Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

امام توحید اس آیت میں خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بزرگی کا بیان ہو رہا ہے جو توحید میں دنیا کے امام ہیں انہوں نے تکالیف پر صبر کر کے اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری میں ثابت قدمی اور جوان مردی دکھائی فرماتا ہے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم ان مشرکین اور اہل کتاب کو جو ملت ابراہیم کے دعویدار ہیں ذرا ابراہیم علیہ السلام کی فرماں برداری اور اطاعت گزاری کے واقعات تو سناؤ تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ دین حنیف پر اسوہ ابراہیمی پر کون قائم ہے وہ یا آپ اور آپ کے اصحاب؟ قرآن کریم کا ارشاد ہے آیت ( وَاِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّيٰٓ ) 53 ۔ النجم:37 ) ابراہیم وہ ہیں انہوں نے پوری وفاداری دکھائی اور فرمایا آیت ( اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِيْفًا ۭ وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ) 16 ۔ النحل:120 ) ابراہیم لوگوں کے پیشوا اللہ تعالیٰ کے فرماں بردار مخلص اور نعمت کے شکر گزار تھے جنہیں اللہ عزوجل نے پسند فرما کر راہ راست پر لگا دیا تھا جنہیں ہم نے دنیا میں بھلائی دی تھی اور آخرت میں بھی صالح اور نیک انجام بنایا تھا پھر ہم نے تیری طرف اے نبی وحی کی کہ تو بھی ابراہیم حنیف کی ملت کی پیروی کر جو مشرکین میں سے نہ تھے اور جگہ ارشاد ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نہ تو یہودی تھے نہ نصرانی تھے نہ مشرک تھے بلکہ خالص مسلمان تھے ان سے قربت اور نزدیکی والا وہ شخص ہے جو ان کی تعلیم کا تابع ہو اور یہ نبی اور ایمان والے ان ایمان والوں کا دوست اللہ تعالیٰ خود ہے ابتلاء کے معنی امتحان اور آزمائش کے ہیں ۔ کلمات سے مراد شریعت حکم اور ممانعت وغیرہ ہے کلمات سے مراد کلمات تقدیریہ بھی ہوتی ہے جیسے مریم علیہما السلام کی بابت ارشاد ہے صدقت بکلمات ربھا یعنی انہوں نے اپنے رب کے کلمات کی تصدیق کی ۔ کلمات سے مراد کلمات شرعیہ بھی ہوتی ہے ۔ آیت ( وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا ۭلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ) 6 ۔ الانعام:115 ) یعنی اللہ تعالیٰ کے شرعی کلمات سے سچائی اور عدل کے ساتھ پورے ہوئے یہ کلمات یا تو سچی خبریں ہیں یا طلب عدل ہے غرض ان کلمات کو پورا کرنے کی جزا میں انہیں امامت کا درجہ ملا ، ان کلمات کی نسبت بہت سے اقوال ہیں مثلاً احکام حج ، مونچھوں کو کم کرنا ، کلی کرنا ، ناک صاف کرنا ، مسواک کرنا ، سر کے بال منڈوانا یا رکھوانا تو مانگ نکالنا ، ناخن کاٹنا ، زیر ناف کے بال کاٹنا ، ختنہ کرانا ، بغل کے بال کاٹنا ، پیشاب پاخانہ کے بعد استنجا کرنا ، جمعہ کے دن غسل کرنا ، طواف کرنا ، صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا ، رمی جمار کرنا ، طواف افاضہ کرنا ۔ مکمل اسلام حضرت عبداللہ فرماتے ہیں اس سے مراد پورا اسلام ہے جس کے تیس حصے ہیں دس کا بیان سورۃ برائت میں ہے آیت ( التائبون العابدون ) سے مومنین تک یعنی توبہ کرنا عبادت کرنا حمد کرنا اللہ کی راہ میں پھرنا رکوع کرنا سجدہ کرنا بھلائی کا حکم دینا برائی سے روکنا اللہ کی حدود کی حفاظت کرنا ایمان لانا دس کا بیان قد افلاح کے شروع سے یحافظون تک ہے اور سورۃ معارج میں ہے یعنی نماز کو خشوع خضوع سے ادا کرنا لغو اور فضول باتوں اور کاموں سے منہ پھیر لینا زکوٰۃ دیتے رہا کرنا ، شرمگاہ کی حفاظت کرنا ، امانت داری کرنا ، وعدہ وفائی کرنا ، نماز پر ہمیشگی اور حفاظت کرنا قیامت کو سچا جاننا عذابوں سے ڈرتے رہنا سچی شہادت پر قائم رہنا اور دس کا بیان سورۃ احزاب میں آیت ( اِنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِيْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِيْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِيْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِيْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِيْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّاۗىِٕـمِيْنَ وَالـﮩـىِٕمٰتِ وَالْحٰفِظِيْنَ فُرُوْجَهُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰكِرِيْنَ اللّٰهَ كَثِيْرًا وَّالذّٰكِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا ) 33 ۔ الاحزاب:35 ) تک ہے یعنی اسلام لانا ، ایمان رکھنا ، قرآن پڑھنا ، سچ بولنا ، صبر کرنا ، عاجزی کرنا ، خیرات دینا ، روزہ رکھنا ، بدکاری سے بچنا ، اللہ تعالیٰ کا ہر وقت بکثرت ذکر کرنا ، ان تینوں احکام کا جو عامل ہو وہ پورے اسلام کا پابند ہے اور اللہ کے عذابوں سے بری ہے ۔ کلمات ابراہیمی میں اپنی قوم سے علیحدگی کرنا بادشاہ وقت سے نڈر ہو کر اسے بھی تبلیغ کرنا پھر اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو مصیبت آئے اس پر صبر کرنا سہنا پھر وطن اور گھر بار کو اللہ کی راہ میں چھوڑ کر ہجرت کرنا مہمانداری کرنا اللہ کی راہ میں جانی اور مالی مصیبت راہ اللہ برداشت کرنا یہاں تک کہ بچہ کو اللہ کی راہ قربان کرنا اور وہ بھی اپنے ہی ہاتھ سے یہ کل احکام خلیل الرحمٰن علیہ السلام بجا لائے ۔ سورج چاند اور ستاروں سے بھی آپ کی آزمائش ہوئی امامت کے ساتھ بیت اللہ بنانے کے حکم کے ساتھ حج کے حکم اور مقام ابراہیم کے ساتھ بیت اللہ کے رہنے والوں کی روزیوں کے ساتھ حضرت محمد صلعم کو آپ کے دین پر بھیجنے کے ساتھ بھی آزمائش ہوئی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے خلیل میں تمہیں آزماتا ہوں دیکھتا ہوں تم کیا ہو؟ تو آپ نے فرمایا مجھے لوگوں کا امام بنا دے ، اس کعبہ کو لوگوں کے ثواب اور اجتماع کا مرکز بنا دے ، یہاں والوں کو پھلوں کی روزیاں دے یہ تمام باتیں عزوجل نے پوری کر دیں اور یہ سب نعمتیں آپ کو عطا ہوئیں صرف ایک آرزو پوری نہ ہوئی وہ یہ کہ میری اولاد کو بھی امامت ملے تو جواب ملا ظالموں کو میرا عہد نہیں پہنچتا کلمات سے مراد اس کے ساتھ کی آیتیں بھی ہیں موطا وغیرہ میں ہے کہ سب سے پہلے ختنہ کرانے والے سب سے پہلے مہمان نوازی کرنے والے سب سے پہلے ناخن کٹوانے والے سب سے پہلے مونچھیں پست کرنے والے سب سے پہلے سفید بال دیکھنے والے حضرت ابراہیم ہی ہیں ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سفید بال دیکھ کر پوچھا کہ اے اللہ یہ کیا ہے؟ جواب ملا وقار و عزت ہے کہنے لگے پھر تو اے اللہ اسے اور زیادہ کر ۔ سب سے پہل منبر پر خطبہ کہنے والے ، سب سے پہلے قاصد ، بھیجنے والے ، سب سے پہلے تلوار چلانے والے ، سب سے پہلے مسواک کرنے والے سب سے پہلے پانی کے ساتھ استنجا کرنے والے ، سب سے پہلے پاجامہ پہننے والے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام ہیں ۔ ایک غیر ثابت حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میں منبر بناؤں تو میرے باپ ابراہیم نے بھی بنایا تھا اور اگر میں لکڑی ہاتھ میں رکھوں تو یہ بھی میرے باپ ابراہیم کی سنت ہے مختلف بزرگوں سے کلمات کی تفسیر میں جو کچھ ہم نے نقل کر دیا اور ٹھیک بھی یہی ہے کہ یہ سب باتیں ان کلمات میں تھیں کسی خاص تخصیص کی کوئی وجہ ہمیں نہیں ملی واللہ صحیح مسلم شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے دس باتیں فطرت کی اور اصل دین کی ہیں مونچھیں کم کرنا ، داڑھی بڑھانا ، مسواک کرنا ، ناک میں پانی دینا ، ناخن لینا ، پریان دھونی ، بغل کے بال لینا ، زیر ناف کے بال لینا ، استنجا کرنا راوی کہتا ہے میں دسویں بات بھول گیا شاید کلی کرنا تھی ۔ صحین میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں پانچ باتیں فطرت کی ہیں ختنہ کرانا ، موئے ( بال ) زہار لینا ، مونچھیں کم کرنا ، ناخن لینا ، بغل کے بال لینا ایک حدیث میں ہے کہ حضرت ابراہیم کو وفا کرنے والا اس لئے فرمایا ہے کہ وہ ہر صبح کے وقت پڑھتے تھے آیت ( فَسُـبْحٰنَ اللّٰهِ حِيْنَ تُمْسُوْنَ وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ 17؀ وَلَهُ الْحَمْــدُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَعَشِـيًّا وَّحِيْنَ تُظْهِرُوْنَ 18؀ يُخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْـحَيِّ وَيُـحْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۭ وَكَذٰلِكَ تُخْرَجُوْنَ 19۝ۧ ) 30 ۔ الروم:17 ) ایک اور روایت میں ہے کہ ہر دن چار رکعتیں پڑھتے تھے لیکن یہ دونوں حدیثیں ضعیف ہیں اور ان میں کئی کئی راوی ضعیف ہیں اور ضعف کی بہت سی وجوہات ہیں بلکہ ان کا بیان بھی بےبیان ضعف جائز نہیں متن بھی ضعف پر دلالت کرتا ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی امت کی خوشخبری سن کر اپنی اولاد کے لئے بھی یہی دعا کرتے تھے جو قبول تو کی جاتی ہے لیکن ساتھ ہی خبر کر دی جاتی ہے کہ آپ کی اولاد میں ظالم بھی ہوں گے جنہیں اللہ تعالیٰ کا عہد نہ پہنچے گا وہ امام نہ بنائے جائیں گے نہ ان کی اقتدار اور پیروی کی جائے گی سورۃ عنکبوت کی آیت میں اس مطلب کو واضح کر دیا گیا ہے کہ خلیل اللہ کی یہ دعا بھی قبول ہوئی وہاں ہے آیت ( وَجَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ وَاٰتَيْنٰهُ اَجْرَهٗ فِي الدُّنْيَا ) 29 ۔ العنکبوت:27 ) یعنی ہم نے ان کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھ دی ۔ حضرت ابراہیم کے بعد جتنے انبیاء اور رسول آئے وہ سب آپ ہی کی اولاد میں تھے اور جتنی کتابیں نازل ہوئیں سب آپ ہی کی اولاد میں ہوئی دعا ( صلوات اللہ وسلامہ علیھم اجمعین ) یہاں یہ بھی خبر دی گئی ہے کہ آپ کی اولاد میں ظلم کرنے والے بھی ہوں گی ، ظالم سے مرد بعض نے مشرک بھی لی ہے عہد سے مراد امر ہے ابن عباس فرماتے ہیں ظالم کو کسی چیز کا والی اور بڑا نہ بنانا چاہئے گو وہ اولاد ابراہیم میں سے ہو ، حضرت خلیل کی دعا ان کی نیک اولاد کے حق میں قبول ہوئی ہے یہ بھی معنی کئے گئے ہیں کہ ظالم سے کوئی عہد نہیں کہ اس کی اطاعت کی جائے اس کا عہد توڑ دیا جائے پورا نہ کیا جائے اور یہ بھی مطلب ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نے اسے کچھ دینے کا عہد نہیں کیا دنیا میں تو کھا پی رہا ہے اور عیش و عشرت کر رہا ہے ۔ بس یہی ہے عہد سے مراد دین بھی ہے یعنی تیری کل اولاد دیندار نہیں جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَمِنْ ذُرِّيَّـتِهِمَا مُحْسِنٌ وَّظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ مُبِيْنٌ ) 37 ۔ الصافات:113 ) یعنی ان کی اولاد میں بھلے بھی ہیں اور برے بھی اطاعت کے معنی بھی کئے گئے ہیں یعنی اطاعت صرف معروف اور بھلائی میں ہی ہو گی اور عہد کے معنی نبوت کے بھی آئے ہیں ابن خویز منذاذ مالکی فرماتے ہیں ظالم شخص نہ تو خلیفہ بن سکتا ہے نہ حاکم نہ مفتی نہ گواہ نہ راوی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

124۔ 1 کلمات سے مراد احکام شریعت، مناسک حج، ذبح پسر، ہجرت نار نمرود وغیرہ وہ تمام آزمائشیں ہیں، جن سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) گزارے گئے اور ہر آزمائش میں کامیاب اور کامران رہے، جس کے صلے میں امام الناس کے منصب پر فائز کئے گئے، چناچہ مسلمان ہی نہیں، یہودی، عیسائی حتٰی کہ مشرکین عرب سب ہی میں ان کی شخصیت محترم اور پیشوا مانی جاتی ہے۔ 24۔ 2 اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اس خواہش کو پورا فرمایا، جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے، ہم نے نبوت اور کتاب کو اس کی اولاد میں کردیا، پس ہر نبی جسے اللہ نے مبعوث کیا اور ہر کتاب جو ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد نازل فرمائی، اولاد ابراہیم ہی میں یہ سلسلہ رہا (ابن کثیر) اس کے ساتھ ہی یہ فرما کر کہ میرا وعدہ ظالموں سے نہیں اس امر کی وضاحت فرمادی کہ ابراہیم کی اتنی اونچی شان اور عنداللہ منزلت کے باوجود اولاد ابراہیم میں سے جو ناخلف اور ظالم و مشرک ہوں گے۔ ان کی شقاوت و محرومی کو دور کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں پیمبر زادگی کی جڑ کاٹ دی گئی۔ اگر ایمان و عمل صالح نہیں، تو پیرزادگی اور صاحبزادگی کی بارگاہ الٰہی میں کیا حیثیت ہوگی ؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے ( من بطا بہ عملہ لم یسرع بہ نسبہ) صحیح مسلم۔ (جس کو اس کا عمل پیچھے چھوڑ گیا اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھا سکے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٤٩] حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو تمام دنیا کی امامت ایسے ہی نہیں مل گئی تھی بلکہ آپ کی سن شعور سے لے کر مرنے تک پوری زندگی قربانی ہی قربانی تھی۔ دنیا میں انسان جن چیزوں سے محبت کرتا ہے ان میں کوئی چیز بھی ایسی نہ تھی جسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حق کی خاطر قربان نہ کیا ہو اور ان کی خاطر مصائب نہ جھیلے ہوں جن میں سے چند ایک یہ ہیں :- ١۔ آپ ایک بت گر اور بت فروش کے گھر پیدا ہوئے۔ باپ چاہتا تھا کہ بیٹا اس کام میں ان کا ہاتھ بٹائے۔ لیکن آپ (علیہ السلام) نے الٹا احسن انداز میں سمجھانا شروع کردیا۔ جب باپ آپ (علیہ السلام) کی طرف سے مایوس ہوگیا تو گھر سے نکال دینے کی دھمکی دے دی۔ آپ (علیہ السلام) نے حق کی خاطر جلاوطنی کی صعوبتیں قبول کیں۔- ٢۔ قومی میلہ کے موقع پر بتوں کو پاش پاش کیا جسکے نتیجہ میں آپ (علیہ السلام) کو آگ میں جلا دینے کا فیصلہ ہوا۔ آپ (علیہ السلام) نے بخوشی اس میں کودنا منظور کیا۔- ٣۔ آپ (علیہ السلام) نے اپنی بیوی ہاجرہ (علیہا السلام) اور دودھ پیتے بچے کو اللہ کے حکم کے مطابق ایک بےآب وگیاہ میدان میں جا چھوڑا۔ جہاں کھانے پینے کا کوئی بندوبست نہ تھا اور نہ ہی دور دور تک کسی آبادی کے آثار نظر آتے تھے۔- ٤۔ بوڑھی عمر میں ملے ہوئے بچے اسماعیل (علیہ السلام) جب ذرا جوان ہوئے تو ان کو قربان کردینے کا حکم ہوا تو آپ بےدریغ اور بلاتامل اس پر آمادہ ہوگئے۔ غرض آپ کی قربانیوں اور آزمائشوں کی فہرست خاصی طویل ہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے خود یہ سرٹیفکیٹ عطا کردیا کہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کی کئی باتوں سے آزمائش کی تو وہ ہر امتحان میں پورے اترے۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے ان امتحانوں کے نتیجہ میں آپ کو دنیا جہان کا امام بنادیا، اور آئندہ قیامت تک کے لیے سلسلہ نبوت کو آپ (علیہ السلام) ہی کی اولاد سے منسلک کردیا اور دنیا کے اکثر و بیشتر مذاہب اپنے مذہب کی آپ (علیہ السلام) کی طرف نسبت کرنا باعث عزت و افتخار سمجھتے ہیں۔- [ ١٥٠] یعنی امامت کا وعدہ صرف تمہاری اس اولاد سے تعلق رکھتا ہے جو صالح ہوگی۔ ظالموں اور گنہگاروں کے لیئے ایسا کوئی وعدہ نہیں۔ یہیں سے یہود کے اس غلط عقیدہ کی تردید ہوگئی جو وہ سمجھتے تھے کہ ہم چونکہ پیغمبروں کی اولاد ہیں اس لیے ہمیں عذاب اخروی نہ ہوگا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

بِكَلِمٰتٍ ) بعض مفسرین نے ان باتوں سے مراد والد، قوم اور بادشاہ کو توحید کی دعوت، بت پرستی، ستارہ پرستی اور شاہ پرستی کی تردید، آگ میں پھینکے جانے پر صبر، پھر ہجرت، مصر کے جبار بادشاہ کی دست درازی کے باوجود استقامت، بیوی بچے کو وادی غیر ذی ذرع میں چھوڑنا اور اکلوتے بیٹے کو ذبح کرنے پر مکمل آمادگی کو لیا ہے۔ بعض نے آگے آنے والی آیات میں مذکور بیت اللہ کی تعمیر و تطہیر اور حج کے مناسک اور اللہ تعالیٰ کے فرمان : اَسلِم : (فرماں بردار ہوجا) پر فرماں بردار ہونے کے اقرار، پھر اس کے عملی ثبوت کو مراد لیا ہے۔ [ ابن أبی شیبۃ عن مجاہد ] تفسیر عبد الرزاق میں صحیح سند کے ساتھ ابن عباس (رض) سے مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی آزمائش طہارت کے احکام کے ساتھ کی، جن میں سے پانچ سر سے متعلق اور پانچ باقی جسم سے متعلق تھے۔ سر سے متعلق مونچھیں کترنا، کلی کرنا، ناک کی پانی سے صفائی کرنا، مسواک کرنا، سر کی مانگ نکالنا تھا اور جسم کے متعلق ناخن کاٹنا، زیر ناف بال مونڈنا، ختنہ کرنا، بغلوں کے بال اکھیڑنا اور پیشاب و پاخانے کے نشان کو پانی سے دھونا تھا۔ صحیح بخاری (٥٨٨٩) ، مسلم (٢٥٧) اور ابوداؤد ( ٤١٩٨) وغیرہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان امور کو فطرت میں سے شمار فرمایا ہے۔ - حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی آزمائش میں یہ سب چیزیں شامل ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انھیں جو بھی حکم دیا انھوں نے وہ پورا کر دکھایا، بڑھاپے میں بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم ہوا تو پورا کردیا، اسّی (٨٠) سال کی عمر میں اپنا ختنہ کرنے کا حکم ہوا تو وہ بھی کردیا۔[ بخاری، الإستئذان، باب الختان بعد الکبر ۔۔ : ٦٢٩٧ ] - (قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِىْ ۭ ) جب اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو تمام لوگوں کا امام بنادیا تو انھوں نے اپنی بعض اولاد کے حق میں امامت کی دعا کی، سب کے حق میں نہیں کی، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا، تو یہ دعا کیوں کی جائے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی، مگر اس کے ساتھ ہی انھیں بتادیا کہ تمہاری اولاد میں سے ظالم لوگ اس نعمت سے سرفراز نہیں ہوں گے۔ اس سے بنی اسرائیل کے گمراہ لوگوں اور بنی اسماعیل کے مشرکین کو تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ ان کے عقائد و اعمال خراب ہوچکے ہیں، محض ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد ہونا کافی نہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور جس وقت امتحان کیا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ان کے پروردگار نے چند باتوں میں (اپنے احکام میں سے) اور وہ ان کو پورے طور سے بجا لائے (اس وقت) حق تعالیٰ نے (ان سے) فرمایا کہ میں تم کو (اس کے صلہ میں نبوت دے کر یا امت بڑھا کر) لوگوں کو مقتدا بناؤں گا انہوں نے عرض کیا اور میری اولاد میں سے بھی کسی کو (نبوت دیجئے) ارشاد ہوا کہ (آپ کی درخواست منظور ہے مگر اس کا ضابطہ سن لیجئے کہ) میرا (یہ) عہدہ (نبوت) خلاف ورزی (قانون) کرنے والوں کو نہ ملے گا (سو ایسے لوگوں کو تو صاف جواب ہے البتہ اطاعت کرنے والوں میں سے بعض کو نبوت دی جائے گی) - معارف و مسائل :- اس آیت میں حق تعالیٰ کے خاص پیغمبر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے مختلف امتحانات اور ان میں ان کی کامیابی پھر اس کے انعام وصلہ کا بیان اور پھر جب حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) نے ازراہ شفقت اپنی اولاد کے لئے بھی اسی انعام کی درخواست کی تو انعام پانے کا ایک ضابطہ ارشاد فرما دیا گیا جس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی درخواست کی منظوری مشروط صورت میں دی گئی کہ یہ انعام آپ کی ذریت کو بھی ملے گا مگر جو لوگ ذریت میں سے نافرمان اور ظالم ہوں گے وہ یہ انعام نہ پاسکیں گے،- حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) کے عظیم امتحانات اور مضامین امتحان :- یہاں چند باتیں غور طلب ہیں ؛- اول یہ کہ امتحان کسی شخص کی قابلیت معلوم کرنے لئے لیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ علیم و خیبر ہیں کسی بھی شخص کا کوئی حال یا کمال ان پر مخفی نہیں پھر اس امتحان کا مقصد کیا تھا ؟ - دوسرے یہ کہ امتحان کس کس عنوان سے لیا گیا،- تیسرے یہ کہ کامیابی کس صورت میں اور کس نوعیت کی رہی،- چوتھے یہ کہ انعام کیا دیا گیا اور اس کی حیثیت کیا ہے،- پانچویں یہ کہ اس انعام کے لئے جو ضابطہ مقرر کیا گیا ہے اس کی کچھ توضیح و تفصیل۔- ان پانچوں سوالات کے جوابات بالتفصیل ملاحظہ فرمائیے،- پہلی بات کہ امتحان کا مقصد کیا تھا ؟ قرآن کے ایک لفظ ربُّہ نے اس کو حل کردیا جس میں یہ بتلایا گیا ہے کہ اس امتحان کے ممتحن خود اللہ جل شانہ ہیں اور ان کے اسماء حسنی میں سے اس جگہ لفظ رب لاکر شان ربوبیت کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز کو آہستہ آہستہ درجہ کمال تک پہنچانا،- مطلب یہ ہوا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ ابتلاء و امتحان کسی جرم کی پاداش میں یا نامعلوم قابلیت کا علم حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ شان تربیت و ربوبیت اس کا منشاء ہے ان آزمائشوں کے ذریعے اپنے خلیل (علیہ السلام) کی تربیت کرکے ان کے درجات و مقامات تک پہنچانا مقصود ہے پھر اس جملہ میں مفعول کو مقدم اور فاعل کو مؤ خر کرکے یوں ارشاد ہوا وَاِذِ ابْتَلٰٓى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ اس میں ابراہیم (علیہ السلام) کی جلالت شان کو اور نمایاں فرمایا گیا،- دوسرا سوال کہ امتحان کس عنوان سے لیا گیا ؟ اس کے متعلق قرآن شریف میں تو صرف کلمات کا لفظ آیا ہے اور اس لفظ کی تفسیر و تشریح میں حضرات صحابہ کرام (رض) اجمعین وتابعین کے مختلف اقوال ہیں کسی نے احکام الہیہ میں سے دس چیزیں شمار کیں کسی نے تیس بتلائی ہیں اور کسی نے اور کچھ کم وبیش دوسری چیزیں بتائیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں کچھ اختلاف نہیں وہ چیزیں سب کی سب ہی حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) کے مضامین امتحان تھے ائمہ تفسیر ابن جریر اور ابن کثیر کی یہی رائے ہے۔- اللہ تعالیٰ کے نزدیک علمی موشگافیوں سے زیادہ قابل قدر اخلاق و کردار کی عملی ثابت قدمی ہے :- یہی مضامین امتحان جن کی تفصیل آگے بیان ہوگی مدارس کے امتحانات کی طرح فنی مسائل اور ان کی تحقیقات نہیں بلکہ اخلاقی قدروں اور عملی ثابت قدمی کی جانچ ہے اس سے معلوم ہوا کہ بارگاہ عزوجلال میں جس چیز کی قیمت ہے وہ علمی موشگافیاں نہیں بلکہ عملی اور اخلاقی برتری ہے،- اب ان مضامین امتحان میں سے چند اہم چیزیں سنیے،- حق تعالیٰ کو منظور تھا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنی خلت کا خلعت خاص عطا فرمایا جائے اس لئے ان کو سخت امتحانات سے گذارا گیا پوری قوم کی قوم حتی کہ اپنا خاندان سب کے سب بت پرستی میں مبتلا تھے سب کے عقائد و رسوم سے مختلف ایک دین حنیف ان کو عطا کیا گیا اور اس کی تبلیغ اور قوم کو اس کی طرف دعوت دینے کا بارگراں آپ پر ڈالا گیا آپ نے پیغمبرانہ جرأت وہمت کے ساتھ بےخوف وخطر قوم کو خدائے وحدہ لاشریک لہ کی طرف بلایا بت پرستی کی شرمناک رسم کی خرابیاں مختلف عنوانات سے بیان کیں عملی طور پر بتوں کے خلاف جہاد کیا پوری قوم کی قوم آمادہ جنگ وجدال ہوگئی بادشاہ وقت نمرود اور اس کی قوم نے آپ کو آگ میں ڈال کر زندہ جلا دینے کا فیصلہ کرلیا اللہ کے خلیل (علیہ السلام) نے اپنے مولا کی رضا مندی کے لئے ان سب بلاؤں پر راضی ہو کر اپنے آپ کو آگ میں ڈال دینے کے لئے پیش کردیا اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل اللہ (علیہ السلام) کو امتحان میں کامیاب پایا تو آگ کو حکم دیا ؛- قُلْنَا يٰنَارُكُـوْنِيْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلٰٓي اِبْرٰهِيْمَ (٦٩: ٢١) ہم نے حکم دے دیا کہ اے آگ تو ابراہیم پر ٹھنڈی اور ذریعہ سلامتی بن جا۔- جس وقت یہ حکم خداوندی آتش نمرود کے متعلق آیا تو حکم کے الفاظ عام تھے کسی خاص آگ کی تعیین کرکے حکم دیا گیا تھا اس لئے پوری دنیا میں جہاں کہیں آگ موجود تھی اس حکم خداوندی کے آتے ہی اپنی اپنی جگہ ہر آگ ٹھنڈی ہوگئی اور نار نمرود بھی اس زمرہ کا فرد بن کر ٹھنڈی پڑگئی، - قرآن میں لفظ بردًا کے ساتھ سلاماً کا اضافہ اس لئے فرمایا گیا کہ کسی چیز کی ٹھنڈک حد اعتدال سے بڑھ جائے تو وہ بھی برف کی طرح تکلیف دہ بلکہ مہلک ہوجاتی ہے اگر لفظ سلاماً ارشاد نہ ہوتا تو ممکن تھا کہ آگ برف کی طرح ٹھنڈی ہوجاتی جو بجائے خود ایک عذاب بن جاتی جیسے جہنم میں ایک عذاب زمہریر کا بھی ہے،- اس امتحان سے فارغ ہو کر دوسرا امتحان یہ لیا گیا کہ اپنے اصلی وطن کو چھوڑ کر شام کی طرف ہجرت کرجائیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے رضائے خداوندی کی تڑپ میں قوم ووطن کو بھی خیر باد کہہ دیا اور مع اہل و عیال ہجرت کرکے شام میں چلے آئے،- آنکس کہ ترا شناخت جاں راچہ کند - فرزند و عیال وخانماں راچہ کند - اب قوم ووطن کو چھوڑ کر ملک شام میں قیام کیا ہی تھا کہ یہ حکم ملا کہ بی بی ہاجرہ (رض) اور ان کے شیر خوار بچے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو ساتھ لے کر یہاں سے بھی کوچ کریں (ابن کثیر) - جبرئیل امین آئے اور دونوں کو ساتھ لے کر چلے راستہ میں جہاں کوئی سرسبز جگہ آتی تو حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) فرماتے کہ یہاں ٹھہرا دیا جائے جبرئیل فرماتے کہ یہاں کا حکم نہیں منزل آگے ہے جب وہ خشک پہاڑ اور گرم ریگستان آجاتا جہاں آگے کسی وقت بیت اللہ کی تعمیر اور شہر مکہ کی بستی بسانا مقدر تھا اس ریگستان میں آپ کو اتار دیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ کے خلیل (علیہ السلام) اپنے پروردگار کی محبت میں مسرور مگن اسی چٹیل میدان اور بےآب وگیاہ جنگل میں بی بی کو لے کر ٹھہر جاتے لیکن یہ امتحان اسی پر ختم نہیں ہوتا بلکہ اب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حکم ملتا ہے کہ بی بی اور بچے کو یہیں چھوڑ دیں اور خود ملک شام کو واپس ہوجائیں اللہ کا خلیل حکم پاتے ہی اس کی تعمیل میں اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور شام کی طرف روانہ ہوجاتا ہے تعمیل حکم میں اتنی تاخیر بھی گوارا نہیں کہ بیوی کو یہ اطلاع ہی دیدے کہ مجھے چونکہ خدا کا یہ حکم ملا ہے اس لئے میں جارہا ہوں حضرت ہاجرہ (علیہا السلام) جس آپ کو جاتے ہوئے دیکھتی ہیں تو پکارتی ہیں مگر آپ جواب نہیں دیتے پھر پکارتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اس لق ودق میدان میں ہمیں چھوڑ کر کہاں جا رہی ہو ؟ اس کا بھی جواب نہیں دیتے مگر وہ بی بی بھی خلیل اللہ (علیہ السلام) کی بی بی تھیں سمجھ گئیں کہ ماجرا کیا ہے اور کہنے لگیں کہ کیا آپ کو اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم ملا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں حضرت ہاجرہ (علیہا السلام) کو بھی جب حکم خداوندی کا علم ہوگیا تو نہایت اطمینان کے ساتھ فرمایا کہ جائیے جس مالک نے آپ کو چلے جانے کا حکم فرمایا ہے وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا،- اب حضرت ہاجرہ اپنے شیرخوار بچہ کے ساتھ اس لق ودق جنگل میں وقت گذارنے لگتی ہیں، پیاس کی شدت پانی کی تلاش پر مجبور کرتی ہے بچے کو کھلے میدان میں چھوڑ کر صفا ومروہ کی پہاڑیوں پر بار بار چڑہتی اترتی ہیں کہ کہیں پانی کے آثار نظر آئیں یا کوئی انسان نظر آجائے جس سے کچھ معلومات حاصل کریں سات مرتبہ کی دوڑ دھوپ کے بعد مایوس ہو کر بچے کے پاس لوٹ آتی ہیں صفا ومروہ کے درمیان سات مرتبہ دوڑنا اسی کی یادگار کے طور پر قیامت تک آنے والی نسلوں کے لئے احکام حج میں ضروری قرار دیا گیا ہے حضرت ہاجرہ (علیہا السلام) اپنی دوڑ دھوپ ختم کرنے اور مایوس ہونے کے بعد جب بچے کے پاس آتی ہیں تو رحمت خداوندی نازل ہوتی ہے جبرئیل امین آتے ہیں اور اس خشک ریگستان کی زمین سے پانی کا ایک چشمہ نکال دیتے ہیں جس کا نام آج زمزم ہے پانی کو دیکھ کر اول جانور آجاتے ہیں پھر جانوروں کو دیکھ کر انسان پہنچتے ہیں اور مکہ کی آبادی کا سامان ہوجاتا ہے، ضروریات زندگی کچھ آسانیاں مہیا ہوجاتی ہیں، - نو مولود بچہ جن کو آج حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کہا جاتا ہے نشو ونما پاتے ہیں اور کام کاج کے قابل ہوجاتے ہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) باشارات ربانی گاہ گاہ تشریف لاتے ہیں اور بی بی وبچہ کو دیکھ جاتے ہیں اس وقت پھر اللہ تعالیٰ اپنے خلیل کا تیسرا امتحان لیتے ہیں یہ بچہ اس بیکسی اور بےسرو سامانی میں پروان چڑھا اور بظاہر اسباب باپ کی تربیت اور شفقت سے بھی محروم رہا اب والد ماجد کو بظاہر یہ حکم ملتا ہے اس بچے کو اپنے ہاتھ سے ذبح کردو ارشاد قرآنی ہے،- فَلَمَّا بَلَــغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يٰبُنَيَّ اِنِّىْٓ اَرٰى فِي الْمَنَامِ اَنِّىْٓ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰى ۭ قَالَ يٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُــؤ ْمَرُ ۡ سَتَجِدُنِيْٓ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيْنَ (١٠٢: ٣٧) جب بچہ اس قابل ہوگیا کہ باپ کے ساتھ کام کاج میں کچھ مدد دے سکے تو ابراہیم (علیہ السلام) نے اس سے کہا کہ اے بیٹے میں خواب میں یہ دیکھتا ہوں کہ تجھ کو ذبح کر رہا ہوں تو بتلا کہ تیرا کیا خیال ہے ؟ فرزند سعید نے عرض کیا کہ ابا جان آپ کو جو حکم ملا ہے اس کی تعمیل کیجئے آپ مجھے بھی اس کی تعمیل میں انشاء اللہ ثابت قدم پائیں گے،- اس کے بعد کا واقعہ ہر مسلمان جانتا ہے کہ حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) صاحبزادے کو ذبح کرنے کے لئے منیٰ کے جنگل میں گئے اور اپنی طرف سے حکم حق جل وعلا شانہ کی پوری تعمیل کردی مگر وہاں مقصود بچے کو ذبح کرانا نہیں بلکہ شفیق باپ کا امتحان کرنا تھا واقعہ خواب کے الفاظ میں غور کیا جائے کہ اس میں یہ نہیں دیکھا تھا کہ ذبح کردیا بلکہ ذبح کا عمل کرتے دیکھا جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کر دکھایا اور اس عمل کو بذریعہ وحی منام دکھلانے میں بھی شاید یہی مصلحت ہو کہ بذریعہ کلام حکم ذبح دینا منظور نہ تھا اسی وجہ سے ارشاد یہ ہوا کہ صدقت الرؤ یا کہ خواب میں جو کچھ دیکھا تھا آپ نے اس کو پورا کردیا جب اسمیں وہ پورے اترے تو اللہ تعالیٰ نے جنت سے اس کا فدیہ نازل فرما کر اس کی قربانی کا حکم دے دیا اور یہ سنت ابراہیمی آنے والی دنیا کے لئے دائمی سنت بن گئی، - یہ کڑے اور سخت امتحانات تھے جن میں حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) کو گزارا گیا اس کے ساتھ ہی دوسرے بہت سے اعمال و احکام کی پابندیاں آپ پر عائد کی گئیں جن میں سے دس خصائل فطرت کے نام سے موسوم ہیں جن کا تعلق بدن کی صفائی ستھرائی اور پاکی سے ہے اور یہ خصائل فطرت آنے والی تمام امتوں کے لئے بھی مستقل احکام بن گئے حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی امت کو ان تمام امور کے لئے تاکیدی احکام دیئے،- اور ابن کثیر نے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے ایک روایت میں یہ بھی نقل کیا ہے کہ پورا اسلام تیس حصوں میں دائر ہے جس میں سے دس سورة برأت میں مذکور ہیں اور دس سورة احزاب میں اور دس سورة مومنون میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان تمام چیزوں کا پورا حق ادا کیا اور ان سب امتحانات میں پورے اترے اور کامیاب رہے،- سورة برأت میں مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے مسلمان کی دس مخصوص علامات وصفات کا اس طرح بیان کیا گیا ہے، - اَلتَّاۗىِٕبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّاۗىِٕحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِ ۭ وَبَشِّرِ الْمُؤ ْمِنِيْنَ (١١٢: ٩) وہ ایسے ہیں جو توبہ کرنیوالے عبادت کرنیوالے حمد کرنیوالے روزہ رکھنے والے رکوع و سجدہ کرنیوالے نیک باتوں کی تعلیم کرنیوالے اور بری باتوں سے روکنے والے اور اللہ کی حدود کا خیال رکھنے والے اور ایسے مؤمنین کو آپ خوش خبری سنا دیجئے،- اور سورة مؤ منون کی دس صفات یہ ہیں :- قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤ ْمِنُوْنَ ۙالَّذِيْنَ هُمْ فِيْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ وَالَّذِيْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ وَالَّذِيْنَ هُمْ للزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَ وَالَّذِيْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَ اِلَّا عَلٰٓي اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُوْمِيْنَ ۚفَمَنِ ابْتَغٰى وَرَاۗءَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَ وَالَّذِيْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رٰعُوْنَ وَالَّذِيْنَ هُمْ عَلٰي صَلَوٰتِهِمْ يُحَافِظُوْنَ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَ الَّذِيْنَ يَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ ۭ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ (١١-١٣٣) - یقینا ان مسلمانوں نے فلاح پائی جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں اور جو لغو باتوں سے برکنار رہنے والے ہیں اور جو اپنے آپ کو پاک کرنیوالے ہیں اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنیوالے ہیں لیکن بیویوں سے یا اپنی لونڈیوں سے کیونکہ ان پر کوئی الزام نہیں ہاں جو اس کے علاوہ طلب گار ہوں ایسے لوگ حد سے تجاوز کرنے والے ہیں اور جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا خیال رکھنے والے ہیں اور جو اپنی نمازوں کی پابندی کرتے ہیں ایسے ہی لوگ وارث ہونے والے ہیں جو فردوس کے وارث ہوں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے،- اور سورة احزاب میں مذکورہ دس صفات یہ ہیں :- اِنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤ ْمِنِيْنَ وَالْمُؤ ْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِيْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِيْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِيْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِيْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِيْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّاۗىِٕـمِيْنَ وَالـصـىِٕمٰتِ وَالْحٰفِظِيْنَ فُرُوْجَهُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰكِرِيْنَ اللّٰهَ كَثِيْرًا وَّالذّٰكِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا (٣٥: ٣٣) - بیشک اسلام کے کام کرنیوالے مرد اور اسلام کے کام کرنیوالی عورتیں اور ایمان لانیوالے مرد اور ایمان لانے والی عورتیں اور فرمانبرداری کرنیوالی عورتیں، اور راستباز مرد اور راستباز عورتیں اور صبر کرنیوالے مرد اور صبر کرنیوالی عورتیں اور خشوع کرنیوالے مرد اور خشوع کرنیوالی عورتیں اور خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنی والی عورتیں اور روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنے والی عورتیں اور بکثرت اللہ کو یاد کرنے والے مرد اور بکثرت اللہ کی یاد کرنے والی عورتیں ان سب کیلئے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے،- مفسر القرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ مسلمان کے لئے جتنی، علمی، عملی اخلاقی صفات مطلوب ہیں وہ ان تینوں سورتوں کی چند آیات میں جمع کردی گئی ہیں اور یہی صفات وہ کلمات ہیں جن میں حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) کا امتحان لیا گیا اور آیت وَاِذِ ابْتَلٰٓى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰت میں انہی صفات کی طرف اشارہ ہے،- ان آیات کے متعلق قابل غور سوالات میں سے دو سوالوں کا جواب یہاں تک ہوگیا،- تیسرا سوال یہ تھا کہ اس امتحان میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی کامیابی کا درجہ اور مقام کیا رہا، تو وہ خود قرآن کریم نے اپنے مخصوص انداز میں ان کو سند کامیابی عطا فرمائی ارشاد ہوا،- وَاِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّيٰٓ (٣٧: ٥٣) (وہ ابراہیم (علیہ السلام) جس نے پورا کر دکھایا) - اس کا حاصل یہ ہے کہ ہر امتحان کی مکمل اور سو فیصدی کامیابی کا اعلان فرمادیا،- چوتھا سوال کہ اس امتحان پر انعام کیا ملا اس کا ذکر خود اسی آیت میں آچکا ہے یعنی، - قَالَ اِنِّىْ جَاعِلُكَ للنَّاسِ اِمَامًا (١٢٤: ٢) (امتحان کے بعد) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں بنانے والا ہوں، - اس سے ایک طرف تو یہ معلوم ہوا کہ حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) کو اس کامیابی کے صلہ میں امامت خلق اور پیشوائی کا انعام دیا گیا دوسری طرف یہ بھی معلوم ہوا کہ خلق خدا کے امام ومقتداء اور پیشوا بننے کے لئے جو امتحان درکار ہے وہ دنیا کے مدارس اور یونیورسٹیوں جیسا امتحان نہیں جس میں چند مسائل کی فنی تحقیق اور علمی موشگانی کو کامیابی کا اعلی درجہ سمجھا جاتا ہے اس عہدے کے حاصل کرنے کے لئے ان تیس اخلاقی اور عملی صفات میں کامل اور مکمل ہونا شرط ہے جن کا ذکر ابھی بحوالہ آیات آچکا ہے قرآن کریم نے ایک دوسری جگہ بھی یہی مضمون اس طرح بیان فرمایا ہے ،- وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ اَىِٕمَّةً يَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا وَكَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يُوْقِنُوْنَ (٢٤: ٣٢) یعنی ہم نے ان میں سے امام اور پیشوا بنائے کہ وہ ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کریں جب انہوں نے اپنے نفس کو خلاف شرع سے روکا اور ہماری آیتوں پر یقین کیا،- اس آیت میں امامت و پیشوائی کے لئے ان تیس صفات کا خلاصہ دو لفظوں میں کردیا گیا ہے یعنی صبر ویقین، یقین علمی اور اعتقادی کمال اور صبر عملی اور اخلاقی کمال ہے اور وہ تیس صفات جن کا ذکر ابھی اوپر گذر چکا ہے سب کی سب انہی دو وصفوں میں سموئی ہوئی ہیں، - پانچواں سوال یہ تھا کہ آئندہ آنے والی نسلوں کو منصب امامت و پیشوائی دینے کے لئے جو یہ ضابطہ ارشاد ہوا ہے کہ فاسق اور ظالم لوگوں کو یہ منصب نہ ملے گا اس کا کیا مطلب ہے ؟- اس کی توضیح یہ ہے کہ امامت و پیشوائی ایک حیثیت سے اللہ جل شانہ کی خلافت ہے یہ کسی شخص کو نہیں دی جاسکتی جو اس کا باغی اور نافرمان ہو اسی لئے مسلمانوں پر لازم ہے کہ اپنے اختیار سے اپنا نمائندہ یا امیر کسی ایسے شخص کو مقرر نہ کریں جو اللہ تعالیٰ کا باغی یا نافرمان ہو،

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذِ ابْتَلٰٓى اِبْرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَـمَّہُنَّ۝ ٠ ۭ قَالَ اِنِّىْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا۝ ٠ ۭ قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِىْ۝ ٠ ۭ قَالَ لَا يَنَالُ عَہْدِي الظّٰلِــمِيْنَ۝ ١٢٤- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- ابتلاء - وإذا قيل : ابْتَلَى فلان کذا وأَبْلَاهُ فذلک يتضمن أمرین : أحدهما تعرّف حاله والوقوف علی ما يجهل من أمره، والثاني ظهور جو دته ورداء ته، وربما قصد به الأمران، وربما يقصد به أحدهما، فإذا قيل في اللہ تعالی: بلا کذا وأبلاه فلیس المراد منه إلا ظهور جو دته ورداء ته، دون التعرف لحاله، والوقوف علی ما يجهل من أمره إذ کان اللہ علّام الغیوب، وعلی هذا قوله عزّ وجل : وَإِذِ ابْتَلى إِبْراهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ [ البقرة 124] .- ويقال : أَبْلَيْتُ فلانا يمينا : إذا عرضت عليه الیمین لتبلوه بها «3» .- ( کسی کا امتحان کرنا ) یہ دو امر کو متضمن ہوتا ہے ( 1) تو اس شخص کی حالت کو جانچنا اور اس سے پوری طرح باخبر ہونا مقصود ہوتا ہے دوسرے ( 2 ) اس کی اچھی یا بری حالت کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا ۔ پھر کبھی تو یہ دونوں معنی مراد ہوتے ہیں اور کبھی صرف ایک ہی معنی مقصود ہوتا ہے ۔ جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف تو صرف دوسرے معنی مراد ہوتے ہیں یعنی اس شخص لہ خوبی یا نقص کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے ۔ کیونکہ ذات ہے اسے کسی کی حالت سے باخبر ہونے کی ضرورت نہیں لہذا آیت کریمہ : وَإِذِ ابْتَلى إِبْراهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ [ البقرة 124] اور پروردگار نے چند باتوں میں ابراھیم کی آزمائش کی تو وہ ان میں پورے اترے ۔ دوسری معنی پر محمول ہوگی ( یعنی حضرت ابراھیم کے کمالات کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا مقصود تھا ) ابلیت فلانا یمینا کسی سے آزمائش قسم لینا ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- تمَ- تَمَام الشیء : انتهاؤه إلى حدّ لا يحتاج إلى شيء خارج عنه، والناقص : ما يحتاج إلى شيء خارج عنه . ويقال ذلک للمعدود والممسوح، تقول : عدد تَامٌّ ولیل تام، قال : وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام 115] ، وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ- [ الصف 8] ، وَأَتْمَمْناها بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقاتُ رَبِّهِ [ الأعراف 142] .- ( ت م م ) تمام الشیء کے معنی کسی چیز کے اس حد تک پہنچ جانے کے ہیں جس کے بعد اسے کسی خارجی شے کی احتیاج باقی نہ رہے اس کی ضد ناقص یعنی وہ جو اپنی ذات کی تکمیل کے لئے ہنور خارج شے کی محتاج ہو اور تمام کا لفظ معدودات کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور مقدار وغیرہ پر بھی بولا جاتا ہے مثلا قرآن میں ہے : ۔ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام 115] اور تمہارے پروردگار وعدہ پورا ہوا ۔ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ [ الصف 8] حالانکہ خدا اپنی روشنی کو پورا کرکے رہے گا ۔ وَأَتْمَمْناها بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقاتُ رَبِّهِ [ الأعراف 142] . اور دس ( راتیں ) اور ملا کر اسے پورا ( حیلہ ) کردیا تو اس کے پروردگار کی ۔۔۔۔۔ میعاد پوری ہوگئی ۔- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - إِمام :- المؤتمّ به، إنسانا كأن يقتدی بقوله أو فعله، أو کتابا، أو غير ذلک محقّا کان أو مبطلا، وجمعه : أئمة . وقوله تعالی: يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أُناسٍ بِإِمامِهِمْ [ الإسراء 71] أي : بالذي يقتدون به، - الامام - وہ ہے جس کی اقتداء کی جائے خواہ وہ انسان ہو یا اس کے قول وفعل کی اقتداء کی جائے یا کتاب وغیرہ ہو اور خواہ وہ شخص جس کی پیروی کی جائے حق پر ہو یا باطل پر ہو اس کی جمع ائمۃ افعلۃ ) ہے اور آیت :۔ يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ ( سورة الإسراء 71) جس دن ہم سب لوگوں کو ان کے پیشواؤں کے ساتھ بلائیں گے ۔ میں امام سے وہ شخص مراد ہے جس کی وہ اقتداء کرتے تھے ۔ - ذر - الذّرّيّة، قال تعالی: وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124]- ( ذ ر ر) الذریۃ ۔- نسل اولاد ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124] اور میری اولاد میں سے بھی - نيل - النَّيْلُ : ما يناله الإنسان بيده، نِلْتُهُ أَنَالُهُ نَيْلًا . قال تعالی: لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ [ آل عمران 92] ، وَلا يَنالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَيْلًا [ التوبة 120] ، لَمْ يَنالُوا خَيْراً [ الأحزاب 25] والنَّوْلُ : التّناول . يقال : نِلْتُ كذا أَنُولُ نَوْلًا، وأَنَلْتُهُ : أولیته، وذلک مثل : عطوت کذا :- تناولت، وأعطیته : أنلته . ونِلْتُ : أصله نَوِلْتُ علی فعلت، ثم نقل إلى فلت . ويقال : ما کان نَوْلُكَ أن تفعل کذا . أي : ما فيه نَوَال صلاحک، قال الشاعر :- 455-- جزعت ولیس ذلک بالنّوال - «1» قيل : معناه بصواب . وحقیقة النّوال : ما يناله الإنسان من الصلة، وتحقیقه ليس ذلک مما تنال منه مرادا، وقال تعالی: لَنْ يَنالَ اللَّهَ لُحُومُها وَلا دِماؤُها وَلكِنْ يَنالُهُ التَّقْوى مِنْكُمْ- [ الحج 37] .- ( ن ی ل ) النیل ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جسے انسان اپنے ہاتھ سے پکڑلیتا ہے ۔ اور یہ نلتہ الالہ نیلا کا مصدر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ [ آل عمران 92] تم کبھی نیکی حاصل نہیں کرسکو گے ۔ وَلا يَنالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَيْلًا [ التوبة 120] یا دشمنوں سے کوئی چیز لیتے ۔ لَمْ يَنالُوا خَيْراً [ الأحزاب 25] کچھ بھلائی حاصل نہ کرسکے ۔- عهد - العَهْدُ : حفظ الشیء ومراعاته حالا بعد حال، وسمّي الموثق الذي يلزم مراعاته عَهْداً.- قال : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء 34] ، أي : أوفوا بحفظ الأيمان، قال : لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة 124] - ( ع ھ د ) العھد - ( ض ) کے معنی ہیں کسی چیز کی پیہم نگہہ داشت اور خبر گیری کرنا اس بنا پر اس پختہ وعدہ کو بھی عھد کہاجاتا ہے جس کی نگہداشت ضروری ہو ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء 34] اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی ۔ یعنی اپنی قسموں کے عہد پورے کرو ۔ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة 124] کہ ظالموں کے حق میں میری ذمہ داری پوری نہیں ہوسکتی ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قو ل باری ہے : واذا ابتلی ابراھیم ربہ بکلمات فاتمھن (یاد کرو جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب پر پورا اتر گیا) اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے مابین اختلاف رائے ہے۔ حضرت ابن عباس کے قول کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو مناسک میں آزمایا حسن بصری کے قول کے مطابق یہ آزمائش حضرت اسماعیلی (علیہ السلام) کی قربانی اور کواکب کے ذریعے کی گئی (کواکب کے ذریعے آزمائش کا ذکر قرآن میں موجود ہے) طائوس نے حضرت ابن عباس سے روایت بیان کی ہے کہ اللہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو طہارت کے حکم کے ذریعے آزمایا۔ اس سلسلے میں سر کے ساتھ تعلق رکھنے والے پانچ حکم اور جسم ک یساتھ تعلق رکھنے والے پانچ حکم دیئے گئے پہلے پانچ حکم یہ تھے ۔ لب کتروانا، کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، مسواک کرنا اور سر میں مانگ نکالنا۔ دوسرے پانچ حکم یہ تھے : ناخن کاٹنا، موئے زیر ناف صاف کرنا، ختنہ کرنا بغل کے بال اکھیڑنا اور پاخانہ پیشاب کے بعد پانی سے دھونا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ ” دس باتوں کا تعلق فطرت سے ہے۔ یعنی انبیاء علیہم ا لسلام ک سنت سے ہے۔ اور پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مذکورہ بالا باتیں بیان فرمائیں۔ البتہ سر میں مانگ نکالنے کی جگ داڑھی بڑھانے کا ذکر فرمایا۔- اس روایت میں آیت کی تاویل کا ذکر نہیں ہے۔ حضرت عمار، حضرت عائشہ اور حضرت ابوہریرہ نے بھی کم و بیش یہ روایت بیان کی ہے۔ طوالت کے خوف سے ہم نے ان روایتوں کے اسانید اور ان کے ال فاظ کا ذکر ترک کردیا ہے ۔ کیونکہ یہ مشہور روایتیں ہیں اور لوگوں نے قول اور عمل دونوں اعتبار سے انہیں نقل کیا ہے اور انہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کے طور پر پہنچانا ہے۔ رہ گیا زیر بحث آیت کی تاویل میں سلف کا اختلاف جس کا ذکر ہم نے اوپر کیا ہے، تو عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو مذکورہ تمام باتوں کے ذریعے آزمایا ہو اور حضرت ابراہیم علیہ ا لسلام ان تمام باتوں میں پورے اترے ہوں اور ان میں کسی قسم کی کمی کئے بغیر منشائے الٰہی کے مطابق انہیں پورا کیا ہو۔ کیونکہ نقص یعنی کمی اتمام کی ضد ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے اتمام کی خبر دی ہے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - ١ ؎ فاضل مصنف نے جو کچھ لکھا ہے، اس کے علاوہ حدیث کا ایک مفہوم یہ بھی مراد لیا جاسکتا ہے کہ ایک شخص دنیا کے مشاغل میں منہمک ہو کر گویا خود کو فروخت کردیتا ہے اور ہلاک ہوجاتا ہے اور دوسرا دنیا کو ٹھکرا کر گویا خود کو آزاد کرلیتا ہے اور فلاح پاتا ہے۔ - سے یہ جو مقنول ہے کہ : سر اور جسم میں دس باتیں فطرت سے تعلق رکھتی ہیں۔ “ تو عین ممکن ہے کہ آپ ان باتوں میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پیرو کار تھے کیونکہ قول باری ہے : ثم اوحینا الیک ان اتبع ملۃ ابراھیم حنیفاً (پھر ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی کہ ابراہیم کے طریقے کی پیروی کرو جو حنیف تھے) نیز فرمایا : اولئک الذین ھدی اللہ فبھدا ھم اقتدہ (یہی وہ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی ہدایت کی پیروی کیجیے) اس لئے مذکورہ بالا باتیں حضرت ابراہیم علیہ ا لسلام اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کے طور پر ثابت ہیں اور یہ اس بات کی مقتضی ہیں کہ صفائی اور پاکیزگی نیز کپڑوں سے گندی اور میل کچیل دور کرنا ایسے امور ہیں جن کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے جب احرام کے اندر جسم سے بال اتارنے اور میل کچیل دور کرنے سے منع فرما دیا تو احرام کھولنے پر انہیں دور کرنے کا حکم دیا، چناچہ ارشاد ہوا : ثم لیقضوا تفثھم (پھر وہ اپنا میل کچیل دور کریں)- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی جمعہ کے دن غسل کرنے کے سلسلے میں اسی طرح کی روایت ہے کہ مسواک کا استعمال کیا جائے اور گھر میں موجود خوشبو لگائیجائے۔ یہ تمام باتیں ایسی ہیں جو انسانی عقل کے مطاب قمستحسن اور اخلقا و عادات کے اعتبار سے قابل تعریف اور پسندیدہ ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول توقیف و رہنمائی نے انہیں اور موکد کردیا ہے۔ عبدالباقی نے روایت بیان کی، ان سے محمد بن عمر بن حیان التمار نے، ان سے ابوالولید اور عبدالرحمٰن بن المبارک نے ان سے قیش بن حیان العجلی اور ان سے سلیمان فروخ ابو الواصل نے کہ میں حضرت ابو ایوب انصاری کے پاس آیا اور ان سے مصافحہ کیا، انہوں نے میرے ناخن بڑھے ہوئے دیکھ کر فرمایا کہ ایک شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آسمان کی خبر پوچھنے لگا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص آتا ہے اور آ کر آسمان کی خبر پوچھتا ہے، جبکہ ان کے ناخن پرندوں کے ناخنوں کی طرح بڑھے ہوت یہیں جن میں گندگی اور میل کچیل جمع ہوتا ہے۔ “ اسی طرح عبدالباقی نے روایت بیان کی، ان سے احمد بن سہل بن ایوب نے ، ان سے عبدالملک بن مروان المحذاء نے ، ان سے ضحاک بن زید ا ہوازی نے اسماعیل بن خالد سے، انہوں نے قیس بن ابی حازم سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے کہ : ہم نے عرض کیا کہ ” اللہ کے رسول کیا آپ بھی غلطی کرتے ہیں ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” میں کیوں غلطی نہ کروں جبکہ تم میں سے ایک شخص کے جسم کے گوشوں کے میل کچیل اس کے ناخنوں اور انلیوں کے پودوں کے درمیان موجود ہوتے ہیں۔ “ حضرت ابوہریرہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے رویات بیان کی ہے کہ آپ جمعہ کی نماز کے لئے جانے سے پہلے ناخن تراشتے اور لب کترتے تھے۔ محمد بن بکر البصری سے رویات بیان کی، ان سے ابو دائود نے ، ان سے عثمان ابن ابی شیبہ نے وکیع سے، انہوں نے اور زاعی سے ، انہوں نے حسان سے، انہوں نے محمد بن المنکدر سے اور انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ سے کہ انہوں نے فرمایا : ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کے سر کے بال بکھرے ہوئے دیکھے اور فرمایا : کیا اس شخص کو ایسی چیز بھی میسر نہیں جس کے ذریعے وہ اپنے بال درست کرے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک اور شخص کو دیکھا جس نے میلے کچیلے کپڑے پہن رکھے تھے، یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا : کیا اس کو ایسی چیز بھی میسر نہیں جس کے ذریعے وہ اپنے کپڑے دھو لے ؟ “- عبدالباقی نے روایت بیان کی، ان سے حسین بن اسحاق نے، ان سے محمد بن عقبہ السدوسی نے، ان سے ابوامیہ بن یعلی نے ، ان سے ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عائشہ سے انہوں نے فرمایا : پانچ چیزیں ایسی ہیں جنہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفر اور حضر میں ترک نہیں کرتے تھے۔ آئینہ، سرمہ دانی، کنگھی، مدری (سر وغیرہ کھجلانے کے لئے لوہے یا لکڑی کی بنی ہوئی دندانے دار چیز) اور مسواک۔ “- عبدالباقی نے روایت بیان کی، ان سے الحسین بن المثنیٰ ١ ؎ نے معاذ سے، ان سے مسلم بن ابراہیم نے، ان سے صدقہ الدقیقی نے، ان سے ابو عمران الجونی نے حضرت انس بن مالک سے، انہوں نے فرمایا کہ : حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے موئے زیر ناف صاف کرنے ، مونچھیں کترنے اور بغل کے بال اکھیڑنے کے لئے چالیس دنوں کا وقفہ مقرر کیا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بالوں کی صفائی کے لئے چونہ استعمال کرتے تھے۔- عبدالباقی نے روایت بیان کی، ان سے ادریس الحداد نے ، ان سے عاصم بن علی نے، ان سے کامل بن العلاء نے ، ان سے حبیب بی ابی ثابت نے حضرت ام سلمہ سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جسم مبارک پر مالش کے دوران اپنے ہاتھوں سے اپنے مغابن (جسمانی گوشوں) کو ملا کرتے تھے۔- عبدالباقی نے روایت بیان کی، ان سے مطیر نے، ان سے ابراہیم بن المنذر نے ان سے معن بن عیسیٰ نے ایسے شخص سے جس نے یہ روایت ابن ابی نحیح سے سنی، انہوں نے مجاہد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جسم مبارک پر ایک شخص نے مالش کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ستر پر ایک کپڑا ڈال دیا۔ جب وہ شخص مالش سے فارغ ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے باہر نکل جانے کے لئے کہا پھر آپ نے اپنے ہاتھوں سے ستر کی مالش کی۔- حبیب بن ابی ثاثت نے حضرت انس سے روایت بیان کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بالوں کی صفائی کے لئے چونہ استعمال نہیں کرتے تھے۔ اگر بال زیادہ ہوجاتے تو مونڈ دیتے۔ اس روایت میں یہ احتمال ہے کہ حضرت انس یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ بال مونڈنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت تھی۔ اور زیادہ تر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسا ہی کرتے تھے۔ اس تاویل سے بال مونڈنے اور چونہ استعمال کرنے کی دونوں روایتیں درست ہوجائیں گی، البتہ گزشتہ حدیث میں چالیس دن کے وقفے کا جو ذکر ہوا ہے تو اسے اس بات پر محمول کرنا جائز ہے کہ تاخیر میں رخصت کی مدت کا اندازہ چالیس دن لگایا گیا ہے اور اس سے زیادہ تاخیر ممنوع ہے اور اگر کوئی شخص ایسا کرے گا تو سنت کی مخالفت کی نبا پر ملامت کا مستحق ہوگا۔ خاص طور پر لب کتروانے اور ناخن ترشوانے کے سلسلے میں۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ابو جعفر الطحاوی نے سر اور لب کے بال کترنے کے سلسلے میں امام ابوحنیفہ، امام زفر، امام ابو یوسف اور امام محمد کا مسلک بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان حضرات کے نزدیک چھوٹے کرانے کی بہ نسبت احفاء ( بہت زیادہ کتر کے پست کردینا) افضل ہے، خواہ اس کے ساتھ بعض بال مونڈ دیئے جائیں۔ ابن الہشیم نے امام مالک سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ مونچھوں کا احفا میرے نزدیک مثلہ ہے۔ امام مالک نے مونچھوں کے احفاء کے بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول کی تفسیر اطار سے کی ہے، یعنی امام مالک مونچھوں کے بال اوپر کی طرف سے کترنے کو مکروہ سمجھتے تھے اور چاروں طر سے کترنے میں توسیع کے قائل تھے۔ اشہب نے کہا ہے کہ میں نے ا مام مالک سے اس شخص کے متعلق پوچھا جو اپنے لب پوری طرح کتر دیتا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ میرے خیال میں ایسے شخص کی زبرسدت پٹائی ہونی چاہیے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث احفاء یعنی پوری طرح کتر کر پست کرنے کے بارے میں نہیں ہے۔ گویا امام مالک یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اطار یعنی چاروں طرف سے کترنے کا عمل لبوں کے کنارے ظاہر کردیتا ہے۔ پھر امام مالک نے نے فرمایا : مونچھیں مونڈ دینا ایک بدعت ہے جو لوگوں کے اندر ظہور پذیر ہوگئی ہے، حضرت عمر (رض) کو جب کوئی اہم معاملہ درپیش ہوجاتا تو آپ کا چہرہ تمتما جاتا اور آپ اپنی مونچھوں کو تائو دینا شروع کردیتے۔- اوزاعی سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جو اپنا سر مونڈ دیتا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ شہری لوگوں میں یہ بات صرف یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) کو ظاہر ہوتی ہے اور یہ کام عرفات میں ہوتا ہے۔- عہدہ بن ابی لبابہ سرمونڈنے کی بڑی فضیلت بیان کرتے ہیں۔- لیث کا قول ہے کہ : میں یہ بات پسند نہیں کرت ا کوئی شخص اپنی مونچھیں اس طرح مونڈ ڈالے کہ اس کی جلد نظر آنے لگے، میں اسے مکروہ سمجھتا ہوں، لیکن وہ مونچھوں کے کنارے والے بال کتردے، مجھے ایک شخص کالمبی مونچھوں والا ہونا ناپسند ہے۔- اسحق بن ابی اسرائیل نے کہا : میں نے عبدالمجید بن عبدالزعیز بن ابو دائود سے سر مونڈنے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا مکہ مکرمہ میں ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ یہ شہر سر مونڈنے کا شہر ہے، لیکن اس کے علاوہ دوسرے شہروں میں ایسا نہ کیا جائے۔- ابو جعفر کا کہنا ہے کہ امام شافعی سے اس سلسلے میں کوئی ختصوص قول منقول نہیں، تاہم امام شافعی کے المزنی اور الربیع کو ہم نے دیکھا ہے کہ وہ اپنی مونچھوں کا احفاء کرتے تھے۔ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ان دونوں حضرات نے امام شافعی سے یہ چیز اخذ کی تھی۔- حضرت عائشہ اور حضرت ابوہریرہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت بیان کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” دس باتیں فطرت کی ہیں اور لب کترنا ان میں سے ایک ہے۔- حضرت مغیرہ بن شعبہ نے روایت بیان کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مونچھوں پر مسواک رکھ کر زائد بال کتر دیئے تھے۔ یہ بات جائز اور مباح ہے اگرچہ دوسری بات افضل ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسواک رکھ کر اس لئے بال کترے تھے کہ اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو احفاء کے لئے کوئی آلہ میسر نہیں تھا۔ - عکرمہ نے حضرت ابن عباس سے روایت بیان کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی مونچھوں کے بال کاٹ دیتے تھے۔ اس میں احفاء کا بھی احتمال ہے۔- عبداللہ بن عمر نے نافع سے انہوں نے حضرت ابن عمر سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت بیان کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مونچھیں پست کرو اور داڑھیاں بڑھائو۔- اعلاء بن عبدالرحمٰن نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے روایت بیان کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھنے دو ۔ “ اس میں بھی احفاء کا احتمال ہے۔- عمر بن سلمہ نے اپنے والد سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت بیان کی ہے کہ آپ نے فرمایا :” مونچھیں پست کرو اور داڑھیاں بڑھائو۔ “ یہ روایت اس امر پر دلالت کرت ہے کہ پہلی روایت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد احفاء ہے۔ احفاء اس امر کا مقتضی ہے کہ بال دور کرنے سے جلد ظاہر ہوجائے جس طرح ننگے پیروں والے شخص کو ” رجل حاف “ (پیروں سے ننگا) کہا جاتا ہے اور اس کے لئے ” حفیت رجلہ “ (اس کا پیر ننگا ہے) کا فقرہ بھی بولا جاتا ہے اسی طرح حفیت الدابۃ کا فقرہ اس وقت کہا جاتا ہے جب جانور کے تلوے گھس جانے کی وجہ سے اس کی ٹانگوں کا نچلا حصہ کمزور ہوجائے۔- حضرت ابوسعید خدری، حضرت ابواسید ، حضرت رافع بن خدیج، حضرت سہل بن سعد، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت جابر بن عبداللہ اور حضرت ابوہریرہ کے متعلق مروی ہے کہ یہ حضرات اپنی مونچھوں کا احفاء کیا کرتے تھے۔- ابراہیم بن محمد بن خطاب نے کہا ہے کہ انہوں نے حضرت ابن عمر کو اپنی مونچھیں اس طرح صاف کرتے دیکھا تھا کہ گویا وہ تمام بال اکھیڑ لیتے۔ بعض دوسرے راویوں نے کہا ہے کہ حضرت ابن عمر اس طرح مونچھیں صاف کرلیتے کہ جلد کی سفیدی نظر آ جاتی۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جب مونچھوں کے بال چھوٹے کرنا سب کے نزدیک مسنون ہے تو پھر حلق، یعنی مونڈ دینا افضل ہوگا کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا : اللہ تعالیٰ مونڈنے والوں پر رحم فرمائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین بار یہ دعا کی اور بال چھوٹے کرنے والوں کے لئے ایک دفعہ داع کی تھی۔ اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سر مونڈنے کو سر کے بال چھوٹے کرانے سے افضل قرار دیا۔- امام مالک نے حضرت عمر کے فعل سے استدلال کیا ہے کہ جب آپ غصے میں آتے تو مونچھوں کو تائو دیتے۔ اس بارے میں یہ ممکن ہے کہ آپ مونچھوں کے بال اس قدر رہنے دیتے ہوں کہ انہیں بٹ دینا ممکن ہو۔ جیسا کہ بہت سے لوگ اس طرح کرتے ہیں۔- قول باری ہے : انی جاعلک للناس اماماً (میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں) امام وہ شخص ہے جس کی امور دین کے اندر از راہ نبوت پیروی کی جائے۔ اسی طرح تمام انبیاء (علیہم السلام) ائمہ ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے امور دین میں ان کا اتباع اور پیروی لازم کردی ہے خلفا بھی ائمہ ہیں، اس لئے کہ ان کا مرتبہ ایسا ہے کہ لوگوں پر ان کا اتباع کرنا اور ان کے قول اور احاکم کو قبول کرنا لازم ہے۔ فقہاء اور قضاۃ بھی ائمہ ہیں۔ اسی مفہوم کی بنا پر لوگوں کو نماز پڑھانے والا امام کہلاتا ہے، اس لئے کہ جو شخص جماعت کی نماز میں دخل ہوجاتا ہے اس پر امام کا اتباع لازم ہوجاتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : امام کو اس لئے امام بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے۔ جب وہ رکوع کرے تم بھی رکوع کرو اور جب وہ سجدے میں جائے تم بھی سجدے میں جائو۔ نیز آپ نے فرمایا : اپنے امام سے اختلاف نہ کرو۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ امامت کے اسم کا وہ شخص مستحق ہوتا ہے جس کا امور دین میں اتباع لازم ہوتا ہے۔ باطل کے اندر جس شخص کی اقتداء کی جائے اسے بھ یہ نام دیا جاتا ہے، تاہم اس اسم کا علی الاطلاق ذکر ایسے شخص کے شامل نہیں ہوتا۔- ارشاد باری ہے : وجعلنا ھم المۃ یدعون الی النار (اور ہم نے انہیں ایسا پیشوا بنادیا جو آگ کی طرف بلاتے رہے) انہیں ائمہ کا نام اس لئے دیا گیا کہ لوگوں نے انہیں اس شخص جیسا درجہ دے دیا تھا جس کی امور دین میں اقتدا کی جاتی ہے۔ اگرچہ وہ ائمہ نہیں تھے اور ان کی اقتدا واجب نہیں تھی۔ جس طرح یہ قول باری ہے (فما اعنت عنھم الھتھم التی یدعون (ان کے یہ الہ جنہیں یہ پکارتے ہیں ان کے کچھ کام نہ آئے) نیز فرمایا : وانظر الی اھلک الذی ظلت علیہ عاکفاً (اور دیکھ اپنے اس خدا کو جس پر تو یرجھا ہوا ہے) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : مجھے اپنی اتم کے بارے میں جس چیز کا زیادہ خطرہ ہے وہ گمراہ کرنے والے ائمہ ہیں۔ ائمہ کا علی الاطلاق ذکر صرف ان ائمہ کو شامل ہوتا ہے جن کی اللہ کے دین نیز حق اور ہدایت کے اندر اقتدا واجب ہوتی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ قول باری : انی جاعلت للناس اماماً کسی تقیید کے بغیر مذکور ہے، لکین جب ائمہ ضلال کا ذکر ہوا تو اسے : یدعون الی النار کی قید سے مقید کردیا ۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ امامت کا اسم ان لوگوں کو شامل ہے جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے تو پھر انبیاء (علیہم السلام) امامت کے سب سے اونچے متر بےپر ہیں۔ پھر خلفائے راشدین اور اس کے بعد ھپر علماء اور انصاف کرنے والے قاضی، نیز ایسے لوگ جن کی اقتدا اللہ نے لوگوں پر لازم کردی ہے اور پھر نماز کی امامت وغیرہ۔- اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ خبر دی کہ وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو لوگوں کا پیشوا بنا رہا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ سے درخواست کی کہ وہ ان کی اولاد میں سے بھی پیشوا بنائے۔ اس کا ذکر قرآن کے الفاظ میں اس طرح ہے : ومن ذریتی (اور میری اولاد میں سے) چونکہ اس فقرے کا عطف پہلے فقرے پر ہے اس لئے مفہم کے اعتبار سے گویا الفاظ یہ ہیں : اور میری اولاد میں سے بھی ائمہ بنا دے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ مذکورہ بالا فقرے سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے یہ پوچھا ہو کہ آیا میری اولاد میں بھی ائمہ ہوں گے ؟ “ اور اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا ہو : لا ینال عھدی الظلمین (میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے۔ ) اس طرح یہ فقرہ دومعنوں پر مشتمل ہے ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے یا تو ابراہیم (علیہ السلام) کو اس بات سے آگاہ کرتے ہوئے جسے معلوم کرنے کی غرض سے انہوں نے اللہ سے سوال کیا تھا اور یا اس بات کا جواب دیتے ہوئے جس کا سوال انہوں نے اللہ سے اپنی اولاد کے لئے کیا تھا، انہیں بتایا کہ وہ ان کی اولاد میں ائمہ بنائے گا۔ دوسری بات اس صورت میں ہوگی جب قول باری : ومن ذریتی کو اپنی اولاد میں سے ائمہ بنانے کے لئے سوال قرار دیا جائے۔ یہ بھی جائز ہے کہ آیت سے دونوں معنی مراد ہوں۔ اول حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اللہ سے یہ سوال کہ ان کی اولاد میں ائمہ بنائے جائیں نیز انہیں اس سے آگاہ کردیا جائے اور دوم اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سوال کا جواب۔ کیونکہ اگر درج بالا قرآنی فقرہ اللہ کی طرف سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سوال کا جواب نہ ہوتا تو پھر یہ فقرہ ان الفاظ پر مشتمل ہوتا :” لیس فی ذریتک المۃ (تمہاری اولاد میں ائمہ نہیں ہوں گے) یا : لاینال عھدی من ذریتک احد (میرا وعدہ تمہاری اولاد میں سے کسی سے متعلق نہیں ہے) اللہ تعالیٰ نے اس فقرے کے ذریعے یہ خبر دی کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ظالموں کو ائمہ نہیں بنایا جائے گا۔- قول باری : لاینال عھد الظلمن۔ کی تفسیر میں سدی سے مروی ہے کہ اس سے مراد نبوت ہے۔ مجاہد سے مروی ہے کہ اللہ کے ہاں یہ مراد ہے کہ ظالم امام نہیں ہوگا۔ حضرت ابن عباس سے ان کا یہ قول منقول ہے کہ ظالم کے ساتھ کئے گئے عہد کو پورا کرنا لازم نہیں ہے۔ اگر ظالم نے ازراہ ظلم تمہارے ساتھ کوئی عقد باندھا ہو تو اسے توڑ ڈالو حسن بصری نے کہا ہے کہ ان کے ساتھ اللہ کا کوئی عہد نہیں ہے کہ وہ آخرت میں بھلائی عطا کرے گا۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ زیر بحث آیت کے جتنے معانی اوپر بیان ہوئے آیت کے الفاظ میں ان سب کا احتمال موجود ہے اور یہ ممکن ہے کہ یہ تمام معانی اللہ کی مراد قرار دیئے جائیں، ہمارے نزدیک یہ آیت اسی مراد پر محمول ہے، چناچہ کسی ظالم کا نہ تو نبی ہونا ممکن ہے نہ وہ کسی نبی کا خلیفہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی ایسا شخص بننا جس کا امور دین کے اندر لوگوں پر اتباع لازم ہو مثلاً مفتی یا گواہ یا حدیث کا راوی۔- زیر بحث آیت نے یہ بتادیا ہے کہ دین کے معاملے میں جن لوگوں کی اتباع کی جائے ان سب کے لئے عدالت اور صلاح شرط ہے۔ یہ آیت اس امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ نماز پڑھانے والے اماموں کو صالح اور نیکو کار ہونا چاہیے۔ کیونکہ آیت اس شخص کے لئے عدالت یعنی نیکو کاری اور سلامت روی کی شرط پر دلالت کرتی ہے جسے دین کے امور میں مقتدا کے منصب پر فائز کیا جائے۔- ارشاد باری ہے : الم اعھد الیکم یا بنی ادم ان لا تعبدوا لشیطان انہ لکم عدو مبین (کیا میں نے تم کو تاکید نہیں کردی تھی، اے اولاد آدم، کہ تم شیطان کی فرمانبرداری نہ کرنا، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے) نیز فرمایا : الذین قالوا ان اللہ عمد الینا (جو لوگ کہتے ہیں اللہ نے ہم کو ہدایت کردی ہے) خلفاء کا اپنے حکام اور قاضیوں سے عہد ان ہی معنوں میں ہے یعنی اس سے مراد وہ ہدایات اور احکامات ہیں جو خلیفہ کی طرف سے اپنے گورنروں اور قاضیوں کو وقتاً فوقتاً جاری کئے جاتے ہیں تاکہ وہ لوگوں کو ان پر عمل پیرا کریں اور ان کی روشنی میں لوگوں کے جھگڑے نمٹائیں۔- درج بالا وضاحت اس بنا پر ہے کہ اگر ” عہد اللہ “ اللہ کے اوامر کا نام ہے تو پھر قول باری : لاینال عھد الظلمین۔ دو میں سے ایک امر سے خلای نہیں ہوگا۔ یا تو یہ مراد ہے کہ ظالم مامورین و مکلفین کی فہرست سے خارج ہیں یا یہ مراد ہے کہ ظالموں کے لئے ایسے منصب اور اور مقام پر ہونا جائز نہیں ہے جس کے تحت ا ن سے اللہ کے اوامر اور احکام قبول کئے جائیں۔ پہلی صورت تو اس لئے باطل ہے کہ تمام مسلمانوں کا اس امر پر اتفاق ہے کہ اللہ کے واوامر دیگر لوگوں کی طرح ظالموں کے لئے بھی لازم ہیں اور ان پر ظلم کا ٹھپہ صرف اس لئے لگتا ہے کہ وہ اوامر اللہ کے تارک ہوتے ہیں اور جب پہلی وجہ باطل ہوگئی تو اس سے دوسری صورت ثابت ہوگئی، وہ یہ کہ ظالم لوگوں کو اللہ کے اوامر اور ان کے اجرا کے سلسلے میں دیانت دار اور امین قرار نہیں دیا جاسکتا اور ان کی اقتدا نہیں کی جاسکتی۔ وہ ائمہ دین نہیں بن سکتے۔- درج بالا وضاحت کی روشنی میں زیر بحث آیت سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ فاسق کی امامت باطل ہے اور فاسق شخص خلیفہ نہیں بن سکتا۔ اگر کوئی فاسق شخص اپنے آپ کو اس منصب پر فائز کرلے تو لوگوں پر اس کا اتباع لازم نہیں ہوگا۔ یہی بات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد : خلاق کی معصیت میں کسی مخلوق کی کوئی اطاعت نہیں کی جائے گی، میں بھی کہی گئی ہے۔ اس کے گواہی بھی قابل قبول نہیں ہوگی اور نہ ہی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اس کی دی ہوئی خبر یعنی روایت قابل تسلیم ہوگی۔ اگر وہ مفتی بن جائے تو اس کا فتویٰ نہیں چلے گا اور اسے نماز پڑھانے کے لئے امام نہیں بنایا جائے گا، البتہ اگر اسے امام بنادیا جائے تو اس کی اقتدا میں نمازیوں کی نماز درست ہوجائے گی۔ قول باری : ولا ینال عھد الظالمین ان تمام معافی اور امور کو عادی ہے۔- بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ امام ابوحنیفہ فاسق کی امامت اور خلافت کو جائز قرار دیتے اور اس کے اور حاکم کے درمیان فرق کرتے ہیں اور فاسق حاکم کی حکومت کو جائز قرار نہیں دیتے۔ یہ بات بعض متکلمین کے حوالے سے بیان کی گئی ہے۔ بیان کرنے والے کا نام زرقان ہے، لیکن زرقان نے اس بارے میں کذب بیانی سے کام لیا ہے اور ایک باطل بات کہی ہے۔ یہ شخص ان لوگوں میں بھی شامل نہیں ہے جن کی نقل کردہ باتیں قابل قبول ہوں۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس اعتبار سے قاضی اور خلیفہ کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے لئے عدالت کی شرط ہے : نیز یہ کہ فاسق شخص نہ تو خلیفہ بن سکتا ہے اور نہ ہی حاکم، اس کی گواہی بھی قبال قبول نہیں ہے اور اگر وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی حدیث کی روایت کرے تو اس کی یہ روایت بھی ناقابل قبول ہوگی۔ مذکورہ شخص امام ابوحنیفہ کے بارے میں درج بالا دعویٰ کس طرح کرسکتا ہے جبکہ بنی امیہ کے زمانے میں ابن ہبیرہ نے امام صاحب کو قضا کا عہدہ قبول کرنے پر مجبور کیا تھا اور ماں بیٹا بھی تھا۔ لکین امام صاحب اپنی بات پر قائم رہے۔ اس پر ابن ہبریہ بھی ضد میں آگیا اور ہر روز آپ کو کوڑوں کی سزا دینے لگا۔ حتیٰ کہ آپ کی جان جانے کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ یہ دیکھ کر فقہاء نے آپ کو مشورہ دیا کہ ابن ہبیرہ نے کسی کام کی ذمہ داری سنبھال لیں تاکہ ایذا رسانی کا یہ سلسلہ ختم ہوجائے۔ اس پر آپ نے بھوسے سے لدے ہوئے آنے والے جانوروں کی گنتی کا کام سنبھال لیا اور اس طرح آپ کو ابن ہبیرہ سے چھٹکارا مل گیا۔ پھر خلفیہ منصور نے آپ کو قضا کا عہدہ سنبھالنے کی دعوت دی اور انکار پر اس نے آپ کو قید کردیا۔ پھر آپ نے ان اینٹوں کی گنتی کا کام سنبھال لیا جو بغداد کے شہر پناہ کی تعمیر کے لئے بنائی جاتی تھیں۔ ظالموں نیز ائمہ جور کے خلاف قتال کرنے کے سلسلے میں آپ کا مسلک سب کو معلوم ہے۔ اسی بنا پر امام اوزاعی نے خلاف قتال کرنے کا مسئلہ بیان کیا، لیکن ہم نے اسے قبول نہیں کیا۔ امام ابوحنیفہ کا قول تھا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر قول کے ذریعے فرض ہے۔ اگر یہ طریقہ کارگر نہ ہو تو پھر تلوار کے ذریعے قتال فرض ہے : جیسا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے۔- ابراہیم الصائع اہل خراسان کے فقہا اور ان کے عابد و زاہد محدثین میں سے تھے، انہوں نے امام صاحب سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں جب سوال کیا تو امام صاحب نے جوا ب میں فرمایا کہ : یہ فرض ہے اور اس کے ساتھ وہ حدیث بیان کی جس کی روایت عکرمہ سے کی گئی ہے، انہوں نے حضرت ابن عباس سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سب سے افضل شہید حمزہ بن عبدالمطلب ہیں، نیز وہ شخص جو ظلم وجور کرنے والے امام کے سامنے کھڑا ہو کر اسے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرے اور پھر قتل ہوجائے۔ ابراہیم الصائغ امام صاحب کی یہ باتیں سن کر مرو (ایک شہر کا نام) واپس آ گئے اور ابو مسلم خراسانی (عہد عباسی کے ابتدائی دور کا مشہور سپہ سالار) کے سامنے کھڑے ہو کر اسے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہے پھر اس کے ظلم و ستم اور ناحق خونریزی پر برملا ٹوکتے رہے۔ ابو مسلم کچھ عرصے تک ان کی یہ تنقید برداشت کرتا اور پھر انہیں قتل کرا دیا۔- زید بن علی کے سلسلے میں امام صاحب کا رویہ سب کے علم میں ہے۔ آپ ان کے لئے رقمیں بھیجتے اور لوگوں کو ان کا ساتھ دینے اور ان کے ساتھ مل کر قتال کرنے کے وجوب کا خفیہ طور پر فتویٰ دیتے رہے۔ امام صاحب نے عبداللہ بن حسن کے دونوں بیٹوں ممد اور ابراہیم کے سلسلے میں بھی اپنا یہی رویہ رکھا تھا (مذکورہ بالا حضرات وہ تھے جنہوں نے عباسی خلیفہ سفاح اور منصور کے ظلم و ستم اور خونریزی کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا) ابو اسحٰق الفراری نے جب امام احب سے پوچھا کہ ” آپ نے میرے بھائی ابراہیم ( یہ صاحب تاریخ میں نفس ذکیہ کے نام سے مشہور ہیں) کے ساتھ مل کر عباسی خلیفہ کے خلاف خروج کا کیوں مشورہ دیا ؟ میرا بھائی آپ کے مشورے پر چل کر قتل ہوگیا۔ تو امام احب نے جواب میں فرمایا : تمہارے بھائی کا خروج میرے نزدیک تمہارے خروج سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ “ یاد رہے کہ ابو اسحق بصرہ کی طرف نکل گئے تھے۔- دراصل بعض کو دن قسم کے اصحاب حدیث نے امام صاحب پر اس قسم کی تنقید کی ہے۔ ان لوگوں کی وجہ سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام ٹھپ ہو کر رہ گیا تھا جس کے نتیجے میں ظلم و ستم ڈھانے والے لوگ اسلام پر غالب آ گئے۔ سوچنے کی بات ہے کہ امر بالمعرفو اور نہی عن المنکر کے بارے میں جس شخص کا مسلک یہ ہو وہ کس طرح فاسق کی امامت کو جائز سمجھ سکتا ہے۔ اگر ہم یہاں حسن ظن سے کام لے کر یہ کہیں کہ امام صاحب پر تنقید کرنے والوں نے جان بوجھ کر کذب بیانی سے کام نہیں لیا ہے تو اتنا ضرور کہیں گے کہ وہ امام صاحب نیز فقہائے عراق کے اس قول سے غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں کہ اگر قاضی فی نفسہ عادل ہوا ور اسے کسی ظالم حاکم کی طرف سے عہدہ قضا پر مقرر کردیا جائے تو اس کے فیصلے نافذ العمل ہوں گے۔ نیز حاکموں کے فاسق اور ظالم ہونے کے باوجود ان کے پیچھے نماز درست ہوگی۔ یہ ایک درست مسلک ہے ، لیکن اس میں کوئی دلالت موجود نہیں ہے جس سے معلوم ہو سکے کہ امام صاحب فاسق کی امامت کو جائز قرار دیتے تھے۔ اس لئے کہ قاضی اگر عادل ہو تو وہ بایں معنی قاضی ہوگا کہ اس کے لئے احکامات کو تنفیذ ممکن ہوگی اور جو شخص اس کے احکامات کو قبول کرنے سے باز رہے گا اسے یہ احکامات قبول کرنے پر مجبور کرنے کا اختیار اور قدرت ہوگی۔ اس سلسلے میں یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ اسے کس نے اس عہدہ قضا پر مامور کیا ہے کیونکہ مامور کرنے والا حاکم قاضی کے دیگر اعوان اور کارندوں جیسا ہوگا۔ جبکہ قاضی کے مددگاروں کے لئے عادل ہونا شرط نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر ایک شہر والے جن کا کوئی حاکم نہ ہو اکٹھے ہو کر اپنے میں سے کسی عادل شخص کو قضا کا عہدہ سپرد کردیں اور اس سے وعدہ کرلیں کہ جو لوگ اس کے فیصلوں کو تسلیم کرنے سے باز رہیں گے ان کے خلاف یہ لوگ اس کی مدد کریں گے، تو اس صورت میں مذکورہ قاضی کے تمام فیصلے نافذ العمل ہوں گے خواہ اسے اس عہدے کا پروانہ کسی امام یا سلطان کی طرف سے حاصل نہ بھی ہو۔ اسی بنا پر شریح اور دیگر تاعبین نے بنی امیہ کی طرف سے عہدہ قضا قبول کیا تھا۔ شریخ تو حجاج کے زمانے تک کوفہ کے قاضی رہے جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ پورے عرب اور مروان کے سارے خاندان میں عبدالملک بن مروان (اموی خلیفہ) بڑھ کر کوئی شخص ظالم اور فاسق وکافر نہیں تھا اور عبدالملک کے مقرر کردہ تمام عمال (گورنروں) میں کوئی عامل حجاج سے بڑھ کر ظالم اور فاسق و کافر نہیں تھا۔ عبدالملک ہی وہ پہلا شخص تھا جس نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام سر انجام دینے والے لوگوں کی زبانیں کاٹ ڈالی تھیں۔ ایک دفعہ منبر پر چڑھ کر کہنے لگا۔” خدا کی قسم میں کوئی کمزور خلیفہ نہیں ہوں۔ (اشارہ حضرت عثمان کی طرف تھا) اور نہ ہی کوئی مصلحت کوش خلیفہ (اشارہ حضرت معاویہ کی طرف تھا) تم لوگ ہمیں بہت سی باتیں کرنے کا حکم دیتے ہو اور خود یہ باتیں اپنی ذات کے سلسلے میں بھول جاتے ہو۔ خدا کی قسم آج کے بعد جو شخص بھی مجھ سے تقویٰ اور اللہ سے ڈرنے کی بات کرے گا میں اس کی گردن اڑا دوں گا۔- اس زمانے میں لوگوں کا طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنے وظائف بیت المال سے وصول کیا کرتے تھے جب مختار ثقغی کذاب نے اپنی حکومت قائم کرلی تو وہ حضرت ابن عباس، حضرت ابن عمر اور محمد بن الحنفیہ کی طرف مال و اسباب ارسال کیا کرتا تھا اور یہ حضرات مذکورہ مال و اسباب قبول کرلیا کرتے تھے۔ محمد بن عجلان نے انفقاع سے نقلی کیا ہے کہ عبدالعزیز بن مروان نے حضرت ابن عمر کو پیغام بھیجا کہ اپنی ضروریات سے مجھے اگٓاہ کریں۔ اس پر حضرت ابن عمر نے اسے لکھا کہ ” حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے : کہ اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے۔ “ اور میرا خیال ہے کہ اوپر کا ہاتھ دینے والے کا ہاتھ ہے اور نیچے کا ہاتھ لینے والے کا ہاتھ ہے، اس لئے میں تم سے کوئی چیز طلب نہیں کروں گا۔ اور نہ وہ وظیفہ واپس کروں گا جو اللہ نے تمہارے ذریعہ مجھے رزق کے طور پر عطا کیا ہے۔ والسلام - حسن بصری، سعید بن جبیر اور شعبی، نیز تمام دیگر حضرات تابعین ان ظالموں سے اپنے وظائف وصول کرتے تھے۔ ان کی یہ وصولی اس بنا پر نہیں تھی کہ انہیں ان ظالموں سے لگائو تھا اور ان کی امامت کو درست سمجھتے تھے، بلکہ یہ حضرات اس بنا پر اپنے وظائف وصول کرتے تھے کہ وہ ان وظائف کو اپنا ایسا حق سمجھتے تھے جو فاجر قسم کے لوگ کے ہاتھوں میں تھا۔ یہ حضرات از راہ موالات اور دوستی کس طرح یہ حقوق حاصل کرسکتے تھے۔ جبکہ انہوں نے حجاج کے خلاف تولار لے کر خروج کیا تھا۔ اس کے خلاف چار ہزار تابعین اور فقہائے عبدالرحمٰن بن الاشعث کی ہمرکابی میں پہلے اہواز کے مقام پر جنگ کی تھی اور پھر بصرہ کے مقام پر اور اس کے بعد کوفہ کے قریب دریائے فرات کی جانب سے دیر جماجم کے مقام پر۔ انہوں نے عبدالملک بن مروان سے خلافت کی بیعت توڑ دی تھی۔ اس پر لعنت بھیجتے رہے تھے اور اس سے اپنی برأت کا اظہار کرتے تھے حضرت معاویہ کے ساتھ بھی ان حضرات سے پہلے لوگوں کا یہی رویہ تھا۔ جب حضرت علی شہادت کے بعد حضرت معاویہ تخت خلافت پر متمکن ہوگئے تھے۔ حضرت حسن اور حضتر حسین بھی اپنے وظائف وصول کرتے تھے اور اس زمان یکے صحابہ کرام کا بھی یہی طریق کار تھا، حالانکہ یہ حضرات خلیفہ وقت حضرت معاویہ سے موالات کا کوئی رشتہ نہیں رکھتے تھے، بلکہ ان سے اس طرح بیزاری کا اظہار کرتے تھے جس طرح حضرت علی اپنی وفات تک ان سے بیزار رہے تھے، چناچہ اس بنا پر ظالم حکمرانوں کی طرف سے عہدئہ قضا قبول کرنے اور ان سے اپنے وظائف وصول کرنے میں ایسی کسی دلالت کا وجود نہیں جس سے یہ ظاہر ہو کہ یہ حضرات ان ظالموں سے دوستی کا رشتہ رکھنے تھے اور ان کی امامت کے قائل تھے۔- بعض غبی قسم کے روافض نے قول باری (لاینال عھدی الظلمین سے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی امامت کی تردید پر یہ کہہ کر استدلال کیا ہے کہ یہ دونوں حضرات زمانہ جاہلیت میں حالت شرک کے اندر ظلم کیا کرتے تھے۔ ان کا یہ استدلال حد سے بڑھی جہالت پر مبنی ہے کیونکہ ظالم ہونے کا دھبہ صرف اس شخص کو لگتا ہے جو ظلم ڈھانے پر ڈٹا رہے۔ جو شخص ظلم کرنے سے تائب ہوجائے اس سے یہ دھبہ زائل ہوجاتا ہے اور پھر اس پر ظلم کرنے کا حکم عائد کرنا جائز نہیں رہتا ۔ اس لئے کہ اگر حکم کا تعلق کسی صفت سے ہو اور وہ صفت زائل ہوجائے تو حکم بھی زائل ہوجاتا ہے۔ ظلم کی صفت تو ایک قابل مذمت صفت ہے اور یہ صرف اس شخص کو لاحق ہوتی ہے جو ظلم ڈھانے پر ڈٹا رہتا ہے۔ جب اس سے یہ صفت زائل ہوجاتی ہے تو حکم بھی زائل ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح ایسے شخص سے اللہ کے عہد کو حاصل کرنے کی نفی کا حکم بھی زائل ہوجائے گا جس کا ذکر قول باری : لاینال عھدی الظلمین کے اندر ہوا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ قول باری : ولا ترکنوا الی الذین ظلموا (اور ان لوگوں کی طرف مائل نہ ہو جائو جنہوں نے ظلم کیا) میں ظالموں کی طرف میدان کی ممانعت کردی گئی ہے جب تک وہ اپنے ظلم پر قائم رہیں۔ اسی طرح قول باری ہے : ما علی المحسنین من سبیل (نیکو کاروں پر کوئی گرفت نہیں) گرفت نہ ہونے کی بات اس وقت تک ہے جب تک یہ اپنی نیکو کاری پر قائم رہیں۔ اس لئے قول باری : لا ینال عھدی الظلمین میں ان لوگوں سے عہد کی نفی نہیں کی گئی جو اپنے ظلم سے تائب ہوجائیں، کیونکہ ایسی صورت میں انہیں ظالم نہیں کہا جاسکتا جس طرح کفر سے توبہ کرنے والے اور فسق سے تائب ہوجانے والے کو کافر اور فاسق نہیں کہا جاسکتا، بلکہ یہ کہا جائے گا کہ فلاں شخص کافر یا فاسق یا ظالم تھا۔ “ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا : میرا عہد اس شخص کو نہیں پہنچے گا جو کافر تھا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص سے اس عہد کی نفی کردی جو ظلم کے دھبے کا حامل ہو، ظلم کا اسم اس کے ساتھ چپکا ہوا ہو اور اس کی ذات میں موجود ہو۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٢٤) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) خلیل اللہ پر جو احسانات ہوئے اللہ تعالیٰ اب ان کا ذکر فرماتے ہیں۔- کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے دس خصلتوں کی تکمیل کا حکم دیا جن میں سے پا نچ سر میں تھیں اور بانچ باقی بدن میں چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کی پوری طرح تعمیل کی اور یہ تفسیر بھی کی گئی ہے کہ جن کلمات کے ساتھ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مخاطب فرمایا، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان سب کی پوری پوری تکمیل فرما دی، اب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو مخاطب کرکے کہا کہ میں آپ کو اپنا نائب بناتا ہوں تاکہ سب آپ کی اتباع و پیروی کریں، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ میری اولاد میں سے کوئی ایسا امام بنادیجئے، جو لوگوں کو راہبر ہو، ارشاد باری ہوا کہ میرا عہدہ نبوت اور میرا وعدہ اور میری کرامت اور میری رحمت یہ تمام چیزیں جو آپ کو حاصل ہوئی ہیں آپ کی اولاد میں سے کسی کو نہیں ملیں گی ،- اور یہ تفسیر بھی کی گئی ہے کہ آپ کی اولاد میں سے جو ظالم ہوں گے ان کو میں امام نہیں بناؤں گا اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ میرا وعدہ ان ظالموں کو آخرت میں حاصل نہیں ہوگا، البتہ دنیا میں سے ان کو کچھ مل جائے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

سورة البقرۃ کے ابتدائی اٹھارہ رکوعوں میں روئے سخن مجموعی طور پر سابقہ امت مسلمہ یعنی بنی اسرائیل کی جانب ہے۔ ابتدائی چار رکوع اگرچہ عمومی نوعیت کے حامل ہیں ‘ لیکن ان میں بھی یہود کی طرف روئے سخن کے اشارے موجود ہیں۔ چوتھے رکوع کے آغاز سے پندرہویں رکوع کی ابتدائی دو آیات تک ‘ ان دس رکوعوں میں ساری گفتگو صراحت کے ساتھ بنی اسرائیل ہی سے ہے ‘ اِلّا یہ کہ ایک جگہ اہل ایمان سے خطاب کیا گیا اور کچھ مشرکین مکہ کا بھی تعریض کے اسلوب میں تذکرہ ہوگیا۔- اس کے بعد اب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر شروع ہو رہا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل سے بنی اسماعیل اور بنی اسرائیل دو شاخیں ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زوجہ محترمہ حضرت ہاجرہ سے اسماعیل ( علیہ السلام) پیدا ہوئے ‘ جو بڑے تھے ‘ جبکہ دوسری بیوی حضرت سارہ سے اسحاق (علیہ السلام) پیدا ہوئے۔ ان کے بیٹے یعقوب (علیہ السلام) تھے ‘ جن کا لقب اسرائیل تھا۔ ان کے بارہ بیٹوں سے بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے وجود میں آئے۔ حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے خانہ کعبہ کے پاس ‘ وادئ غیر ذی زرع میں آباد کیا تھا ‘ جن سے ایک نسل بنی اسماعیل چلی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد نبوت حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) کو تو ملی ‘ لیکن اس کے بعد تقریباً تین ہزار سال کا فصل ہے کہ اس شاخ میں کوئی نبوت نہیں آئی۔ نبوت کا سلسلہ دوسری شاخ میں چلا۔ حضرت اسحاق کے بیٹے حضرت یعقوب اور ان کے بیٹے حضرت یوسف ( علیہ السلام) سب نبی تھے۔ پھر حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہ السلام) سے شروع ہو کر حضرت عیسیٰ اور حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) تک چودہ سو برس مسلسل ایسے ہیں کہ بنی اسرائیل میں نبوت کا تار ٹوٹا ہی نہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل سے ایک تیسری شاخ بنی قطورہ بھی تھی۔ یہ آپ ( علیہ السلام) کی تیسری اہلیہ قطورہ سے تھی۔ ان ہی میں سے بنی مدین (یا بنی مدیان) تھے ‘ جن میں حضرت شعیب ( علیہ السلام) کی بعثت ہوئی تھی۔ اس طرح حضرت شعیب ( علیہ السلام) بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل میں سے ہیں۔ - جیسا کہ عرض کیا گیا ‘ حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) کے بعد بنی اسماعیل میں نبوت کا سلسلہ منقطع رہا۔ یہاں تک کہ تقریباً تین ہزار سال بعد محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہوئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد امامت الناس سابقہ امت مسلمہ (بنی اسرائیل) سے موجودہ امت مسلمہ (اُمت محمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) کو منتقل ہوگئی۔ اس انتقال امامت کے وقت بنی اسرائیل سے خطاب کرتے ہوئے ان کے اور بنی اسماعیل کے مابین قدر مشترک کا تذکرہ کیا جا رہا ہے تاکہ ان کے لیے بات کا سمجھنا آسان ہوجائے۔ انہیں بتایا جا رہا ہے کہ تمہارے جدامجد بھی ابراہیم (علیہ السلام) ہی تھے اور یہ دوسری نسل بھی ابراہیم (علیہ السلام) ہی کی ہے۔ اس حوالے سے یہ سمجھ لیا جائے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی تھی اور اب اسے اہل توحید کا مرکز بنایا جا رہا ہے ‘ چناچہ پندرہویں رکوع سے اٹھارہویں رکوع تک یہ ساری گفتگو جو ہو رہی ہے اس کا اصل مضمون تحویل قبلہ ہے۔- آیت ١٢٤ (وَاِذِ ابْتَلآی اِبْرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ ط) - عید الاضحی اور فلسفۂ قربانی کے عنوان سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شخصیتّ پر میرا ایک کتابچہ ہے جو میری ایک تقریر اور ایک تحریر پر مشتمل ہے۔ تحریر کا عنوان ہے : حج اور عید الاضحی اور ان کی اصل روح۔ اپنی یہ تحریر مجھے بہت پسند ہے۔ اس میں میں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے امتحانات اور آزمائشوں کا ذکر کیا ہے۔ آپ ( علیہ السلام) کے طویل سفر حیات کا خلاصہ اور لب لباب ہی امتحان و آزمائش ہے ‘ جس کے لیے قرآن کی اصطلاح ابتلاء ہے۔ اس آیت مبارکہ میں ان کی پوری داستان ابتلا کو چند الفاظ میں سمو دیا گیا ہے ‘ اور فَاَتَمَّہُنَّ کا لفظ ان تمام امتحانات کا نتیجہ ظاہر کر رہا ہے کہ وہ ان سب میں پورا اترے ‘ ان سب میں پاس ہوگئے ‘ ہر امتحان میں نمایاں حیثیت سے کامیابی حاصل کی۔- (قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ للنَّاسِ اِمَامًا ط) (قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ ط) - یعنی میری نسل کے بارے میں بھی یہ وعدہ ہے یا نہیں ؟- (قَالَ لاَ یَنَالُ عَہْدِی الظّٰلِمِیْنَ ) - یعنی تمہاری نسل میں سے جو صاحب ایمان ہوں گے ‘ نیک ہوں گے ‘ سیدھے راستے پر چلیں گے ‘ ان سے متعلق ہمارا یہ وعدہ ہے۔ لیکن یہ عہد نسلیت کی بنیاد پر نہیں ہے کہ جو بھی تمہاری نسل سے ہو وہ اس کا مصداق بن جائے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :124 قرآن میں مختلف مقامات پر ان تمام سخت آزمائشوں کی تفصیل بیان ہوئی ہے ، جن سے گزر کر حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے آپ کو اس بات کا اہل ثابت کیا تھا کہ انہیں بنی نوعِ انسان کا امام و رہنما بنایا جائے ۔ جس وقت سے حق ان پر منکشف ہوا ، اس وقت سے لے کر مرتے دم تک ان کی پوری زندگی سراسر قربانی ہی قربانی تھی ۔ دنیا میں جتنی چیزیں ایسی ہیں ، جن سے انسان محبّت کرتا ہے ، ان میں سے کوئی چیز ایسی نہ تھی ، جس کو حضرت ابراہیم ؑ نے حق کی خاطر قربان نہ کیا ہو ۔ اور دنیا میں جتنے خطرات ایسے ہیں ، جن سے آدمی ڈرتا ہے ، ان میں سے کوئی خطرہ ایسا نہ تھا ، جسے انہوں نے حق کی راہ میں نہ جھیلا ہو ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :125 یعنی یہ وعدہ تمہاری اولاد کے صرف اس حصّے سے تعلق رکھتا ہے جو صالح ہو ۔ ان میں سے جو ظالم ہوں گے ، ان کے لیے یہ وعدہ نہیں ہے ۔ اس سے یہ بات خود ظاہر ہو جاتی ہے کہ گمراہ یہُودی اور مشرک بنی اسمٰعیل اس وعدے کے مصداق نہیں ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

80: یہاں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کچھ حالات وواقعات شروع ہورہے ہیں اور پچھلی آیتوں سے ان واقعات کا دو طرح گہرا تعلق ہے۔ ایک بات تو یہ ہے کہ یہودی عیسائی اور عرب کے بت پرست، یعنی تینوں وہ گروہ جن کا ذکر اوپر آیا ہے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا پیشوا مانتے تھے، مگر ہر گروہ یہ دعوی کرتا تھا کہ وہ اسی کے مذہب کے حامی تھے۔ لہٰذا ضروری تھا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں صحیح صورت حال واضح کی جائے، قرآنِ کریم نے یہاں یہ بتلایا ہے کہ ان کا تینوں گروہوں کے باطل عقائد سے کوئی تعلق نہیں تھا، ان کی ساری زندگی توحید کی تبلیغ میں خرچ ہوئی اور انہیں اس راستے میں بڑی بڑی آزمائشوں سے گذرنا پڑا جن میں وہ پورے اترے، دوسری بات یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوبیٹے تھے، حضرت اسحاق اور حضرت اسماعیل (علیہما السلام)۔ حضرت اسحاق علیہ السلام ہی کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام تھے جن کا دوسرا نام اسرائیل تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نبوّت کا سلسلہ انہی کی اولاد یعنی بنی اسرائیل میں چلا آرہا تھا جس کی بنا پروہ یہ سمجھتے تھے کہ دُنیا بھر کی پیشوائی کا حق صرف انہی کو حاصل ہے۔ کسی اور نسل میں کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو ان کے لئے واجب الاتباع ہو۔ قرآنِ کریم نے یہاں یہ غلط فہمی دُور کرتے ہوئے یہ واضح فرمایا ہے کہ دِینی پیشوائی کا منصب کسی خاندان کی لازمی میراث نہیں ہے، اور یہ بات خود حضرت ابراہیم علیہ السلام سے صریح لفظوں میں کہہ دی گئی تھی انہیں جب اﷲ تعالیٰ نے مختلف طریقوں سے آزمالیا اور یہ ثابت ہوگیا کہ وہ اﷲ تعالیٰ کے ہر حکم پر بڑی سے بڑی قربانی کے لئے ہمیشہ تیار رہے، انہیں توحید کے عقیدے کی پاداش میں آگ میں ڈالا گیا۔ انہیں وطن چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا، انہیں اپنی بنوی اور نوزائیدہ بچے کو مکہ کی خشک وادی میں تنہا چھوڑنے کا حکم ملا اور وہ بلاتأمل یہ ساری قربانیاں دینے چلے گئے، تب اﷲ تعالیٰ نے انہیں دُنیا بھر کی پیشوائی کا منصب دینے کا اعلان فرمایا۔ اسی موقع پر جب انہوں نے اپنی اولاد کے بارے میں پوچھا تو صاف طورپر بتلادیا گیا کہ ان میں جو لوگ ظالم ہوں گے یعنی اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی کرکے اپنی جانوں پر ظلم کریں گے وہ اس منصب کے حق دار نہیں ہوں گے۔ بنی اسرائیل کو صدیوں آزمانے کے بعد ثابت یہ ہوا ہے کہ وہ اس لائق نہیں ہیں کہ قیامت تک پوری انسانیت کی دینی پیشوائی ان کو دی جائے۔ اس لئے نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم اب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے صاحبزادے یعنی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں بھیجے جارہے ہیں جن کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ وہ اہل مکہ میں سے بھیجے جائیں۔ اب چونکہ دینی پیشوائی منتقل کی جارہی ہے، اس لئے اب قبلہ بھی اس بیت اللہ کو بنایا جانے والا ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا۔ اس مناسبت سے آگے تعمیرِ کعبہ کا واقعہ بھی بیان فرمایا گیا ہے یہاں سے آیت نمبر 152 تک جو سلسلۂ کلام آرہا ہے اِس کو اس پس منظر میں سمجھنا چاہئے۔