138۔ 1 عیسائیوں نے ایک زرد رنگ کا پانی مقرر کر رکھا ہے جو ہر عیسائی بچے کو بھی اور ہر اس شخص کو بھی دیا جاتا ہے جسکو عیسائی بنانا مقصود ہوتا ہے اس رسم کا نام ان کے ہاں پبتسمہ ہے۔ یہ ان کے نزدیک بہت ضروری ہے، اس کے بغیر وہ کسی کو پاک تصور نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید فرمائی اور کہا اصل رنگ تو اللہ کا رنگ ہے۔ اس سے بہتر کوئی رنگ نہیں اور اللہ کے رنگ سے مراد وہ دین فطرت یعنی دین اسلام ہے۔ جس کی طرف ہر نبی نے اپنے اپنے دور میں اپنی اپنی امتوں کو دعوت دی۔ یعنی دعوت توحید۔
[١٧٠] جب کوئی شخص یہودی مذہب میں داخل ہوتا تو وہ اسے غسل دیتے اور کہتے کہ اس کے سب سابقہ گناہ دھل گئے اور عیسائی اس غسل کے پانی میں زرد رنگ بھی ملا لیا کرتے۔ اور یہ غسل صرف مذہب میں نئے داخل ہونے والوں کو ہی نہیں بلکہ نومولود بچوں کو بھی دیا جاتا اور اس رسم کو وہ اصطباغ یا بپتسمہ کہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان رسمی رنگوں میں کیا رکھا ہے۔ رنگ تو صرف اللہ کا ہے جو اس کی بندگی سے چڑھتا ہے اور ان اہل کتاب سے کہہ دو کہ ہم اس کی بندگی کرتے اور اسی کا رنگ اختیار کرتے ہیں۔
(صِبْغَةَ اللّٰهِ ۚ ) اس پر نصب فعل امر ” اِلْزَمُوْا “ کے ساتھ بھی ہوسکتی ہے، یعنی اللہ کا رنگ اختیار کرو اور مضارع ” نَلْتَزِمُ “ کے ساتھ بھی، یعنی ہم اللہ کا رنگ اختیار کرتے ہیں۔ - اس آیت میں ” اللہ کے رنگ “ سے مراد دین اسلام یا وہ فطرت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ اس کو ” صِبْغَةَ اللّٰهِ ۚ“ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ نصاریٰ نے نصرانیت کے لیے ایک زرد رنگ کا پانی مقرر کر رکھا تھا، جب کوئی بچہ پیدا ہوتا یا کوئی شخص ان کے دین میں داخل ہوتا تو اس کو اس پانی سے غسل دیتے اور کہتے کہ یہ اب پاک اور صحیح معنوں میں نصرانی ہوا ہے۔ اس رسم کا نام ان کے ہاں معمودیہ یا بپتسما دینا ہے۔ چناچہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید فرمائی اور فرمایا کہ سب سے بہتر رنگ ” اللہ کا رنگ “ یعنی دین اسلام ہے، جسے نوح (علیہ السلام) سے لے کر تمام انبیاء ( علیہ السلام) لے کر مبعوث ہوئے ہیں، تمہیں چاہیے کہ اس کی پابندی کرو۔
دین و ایمان ایک گہرا رنگ ہے جو انسان کے چہرہ بشرہ سے نظر آنا چاہئے :- صِبْغَةَ اللّٰهِ اس سے پہلی آیت میں دین اسلام کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف منسوب کیا گیا تھا مِلَّةَ اِبْرٰھٖمَ حَنِيْفًا اس جگہ اس کو براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرکے بتلا دیا کہ دین درحقیقت اللہ تعالیٰ کا ہے کسی پیغمبر کی طرف اس کی نسبت مجازی کردی جاتی ہے اور اس جگہ ملت کو صبغت کے لفظ سے تعبیر کرکے دو باتوں کی طرف اشارہ ہوگیا اول تو نصاریٰ کی ایک رسم کی تردید ہوگئی ان کی عادت یہ تھی کہ جو بچہ پیدا ہو اس کو ساتویں روز ایک رنگین پانی میں نہلاتے تھے اور بجائے ختنہ کے اسی نہلانے کو بچہ کی طہارت اور دین نصرانیت کا پختہ رنگ سمجھتے تھے اس آیت نے بتلایا کہ یہ پانی کا رنگ تو دھل کر ختم ہوجاتا ہے اس کا بعد میں کوئی اثر نہیں رہتا نیز ختنہ نہ کرنے کی وجہ سے جو گندگی اور ناپاکی جسم میں رہتی ہے اس سے بھی یہ رنگ نجات نہیں دیتا اصل رنگ دین و ایمان کا رنگ ہے جو ظاہری اور باطنی پاکی کی ضمانت بھی ہے اور باقی رہنے والا بھی، - دوسرے دین و ایمان کو رنگ فرما کر اس کی طرف بھی اشارہ ہوگیا کہ جس طرح رنگ آنکھوں سے محسوس ہوتا ہے مومن کے ایمان کی علامات اس کے چہرہ بشرہ اور تمام حرکات و سکنات معاملات و عادات میں ظاہر ہونا چاہئیں۔ واللہ اعلم،
صِبْغَۃَ اللہِ ٠ ۚ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ صِبْغَۃً ٠ ۡوَّنَحْنُ لَہٗ عٰبِدُوْنَ ١٣٨- صبغ - الصَّبْغُ : مصدر صَبَغْتُ ، والصِّبْغُ : الْمَصْبُوغُ ، وقوله تعالی: صِبْغَةَ اللَّهِ- [ البقرة 138] ، إشارة إلى ما أوجده اللہ تعالیٰ في الناس من العقل المتميّز به عن البهائم کالفطرة، وکانت النّصاری إذا ولد لهم ولد غمسوه بعد السّابع في ماء عموديّة يزعمون أنّ ذلک صِبْغَةٌ ، فقال تعالیٰ له ذلك، وقال : وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً [ البقرة 138] ، وقال : وَصِبْغٍ لِلْآكِلِينَ [ المؤمنون 20] ، أي : أدم لهم، وذلک من قولهم : اصْطَبَغْتُ بالخلّ «1» .- ( ص ب غ ) الصبغ یہ صبغت ( ص) کا مصدر ہے اور صبغ بمعنی مصبوغ آتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ صِبْغَةَ اللَّهِ [ البقرة 138] ( کہدو کہ ہم نے ) خدا کا رنگ اختیار کرلیا ہے ۔ میں اس عقل کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر پیدا کی ہے اور وہ اس کے ذریعے بہائم سے ممتاز ہوتا ہے ۔ جیسا کہ فطرت انسانیہ : ۔ نصارٰی کے ہاں دستور یہ تھا کہ جب بچہ پیدا ہوتا تو وہ ساتویں روز اسے عمود یہ ( زردرنگ کے پانی ) میں غوطہ دیتے اور اس کا نام صبغۃ یعنی دین رکھتے اس لئے اللہ تعالیٰ نے دین کو صبغۃ اللہ کہا اور فرمایا ۔ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً [ البقرة 138] اور خدا سے بہتر رنگ یعنی دین کس کا ہوسکتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَصِبْغٍ لِلْآكِلِينَ [ المؤمنون 20] اور کھانے والے کے لئے سالن ۔ میں صبغ کے معنی سالن کے ہیں اور یہ اصبغت بالخل کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی سر کہ میں روٹی ڈبو کر کھانے کے ہیں ۔- احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔- عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔
(١٣٨) اللہ تعالیٰ ہی کے دین کی اتباع کرو، اس سے بہتر اور کون سا دین ہوسکتا ہے اور زبان حال سے کہو کہ ہم اس ذات کی توحید بیان کرنے والے اور اسی کی عبادت و توحید کا اقرار کرنے والے ہیں۔
آیت ١٣٨ ( صِبْغَۃَ اللّٰہِ ج) - مِلَّۃَ اِبْرَاھِیْمَ کی طرح صِبْغَۃَ اللّٰہِ میں بھی مضاف کی نصب بتارہی ہے کہ یہ مرکب اضافی مفعول ہے اور اس کا فعل محذوف ہے۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :137 اس آیت کے دو ترجمے ہو سکتے ہیں: ایک یہ کہ”ہم نے اللہ کا رنگ اختیار کر لیا“ ، دوسرے یہ کہ ”اللہ کا رنگ اختیار کرو“ ۔ مسیحیّت کے ظہُور سے پہلے یہُودیوں کے ہاں یہ رسم تھی کہ جو شخص ان کے مذہب میں داخل ہوتا ، اسے غُسل دیتے تھے اور اس غُسل کے معنی ان کے ہاں یہ تھے کہ گویا اس کے گناہ دُھل گئے اور اس نے زندگی کا ایک نیا رنگ اختیار کر لیا ۔ یہی چیز بعد میں مسیحیوں نے اختیار کر لی ۔ اس کا اصطلاحی نام ان کے ہاں اِسطباغ ( بپتسمہ ) ہے اور یہ اصطباغ نہ صرف ان لوگوں کو دیا جاتا ہے جو ان کے مذہب میں داخل ہوتے ہیں ، بلکہ بچّوں کو بھی دیا جاتا ہے ۔ اسی کے متعلق قرآن کہتا ہے ، اس رسمی اصطباغ میں کیا رکھا ہے؟ اللہ کا رنگ اختیار کرو ، جو کسی پانی سے نہیں چڑھتا ، بلکہ اس کی بندگی کا طریقہ اختیار کرنے سے چڑھتا ہے ۔
87: اس میں عیسائیوں کی رسم بپتسمہ ( ) کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جسے اصطباغ (رنگ چڑھانا) بھی کہا جاتا ہے، کسی شخص کو عیسائی بنتے وقت وہ اسے غسل دیتے ہیں جو بعض اوقات رنگا ہوا پانی ہوتا ہے، ان کے خیال میں اس طرح اس پر عیسائی مذہب کا رنگ چڑھ جاتا ہے، یہ بپتسمہ پیدا ہونے والے بچوں کو بھی دیاجاتا ہے کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق ہر بچہ ماں کے پیٹ سے گنہگار پیدا ہوتا ہے اور جب تک وہ بپتسمہ نہ لے گا گنہگار رہتا ہے اور یسوع مسیح کے کفارے کا حق دار نہیں ہوتا، قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ اس بے سر وپا خیال کی کوئی حقیقت نہیں، رنگ چڑھانا ہے تو اللہ کا رنگ چڑھاؤ جو توحید خالص کارنگ ہے۔