنویں کی مثل میں نہ ہوتا بلکہ وہ ایک جاری نہر کی صورت میں ہوتا اب حضرت ہاجرہ نے پانی پیا اور بچہ کو بھی پلایا اور دودھ پلانے لگیں فرشتے نے کہ دیا کہ تم بےفکر رہو اللہ تمہیں ضائع نہ کرے گا جہاں تم بیٹھی ہو یہاں اللہ کا ایک گھر اس بچے اور اس کے باپ کے ہاتھوں بنے گا حضرت ہاجرہ اب یہیں رہ پڑیں زمزم کا پانی پیتیں اور بچہ سے دل بہلاتیں بارش کے موسم میں پانی کے سیلاب چاروں طرف سے آتے لیکن یہ جگہ ذرا اونچی تھی ادھر ادھر سے پانی گزر جاتا ہے اور یہاں امن رہتا کچھ مدت کے بعد جرہم کا قبیلہ خدا کے راستہ کی طرف سے اتفاقاً گزرا اور مکہ شریف کے نیچے کے حصہ میں اترا ان کی نظریں ایک آبی پرند پر پڑیں تو آپس میں کہنے لگے یہ پرندہ تو پانی کا ہے اور یہاں پانی کبھی نہ تھا ہماری آمدو رفت یہاں سے کئی مرتبہ ہوئی یہ تو خشک جنگل اور چٹیل میدان ہے یہاں پانی کہاں؟ چنانچہ انہوں نے اپنے آدمی اصلیت معلوم کرنے کے لیے بھیجے انہوں نے واپس آ کر خبر دی کہ وہاں تو بہترین اور بہت سا پانی ہے اب وہ سب آئے اور حضرت ام اسمعٰیل سے عرض کرنے لگے کہ مائی صاحبہ اگر آپ اجازت دیں تو ہم بھی یہاں ٹھہر جائیں پانی کی جگہ ہے آپ نے فرمایا ہاں شوق سے رہو لیکن پانی پر قبضہ میرا ہی رہے گا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہاجرہ تو چاہتی تھیں کہ کوئی ہم جنس مل جائے چنانچہ یہ قافلہ یہاں رہ پڑا حضرت اسمٰعیل بھی بڑے ہو گئے ان سب کو آپ سے بڑی محبت ہو گئی یہاں تک کہ آپ بالغ ہوئے تو انہی میں نکاح بھی کیا اور انہی سے عربی بھی سیکھی مائی ہاجرہ علیہما السلام کا انتقام یہیں ہوا جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ کی طرف سے اجازت ملی تو آپ اپنے لخت جگر کی ملاقات کے لیے تشریف لائے بعض روایات میں ہے کہ آپ کا یہ آنا جانا براق پر ہوتا تھا ملک شام سے آتے تھے اور پھر واپس جاتے تھے یہاں آئے تو حضرت اسمٰعیل گھر پر نہ ملے اپنی بہو سے پوچھا کہ وہ کہاں ہیں؟ تو جواب ملا کہ کھانے پینے کی تلاش میں یعنی شکار کو گئے ہیں آپ نے پوچھا تمہارا کیا حال ہے؟ کیا برا حال ہے بڑی تنگی اور سختی ہے فرمایا اچھا تمہارے خاوند آویں تو انہیں سلام کہنا اور کہہ دینا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل ڈالیں ۔ حضرت ذبیح اللہ جب واپس آئے تو گویا آپ کو کچھ انس سا معلوم ہوا پوچھنے لگے کیا کوئی صاحب تشریف لائے تھے؟ بیوی نے کہا ہاں ایسی ایسی شکل و شباہت کے ایک عمر رسیدہ بزرگ آئے تھے؟ آپ کی نسبت پوچھا میں نے کہا وہ شکار کی تلاش میں باہر گئے ہیں پھر پوچھا کہ گزران کیسی چلتی ہے؟ میں نے کہا بڑی سختی اور تنگی سے گزر اوقات ہوتی ہے پوچھا کچھ مجھ سے کہنے کو بھی فرما گئے ہیں؟ بیوی نے کہا ہاں کہہ گئے کہ وہ جب وہ آئیں میرا سلام کہنا اور کہ دینا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل ڈالیں آپ فرمانے لگے بیوی سنو یہ میرے والد صاحب تھے اور جو فرما گئے ہیں اس سے مطلب یہ ہے کہ ( چونکہ تم نے ناشکری کی ) میں تم کو الگ کر دوں جاؤ میں نے تمہیں طلاق دی انہیں طلاق دے کر آپ نے اسی قبیلہ میں اپنا دوسرا نکاح کر لیا ایک مدت کے بعد پھر حضرت ابراہیم باجازت الٰہی یہاں آئے اب کی مرتبہ بھی اتفاقاً حضرت ذبیح سے ملاقات نہ ہوئی بہو سے پوچھا تو جواب ملا کہ ہمارے لئے رزق کی تلاش میں شکار کو گئے ہیں آپ آئیے ، تشریف رکھئے جو کچھ حاضر ہے تناول فرمائیے ۔ آپ نے فرمایا یہ تو بتاؤ کہ گزر بسر کیسی ہوتی ہے ؟ کیا حال ہے؟ جواب ملا الحمد للہ ہم خیریت سے ہیں اور بفضل رب کعبہ کشادگی اور راحت ہے اللہ کا بڑا شکر ہے حضرت ابراہیم نے کہا تمہاری خوراک کیا ہے؟ کہا گوشت پوچھا تم پیتے کیا ہو؟ جواب ملا پانی آپ نے دعا کی کہ پروردگار انہیں گوشت اور پانی میں برکت دے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر اناج ان کے پاس ہوتا اور یہ کہتیں تو حضرت خلیل علیہ السلام ان کے لیے اناج کی برکت کی دعا بھی کرتے اب اس دعا کی برکت سے اہل مکہ صرف گوشت اور پانی پر گزر کر سکتے ہیں ۔ اور لوگ نہیں کر سکتے آپ نے فرمایا اچھا میں تو جا رہا ہوں تم اپنے میاں کو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ وہ اپنی چوکھٹ کو ثابت اور اباد رکھیں بعد ازں حضرت اسمٰعیل آئے سارا واقعہ معلوم ہوا آپ نے فرمایا یہ میرے والد مکرم تھے مجھے حکم دے گئے ہیں کہ میں تمہیں الگ نہ کروں ( تم شکر گزار ہو )

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٥٦] قسطلانی (رح) نے کہا کہ کعبہ دس بار تعمیر ہوا۔ سب سے پہلے اسے فرشتوں نے بنایا۔ دوسری بار آدم (علیہ السلام) نے (آپ (علیہ السلام) کی عمر ہزار سال تھی) تیسری بار شیث (علیہ السلام) (آدم کے بیٹے) نے اور یہ تعمیر طوفان نوح (علیہ السلام) میں گرگئی۔ چوتھی بار حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پانچویں بار قوم عمالقہ نے، چھٹی بار قبیلہ جرہم نے، ساتویں بار قصی بن کلاب نے (جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جد امجد ہیں) آٹھویں بار قریش نے (آپ کی بعثت سے پہلے جب کہ حطیم کی جگہ چھوڑ دی تھی) نویں بار حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) نے (اپنے دور خلافت میں) دسویں بار حجاج بن یوسف نے۔ اور اس کے بعد آج تک اس علاقہ پر مسلمانوں کا ہی قبضہ چلا آ رہا ہے اور بہت سے بادشاہوں نے اس کی تعمیر، مرمت اور توسیع میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے۔ اس سلسلہ میں آل سعود کی خدمات گرانقدر ہیں اور لائق تحسین ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

الْقَوَاعِدَ بنیادیں، ابن عباس (رض) نے فرمایا، یعنی بیت اللہ کی وہ بنیادیں جو اس سے پہلے موجود تھیں۔ [ تفسیر عبد الرزاق بسند صحیح ] اس سے معلوم ہوا کہ بیت اللہ پہلے تعمیر ہوچکا تھا، اب از سر نو اس کی بنیادیں اٹھائی جا رہی تھیں۔ سورة حج (٢٦) میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے بیت اللہ کی جگہ متعین فرمائی۔ مزید دیکھیے سورة آل عمران (٩٦) ۔ اس کے بعد بیت اللہ کئی دفعہ تعمیر ہوا۔ جاہلیت میں جب سیلاب سے کعبہ منہدم ہوگیا تو قریش نے دوبارہ اس کی تعمیر کی، مگر مال کی کمی کی وجہ سے اس کا کچھ حصہ باہر چھوڑ دیا، جسے حطیم کہتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اس کے لیے پتھر اٹھا کر لاتے رہے۔ ابن اسحاق کے مطابق آپ کی عمر اس وقت ٣٥ سال تھی، پھر آپ ہی نے قریش کے جھگڑے میں حجر اسود کا فیصلہ فرمایا اور اسے اس کے مقام پر اپنے دست مبارک سے رکھا۔ دور اسلام میں پہلی مرتبہ عبداللہ بن زبیر (رض) نے اسے ابراہیم (علیہ السلام) والی بنیادوں پر تعمیر کیا، اس کے بعد عبد الملک کے دور خلافت میں حجاج بن یوسف نے اسے گرا کر دوبارہ اسی طرح بنادیا جس طرح جاہلیت میں بنایا گیا تھا۔ اس کے بعد مختلف بادشاہ اسی عمارت کی مرمت و تزئین کرتے رہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کعبہ کو حبشیوں میں سے ایک پتلی پنڈلیوں والا برباد کرے گا۔ “ [ بخاری، الحج، باب قول اللہ تعالیٰ : ( جعل اللہ - الکعبۃ ۔۔ ) : ١٥٩١۔ مسلم، الفتن، باب لا تقوم الساعۃ ۔۔ : ٧٣٠٦ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اپنے نیک عمل پر بھروسہ اور قناعت نہ کرنے کی تعلیم :- رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) نے حکم ربانی کی تعمیل میں ملک شام کے ہرے بھرے خوش منظر خطہ کو چھوڑ کر مکہ مکرمہ کے خشک پہاڑوں کے درمیان اپنے اہل و عیال کو لاڈلا اور بیت اللہ کی تعمیر میں اپنی پوری توانائی خرچ کی یہ موقع ایسا تھا کہ ایسے مجاہدے کرنے والے کے دل میں عجب پیدا ہوتا تو وہ اپنے عمل کو بہت کچھ قابل قدر سمجھتا لیکن یہاں حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) ہیں رب العزت کی بارگاہ عزت و جلال کو پہچاننے والے ہیں کہ کسی انسان سے اللہ تعالیٰ کے شایان شان عبادت و اطاعت ممکن نہیں ہر شخص اپنی قوت وہمت کی مقدار سے کام کرتا ہے اس لئے ضرورت ہے کہ کوئی بھی بڑے سے بڑا عمل کرے تو اس پر ناز نہ کرے بلکہ الحاح وزاری کے ساتھ دعا کرے کہ میرا یہ عمل قبول ہوجائے جیسا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بناء بیت اللہ کے عمل کے متعلق یہ دعا فرمائی کہ اے ہمارے پروردگار آپ ہمارے اس عمل کو قبول فرمالیں کیونکہ آپ توسننے والے اور جاننے والے ہیں ہماری دعا کو سنتے ہیں اور ہماری نیتوں کو جانتے ہیں

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ يَرْفَعُ اِبْرٰھٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَاِسْمٰعِيْلُ۝ ٠ ۭ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا۝ ٠ ۭ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۝ ١٢٧- رفع - الرَّفْعُ في الأجسام الموضوعة إذا أعلیتها عن مقرّها، نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ- [ البقرة 93] ، قال تعالی: اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد 2] - ( ر ف ع ) الرفع - ( ف ) کے معنی اٹھانے اور بلند کرنے کے ہیں یہ مادی چیز جو اپنی جگہ پر پڑی ہوئی ہو اسے اس کی جگہ سے اٹھا کر بلند کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 93] اور ہم نے طو ر پہاڑ کو تمہارے اوپر لاکر کھڑا کیا ۔ اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد 2] وہ قادر مطلق ہے جس نے آسمان کو بدوں کسی سہارے کے اونچا بناکر کھڑا کیا ۔ - قعد - القُعُودُ يقابل به القیام، والْقَعْدَةُ للمرّة، والقِعْدَةُ للحال التي يكون عليها الْقَاعِدُ ، والقُعُودُ قد يكون جمع قاعد . قال : فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء 103] ، الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران 191] ، والمَقْعَدُ :- مكان القعود، وجمعه : مَقَاعِدُ. قال تعالی: فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] أي في مکان هدوّ ، وقوله : مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران 121] كناية عن المعرکة التي بها المستقرّ ، ويعبّر عن المتکاسل في الشیء بِالْقَاعدِ نحو قوله : لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء 95] ، ومنه : رجل قُعَدَةٌ وضجعة، وقوله : وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء 95] وعن التّرصّد للشیء بالقعود له .- نحو قوله : لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف 16] ، وقوله : إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ- [ المائدة 24] يعني متوقّفون . وقوله : عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق 17] أي :- ملك يترصّده ويكتب له وعليه، ويقال ذلک للواحد والجمع، والقَعِيدُ من الوحش : خلاف النّطيح . وقَعِيدَكَ الله، وقِعْدَكَ الله، أي : أسأل اللہ الذي يلزمک حفظک، والقاعِدَةُ : لمن قعدت عن الحیض والتّزوّج، والقَوَاعِدُ جمعها . قال : وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور 60] ، والْمُقْعَدُ : من قَعَدَ عن الدّيون، ولمن يعجز عن النّهوض لزمانة به، وبه شبّه الضّفدع فقیل له : مُقْعَدٌ «1» ، وجمعه : مُقْعَدَاتٌ ، وثدي مُقْعَدٌ للکاعب : ناتئ مصوّر بصورته، والْمُقْعَدُ كناية عن اللئيم الْمُتَقَاعِدِ عن المکارم، وقَوَاعدُ البِنَاءِ : أساسه .- قال تعالی: وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة 127] ، وقَوَاعِدُ الهودج :- خشباته الجارية مجری قواعد البناء .- ( ق ع د ) القعود - یہ قیام ( کھڑا ہونا کی ضد ہے اس سے قعدۃ صیغہ مرۃ ہے یعنی ایک بار بیٹھنا اور قعدۃ ( بکسر ( قاف ) بیٹھنے کی حالت کو کہتے ہیں اور القعود قاعدۃ کی جمع بھی ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء 103] تو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرو ۔ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران 191] جو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں ۔ المقعد کے معنی جائے قیام کے ہیں اس کی جمع مقاعد ہے قرآن میں ہے : ۔ فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55]( یعنی ) پاک مقام میں ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ یعنی نہایت پر سکون مقام میں ہوں گے اور آیت کریمہ : ۔ مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران 121] لڑائی کیلئے مور چوں پر میں لڑائی کے مورچے مراد ہیں جہاں سپاہی جم کر لڑتے ہیں اور کبھی کسی کام میں سستی کرنے والے کو بھی قاعدۃ کہا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء 95] جو مسلمان ( گھروں میں ) بیٹھ رہتے اور لڑنے سے جی چراتے ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے ۔ اسی سے عجل قدعۃ ضجعۃ کا محاورہ جس کے معنی بہت کاہل اور بیٹھنے رہنے والے آدمی کے ہیں نیز فرمایا : ۔ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء 95] خدا نے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھنے والوں پر درجے میں فضیلت بخشی ہے ۔ اور کبھی قعدۃ لہ کے معی کیس چیز کے لئے گھات لگا کر بیٹھنے اور انتظار کرنے کے بھی آتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف 16] میں بھی سیدھے رستے پر بیٹھوں گا ۔ نیز فرمایا : ۔ إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة 24] ہم یہیں بیٹھے رہینگے یعنی یہاں بیٹھ کر انتظار کرتے رہینگے اور آیت کر یمہ : ۔ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق 17] جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں ۔ میں قعید سے مراد وہ فرشتہ ہے جو ( ہر وقت اعمال کی نگرانی کرتا رہتا ہے اور انسان کے اچھے برے اعمال میں درج کرتا رہتا ہے یہ واحد وجمع دونوں پر بولا جاتا ہے اسے بھی قعید کہا جاتا ہے اور یہ نطیح کی جد ہے ۔ یعنی میں اللہ تعالیٰ سے تیری حفاظت کا سوال کرتا ہوں ۔ القاعدۃ وہ عورت جو عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے نکاح اور حیض کے وابل نہ رہی ہو اس کی جمع قواعد ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور 60] اور بڑی عمر کی عورتیں ۔ اور مقعدۃ اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جو ملازمت سے سبکدوش ہوچکا ہو اور اپاہج آدمی جو چل پھر نہ سکے اسے بھی مقعد کہہ دیتے ہیں اسی وجہ سے مجازا مینڈک کو بھی مقعد کہا جاتا ہے اس کی جمع مقعدات ہے اور ابھری ہوئی چھاتی پر بھی ثدی مقعد کا لفظ بولا جاتا ہے اور کنایہ کے طور پر کمینے اور خمیس اطوار آدمی پر بھی مقعدۃ کا طلاق ہوتا ہے قواعد لبنآء عمارت کی بنیادیں قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة 127] اور جب ابراہیم بیت اللہ کی بنیادی اونچی کر رہے تھے قواعد الھودج ( چو کھٹا ) ہودے کی لکڑیاں جو اس کے لئے بمنزلہ بنیاد کے ہوتی ہیں ۔- بيت - أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] ، - ( ب ی ت ) البیت - اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ - قبل ( تقبل)- قَبُولُ الشیء علی وجه يقتضي ثوابا کا لهديّة ونحوها . قال تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ ما عَمِلُوا[ الأحقاف 16] ، وقوله : إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ [ المائدة 27] ، تنبيه أن ليس كل عبادة مُتَقَبَّلَةً ، بل إنّما يتقبّل إذا کان علی وجه مخصوص . قال تعالی:- إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ ما فِي بَطْنِي مُحَرَّراً فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران 35] . وقیل للکفالة : قُبَالَةٌ فإنّ الکفالة هي أوكد تَقَبُّلٍ ، وقوله : فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران 35] ، فباعتبار معنی الکفالة، وسمّي العهد المکتوب : قُبَالَةً ، وقوله : فَتَقَبَّلَها[ آل عمران 37] ، قيل : معناه قبلها، وقیل : معناه تكفّل بها، ويقول اللہ تعالی: كلّفتني أعظم کفالة في الحقیقة وإنما قيل :- فَتَقَبَّلَها رَبُّها بِقَبُولٍ [ آل عمران 37] ، ولم يقل بتقبّل للجمع بين الأمرین : التَّقَبُّلِ الذي هو التّرقّي في القَبُولِ ، والقَبُولِ الذي يقتضي - اور تقبل کے معنی کیس چیز کو اس طرح قبول کرنے کے میں کہ وہ عوض کی مقتضی ہو جیسے ہدیہ وغیرہ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ ما عَمِلُوا[ الأحقاف 16] یہی لوگ ہیں جن کے اعمال نیک ہم قبول کریں گے إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ [ المائدة 27] کہ خدا پرہیز گاروں کی نیاز قبول فرمایا کرتا ۔۔۔۔ ہے میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ ہر عیادت قبول نہیں ہوتی بلکہ وہی قبول کی جاتی ہے جو مخصوص طریق سے ادا کی جائے ۔ فرمایا : ۔ مُحَرَّراً فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران 35] تو اسے میری طرف سے قبول فرما کفا لۃ کو قبالۃ کہا جاتا ہے کیونکہ کفا لۃ کے معنی مؤ کی طور پر کسی چیز کو قبول کرلینے کے ہیں تو آیت فتقبل منی میں کفالت کے معنی معتبر ہیں اور لکھے ہوئے عہد کو قبالۃ کہا جاتا ہے اور آیت کر یمہ : ۔ فَتَقَبَّلَها رَبُّها بِقَبُولٍ [ آل عمران 37] پروردگار - نے اسے پسند ید گی کے ساتھ قبول فرمایا : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنی تقبلھا کے ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنی تکلفھا کے ہے یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس نے در حقیقت مجھے بہت بڑی کفالت کا ذمہ دار بنا دیا ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے : واذیرفع ابراھیم القوا عد من البیت واسمعیل (اور یہ کہ ابراہیم اور اسماعیل جب اس گھر کی دیواریں اٹھا رہے تھے) تاآخر آیت بیت کی اساس اور بنیاد کو قواعد البیت کہتے ہیں۔- حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاتھوں تعمیر کعبہ کے بارے میں یہ اختلاف رائے ہے کہ آیا آپ نے اس کی پرانی بنیادوں پر دیواریں اٹھائی تھیں یا نئی بنیادیں رکھی تھیں ؟ معمر نے ایوب سے انہوں نے سعید بن جبیر سے اور انہوںں نے حضرت ابن بع اس سے زیر بحث آیت کی تفسیر میں روایت بیان کی ہے کہ ان بنیادوں سے مراد وہ بنیادیں ہیں جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تعمیر کعبہ سے پہلے موجود تھیں۔ عطاء سے بھی اسی قسم کی روایت منقول ہے۔ منصور نے مجاہد سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر سے ان کا قول نقل کیا ہے کہ : اللہ تعالیٰ نے زمین کی تخلیق سے دو ہزار برس پہلے بیت اللہ کی تخلیق کردی تھی اور پھر اس کے نیچ۔ ے زمین بچھا دی گئی۔ حضرت انس سے مروی ہے کہ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : حضرت آدم (علیہ السلام) سے پہلے فرشتے بیت اللہ کا حج کرتے تھے اور پھر آدم (علیہ السلام) نے اس کا حج کیا۔ مجاہد اور عمرو بن دنیار سے مرو ی ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم کے تحت بیت اللہ کی تعمیر کی تھی۔ حسن بصری کا قول ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سب سے پہلے بیت اللہ کا حج کیا تھا۔- حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) میں بیت اللہ کا تعمیر کنندہ کون ہے ؟ اس بارے میں اختلاف رائے ہے۔ حضرت ابن عباس کے قول کے مطابق حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دیواروں کی چنائی کرتے تھے اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) انہیں پتھر اور گارا وغیرہ پکڑاتے جاتے تھے۔ یہ بات تعمیر کے فعل کو ان دونوں کی طرف منسوب کرتی ہے، اگرچہ ان میں سے ایک فرد محض ہاتھ بٹا رہا تھا۔ اسی بنا پر ہم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس قول کے بارے میں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ سے فرمایا تھا کہ : اگر ت م مجھ سے پہلے وفات پا جاتیں تو میں تمہیں غسل دیتا اور دفن کرتا کہا تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس سے مراد یہ تھی کہ میں تمہیں غسل دینے میں اعانت کرتا۔- السدی اور عبید بن عمیر کے قول کے مطابق دونوں حضرات نے بیت اللہ کی تعمیر کی تھی۔ ایک شاذ و روایت کے مطابق حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تنہا ہی کعبے کی دیواریں اٹھائی تھیں اس وقت حضرت اسماعیل بہت چھوٹے تھے، لیکن یہ روایت غلط ہے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے تعمیر کے فعل کی دونوں کی طرف نسبت کی ہے۔ اور اس کا اطلاق صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب یہ تسلیم کرلیا جائے کہ دونوں نے ہی دیواریں اٹھائی تھیں یا ایک دیوار کی چنائی میں مصروف رہے اور دوسرے انہیں پتھر اور گارا وغیرہ پکڑاتے رہے۔ یہ دونوں صورتیں درست ہیں لیکن درج بالا تیسری صورت غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب یہاں یہ فرما دیا : وطھر بیتی للطائفین اور دوسری جگہ فرمایا : ولیطوفوا بالبیت العتیق تو یہ آیتیں پورے بیت اللہ کے طواف کی مقتضی بن گئیں۔- ہشام نے عروہ سے انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عائشہ سے روایت بیان کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اہل جاہلیت نے کعبہ کی عمارت کو چھوٹا کردیا تھا۔ اس لئے تم حجر (حطیم) میں داخل ہو کر وہاں نماز پڑھ لیا کرو۔ یہی وجہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام نے حجر (حطیم) کے گرد یعنی اس کے پیچھے سے طواف کیا تھا، تاکہ پورے بیت اللہ کے طواف کا یقین حاصل ہوجائے۔ اسی بن اپر حضرت عبداللہ بن الزبیر نے اپنی خلافت کے زمانے میں اسے اس وقت بیت اللہ میں داخل کردیا تھا جب اس میں آگ لگنے کی وجہ سے اس کی دوبارہ تعمیر کی تھی۔ پھر جب حجاج آیا تو اس نے حطیم کو بیت اللہ سے باہر کردیا۔- قول باری ہے : ربنا تقبل منا (اے ہمارے رب، ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے) یعنی دونوں باپ بیٹے یہ الفاظ کہتے جاتے تے۔ چونکہ اس لفظ پر کلام کی دلالت ہے۔ اس لئے اسے حذف کردیا گیا جس طرح یہ قول باری : والملٓئکۃ باسطو ایدیھم اخرجوا انفسکم (اور فرشتے ہاتھ بڑھا بڑھ اکر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ لائو نکالو اپنی جان)- تقبل عمل پر ثواب کے ایجاب کو کہتے ہیں۔ آیت اس بات کو متضمن ہے کہ مساجد کی تعمیر بڑی نیکی ہے کیونکہ دونوں حضرات نے اللہ کے لئے بیت اللہ کی تعمیر کی تھی اور انہیں استحقاق ثواب کی خبر دی گئی تھی۔ یہ بات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس اشراد کی طرح ہے کہ جو شخص اللہ کے لئے مسجد کی تعمیر کرے خواہ یہ مسجد کو نج کے گھونسلے کی طرح چھوٹی سی کیوں نہ ہو، اللہ جنت میں اس کے لیے ایک گھر تعمیر کر دے گا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٢٧) اور جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بیت اللہ کی تعمیر کے لیے اس کا سنگ بنیاد رکھا اور حضرت اسمعیل (علیہ السلام) ان کے ساتھ تعاون کررہے تھے، جب دونوں اس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے دعا کی، پروردگار عالم ہماری اس اپنے گھر کی تعمیر کو قبول فرما، بلاشبہ آپ دعاؤں کو سننے والے اور قبولیت کو کرنے والے ہیں۔- اور یہ تفسیر بھی کی گئی ہے کہ اپنے گھر کی تعمیر میں تو ہماری نیتوں سے اچھی طرح واقف ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٧ (وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰہٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَاِسْمٰعِیْلُ ط) ۔ - باپ بیٹا دونوں بیت اللہ کی تعمیر میں لگے ہوئے تھے۔ یہاں لفظ قَوَاعِدَ جو آیا ہے اسے نوٹ کیجیے ‘ یہ قاعدہ کی جمع ہے اور بنیادوں کو کہا جاتا ہے۔ اس لفظ سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) خانہ کعبہ کے اصل معمار اور بانی نہیں ہیں۔ کعبہ سب سے پہلے حضرت آدم (علیہ السلام) نے تعمیر کیا تھا۔ سورة آل عمران (آیت ٩٦) میں الفاظ آئے ہیں : (اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ للنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ ) بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا یہی ہے جو مکہ میں ہے۔ اب یہ کیسے ممکن تھا کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے زمانے سے لے کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تک ‘ کم و بیش چار ہزار برس کے دوران ‘ روئے ارضی پر کوئی مسجد تعمیر نہ ہوئی ہو ؟ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے تعمیر کیا گیا سب سے پہلا گھر یہی کعبہ تھا۔ امتداد زمانہ سے اس کی صرف بنیادیں باقی رہ گئی تھیں ‘ اور چونکہ یہ وادی میں واقع تھا جو سیلاب کا راستہ تھا ‘ لہٰذا سیلاب کی وجہ سے اس کی سب دیواریں بہہ گئی تھیں۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما الصلوٰۃ والسلام نے ان بنیادوں کو پھر سے اٹھایا۔ سورة الحج میں یہ مضمون تفصیل سے آیا ہے۔- جب وہ ان بنیادوں کو اٹھا رہے تھے تو اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگ رہے تھے : - (رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ط) ۔ - ہماری اس کوشش اور ہماری اس محنت و مشقت کو قبول فرما جس وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بیت اللہ کی تعمیر کر رہے تھے اس وقت حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) کی عمر لگ بھگ تیرہ برس تھی ‘ آپ ( علیہ السلام) اس کام میں اپنے والد محترم کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔- (اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ )

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

83: بیت اللہ جسے کعبہ بھی کہتے ہیں درحقیقت حضرت آدم (علیہ السلام) کے وقت سے تعمیر چلاآتا ہے لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دور میں وہ حوادث روزگار سے منہدم ہوچکا تھا، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اسے از سر نو انہی بنیادوں پر تعمیر کرنے کا حکم ہوا تھا جو پہلے سے موجود تھیں اور اللہ تعالیٰ نے بذریعۂ وحی آپ کو بتادی تھیں، اسی لئے قرآن کریم نے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ وہ بیت اللہ تعمیر کررہے تھے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ وہ اس کی بنیادیں اٹھارہے تھے