دعائے ابراہیم علیہ السلام کا ماحصل اہل حرم کے لیے یہ دعا بھی ہے کہ آپ کی اولاد میں سے ہی رسول ان میں آئے چنانچہ یہ بھی پوری ہوئی ۔ مسند احمد ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں اللہ جل شانہ کے نزدیک آخری نبی اس وقت سے ہوں جبکہ آدم ابھی مٹی کی صورت میں تھے میں تمہیں ابتدائی امر بتاؤں میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا اور حضرت عیسیٰ نے دی اور میری ماں نے دیکھا کہ گویا ان میں سے ایک نور نکلا ، جس سے شام کے محل چمکا دئے ۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا میں شہرت کا ذریعہ یہ چیزیں ہوئی ۔ آپ کی والدہ صاحبہ کا خواب بھی عرب میں پہلے ہی مشہور ہو گیا تھا اور وہ کہتے ہیں کہ بطن آمنہ سے کوئی بڑا شخص پیدا ہو گا بنی اسرائیل کے نبیوں کے ختم کرنے والے حضرت روح اللہ نے تو بنی اسرائیل میں خطبہ پڑھتے ہوئے آپ کا صاف نام بھی لے دیا اور فرمایا لوگو میں تمہاری طرف اللہ کارسول ہوں ، مجھ سے پہلے کی کتاب توراۃ کی میں تصدیق کرتا ہوں اور میرے بعد آنے والے نبی کی میں تمہیں بشارت دیتا ہوں جن کا نام احمد ہے ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اسی کی طرف اس حدیث میں اشارہ ہے ، خواب میں نور سے شام کے محلات کا چمک اٹھنا اشارہ ہے ، اس امر کی طرف کہ دین وہاں جم جائے گا بلکہ روایتوں سے ثابت ہے کہ آخر زمانہ میں شام اسلام اور اہل اسلام کا مرکز جائے گا ۔ شام کے مشہور شہر دمشق ہی میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام شرقی سفید مینارہ پر نازل ہوں گے ۔ بخاری مسلم میں ہے میری امت کی ایک جماعت حق پر قائم رہے گی ، ان کے مخالفین انہیں نقصان نہ پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ امر اللہ آ جائے صحیح بخاری میں کہ وہ شام میں ہوں گے ۔ ابو العالیہ سے مروی ہے کہ یہ بھی اسی مقبول دعا کا ایک حصہ ہے کہ اور یہ پیغمبر آخر زمانہ میں مبعوث ہوں گے ۔ کتاب سے مراد قرآن اور حکمت سے مراد سنت و حدیث ہے حسن اور قتادہ اور مقاتل بن حیان اور ابو مالک وغیرہ کا یہی فرمان ہے اور حکمت سے مراد دین کی سمجھ بوجھ بھی ہے ۔ پاک کرنا یعنی طاعت و اخلاص سیکھنا ، بھلائیں کرانا ، برائیوں سے بچانا ، اطاعت الٰہی کر کے رضائے رب حاصل کرنا ، نافرمانی سے بچ کر ناراضگی سے محفوظ رہنا ۔ اللہ عزیز ہے جسے کوئی چیز نہیں کر سکتی جو ہر چیز پر غالب ہے وہ حکیم ہے یعنی اس کا کوئی قول و فعل حکمت سے خالی نہیں ، وہ ہر چیز کو اپنے محل پر ہی حکمت وعدل و علم کے ساتھ رکھتا ہے ۔
129۔ 1 یہ حضرت ابراہیم و اسماعیل (علیہ السلام) کی آخری دعا ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے حضرت محمد رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا۔ اسی لئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اپنے باپ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت اور اپنی والدہ کا خواب ہوں (الفتح الربانی ج 20، ص 181، 189) 129۔ 2 کتاب سے مراد قرآن مجید اور حکمت سے مراد حدیث ہے۔ تلاوت آیات کی تعلیم کتاب و حکمت کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی نفس تلاوت بھی مقصود اور باعث اجر وثواب ہے۔ تاہم اگر ان کا مفہوم و مطلب بھی سمجھ میں آجاتا ہے تو سبحان اللہ، سونے پر سہاگہ ہے۔ لیکن اگر قرآن کا ترجمہ و مطلب نہیں آتا، تب بھی اس کی تلاوت میں کوتاہی جائز نہیں ہے۔ تلاوت بجائے خود ایک الگ اور نیک عمل ہے۔ تاہم اس کے مفہوم اور مطالب سمجھنے کی بھی حتی الامکان کوشش کرنی چاہئے۔ 129۔ 3 تلاوت وتعلیم کتاب اور تعلیم حکمت کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعث کا یہ چوتھا مقصد ہے کہ انہیں شرک و توہمات کی آلائشوں سے اور اخلاق و کردار کی کوتاہیوں سے پاک کریں۔
[١٦٠] یعنی اہلیان شہر مکہ میں سے رسول مبعوث فرما۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ دعا بھی قبول فرمائی اور اولاد اسماعیل (علیہ السلام) میں سے نبی عربی پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا۔ اسی لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا ہوں۔ (احمد، بحوالہ مشکوٰۃ، باب فضائل سید المرسلین صلوات اللّٰہ وسلامہ علیہ الفصل الثانی) - [ ١٦١] حکمت کے لفظی معنی سمجھ اور دانائی ہے۔ پھر اس میں وہ سب طور طریقے بھی شامل ہوجاتے ہیں جو کسی کام کو عملی طور پر سر انجام دینے کے لیے ضروری ہوں۔ پہلی قسم کو حکمت علمی اور دوسری قسم کو حکمت عملی کہتے ہیں اور امام شافعی (رح) نے اپنی تصنیف الرسالہ میں بیشمار دلائل سے یہ بات ثابت کی ہے کہ قرآن میں جہاں بھی کتاب کے ساتھ حکمت کا لفظ آیا ہے تو اس سے مراد سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے اور اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے بعد کوئی شخص غرور سے ایسا نہ کہے کہ میں اللہ کی کتاب میں یہ حکم نہیں پاتا۔ خوب سن لو مجھے یہ کتاب (قرآن) بھی دیا گیا ہے اور اس کی مثل اتنا کچھ اور بھی۔ (ترمذی) ابو داؤد وغیرہما) نیز قرآن کریم کی یہ آیت (وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۘ) 59 ۔ الحشر :7) سنت رسول کی اتباع کو واجب قرار دیتی ہے۔ جس کا واضح نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو شخص سنت رسول کا منکر ہے وہ حقیقتاً قرآن کا بھی منکر ہے۔- [ ١٦٢] تزکیہ نفس مشہور لفظ ہے یعنی انہیں پاکیزہ بنائے اور سنوارے اور سنوارنے میں، اخلاق، عادات، معاشرت، تمدن، سیاست غرض ہر چیز کو سنوارنا شامل ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ عملی طور پر صحابہ کرام (رض) کی تربیت کرنا بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذمہ داری تھی۔ اس کی ایک معمولی سی مثال ملاحظہ فرمائیے۔ ایک دفعہ حضرت ابوذر غفاری (رض) (جو سابقین و اولین میں سے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان سے پیار بھی بہت تھا) نے حضرت بلال (رض) کو صرف یہ کہا تھا اے کالی ماں کے بیٹے۔ تو اتنی سی بات پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوذر غفاری (رض) پر شدید گرفت کرتے ہوئے فرمایا : انک امرء فیک امرالجاھلیۃ (بخاری کتاب الایمان باب المعاصی من امر الجاھلیۃ) یعنی تو ایسا شخص ہے جس میں ابھی تک جاہلیت کا اثر موجود ہے) یہ تھا آپ کا انداز تربیت اور یہی (یزکیھم) کا مفہوم ہے۔ (تشریح کے لیے سورة آل عمران کی آیت نمبر ١٦٠ تا ١٦٤ ملاحظہ فرمائیے۔ )
یہ ابراہیم اور اسماعیل (علیہ السلام) کی دعا کا خاتمہ ہے۔ ” رَسُوْلًا “ سے مراد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، کیونکہ اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا کوئی دوسرا نبی نہیں ہوا۔ اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپ سے عرض کیا کہ آپ ہمیں اپنے متعلق بتائیں، تو آپ نے فرمایا : ” میں اپنے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت ہوں اور میری والدہ کو جب میرا حمل ٹھہرا تو انھوں نے دیکھا کہ ان (کے بدن) سے ایک نور نکلا جس سے بصریٰ روشن ہوگیا اور بصریٰ شام کی سرزمین سے ہے۔ “ (اسے امام حاکم نے روایت کیا، امام ذہبی نے صحیح کہنے میں ان کی موافقت کی۔ (مستدرک : ٢؍٦٠١، ح : ٤١٧٦) شیخ البانی نے اسے صحیح کہا۔ (سلسلہ الصحیحہ : ١٥٤٥) شام کی تخصیص اس لیے ہے کہ آخر زمانہ میں شام ہی اسلام کا مرکز بنے گا۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کا نزول بھی شام میں ہوگا اور حدیث میں جس گروہ کے قیامت تک حق پر رہنے کی خبر دی گئی ہے وہ بھی شام میں ہوگا۔ ابن کثیر میں صحیح بخاری کے حوالے سے ہے : ( وَھُمْ بالشَّامِ ) ” وہ شام میں ہوں گے۔ “ (حدیث : ٣٦٤١، ٧٤٦٠) ” الْكِتٰبَ “ سے مراد قرآن مجید اور ” وَالْحِكْمَةَ “ سے مراد حدیث پاک ہے اور اسلام کے بنیادی اصول یہی دو ہیں۔ پاک کرنے سے مراد شرک اور گناہوں سے پاک کرے اور اطاعت و اخلاص کی تعلیم دے۔ ” اِنَّكَ اَنْتَ “ ضمیر مکرر لانے کے علاوہ ” الْعَزِيْز “ پر الف لام سے دوہرا حصر پیدا ہوگیا، اس لیے ” تو ہی “ ترجمہ کیا گیا۔
خلاصہ تفسیر :- اے ہمارے پروردگار اور (یہ بھی دعا ہے کہ) اس جماعت کے اندر (جس کے پیدا ہونے کی دعا اپنی اولاد میں سے کر رہے ہیں) انہی میں کا ایک ایسا پیغمبر بھی مقرر کیجئے جو ان لوگوں کو آپ کی آیات پڑھ کر سنایا کریں اور ان کو (آسمانی) کتاب (کے مضامین) کی اور (اس میں) خوش فہمی (کا سلیقہ حاصل کرنے) کی تعلیم دیا کریں اور ان کو (اس تعلیم و تلاوت کے ذریعہ جہالت کے خیالات اور اعمال سے) پاک کریں بلاشبہ آپ ہی ہیں غالب القدرت کامل الانتظام، - تشریح لغات :- يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِكَ مصدر تلاوۃ سے مشتق ہے، تلاوت کے اصلی معنی اتباع اور پیروی کے ہیں اصطلاح قرآن و حدیث میں یہ لفظ قرآن کریم اور دوسری آسمانی کتابوں اور کلام الہی کے پڑھنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ اس کلام کے پڑھنے والے کو اس کا پورا اتباع کرنا لازم ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ٹھیک اسی طرح پڑھنا ضروری ہے اپنی طرف سے کسی لفظ یا اس کی حرکات میں کمی بیشی یا تبدیلی کی اجازت نہیں امام راغب اصفہانی نے مفردات القرآن میں فرمایا ہے کہ کلام الہی کے سوا کسی دوسری کتاب یا کلام کے پڑھنے کو عرفاً تلاوت نہیں کہا جاسکتا،- وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ اس میں کتاب سے مراد کتاب اللہ ہے اور الحکمۃ کا لفظ عربی لغت میں کئی معنے کے لئے آتا ہے حق بات پر پہونچنا، عدل و انصاف، علم وحلم وغیرہ (قاموس) امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں کہ یہ لفظ جب اللہ تعالیٰ کے لئے بولا جاتا ہے تو اس کے معنی تمام اشیاء کی پوری معرفت اور مستحکم ایجاد کے ہوتے ہیں اور جب غیر اللہ کے لئے بولا جائے تو موجودات کی صحیح معرفت اور نیک اعمال کے لئے جاتے ہیں ترجمہ شیخ الہند میں اس کا ترجمہ تہہ کی باتیں اسی مفہوم کو ادا کرتا ہے اور لفظ حکمت عربی زبان میں کئی معنی کے لئے بولا جاتا ہے علم صحیح، نیک عمل عدل و انصاف قول صادق وغیرہ (قاموس وراغب) - اس لئے دیکھنا ہے کہ اس آیت میں لفظ حکمت سے کیا مراد ہے مفسریں صحابہ کرام (رض) اجمعین وتابعین جو معانی قرآنی کی تشریح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سیکھ کر کرتے ہیں اس جگہ لفظ حکمت کے معنی بیان کرنے میں اگرچہ ان کے الفاظ مختلف ہیں لیکن خلاصہ سب کا ایک ہی ہے یعنی سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، امام تفسیر ابن کثیر وابن جریر نے حضرت قتادہ سے یہی تفسیر نقل کی ہے کسی نے تفسیر قرآن اور کسی نے تفقہ فی الدین فرمایا ہے اور کسی نے علم احکام شرعیہ کہا اور کسی نے کہا کہ ایسے احکام الہہ کا علم جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہی بیان سے معلوم ہوسکتے ہیں ظاہر ہے کہ ان سب کا حاصل وہی حدیث وسنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے،- لفظ وَيُزَكِّيْهِمْ زکوٰۃ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں طہارت اور پاکی اور یہ لفظ ظاہری اور باطنی ہر طرح کی پاکی کے لئے بولا جاتا ہے، - معارف و مسائل : - تشریح مذکور سے آیت کا مفہوم واضح ہوگیا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی آئندہ نسل کی فلاح دنیا وآخرت کے واسطے حق تعالیٰ سے یہ دعا کی میری اولاد میں ایک رسول بھیج دیجئے جو ان کو آپکی آیات تلاوت کرکے سنائے اور قرآن وسنت کی تعلیم دے اور ان کو ظاہری و باطنی گندگیوں سے پاک کرے اس میں حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) نے اس رسول کے لئے اپنی اولاد میں ہونے کی اس لئے دعا فرمائی کہ اول تو یہ اپنی اولاد کے لئے سعادت وشرف ہے دوسرے ان لوگوں کے لئے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ رسول جب انہی کی قوم اور برادری کے اندر ہوگا تو اس کے چال چلن سیرت و حالات سے یہ لوگ بخوبی واقف ہوں گے کسی دھوکہ فریب میں مبتلا نہ ہوں گے، حدیث میں ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس دعاء کا جواب حق تعالیٰ کی طرف سے یہ ملا کہ آپ کی دعا قبول کرلی گئی اور یہ رسول آخری زمانہ میں بھیجے جائیں گے (ابن جریر وابن کثیر) - رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کی خصوصیات :- مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک خاتم النبیین اس وقت تھا جبکہ آدم (علیہ السلام) پیدا بھی نہیں ہوئے تھے بلکہ ان کا خمیر ہی تیار ہو رہا تھا اور میں آپ لوگوں کو اپنے معاملہ کی ابتداء بتلاتا ہوں کہ میں اپنے باپ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت اور اپنی والدہ ماجدہ کے خواب کا مظہر ہوں عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت سے مراد ان کا یہ قول ہے وَمُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ يَّاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِي اسْمُهٗٓ اَحْمَدُ (٦: ٦١) اور والدہ ماجدہ نے حالت حمل میں یہ خواب دیکھا تھا کہ میرے بطن سے ایک نور نکلا جس سے ملک شام کے محلات جگمگا اٹھے پھر قرآن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا تذکرہ کرتے ہوئے دو جگہ سورة آل عمران (آیت نمبر ١٦٤) اور سورة جمعہ آیت نمبر ٢ میں انہی الفاظ کا اعادہ کیا گیا ہے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعاء میں یہاں مذکور ہیں جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جس رسول کے بھیجنے کی دعا فرمائی تھی وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی ہیں آیت کے الفاظ کی تشریح اور اس کا مفہوم واضح ہوجانے کے بعد اس پر غور کیجئے،- بعثت رسول کے تین مقاصد :- سورة بقرہ کی اس آیت میں اور سورة آل عمران اور سورة جمعہ کی آیات میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق ایک ہی مضمون ایک ہی طرح کے الفاظ میں آیا ہے جن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس دنیا میں تشریف لانے کے مقاصد یا آپ کے عہدہ نبوت و رسالت کے فرائض منصبی تین بیان کئے گئے ہیں ایک تلاوت آیات دوسرے تعلیم کتاب و حکمت تیسرے لوگوں کا تزکیہ اخلاق وغیرہ۔- پہلا مقصد تلاوت آیات :- یہاں پہلی بات قابل غور ہے کہ تلاوت کا تعلق الفاظ سے ہے اور تعلیم کا معانی سے یہاں تلاوت وتعلیم کو الگ الگ بیان کرنے سے یہ حاصل ہوا کہ قرآن کریم میں جس طرح معانی مقصود ہیں اس کے الفاظ بھی مستقل مقصود ہیں ان کی تلاوت و حفاظت فرض اور اہم عبادت ہے یہاں یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بلا واسطہ شاگرد اور مخاطب خاص وہ حضرات تھے جو عربی زبان کے نہ صرف جاننے والے بلکہ اس کے فصیح وبلیغ خطیب اور شاعر بھی تھے ان کے سامنے قرآن عربی کا پڑھ دینا بھی بظاہر ان کی تعلیم کیلئے کافی تھا ان کو الگ سے ترجمہ و تفسیر کی ضرورت نہ تھی تو پھر تلاوت آیات کو ایک علیحدہ مقصد اور تعلیم کتاب کو جداگانہ دوسرا مقصد رسالت قرار دینے کی کیا ضرورت تھی جبکہ عمل کے اعتبار سے یہ دونوں مقصد ایک ہی ہوجاتے ہیں اس میں غور کیا جائے تو دو اہم نتیجے آپ کے سامنے آئیں گے اول یہ کہ قرآن کریم دوسری کتابوں کی طرح ایک کتاب نہیں جس میں صرف معانی مقصود ہوتے ہیں الفاظ ایک ثانوی حیثیت رکھتے ہیں ان میں اگر معمولی تغیر وتبدل بھی ہوجائے تو کوئی حرج نہیں سمجھا جاتا ان کے الفاظ بغیر معنے سمجھے ہوئے پڑہتے رہنا بالکل لغو و فضول ہے بلکہ قرآن کریم کے جس طرح معانی مقصود ہیں اسی طرح الفاظ بھی مقصود ہیں اور الفاظ قرآن کے ساتھ خاص خاص احکام شرعیہ بھی متعلق ہیں یہی وجہ ہے کہ اصول فقہ میں قرآن کریم کی یہ تعریف کی گئی ہے کہ ھو النظم والمعنی جمیعا یعنی قرآن نام ہے الفاظ یا دوسری زبان میں لکھا جائے تو وہ قرآن کہلانے کا مستحق نہیں اگرچہ مضامین بالکل صحیح درست ہی ہوں ان مضامین قرآنیہ کو بدلے ہوئے الفاظ میں اگر کوئی شخص نماز میں پڑھ لے تو نماز ادا نہ ہوگی اسی طرح وہ تمام احکام جو قرآن سے متعلق ہیں اس پر عائد نہیں ہوں گے، قرآن کریم کی تلاوت کا جو ثواب احادیث صحیہ میں وارد ہے وہ بدلی ہوئی زبان یا بدلے ہوئے الفاظ پر مرتب نہیں ہوگا اور اسی لئے فقہائے امت نے قرآن کریم کا صرف ترجمہ بلا متن قرآن کے لکھنے اور چھاپنے کو ممنوع فرمایا ہے جس کو عرف میں اردو کا قرآن یا انگریزی کا قرآن کہہ دیا جاتا ہے کیونکہ درحقیقت جو قرآن اردو یا انگریزی میں نقل کیا گیا وہ قرآن کہلانے کا مستحق نہیں، - خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرائض منصبی میں تعلیم کتاب سے علیحٰدہ تلاوت آیات کو جداگانہ فرض قرار دے کر اس کی طرف اشارہ کردیا کہ قرآن کریم میں جس طرح اس کے معانی مقصود ہیں اسی طرح اس کے الفاظ بھی مقصود ہیں کیونکہ تلاوت الفاظ کی ہوتی ہے معانی کی نہیں اسی لئے جس طرح رسول کے فرائض میں معانی کی تعلیم داخل ہے اسی طرح الفاظ کی تلاوت اور حفاظت بھی ایک مستقل فرض ہے اس میں شبہ نہیں کہ قرآن کریم کے نزول کا اصل مقصد اس کے بتائے ہوئے نظام زندگی پر عمل کرنا اور اس کی تعلیمات کو سمجھنا اور سمجھانا ہے محض اس کے الفاظ رٹ لینے پر قناعت کرکے بیٹھ جانا قرآن کریم کی حقیقت سے بیخبر ی اور اس کی بےقدری ہے،- قرآن کریم کے الفاظ اگر بےسمجھے بھی پڑھے جائیں تو بیکار نہیں بلکہ ثواب عظیم ہیں :- لیکن اس کے ساتھ یہ کہنا کسی طرح صحیح نہیں کہ جب تک قرآن کریم کے الفاظ کے معانی نہ سمجھے طوطے کی طرح اس کے الفاظ پڑھنا فضول ہے یہ اس لئے واضح کر رہا ہوں کہ آج کل بہت سے حضرات قرآن کریم کو دوسری کتابوں پر قیاس کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک کسی کتاب کے معنی نہ سمجھیں تو اس کے الفاظ کا پڑھنا پڑھانا وقت ضائع کرنا ہے مگر قرآن کریم میں ان کا یہ خیال صحیح نہیں ہے کیونکہ قرآن الفاظ معنی دونوں کا نام ہے جس طرح ان کے معانی کا سمجھنا اور اس کے دیئے ہوئے۔- احکام پر عمل کرنا فرض اور اعلیٰ عبادت ہے اسی طرح اس کے الفاظ کی تلاوت بھی ایک مستقل عبادت اور ثواب عظیم ہے،- دوسرا مقصد تعلیم کتاب :- یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام جو معانی قرآنی کو سب سب زیادہ جاننے والے اور سمجھنے والے تھے انہوں نے محض معنی سمجھ لینے اور عمل کرلینے کو کافی نہ سمجھا سمجھنے اور عمل کرنے کے لئے تو ایک مرتبہ پڑھ لینا کافی ہوتا انہوں نے ساری عمر تلاوت قرآن کو حرز جان بنائے رکھا بعضے صحابہ روزانہ ایک قرآن مجید ختم کرتے تھے بعض دو دن میں اور اکثر حضرات تین دن میں ختم قرآن کے عادی تھے اور ہر ہفتہ میں قرآن ختم کرنے کا تو پوری امت کا معمول رہا ہے قرآن کریم کی سات منزلیں اسی ہفتہ واری معمول کی علامت ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کا یہ عمل بتلا رہا ہے کہ جس طرح قرآن کے معانی کا سمجھنا اور عمل کرنا اصلی عبادت ہے اسی طرح اس کے الفاظ کی تلاوت بھی بجائے خود ایک اعلیٰ عبادت اور موجب انوار و برکات اور سرمایہ سعادت ونجات ہے اس لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرائض منصبی میں تلاوت آیات کو ایک مستقل حیثیت دی گئی مقصد یہ ہے کہ جو مسلمان فی الحال معانی قرآن کو نہیں سمجھتے وہ اس بدنصیبی میں مبتلا نہ ہوجائیں کہ الفاظ کو فضول سمجھ کر اس سے بھی محروم ہوجائیں کوشش کرتے رہنا ضروری ہے کہ وہ قرآن کے معانی کو سمجھیں تاکہ قرآن کریم کے حقیقی انوار و برکات کا مشاہدہ کریں اور نزول قرآن کا اصلی مقصد پورا ہو قرآن کو معاذ اللہ جنتر منتر کی طرح صرف جھاڑ پھونک میں استعمال کی چیز نہ بنائیں اور بقول اقبال مرحوم سورة یٰسینٓ کو صرف اس کام کے لئے نہ سمجھیں کہ اس کے پڑھنے سے مرنے والے کی جان سہولت سے نکل جاتی ہے،- خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس آیت میں فرائض رسول بیان کرتے ہوئے تلاوت آیات کو مستقل فرض کی حیثیت دے کر اس پر تنبیہ کردی گئی ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ کی تلاوت اور ان کی حفاظت اور ان کو ٹھیک اس لب و لہجہ میں پڑھنا جس پر وہ نازل ہوئے ہیں ایک مستقل فرض ہے اسی طرح تلاوت آیات کے فرض کے ساتھ تعلیم کتاب کو جداگانہ فرض قرار دینے سے ایک دوسرا اہم نتیجہ یہ نکلا کہ قرآن فہمی کے لئے صرف عربی زبان کا جان لینا کافی نہیں بلکہ تعلیم رسول کی ضرورت ہے جیسے کہ تمام علوم وفنون میں یہ بات معلوم ومشاہد ہے کہ کسی فن کی کتاب کے مفہوم کو سمجھنے کے لئے محض اس کتاب کی زبان جاننا بلکہ زبان کا ماہر ہونا بھی کافی نہیں جب تک کہ اس فن کو کسی ماہر استاذ سے حاصل نہ کیا جائے مثلاً آج کل ڈاکٹری ہومیوپیتھک اور ایلوپیتھک کی کتابیں عموماً انگریزی زبان میں ہیں لیکن ہر شخص جانتا ہے کہ محض انگریزی زبان میں مہارت پیدا کرلینے اور ڈاکٹری کی کتابوں کا مطالعہ کرلینے سے کوئی شخص ڈاکٹر نہیں بن سکتا انجینئرنگ کی کتابیں پڑھنے سے کوئی انجینئر نہیں بن سکتا بڑے فنون تو اپنی جگہ پر ہیں معمولی روزمرہ کے کام محض کتاب کے مطالعہ سے بغیر استاد سے سیکھے ہوئے حاصل نہیں ہوسکتے آج تو ہر صنعت وحرفت پر سینکڑوں کتابیں لکھی ہوئی ہیں فوٹو دیکھ کر کام سکھانے کے طریقے بتائے ہیں لیکن ان کتابوں کو دیکھ کر نہ کوئی درزی بنتا ہے نہ باورچی یا لوہار اگر محض زبان جان لینا کسی فن کے حاصل کرنے اور اس کی کتاب سمجھنے کے لئے کافی ہوتا تو دنیا کے سب فنون اس شخص کو حاصل ہوجاتے جو ان کتابوں کی زبان جانتا ہے اب ہر شخص غور کرسکتا ہے کہ معمولی فنون اور ان کے سمجھنے کے لئے جب محض زبان دانی کافی نہیں تعلیم استاد کی ضرورت ہے تو مضامین قرآن جو علوم الہیہ سے لے کر طبعیات وفلسفہ تک تمام گہرے دقیق علوم پر مشتمل ہے وہ محض عربی زبان جان لینے سے کیسے حاصل ہوسکتے ہیں اور اگر یہی ہوتا تو جو شخص عربی زبان سیکھ لے وہ معارف قرآن کا ماہر سمجھا جائے تو آج ہزاروں یہودی اور نصرانی عرب ممالک میں عربی زبان کے بڑے ماہر ادیب ہیں وہ سب سے بڑے مفسر قرآن مانے جاتے اور عہد رسالت میں ابوجہل، ابولہب قرآن کے ماہر سمجھے جاتے،- غرض یہ ہے کہ قرآن کریم نے ایک طرف تو رسول کے فرائض میں تلاوت آیات کو ایک مستقل فرض قرار دیا دوسری طرف تعلیم کتاب کو جداگانہ فرض قرار دے کر بتلا دیا کہ محض تلاوت آیات کا سن لینا فہم قرآن کے لئے عربی زبان جاننے والوں کے واسطے بھی کافی نہیں بلکہ تعلیم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کے ذریعہ قرآنی تعلیم کا صحیح علم حاصل ہوسکتا ہے قرآن کو تعلیمات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جدا کرکے خود سمجھنے کی فکر خود فریبی کے سوا کچھ نہیں اگر مضامین قرآنی کو بتلانے سکھانے کی ضرورت نہ ہوتی تو رسول کو بھیجنے ہی کی کوئی حاجت نہ تھی اللہ کی کتاب کسی دوسری طرح بھی انسانوں تک پہونچائی جاسکتی تھی مگر اللہ تعالیٰ علیم و حکیم ہیں وہ جانتے ہیں کہ مضامین قرآنی کی تعلیم و تفہیم کے لئے دنیا کے دوسرے علوم وفنون سے زیادہ تعلیم استاد کی ضرورت ہے اور یہاں پر عام استاد بھی کافی نہیں بلکہ ان مضامین کا استاد صرف وہ شخص ہوسکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ سے بذریعہ وحی شرف ہم کلامی حاصل ہو جس کو اسلام کی اصطلاح میں نبی و رسول کہا جاتا ہے اس لئے قرآن کریم میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دنیا میں بھیجنے کا مقصد یہ قرار دیا کہ وہ قرآن کریم کے معانی و احکام کی شرح کرکے بیان فرمائیں ارشاد ہے لِتُبَيِّنَ للنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ (٤٤: ١٦) یعنی ہم نے آپ کو اس لئے بھیجا ہے کہ آپ لوگوں کے سامنے اللہ کی نازل کردہ آیات کے مطالب بیان فرمائیں تعلیم کتاب کے ساتھ آپ کے فرائض میں دوسری چیز تعلیم حکمت بھی رکھی گئی ہے اور میں نے اوپر بتلایا ہے کہ حکمت کے عربی زبان کے اعتبار سے اگرچہ کئی معنی ہوسکتے ہیں لیکن اس آیت میں اور اس کے ہم معنی دوسری آیات میں صحابہ کرام (رض) اجمعین وتابعین نے حکمت کی تفسیر سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کی ہے جس سے واضح ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمہ جس طرح معانی قرآنی کا سمجھانا وبتلانا فرض ہے اسی طرح پیغمبرانہ تربیت کے اصول وآداب جن کا نام سنت ہے ان کی تعلیم بھی آپ کے فرائض منصبی میں داخل ہے اور اسی لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ انما بعثت معلماً میں تو معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں اور یہ ظاہر ہے کہ جب آپ کا مقصد وجود معلم ہونا ہے تو آپ کی امت کا مقصد وجود متعلم اور طالب علم ہونا لازم ہوگیا اس لئے ہر مسلمان مرد و عورت بحیثیت مسلمان ہونے کے ایک طالب علم ہونا چاہئے جس کو تعلیمات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لگن ہو، اگر علوم قرآن وسنت کی مکمل تحصیل اور اس میں مہارت کے لئے ہمت و فرصت نہیں ہے تو کم ازکم بقدر ضرورت علم حاصل کرنے کی فکر چاہئے،- تیسرا مقصد تزکیہ :- تیسرا فرض آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرائض منصبی میں تزکیہ ہے جس کے معنی ہیں ظاہری و باطنی نجاسات سے پاک کرنا ظاہری نجاسات سے تو عام مسلمان واقف ہیں باطنی نجاسات کفر اور شرک غیر اللہ پر اعتماد کلی اور اعتقاد فاسد نیز تکبر وحسد بغض حب دنیا وغیرہ ہیں اگرچہ علمی طور پر قرآن وسنت کی تعلیم میں ان سب چیزوں کا بیان آگیا ہے لیکن تزکیہ کو آپ کا جداگانہ فرض قرار دے کر اس کی طرف اشارہ کردیا گیا کہ جس طرح محض الفاظ کے سمجھنے سے کوئی فن حاصل نہیں ہوتا اسی طرح نظری وعلمی طور پر فن حاصل ہوجانے سے اس کا استعمال اور کمال حاصل نہیں ہوتا جب تک کسی مربی کے زیر نظر اس کی مشق کرکے عادت نہ ڈالے سلوک وتصوف میں کسی شیخ کامل کی تربیت کا یہی مقام ہے کہ قرآن وسنت میں جن احکام کو علمی طور پر بتلایا گیا ہے انکی عملی طور پر عادت ڈالی جائے،- ہدایت و اصلاح کے دو سلسلے کتاب اللہ اور رجال اللہ :- اب اس سلسلے کی دو باتیں اور قابل نظر ہیں - اول یہ کہ اللہ جل شانہ نے ابتداء آفرانیش سے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لئے ہمیشہ ہر زمانے میں خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک دو سلسلے جاری رکھے ہیں ایک آسمانی کتابوں کا دوسرے اس کی تعلیم دینے والے رسولوں کا جس طرح محض کتاب نازل فرما دینے کو کافی نہیں سمجھا اسی طرح محض رسولوں کے بھیجنے پر بھی اکتفاء نہیں فرمایا بلکہ دونوں سلسلے برابر جاری رکھے اللہ جل شانہ کی اس عادت اور قرآن کریم کی شہادت نے قوموں کی صلاح و فلاح کے لئے ان دونوں سلسلوں کو یکساں طور پر جاری فرما کر ایک بڑے علم کا دروازہ کھول دیا کہ انسان کی صحیح تعلیم وتریبت کے لئے نہ صرف کتاب کافی ہے نہ کوئی مربی انسان بلکہ ایک طرف آسمانی ہدایات اور الہٰی قانون کی ضرورت ہے جس کا نام کتاب یا قرآن ہے دوسری طرف ایک معلمّ اور مربی انسان کی ضرورت ہے جو اپنی تعلیم و تربیت سے عام انسان کو آسمانی ہدایات سے روشناس کرکے ان کا خوگر بنائے کیونکہ انسان کا اصلی معلم انسان ہی ہوسکتا ہے کتاب معلم یا مربی نہیں ہوسکتی ہاں تعلیم و تربیت میں معین و مددگار ضرور ہے،- یہی وجہ ہے کہ جس طرح اسلام کی ابتداء ایک کتاب اور ایک رسول سے ہوئی اور ان دونوں کے امتزاج نے ایک صحیح اور اعلیٰ مثالی معاشرہ دنیا میں پیدا کردیا اسی طرح آگے آنیوالی نسلوں کے لئے بھی ایک طرف شریعت مطہرہ اور دوسری طرف رجال اللہ کا سلسلہ رہا قرآن کریم نے جگہ جگہ اس کی ہدایتیں دی ہیں ایک جگہ ارشاد ہوا ؛- يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ (١١٩: ٩) اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور صادقین کے ساتھ رہو،- دوسری جگہ صادقین کی تعرفین اور اوصاف بیان کرکے فرمایا،- اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْ آ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ (١٧٧: ٢) اور یہی لوگ سچے ہیں اور یہی ہیں پرہیزگار،- پورے قرآن کا خلاصہ سورة فاتحہ ہے اور سورة فاتحہ کا خلاصہ صراط مستقیم ہدایت ہے، یہاں بھی صراط مستقیم کا پتہ دینے کے لئے بجائے اس کے کہ صراط القرآن یاصراط الرسول یاصراط السنۃ فرمایا جاتاکچھ اللہ والے لوگوں کا پتہ دیا گیا کہ ان سے صراط مستقیم حاصل کی جائے ارشاد ہوا،- صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ یعنی صراط مستقیم ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوا ہے نہ کہ ان لوگوں کا جو گمراہ ہوگئے،- دوسری جگہ ان کی مزید تعیین اور توضیح قرآن میں وارد ہوئی جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہے فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ۚ (٦٩: ٤) اسی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے بعد کے لئے کچھ حضرات کے نام متعین کرکے دینی معاملات میں آپ کا اتباع کرنے کی ہدایت فرمائی ترمذی کی صحیح حدیث میں ہے،- يا أيها الناس إني قد ترکت فيکم ما إن أخذتم به لن تضلوا کتاب اللہ وعترتي أهل بيتي (ترمذی) اے لوگوں میں تمہارے لئے اپنے بعد میں دو چیزیں چھوڑتا ہوں ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رہنا تو تم گمراہ نہ ہوگے ایک کتاب اللہ دوسری میری اولاد اور اہل بیت،- اور صحیح بخاری کی حدیث میں ہے :- اقتدوا بالذین من بعدی ابی بکر وعمر۔ یعنی میرے بعد ابوبکر اور عمر کا اتباع کرو،- اور ایک حدیث میں ارشاد فرمایا،- علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الرشدین، میرے طریقہ کو اختیار کرو اور خلفائے راشدین کے طریقہ کو،- خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن کریم کی ان ہدایات اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ قوموں کی اصلاح و تربیت کے لئے ہر قرن ہر زمانے میں دو چیزیں ضروری ہیں قرآنی ہدایات اور ان کے سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کا سلیقہ حاصل کرنے کے لئے ماہرین شریعت اور اللہ والوں کی تعلیم و تربیت اور اگر مختلف علوم وفنون اور ان کے سیکھنے سکھانے کے طریقوں پر ناقدانہ نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ اصول تعلیم و تربیت کچھ دین اور دینیات ہی کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ تمام علوم وفنون کی صحیح تحصیل اسی پر دائر ہے کہ ایک طرف ہر فن کی بہترین کتابیں ہوں تو دوسری طرف ماہرین کی تعلیم و تربیت ہر علم وفن کی ترقی و تکمیل کے یہی دو بازو ہیں لیکن دین اور دینیات میں ان دونوں بازوؤں سے فائدہ اٹھانے میں بہت سے لوگ افراط وتفریط کی غلط روش میں پڑجاتے ہیں جس کا نتیجہ بجائے فائدہ اٹھانے کے نقصان اور بجائے اصلاح کے فساد ہوتا ہے ،- بعض لوگ کتاب اللہ کو نظر انداز کرکے صرف علماء ومشائخ ہی کو قبلہ مقصود بنا لیتے ہیں اور ان کے متبع شریعت ہونے کی تحقیق نہیں کرتے اور یہ اصلی مرض یہود و نصاریٰ کا ہے کہ اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ (٣١: ٩) یعنی ان لوگوں نے اپنے علماء ومشائخ کو اللہ کے سوا اپنا معبود اور قبلہ مقصود بنالیا ظاہر ہے کہ یہ راستہ شرک و کفر کا ہے اور لاکھوں انسان اس راستہ میں برباد ہوئے اور ہو رہے ہیں اس کے مقابلہ میں بعض وہ لوگ بھی ہیں جو علوم قرآن و حدیث کے حاصل کرنے میں کسی معلم ومربی کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں صرف اللہ کی کتاب کافی ہے نہ ماہر علماء کی ضرورت، نہ تربیت یافتہ مشائخ کی حاجت یہ دوسری گمراہی ہے جس کا نتیجہ دین وملت سے نکل کر نفسانی اغراض کا شکار ہونا ہے کیوں کہ ماہرین کی امداد واعانت کے بغیر کسی فن کا صحیح حاصل ہوجانا انسانی فطرت کے خلاف ہے ایسا کرنے والا یقینا غلط فہمیوں کا شکار ہوتا ہے اور یہ غلط فہمی بعض اوقات اس کو دین وملت سے بالکل نکال دیتی ہے،- اس لئے ضرورت اس کی ہے کہ ان دو چیزوں کو اپنے اپنے مقامات اور حدود میں رکھ کر ان سے فائدہ اٹھایا جائے یہ سمجھا جائے کہ حکم اصلی صرف ایک وحدہ لاشریک لہ کا ہے اور اطاعت اصل میں اسی کی ہے رسول بھی اس پر عمل کرنے اور کرانے کا ایک ذریعہ ہے رسول کی اطاعت بھی محض اسی نظر سے کی جاتی ہے کہ وہ بعینہ اللہ جل شانہ کی اطاعت ہے ہاں اس کے ساتھ قرآن و حدیث کے سمجھنے میں اور ان کے احکام پر عمل کرنے میں جو علمی یا عملی مشکلات سامنے آئیں اس کے لئے ماہرین کے قول وفعل سے امداد لینے کو سرمایہ سعادت ونجات سمجھنا ضروری ہے آیت مذکورہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرائض منصبی میں تعلیم کتاب کو داخل فرمانے سے ایک دوسرا فائدہ یہ بھی حاصل ہوتا ہے کہ جب قرآن فہمی کے لئے تعلیم رسول ضروری ہے اور اس کے بغیر قرآن پر صحیح عمل ناممکن ہے تو جس طرح قرآن قیامت تک محفوظ ہے اس کا ایک ایک زیر و زبر محفوظ ہے ضروری ہے کہ تعلیمات رسول بھی مجموعی حیثیت سے قیامت تک بانی اور محفوظ رہیں ورنہ محض الفاظ قرآن کے محفوظ رہنے سے نزول قرآن کا اصلی مقصد پورا نہ ہوگا اور یہ بھی ظاہر ہے کہ تعلیمات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہی ہیں جن کو سنت یا حدیث رسول کہا جاتا ہے اس کی حفاظت کا وعدہ اللہ جل شانہ کی طرف سے اگرچہ اس درجہ میں نہیں ہے جس درجہ کی حفاظت قرآن کے لئے موعود ہے،- اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں، - جس کا یہ نتیجہ ہے کہ اس کے الفاظ اور زیر زبر تک بالکل محفوظ چلے آئے ہیں اور قیامت تک اسی طرح محفوظ رہیں گے سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے الفاظ اگرچہ اس طرح محفوظ نہیں لیکن محفوظ نہیں لیکن مجموعی حیثیت سے آپ کی تعلیمات کا محفوظ رہنا آیت مذکورہ کی رو سے لازمی ہے اور بحمد اللہ آج تک وہ محفوظ چلی آتی ہیں جب کسی طرف سے اس میں رخنہ اندازی یا غلط روایات کی آمیزش کی گئی ماہرین سنت نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ نکھار کر رکھ دیا اور قیامت تک یہ سلسلہ بھی اسی طرح رہے گا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میری امت میں قیامت تک ایسی جماعت اہل حق اور اہل علم قائم رہے گی جو قرآن و حدیث کو صحیح طور پر محفوظ رکھے گی، اور ان میں ڈالے گئے ہر رخنہ کی اصلاح کرتی رہے گی، - خلاصہ یہ ہے کہ جب قرآن پر عمل کرنے کے لئے تعلیم رسول ضروری ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ قرآن پر عمل قیامت تک فرض ہے تو لازم ہے کہ قیامت تک تعلیمات رسول بھی باقی اور محفوظ رہیں اس لئے آیت میں تعلیمات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قیامت تک باقی اور محفوظ رہنے کی بھی پیشینگوئی موجود ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام سے لے کر آج تک علم حدیث کے ماہر علماء اور مستند کتابوں کے ذریعہ محفوظ رکھا ہے اس سے اس دجل والحاد کی حقیقت کھل جاتی ہے جو آجکل بعض لوگوں نے احکام اسلام سے جان بچانے کے لئے یہ بہانہ تراشا ہے کہ موجودہ ذخیرہ حدیث محفوظ اور قابل اطمینان نہیں ہے ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ ذخیرہ حدیث سے اعتماد اٹھ جائے تو قرآن پر بھی اعتماد کا کوئی راستہ نہیں رہتا،- آیت مذکورہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تیسرا فرض منصبی تزکیہ قرار دیا ہے تزکیہ کے معنی باطنی نجاسات اور گندگیوں سے پاک کرنا ہے یعنی شرک و کفر اور عقائد فاسدہ سے نیز بری اخلاق تکبر حرص وطمع بغض وحسد، حُب مال وجاہ وغیرہ سے پاک کرنا،- اصلاح انسان کیلئے صرف تعلیم صحیح بھی کافی نہیں اخلاقی تربیت بھی ضروری ہے :- تزکیہ کو تعلیم سے جدا کرکے مستقبل مقصد رسالت اور رسول کا فرض منصبی قرار دینے میں اس طرف اشارہ ہے کہ تعلیم کتنی ہی صحیح ہو محض حاصل نہ کرے کیونکہ تعلیم کا کام درحقیقت سیدھا اور صحیح راستہ دکھلا دینا ہے مگر ظاہر ہے کہ منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے محض راستہ جان لینا تو کافی نہیں جب تک ہمت کر کے قدم نہ اٹھائے اور راستہ نہ چلے اور ہمت کا نسخہ بجز اہل ہمت کی صحبت اور اطاعت کے اور کچھ نہیں ورنہ سب کچھ جاننے سمجھنے کے بعد بھی حالت یہ ہوتی ہے کہ، - جانتا ہوں ثواب اطاعت وزہد - پر طبیعت ادھر نہیں آتی۔- عمل کی ہمت و توفیق کسی کتاب کے پڑھنے یا سمجھنے سے پیدا نہیں ہوتی اس کی صرف ایک ہی تدبیر ہے کہ اللہ والوں کی صحبت اور ان سے ہمت کی تربیت حاصل کرنا اسی کا نام تزکیہ ہے قرآن کریم نے تزکیہ کو مقاصد رسالت میں ایک مستقل مقصد قرار دے کر تعلیمات اسلام کی نمایاں خصوصیت کو بتلایا ہے کیونکہ محض تعلیم اور ظاہری تہذیب تو ہر قوم اور ہر ملت میں کسی نہ کسی صورت سے کامل یا ناقص طریق پر ضروری سمجھی جاتی ہے ہر مذہب وملت اور ہر سوسائٹی میں اس کو انسانی ضروریات میں داخل سمجھا جاتا ہے اس میں اسلام کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس نے صحیح اور مکمل تعلیم پیش کی جو انسان کی انفرادی زندگی سے لے کر عائلی پھر قبائلی زندگی اور اس سے آگے بڑھ کر سیاسی وملکی زندگی پر حاوی اور بہترین نظام کی حامل ہے جس کی نظیر دوسری اقوام وملل میں نہیں پائی جاتی اس کے ساتھ تزکیہ اخلاق اور باطنی طہارت ایک ایسا کام ہے جس کو عام اقوام اور سوسائیٹیوں نے سرے سے نظر انداز کر رکھا ہے انسانی لیاقت و استعداد کا معیار اس کی تعلیمی ڈگریاں سمجھی جاتی ہیں انہی ڈگریوں کے وزن کے ساتھ انسانوں کا وزن گھٹتا بڑہتا ہے اسلام نے تعلیم کے ساتھ تزکیہ کا ضمیمہ لگا کر تعلیم کے اصل مقصد کو پورا کر دکھایا،- جو خوش نصیب حضرات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے زیر تعلیم رہے تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کا باطنی تزکیہ بھی ہوتا گیا اور جو جماعت صحابہ کرام (رض) اجمعین آپ کی زیر تربیت تیار ہوئی ایک طرف ان کی عقل و دانش اور علم و حکمت کی گہرائی کا یہ عالم تھا کہ ساری دنیا کے فلسفے اس کے سامنے گرد ہوگئے تو دوسری طرف ان کے تزکیہ باطنی اور تعلق مع اللہ اور اعتماد علی اللہ کا یہ درجہ تھا جو خود قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا،- وَالَّذِيْنَ مَعَهٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًا (٢٩: ٤٨) اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت اور آپس میں رحمدل ہیں تم انہیں رکوع سجدہ کرتے ہوئے دیکھو گے وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضا مندی تلاش کرتے ہیں، - یہی وجہ تھی کہ وہ جس طرف چلتے تھے فتح ونصرت ان کے قدم لیتی تھی تائید ربانی ان کے ساتھ ہوتی تھی ان کے محیر العقول کارنامے جو آج بھی ہر قوم وملت کے ذہنوں کو مرعوب کئے ہوئے ہیں وہ اسی تعلیم وتزکیہ کے اعلیٰ نتائج ہیں آج دنیا میں تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے نصابوں کی تبدیل و ترمیم پر تو سب لوگ غور کرتے ہیں لیکن تعلیم کی روح کو درست کرنے کی طرف عام طور پر توجہ نہیں دی جاتی کہ مدرس اور معلم کی اخلاقی حالت اور مصلحانہ تربیت کو دیکھا جائے اس پر زور دیا جائے اس کا نتیجہ ہے کہ ہزار کوششوں کے بعد بھی ایسے مکمل انسان پیدا نہیں ہوتے جن کے عمدہ اخلاق دوسروں پر اثر انداز ہوں اور دوسروں کی تربیت کرسکیں، - یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ اساتذہ جس علم وعمل اور اخلاق و کردار کے مالک ہوں گے ان سے پڑھنے والے طلبہ زیادہ سے زیادہ انہی جیسے پیدا ہوسکیں گے اس لئے تعلیم کو مفید اور بہتر بنانے کے لئے نصابوں کی تدوین ترمیم سے زیادہ اس نصاب کے پڑھانے والوں کی علمی وعملی و اخلاقی حالات پر نظر ڈالنا ضروری ہے،- یہاں تک رسالت ونبوت کے تین مقاصد کا بیان تھا آخر میں مختصر طور پر یہ بھی سن لیجئے کہ سردار دو عالم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو تین فرائضِ منصبی سپرد کئے گئے تھے ان کو آپ نے کس حد تک پورا فرمایا آپ کو ان کے پورا کرنے میں کہاں تک کامیابی ہوئی اس کے لئے اتناجان لینا کافی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس دنیا سے تشریف لے جانے سے پہلے پہلے تلاوت آیات کا یہ درجہ ہوگیا تھا کہ تقریباً پورے جزیرۃ العرب میں قرآن پڑھا جارہا تھا ہزاروں اس کے حافظ تھے سینکڑوں ایسے حضرات تھے جو روزانہ یا تیسرے روز پورا قرآن ختم کرتے تھے تعلیم کتاب و حکمت کا یہ مقام تھا۔- یتیمے کہ ناکردہ قرآں درست - کتب خانہ چند ملت بشست - دنیا کے سارے فلسفے قرآن کے سامنے ماند ہوچکے تھے توراۃ و انجیل کے تحریف شدہ صحائف افسانہ بن چکے تھے قرآنی اصول کو عزت وشرف کا معیار مانا جاتا تھا تزکیہ کا یہ عالم تھا کہ ساری بد اخلاقیوں کے مرتکب افراد تہذیب اخلاق کے معلم بن گئے بد اخلاقیوں کے مریض نہ صرف صحت یاب بلکہ کامیاب معالج اور مسیحا بن گئے جو رہزن تھے رہبر بن گئے غرض بت پرست لوگ ایثار و ہمدردی کے مجسمے بن گئے تند خوئی اور جنگ جوئی کی جگہ نرمی اور صلح جوئی نظر آنے لگی چور اور ڈاکو لوگوں کے اموال کے محافظ بن گئے،- الغرض حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) نے جن مقاصد کے لئے دعا فرمائی اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا تھا وہ تینوں مقصد آپ کے عہد مبارک ہی میں نمایاں طور پر کامیاب ہوئے پھر آپ کے بعد آپ کے صحابہ کرام نے تو ان کو مشرق سے مغرب اور جنوب سے شمال تک ساری دنیا میں عام کردیا۔ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہٖ واصحابہٖ اجمعین وسلم تسلیماً کثیراً بعد ومن صلی وصام وقعد وقام،
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ يَتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰـتِكَ وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَيُزَكِّيْہِمْ ٠ ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ١٢٩ ۧ- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- بعث - أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة 6] ، زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن 7] ، ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان 28] ، - فالبعث ضربان :- بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة .- وإلهي، وذلک ضربان :- أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد .- والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] ، يعني : يوم الحشر، وقوله عزّ وجلّ : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة 31] ، أي : قيّضه، وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل 36] ، نحو : أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون 44] ، وقوله تعالی: ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] ، وذلک إثارة بلا توجيه إلى مکان، وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل 84] ، قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام 65] ، وقال عزّ وجلّ : فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة 259] ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام 60] ، والنوم من جنس الموت فجعل التوفي فيهما، والبعث منهما سواء، وقوله عزّ وجلّ : وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة 46] ، أي : توجههم ومضيّهم .- ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بیجھنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا ۔ يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة 6] جس دن خدا ان سب کو جلا اٹھائے گا ۔ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن 7] وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن 7] جو لوگ کافر ہوئے ان کا اعتقاد ہے کہ وہ ( دوبارہ ) ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے ۔ کہدو کہ ہاں ہاں میرے پروردیگا کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤگے ۔ ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان 28] تمہارا پیدا کرنا اور جلا اٹھا نا ایک شخص د کے پیدا کرنے اور جلانے اٹھانے ) کی طرح ہے - پس بعث دو قم پر ہے - بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا ) - دوم بعث الہی یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ - دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة 31] اب خدا نے ایک کوا بھیجا جو زمین کو کرید نے لگا ۔ میں بعث بمعنی قیض ہے ۔ یعنی مقرر کردیا اور رسولوں کے متعلق کہا جائے ۔ تو اس کے معنی مبعوث کرنے اور بھیجنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل 36] اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا ۔ جیسا کہ دوسری آیت میں أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون 44] فرمایا ہے اور آیت : ۔ ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] پھر ان کا جگا اٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ جتنی مدت وہ ( غار میں ) رہے دونوں جماعتوں میں سے اس کو مقدار کس کو خوب یاد ہے ۔ میں بعثنا کے معنی صرف ۃ نیند سے ) اٹھانے کے ہیں اور اس میں بھیجنے کا مفہوم شامل نہیں ہے ۔ وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل 84] اور اس دن کو یا د کرو جس دن ہم ہر امت میں سے خود ان پر گواہ کھڑا کریں گے ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام 65] کہہ و کہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے عذاب بھیجے ۔ فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة 259] تو خدا نے اس کی روح قبض کرلی ( اور ) سو برس تک ( اس کو مردہ رکھا ) پھر اس کو جلا اٹھایا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے اور جو کبھی تم دن میں کرتے ہو اس سے خبر رکھتا ہے پھر تمہیں دن کو اٹھادیتا ہے ۔ میں نیند کے متعلق تونی اور دن کو اٹھنے کے متعلق بعث کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ نیند بھی ایک طرح کی موت سے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة 46] لیکن خدا نے ان کا اٹھنا ( اور نکلنا ) پسند نہ کیا ۔ میں انبعاث کے معنی جانے کے ہیں ۔- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] وقال : وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات 1]- ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ ۔ وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات 1] قسم ہے ان فرشتوں کی جو پیام الہی دے کر بھیجے جاتے ہیں - تلو - تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] - ( ت ل و ) تلاہ ( ن )- کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- علم ( تعلیم)- اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] ، فمن التَّعْلِيمُ قوله : الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] ، عَلَّمَ بِالْقَلَمِ [ العلق 4] ، وَعُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا[ الأنعام 91] ، عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل 16] ، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ البقرة 129] ، ونحو ذلك . وقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31]- تعلیم - کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛ وَعُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا[ الأنعام 91] اور تم کو وہ باتیں سکھائی گئیں جن کو نہ تم جانتے تھے عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل 16] ہمیں خدا کی طرف ست جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے ۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ البقرة 129] اور خدا کی کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ۔ وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] اور اس نے ادم کو سب چیزوں کے نام سکھائے ۔ میں آدم (علیہ السلام) کو اسماء کی تعلیم دینے کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کے اندر بولنے کی صلاحیت اور استعدادرکھ دی جس کے ذریعہ اس نے ہر چیز کے لئے ایک نام وضع کرلیا یعنی اس کے دل میں القا کردیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حیوانات کو ان کے کام سکھا دیئے ہیں جسے وہ سر انجام دیتے رہتے ہیں اور آواز دی ہے جسے وہ نکالتے رہتے ہیٰ - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - حکمت ( نبوۃ)- قال اللہ تعالی: وَآتَيْناهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا [ مریم 12] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «الصمت حکم وقلیل فاعله» أي : حكمة، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ آل عمران 164] ، وقال تعالی: وَاذْكُرْنَ ما يُتْلى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب 34] ، قيل : تفسیر القرآن، ويعني ما نبّه عليه القرآن من ذلک : إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ ما يُرِيدُ [ المائدة 1] ، أي : ما يريده يجعله حكمة، وذلک حثّ للعباد علی الرضی بما يقضيه . قال ابن عباس رضي اللہ عنه في قوله : مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب 34] ، هي علم القرآن، ناسخه، مُحْكَمه ومتشابهه .- قرآن میں ہے : ۔ وَآتَيْناهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا [ مریم 12] اور ہم نے ان کو لڑکپن میں ہی دانائی عطا فرمائی تھی ۔ اور آنحضرت نے فرمایا کہ خاموشی بھی حکمت ہے ۔ لیکن بہت تھوڑے لوگ اسے اختیار کر ٹے ہیں ۔ یہاں ( آیت اور حدیث میں ) حکم کے معنی حکمت کہ میں قرآن میں ہے : ۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ آل عمران 164] اور ان ( لوگوں ) کو کتاب اور دانائی سکھایا کرے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرْنَ ما يُتْلى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب 34] اور تمہارے گھروں میں جو خدا کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت کی باتیں سنائی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو ۔ میں حکمت سے مراد تفسیر قرآن ہے یعنی جس پر کہ قرآن نے آیت إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ ما يُرِيدُ [ المائدة 1] میں تنبیہ کی ہے کہ اللہ جس چیز کو چاہتا ہے حکمت بنادیتا ہے تو اس میں ترغیب ہے کہ لوگوں کو اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا چاہیئے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں ۔ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب 34] میں حکمت سے ناسخ منسوخ محکم اور متشابہات کا علم مراد ہے ۔- زكا - أصل الزَّكَاةِ : النّموّ الحاصل عن بركة اللہ تعالی، ويعتبر ذلک بالأمور الدّنيويّة والأخرويّة .- يقال : زَكَا الزّرع يَزْكُو : إذا حصل منه نموّ وبرکة . وقوله : أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف 19] ،- إشارة إلى ما يكون حلالا لا يستوخم عقباه، ومنه الزَّكاةُ : لما يخرج الإنسان من حقّ اللہ تعالیٰ إلى الفقراء، وتسمیته بذلک لما يكون فيها من رجاء البرکة، أو لتزکية النّفس، أي : تنمیتها بالخیرات والبرکات، أو لهما جمیعا، فإنّ الخیرین موجودان فيها . وقرن اللہ تعالیٰ الزَّكَاةَ بالصّلاة في القرآن بقوله : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة 43] ، وبِزَكَاءِ النّفس وطهارتها يصير الإنسان بحیث يستحقّ في الدّنيا الأوصاف المحمودة، وفي الآخرة الأجر والمثوبة . وهو أن يتحرّى الإنسان ما فيه تطهيره، وذلک ينسب تارة إلى العبد لکونه مکتسبا لذلک، نحو : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها[ الشمس 9] ، وتارة ينسب إلى اللہ تعالی، لکونه فاعلا لذلک في الحقیقة نحو : بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء 49] ، وتارة إلى النّبيّ لکونه واسطة في وصول ذلک إليهم، نحو : تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة 103] ، يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة 151] ، وتارة إلى العبادة التي هي آلة في ذلك، نحو : وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم 13] ، لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم 19] ، أي :- مُزَكًّى بالخلقة، وذلک علی طریق ما ذکرنا من الاجتباء، وهو أن يجعل بعض عباده عالما وطاهر الخلق لا بالتّعلّم والممارسة بل بتوفیق إلهيّ ، كما يكون لجلّ الأنبیاء والرّسل . ويجوز أن يكون تسمیته بالمزکّى لما يكون عليه في الاستقبال لا في الحال، والمعنی: سَيَتَزَكَّى، وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون 4] ، أي : يفعلون ما يفعلون من العبادة ليزكّيهم الله، أو لِيُزَكُّوا أنفسهم، والمعنیان واحد . ولیس قوله :- «للزّكاة» مفعولا لقوله : «فاعلون» ، بل اللام فيه للعلة والقصد .- وتَزْكِيَةُ الإنسان نفسه ضربان :- أحدهما : بالفعل، وهو محمود وإليه قصد بقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] ، وقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى[ الأعلی 14] .- والثاني : بالقول، كتزكية العدل غيره، وذلک مذموم أن يفعل الإنسان بنفسه، وقد نهى اللہ تعالیٰ عنه فقال : فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم 32] ، ونهيه عن ذلک تأديب لقبح مدح الإنسان نفسه عقلا وشرعا، ولهذا قيل لحكيم : ما الذي لا يحسن وإن کان حقّا ؟ فقال : مدح الرّجل نفسه .- ( زک و ) الزکاۃ - : اس کے اصل معنی اس نمو ( افزونی ) کے ہیں جو برکت الہیہ سے حاصل ہو اس کا تعلق دنیاوی چیزوں سے بھی ہے اور اخروی امور کے ساتھ بھی چناچہ کہا جاتا ہے زکا الزرع یزکو کھیتی کا بڑھنا اور پھلنا پھولنا اور آیت : ۔ أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف 19] کس کا کھانا زیادہ صاف ستھرا ہے ۔ میں ازکیٰ سے ایسا کھانا مراد ہے جو حلال اور خوش انجام ہو اور اسی سے زکوۃ کا لفظ مشتق ہے یعنی وہ حصہ جو مال سے حق الہیٰ کے طور پر نکال کر فقراء کو دیا جاتا ہے اور اسے زکوۃ یا تو اسلئے کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت کی امید ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے نفس پاکیزہ ہوتا ہے یعنی خیرات و برکات کے ذریعہ اس میں نمو ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے تسمیہ میں ان ہر دو کا لحاظ کیا گیا ہو ۔ کیونکہ یہ دونوں خوبیاں زکوۃ میں موجود ہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نما ز کے ساتھ ساتھ زکوۃٰ کا بھی حکم دیا ہے چناچہ فرمایا : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة 43] نماز قائم کرو اور زکوۃ ٰ ادا کرتے رہو ۔ اور تزکیہ نفس سے ہی انسان دنیا میں اوصاف حمیدہ کا مستحق ہوتا ہے اور آخرت میں اجر وثواب بھی اسی کی بدولت حاصل ہوگا اور تزکیہ نفس کا طریق یہ ہے کہ انسان ان باتوں کی کوشش میں لگ جائے جن سے طہارت نفس حاصل ہوتی ہے اور فعل تزکیہ کی نسبت تو انسان کی طرف کی جاتی ہے کیونکہ وہ اس کا اکتساب کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] کہ جس نے اپنی روح کو پاک کیا ( وہ ضرور اپنی ) مراد کو پہنچا ۔ اور کبھی یہ اللہ تعالےٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے کیونکہ فی الحقیقت وہی اس کا فاعل ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء 49] بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے ۔ اور کبھی اس کی نسبت نبی کی طرف ہوتی ہے کیونکہ وہ لوگوں کو ان باتوں کی تعلیم دیتا ہے جن سے تزکیہ حاصل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة 103] کہ اس سے تم ان کو ( ظاہر میں بھی ) پاک اور ( باطن میں بھی ) پاکیزہ کرتے ہو ۔ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة 151] وہ پیغمبر انہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں بذریعہ تعلیم ( اخلاق رذیلہ ) سے پاک کرتا ہے : ۔ اور کبھی اس کی نسبت عبادت کی طرف ہوتی ہے کیونکہ عبادت تزکیہ کے حاصل کرنے میں بمنزلہ آلہ کے ہے چناچہ یحیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم 13] اور اپنی جناب سے رحمدلی اور پاگیزگی دی تھی ۔ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا [ مریم 19] تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا بخشوں یعنی وہ فطرتا پاکیزہ ہوگا اور فطرتی پاکیزگی جیسا کہ بیان کرچکے ہیں ۔ بطریق اجتباء حاصل ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو عالم اور پاکیزہ اخلاق بنا دیتا ہے اور یہ پاکیزگی تعلیم وممارست سے نہیں بلکہ محض توفیق الہی سے حاصل ہوتی ہے جیسا کہ اکثر انبیاء اور رسل کے ساتھ ہوا ہے ۔ اور آیت کے یہ معنی ہوسکتے ہیں کہ وہ لڑکا آئندہ چل کر پاکیزہ اخلاق ہوگا لہذا زکیا کا تعلق زمانہ حال کے ساتھ نہیں بلکہ استقبال کے ساتھ ہے قرآن میں ہے : ۔ - وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون 4] اور وہ جو زکوۃ دیا کرتے ہیں ۔ یعنی وہ عبادت اس غرض سے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پاک کر دے یا وہ اپنے نفوس کو پاک کرنے کی غرض سے عبادت کرتے ہیں والما ل واحد ۔ لہذا للزکوۃ میں لام تعلیل کے لیے ہے جسے لام علت و قصد کہتے ہیں اور لام تعدیہ نہیں ہے حتیٰ کہ یہ فاعلون کا مفعول ہو ۔ انسان کے تزکیہ نفس کی دو صورتیں ہیں ایک تزکیہ بالفعل یعنی اچھے اعمال کے ذریعہ اپنے نفس کی اصلاح کرنا یہ طریق محمود ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] اور آیت : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى [ الأعلی 14] میں تزکیہ سے یہی مراد ہیں ۔ دوسرے تزکیہ بالقول ہے جیسا کہ ایک ثقہ شخص دوسرے کے اچھے ہونیکی شہادت دیتا ہے ۔ اگر انسان خود اپنے اچھا ہونے کا دعوے ٰ کرے اور خود ستائی سے کام لے تو یہ مذموم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے تزکیہ سے منع فرمایا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے ۔ فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم 32] اپنے آپ کو پاک نہ ٹھہراؤ ۔ اور یہ نہی تادیبی ہے کیونکہ انسان کا اپنے منہ آپ میاں مٹھو بننا نہ تو عقلا ہی درست ہے اور نہ ہی شرعا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک دانش مند سے پوچھا گیا کہ وہ کونسی بات ہے جو باوجود حق ہونے کے زیب نہیں دیتی تو اس نے جواب دیا مدح الانسان نفسہ کہ خود ستائی کرنا ۔- عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزیز - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) - حكيم - والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی:- معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] - ( ح ک م ) الحکمتہ - کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لهذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟
(١٢٩) اللہ تعالیٰ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں اسی خاندان میں سے ایک رسول (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث اور گناہوں سے پاک صاف کرنے کی وجہ سے پاکیزہ بنائے، بلاشبہ جو تیرے اس رسول کی دعوت پر لبیک نہ کہے، جس کو تو نے ان کی طرف بھیجنا ہے، اس سے شدید انتقام لینے پر قدرت رکھنے والا ہے اور رسول کے مبعوث فرمانے میں تو غالب حکمت والا ہے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دعا قبول فرمائی اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا امتحان لیا تھا، چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کلمات کو پایہ تکمیل تک پہنچا یا اور ان ہی کلمات کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی۔
آیت ١٢٩ (رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلاً مِّنْہُمْ ) - فِیْہِمْ سے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما الصلوٰۃ والسلام کی نسل یعنی بنی اسماعیل مراد ہے۔ وہ دونوں دعا کر رہے تھے کہ پروردگار ہماری اس نسل میں ایک رسول مبعوث فرمانا جو انہی میں سے ہو ‘ باہر کا نہ ہو ‘ تاکہ ان کے اور اس کے درمیان مغائرت اور اجنبیت کا کوئی پردہ حائل نہ ہو۔ - (یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِکَ ) (وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ ) - کتاب کا صرف پڑھ کر سنا دینا تو بہت آسان کام ہے۔ اس کے بعد کتاب اور اس میں موجود حکمت کی تعلیم دینا اور اسے دلوں میں بٹھانا اہم تر ہے۔- (وَیُزَکِّیْہِمْ ) ۔ - ان کا تزکیہ کرے اور ان کے دلوں میں تیری محبت اور آخرت کی طلب کے سوا کوئی طلب باقی نہ رہنے دے۔- (اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ )
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :129 اس سے یہ بتانا مقصُود ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہُور دراصل حضرت ابراہیم ؑ کی دُعا کا جواب ہے ۔
84: دل سے نکلی ہوئی اس دعا کی تاثیر کسی ترجمے کے ذریعے دوسری زبان میں منتقل نہیں کی جاسکتی چنانچہ ترجمہ صرف اس کا مفہوم ہی ادا کرسکتا ہے یہاں اس دعا کو نقل کرنے کا مقصد ایک تو یہ دکھانا ہے کہ انبیاء اپنے بڑے سے کارنامے پر بھی مغرور ہونے کے بجائے اللہ تعالیٰ کے حضور اور زیادہ عجز ونیاز کا مظاہرہ کرتے فرماتے ہیں اور اپنے کارنامے کا تذکرہ کرنے کے بجائے اپنی ان کوتاہیوں پر توبہ مانگتے ہیں جو اس کام کی ادائیگی میں ان سے سرزد ہونے کا امکان ہو دوسرے ان کا ہر کام صرف اللہ کی رضا جوئی کے لئے ہوتا ہے لہذا وہ اس پر مخلوق سے تعریف کرانے کی فکر کے بجائے اللہ تعالیٰ سے قبولیت کی دعا مانگتے ہیں۔ تیسرے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا میں شامل تھی اور اس طرح خود حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ تجویز دی تھی کہ آپ بنی اسماعیل میں سے مبعوث ہوں نہ کہ بنی اسرائیل میں سے۔ اس دعا میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زبان سے حضور نبی کریم ) کی تشریف آوری کے بنیادی مقاصد بھی بیان فرمادیئے ہیں ان مقاصد کو قرآن کریم نے کئی مقامات پر بیان فرمایا ہے اور ان کی تشریح ان شاء اللہ آگے اسی سورت کی آیت 151 میں آئے گی۔