عہد جو مترادف حکم ہے یہاں عہد سے مراد وہ حکم ہے جس میں کہا گیا ہے گندی اور نجس اور بری چیزوں سے پاک رکھناعہد کا تعدیہ الی سے ہو تو معنی ہم نے وحی کی اور پہلے سے کہ دیا کہ پاک رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اسے بتوں سے بچانا غیر اللہ کی عبادت نہ ہونے دینا لغو کاموں فضول بکواس جھوٹی باتوں شرک و کفر ، ہستی اور مذاق سے اسے محفوظ رکھنا ۔ بھی اسی میں شامل ہے طائف کے ایک معنی طواف کرنے والوں کے ہیں دوسرے معنی باہر سے آنے والوں کے ہیں اس تقدیر پر عاکفین کے معنی مکہ کے باشندے ہوں گے ایک مرتبہ لوگوں نے کہا کہ امیر وقت سے کہنا چاہئے کہ لوگوں کو بیت اللہ شریف میں سونے سے منع کریں کیونکہ ممکن ہے کوئی کسی وقت جنبی ہو جائے ممکن ہے کبھی آپس میں فضول باتیں کریں تو ہم نے سنا کہ انہیں نہ روکنا چاہئے ۔ ابن عمر انہیں بھی عاکفین کہتے تھے ایک صحیح حدیث میں ہے کہ مسجد نبوی حضرت فاروق اعظم کے صاحبزادے حضرت عبداللہ سویا کرتے تھے وہ جوان اور کنوارے تھے ۔ رکع السجود سے مراد نمازی ہیں پاک رکھنے کا حکم اس واسطے دیا گیا کہ اس وقت بھی بت پرستی رائج تھی دوسرے اس لئے کہ یہ بزرگ اپنی نیتوں میں خلوص کی بات رکھیں دوسری جگہ ارشاد ہے آیت ( واذ بوانا ) الخ اس آیت میں بھی حکم ہے کہ میرے ساتھ شریک نہ کرنا اور میرے گھر کو پاک صاف رکھنا فقہا کا اس میں اختلاف ہے کہ بیت اللہ کی نماز افضل ہے یا طواف؟ امام مالک فرماتے ہیں باہر والوں کے لئے طواف افضل ہے اور جمہور کا قول ہے کہ ہر ایک کے لیے نماز افضل ہے اس کی تفصیل کی جگہ تفسیر نہیں ، مقصد اس سے مشرکین کو تنبیہہ اور تردید ہے کہ بیت اللہ تو خاص اللہ کی عبادت کے لیے بنایا گیا ہے اس میں اوروں کی عبادت کرنا اور خالص اللہ کی عبادت کرنے والوں کو اس سے روکنا کس قدر صریح بے انصافی ہے اور اسی لئے قرآن میں فرمایا کہ ایسے ظالموں کو ہم دردناک عذاب چکھائیں گے مشرکین کی اس کھلی تردید کے ساتھ ہی یہود و نصاریٰ کی تردید بھی اس آیت میں ہو گئی کہ اگر وہ ابراہیم و اسماعیل سلام اللہ علیہما کی افضلیت ، بزرگی اور نبوت کے قائل ہیں اور یہ بھی جانتے اور مانتے ہیں کہ یہ شریف گھرانے کے متبرک ہاتھوں کا بنا ہوا ہے جب وہ اسکے بھی قائل ہیں کہ یہ محض نماز و طواف و دعا اور عبادت اللہ کے لیے بنایا گیا ہے حج و عمرے اور اعتکاف وغیرہ کے لیے مخصوص کیا گیا ہے تو پھر ان نبیوں کی تابعداری کے دعوے کے باوجود کیوں حج و عمرے سے رکے ہوئے ہیں؟ کیوں بیت اللہ شریف میں حاضری نہیں دیتے؟ بلکہ خود موسیٰ علیہ السلام نے اس گھر کا حج و عمرے سے رکے ہوئے ہیں؟ کیوں بیت اللہ شریف میں حاضری نہیں دیتے؟ بلکہ خود موسیٰ علیہ السلام نے اس گھر کا حج کیا جیسا کہ حدیث میں صاف موجود ہے ۔ آیہ کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اور مسجدوں کو بھی پاک صاف رکھنا چاہئے اور جگہ قرآن میں ہے آیت ( فِيْ بُيُوْتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيْهَا اسْمُهٗ ۙ يُسَبِّحُ لَهٗ فِيْهَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ ) 24 ۔ النور:36 ) اللہ تعالیٰ نے مسجدوں کو بلند کرنے کی اجازت دی ہے ان میں اس کا نام ذکر کیا جائے ان میں صبح شام اس کی تسبیح اس کے نیک بندے کرتے ہیں ۔ حدیث شریف میں بھی ہے کہ مسجدیں اسی کام کے لیے ہیں اور احادیث میں بہت ہی تاکید کے ساتھ مسجدوں کی پاکیزگی کا حکم آیا ہے امام ابن کثیر نے اس بارے میں ایک خاص رسالہ تصنیف فرمایا ہے ۔ بعض لوگ تو کہتے ہیں سب سے پہلے کعبۃ اللہ فرشتوں نے بنایا تھا لیکن یہ سنداً غریب ہے بعض کہتے ہیں آدم علیہ السلام نے سب سے پہلے بنایا تھا حرا ، طور سینا ، طور زیتا ، جبل لبنان اور جودی ان پانچ پہاڑوں سے بنایا تھا لیکن یہ بھی سنداً غریب ہے بعض کہتے ہیں شیث علیہ السلام نے سب سے پہلے بنایا تھا لیکن یہ بھی اہل کتاب کی بات ہے ۔ حدیث شریف میں ہے حضرت ابراہیم نے مکہ کو حرام بنایا اور فرمایا میں مدینہ منورہ کو حرام قرار دیتا ہوں ۔ اس میں شکار نہ کھیلا جائے یہاں کے درخت نہ کاٹے جائیں یہاں ہتھیار نہ اٹھائے جائیں صحیح مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ لوگ تازہ پھل لے کر خدمت نبوی میں حاضر ہوتے تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسے لے کر دعا کرتے کہ اے اللہ ہمارے پھلوں میں ہمارے شہر میں ہمارے ناپ تول میں بھی برکت دے ۔ اے اللہ ابراہیم تیرے بندے تیرے خلیل اور تیرے رسول تھے میں بھی تیرا بندہ تیرا رسول ہیں انہوں نے مجھ سے مکہ کے لیے دعا کی تھی میں تجھ سے مدینہ ( منورہ ) کے لیے دعا کرتا ہوں جیسے انہوں نے مکہ مکرمہ کے لیے کی تھی آپ کسی چھوٹے بچہ کو بلا کر وہ پھل اسے عطا فرما دیا کرتے ۔ انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ابو طلحہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ جاؤ اپنے بچوں میں سے کسی ایک کو ہماری خدمت کے لیے آؤ ابو طلحہ مجھے لے کر حاضر ہوئے میں اب سفرو حضر میں حاضر خدمت رہنے لگا ۔ ایک مرتبہ آپ باہر سے آ رہے تھے جب احد پہاڑ پر نظر پڑی تو آپ نے فرمایا یہ پہاڑ ہم سے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں ۔ جب مدینہ نظر آیا تو فرمانے لگے یا اللہ میں اس کے دونوں کنارے کے درمیان کی جگہ کو حرم مقرر کرتا ہوں جیسے ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم بنایا اے اللہ ان کے مد اور صاع میں اور ناپ میں برکت دے اور روایت میں ہے یا اللہ جتنی برکت تونے مکہ میں دی ہے اس سے دگنی برکت مدینہ میں دے اور روایت میں ہے مدینہ میں قتل نہ کیا جائے اور چارے کے سوا اور پتے بھی یہاں کے درختوں کے نہ جھاڑے جائیں اسی مضمون کی حدیثیں جن سے ثابت ہوتا ہے مدینہ بھی مثل مکہ کے حرم ہے اور بھی بہت سی ہیں ۔ یہاں ان احادیث کے وارد کرنے سے ہماری غرض مکہ شریف کی حرمت اور یہاں کا امن بیان کرنا ہے ، بعض تو کہتے ہیں کہ یہ شروع سے حرم اور امن ہے بعض کہتے ہیں خلیل اللہ کے زمانہ سے لیکن پہلا قول زیادہ ظاہر ہے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ والے دن فرمایا جب سے اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین پیدا کئے تب سے اس شہر کو حرمت و عزت والا بنایا ہے اب یہ قیامت تک حرمت و عزت والا ہی رہے گا اس میں جنگ وقتال کسی کو حلال نہیں میرے لئے بھی آج کے دن ہی ذرا سی دیر کے لیے حلال تھا اب وہ حرام ہی حرام ہے سنو اس کے کانٹے نہ کاٹے جائیں اس کا شکار نہ بھگایا جائے اس میں کسی کی گری پڑی چیز نہ اٹھائی جائے جو پہنچوائی جائے اس کے لیے اٹھانا جائز ہے اسکی گھاس نہ کاٹی جائے دوسری روایت میں ہے کہ یہ حدیث آپ نے اثنائے خطبہ میں بیان فرمائی تھی اور حضرت عباس کے سوال پر آپ نے اذخر نامی گھاس کے کاٹنے کی اجازت دی تھی ۔ حضرت ابن شریح عدوی نے عمر بن سعید سے اس وقت کہا جب وہ مکہ کی طرف لشکر بھیج رہا تھا کہ اے امیر سن فتح مکہ والے دن صبح ہی صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ میں فرمایا جسے میرے کانوں نے سنا دل نے یاد رکھا اور میں نے آنکھوں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت دیکھا آپ نے حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ مکہ کو رب ذوالجلال نے حرام کیا ہے لوگوں نے نہیں کیا ، کسی ایماندار کو اس میں خون بہانا اس کا درخت کاٹنا حلال نہیں ۔ اگر کوئی میری اس لڑائی کو دلیل بنائے تو کہ دینا کہ میرے لئے صرف آج ہی کے دن کی ایسی ساعت یہاں جہاد حلال تھا ۔ پھر اس شہر کی حرمت آ گئی ہے جیسے کل تھی ۔ خبردار ہر حاضر غائب کو یہ پہنچا دے لیکن عمر نے یہ حدیث سن کر صاف جواب دے دیا کہ میں تجھ سے زیادہ اس حدیث کو جانتا ہوں ۔ حرم نافرمان کو اور خونی کو اور بربادی کرنے والے کو نہیں بچانا ( بخاری مسلم ) ان دونوں احادیث میں کوئی تعارض نہ سمجھے تطبیق یوں ہے کہ مکہ روز اول سے حرمت والا تھا لیکن اس حرمت کی تبلیغ حضرت خلیل اللہ نے کی جس طرح آنحضرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو اس وقت سے تھے جب کہ حضرت آدم کا خمیر گوندھ رکھا تھا بلکہ آپ اس وقت بھی خاتم الانبیاء لکھے ہوئے تھے لیکن تاہم حضرت ابراہیم نے آپ کی نبوت کی دعا کی کہ آیت ( رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ ) 2 ۔ البقرۃ:129 ) ان ہی میں سے ایک رسول ان میں بھیج جو اللہ نے پوری کی اور تقدیر کی لکھی ہوئی وہ بات ظاہر و باہر ہوئی ۔ ایک حدیث میں ہے کہ لوگوں نے آپ سے کہا کہ آپ اپنی ابتدا نبوت کا تو کچھ ذکر کیجئے ۔ آپ نے فرمایا میرے باپ ابراہیم کی دعا اور عیسیٰ بن مریم کی بشارت اور میری ماہ کا خواب وہ دیکھتی ہیں کہ ان سے گویا ایک نور نکلا جس نے شام کے محلات کو روشن کر دیا اور وہ نظر آنے لگے ۔ مدینہ منورہ افضل یامکہ مکرمہ؟ اس بات کا بیان کہ مکہ افضل ہے یا مدینہ؟ جیسا کہ جمہور کا قول ہے جیسے کہ امام مالک اور ان کے تابعین کا مذہب ہے مدینہ افضل ہے مکہ سے ۔ اسے دونوں طرف کے دلائل کے ساتھ عنقریب ہم بیان کریں گے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ حضرت ابراہیم دعا کرتے ہیں کہ باری تعالیٰ اس جگہ کو امن والا شہر بنا یعنی یہاں کے رہنے والوں کو نڈر اور بےخوف رکھ ۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرماتا ہے جیسے کہ فرمایا آیت ( وَمَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا ) 3 ۔ آل عمران:97 ) اس میں جو آیا وہ امن والا ہو گیا اور جگہ ارشاد ہے آیت ( اولم یروا ) الخ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو امن والا بنایا لوگ اسکے آس پاس سے اچک لئے جاتے ہیں اور یہاں وہ پر امن رہتے ہیں ۔ اسی قسم کی اور آیتیں بھی ہیں اور اس مضمون کی بہت سی حدیثیں بھی اوپر گزر چکی ہیں کہ مکہ شریف میں قتال حرام ہے ۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے کسی کو حلال نہیں کہ مکہ میں ہتھیار اٹھائے ( صحیح مسلم ) آپ کی یہ دعا حرمت کعبۃ اللہ کی بنا سے پہلے تھی اس لیے کہا کہ اے اللہ اس جگہ کو امن والا شہر بنا ، سورۃ ابراہیم میں یہی دعا ان لفظوں میں ہے آیت ( رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا ) 14 ۔ ابراہیم:35 ) شاید یہ دعا دوبارہ کی تھی ۔ جب بیت اللہ شریف تیار ہو گیا اور شہر بس گیا اور حضرت اسحاق جو حضرت اسمٰعیل سے تین سال چھوٹے تھے تولد ہو چکے اسی لیے اس دعا کے آخر میں ان کی پیدائش کا شکریہ بھی ادا کیا ومن کفر سے آخرتک اللہ تعالیٰ کا کلام ہے بعض نے اسے بھی دعا میں دخل کیا ہے تو اس تقدیر پر یہ مطلب ہوگا کہ کفار کو بھی تھوڑا سا فائدہ دے پھر انہیں عذاب کی طرف بےبس کر اس میں بھی حضرات ابراہیم کی خلت ظاہر ہوتی ہے کہ وہ اپنی بری اولاد کے بھی مخالف ہیں اور اسے کلام اللہ ماننے کا یہ مطلب ہوگا کہ چونکہ امامت کا سوال جب اپنی اولاد کے لیے کیا اور ظالموں کی محرومی کا اعلان سن چکے اور معلوم ہو گیا کہ آپ پیچھے آنے والوں میں بھی اللہ کے نافرمان ہوں گے تو مارے ڈر کے ادب کے ساتھ بعد میں آنے والی نسلوں کو روزی طلب کرتے ہوئے صرف ایماندار اولاد کے لیے کہا ۔ ارشاد باری ہوا کہ دنیا کا فائدہ تو کفار کو بھی دیتا ہے جیسے اور جگہ ہے آیت ( كُلًّا نُّمِدُّ هٰٓؤُلَاۗءِ وَهٰٓؤُلَاۗءِ مِنْ عَطَاۗءِ رَبِّكَ ۭ وَمَا كَانَ عَطَاۗءُ رَبِّكَ مَحْظُوْرًا ) 17 ۔ الاسرآء:20 ) یعنی ہم انہیں اور ان کو بھی فائدہ دیں گے تیرے رب کی بخشش محدود نہیں اور جگہ ہے جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ فلاح نہیں پاتے دنیا کا کچھ فائدہ گو اٹھا لیں لیکن ہماری طرف آ کر اپنے کفر کے بدلے سخت عذاب چکھیں گی اور جگہ ہے کافروں کا کفر تجھے غمگین نہ کرے جب یہ ہماری طرف لوٹیں گے تو ان کے اعمال پر ہم انہیں تنبیہہ کریں گے اللہ تعالیٰ سینوں کی چھپی باتوں کو بخوبی جانتا ہے ہم انہیں یونہی سا فائدہ پہنچا کر سخت غلیظ عذابوں کی طرف بےقرار کریں گے اور جگہ ہے آیت ( وَلَوْلَآ اَنْ يَّكُوْنَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً لَّجَعَلْنَا لِمَنْ يَّكْفُرُ بِالرَّحْمٰنِ لِبُيُوْتِهِمْ سُقُفًا مِّنْ فِضَّةٍ وَّمَعَارِجَ عَلَيْهَا يَظْهَرُوْنَ ) 43 ۔ الزخرف:33 ) اگر یہ خطرہ نہ ہو تاکہ لوگو ایک ہی امت ہو جائیں تو ہم کافروں کی چھتیں اور سیڑھیاں چاندی کی بنا دیتے اور ان کے گھر کے دروازے اور تخت جن پر ٹیکے لگائے بیٹے رہتے اور سونا بھی دیتے لیکن یہ سب دنیوی فوائد ہیں آخرت کا بھلا گھر تو صرف پرہیزگاروں کے لیے ہے یہی مضمون اس آیت میں بھی ہے کہ ان کا انجام برا ہے یہاں ڈھیل پا لیں گے لیکن وہاں سخت پکڑ ہوگی ۔ جیسے اور جگہ ہے آیت ( فَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اَهْلَكْنٰهَا وَهِىَ ظَالِمَةٌ فَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلٰي عُرُوْشِهَا وَبِئْرٍ مُّعَطَّلَةٍ وَّقَصْرٍ مَّشِيْدٍ ) 22 ۔ الحج:45 ) بہت سی ظالم بستیوں کو ہم نے مہلت دی پھر پکڑ لیا انجام کو تو ہمارے ہی پاس لوٹنا ہے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے گندی باتوں کو سن کر صبر کرنے میں اللہ سے بڑھ کر کوئی نہیں لوگ اس کی اولاد بتاتے ہیں لیکن تاہم وہ انہیں رزق و عافیت دے رہا ہے اور حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا ہے پھر اسے اچانک پکڑ لیتا ہے پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی آیت ( وَكَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰي وَهِىَ ظَالِمَةٌ ۭ اِنَّ اَخْذَهٗٓ اَلِيْمٌ شَدِيْدٌ ) 11 ۔ ہود:102 ) اس جملہ کو حضرت ابراہیم کی دعا میں شامل کرنا شاذ قرأت کی بنا پر ہے جو ساتوں قاریوں کی قرأت کے خلاف ہے اور ترکیب سیاق و سباق بھی یہی ظاہر کرتی ہے واللہ اعلم ۔ اس لئے کہ قال کی ضمیر کا مرجع اللہ کی طرف ہے اور اس شاذ قرأت کی بنا پر اس کے فاعل اور قائل بھی حضرت ابراہیم ہی ہوتے ہیں جو نظم کلام سے بظاہر مخالف ہے واللہ اعلم ۔ قواعد جمع ہے قاعدہ کی ترجمہ اس کا پایہ اور نیو ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے والوں کو بنائے ابراہیمی کی خبر دو ، ایک قرأت میں واسمعیل کے بعد ویقولان بھی ہے اسی دلالت میں آگے لفظ مسلمین بھی ہے دونوں نبی نیک کام میں مشغول ہیں اور قبول نہ ہونے کا کھٹکا ہے تو اللہ تعالیٰ سے قبولیت کی دعا کرتے ہیں حضرت وہیب بن ورد جب اس آیت کی تلاوت کرتے تو بہت روتے اور فرماتے آہ خلیل الرحمن جیسے اللہ کے مقبول پیغمبر اللہ کا کام اللہ کے حکم سے کرتے ہیں اس کا گھر اس کے فرمان سے بناتے ہیں اور پھر خوف ہے کہ کہیں یہ قبولیت سے گر نہ جائے سچ ہے مخلص مومنوں کا یہی حال ہے آیت ( وَالَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَ ) 23 ۔ المومنون:60 ) وہ نیک کام کرتے ہیں صدقے خیرات کرتے ہیں لیکن پھر بھی خوف اللہ سے کانپتے رہتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ قبول نہ ہوں حضرت ابراہیم اٹھاتے تھے اور دعا حضرت اسماعیل کرتے تھے لیکن صحیح یہی ہے کہ دونوں ہر ایک کام میں شریک تھے صحیح بخاری شریف کی ایک روایت اور بعض اور آثار بھی اس واقعہ کے متعلق یہاں ذکر کئے جانے کے قابل ہیں ابن عباس فرماتے ہیں کہ کمر بند باندھنا عورتوں نے حضرت اسمٰعیل کی والدہ محترمہ سے سیکھا ہے انہوں نے باندھا تھا کہ حضرت مائی سارہ کو ان کا نقش قدم نہ ملے انہیں اور ان کے جگر کے ٹکڑے اپنے اکلوتے فرزند حضرت اسمٰعیل کو لے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نکلے جبکہ یہ پیارا بچہ دودھ پیتا تھا ۔
26۔ 1 اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعائیں قبول فرمائیں، یہ شہر امن کا گہوارہ بھی ہے اور وادی (غیر کھیتی والی) ہونے کے باوجود اس میں دنیا بھر کے پھل فروٹ اور ہر قسم کے غلے کی وہ فراوانی ہے جسے دیکھ کر انسان حیرت و تعجب میں ڈوب جاتا ہے۔
[١٥٤] یعنی اس بےآب وگیاہ اور ویران سے مقام کو ایک پرامن شہر بنا دے اور جو لوگ یہاں آباد ہوں انہیں پھلوں کا رزق مہیا فرما۔ چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ دعا قبول ہوئی اور یہ مقام آج تک پرامن اور قابل احترام ہے۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی حرمت کی از سر نو توثیق کردی جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :- ابو شریح نے عمر و بن سعید کو (جو یزید کی طرف سے مدینہ کا حاکم تھا) کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دوسرے دن خطبہ ارشاد فرمایا۔ پہلے حمد و ثنا بیان کی۔ پھر فرمایا : اللہ نے مکہ کو حرام کیا ہے۔ لوگوں نے نہیں کیا، تو جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے نہ وہاں خون بہانا درست ہے اور نہ کوئی درخت کاٹنا۔ (بخاری، کتاب العلم، باب لیبلغ العلم الشاھد الغائب۔۔ الخ - [ ١٥٥] حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب امامت کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے پوچھا تو جواب ملا کہ وہ صرف صالح لوگوں کو ملے گی ظالموں کو نہیں ملے گی۔ تو اب ابراہیم (علیہ السلام) نے پھلوں کا رزق عطا کرنے کی دعا میں ایمانداری کی شرط از خود بڑھا دی۔ تو اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ رزق کے معاملہ میں ایمانداری کوئی شرط نہیں وہ تو میں نیک اور بد سب کو دوں گا۔ وہ محبت اور ایمانداری کی شرط صرف امامت کے لیے ہے رزق کے لیے نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ دعا بھی قبول فرمائی اور مکہ معظمہ کو امن والا شہر بنادیا۔ اب حرم کی حدود میں کسی کا خون بہانا، اس کے درختوں کو کاٹنا، شکار کو بھگانا وغیرہ جائز نہیں اور رزق کی وہ فراوانی فرمائی کہ مکہ میں کھیتی باڑی نہ ہونے کے باوجود وہاں سارا سال دنیا بھر کے تازہ پھل اور ہر قسم کا غلہ اتنی فراوانی سے ملتا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کی قبولیت آنکھوں سے نظر آتی ہے۔ - اس سے پہلے ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کے لیے امامت کی دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچتا، اب ابراہیم (علیہ السلام) نے رزق کی دعا ظالموں کو نکال کر صرف ایمان والوں کے لیے کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا، میں دنیاوی رزق کفار کو بھی دوں گا، البتہ آخرت میں ان کے لیے عذاب ہے۔ معلوم ہوا دنیا میں کسی کے پاس رزق کی کثرت اس پر اللہ تعالیٰ کے خوش اور راضی ہونے کی دلیل نہیں۔
خلاصہ تفسیر :- اور (وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے) جس وقت ابراہیم (علیہ السلام) نے (دعا میں) عرض کیا کہ اے میرے پروردگار اس (موقع) کو ایک (آباد) شہر بنا دیجئے (اور شہر بھی کیسا) امن (امان) والا اور اس کے بسنے والوں کو پھلوں (کی قسم) سے بھی عنایت کیجئے (اور میں سب بسنے والوں کو نہیں کہتا بلکہ خاص) ان کو (کہتا ہوں) جو ان میں اللہ تعالیٰ پر اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہوں (باقیوں کو آپ جانیں) حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا (کہ چونکہ رزق ہمارا خاص نہیں ہے اس لئے ثمرات سب کو دوں گا مومن کو بھی) اور اس شخص کو بھی جو کافر رہے (البتہ نجات آخرت چونکہ اہل ایمان کے ساتھ خاص ہے) (اس واسطے) ایسے شخص کو (جو کہ کافر رہے) تھوڑے روز (یعنی دنیا میں) تو خوب آرام برتاؤں گا (لیکن) پھر (بعد مرگ) اس کو کشاں کشاں عذاب دوزخ میں پہنچا دوں گا اور ایسی پہنچنے کی جگہ تو بہت بری ہے (اللہ بچاوے اور وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے) جبکہ اٹھا رہے تھے ابراہیم (علیہ السلام) دیواریں خانہ کعبہ کی اور (ان کے ساتھ) اسماعیل (علیہ السلام) بھی (اور یہ بھی کہتے جاتے تھے کہ) اے ہمارے پروردگار (یہ خدمت) ہم سے قبول فرمائیے بلاشبہ آپ خوب سننے والے جانتے والے ہیں (ہماری دعا کو سنتے ہیں ہماری نیتوں کو جانتے ہیں) اے ہمارے پروردگار اور (ہم دونوں یہ دعا بھی کرتے ہیں کہ) ہم کو اپنا اور زیادہ مطیع بنا لیجئے اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک ایسی جماعت پیدا کی جیئے جو آپ کی مطیع ہو اور (نیز) ہم کو ہمارے حج (وغیرہ) کے احکام بھی بتلا دیجئے اور ہمارے حال پر (مہربانی کے ساتھ) توجہ رکھئے اور فی الحقیقت آپ ہی ہیں توجہ فرمانے والے مہربانی کرنے والے،- معارف و مسائل :- حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) نے اللہ کی راہ میں قربانیاں دیں مال ومنال اہل و عیال اور خود اپنے نفس کی خواہشات کو نظر انداز کرکے تعمیل احکام ربانی میں مسارعت کے جو کارنامے پیش کئے وہ عجائب روزگار میں سے ہیں۔- اس کے ساتھ اہل و عیال پر شفقت و محبت ایک طبعی اور فطری امر ہونے کے ساتھ حکم ربانی بھی ہے مذکور الصدر آیات اس کا مظہر ہیں انہوں نے اپنے اہل و عیال کیلئے دین و دنیا کی آسائش و راحت کے لئے دعائیں مانگی ہیں، - حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعائیں :- دعا کو شروع لفظ رب سے کیا ہے جس کے معنی ہیں اے میرے پالنے والے ان الفاظ میں دعا مانگنے کا سلیقہ سکھایا ہے کہ خود یہ الفاظ حق تعالیٰ کی رحمت اور لطف وکرم کو متوجہ کرنے پر مؤ ثر دواعی ہیں پھر سب سے پہلی دعا یہ فرمائی کہ اس چٹیل میدان کو جس میں آپ کے حکم کے مطابق میں نے اپنے اہل و عیال کو لا ڈالا ہے آپ ایک شہر بنادیں تاکہ یہاں کی سکونت میں ان کو وحشت نہ ہو اور ضروریات زندگی بآسانی میسر آجائیں یہی دعا سورة ابراہیم میں ھٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا کے الفاظ سے آئی ہے جس میں البلد کو الف لام کے ساتھ ذکر کیا ہے جو عربی زبان کی اصطلاح میں معرفہ کہلاتا ہے فرق کی وجہ غالباً یہ ہے کہ پہلی دعا جو آیت سورة بقرہ میں بلدا کے لفظ سے آئی ہے یہ اس وقت کی گئی ہے جب یہ جگہ جنگل تھی شہر بنا نہیں تھا اس وقت بلد کو بغیر الف لام کے نکرہ استعمال کیا اور دوسری دیا بظاہر اسوقت کی ہے جب مکہ کی بستی بس گئی اور وہ شہر معروف بن گیا اس کا قرینہ یہ ہے کہ سورة ابراہیم کی آخری آیات میں ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ وَهَبَ لِيْ عَلَي الْكِبَرِ اِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ (٣٩: ١٤) جس سے اندازہ یہ ہوتا ہے کہ دعا حضرت اسحاق کی پیدائش کے بعد کی ہے اور حضرت اسحاق حضرت سمٰعیل سے تیرہ سال بعد میں پیدا ہوئے (ابن کثیر) - دوسری دعا اس میں یہ ہے کہ اس شہر کو امن والا شہر بنا دیجئے یعنی جو قتل و غارت گری سے کفار کے تسلط سے اور آفات سے مامون و محفوظ رہے،- حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) کی یہ دعا قبول ہوئی اور مکہ مکرمہ ایسا شہر ہوگیا کہ اس کی اپنی آبادی کے علاوہ ساری دنیا کا مرجع بن گیا اطراف عالم سے مسلمان وہاں پہنچنے کو اپنی سب سے بڑی سعادت سمجھتے ہیں اور مامون و محفوظ بھی ہوگیا کہ بیت اللہ کے مخالف کسی قوم اور کسی بادشاہ کا اس پر تسلط نہیں ہوسکا اصحاب فیل کا واقعہ خود قرآن میں مذکور ہے کہ انہوں نے بیت اللہ پر حملے کا قصد کیا تو پورے لشکر کو تباہ و برباد کردیا گیا،- یہ شہر قتل و غارت گری سے بھی محفوظ چلا آیا ہے اسلام سے پہلے بھی زمانہ جاہلیت والے کتنی ہی خرابیوں اور کفر و شرک کی رسموں میں مبتلا ہونے کے باوجود بیت اللہ اور اس کے ماحول حرم کی تعظیم و تکریم کو ایسا مذہبی فریضہ سمجھتے تھے کہ کیسا ہی دشمن وہاں کسی کو مل جائے حرم میں اس سے قصاص یا انتقام نہ لیتے تھے بلکہ سکان حرم کی تعظیم و تکریم بھی پورے عرب میں عام تھی اسی لئے مکہ والے ملک شام اور یمن سے تجارتی درآمد وبرآمد کا سلسلہ رکھتے تھے اور کوئی ان کی راہ میں حائل نہ ہوتا تھا،- حدود حرم میں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے جانوروں کو بھی امن دیا ہے اس میں شکار جائز نہیں ایسا ہی جانوروں میں بھی یہ قدرتی احساس پیدا فرما دیا ہے کہ حدود حرم میں آکر جانور اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا ہے کسی شکاری آدمی سے نہیں گھبراتا،- حرم محترم کے مامون ہونے کے یہ احکام جو دعا ابراہیمی کا نتیجہ ہیں زمانہ جاہلیت سے قائم چلے آتے تھے اسلام اور قرآن نے ان کو اور زیادہ نکھارا اور تقویت پہنچائی حجاج ابن یوسف اور پھر قرامطہ کے ظلم وستم اور بدکاریوں سے جو قتل و قتال حرم میں ہوا اول تو وہ خود اسلام کا نام لینے والوں کے ہاتھوں ہوا کوئی کافر قوم حملہ آورنہ تھی اور کوئی شخص خود اپنے گھر کو آگ لگائے تو وہ امن کے منافی نہیں اس کے علاوہ یہ واقعات شاذہ ہیں جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے لے کر آج تک ہزاروں سال کی مدت میں گنے چنے ہیں اور قتل و قتال کے بعد ایسا کرنے والوں کا انجام بد بھی سب کے سامنے آگیا،- خلاصہ یہ ہے کہ دعاء ابراہیمی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اس شہر کو ایک مامون شہر اور تمام دنیا کے لیے امن کی جگہ قدرتی طور پر بھی بنادی ہے یہاں تک کہ دجال کو بھی حرم میں داخل ہونے کی قدرت نہ ہوگی اور شرعی طور پر بھی یہ احکام جاری فرمادئیے کہ حرم میں باہمی قتل و قتال تو کیا جانوروں کا شکار بھی حرام کردیا گیا،- تیسری دعا یہ فرمائی کہ اس شہر کے باشندوں کو پھلوں کا رزق عطا فرمائیے مکہ مکرمہ اور اس کے آس پاس کی زمین نہ کسی باغ وچمن کی متحمل تھی نہ وہاں دور دور تک پانی کا نام ونشان تھا مگر حق تعالیٰ نے دعا ابراہیمی کو قبول فرمایا اور مکہ کے قریب ہی طائف کا ایک ایسا خطہ بنادیا جس میں ہر طرح کے بہترین پھل بکثرت پیدا ہوتے اور مکہ مکرمہ آکر فروخت ہوتے ہیں بعض اسرائیل روایات میں ہے کہ طائف دراصل ملک شام کا خطہ تھا جس کو بحکم خداوندی جبرئیل امین نے یہاں منتقل کردیا،- حکمت ابراہیمی :- حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی دعاء میں یہ نہیں فرمایا کہ مکہ اور اس کے ماحول کو گلزار اور پھلوں کی زمین یا قابل کاشت بنا دیجئے بلکہ دعا یہ فرمائی کہ یہ چیزیں پیدا کہیں اور ہوں مگر مکہ میں پہنچا کریں اس میں شاید یہ راز ہو کہ حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) یہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی اولاد کا شتکاری یا باغبانی کے کاموں میں مشغول ہوجائے کیونکہ ان کو اس جگہ آباد کرنے کا منشاء تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے خود یہ فرما دیا رَبَّنَا لِيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) اپنی اولاد کا اصل مشغلہ بیت اللہ کی حفاظت اور نماز کو رکھنا چاہتے تھے ورنہ کیا مشکل تھا کہ خود مکہ مکرمہ کو ایسا گلزار بنادیا جاتا کہ دمشق وبیروت اس پر رشک کرتے،- رزق ثمرات تمام ضروریات زندگی کو شامل ہے :- لفظ ثمرات جو ثمرہ کی جمع ہے اس کے معنی پھل کے ہیں اور بظاہر اس سے مراد درختوں کے پھل لیکن سورة قصص آیت نمبر ٥٧ میں اس دعا کی قبولیت کا اظہار ان الفاظ میں فرما دیا ہے یجبی الیہ ثمرات کل شیء ان الفاظ میں ایک تو اس کی تصریح ہے کہ خود مکہ میں یہ پھل پیدا کرنے کا وعدہ نہیں بلکہ دوسرے مقامات سے یہاں لائے جایا کریں گے کیونکہ لفظ یجبیٰ کا یہی مفہوم ہے دوسرے ثمرات کل شجر نہیں فرمایا بلکہ ثمرات کل شیء فرمایا اس تغییر لفظی سے ذہن اس طرف جاتا ہے کہ یہاں ثمرات کو عام کرنا مقصود ہے کیونکہ ثمرہ عرف میں ہر چیز سے حاصل ہونے والی پیداوار کو کہا جاتا ہے درختوں سے پیدا ہونے والے پھل جس طرح اس میں داخل ہیں اسی طرح مشینوں سے حاصل ہونے والا کل سامان بھی مشینوں کے ثمرات ہیں اسی طرح مختلف دستکاریوں سے بننے والا سامان ان دستکاریوں کے ثمرات ہیں اس طرح ثمرات کل شیء میں تمام ضروریات زندگی داخل ہوجاتی ہیں اور حالات و واقعات کا مشاہدہ بھی یہ ثابت کرتا ہے کہ حق تعالیٰ نے اگرچہ ارض حرم کو نہ کاشت کی زمین بنایا ہے نہ صنعتکاری کی لیکن دنیا بھر میں پیدا ہونے والی اور بننے والی چیزیں یہاں عام طور پر مل جاتی ہیں اور یہ بات شاید آج بھی کسی بڑے سے بڑے تجارتی یا صنعتی شہر کو حاصل نہ ہو کہ دنیا بھر کی مصنوعات بکثرت وبآسانی وہاں مل جاتی ہیں،- حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) کی احتیاط :- اس آیت میں جبکہ اہل مکہ کے لئے امن اور فراخی عیش کی دعا کی گئی تو ان میں مومن کافر سب داخل تھے اور اس سے پہلے حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) نے جب ایک دعا میں اپنی پوری ذریت کو بغیر امتیاز مومن و کافر جمع کیا تھا تو حق تعالیٰ کی طرف سے یہ ارشاد آیا تھا کہ یہ دعا مؤ منوں کے حق میں قبول ہے ظالم مشرکوں کے حق میں قابل قبول نہیں وہ دعا تھی امامت و اقتدار کی حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) کو جو مقام خلت پر فائز اور خشیۃ اللہ سے لبریز تھے صرف مؤمنین کے لئے کرتا ہوں حق تعالیٰ کی طرف سے اس خشیت و احتیاط کی قدر کی گئی اور فرمایا ومن کفر یعنی یہ دنیوی خوش حالی اور اقتصادی فراخی ہم سبھی اہل مکہ کو عطا کریں گے اگرچہ وہ ظالم مشرک و کافر ہی ہوں البتہ مؤمنین کو یہ خوش حالی جس طرح دنیا میں دی جائے گی اسی طرح آخرت میں بھی عطا ہوگی اور کافروں کو آخرت میں عذاب کے سوا کچھ نہیں۔
وَاِذْ قَالَ اِبْرٰہٖمُ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّارْزُقْ اَھْلَہٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ٠ ۭ قَالَ وَمَنْ كَفَرَ فَاُمَتِّعُہٗ قَلِيْلًا ثُمَّ اَضْطَرُّہٗٓ اِلٰى عَذَابِ النَّارِ ٠ ۭ وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ ١٢٦- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- هذا ( ذَاكَ ذلك)- وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام 131] ، إلى غير ذلك .- ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔- رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - ثمر - الثَّمَرُ اسم لكلّ ما يتطعم من أحمال الشجر، الواحدة ثَمَرَة، والجمع : ثِمَار وثَمَرَات، کقوله تعالی: أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقاً لَكُمْ [ البقرة 22]- ( ث م ر ) الثمر - اصل میں درخت کے ان اجزاء کو کہتے ہیں جن کو کھایا جاسکے اس کا واحد ثمرۃ اور جمع ثمار وثمرات آتی ہے قرآن میں ہے :۔ أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقاً لَكُمْ [ البقرة 22] اور آسمان سے مبینہ پرسا کر تمہارے کھانے کے لئے انواع و اقسام کے میوے پیدا کیے ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے منیط ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- متع ( سامان)- وكلّ ما ينتفع به علی وجه ما فهو مَتَاعٌ ومُتْعَةٌ ، وعلی هذا قوله : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65] أي : طعامهم، فسمّاه مَتَاعاً ، وقیل : وعاء هم، وکلاهما متاع، وهما متلازمان، فإنّ الطّعام کان في الوعاء .- ( م ت ع ) المتوع - ہر وہ چیز جس سے کسی قسم کا نفع حاصل کیا جائے اسے متاع ومتعۃ کہا جاتا ہے اس معنی کے لحاظ آیت کریمہ : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65] جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا ۔ میں غلہ کو متاع کہا ہے اور بعض نے غلہ کے تھیلے بابور یاں مراد لئے ہیں اور یہ دونوں متاع میں داخل اور باہم متلا زم ہیں کیونکہ غلہ ہمیشہ تھیلوں ہی میں ڈالا جاتا ہے - قل - القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] - ( ق ل ل ) القلۃ - والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔ - الاضْطِرَارُ :- حمل الإنسان علی ما يَضُرُّهُ ، وهو في التّعارف حمله علی أمر يكرهه، وذلک علی ضربین :- أحدهما :- اضطرار بسبب خارج کمن يضرب، أو يهدّد، حتی يفعل منقادا، ويؤخذ قهرا، فيحمل علی ذلك كما قال : ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلى عَذابِ النَّارِ [ البقرة 126]- والثاني :- بسبب داخل وذلک إمّا بقهر قوّة له لا يناله بدفعها هلاك، كمن غلب عليه شهوة خمر أو قمار، وإمّا بقهر قوّة يناله بدفعها الهلاك، كمن اشتدّ به الجوع فَاضْطُرَّ إلى أكل ميتة، وعلی هذا قوله : فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ باغٍ وَلا عادٍ [ البقرة 173]- الاضطرار - کے اصل معنی کسی کو نقصان وہ کام پر مجبور کرنے کے ہیں اور عرف میں اس کا استعمال ایسے کام پر مجبور کرنے کے لئ ہوتا ہے جسے وہ ناپسند کرتا ہو ۔ اور اس کی دو صورتیں ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ مجبوری کسی خارجی سبب کی بنا پر ہو مثلا مار پٹائی کی جائے یا دھمکی دی جائے حتی ٰ کہ وہ کسی کام کے کرنے پر رضا مند ہوجائے یا زبردستی پکڑکر اس سے کوئی کام کروایا جائے جیسے فرمایا : ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلى عَذابِ النَّارِ [ البقرة 126] پھر اس عذاب دوزخ کے بھگتنے کے لئے ناچار کردوں گا ۔- ۔ دوم یہ کہ وہ مجبوری کسی داخلی سبب کی بنا پر ہو اس کی دوقسمیں ہیں - (1) کسی ایسے جذبہ کے تحت وہ کام کرے جسے نہ کرنے سے اسے ہلاک ہونیکا خوف نہ ہو مثلا شراب یا قمار بازی کی خواہش سے مغلوب ہوکر انکا ارتکاب کرے - (2) کسی ایسی مجبوری کے تحت اس کا ارتکاب کرے جس کے نہ کرنے سے اسے جان کا خطرہ ہو مثلا بھوک سے مجبور ہوکر مردار کا گوشت کھانا ۔ چناچہ آیت کریمہ : فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ باغٍ وَلا عادٍ [ البقرة 173] ہاں جو ناچار ہوجائے بشرطیکہ خدا کی نافرمانی نہ کرے اور حد ( ضرورت ) سے باہر نہ نکل جائے ۔- إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت .- الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ : وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں - عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - بِئْسَ- و «بِئْسَ» كلمة تستعمل في جمیع المذام،- كما أنّ نعم تستعمل في جمیع الممادح، ويرفعان ما فيه الألف واللام، أو مضافا إلى ما فيه الألف واللام، نحو : بئس الرجل زيد، وبئس غلام الرجل زيد . وينصبان النکرة نحو : بئس رجلا، ولَبِئْسَ ما کانوا يَفْعَلُونَ [ المائدة 79] ، أي : شيئا يفعلونه،- ( ب ء س) البؤس والباس - بئس ۔ فعل ذم ہے اور ہر قسم کی مذمت کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ نعم ہر قسم کی مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے ان کا اسم اگر معرف بالللام ہو یا معرف باللام کی طرف مضاف ہو تو اسے رفع دیتے ہیں جیسے بئس الرجل زید وبئس غلام الرجل زید ۔ اور اسم نکرہ کو نصب دیتے ہیں جیسے قرآن میں ہے ؛ ۔ بِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ( سورة المائدة 79) یعنی بلا شبہ وہ برا کرتے تھے - صير - الصِّيرُ : الشِّقُّ ، وهو المصدرُ ، ومنه قرئ : فَصُرْهُنَّ وصَارَ إلى كذا : انتهى إليه، ومنه : صِيرُ البابِ لِمَصِيرِهِ الذي ينتهي إليه في تنقّله وتحرّكه، قال : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری 15] .- و «صَارَ» عبارةٌ عن التّنقل من حال إلى حال .- ( ص ی ر ) الصیر - کے معنی ایک جانب یا طرف کے ہیں دراصل یہ صار ( ض) کا مصدر ہے ۔ اور اسی سے آیت فصوھن ہیں ایک قرآت فصرھن ہے ۔ صار الی کذا کے معنی کسی خاص مقام تک پہنچ جانا کے ہیں اسی سے صیر الباب ہے جس کے معنی درداڑہ میں شگاف اور جھروکا کے ہیں اور اسے صیر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ نقل و حرکت کا منتہی ہوتا ہے اور صار کا لفظ ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہونے پر بولا جاتا ہے ۔ اسی سے المصیر اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی چیز نقل نہ حرکت کے بعد پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری 15] یعنی اللہ تعالیٰ ہی لوٹنے کی جگہ ہے ۔
قول باری ہے : واذ قال ابراھیم رب اجعل ھذا بلدا امنا (اور یہ کہ ابراہیم نے دعا کی۔ اے میرے رب، اس شہر کو امن کا شہر بنا دے) اس آیت میں دو معنوں کا احتمال ہے اول یہ کہ یہ شہر مامون فیہ ہو، یعنی اس میں امن و امان رہے جس طرح یہ قول باری ہے : فی عیشۃ راضیۃ یعنی فی عیشۃ مریضۃ (پسندیدہ زندگی میں) دوم یہ کہ اس سے مراد مکہ میں رہنے والے ہیں جس طرح یہ قول باری ہے : واسئل القریۃ (اور گائوں سے پوچھو) یعنی گائوں والوں سے پوچھو، یہ تعبیر مجاز پر مبنی ہے، اس لئے کہ امن اور خوف شہر کو لاحق نہیں ہوتے۔ بلکہ شہر میں رہنے والوں کو لاحق ہوتے ہیں۔- آیت میں جس امن کی التجا کی گئی ہے اس کی تفسیر میں اختلاف رائے ہے۔ کچھ حضرات کا قول ہے کہ قحط اور خشک سالی سے امن کی ا لتجا کی گئی ہے کیونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے اہل و عیال کو ایسی وادی میں لا بسایا تھا جہاں نہ کسی زراعت کا نام و نشان تھا اور نہ دودھ دینے والے جانوروں کا ہی۔ آپ نے زمین دھنس جانے اور پتھر برسنے سے امن کی التجا نہیں کی تھی کیونکہ مکہ کی سر زمین ان باتوں سے پہلے ہی مامون و محفوظ تھی، ایک قول کے مطابق آپ نے مذکورہ بالا چیزوں سے امن کی درخواست کی تھی۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ زیر بحث قول باری اس قول باری کی طرح ہے : مشابۃ للناس وامناً نیز : ومن دخلہ کان امناً ۔ واللہ اعلم۔- زیر بحث قول باری سے مراد قتل سے امن ہے، وہ اس طرح کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے امن کی التجا کے ساتھ ساکنان شہر کے لئے پھلوں سے رزق عطا کرنے کی بھی درخواست کی تھی، چناچہ ارشاد ہے : رب اجعل ھذا بلداً امنا وارزق اھلہ من الثمرات۔ (اے میرے رب، اس شہر کو امن کا شہر بنا دے اور اس کے باشندوں کو ہر قسم کے پھلوں کا رزق دے) دوسری جگہ قرآن کے الفاظ میں امن کی التجا کرنے کے بعد دعا کی : رب اجعل ھذا البلداً امناً واجنبنی وبنی ان تعبدا لا صنا م (اے میرے پروردگار، اس شہر کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا) پھر اسی سیاق میں کہا : ربنا الی اسکنت من ذریتی بواد غیر ذی زرع عند بیتک المحرم (پروردگار) میں نے ایک بےآب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لابسایا ہے) تا قول باری : وارزقھم من الثمرات (اور انہیں کھانے کو پھل دے) ان آیتوں میں امن کے سوال کے ساتھ کھانے کو پھل دینے کا بھی ذکر ہے۔ اس لئے یہ بات اولیٰ ہوگی کہ امن کے سوال کو ایک ایسے نئے فائدے کے معنوں پر محمول کیا جائے جو سیاق کے اندر مذکورہ فائدے یعنی رزق کے علاوہ ہو جسے منصوص طور پر بیان کردیا گیا ہے۔- یہاں اگر کوئی یہ کہے کہ اگر اللہ تعالیٰ مکہ پر قتل سے امن کا حکم عائد کردیتا تو یہ حکم تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے سے پہلے ہی اس شہر پر عائد ہوچکا تھا کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : اللہ تعالیٰ نے مکہ کو اسی دن حرام یعنی محترم قرار دے دیا تھا جس دن اس نے زمین اور آسمانوں کی تخلیق کی تھی ۔ مجھ سے پہلے کسی کے لئے مکہ لحال قرار نہیں دیا گیا اور نہ میرے بعد ہی کسی کے لئے حلال قرار دیا اجئے گا۔ میرے لئے بھی اسے دن کی ایک گھڑی بھر کے لئے حلال کردیا گیا تھا۔- اس کے جواب میں کہ اجائے گا کہ یہ بات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سوال کی صحت کے منافی نہیں ہے، کیونکہ یہ جائز ہے کہ مکہ میں قتل و قتال کی تحریم کا حکم منسوخ کردیا گیا ہو اور پھر حضرت ابراہیم علیہ ا لسلام نے اللہ سے سوال کیا ہو کہ تحریم کا حکم جاری رکھا جائے اور میرے بعد آنے والے پیغمبروں کے زمانوں میں بھی اسے باقی رکھا جائے۔- بعض حضرات کا کہنا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سوال سے پہلے مکہ حرم اور جائے امن نہیں تھا، کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ کو حرم قرار دیا اور میں نے مدینہ کو حرم قرار دیا۔ زمین و آسمان کی تخلیق کے دن مکہ کو حرم قرار دنیے کی روایتیں مذکورہ بالا روایت سے زیادہ صحیح اور قوی ہیں اور اس کے سات ھیہ بات بھی ہے کہ اس روایت کے اندر ایسی کوئی دلالت موجود نہیں ہے جس سے پتہ چل سکے کہ حضرت ابراہیم سے پہلے مکہ حرم نہیں تھا، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ کو اس لئے حرم قرار دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ اس سے پیشتر ہی اسے حرم قرار دے چکا تھا۔ انہوں نے تو بس اس معاملہ میں اللہ کے حکم کی پیروی کی تھی۔ اس میں کوئی ایسی دلالت موجود نہیں ہے جس سے معلوم ہو سکے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے عہد سے پہلے اس صورت کے سوا جس کے تحت دعائے ابراہیمی کے بعد مکہ حرام قرار پایا تھا، کسی اور صورت میں مکہ کی تحریم کی نفی ہوتی ہے۔- دعائے ابراہیمی کے بعد مکہ کی تحریم کی پہلی صورت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے وہاں کے باشندوں کو برباد ہونے سے، زمین میں دھنس جانے اور پتھروں کی بارش کے عذاب سے محفوظ رکھا جس کی لپی ٹ میں دوسرے شہروں اور بستیوں کے لوگ آئے تھے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں میں مکہ کی تعظیم کا جذبہ پیدا کردیا اور اس کی ہیبت و جلال کا سکہ بٹھا دیا تھا۔ تحریم کی دوسری صورت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء اور رسل کی زبانی مکہ کے جائے امن ہونے کا حکم دنیا والوں تک پہنچا دیا تھا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی مانگی ہوئی دعا قبول کرلی تھی۔- قول باری ہے : ومن کفرفا متعہ قلیلاً (اور جو نہ مانے گا دنیا کی چند روزہ زندگی کا سامان تو میں اسے بھی دوں گا) یہ آیت اس امر کو متضمن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کی دعا قبول کرلی تھی اور انہیں بتادیا تھا کہ وہ ان لوگوں کو بھی دنیا میں سامان زندگی عطا کرے گا جو اللہ کو نہیں مانیں گے، جبکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا صرف ان لوگوں کے لئے تھی، جو اللہ اور یوم آخر پر ایمان لے آنے والے تھے۔ اس طرح قول باری : ومن کفر میں مذکورہ حرف وائو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کی اجابت، نیز مستقبل کی اس خبر پر دلالت کرتا ہے کہ نہ ماننے والوں کو بھی چند روزہ زندگی کا سامان دیا جائے گا۔ اگر یہاں حرف وائو نہ ہوتا تو آیت کا مذکورہ فقفرہ پہلے کلام سے منقطع ہوجاتا اور حضرت ابراہیم کی درخواست کی قبولیت پر دلالت نہ کرتا۔- قول باری : فامتعہ کی تفسیر میں ایک اور قول یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی موت تک رزق کا سامان مہیا کرتا رہے گا۔ ایک قول کے مطابق اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ انہیں دنیا میں زندگی کے دن پورے کرنے کا فائدہ دے گا جس کے قول کے مطابق : میں ایسے لوگوں کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت تک رزق اور امن کی نعمت سے نوازتا رہوں گا، حتی کہ آپ کا ظہور ہوجائے گا اور ان میں سے جو لوگ اپنے کفر پر ڈٹے رہیں گے انہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قتل کردیں گے یا مکہ سے جلا وطن کردیں گے۔- زیر بحث آیت مکہ میں آ کر پناہ لینے والے کے قتل کی ممانعت کو دو طرح سے متضمن ہے۔ ایک توبہ قول باری ہے : رب اجعل ھذا بلداً امناً اور اللہ نے حضرت ابراہیم کی یہ دعا قبول بھی کرلی اور دوسرے یہ قول باری : ومن کفرفامتعہ قلیلاً ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کو اس کی موت تک سامان زندگی دینے کا ذکر کر کے اسے قتل کردینے کی نفی فرما دی۔
(١٢٦) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب یہ دعا کی کہ اس شہر کو امن والا شہر بنادے کہ سب اس شہر میں آسکیں اور یہاں کے لوگوں میں سے جو اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں انہیں مختلف قسم کے پھلوں سے روزی عطا فرما ،- اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے میرا انکار کیا اسے بھی دنیا میں رزق دوں گا، پھر اسے لے جا کر (قیامت کے دن) جہنم میں ڈال دوں گا۔
آیت ١٢٦ (وَاِذْ قَالَ اِبْرٰہٖمُ رَبِّ اجْعَلْ ہٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا) وَّارْزُقْ اَہْلَہٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْہُمْ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط) - یہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے خود ہی احتیاط برتی اور اپنی ساری اولاد کے لیے یہ دعا نہیں کی ‘ بلکہ صرف ان کے لیے جو اللہ پر اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہوں۔ اس لیے کہ پہلی دعا میں وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تھا : (لاَ یَنَالُ عَہْدِی الظّٰلِمِیْنَ ) لیکن یہاں معاملہ مختلف نظر آتا ہے۔- (قَالَ وَمَنْ کَفَرَ فَاُمَتِّعُہٗ قَلِیْلاً ) - جو لوگ ایمان سے محروم ہوں گے انہیں میں امامت میں شامل نہیں کروں گا ‘ لیکن بہرحال دنیوی زندگی کا مال و متاع تو میں ان کو بھی دوں گا۔ - (ثُمَّ اَضْطَرُّہٗ اِلٰی عَذَاب النَّارِ ط) (وَبِءْسَ الْمَصِیْرُ )
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :127 حضرت ابراہیم ؑ نے جب منصبِ امامت کے متعلق پوچھا تھا ، تو ارشاد ہوا تھا کہ اس منصب کا وعدہ تمہاری اولاد کے صرف مومن و صالح لوگوں کے لیے ہے ، ظالم اس سے مستثنیٰ ہیں ۔ اس کے بعد جب حضرت ابراہیم ؑ رزق کے لیے دُعا کر نے لگے ، تو سابق فرمان کو پیشِ نظر رکھ کر انہوں نے صرف اپنی مومن اولاد ہی کے لیے دُعا کی ، مگر اللہ تعالیٰ نے جواب میں اس غلط فہمی کو فوراً رفع فرما دیا اور انہیں بتایا کہ امامتِ صالحہ اَور چیز ہے اور رزقِ دنیا دُوسری چیز ۔ امامتِ صالحہ صرف مومنینِ صالح کو ملے گی ، مگر رزقِ دنیا مومن و کافر سب کو دیا جائےگا ۔ اس سے یہ بات خود بخود نِکل آئی کہ اگر کسی کو رزقِ دنیا فراوانی کے ساتھ مِل رہا ہو ، تو وہ اس غلط فہمی میں نہ پڑے کہ اللہ اس سے راضی بھی ہے اور وہی خدا کی طرف سے پیشوائی کا مستحق بھی ہے ۔