Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

شوق زیارت اور بڑھتا ہے مثابتہ سے مراد بار بار آنا ۔ حج کرنے کے بعد بھی دل میں لگن لگی رہتی ہے گویا حج کرنے کے بعد بھی ہر بار دل میں ایک بار اور حج کرنے کی تمنا رہتی ہے دنیا کے ہر گوشہ سے لوگ بھاگے دوڑے اس کی طرف جوق در جوق چلے آ رہے ہیں یہی جمع ہونے کی جگہ ہے اور یہی امن کا مقام ہے جس میں ہتھیار نہیں اٹھایا جاتا جاہلیت کے زمانہ میں بھی اس کے آس پاس تو لوت مار ہوتی رہتی لیکن یہاں امن و امان ہی رہتا کوئی کسی کو گالی بھی نہیں دیتا ۔ یہ جگہ ہمیشہ متبرک اور شریف رہی ۔ نیک روحیں اس کی طرف مشتاق ہی رہتی ہیں گو ہر سال زیارت کریں لیکن پھر بھی شوق زیارت کم نہیں ہوتا ہے ۔ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا اثر ہے ۔ آپ نے دعا مانگی تھی کہ آیت ( فَاجْعَلْ اَفْىِٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِيْٓ اِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُوْنَ ) 14 ۔ ابرہیم:37 ) تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف جھکا دے ۔ یہاں باپ اور بھائی کے قاتل کو بھی کوئی دیکھتا تو خاموش ہو جاتا سورۃ مائدہ میں قیاماللناس یعنی یہ لوگوں کے قیام کا باعث ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اگر لوگ حج کرناچھوڑ دیں تو آسمان زمین پر گرا دیا جائے ۔ اس گھر کے اس شرف کو دیکھ کر پھر اس کے بانی اول حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام کے شرف کو خیال فرمائے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت ( وَاِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰهِيْمَ مَكَانَ الْبَيْتِ اَنْ لَّا تُشْرِكْ بِيْ شَيْـــــًٔا وَّطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّاۗىِٕفِيْنَ وَالْقَاۗىِٕمِيْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ ) 22 ۔ الحج:26 ) ہم نے بیت اللہ کی جگہ ابراہیم کو بتا دی ( اور کہ دیا ) کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور جگہ ہے آیت ( اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِــعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّھُدًى لِّـلْعٰلَمِيْنَ ) 3 ۔ آل عمران:96 ) اللہ جل شانہ کا پہلا گھر مکہ میں جو برکت و ہدایت والا نشانیوں والا مقام ابراہیم والا امن و امان والا ہے مقام ابراہیم بھی ہے اور حج کل کا کل بھی ہے مثلاً عرفات ، مشعر الحرام ، منی ، رمی ، جمار ، صفا مروہ کا طواف ، مقام ابراہیم دراصل وہ پتھر ہے جسے حضرت اسمٰعیل کی بیوی صاحبہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نہانے کے لیے ان کے پاؤں کے نیچے رکھا تھا ، لیکن حضرت سعید بن جیر کہتے ہیں یہ غلط ہے ۔ دراصل وہ یہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرات ابراہیم کعبہ بناتے تھے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ کی لمبی حدیث میں ہے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کر لیا تو حضرت عمر نے مقام ابراہیم کی طرف اشارہ کر کے کہا ۔ کیا یہی ہمارے باپ ابراہیم کا مقام ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں کہا پھر ہم اسے قبلہ کیوں نہ بنا لیں؟ اس پر آیت نازل ہوئی ایک اور روایت میں ہے کہ فاروق رضی اللہ عنہ کے سوال پر تھوڑی ہی دیر گزری تھی جو حکم نازل ہوا ایک اور حدیث میں ہے کہ فتح مکہ والے دن مقام ابراہیم کے پتھر کی طرف اشارہ کر کے حضرت عمر نے پوچھا یہی ہے جسے قبلہ بنانے کا ہمیں حکم ہوا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں یہی صحیح بخاری شریف میں ہے ۔ حضرت عمر فرماتے ہیں میں نے اپنے رب سے تین باتوں میں موافقت کی جو اللہ تعالیٰ کو منظور تھا وہی میری زبان سے نکلا میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کاش کہ ہم مقام ابراہیم کو قبلہ بنا لیتے تو حکم آیت ( وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى ) 2 ۔ البقرۃ:125 ) نازل ہوا میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاش کہ آپ امہات المومنین کو پردے کا حکم دیں اس پر پردے کی آیت اتری جب مجھے معلوم ہوا کہ آج حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں سے خفا ہیں تو میں نے جا کر ان سے کہا کہ اگر تم باز نہ آؤ گی تو اللہ تعالیٰ تم سے اچھی بیویاں تمہارے بدلے اپنے نبی کو دے گا اس پر فرمان بازی نازل ہوا کہ آیت ( عسی ربہ ) الخ اس حدیث کی بہت سی اسناد ہیں اور بہت سی کتابوں میں مروی ہے ایک روایت میں بدر کے قیدیوں کے بارے میں بھی حضرت عمر کی موافقت مروی ہے آپ نے فرمایا تھا کہ اس سے فدیہ نہ لیا جائے بلکہ انہیں قتل کر دیا جائے اللہ سبحانہ تعالیٰ کو بھی یہی منظور تھا ۔ عبداللہ بن ابی بن سلول منافق جب مر گیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کے جنازے کی نماز ادا کرنے کے لیے تیار ہوئے تو میں نے کہا تھا کہ کیا آپ اس منافق کافر کا جنازہ پڑھیں گے؟ آپ نے مجھے ڈانٹ دیا اس پر آیت آیت ( وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓي اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰي قَبْرِهٖ ) 9 ۔ التوبہ:84 ) نازل ہوئی اور آپ کو ایسوں کے جنازے سے روکا گیا ۔ ابن جریج میں روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے طواف میں تین مرتبہ رمل کیا یعنی دوڑ کی چال چلے اور چارپھیرے چل کر کئے پھر مقام ابراہیم کے پیچھے آ کر دو رکعت نماز ادا کی اور یہ آیت تلاوت فرمائی آیت ( وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى ) 2 ۔ البقرۃ:125 ) حضرت جابر کی حدیث میں ہے کہ مقام ابراہیم کو آپ نے اپنے اور بیت اللہ کے درمیان کر لیا تھا ۔ ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مقام ابراہیم سے مراد وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کعبہ بنا رہے تھے حضرت اسماعیل علیہ السلام آپ کو پتھر دیتے جاتے تھے اور آپ کعبہ کی بنا کرتے جاتے تھے اور اس پتھر کو سرکاتے جاتے تھی جہاں دیوار اونچی کرنی ہوتی تھی وہاں لیجاتے تھے اسی طرح کعبہ کی دیواریں پوری کیں اس کا پورا بیان حضرت ابراہیم کے واقعہ میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ اس پتھر پر آپ کے دونوں قدموں کے نشان ظاہر تھے عرب کی جاہلیت کے زمانہ کے لوگوں نے بھی دیکھے تھے ۔ ابو طالب نے اپنے مشہور قصیدہ میں کہا ہے وموطی ابراہیم فی الصخر رطبتہ علی قدمیہ حایا غیر ناعل یعنی اس پتھر میں ابراہیم علیہ السلام کے دونوں پیروں کے نشان تازہ بتازہ ہیں جن میں جوتی نہیں بلکہ مسلمانوں نے بھی اسے دیکھا تھا حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ میں نے مقام ابراہیم میں حضرت خلیل اللہ کے پیروں کی انگلیوں اور آپ کے تلوے کا نشان دیکھا تھا پھر لوگوں کے چھونے سے وہ نشان مٹ گئے حضرت قتادہ فرماتے ہیں حکم اس کی جانب نماز ادا کرنے کا ہے تبرک کے طور پر چھونے اور ہاتھ لگانے کا نہیں اس امت نے بھی اگلی امتوں کی طرح بلا حکم الہ العالمین بعض کام اپنے ذمہ لازم کر لئے جو نقصان رساں ہیں وہ نشان لوگوں کے ہاتھ لگانے سے مٹ گئے ۔ یہ مقام ابراہیم پہلے دیوار کعبہ کے متصل تھا کعبہ کے دروازے کی طرف حجر اسود کی جانب دروازے سے جانے والے کے دائیں جانب مستقل جگہ پر تھا جو آج بھی لوگوں کو معلوم ہے خلیل اللہ نے یا تو اسے یہاں رکھوا دیا تھا یا بیت اللہ بناتے ہوئے آخری حصہ یہی بنایا ہوگا اور یہیں وہ پتھر رکھا ہے امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں اسے پیچھے ہٹا دیا اس کے ثبوت میں بہت سی روایتیں ہیں پھر ایک مرتبہ پانی کے سیلاب میں یہ پتھر یہاں سے بھی ہٹ گیا تھا خلیفہ ثانی نے اسے پھر اپنی جگہ رکھوا دیا حضرت سفیان فرماتے ہیں مجھے معلوم نہیں ہوا کہ یہ اصلی جگہ سے ہٹایا گیا اس سے پہلے دیوار کعبہ سے کتنی دور تھا ایک روایت میں ہے کہ خود آنحضرت نے اس کی اصلی جگہ سے ہٹا کر وہاں رکھا تھا جہاں اب ہے لیکن یہ روایت مرسل ہے ٹھیک بات یہی ہے کہ حضرت عمر نے اسے پیچھے رکھا ، واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

125۔ 1 حضرت ابراہیم کی نسبت سے جو اس کے بانی اول ہیں، بیت اللہ کی دو خصوصیتیں اللہ تعالیٰ نے یہاں بیان فرمائی ایک (لوگوں کے لئے ثواب کی جگہ) دوسرے کے معنی ہیں لوٹ لوٹ کر آنے کی جگہ جو ایک مرتبہ بیت اللہ کی زیارت سے مشرف ہوجاتا ہے، دوبارہ سہ بارہ آنے کے لئے بیقرار رہتا ہے یہ ایسا شوق ہے جس کی کبھی تسکین نہیں ہوتی بلکہ روز افزوں رہتا ہے دوسری خصوصیت امن کی جگہ یعنی یہاں کسی دشمن کا خوف بھی نہیں رہتا چناچہ زمانہء جاہلیت میں بھی لوگ حدود حرم میں کسی دشمن جان سے بدلہ نہیں لیتے تھے۔ اسلام نے اس کے احترام کو باقی رکھا، بلکہ اس کی مزید تاکید اور توسیع کی۔ 25۔ 2 مقام ابراہیم سے مراد وہ پتھر ہے، جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تعمیر کعبہ کرتے رہے اس پتھر پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قدم کے نشانات ہیں اب اس پتھر کو ایک شیشے میں محفوظ کردیا گیا ہے، جسے ہر حاجی طواف کے دوران باآسانی دیکھتا ہے۔ اس مقام پر طواف مکمل کرنے کے بعد دو رکعت پڑھنے کا حکم ہے۔ آیت (وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى) 002:125

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٥١] مثابۃ بمعنی لوگوں کے بار بار آتے اور جاتے رہنے کی جگہ (بغرض حج، عمرہ، طواف، اور عبادت نماز وغیرہ) - [ ١٥٢] وہ پتھر جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) خانہ کعبہ کی تعمیر کرتے رہے۔ اسی پر کھڑے ہو کر آپ نے لوگوں کو حج کے لیے پکارا۔ یہ پتھر خانہ کعبہ کے صحن میں ہے اور آج کل اسے ایک چھوٹی سی شیشہ کی گنبد نما عمارت میں محفوظ کردیا گیا ہے۔ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کہا کرتے تھے تین باتوں میں میری رائے اللہ کے علم کے موافق ہوگئی۔ (جن میں ایک یہ تھی) میں نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا اچھا ہو اگر آپ مقام ابراہیم (علیہ السلام) کو نماز کی جگہ قرار دے دیں اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتار دی۔ (وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى ١٢٥۔ ) 2 ۔ البقرة :125) چناچہ طواف کرنے والے اسی مقام کے پاس دوگانہ نماز نفل ادا کرتے ہیں۔- [ ١٥٣] معلوم ہوا مسجدوں کو صاف ستھرا رکھنا اور روشنی کا انتظام نہایت فضیلت والا کام ہے۔ جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے دو اولوا العزم رسولوں کو بطور خاص حکم دیا۔ یہاں صفائی سے مراد صرف ظاہری صفائی نہیں، بلکہ باطنی صفائی بھی ہے کہ اس گھر میں مشرک لوگ نہ آنے پائیں۔ جو اللہ کے علاوہ دوسروں کو بھی پکارنا شروع کردیں اور اسے گندا کردیں۔ اور مساجد کی صفائی اور آداب کے لیے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :- ١۔ حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ اسے دفن کردینا (یا صاف کردینا) ہے (بخاری، کتاب الصلٰوۃ باب کفارۃ البزاق فی المسجد) - ٢۔ حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک کالی عورت مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھی۔ وہ مرگئی۔ آپ نے جب اسے نہ دیکھا تو لوگوں سے اس کا حال پوچھا۔ انہوں نے کہا : وہ مرگئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم نے مجھے کیوں نہ خبر کی۔ چلو اب اس کی قبر بتلاؤ پھر آپ اس کی قبر پر گئے اور نماز پڑھی۔ (بخاری، کتاب الصلٰوۃ، باب کنس المسجد) - ٣۔ حضرت انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک گنوار آیا اور مسجد (نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک کونے میں پیشاب کرنے لگا۔ لوگوں نے اسے جھڑکا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو جھڑکنے سے منع فرمایا۔ جب وہ پیشاب کرچکا تو آپ نے صحابہ کرام (رض) کو حکم دیا کہ اس جگہ پانی کا ایک ڈول بہا دیا جائے، (بخاری، کتاب الوضوء، باب ترک النبی والناس الاعرابی حتی فرغ من بولہ فی المسجد) اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب اعرابی پیشاب سے فارغ ہوچکا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے سمجھایا کہ یہ مسجدیں اللہ کے ذکر کے مقامات ہیں، بول و براز کے لئے نہیں لہذا انہیں صاف ستھرا رکھنا چاہیے۔- ٤۔ حضرت جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو کوئی اس درخت یعنی لہسن کو کھائے وہ ہماری مسجد میں نہ آئے۔ عطا کہتے ہیں کہ میں نے جابر (رض) سے پوچھا کچی لہسن مراد ہے یا پکی ہوئی ؟ انہوں نے کہا میں سمجھتا ہوں کہ اس سے کچی لہسن اور اس کی بدبو مراد ہے۔ (بخاری۔ کتاب الاذان، باب، ماجاء فی الثوم النی والبصل والکراث) - ٥۔ سائب بن یزید (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن میں مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں کھڑا تھا۔ کسی نے مجھ پر پتھر پھینکا، کیا دیکھتا ہوں کہ وہ حضرت عمر (رض) ہیں۔ انہوں نے مجھے کہا : جاؤ فلاں دو آدمیوں کو میرے پاس بلا لاؤ۔ میں انہیں بلا لایا تو حضرت عمر (رض) نے ان سے پوچھا : تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو ؟ وہ کہنے لگے ہم طائف سے آئے ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے کہا، اگر تم اس شہر (مدینہ) کے رہنے والے ہوتے تو میں تمہیں ضرور سزا دیتا۔ تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مسجد میں اپنی آوازیں بلند کرتے (شور مچاتے) ہو۔ (بخاری، کتاب الصلٰوۃ، باب رفع الصوت فی المسجد)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(مَثَابَةً ) یہ ثاب یَثُوْبُ (لوٹنا) سے ظرف ہے، یعنی ” لوٹ کر آنے کی جگہ “ لوگ بار بار اللہ کے گھر کی طرف لوٹ کر آتے ہیں، کبھی ان کا دل نہیں بھرتا۔ دیکھیے سورة حج (٢٧) اور سورة ابراہیم (٣٧) دوسری خصوصیت یہ کہ اسے سرا سر امن والی جگہ بنادیا، جاہلیت میں بھی آدمی اپنے دشمن کو دیکھتا مگر اسے کچھ نہ کہتا۔ اسلام نے اس احترام کو باقی رکھا، بلکہ اس میں تاکید اور اضافہ کیا۔- 3 مقام ابراہیم (علیہ السلام) کی تفسیر میں دو قول ہیں، ایک وہ پتھر جس پر کھڑے ہو کر ابراہیم (علیہ السلام) نے کعبہ تعمیر کیا۔ صحیح مسلم میں حجۃ الوداع کے واقعہ میں جابر (رض) سے مذکور ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طواف سے فارغ ہوئے تو مقام ابراہیم کی طرف آئے اور یہ آیت پڑھی : (وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى ) [ البقرۃ : ١٢٥ ] پھر مقام (ابراہیم) کو اپنے اور بیت اللہ کے درمیان کرکے دو رکعتیں پڑھیں۔ [ مسلم، الحج، باب حجۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : ١٢١٨ ] جیسا کہ حاجی لوگ پڑھتے ہیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ مقام ابراہیم کے پاس نماز پڑھنے کا مشورہ عمر (رض) نے دیا تھا جس کی موافقت اللہ تعالیٰ نے فرمائی۔ [ بخاری، الصلوۃ، باب قولہ تعالیٰ : ( واتخذوا من مقام ۔۔ : ٤٠٢ ] عمر (رض) کی موافقات کی تعداد اٹھارہ ہے۔- دوسرا قول تفسیر عبد الرزاق میں صحیح سند کے ساتھ ابن عباس (رض) کا ہے کہ مقام ابراہیم سے مراد مقام حج ہے یعنی حرم اور عرفات جہاں ابراہیم (علیہ السلام) نے حج میں قیام کیا۔ چناچہ اہل علم فرماتے ہیں کہ طواف کی دو رکعتیں حرم میں جہاں بھی پڑھ لے درست ہے۔ - (طَهِّرَا بَيْتِىَ ) طہارت سے مراد کوڑا کرکٹ سے صفائی ہی نہیں، بلکہ بت پرستی اور شرک کی تمام نجاستوں سے بھی صفائی ہے، کیونکہ طواف، اعتکاف، رکوع اور سجدہ اللہ کے سوا کسی کا حق نہیں۔ مشرکین مکہ کو توجہ دلائی جا رہی ہے کہ تمہارے باپ کو کیا حکم دیا گیا تھا اور تم نے عین کعبہ میں بت لا کر کیسی فرماں برداری کی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

حل لغات مثابۃ یہ لفظ ثاب یثوب ثوباً ومثاباً سے ماخوذ ہے جس کے معنی لوٹنے کے ہیں اس لئے مثابہ کے مرجع کے ہوگئے جہاں آدمی بار بار لوٹ کرجائے - خلاصہ تفسیر :- (اور وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے کہ) جس وقت ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کا معبد اور (مقام) امن (ہمیشہ سے) مقرر رکھا اور (آخر میں امت محمدیہ کو حکم دیا کہ برکت حاصل کرنے کے لئے) مقام ابراہیم کو (کبھی کبھی) نماز پڑھنے کی جگہ بنا لیا کرو اور ہم نے (بناء کعبہ کے وقت) ابراہیم و (حضرت) اسمعٰیل (علیہما السلام) کی طرف حکم بھیجا کہ میرے (اس) گھر کو خوب پاک (صاف) رکھا کرو بیرونی اور مقامی لوگوں (کی عبادت) کے واسطے اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے واسطے۔- معارف و مسائل :- حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) کی ہجرت مکہ اور بناء بیت اللہ کا تفصیلی واقعہ :- اس آیت میں بیت اللہ کعبہ کی تاریخ کی طرف اشارہ ہے اور حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) اور اسمعٰیل (علیہما السلام) کے ہاتھوں اس کی تعمیر جدید نیز بیت اللہ اور مکہ مکرمہ کی چند خصوصیات کا ذکر اور بیت اللہ اور مکہ مکرمہ کی چند خصوصیات کا ذکر اور بیت اللہ کے احترام سے متعلقہ احکام مذکور ہیں یہ مضمون قرآن کی بہت سی آیات میں مختلف سورتوں میں پھیلا ہوا ہے اس جگہ مختصر طور پر اس کو بیان کیا جاتا ہے جس سے مذکورہ آیات کا پورا مضمون واضح ہوجائے گا یہ مضمون سورة حج کی آیت نمبر ٢٦ میں اس طرح مذکور ہے،- وَاِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰهِيْمَ مَكَانَ الْبَيْتِ اَنْ لَّا تُشْرِكْ بِيْ شَيْـــــًٔا وَّطَهِّرْ بَيْتِيَ للطَّاۗىِٕفِيْنَ وَالْقَاۗىِٕمِيْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ وَاَذِّنْ فِي النَّاس بالْحَجِّ يَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّعَلٰي كُلِّ ضَامِرٍ يَّاْتِيْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيْقٍ یعنی وہ وقت یاد کرنے کے قابل ہے جبکہ ہم نے ابراہیم کو خانہ کعبہ کی جگہ بتلادی کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک مت کرنا اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں کے اور قیام و رکوع وسجود کرنے والوں کے واسطے پاک رکھنا اور لوگوں میں حج کا اعلان کرو لوگ تمہارے پاس چلے آئیں گے پیادہ بھی اور دبلی اونٹنیوں پر بھی جو دور دراز کے راستوں سے پہنچی ہوں گی،- تفسیر ابن کثیر میں ائمہ تفسیر حضرت مجاہد وغیرہ سے نقل کیا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ملک شام میں مقیم تھے اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) شیر خوار بچے تھے جس وقت حق تعالیٰ کا ان کو یہ حکم ملا کہ ہم خانہ کعبہ کی جگہ آپ کو بتلاتے ہیں آپ اس کو پاک صاف کرکے طواف و نماز سے آباد رکھیں اس حکم کی تعمیل کے لئے جبریل امین براق لے کر حاضر ہوئے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اور اسماعیل کو مع ان کی والدہ حضرت ہاجرہ کے ساتھ لے کر سفر کیا راستے میں جب کسی بستی پر نظر پڑتی اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جبریل امین سے دریافت کرتے کہ کیا ہمیں یہاں اترنے کا حکم ملا ہے تو حضرت جبریل (علیہ السلام) فرماتے کہ نہیں آپ کی منزل آگے ہے یہاں تک کہ مکہ مکرمہ کی جگہ سامنے آئی جس میں کانٹے دار جھاڑیاں اور ببول کے درختوں کے سوا کچھ نہ تھا اس خطہ زمین کے آس پاس کچھ آس پاس کچھ لوگ بستے تھے جن کو عمالین کہا جاتا تھا بیت اللہ اس وقت ایک ٹیلہ کی شکل میں تھا حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) نے اس جگہ پہنچ کر جبریل امین سے دریافت کیا کہ کیا ہماری منزل یہ ہے تو فرمایا کہ ہاں، - حضرت ابراہیم (علیہ السلام) مع اپنے صاحبزادے اور حضرت ہاجرہ کے یہاں اتر گئے اور بیت اللہ کے پاس ایک معمولی چھپر ڈال کر حضرت اسماعیل اور ہاجرہ (علیہما السلام) کو یہاں ٹھہرا دیا ان کے پاس ایک توشہ دان میں کچھ کھجوریں اور ایک مشکیزہ میں پانی رکھ دیا اور ابراہیم (علیہ السلام) کو اس وقت یہاں ٹھہرنے کا حکم نہ تھا وہ اس شیر خوار بچہ اور ان کی والدہ کو حوالہ بخدا کرکے واپس ہونے لگے جانے کی تیاری دیکھ کر حضرت ہاجرہ نے عرض کیا کہ ہمیں اس لق ودق میدان میں چھوڑ کر آپ کہاں جاتے ہیں جس میں نہ کوئی مونس ومدد گار ہے نہ زندگی کی ضروریات، - حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) نے کوئی جواب نہ دیا اور چلنے لگے حضرت ہاجرہ ساتھ اٹھیں پھر بار بار یہی سوال دہرایا حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) کی طرف سے کوئی جواب نہ تھا یہاں تک کہ خود ان کے دل میں بات پڑی اور عرض کیا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہاں چھوڑ کر چلے جانے کا حکم دیا ہے تب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم ملا ہے، اس کو سن کر حضرت ہاجرہ نے فرمایا کہ پھر آپ شوق سے جائیں جس نے آپ کو یہ حکم دیا ہے وہ ہمیں بھی ضائع نہ کرے گا ابراہیم (علیہ السلام) حکم خداوندی کی تعمیل میں یہاں سے چل کھڑے ہوئے مگر شیرخوار بچہ اور اس کی والدہ کا خیال لگا ہوا تھا جب راستہ کے موڑ پر پہنچے جہاں سے حضرت ہاجرہ نہ دیکھ سکیں تو ٹھہر گئے اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعا فرمائی جو سورة ابراہیم کی آیت نمبر ٣٥، ٣٧ میں اس طرح مذکور ہے،- وَاِذْ قَالَ اِبْرٰهِيْمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجْنُبْنِيْ وَبَنِيَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ ( سورة ابراہیم ٣٥: ١٤) اے میرے پروردگار اس شہر کو امن والا بنا دیجئے اور مجھ کو اور میرے خاص فرزندوں کو بتوں کی عبادت سے بچائے رکھئے،- پھر دعاء میں عرض کیا :- رَبَّنَآ اِنِّىْٓ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ بِوَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ ۙ رَبَّنَا لِيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْىِٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِيْٓ اِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُوْنَ (٣٧: ١٤) یعنی اے ہمارے رب میں اپنی اولاد کو آپ کے محترم گھر کے قریب ایک میدان میں جو زراعت کے قابل نہیں آباد کرتا ہوں اے ہمارے رب تاکہ وہ نماز کا اہتمام رکھیں تو آپ کچھ لوگوں کے قلوب ان کی طرف مائل کردیجئے اور ان کو پھل کھانے کو دیجئے تاکہ یہ لوگ شکر کریں، - سابقہ حکم جس کی بناء پر شام سے ہجرت کرا کر حضرت اسماعیل (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کو یہاں لایا گیا تھا اس میں یہ ارشاد ہوا تھا کہ میرے گھر کو پاک رکھنا حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) جانتے تھے کہ پاک رکھنے سے مراد یہ ہے کہ اس کو ظاہری نجاسات اور گندگی سے بھی پاک رکھا جائے اور باطنی نجاست کفر و شرک سے پاکی بھی فرمان الہی میں مقصود ہے اس لئے یہاں ٹھہر کر جو دعائیں فرمائیں ان میں اول تو اس بستی کے محفوظ ومامون رہنے اور جائے امن ہونے کی دعاء فرمائی پھر یہ دعا کی کہ مجھے اور میری اولاد کو شرک وبت پرستی سے بچائیے کیونکہ حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) کو معرفتِ حق تعالیٰ کا وہ مقام حاصل تھا جس میں انسان کو اپنا وجود ہی نابود نظر آتا ہے،- اپنے تمام افعال و اعمال اور ارادوں کو یہ محسوس کرتا ہے کہ سب کچھ حق تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت میں ہیں اسی کی مشیت و ارادہ سے سب کام ہوتے ہیں اس لئے کفر و شرک سے بیت اللہ کو پاک رکھنے کا جو حکم ملا تھا اس میں حق تعالیٰ ہی سے امداد طلب کی اس دعاء کے اندر کفرو شرک سے محفوظ رہنے کی التجاء میں ایک خاص راز یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب بیت اللہ کی تعظیم و تکریم کا حکم ہوا تو یہ احتمال بھی تھا کہ آئندہ چل کر کوئی ناواقف اس بیت اللہ ہی کو معبود نہ بنالے اور اس طرح شرک میں مبتلا ہوجائے اس لئے یہ دعاء فرمائی کہ مجھ کو اور میری اولاد کو شرک سے محفوظ رکھا جائے،- اس کے بعد شیرخوار بچہ اور اس کی والدہ پر شفقت کے پیش نظر یہ دعاء فرمائی کہ میں نے ان کو آپ کے حکم کے مطابق آپ کے محترم گھر کے پاس ٹھہرا تو دیا ہے لیکن یہ جگہ زراعت کے قابل بھی نہیں جہاں کوئی اپنی محنت سے ضروریات زندگی حاصل کرسکے اس لئے آپ ہی اپنے فضل سے ان کو پھلوں کا رزق عطا فرمادیں،- یہ دعا کرکے حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) تو اپنے وطن شام کی طرف روانہ ہوگئے ادھر حضرت ہاجرہ کا کچھ وقت تو اس توشہ کھجور اور پانی کے ساتھ کٹ گیا جو حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) چھوڑ گئے تھے پانی ختم ہونے کے بعد خود بھی پیاس سے بےچین اور شیرخوار بچہ بھی اس وقت پانی کی تلاش میں ان کا نکلنا اور کبھی کوہ صفا پر کبھی کوہ مروہ پر چڑھنا اور ان دونوں کے درمیان دوڑ دوڑ کر راستہ طے کرنا تاکہ حضرت اسماعیل آنکھوں کے سامنے آجائیں عام مسلمانوں میں معروف ہے اور حج میں صفا مروہ کے درمیان سعی کرنا آج تک اسی کی یادگار ہے،- اس قصہ کے آخر میں حضرت جبریل امین کا بحکم خداوندی وہاں پہنچنا اور چشمہ زمزم کا جاری کرنا اور پھر قبیلہ جرہم کے کچھ لوگوں کو یہاں آکر مقیم ہوجانا اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے جوان ہونے کے بعد قبیلہ جرہم کی ایک بی بی سے شادی ہوجانا یہ صحیح بخاری کی روایت میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے روایت حدیث کے مجموعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء سورة حج کی آیت میں جو بیت اللہ کو آباد کرنے اور پاک صاف رکھنے کا حکم حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) کو ملا تھا اس وقت اتنا ہی عمل مقصود تھا کہ اس جگہ کو حضرت اسمعٰیل اور ہاجرہ (علیہما السلام) کے ذریعہ آباد کردیا جائے اس کے مخاطب صرف حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تھے کیونکہ اسماعیل (علیہ السلام) ابھی شیرخواری کے عالم میں تھے اس وقت بیت اللہ کی تعمیر جدید کا حکم نہ ملا تھا، سورة بقرہ کی یہ آیت جو اس وقت زیر نظر ہے، وَعَهِدْنَآ اِلٰٓى اِبْرٰهٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ اَنْ طَهِّرَا بَيْتِىَ اس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو بھی شریک کرلیا گیا ہے یہ حکم اس وقت کا ہے جب کہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) جوان اور متاہل ہوچکے تھے اس وقت دونوں کو بناء بیت اللہ کا حکم دیا گیا،- صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ ایک روز حضرت ابراہیم (علیہ السلام) حسب عادت حضرت ہاجرہ اور اسماعیل کی ملاقات کے لئے مکہ مکرمہ پہنچے تو دیکھا کہ اسماعیل (علیہ السلام) ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے تیر بنا رہے ہیں والد ماجد کو دیکھ کر کھڑے ہوگئے ملاقات کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک کام کا حکم دیا ہے کیا تم اس میں میری مدد کرو گے ؟ لائق فرزند نے عرض کیا کہ بسر وچشم کروں گا اس پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس ٹیلہ کی طرف اشارہ کیا جہاں بیت اللہ تھا کہ مجھے اس کی تعمیر کا حکم ہوا ہے بیت اللہ کے حدود اربعہ حق تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بتلا دئیے تھے دونوں بزرگوار اس کام میں لگے تو بیت اللہ کی قدیم بنیادیں نکل آئیں انہی پر دونوں نے تعمیر شروع کردی اگلی آیت میں اسی کا بیان ہے، وَاِذْ يَرْفَعُ اِبْرٰھٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَاِسْمٰعِيْلُ جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ بانی بیت اللہ اصل میں حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) ہیں اور اسماعیل (علیہ السلام) مددگار کی حیثیت سے شریک ہیں، - ان تمام آیات پر غور کرنے سے وہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے جو بعض روایات حدیث اور تاریخ میں مذکور - ہے کہ بیت اللہ پہلے سے دنیا میں موجود تھا کیونکہ تمام آیات میں کہیں بیت اللہ کی جگہ بتلا دینے کا ذکر ہے کہیں اس کو پاک صاف رکھنے کا ذکر ہے یہ کہیں مذکور نہیں کہ آج کوئی نیا گھر تعمیر کرانا ہے اس کی تعمیر کریں اس سے معلوم ہوا کہ بیت اللہ کا وجود اس واقعہ سے پہلے موجود تھا پھر طوفان نوح کے وقت منہدم ہوگیا یا اٹھا لیا گیا تھا صرف بنیادیں موجود تھیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کعبہ کے پہلے بانی نہیں بلکہ بناء سابق کی بنیادوں پر جدید تعمیر ان کے ہاتھوں ہوئی ہے،- اب رہا یہ معاملہ کہ پہلی تعمیر کس نے اور کس وقت کی ؟ اس میں کوئی صحیح اور قوی روایت حدیث کی منقول نہیں اہل کتاب کی روایات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے اس کی تعمیر آدم (علیہ السلام) کے اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی فرشتوں نے کی تھی پھر آدم (علیہ السلام) نے اس کی تجدید فرمائی یہ تعمیر طوفان نوح تک باقی رہی طوفان نوح میں منہدم ہوجانے کے بعد سے ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے تک یہ ایک ٹیلہ کی صورت میں باقی رہی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) و حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نے ازسرنو تعمیر فرمائی اس کے بعد اس تعمیر میں شکست وریخت تو ہمیشہ ہوتی رہی مگر منہدم نہیں ہوئی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے قبل قریش مکہ نے اس کو منہدم کرکے ازسرنو تعمیر کیا جس کی تعمیر میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی خاص شرکت فرمائی، - احکام و مسائل متعلقہ حرم محترم :- ١۔ لفظ مثابہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کو یہ خاص فضیلت بخشی ہے کہ وہ ہمیشہ مرجع خلائق بنا رہے گا اور لوگ بار بار اس کی طرف جانے اور لوٹنے کے آرزو مند رہیں گے امام تفسیر حضرت مجاہد نے فرمایا لا یقضی احد منہا وطراً (قرطبی) یعنی کوئی آدمی اس کی زیارت سے کبھی سیر نہیں ہوتا بلکہ ہر مرتبہ پہلے سے زیادہ زیارت و طواف کا شوق لے کر لوٹتا ہے اور بعض علماء نے فرمایا کہ قبول حج کی علامات میں سے ہے کہ وہاں سے لوٹنے کے بعد پھر وہاں جانے کا شوق دل میں پائے چناچہ عام طور پر اس کا مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ پہلی مرتبہ جتنا شوق زیارت بیت اللہ کا ہوتا دوسری مرتبہ کے لئے اس شوق میں اضافہ ہوجاتا ہے اور جوں جوں بار بار زیارت کرتا رہتا ہے یہ شوق اور بڑہتا جاتا ہے، - یہ معجزہ بیت اللہ ہی کی خصوصیت ہوسکتی ہے ورنہ دنیا کے بہتر سے بہتر مناظر کو انسان ایک دو مرتبہ دیکھ لینے کے بعد سیر ہوجاتا ہے اور پانچ سات مرتبہ دیکھنے کے بعد تو دیکھنے کا دھیان بھی نہیں آتا اور یہاں تو نہ کوئی خوش منظر سینری نہ وہاں پہنچنا کچھ آسان ہے نہ وہاں دنیا کے کاروبار ہی کی کوئی اہمیت ہے اس کے باوجود لوگوں کے دل میں اس کی تڑپ ہمیشہ موجزن رہتی ہے ہزاروں روپیہ خرچ کرکے سینکڑوں مشقتیں جھیل کر وہاں پہنچنے کے مشتاق رہتے ہیں، - ٢۔ لفظ امناً اس جگہ مامن یعنی جائے امن کے معنی میں ہے اور لفظ بیت سے مراد صرف بیت اللہ یعنی خانہ کعبہ نہیں بلکہ پورا حرم مراد ہے قرآن کریم میں بیت اللہ اور کعبہ کا لفظ بول کر پورا حرم مراد لینے کے اور بھی شواہد موجود ہیں جیسے ارشاد ہے، هَدْيًۢا بٰلِــغَ الْكَعْبَةِ (٩٥: ٥) اس میں لفظ کعبہ بول کر پورا حرم مراد لیا گیا ہے کیونکہ اس میں ذکر قربانی کا ہے اور بیت کعبہ کے اندر تو قربانی نہیں ہوتی اور نہ وہاں قربانی جائز ہے اس لئے معنی آیت کے یہ ہوئے کہ ہم نے حرم مکہ کو جائے امن بنادیا ہے اور جائے امن بنا دینے سے مراد لوگوں کو یہ حکم دینا ہے کہ حرم محترم کو عام قتل و قتال اور انتقام سے بالاتر رکھیں (ابن عربی) - چنانچہ زمانہ جاہلیت میں بھی عربوں کے ہاتھ میں ملت ابراہیمی کے جو کچھ آثار باقی رہ گئے تھے، ان میں یہ بھی تھا کہ حرم میں اپنے باپ اور بھائی کا قاتل بھی کسی کو ملتا تو انتقام نہیں لیتے تھے اور عام جنگ و قتال کو بھی حرم میں حرام سمجھتے تھے شریعت اسلام میں بھی یہ حکم اسی طرح باقی رکھا گیا فتح مکہ کے وقت صرف چند گھنٹوں کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واسطے ارض حرم میں قتال کو جائز کیا گیا تھا مگر اسی وقت پھر ہمیشہ کے لئے حرام کردیا گیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے خطبہ میں اس کا اعلان فرمادیا (صحیح بخاری) - اب رہا یہ مسئلہ کہ کوئی شخص حرم کے اندر ہی کوئی ایسا جرم کرے جس پر حد وقصاص اسلامی شریعت کی رو سے عائد ہوتا ہے تو حرم اس کو امن نہیں دے گا بلکہ اس پر باجماع امت حدود وقصاص جاری کئے جائیں گے (احکام القرآن جصاص و قرطبی) کیونکہ قرآن کریم کا ارشاد ہے، فَاِنْ قٰتَلُوْكُمْ فَاقْتُلُوْھُمْ (١٩١: ٢) یعنی اگر تم سے لوگ حرم میں قتال کرنے لگیں تو تم بھی وہیں ان کو قتل کردو،- البتہ یہاں ایک مسئلہ ائمہ مجتہدین میں مختلف فیہ ہے وہ یہ کہ کوئی شخص باہر سے جرم کرکے حرم میں پناہ لے لے تو اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا اس میں بعض ائمہ اس پر بھی حرم میں حدود قصاص کی سزائیں جاری کرنے کا حکم دیتے ہیں اور امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک اس کو سزا سے چھوڑنا تو نہیں کیونکہ اگر ایسا کیا گیا تو جرائم کرکے سزا سے بچنے کا راستہ کھل جائے گا اور عالم میں فساد برپا ہوجائے گا اور حرم مجرموں کا ٹھکانا بن جائے گا لیکن احترام حرم کے سبب حرم کے اندر سزا نہ دی جائیگی بلکہ اس کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ حرم سے باہر نکلے وہاں سے نکلنے کے بعد سزا جاری کی جائے گی، - ٣۔ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى اس میں مقام ابراہیم سے مراد وہ پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قدم مبارک کا بطور معجزہ نشان پڑگیا تھا اور جس کو تعمیر بیت اللہ کے وقت آپ نے استعمال کیا تھا (صحیح بخاری) - حضرت انس (رض) نے فرمایا کہ میں نے اس پتھر میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قدم مبارک کا نقش دیکھا ہے مگر لوگوں کے بکثرت چھونے اور ہاتھ لگانے سے اب وہ نشان ہلکا پڑگیا ہے (قرطبی) اور حضرت عبداللہ بن عباس سے مقام ابراہیم کی تفسیر میں یہ بھی منقول ہے کہ پورا حرم مقام ابراہیم ہے ممکن ہے کہ اس مراد یہ ہو کہ طواف کے بعد کی دو رکعتیں جن کو مقام ابراہیم پر پڑھنے کا حکم اس آیت میں ہے اس حکم کی تعمیل پورے حرم میں کسی جگہ بھی یہ رکعتیں پڑھنے سے ہوجائے گی اس پر اکثر فقہا امت متفق ہیں۔- ٤۔ آیت مذکورہ میں مقام ابراہیم کو مصلیٰ بنانے کا حکم ہے اس کی وضاحت خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع میں اپنے قول وعمل سے اس طرح فرما دی کہ آپ طواف کے بعد مقام ابراہیم کے پاس پہنچے جو بیت اللہ کے سامنے تھوڑے فاصلہ سے رکھا ہوا ہے وہاں پہنچ کر یہ آیت تلاوت فرمائی وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى اور پھر مقام ابراہیم کے پیچھے اس طرح دو رکعت نماز پڑھی کہ مقام ابراہیم کو درمیان میں رکھتے ہوئے بیت اللہ کا استقبال ہوجائے (صحیح مسلم) اسی لئے فقہاء امت نے فرمایا ہے کہ جس شخص کو مقام ابراہیم کے پیچھے متصلاً جگہ نہ ملے وہ کتنے ہی فاصلہ پر بھی جب اس طرح کھڑا ہو کہ مقام ابراہیم بھی اس کے سامنے رہے اور بیت اللہ بھی تو اس حکم کی پوری تعمیل ہوجائے گی،- ٥۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ طواف کے بعد کی دو رکعتیں واجب ہیں (جصاص ومناسک ملاعلی قاری) - البتہ ان دو رکعتوں کا خاص مقام ابراہیم کے پیچھے ادا کرنا سنت ہے اور حرم میں کسی دوسری جگہ بھی ادا کرے تو کافی ہوگا کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان رکعتوں کا بیت اللہ کے دروازہ متصل پڑھنا بھی ثابت ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس سے بھی اس جگہ پڑھنا منقول ہے (جصاص) - اور ملا علی قاری نے کتاب مناسک میں فرمایا ہے کہ دو رکعت طواف تو واجب ہیں اور سنت یہ ہے کہ مقام ابراہیم کے پیچھے ادا کی جائیں لیکن اگر کسی وجہ سے وہاں ادا نہ کرسکا تو پھر حرم میں یا حرم سے باہر جہاں کہیں ممکن ہو ادا کرنے سے واجب ادا ہوجائے گا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حجۃ الوداع میں حضرت ام سلمہ کو ایسا ہی اتفاق ہوا کہ ان کو واجب طواف نماز پڑھنے کا وہاں موقع نہ ملا تو مسجد حرام بلکہ مکہ مکرمہ سے نکلنے کے بعد ادا کی اور بضرورت حرم سے باہر ادا کرنے پر جمہور علماء کے نزدیک کوئی دم بھی واجب نہیں ہوتا صرف امام مالک وجوب دم کے قائل ہیں (مناسک ملا علی قاری) - ٦۔ طَهِّرَا بَيْتِىَ اس میں بیت اللہ کو پاک کرنے کا حکم ہے جس میں ظاہری نجاسات اور گندگی سے طہارت بھی داخل ہے اور باطنی نجاسات کفر و شرک اور اخلاق رذیلہ بغض وحسد، حرص وہوا تکبر و غرور ریا ونام ونمود سے پاکی بھی شامل ہے اور اس حکم طہارت کیلئے لفظ بیتی میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ یہ حکم تمام مساجد کے لئے عام ہے کیونکہ ساری مساجد بیوت اللہ ہیں، - جیسا کہ ارشاد ہے، فِيْ بُيُوْتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَعَ (٣٦: ٢٤) - حضرت فاروق اعظم نے مسجد میں ایک شخص کی آواز سنی تو فرمایا تمہیں خبر نہیں کہ تم کہاں کھڑے ہو (قرطبی) یعنی مسجد کا ادب و احترام چاہے اس میں غیر مشروع آواز بلند نہیں کرنا چاہئے، حاصل یہ ہے کہ اس آیت سے جس طرح بیت اللہ کا تمام ظاہری اور باطنی نجاسات سے پاک رکھنا ضروری ہے اسی طرح تمام مساجد کو بھی پاک رکھنا واجب ہے یعنی مساجد میں داخل ہونے والوں پر لازم ہے کہ اپنے بدن اور کپڑوں کو بھی نجاسات اور بدبو کی چیزوں سے پاک صاف رکھیں اور اپنے دلوں کو شرک ونفاق اور تمام اخلاق رذیلہ، تکبر حسد، بغض، حرص وریاء وغیرہ کی نجاسات سے پاک کرکے داخل ہوں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے کہ کوئی شخص پیاز، لہسن وغیرہ بدبودار چیز کھا کر مسجد میں نہ جائے اور چھوٹے بچوں اور دیوانوں کو مسجدوں میں داخل ہونے سے منع فرمایا ہے کہ ان سے نجاست کا خطرہ رہتا ہے،- ٧۔ لِلطَّاۗىِٕفِيْنَ وَالْعٰكِفِيْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ آیت کے ان کلمات سے چند احکام و فوائد حاصل ہوئے اول یہ کہ بناء بیت اللہ کا مقصد طواف، اعتکاف اور نماز ہے دوسرے یہ کہ طواف نماز سے مقدم ہے (کما روی عن ابن عباس) تیسرے یہ کہ اطراف عالم سے جانے والے حجاج کے لئے طواف بہ نسبت نماز کے افضل ہے چوتھے یہ کہ بیت کے اندر نماز علی الاطلاق جائز ہے فرض ہو یا نفل (جصاص)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا۝ ٠ ۭ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّى۝ ٠ ۭ وَعَہِدْنَآ اِلٰٓى اِبْرٰہٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ اَنْ طَہِّرَا بَيْـتِىَ لِلطَّاۗىِٕفِيْنَ وَالْعٰكِفِيْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ۝ ١٢٥- بيت - أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] ، - ( ب ی ت ) البیت - اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ - ثوب - أصل الثَّوْب : رجوع الشیء إلى حالته الأولی التي کان عليها، أو إلى الحالة المقدّرة المقصودة بالفکرة، وهي الحالة المشار إليها بقولهم : أوّل الفکرة آخر العمل . فمن الرجوع إلى الحالة الأولی قولهم : ثَابَ فلان إلى داره، وثَابَتْ إِلَيَّ نفسي، وسمّي مکان المستسقي علی فم البئر مَثَابَة، ومن الرجوع إلى الحالة المقدرة المقصود بالفکرة الثوب، سمّي بذلک لرجوع الغزل إلى الحالة التي قدّرت له، وکذا ثواب العمل، وجمع الثوب أَثْوَاب وثِيَاب، وقوله تعالی: وَثِيابَكَ فَطَهِّرْ [ المدثر 4]- ( ث و ب ) ثوب - کا اصل معنی کسی چیز کے اپنی اصلی جو حالت مقدمہ اور مقصود ہوتی ہے اس تک پہنچ جانا کے ہیں ۔ چناچہ حکماء کے اس قول اول الفکرۃ اٰخرالعمل میں اسی حالت کی طرف اشارہ ہے یعنی آغاز فکر ہی انجام عمل بنتا ہے ۔ چناچہ اول معنی کے لحاظ سے کہا جاتا ہے ۔ شاب فلان الی درہ ۔ فلاں اپنے گھر کو لوٹ آیا ثابت الی نفسی میری سانس میری طرف ہوئی ۔ اور کنوئیں کے منہ پر جو پانی پلانے کی جگہ بنائی جاتی ہے اسے مثابۃ کہا جاتا ہے اور غور و فکر سے حالت مقدرہ مقصود تک پہنچ جانے کے اعتبار سے کپڑے کو ثوب کہاجاتا ہے کیونکہ سوت کاتنے سے عرض کپڑا بننا ہوتا ہے لہذا کپڑا بن جانے پر گویا سوت اپنی حالت مقصود ہ کی طرف لوٹ آتا ہے یہی معنی ثواب العمل کا ہے ۔ اور ثوب کی جمع اثواب وثیاب آتی ہے اور آیت کریمہ ؛۔ وَثِيابَكَ فَطَهِّرْ [ المدثر 4] اپنے کپڑوں کو پاک رکھو ۔- أمن - أصل الأَمْن : طمأنينة النفس وزوال الخوف، والأَمْنُ والأَمَانَةُ والأَمَانُ في الأصل مصادر، ويجعل الأمان تارة اسما للحالة التي يكون عليها الإنسان في الأمن، وتارة اسما لما يؤمن عليه الإنسان، نحو قوله تعالی: وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال 27] ، أي : ما ائتمنتم عليه، وقوله : إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمانَةَ عَلَى السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأحزاب 72] قيل : هي كلمة التوحید، وقیل : العدالة وقیل : حروف التهجي، وقیل : العقل، وهو صحیح فإنّ العقل هو الذي بحصوله يتحصل معرفة التوحید، وتجري العدالة و تعلم حروف التهجي، بل بحصوله تعلّم كل ما في طوق البشر تعلّمه، وفعل ما في طوقهم من الجمیل فعله، وبه فضّل علی كثير ممّن خلقه . وقوله : وَمَنْ دَخَلَهُ كانَ آمِناً [ آل عمران 97] أي : آمنا من النار، وقیل : من بلایا الدنیا التي تصیب من قال فيهم : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِها فِي الْحَياةِ الدُّنْيا [ التوبة 55] . ومنهم من قال : لفظه خبر ومعناه أمر، وقیل : يأمن الاصطلام وقیل : آمن في حکم الله، وذلک کقولک : هذا حلال وهذا حرام، أي : في حکم اللہ . والمعنی: لا يجب أن يقتصّ منه ولا يقتل فيه إلا أن يخرج، وعلی هذه الوجوه : أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنا حَرَماً آمِناً [ العنکبوت 67] . وقال تعالی: وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْناً [ البقرة 125] . وقوله : أَمَنَةً نُعاساً- [ آل عمران 154] أي : أمنا، وقیل : هي جمع کالکتبة . وفي حدیث نزول المسیح : «وتقع الأمنة في الأرض» . وقوله تعالی: ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ [ التوبة 6] أي : منزله الذي فيه أمنه .- وآمَنَ : إنما يقال علی وجهين :- أحدهما متعدیا بنفسه، يقال : آمنته، أي :- جعلت له الأمن، ومنه قيل لله : مؤمن .- والثاني : غير متعدّ ، ومعناه : صار ذا أمن .- ( ا م ن ) الامن ۔ اصل میں امن کا معنی نفس کے مطمئن ہونا کے ہیں ۔ امن ، امانۃ اور امان یہ سب اصل میں مصدر ہیں اور امان کے معنی کبھی حالت امن کے آتے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ ( سورة الأَنْفال 27) یعنی وہ چیزیں جن پر تم امین مقرر کئے گئے ہو ان میں خیانت نہ کرو ۔ اور آیت کریمہ :۔ إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ( سورة الأحزاب 72) ہم نے ( بار ) امانت آسمان اور زمین پر پیش کیا (33 ۔ 72) کی تفسیر میں بعض نے عدل و انصاف مراد لیا ہے ۔ بعض نے حروف تہجی اور بعض نے عقل مراد لی ہے اور یہی صحیح ہے کیونکہ معرفت توحید ، عدل و انصاف کا قیام اور حروف تہجی کی معرفت عقل کے بغیر ممکن نہیں ، بلکہ انسان کے لئے علوم ممکنہ کی تحصیل اور افعال حسنہ کی سر انجام دہی عقل کے بغیر مشکل ہے ۔ اور عقل کے باعث ہی انسان کو اکثر مخلوق پر فضیلت دی گئی ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا ( سورة آل عمران 97) اور جو شخص اس ( مبارک ) گھر میں داخل ہوا اس نے امن پالیا (3 ۔ 97) میں امن پانے سے مراد دوزخ کی آگ سے بیخوف ہونا کے ہیں اور بعض نے کہا ہے ۔ کہ ان دنیوی مصائب سے بےخوف ہونا مراد ہے جو ان لوگوں کو پہنچتے ہیں جن کے بارے میں إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ( سورة التوبة 55) ۔ خدا چاہتا ہے کہ ان چیزوں سے دنیا زندگی میں ان کو عذاب دے (9 ۔ 55) ارشاد فرمایا ہے اور نہ زیر بحث آیت میں خبر بمعنی انشار ہے یعنی جو شخص حرم میں داخل ہوا ہے امن دیا جائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ ہلاکت سے بےخوف ہونا مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ اسے پرامن رہنے دیا جائے جیسے محاورہ ہے ھذاحلال وھذا حرام یعنی اللہ کا حکم یہ ہے کہ یہ جیز حلال ہے اور دوسری حرام ہے لہذا آیت کے معنی یہ ہیں کہ مجرم جب تک حرم کے اندر ہے نہ اس سے قصاص لیا جائے اور نہ ہی کسی جرم میں اسے قتل کیا جائے اسی طرح آیت ؛۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا ( سورة العنْکبوت 67) ۔ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے حرم کو مقام امن بنا یا ہے (29 ۔ 67) اور آیت وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْنًا ( سورة البقرة 125) اور جب ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کے لئے جمع ہونے اور امن پانے کی جگہ مقرر کیا (2 ۔ 125) میں بھی امن کے یہی معنی مراد ہوسکتے ہیں اور آیت کریمہ :۔ أَمَنَةً نُعَاسًا ( سورة آل عمران 154) ( یعنی ) نیند و نازل فرمائی ) (4 ۔ 154) میں امنۃ بمعنی امن ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ کتبۃ کی طرح اٰمن کی جمع ہے نزول مسیح والی حدیث میں ہے ۔ (15) وتقع الامنۃ فی الارض اور زمین میں امن قائم ہوجائیگا اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ( سورة التوبة 6) ۔ پھر اس کو امن کی جگہ واپس پہنچادو (9 ۔ 6) میں مامن ظرف ہے جس کے معنی جائے امن ، ، کے ہیں ۔ امن افعال بنفسہ ۔ جیسے امنتہ ( میں نے اسے امن د یا ) اور اسی معنی کے اعتبار سے اسماء حسنی میں مومن آیا ہے ۔ (2) لاازم جس کے معنی ہیں پرامن ہونے والا ۔- أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- مَقامُ- والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس 71] ، ذلِكَ لِمَنْ خافَ مَقامِي وَخافَ وَعِيدِ [إبراهيم 14] ، وَلِمَنْ خافَ مَقامَ رَبِّهِ [ الرحمن 46] ، وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقامِ إِبْراهِيمَ مُصَلًّى [ البقرة 125] ، فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ مَقامُ إِبْراهِيمَ [ آل عمران 97] ، وقوله : وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان 26] ، إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ [ الدخان 51] ، خَيْرٌ مَقاماً وَأَحْسَنُ نَدِيًّا [ مریم 73] ، وقال : وَما مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقامٌ مَعْلُومٌ [ الصافات 164] ، وقال : أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقامِكَ [ النمل 39] قال الأخفش : في قوله قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقامِكَ [ النمل 39] : إنّ المَقَامَ المقعد، فهذا إن أراد أنّ المقام والمقعد بالذّات شيء واحد، وإنما يختلفان بنسبته إلى الفاعل کالصّعود والحدور فصحیح، وإن أراد أنّ معنی المقام معنی المقعد فذلک بعید، فإنه يسمی المکان الواحد مرّة مقاما إذا اعتبر بقیامه، ومقعدا إذا اعتبر بقعوده، وقیل : المَقَامَةُ : الجماعة، قال الشاعر : 379-- وفيهم مَقَامَاتٌ حسان وجوههم - «1» وإنما ذلک في الحقیقة اسم للمکان وإن جعل اسما لأصحابه . نحو قول الشاعر :- 380-- واستبّ بعدک يا كليب المجلس فسمّى المستبّين المجلس .- المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔ ذلِكَ لِمَنْ خافَ مَقامِي وَخافَ وَعِيدِ [إبراهيم 14] اس شخص کے لئے ہے جو قیامت کے روز میرے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرے ۔ وَلِمَنْ خافَ مَقامَ رَبِّهِ [ الرحمن 46] اور جو شخص اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا ۔ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقامِ إِبْراهِيمَ مُصَلًّى [ البقرة 125] کی جگہ بنا لو ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ مَقامُ إِبْراهِيمَ [ آل عمران 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں جن میں سے ایک ابراھیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ [ الدخان 51] بیشک پرہیزگار لوگ امن کے مقام میں ہوں گے ۔ خَيْرٌ مَقاماً وَأَحْسَنُ نَدِيًّا [ مریم 73] مکان کس کے اچھے اور مجلس کس کی بہتر ہیں ۔ وَما مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقامٌ مَعْلُومٌ [ الصافات 164] ہم میں سے ہر ایک کا ایک مقرر مقام ہے اور آیت کریمہ : ۔ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقامِكَ [ النمل 39] قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں میں اس کو آپ کے پاس حاضر کرتا ہوں ۔ کی تفسیر میں اخفش نے کہا ہے کہ یہاں مقام بمعنی مقعد یعنی نشستگاہ کے ہیں اگر اخفش کا مقصد اس سے یہ ہے کہ مقام اور مقصد بالزات ایک ہی چیز کے دو نام ہیں صرف نسبت ( لی ) الفاعل کے لحاظ سے دونوں میں فرق پایا جاتا ( یعنی ایک ہی جگہ کو کسی شخص کے ہاں اور بیٹھنے کے اعتبار سے مقعد کہا جاتا ہے جس طرح کہ صعود اور حدور کے الفاظ ہیں ( کہ ایک ہی جگہ کو اوپر چڑھنے کے لحاظ سے صعود اور اس سے نیچے اترنے کے لحاظ سے حدود کہا جاتا ہے ) تو بجا ہے اور اگر ان کا مقصد یہ ہے کہ لغت میں مقام بمعنی نے المقامتہ کے معنی جماعت بھی کئے ہیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 322 ) ونیھم مقامات حسان وجوھم اور ان میں خوڈ لوگوں کی جماعتیں ہیں مگر یہ بھی دراصل ظرف مکان ہے اگرچہ ( مجازا ) اصھاب مقام مراد ہیں جس طرح کہ ا ( الکامل ) ؎( 327 ) واستب بعدک یاکلیب المجلس اے کلیب تیرے بعد لوگ ایک دوسرے کو گالیاں دینے لگے ہیں ۔ میں مجلس سے اہل مجلس مراد ہیں ۔- صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت .- الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ : وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں - طهر - والطَّهَارَةُ ضربان :- طَهَارَةُ جسمٍ ، وطَهَارَةُ نفسٍ ، وحمل عليهما عامّة الآیات . يقال : طَهَّرْتُهُ فَطَهُرَ ، وتَطَهَّرَ ، وَاطَّهَّرَ فهو طَاهِرٌ ومُتَطَهِّرٌ. قال تعالی: وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة 6] ، أي : استعملوا الماء، أو ما يقوم مقامه، قال : وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة 222] ،- ( ط ھ ر ) طھرت - طہارت دو قسم پر ہے - ۔ طہارت جسمانی اور طہارت قلبی اور قرآن پاک میں جہاں کہیں طہارت کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں بالعموم دونوں قسم کی طہارت مراد ہے کہا جاتا ہے : ۔ طھرتہ فطھروتطھر واطھر فھو طاھر ومتطھر - میں نے اسے پاک کیا چناچہ وہ پاک ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة 6] اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو نہاکر پاک ہوجایا کرو ۔ یعنی یا جو چیز اس کے قائم مقام ہو اس کے ذریعہ طہارت کرلیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة 222] اور جب تک پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت نہ کرو ۔ - طوف - الطَّوْفُ : المشيُ حولَ الشیءِ ، ومنه : الطَّائِفُ لمن يدور حول البیوت حافظا . يقال : طَافَ به يَطُوفُ. قال تعالی: يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدانٌ [ الواقعة 17] ، قال : فَلا جُناحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِما[ البقرة 158] ، ومنه استعیر الطَّائِفُ من الجنّ ، والخیال، والحادثة وغیرها .- قال : إِذا مَسَّهُمْ طائِفٌ مِنَ الشَّيْطانِ [ الأعراف 201] ، وهو الذي يدور علی الإنسان من الشّيطان يريد اقتناصه، وقد قرئ : طيف «4» وهو خَيالُ الشیء وصورته المترائي له في المنام أو الیقظة . ومنه قيل للخیال : طَيْفٌ. قال تعالی: فَطافَ عَلَيْها طائِفٌ [ القلم 19] ، تعریضا بما نالهم من النّائبة، وقوله : أَنْ طَهِّرا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ [ البقرة 125] ، أي : لقصّاده الذین يَطُوفُونَ به، والطَّوَّافُونَ في قوله : طَوَّافُونَ عَلَيْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلى بَعْضٍ [ النور 58] عبارة عن الخدم، وعلی هذا الوجه قال عليه السلام في الهرّة : (إنّها من الطَّوَّافِينَ عليكم والطَّوَّافَاتِ ) «5» . وَالطَّائِفَةُ من الناس : جماعة منهم، ومن الشیء : القطعة منه، وقوله تعالی: فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة 122] ، قال بعضهم : قد يقع ذلک علی واحد فصاعدا «1» ، وعلی ذلک قوله : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات 9] ، إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران 122] ، والطَّائِفَةُ إذا أريد بها الجمع فجمع طَائِفٍ ، وإذا أريد بها الواحد فيصحّ أن يكون جمعا، ويكنى به عن الواحد، ويصحّ أن يجعل کراوية وعلامة ونحو ذلك . والطُّوفَانُ : كلُّ حادثة تحیط بالإنسان، وعلی ذلک قوله : فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الطُّوفانَ [ الأعراف 133] ، وصار متعارفا في الماء المتناهي في الکثرة لأجل أنّ الحادثة التي نالت قوم نوح کانت ماء . قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ الطُّوفانُ [ العنکبوت 14] ، وطَائِفُ القوسِ : ما يلي أبهرها «2» ، والطَّوْفُ كُنِيَ به عن العَذْرَةِ.- ( ط و ف ) الطوف ( ن ) کے معنی کسی چیز کے گرد چکر لگانے اور گھومنے کے ہیں ۔ الطائف چوکیدار جو رات کو حفاظت کے لئے چکر لگائے اور پہرہ دے طاف بہ یطوف کسی چیز کے گرد چکر لگانا گھومنا ۔ قرآن میں ہے : يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدانٌ [ الواقعة 17] نوجوان خدمت گزار جو ہمیشہ ایک ہی حالت میں رہیں گے ان کے آس پاس پھیریں گے ۔ فَلا جُناحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِما[ البقرة 158] اس پر کچھ گناہ نہیں کہ دونوں کا طواف کرے ۔ اور اسی سے بطور استعارہ جن خیال ، حادثہ وغیرہ کو بھی طائف کہاجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :إِذا مَسَّهُمْ طائِفٌ مِنَ الشَّيْطانِ [ الأعراف 201] جب ان کو شیطان کیطرف سے کوئی وسوسہ پیدا ہوتا ہے ۔ میں طائف سے وہ شیطان مراد ہے جو انسان کا شکار کرنے کے لئے اس کے گرد چکر کاٹتا رہتا ہے ایک قرآت میں طیف ہے ، جس کے معنی کسی چیز کا خیال اور اس صورت کے ہے جو خواب یابیداری میں نظر آتی ہے اسی سے خیال کو طیف کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ : فَطافَ عَلَيْها طائِفٌ [ القلم 19] کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے ( راتوں رات ) اس پر ایک آفت پھر گئی ۔ میں طائف سے وہ آفت یا حادثہ مراد ہے جو انہیں پہنچا تھا ۔ اور آیت کریمہ : أَنْ طَهِّرا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ [ البقرة 125] طواف کرنے والوں ۔۔۔ کے لئے میرے گھر کو صاف رکھا کرو۔ میں طائفین سے مراد وہ لوگ ہیں جو حج یا عمرہ کرنے کے لئے ) بیت اللہ کا قصد کرتے اور اس کا طواف کرتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : طَوَّافُونَ عَلَيْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلى بَعْضٍ [ النور 58] اور نہ ان پر جو کام کے لئے تمہارے اردگرد پھرتے پھراتے رہتے ہیں ۔ میں طوافون سے نوکر چاکر مراد ہیں ( جنہیں خدمت گزاری کے لئے اندروں خانہ آنا جا نا پڑتا ہے ) اسی بنا پر بلی کے متعلق حدیث میں آیا ہے (33) انما من الطوافین علیکم والطوافات ۔ کہ یہ بھی ان میں داخل ہے جو تمہارے گرد پھرتے پھراتے رہتے ہیں ۔ الطائفۃ (1) لوگوں کی ایک جماعت (2) کسی چیز کا ایک ٹکڑہ ۔ اور آیت کریمہ : فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة 122] تویوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کبھی طائفۃ کا لفظ ایک فرد پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات 9] ، اور اگر مومنوں میں سے کوئی دوفریق ۔۔۔ اور آیت کریمہ :إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران 122] اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے چھوڑ دینا چاہا ۔ طائفۃ سے ایک فرد بھی مراد ہوسکتا ہے مگر جب طائفۃ سے جماعت مراد لی جائے تو یہ طائف کی جمع ہوگا ۔ اور جب اس سے واحد مراد ہو تو اس صورت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جمع بول کر مفر د سے کنایہ کیا ہو اور یہ بھی کہ راویۃ وعلامۃ کی طرح مفرد ہو اور اس میں تا برائے مبالغہ ہو ) الطوفان وہ مصیبت یا حادثہ جو انسان کو چاروں طرف سے گھیرے اس بنا پر آیت کریمہ ؛فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الطُّوفانَ [ الأعراف 133] تو ہم ان پر طوفان ( وغیرہ کتنی کھلی ہوئی نشانیاں بھیجیں ۔ میں طوفان بمعنی سیلاب بھی ہوسکتا ہے ۔ کیونکہ نوح (علیہ السلام) کی قوم پر جو عذاب آیا تھا ۔ وہ پانی کی صورت میں ہی تھا اور دوسری جگہ فرمایا : فَأَخَذَهُمُ الطُّوفانُ [ العنکبوت 14] پھر ان کو طوفان کے عذاب ) نے آپکڑا ۔ طائف القوس خانہ کمان جو گوشہ اور ابہر کے درمیان ہوتا ہے ۔ الطوف ( کنایہ ) پلیدی ۔- عكف - العُكُوفُ : الإقبال علی الشیء وملازمته علی سبیل التّعظیم له، والاعْتِكَافُ في الشّرع : هو الاحتباس في المسجد علی سبیل القربة ويقال : عَكَفْتُهُ علی كذا، أي : حبسته عليه، لذلکقال : سَواءً الْعاكِفُ فِيهِ وَالْبادِ [ الحج 25] ، وَالْعاكِفِينَ [ البقرة 125] ، فَنَظَلُّ لَها عاكِفِينَ [ الشعراء 71] ، يَعْكُفُونَ عَلى أَصْنامٍ لَهُمْ [ الأعراف 138] ، ظَلْتَ عَلَيْهِ عاكِفاً [ طه 97] ، وَأَنْتُمْ عاكِفُونَ فِي الْمَساجِدِ [ البقرة 187] ، وَالْهَدْيَ مَعْكُوفاً [ الفتح 25] ، أي : محبوسا ممنوعا .- ( ع ک ف ) العکوف - کے معنی ہیں تعظیما کسی چیز پر متوجہ ہونا اور اس سئ وابستہ رہنا ۔ اور اصطلاح شریعت میا الاغتکاف کے معنی ہیں عبادت کی نیت سے مسجد میں رہنا اور اس سے باہر نہ نکلنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَنْتُمْ عاكِفُونَ فِي الْمَساجِدِ [ البقرة 187] جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو ۔ سَواءً الْعاكِفُ فِيهِ وَالْبادِ [ الحج 25] خواہ وہ دہاں کے رہنے والے ہوں یا باہر سے آنے والے ۔ وَالْعاكِفِينَ [ البقرة 125] اور اعتکاف کرنے والوں ۔ فَنَظَلُّ لَها عاكِفِينَ [ الشعراء 71] اور اس کی پوجا پر قائم رہیں۔ عکفتہ علٰی کذا کسی چیز پر روک رکھنا يَعْكُفُونَ عَلى أَصْنامٍ لَهُمْ [ الأعراف 138] یہ اپنے بتوں کی عبادت کے لئے بیٹھے رہتے تھے ۔ ظَلْتَ عَلَيْهِ عاكِفاً [ طه 97] جس معبود کی پوجا پر تو قائم اور معتکف تھا ۔ وَالْهَدْيَ مَعْكُوفاً [ الفتح 25] اور قربانی کے جانوروں کو بھی روک دئے گئے ہیں ۔- ركع - الرُّكُوعُ : الانحناء، فتارة يستعمل في الهيئة المخصوصة في الصلاة كما هي، وتارة في التّواضع والتّذلّل، إمّا في العبادة، وإمّا في غيرها نحو : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا[ الحج 77] ، وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَٓ [ البقرة 43] ، وَالْعاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ [ البقرة 125] ، الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ [ التوبة 112] ، قال الشاعر : أخبّر أخبار القرون الّتي مضت ... أدبّ كأنّي كلّما قمت راکع - ( ر ک ع ) الرکوع اس کے اصل معنی انحناء یعنی جھک جانے کے ہیں اور نماز میں خاص شکل میں جھکنے پر بولا جاتا ہے اور کبھی محض عاجزی اور انکساری کے معنی میں آتا ہے خواہ بطور عبادت ہو یا بطور عبادت نہ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا[ الحج 77] مسلمانوں ( خدا کے حضور ) سجدے اور رکوع کرو وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ [ البقرة 43] جو ہمارے حضور بوقت نماز جھکتے ہیں تم بھی انکے ساتھ جھکا کرو ۔ وَالْعاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ [ البقرة 125] مجاوروں اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں ( کے لئے ) الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ [ التوبة 112] رکوع کرنے والے اور سجدہ کرنے والے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) أخبّر أخبار القرون الّتي مضت ... أدبّ كأنّي كلّما قمت راکع میں گذشتہ لوگوں کی خبر دیتا ہوں ( میں سن رسیدہ ہونے کی وجہ سے ) رینگ کر چلتا ہوں اور خمیدہ پشت کھڑا ہوتا ہوں - سجد - السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات،- وذلک ضربان : سجود باختیار،- ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] ، أي : تذللوا له، - وسجود تسخیر،- وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15] - ( س ج د ) السجود - ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ )- سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری - جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا :- ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔- سجود تسخیر ی - جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15]- اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے : واذ جعلنا البیت مثابۃ للناس وامنا (اور یہ کہ ہم نے اس گھر (کعبے) کو لوگوں کے لئے مرکز اور امن کی جگہ قرار دیا تھا) بیت سے بیت اللہ، یعنی کعبہ مراد ہے صرف بیت کے علی الاطلاق ذکر پر اس لئے اکتفا کرلیا گیا کہ اس پر الف لام داخل ہے کیونکہ الف لام کا دخول ایک معہود چیز کو معرف بنانے یا جنس کا مفہوم ادا کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ اس کلام کے مخاطبین کو علم تھا کہ یہاں جنس مراد نہیں ہے اس لئے اس کا انصراف اس چیز یعنی کعبہ کی طرف ہوگیا جو مخاطبین کے نزدیک معہود تھی۔ قول باری : مثابۃ للناس کی تفسیر میں حسن سے مروی ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ لوگ اس کی طرف ہر سال لوٹ لوٹ کر آتے ہیں۔ حضرت ابن عباس اور مجاہد سے مروی ہے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ بیت اللہ جو شخص بھی واپس جاتا ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ ابھی اس کی مراد پوری نہیں ہوئی ہے، اس لئے وہ پھر اس کی طرف واپس ہوتا ہے۔ ایک قول کے مطابق اس کا مفہوم یہ ہے کہ لوگ بیت اللہ کا حج کرنے جاتے ہیں اور انہیں اس کا ثواب ملتا ہے۔ - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اہل لغت کے قول کے مطابق اس لفظ کی اصل تعلق (ثاب، یثوب مثابۃ و ثواباً ) سے ہے جس کے معنی واپس آنے کے ہیں۔ بعض کے قول اس پر حرف ھاء (گول تاء) کا دخول مبالغے کے لئے ہے ۔ جسے طرح مبالغے کے طور پر کہا جاتا ہے۔ نسابۃ علامۃ سیارۃ (نساب کا بڑا ماہر، بہت بڑا عالم، بہت چلنے والا) فراء نحوی کے قول کے مطابق یہ لفظ اسی طرح ہے جیسے کہا جاتا ہے : المقامۃ ، المقامہ (ٹھہرنا)- حضرات سلف سے سطور بالا میں جو تین تاویلیں نقل کی گئی ہیں، یعنی ہر سال لوگوں کا بیت اللہ کی طرف رجوع کرنا، لوگوں کا بیت اللہ کے حج کو جانا اور اس پر ثواب پانا اور بیت اللہ سے واپس آنے والے شخص کے دل میں اس کی طرف واپس جانے کی امنگ کا موجزن ہونا، آیت کے لفظ میں چونکہ ان تینوں کا احتمال ہے اس لئے تمام معانی مراد لینا جائز ہے، جو حضرات اس کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ بیت اللہ سے واپس آنے والے کے دل میں دوبارہ جانے کی امنگ ہوتی ہے، ان کی تاویل کی گواہی اس قول سے باری سے ظاہر ہے : فاجعل افئدۃ من الناس تھوی الیھم (پس تو لوگوں کے دلوں کو ان کا مشتاق بنا دے) اس لفظ : مثابۃ نے طواف کے عمل پر نص کردی ہے کیونکہ بیت اللہ طواف کے ملئے مقصود اور طواف کا ٹھکانا ہے۔ اس میں طواف کے وجوب پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ یہ تو صرف اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ طواف کرنے والا ثواب کا مستحق قرار پاتا ہے۔- عمرہ کو واجب قرار دینے والے حضرات بعض دفعہ اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کو ایسا مرکز بنادیا ہے جس طرف لوگ بار بار لوٹ کر آتے ہیں تو اس کی طرف لوٹ لوٹ کر آناحج کے بعد عمرہ کرنے کا مقتضی ہے۔ لیکن اس استدلال میں کوئی جان نہیں ہے کیونکہ لفظ کے اندر ایجاب کی دلیل موجود نہیں ہے۔ لفظ کے اندر صرف اتنی بات ہے کہ اللہ نے لوگوں کے لئے بیت اللہ کی طرف واپس آنا مقرر کردیا ہے اور سا پر ان سے ثواب کا وعدہ فرمایا ہے۔ یہ بات استحباب کی مقتضی ہے ایجاب کی نہیں۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی شخص آپ سے کہے کہ :” تم چاہو تو عمرہ کرلو اور چاہو تو نمازپڑھ لو۔ “ تو اس میں آپ پر وجوب کی کوئی بات نہیں ہوگی۔ علاوہ ازیں آیت میں بیت اللہ کی طرف عمرہ کے لئے واپس آنے کی تخصیص نہیں ہے۔ اس کے ساتھ حج کے اندر طواف قدوم، طواف زیارت اور طواف صدر ہے۔ ان طوافوں کی وجہ سے بیت اللہ کی طرف بار بار واپس آنا حاصل ہوجاتا ہے۔ جب ایک شخص یہ تمام طواف کرے گا تو آیت میں مذکورہ لفظ سے عہدہ برا ہوجائے گا۔ اس لئے ہم یہ کہیں گے کہ اس لفظ کے اندر عمرہ کے وجوب پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ - قول باری اوامناً میں بیت اللہ کو امن کے وصف سے موصوف کیا گیا ہے اور اس سے پورا حرم مراد ہے۔ جس طرح یہ قول باری : ھدیاً بالغ الکعبۃ (کعبہ کو پہنچنے والا ہدی یعنی قربانی کا جانور) اس سے مراد حرم ہے ، نفس کعبہ مراد نہیں ہے، کیونکہ قربانی کے جانور کو نہ تو کعبہ کے اندر ذبح کیا جاتا ہے اور نہ مسجد حرام ہی میں۔ اسی طرح یہ قول باری ہے (والمسجد الحرام الذی جعلنا ہ للناس سواء العاکف فیہ والباد (اور مسجد حرام سے جسے ہم نے لوگوں کے لئے مقرر کیا ہے کہ اس میں رہنے والا اور باہر سے آنے والا سب برابر ہیں) حضرت ابن عباس نے فرمایا : یہ اس لئے کہ سارا حرم مسجد ہے۔ اسی طرح قول باری ہے : انما المشرکون نجس فلا یقربوا المسجد الحرام بعد عا مھم ھذا (مشرکین تو محض ناپاک ہیں۔ اب وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب بھی نہیں آئیں) اس سے مراد یہ ہے کہ انہیں حج کرنے اور مقامات نسک پر جانے سے روک دیا گیا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد کو دیکھیے کہ جب آپ نے حضرت علی (رض) کو اعلان برأت دے کر بھیجا تو فرمایا کہ : اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کرنے نہ آئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اس ارشاد کے ذریعے آیت کی مراد واضح فرما دی۔ ایک اور آیت میں ارشاد باری ہے : اولم یروا انا جعلنا حرماً امنا (کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے امن و الا ایک حرم بنادیا) اللہ سبحانہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا میں فرمایا : رب اجعل ھذا یلداً امنا (اے میرے رب اسے امن والا شہر بنا دے) یہ تمام آیات اس امر پر دلال ہیں کہ بیت اللہ کو امن کی صفت کے ساتھ موصوف کرنا پورے حرم کا مقتضی ہے۔ اس لئے کہ حرم کی حرمت کا تعلق جب بیت اللہ کے ساتھ ہے تو یہ بات جائز ہے کہ بیت کے اسم کے ذریعے پورے حرم کی تعبیر کی جائے اس لئے کہ حدود حرم میں امن حاص ہوتا ہے اور اس میں قتل و قتال کی ممانعت ہے۔ اس طرح اشہر حرم کی حرمت کا تعلق بھی بیت اللہ کے ساتھ ہے کیونکہ ان مہینوں میں لوگوں کو امن حاصل ہونا حج کی وجہ سے ہے اور حج کا مرکز بیت اللہ ہے۔- قول باری : واذ جعلنا البیت مثابۃ للنسا وامنا اللہ کی طرف سے حکم ہے۔ خبر نہیں ہے۔ اسی طرح قول باری : رب اجعل ھذا بلداً امنا اور قول باری : ومن دخلہ کان امنا ۔ حکم کے طور پر ہے۔ یہ قول باری اس بات کی خبر نہیں ہے کہ جو شخص بیت اللہ میں داخل ہوجائے گا اسے کوئی تکلیف لاحق نہیں ہوگی، اس لئے کہ اگر یہ خبر کی صورت میں ہوتا تو خارجی اعتبار سے صورت حال وہی ہوتی جس کی خبر دی گئی ہے، کیونکہ اللہ کی دی ہوئی خبروں کے لئے ضروری ہے کہ خارجی اعتبار سے بھی صورت حال اسی طرح ہو جس کی خبر دی گئی ہے جبکہ اللہ سبحانہ نے خود دوسری جگہ ارشاد فرمایا ہے : ولا تقاتلواھم عند المسجد الحرام حتی یق تلوکم فیہ فان قاتلوکم فافتلوھم (اور ان کے ساتھ مسجد حرام کے پاس اس وقت تک جنگ نہ کرو جب تک یہ تمہارے ساتھ وہاں جنگ نہ کریں۔ اگر یہ تمہارے ساتھ جنگ کریں تو پھر انہیں قتل کرو)- اس آیت کے ذریعے اللہ نے مسجد حرام کے پاس قتل کے وقوع کی خبر دی۔ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ آیت میں مذکورہ امر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حرم میں امن قائم رکھنے کے حکم کے قبیل سے ہے، نیز یہ کہ وہاں پناہ لینے والے کو قتل نہ کیا جائے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے عہد سے لے کر آج تک حرم کا یہی حکم ہے۔ زمانہ جاہلیت میں بھی عرب کے لوگ حرم کے سلسلے میں اسی بات کا اعتقاد رکھتے تھے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شریعت کی بچی کھچی صورت کے تحت حرم کے اندر قتل کا ارتکاب کرنا عظیم گناہ سمجھتے تھے۔- محمد بن بکر نے روایت بیان کی ہے، ان سے ابو دائود نے، ان سے احمد بن حنبل نے، ان سے الولید بن مسلم نے، ان سے اوزاعی نے، ان یے یحییٰ نے ابوسلمہ سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے کہ انہوں نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھوں مکہ فتح کرا دیا تو آپ کھڑے ہوئے اور حمد و ثنا کے بعد فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مکہ سے ہاتھیوں کو روک دیا اور مکہ پر اپنے رسول اور اہل ایمان کو غالب کردیا۔ میرے لئے بھی اسے صرف دن کی ایک گھڑی کیلئے حلال کردیا گیا تھا اور پھر اب یہ قیامت تک کے لئے جرم ہے۔ اس کے درخت نہیں کاٹے جائیں گے نہ اس کے شکار ہی کو بھگا یا جائے گا اور نہ یہاں پڑا ہوا لقطہ ہی کسی کے لئے حلال ہوگا، سوائے اس شخص کے جو اسے اٹھا کر اس کے مالک تک پہنچانا چاہے۔ یہ سن کر حضرت عباس نے عرض کیا۔ اللہ کے رسول، سوائے اذخر (ایک قسم کی گھاس) کے کیونکہ اسے ہماری قبروں اور گھروں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” سوائے اذخر کے۔ “- محمد بن بکر نے ا ن سے ابو دائود نے، ان سے عثمان بن ابی شیبہ نے ، ان سے جریر نے منصور سے، انہوں نے مجاہد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے بیان کیا، اور اس کی تر گھاس نہیں کاٹی جائے گی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مکہ کو اس دن ہی حرام قرار دیا تھا جس دن اس نے زمین اور آسمانوں کی تخلیق کی ، مجھ سے پہلے کسی کے لئے بھی اسے حلال نہیں کیا گیا اور میرے لئے بھی اسے صرف دن کی ایک گھڑی کے لئے حلال کردیا گیا تھا۔- ابن ابی زویب نے سعید المقبری سے، انہوں نے ابو شریح الکعبی سے بیان کیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرم قرار دیا ہے، لوگوں نے اسے حرم قرار نہیں دیا۔ اب یہاں کسی کا خون ہرگز نہ بہایا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے میرے لئے دن کی ایک گھڑی کے لئے حلال کردیا تھا اور لوگوں کے لئے اسے حلال قرار نہیں دیا۔ - حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں بتادیا کہ اللہ تعالیٰ نے مکہ کو اس دن ہی حرام قرار دیا تھا جس دن اس نے زمین آسمان کی تخلیق کی تھی، اس نے یہاں خونریزی کی ممانعت کردی ہے اور اس کی حرمت اب قیامت تک باقی رہے گی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی بتادیا کہ مکہ کی تحریم میں یہاں کے شکار کی بھی تحریم شامل ہے، نیز یہاں کے درخت کاٹنا اور تر گھاس اکھاڑنا بھی حرام ہے۔- اگر کوئی شخص یہاں یہ کہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عباس کی درخواست پر اذخر گھاس کو ممانعت کے حکم سے مستثنیٰ کردیا، حلاان کہ اس سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علی الاطلاق تمام چیزوں کی ممانعت کر دیھی اور یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ فعل پر تمکین سے پہلے نسخ جائز نہیں ہوتا۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے ؟- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اذخر کی اباحت کی اس وقت خبر دے دی ہو جب حضرت عباس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی اباحت کی درخواست کی جس طرح یہ قول باری ہے : فاذا استاذ نوک ببعض شانھم فاذن لمن شئت منھم (اگر یہ لوگ آپ سے اپنے بعض کاموں کے سلسلے میں جانے کی اجازت مانگیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں سے جسے چاہیں جانے کی اجازت دے دیں) اسی آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں کی طرف سے درخواست پر اجازت دینے کا اختیار دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اگرچہ نص اور توفیق کے ذریعے مکہ کی حرمت بتادی تھی، تاہم مکہ میں موجود اللہ کی نشانیاں اور سا کی توحید پر ان کی دلالت نیز مکہ کے ساتھ توحید باری کا اختصاص ایسی باتیں ہیں جو مکہ مکرمہ کی عظمت اور اس کی تعظیم کی موجب ہیں اور اس کا مشاہدہ شکار کے ان جانوروں میں کیا جاسکتا ہے جنہیں یہاں مکمل امن حاصل ہوتا ہے۔ اگرچہ حرم کا سارا حصہ زمین کے تمام دوسرے حصوں کے مشابہ ہے اور اس حصے میں ہرن اور کتے کا اجتماع ہوتا ہے، لیکن کیا مجال کہ کوئی کتا کسی ہرن کا پیچھا کرے اور اسے بھاگنے پر مجبور کر دے، البتہ جب یہ دونوں حدود حرم سے باہر نکل جاتے ہیں تو کتا ہرن پر حملہ آور ہوجاتا ہے اور ہرن اس سے بچنے کے لئے دوڑنا شروع کردیتا ہے۔ یہ صورت درحقیقت توحید باری تیز حضرات اسماعیل کی تفصیل اور ان کی شان کی عظمت پر دلالت کرتی ہے۔- صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک جماعت سے حرم کے شکار نیز وہاں کے درخت کاٹنے کی ممانعت مروی ہے، نیز یہ بھی مروی ہے کہ اگر حرم میں کسی شکار کو ہلاک کردیا جائے یا کوئی درخت کاٹ لیا جائے تو اس کا بدلہ (کفارہ) ادا کرنا واجب ہے۔- قول باری ہے : واتخذوا من مقام ابراھیم مصلی (اور لوگوں کو حکم دیا تھا کہ ابراہیم جہاں عبادت کے لئے کھڑا ہوتا ہے اس مقام کو مستقل جائے نماز بنا لو) یہ آیت طواف کی دو رکعتوں کے لزوم پر دلالت کرتی ہے۔ قول باری : مثابۃ للناس۔ طواف کے عمل کا مقتضی ہے اور پھر اس پر زیر بحث آیت کو عطف کیا گیا۔ اس آیت میں مذکورہ امر کا صیغہ ظاہراً ایجاب پر مبنی ہے جس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ طواف نماز کا موجب ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی ایسی روایت منقول ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے طواف کی نماز مراد لی ہے، یہ وہ روایت ہے جسے محمد بن بکر نے بیان کیا ہے، ان سے ابو دائود نے ، ان سے عبد اللہ بن محمد النفیلی نے، ان سے حاتم بن اسماعیل نے، ان سے جعفر بن محمد نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت جابر سے، حضرت جابر نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حج کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رکن کا استلام کیا اور طواف کے تین اشواط میں رمل کیا اور چار اشواط میں اپنے قدموں پر چلے، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مقام ابراہیم کی طرف بڑھے اور یہ آیت تلاوت کی : واتخذوا من مقام ابراھیم مصلی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقام ابراہیم کو اپنے اور بیت اللہ کے درمیان رکھ کر دو رکعتیں ادا کیں۔- جب آپ نے مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعتیں ادا کرنے کے وقت درج بالا آیت تلاوت کی تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ آیت میں طواف کے بعد نماز مراد ہے۔ اور چونکہ آیت کا صیغہ امر کا ہے اس لئے اسے وجوب پر محمول کیا جائے گا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دو رکعتیں بیت اللہ کے پاس ادا کیں۔- یہ روایت محمد بن بکر نے بیان کی، ان سے ابو دائود نے، ان سے عبداللہ بن عمر القواریری نے ، ان سے یحییٰ بن سعید نے ، ان سے السائب نے اپنے والد سے کہ وہ حضرت ابن عباس کو لا کر حجر اسود سے متصل رکن کے ساتھ ملے ہوئے تیسرے کنارے پر کھڑا کردیتے جو باب کعبہ کے متصل ہے، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں : میں یہ ثابت کرسکتا ہوں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہیں کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تھے۔ پھر حضرت ابن عباس وہیں کھڑے ہو کر نماز ادا کرتے۔ اسی طرح زیر بحث آیت کی طواف کی نماز پر دلالت ہوگئی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کبھی مقام ابراہیمکے پاس اور کبھی اس کے سوا کسی اور مقام پر نماز ادا کرنا اس بات کی دلیل بن گیا کہ مقام ابراہیم کے پاس اس نماز کی ادائیگی واجب نہیں ہے۔- عبدالرحمٰن القاری نے حضرت عمر سے روابیت بیان کی ہے کہ انہوں نے صبح کی نماز کے بعد طواف کعبہ کیا اور پھر سوار ہو کر مقام ذی طوی پہنچ گئے اور وہاں طواف کی دو رکعتیں ادا کیں۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ انہوں نے طواف کی نماز حطیم کے اندر ادا کی۔ حسن بصری اور عطا سے مروی ہے کہ انہوں نے مقام ابراہیم کے پیچھے طواف کی نماز نہیں پڑھی۔- قول باری : مقام ابراہیم کی مراد کے بارے میں سلف کے اندر اختلاف رائے ہے۔ حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ سارا حج مقام ابراہیم ہے۔ عطا نے کہا ہے کہ : مقام ابراہیم عرفات مزدلفہ اور جمرات ہے۔ مجاہد کے قول کے مطابق سارا حرم مقام ابراہیم ہے۔ السدی نے کہا ہے کہ مقام ابراہیم وہ پتھر ہے جسے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی زوجہ محترمہ نے اس وقت حضرت ابراہیم علیہ ا لسلام کے پائوں تلے رکھا تھا جب انہوں نے ان کا سردھویا تھا۔ اس وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سواری پر تھے۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی بیوی نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سرکا ایک حصہ دھویا اور پتھ رپتھر کو نیچے سے اٹھایا تو دیکھا کہ اس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قدم اندر تک چلا گیا تھا۔ پھر اسے دوسری طرف نیچے رکھ کر سرکا دوسری طرف کا حصہ دھویا اور دیکھا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قدم پتھر میں پھر اندر تک چلا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس پتھر کو اپنے شعائر کا حصہ قرار دے دیا اور فرمایا : واتخذوا من مقام ابراھیم مصلی ایسی ہی روایت حسن بصری، قتادہ اور الربیع بن انس سیبھی منقول ہے اور زیادہ ظاہر بات یہی ہے کہ مقام ابراہیم سے یہی مراد ہے۔ کیونکہ حرم کو علی الاطلاق مقام ابراہیم کا نام نہیں دیا جاتا۔ یہی بات ان تمام مواضع کے متعلق کہی جائے گی جن کا ذکر ہم نے دوسرے حضرات کی تاویلات کے سلسلے میں کیا ہے کہ مقام ابراہیم سے مذکورہ پتھر ہی مراد ہے۔ اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جسے حمید نے حضرت انس سے نقل کیا ہے کہ حضرت عمر نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ : اللہ کے رسول، اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مقام ابراہیم کو جائے نماز بنا لیتے تو اچھا ہوتا۔ اس پر اللہ سبحانہ نے زیر بحث آیت نازل فرمائی اور پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہاں نماز ادا کی۔ - اس پر اللہ تعالیٰ کا وہ حکم بھی دلالت کرتا ہے جو ہمیں نماز ادا کرنے کے سلسلے میں اس نے دیا ہے کیونکہ حرم سے نماز کا کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ان تمام مقامات ہی سے جن کا ذکر حضرات سلف نے مقام ابراہیم کی تاویل کے سلسلے میں کیا ہے۔ یہ مقام ابراہیم اللہ کی وحدانیت اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نبوت پر دلالت کرتا ہے ۔ کیونکہ اللہ سبحانہ نے اس پتھر میں مٹی کی نرمی پیدا کردی جس سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا پائوں اس میں اندر تک چلا گیا اور یوں یہ پتھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ایک معجزہ بھی ہے۔- قول باری : مصلی سے کیا معنی مراد ہے ؟ اس بارے میں بھی اختلاف رائے ہے۔ مجاہد کے قول کے مطابق یہ جائے دعا ہے۔ اس کا تعلق نماز سے اس لئے قائم کیا گیا کہ نما زبھی دعا ہے جیسا کہ قول باری ہے : یا یھا الذین امنوا صلوا علیہ (اے ایمان والو تم بھی آپ پر رحمت بھیجو) یعنی دعا کرو، حسن بصری نے کہا ہے کہ اس سے مراد قبلہ ہے، قتادہ اور السدی نے کہا ہے کہ لوگوں کو اس جگہ نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لفظ کا ظاہر بھی اسی مفہم کا مققتضی ہے۔ اس لئے کہ جب لفظ صلوۃ عل الاطلاق ہو تو اس سے وہ صلوۃ مفہوم ہوتی ہے جسے رکوع اور سجود کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیں دیکھتے کہ شہر کا مصلی وہ مقام ہے جس میں عید کی نماز ادا کی جاتی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت اسامہ بن زید سے فرمایا تھا۔ مصلی تمہارے آگے ہے۔ اس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد وہ مقام تھا جہاں نماز ادا کی جاتی تھی۔ اس پر یہ امر بھی دلالت کرتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زیر بحث آیت تلاوت کرنے کے بعد نماز ادا کی تھی۔ جو حضرات مصلی سے قبلہ مراد لیتے ہیں ان کی مراد بھی نماز کے معنی کی طرف راجع ہے، اس لئے کہ نمازی مقام ابراہیم کو اپنے اور بیت اللہ کے درمیان رکھتا ہے اور اس طرح مقام ابراہیم اس کے لئے قبلہ بن جاتا ہے نیز نماز کے اندر چونکہ دعا ہوتی ہے اس لئے مذکورہ لفظ، یعنی مصلی کو صلوۃ کے معنوں پر محمول کرنا اولیٰ ہے کیونکہ نماز ہی ان تمام معانی پر مشتمل ہے جن کی نشاندہی سلف نے زیر بحث آیت کی تاویل میں کی ہے۔- قول باری ہے : وعھدنا الی ابراہیم و اسمعیل ان طھوابیتی للظائفین و العاکفین والرکع السجود (اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو تاکید کی تھی کہ میرے اس گھر کو طواف اور اعتکاف اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک رکھو) قتادہ، عبید بن عمیر، مجاہد اور سعید بن جبیر نے اس کی تفسیر میں کہا ہے کہ ” تم دونوں اسے شرک اور بتوں کی پرستش سے پاک رکھو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر جب آپ بیت اللہ میں داخل ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا کہ مشرکین نے وہاں بت نصب کر رکھے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں توڑ ڈالنے کا حکم دیا اور اپنے دست مبارک میں ایک چھڑی لے کر ان بتوں کو ٹھوکے لگاتے اور پڑھتے جاتے : جآء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقاً (حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور باطل تو مٹنے ہی والا ہے)- ایک قول کے مطابق زیر بحث آیت کا مفہوم ہے : تم دونوں اسے گوبر اور خون سے پاک کر دو جسے مشرکین یہاں پھینک جاتے تھے، السدی کے قول کے مطابق یہ مفہوم ہے : میرے گھر کی تعمیر طہارت پر کرو۔ جس طرح یہ قول جاری ہے (افمن اسس بنیانہ علی تقویٰ من اللہ ورضوان خیر (پھر تمہارا کیا خیال ہے کہ بہتر انسان وہ ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد خدا کے خوف اور اس کی رضا کے طلب پر رکھی) تا آخر آیت - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ مذکورہ بالا تمام معانی اور الفاظ کے اندر گنجائش ہے اور یہ معافی ایک دوسرے کے منافی بھی نہیں ہیں، اس لئے آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ میرے گھر کی تعمیر طہارت پر کرو اور اسے گوبر اور خون وغیرہ سے بھی پاک رکھو اور بتوں کو اس میں رکھنے کی کسی کو اجازت نہ دو ۔- قول باری : للطائفین سے کیا معنی مراد ہے ؟ اس بارے میں اختلاف رائے ہے۔ جو یر نے ضحاک سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان سے وہ لوگ مراد ہیں جو حج کرنے کے لئے آئیں اور قول باری : والعاکفین سے اہل مکہ مراد ہیں۔ یہی لوگ یہاں قیام کرنے الے تھے۔ عبدالملک نے عطاء سے نقل کیا ہے کہ عاکفین سے مراد وہ لوگ ہیں جو دیگر شہروں سے آگے پیچھے بیت اللہ میں آتے ہیں، نیز وہ لوگ جو بیت اللہ کے قرب و جوار میں آباد ہیں۔- ابوبکر الہذلی نے کہا ہے کہ اگر ایک شخص طواف کر رہا ہو تو وہ طائفین میں شمار ہوگا اور اگر بیٹھا ہوا ہو تو وہ عاکفین میں شمار ہوگا اور اگر وہ نماز پڑھ رہا ہو تو اسے رکوع سجدہ کرنے والوں میں شمار کیا جائے گا۔- ابن فضیل نے ابن عطاء سے، انہوں نے سعید سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت بیان کی ہے کہ انہوںں نے زیر بحث آیت کی تفسیر میں فرمایا : نماز سے پہلے طواف کرنا۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ضحاک کا قول (جو لوگ حج کرنے کے لئے آئیں ان کا شمار طائفین میں ہوگا) بھی بیت اللہ کے طواف کے معنی کی طرف راجع ہے، اس لئے کہ جو شخص بیت اللہ کا قصد کرے گا وہ طواف کی خاطر ہی اس کا قصد کرے گا۔ تاہم ضحاک نے آیت کے مذکورہ لفظ کو باہر سے آنے والوں کے ساتھ خاص کردیا ہے حالانکہ آیت کے اندر تخصیص کی کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔ طواف کے عمل میں اہل مکہ اور باہر سے آنے والے لوگ دونوں یکساں ہوتے ہیں۔- اگر یہاں یہ کہا جائے کہ ضحاک نے اس لفظ کی تاویل اس طائف کے معنوں میں کی ہے جو طاری یعنی اجنبی ہوتا ہے۔ جس طرح یہ قول باری ہے : فطاف علیھا طائف من ربک واپس اس (باغ) پر آپ کے پروردگار کی طرف سے ایک پھرنے والا (عذاب) پھر گیا) نیز یہ قول باری : اذا مسھو طائف من ا لشیطان (جب شیطان کے اثر سے کوئی برا خیلا انہیں چھو بھی جاتا ہے۔ )- اس کے جواب میں کہا جائے گا اگر ضحاک نے مذکورہ بالا معنی کا ارادہ بھی کیا ہو تو بھی لا محالہ طواف ہی مراد ہوگا اس لئے کہ طاری، یعنی اجنبی شخص بیت اللہ کا قصد صرف اس کے طواف کی خاطر کرے گا۔ ضحاک نے مذکورہ بالا معنی مراد لے کر لفظ طائف کو ان میں سے بعض کے ساتھ خاص کردیا اور بعض کو چھوڑ دیا اور اس بات پر لفظ کے اندر کوئی دلالت نہیں ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس لفظ کو طواف کے عمل پر محمول کیا جائے۔ اس صورت میں قول باری : والعاکفین سے مراد وہ لوگ ہوں گے جو بیت اللہ میں اعتکاف کرتے ہیں۔ اس میں بھی دو صورتوں کا احتمال ہے۔ پہلی صورت تو یہ ہے کہ مذکورہ اعتکاف سے وہ اعتکاف مراد ہے جسکا ذکر اس قول باری میں ہوا ہے : وانتم عاکفون فی المساجد ( اور جب تم مسجدوں میں معتکف ہو) اس صورت میں آیت کے اندربیت اللہ کی تخصیص ہوجائے گی۔ دوسری صورت میں وہ لوگ مراد ہوں گے جو مکہ مکرمہ میں مقیم ہیں اور یہاں پناہ لئے ہوئے ہیں، بشرطیکہ اعتکاف کو بعث (ٹھہرنے) کے معنوں میں لیا جائے۔ ایک قول کے مطابق عاکفین سے مراد بیت اللہ کے قرب و جوار میں رہنے والے لوگ ہیں۔ ایک اور قول کے مطابق اس سے اہل مکہ مراد ہیں۔ یہ تمام صورتیں ایک مقام پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے معنی کی طرف راجع ہیں۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جن حضرات نے قول باری : للطائفین کی تاویل غربا یعنی مسافروں اور وطن سے دور لوگوں سے کی ہے ان کی یہ تاویل اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ غبرا کے لئے طواف نماز سے افضل ہے کیونکہ اس صورت میں یہ قول باری لا محالہ غربا کے لئے طواف کے معنی کا افادہ کرے گا اگر بیت اللہ کے لئے ان کا قصد طواف کے لئے ہو تو قول باری : والعاکفین بیت اللہ میں اعتکاف کے جواز کا معنی ادا کرے گا، نیز اس میں اور اس کے سامنے نماز پڑھنے کے معنی بھی دے گا، تاہم غربا کو طواف کے ساتھ مخصوص کردیا گیا ہے۔ اس سے یہ مفہوم حاصل ہوتا ہے کہ غربا کے لئے طواف کرنا نماز پڑھنے، نیز اس اعتکاف سے افضل ہے جو طواف کے بغیر صرف ٹھہرنے کے معنوں میں ہے۔- حضرت ابن عباس اور مجاہد سے مروی ہے کہ دیگر شہروں کے باشندوں کیلئے طواف کرنا اور اہل مکہ کے لئے نماز پڑھنا افضل ہے۔ اس طرح زیر بحث آیت کئی معانی کو متضمن ہے ایک تو یہ کہ بیت اللہ کا طواف کیا جائے اور یہ اللہ کی ایسی عبادت ہے جس کا فاعل ثواب کا مستحق ہوتا ہے۔ نیز یہ کہ غرباء، یعنی مسافروں کے لئے طواف کرنا نماز پڑھنے اور بیت اللہ میں یا اس کے سامنے اعتکاف کرنے سے افضل ہے۔ یہ بات قول باری : والعاکفین سے مفہوم ہوتی ہے اس میں بیت اللہ کے اندر نماز پڑھنے کے جواز پر بھی دلالت موجود ہے خواہ یہ فرض نماز ہو یا نفل کیونکہ آیت نے ان کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا ہے۔ یہ بات امام مالک کے قول کے خلاف ہے کیونکہ وہ بیت اللہ کے اندر فرض نماز کی ادائیگی کے جواز کے قائل نہیں ہیں، حالانکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے موقعہ پر بیت اللہ کے اندر نماز پڑھی تھی اور چونکہ یہ نماز چاشت کے وقت پڑھی گئی تھی اس لئے لا محالہ نماز نفل تھی۔- آیت میں مکہ کے پڑوس میں رہائش میں رہائش کے جواز پر بھی دلالت موجود ہے۔ قول باری : والعاکفین میں اس معنی کا احتمال موجود ہے اگر اسے لبث (ٹھہرنے) کا اسم قرار دیا جائے۔ ایسا بطور مجاز ہوسکتا ہے۔ علاوہ ازیں عطا اور یدگر حضرات نے اس لفظ کی تاویل بیت اللہ کے قرب و جوار میں بسنے والے لوگوں سے کی ہے۔ یہ آیت اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ طواف نماز سے پہلے ہوتا ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس نے اس کی تاویل کی ہے جس کا ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں۔- اگر یہاں یہ کہا جائے کہ الفاظ کے اعتبار سے طواف کو نماز پر مقدم کرنے میں ترتیب پر کوئی دلالت نہیں ہے، اس لئے کہ حرف وائو ترتیب کا موجب نہیں ہوتا، تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ لفظ طواف کرنے اور نماز پڑھنے دونوں افعال کا مقتضی ہے اور جب نماز کے ساتھ طواف کا ثبوت ہوجائے تو اس صورت میں دو وجوہ کی بنا پر طواف لا محالہ نماز پر مقدم ہوگا۔ ایک وجہ تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عمل اور دوسری وجہ اہل علم کا اتفاق کہ طواف نماز پر مقدم ہے۔ اگر یہاں کوئی معترض بیت اللہ کے اندر نماز کے جواز کے سلسلے میں ہماری مذکورہ بات پر اعتراض کرتے ہوئے کہے کہ آیت کے الفاظ میں بیت اللہ کے اندر جو از صلوۃ پر کوئی دلالت نہیں ہے، اس لئے کہ قرآن کے الفاظ میں یہ تہیں ہیں : والرکع السجود فی المبیت (بیت اللہ کے اندر رکوع اور سجدہ کرنے والے) نیز زیر بحث آیت میں جوف کعبہ میں طواف کرنے کی دلالت موجود نہیں، بلکہ خارج کعبہ طواف کرنے پر دلالت ہے۔ اسی طرح آیت کی دلالت بیت اللہ کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرنے کی صورت تک محدود ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ زیر بحث آیت کا ظاہر تو بیت اللہ کے اندر مذکورہ افعال کی ادائیگی کے جواز کا مقتضی ہے جس طرح یہ بیت اللہ کے اندر اعتکاف کرنے کے جواز کا تقاضا کرتا ہے۔ اس اقتضاء کے دائرے سے طواف کا عمل بایں طور پر خارج ہوگیا ہے کہ یہ بیت اللہ سے باہر سر انجام پاتا ہے اور اس کی دلیل اجماع امت ہے، نیز یہ کہ بیت اللہ کے طواف کا مفہوم یہ ہے کہ اس کے گرد چکر لگایا جائے۔ جوف کعبہ کے اندر چکر لگانے والا شخص طواف کرنے والا نہیں کہلاتا۔ اللہ سبحانہ نے تو ہمیں بیت اللہ کے طواف کا حکم دیا ہے۔ بیت اللہ کے اندر طواف کرنے کا حکم نہیں دیا، چناچہ ارشاد باری ہے۔ ولیطوفوا بالبیت العتیق (اور قدیم گھر کا خوب خوب طواف کریں) جو شخص بیت اللہ کے اندر نماز ادا کرے اسے آیت کے الفاظ کا علی الاطلاق ذکر شامل ہوجائے گا، نیز اگر آیت میں صرف بیت اللہ کی طرف رخ کرنا مراد ہوتا تو پھر رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لئے بیت اللہ کو پاک رکھنے کے ذکر کا کوئی فائدہ نہ ہوتا، اس لئے کہ رخ کرنے کے معاملے میں بیت اللہ کو پاک رکھنے کے ذکر کا کوئی فائدہ نہ ہوتا، اس لئے کہ رخ کرنے کے معاملے میں بیت اللہ میں موجود اور بیت اللہ دور تمام لوگ یکساں ہیں، جبکہ یہ بات واضح ہے کہ بیت کو پاک رکھنے کا حکم صرف ان لوگوں کو دیا جا رہا ہے جو وہاں موجود ہوں۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ آیت میں یہ مراد نہیں ہے کہ بیت اللہ کی طرف رخ کیا جائے اور بیت اللہ کے اندر نماز ادا نہ کی جائے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ سبحانہ نے رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لئے بیت اللہ کی تطہیر کا حکم فرمایا۔ اگر آپ اس حکم کو بیت اللہ سے باہر نماز کی ادائیگی پر محمول کریں تو بیت کے اردگرد کی تطہیر بھی ہوگی اور جب آیت کے الفاظ دنوں باتوں کا احتمال رکھتے ہیں تو پھر مذکورہ حکم کو دونوں پر محمول کرنا واجب ہ گا اور اس طرح دونوں باتیں مراد ہوں گی جس کے نتیجے میں بیت اللہ کے اندر اور بیت اللہ سے باہر دونوں مقامات پر نماز کی ادائیگی کا جواز ہوگا۔- اگر یہ کہا جائے کہ قول باری : ولیطوفوا بالبیت العتیق کی طرح یہ قول باری بھی ہے : فول جھک شطرالمسجد الحرام و حیث ما کنتم فوتوا وجوھکم شطرہ (اپنا رخ مسجد حرام ہی کی طرف پھیرا کرو اور جہاں بھی تم ہو اسی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھو) اور یہ حکم بیت اللہ سے باہر نماز کی ادائیگی کا مقتضی ہے۔ اس کے جواب میں کہ اجائے گا کہ اگر آپ آیت کے الفاظ کو ان کے حقیقی معنوں پر محمول کریں تو مسجد حرام کے اندر بھی نماز کا جواز نہیں ہوگا کیونکہ ارشاد باری ہے : قول وجھک شطرالمسجد الحرام اس بنا پر ایک نمازی جب تک مسجد حرام کے اندر ہوگا اس وقت تک مسجد حرام کی طرف رخ کرنے والا قرار نہیں پائے گا۔ اگر آپ کہیں کہ آیت میں مسجد حرام سے خود بیت اللہ مراد ہے، اس لئے کہ سب کا اس مسئلے پر اتفاق ہے کہ مسجد حرام کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے سے نماز کی ادائیگی نہیں ہوتی اگر رخ بیت اللہ کی طرف نہ ہو تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جو شخص جوف بیت اللہ میں نماز ادا کرے گا وہ بھی بیت اللہ ہی کی طرف رخ کرنے والا ہوگا۔ اس لئے بیت اللہ کا منظر اس کے ایک گوشے اور سمت کا نام ہے اور جو شخص بیت اللہ کے اندر ہوگا اس کا رخ لا محالہ بیت اللہ کے کسی نہ کسی شطر کی طرف ہوگا۔ اس بن اپر بیت اللہ کے اندر نمازی کا نماز ادا کرنا مذکورہ بالا دونوں کے ظاہر کے عین مطابق ہوگا۔ کیونکہ جو شخص بیت اللہ کے اندر ہوگا وہ بیت اللہ نیز مسجد حرام دونوں کے گوشوں اور سمتوں کی طرف رخ کرنے والا قرار پائے گا۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت جس طواف کو متضمن ہے وہ فرض ، واجب اور مستحب ہر قسم کے طواف کو عام ہے۔ کیونکہ ہمارے نزدیک طواف کی یہی تین صورتیں ہیں۔ طواف زیارت فرض طواف ہے جس پر یہ قول باری دال ہے : ولیطوفوا بالبیت العتیق طواف صدور واجب طواف ہے اور اس کے وجوب کا حکم سنت سے ماخوذ ہے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : جو شخص بیت اللہ کا حج کرے تو اس کا آخری عمل طواف ہونا چاہیے۔ طواف قدوم مسنون اور مستحب ہے۔ واجب نہیں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب حج کے لئے مکہ تشریف لائے تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طواف قدوم کیا تھا جہاں تک طواف زیارت کا تعلق ہے تو کوئی چیز اس کے قائم مقام نہیں ہوسکتی اور حاجی کو اس وقت تک اپنی بیوی سے قربت کی اجازت نہیں ہوتی جب تک وہ اس طوا ف کی ادائیگی نہ کرے۔ رہ گیا طواف صدور تو اگر حاجی اس کی ادائیگی کے بغیر اپنے گھر واپس آ جائے تو اس پر دم (جانور کی قربانی) واجب ہوجاتا ہے۔ البتہ طواف قدوم کے ترک سے کوئی چیز واجب نہیں ہوتی۔ واللہ اعلم بالصواب - طریقہ طواف - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہر ایسا طواف جس کے بعد سعی ہو اس کے پہلیت ین پھیروں میں رمل کیا جائے گا (رمل کندھے ہلا ہلا کر تیز تیز قدموں سے چلنے کو کہتے ہیں) اور جس طواف کے بعید صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا نہ ہو اس میں رمل نہیں ہوگا۔ پہلے طواف کی مثال طواف قدوم ہے۔ اگر طواف کرنے والا طواف کے بعد سعی کرنا چاہے، نیز طواف زیارت بشرطیکہ طواف کرنے والے نے طواف قدوم میں صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہ کی ہو۔ اگر اس نے طواف قدوم کے بعد سعی کرلی ہو، تو پھر طواف زیارت میں رمل نہیں ہوگا۔ عمرہ کے طواف میں رمل ہے اس لئے کہ مذکورہ طواف کے بعد صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی جائے گی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب حج کے لئے مکہ مکرمہ تشریف لائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رمل کیا تھا۔ اس کی روایت حضرت جابر بن عبداللہ نیز عطاء نے حضرت ابن عباس سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کی ہے۔ اسی طرح حضرت ابن عمر نے روایت بیان کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلے تین پھیروں میں حجر اسود سے لے کر رمل کیا تھا۔ اسی طرح کی روایت حضرت عمر، حضرت ابن مسعود اور حضرت ابن عمر سے بھی منقول ہے۔ ابوالطفیل نے حضرت ابن عباس سے روایت بیان کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رکن یمانی سے رلم شروع کیا اور پھر حجر اسود تک چلے گئے۔ حضرت انس نے بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت بیان کی ہے۔- سلف کی روایتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں۔ طواف کے آخری چار پھیروں میں قدموں پر چلنے کے اعتبار سے ان چاروں پھیروں کی یکسانیت پر ان حضرات کا اتفاق ہے۔ اسی طرح نظر اور قیاس اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ پہلے تین پھیروں میں بیت اللہ کے تمام اطراف میں رمل کرنے کے اعتبار سے ان پھیروں کا یکساں ہونا واجب ہے اس لئے کہ طواف کے تمام احکامات کو سامنے رکھتے ہوئے رلم اور مشی (قدموں پر چلنے) کے اعتبار سے کعبہ کے تمام جواب کے حکم میں کوئی اختلاف اصولی طور پر نظر نہیں آتا۔- رمل کی سنت باقی رہنے کے بارے میں سلف کے اندر اختلاف رائے ہے۔ بعض حضرات کا قول ہے کہ رمل کی سنت اس وقت تھی جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمرۃ القضاء کے اندر مشرکین کی یہ بات سن کر کہ یثرب یعنی مدینہ کے بخار نے مسلمانوں کو کمزور کردیا ہے، ان کے سامنے قوت اور جسمانی طاقت کے اظہار کے لئے رمل کیا تھا اور مسلمانوں کو رمل کرنے کا حکم دیا تھا تاکہ مشرکین مسلمانوں کی کسی کمزوری کو دیکھ کر اس سے فائدہ اٹھانے کا منصوبہ نہ بنائیں۔- زین بن اسلم نے اپنے والد سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے کہا : میں نے حضرت عمر کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ اب رمل کرنے اور کندھوں سے کپڑے ہٹانے کی کیا ضرورت ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ عطا کردیا ہے اور کفر اور کافروں کا صفایا کردیا ہے، تاہم اس کے باوجود ہم اس عمل کو ترک نہیں کریں گے جسے ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہمرایہ میں کیا کرتے تھے۔- ابو الطفیل کہتے ہیں میں نے حضرت ابن عباس سے پوچھا کہ آپ کی قوم کہتی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت اللہ کے طواف میں رمل کیا تھا، نیز یہ کہ رمل سنت ہے ؟ حضرت ابن عباس نے جواب میں فرمایا : انہوں نے سچ بھی کہا اور جھوٹ بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رمل کیا تھا لیکن یہ سنت نہیں ہے۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہمارے اصحاب کا مسلک یہ ہے کہ رمل ایک ثابت سنت ہے جسے ترک کرنا نہیں چاہیے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابتدا میں اس کا حکم مشرکین کے سامنے اپنی جسمانی قوت و طاقت کے اظہار کے لئے دیا تھا، کیونکہ روایت موجود ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجتہ الوداع کے موقعہ پر رمل کیا تھا، حالانکہ اس وقت مشرکین کا کوئی وجود نہیں تھا۔ حضرت ابوبکر ، حضرت عمر، حضرت ابن عمر اور حضرت ابن مسعود وغیرہم نے بھی رمل کیا تھا۔- اس سے رمل کرنے کے حکم کی بقا کا ثبوت ملتا ہے۔ ابتدائی طور پر مذکورہ بالا سبب کے ساتھ اس حکم کا تعلق اس امر کا موجب نہیں ہے کہ سبب زائل ہونے کی بنا پر یہ حکم بھی زائل ہوجائے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ روایت کے مطابق رمی جمار کا سبب یہ تھا کہ جمار کے مقام پر ابلیس حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سامنے آیا تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے کنکریاں ماری تھیں اور اس کے بعد اس سبب کی عدم موجودگی کے باوجود رمی کی سنت باقی رہی۔- یہ بھی روایت ہے کہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنے کا سبب یہ ہے کہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ پانی کی تلاش میں صفا پر چڑھیں اور پھر وہاں سے اتر کر وادی سے تیز تیز قدموں کے ساتھ گزر گئیں کیونکہ ان کا بچہ ان کی نظروں سے اوجھل ہوگیا تھا۔ پھر جب وادی سے اوپر آ کر اپنے بچے کو دیکھ لیا تھا تو قدموں پر چلتی گئیں اور پانی کی تلاش میں مردہ پر چڑھ گئیں۔ انہوں نے سات مرتبہ پر عمل کیا اور صفا اور مروہ کے درمیان سعی نیز وادی میں تیز قدموں سے چلنا سنت قرار پایا، حالانکہ وہ سب زائل ہوچکا تھا جس کی بنا پر یہ عمل ہوا تھا۔ یہی کیفیت طواف کے اندر رمل ک عمل کی ہے۔ ہمارے اصحاب نے کہا ہے کہ طواف کرنے والا صرف رکن اسود اور رکن یمانی کا استلام کرے گا۔ یہ بات حضرت ابن عمر نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے۔ حضرت ابن عباس نے بھی آپ سے اس کی روایت بیان کی ہے۔ حضرت ابن عمر نے جب حضرت عائشہ کا یہ قول سنا کر حجر یعنی حطیم کا بعض حصہ بیت اللہ میں سے ہے۔ “ تو فرمایا کہ : میں نہیں خیال کرتا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں (رکن یمانی اور حجر اسود) کا استلالم ترک نہیں کیا تھا، مگر صرف اس لئے کہ یہ دونوں بیت اللہ کی بنیادوں پر نہیں تھے، اور لوگوں نے صرف اسی سبب کی بنا پر کہ حطیم بیت اللہ میں داخل ہے اس کے پیچھے سے طواف کیا تھا۔- حضرت یعلی بن امیہ نے فرمایا : میں نے حضر ت عمر کے ساتھ طواف کیا۔ جب میں اس رکن کے پاس پہنچا جو حجر کے متصل ہے تو میں اس کا استلام کرنے لگا۔ یہ دیکھ کر حضرت عمر نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ طواف نہیں کیا ؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو حضرت عمر نے فرمایا : کیا تم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسلام کا استلام کرتے ہوئے دیکھا تھا ؟ میں نے اس کا جواب نفی میں دیا جسے سن کر حضرت عمر نے یہ آیت تلاوت کی : لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ (تمہارے لئے اللہ کے رسول کی زنگدی میں بہترین نمونہ موجود ہے)

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٢٥) اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو ان کی اتباع کا حکم دیا کہ ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے مقبول بنایا ہے کہ لوگ جذب وشوق میں وہاں جاتے ہیں اور اس مقام پر جانے والے کے لیے وہ جگہ باعث امن ہے، اور اے امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مقام ابراہیم کو اپنا قبلہ بنا لو اور ہم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) و اسمعیل (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ بیت اللہ کو اس میں قیام کرنے والوں اور تمام ممالک کے لوگوں کو اس میں پانچوں نمازیں پڑھنے کے لیے بتوں سے پاک کردیں۔- شان نزول : (آیت) ” واتخذوا من مقام ابراھیم ’(الخ)- امام بخاری (رح) وغیرہ نے حضرت عمر فاروق (رض) سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ تین باتوں میں، میں نے اپنے پروردگار سے موافقت کی۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر مقام ابراہیم کو مصلی (طواف کی دوگانہ اس جگہ پڑھی جائے) بنالیں تو بہتر ہے فورا (آیت) ” واتخذوا من مقام ابراھیم (الخ) نازل ہوگئی، میں نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ازواج مطہرات کے پاس نیک وبد سب قسم کے آدمی آتے رہتے ہیں، اگر آپ اپنی ازواج مطہرات کو پردہ کا حکم دے دیں تو کیا اچھا ہو، فورا پردہ کے متعلق آیت نازل ہوگئی، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں تمام ازواج مطہرات علیحدگی میں جمع ہوئیں، میں نے ان سے کہا (آیت) ” عسی ربہ ان طلقکن “۔ (الخ) یعنی اللہ تعالیٰ تم سے بہتر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ازواج عطا فرما دے گا، چناچہ اسی طرح آیت نازل ہوگئی، یہ حدیث مختلف طریقوں سے مروی ہے۔- چناچہ ابن ابی حاتم (رح) اور ابن مردویہ (رح) نے جابر (رض) سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت اللہ کا طواف کیا تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا، یہ ہمارے جدامجد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مقام ہے، حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بالکل، حضرت عمر (رض) نے درخواست کی تو پھر اسے نماز کی جگہ کیوں نہ بنالیا جائے، اسی وقت اللہ تعالیٰ نے حکم نازل فرمادیا، کہ مقام ابراہیم (علیہ السلام) کو نماز پڑھنے کی جگہ بناؤ۔- اور ابن مردویہ (رح) نے عمرو بن میمون (رح) نے واسطہ سے حضرت عمر فاروق (رض) سے روایت کیا ہے کہ وہ مقام ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس سے گزرے اور درخواست کی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ہم اپنے پروردگار کے دوست یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی جگہ پر نہ کھڑے ہوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ضرور پھر عرض کیا کہ کیا اسے نماز پڑھنے کی جگہ نہ بنا لیں، جواب میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تھوڑی دیر خاموشی اختیار کی تاآنکہ (آیت) ” واتخذوا من مقام ابراھیم مصلی (الخ) نازل ہوگئی، اس حدیث اور اس سے پہلی حدیث کا سیاق وسباق یہ بتلا رہا ہے کہ یہ آیت ” حجۃ الوداع “ میں نازل ہوئی ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٥ (وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا ط) (وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّی ط) ۔ - دورِجدید کے بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ مقام ابراہیم (علیہ السلام) سے مراد کوئی خاص پتھر نہیں ہے ‘ بلکہ اصل میں وہ پوری جگہ ہی مقام ابراہیم ہے جہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) آباد ہوئے تھے۔ لیکن صحیح بات وہی ہے جو ہمارے سلف سے چلی آرہی ہے اور اس کے بارے میں پختہ روایات ہیں کہ جس طرح حجر اسود جنت سے آیا تھا ایسے ہی یہ بھی ایک پتھر تھا جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے جنت سے لایا گیا تھا۔ خانہ کعبہ کی تعمیر کے دوران آپ ( علیہ السلام) اس پر کھڑے ہوتے تھے اور جیسے جیسے تعمیر اوپر جا رہی تھی اس کے لیے یہ پتھر خود بخود اونچا ہوتا جاتا تھا۔ اس پتھر پر آپ ( علیہ السلام) کے قدموں کا نشان ہے۔ یہی پتھر مقام ابراہیم ہے جو اب بھی محفوظ ہے۔ بیت اللہ کا طواف مکمل کر کے اس کے قریب دو رکعت نماز ادا کی جاتی ہے۔ - (وَعَہِدْنَآ اِلآی اِبْرٰہٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَہِّرَا بَیْتِیَ للطَّآءِفِیْنَ وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ ) - اس سے دونوں طرح کی تطہیر مراد ہے۔ ظاہری صفائی بھی ہو ‘ گندگی نہ ہو ‘ تاکہ زائرین آئیں تو ان کے دلوں میں کدورت پیدا نہ ہو ‘ انہیں کو فت نہ ہو۔ اور تطہیر باطنی کا بھی اہتمام ہو کہ وہاں توحید کا چرچا ہو ‘ کسی طرح کا کوئی کفر و شرک در نہ آنے پائے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :126 پاک رکھنے سے مراد صرف یہی نہیں ہے کہ کُوڑے کرکٹ سے اسے پاک رکھا جائے ۔ خدا کے گھر کی اصل پاکی یہ ہے کہ اس میں خدا کے سوا کسی کا نام بلند نہ ہو ۔ جس نے خانہء خدا میں خدا کے سوا کسی دُوسرے کو مالک ، معبُود ، حاجت روا اور فریاد رس کی حیثیت سے پکارا ، اس نے حقیقت میں اسے گندا کر دیا ۔ یہ آیت ایک نہایت لطیف طریقے سے مشرکینِ قریش کے جُرم کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ یہ ظالم لوگ ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ کے وارث ہونے پر فخر تو کرتے ہیں ، مگر وراثت کا حق ادا کرنے کے بجائے اُلٹا اس حق کو پامال کر رہے ہیں ۔ لہٰذا جو وعدہ ابراہیم ؑ سے کیا گیا تھا ، اس سے جس طرح بنی اسرائیل مستثنیٰ ہوگئے ہیں ، اسی طرح یہ مشرک بنی اسمٰعیل بھی اس سے مستثنیٰ ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

81: اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کی یہ حرمت رکھی ہے کہ نہ صرف مسجد حرام میں بلکہ اس کے ارد گرد کے وسیع علاقے میں جسے حرم کہا جاتا ہے، نہ کسی انسان کو قتل کیا جاسکتا ہے نہ شدید دفاعی ضرورت کے بغیر جنگ کرنا جائز ہے، نہ کسی جانور کا شکار حلال ہے، نہ کوئی خود رو پودا اکھاڑنے کی اجازت ہے، نہ کسی جانور کو قید رکھا جاسکتا ہے، اس طرح یہ صرف انسانوں کے لئے ہی نہیں حیوانات اور نباتات کے لئے بھی امن کی جگہ ہے۔ 82: مقام ابراہیم اس پتھر کا نام ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بیت اللہ تعمیر کیا تھا، یہ پتھر آج بھی موجود ہے اور یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہر وہ شخص جو بیت اللہ کا طواف کرے سات چکر لگانے کے بعد اس پتھر کے سامنے کھڑا ہو کر بیت اللہ کا رخ کرے اور دو رکعتیں پڑھے ان رکعتوں کا اسی جگہ پڑھنا افضل ہے۔