Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مشرکین کے اعمال پر بیزاری مشرکوں کے جھگڑے کو دفع کرنے کا حکم رب العالمین اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دے رہا ہے کہ تم ہم سے اللہ کی توحید ، اخلاص ، اطاعت وغیرہ کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو؟ وہ صرف ہمارا ہی نہیں بلکہ تمہارا رب بھی تو ہے ، ہم پر اور تم پر قابض و متصرف بھی وہی اکیلا ہے ۔ ہمارے عمل ہمارے ساتھ ہیں وہ تمہارے عمل تمہیں کام آئیں گے ، ہم تم سے اور تمہارے شرک سے بیزار ہیں اور جگہ فرمایا آیت ( فَاِنْ كَذَّبُوْكَ فَقُلْ رَّبُّكُمْ ذُوْ رَحْمَةٍ وَّاسِعَةٍ ) 6 ۔ الانعام:147 ) یعنی اگر یہ تجھے جھٹلائیں تو تو کہدے کہ میرے لیے میرا عمل ہے اور تمہارے لئے تمہارا عمل ہے تم میرے ( نیک ) کام سے اور میں تمہارے اعمال سے بیزار ہوں ۔ اور جگہ ارشاد ہے آیت ( فَاِنْ حَاۗجُّوْكَ فَقُلْ اَسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلّٰهِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ ) 3 ۔ آل عمران:20 ) اگر یہ تجھ سے جھگڑیں تو تو کہدے میں نے اور میرے ماننے والوں نے اپنے منہ اللہ کی طرف کر دئے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اپنی قوم سے یہی فرمایا تھا آیت ( اَتُحَاۗجُّوْۗنِّىْ فِي اللّٰهِ وَقَدْ هَدٰىنِ ) 6 ۔ الانعام:80 ) کیا تم اللہ کے بارے میں مجھ سے اختلاف کرتے ہو؟ اور جگہ ہے؟ آیت ( اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْ حَاۗجَّ اِبْرٰھٖمَ فِيْ رَبِّهٖٓ اَنْ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ ) 2 ۔ البقرۃ:258 ) تو نے اسے بھی دیکھا جو ابراہیم ( علیہ السلام ) سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑنے لگا ۔ پس یہاں ان جھگڑالو لوگوں سے کہا گیا کہ ہمارے اعمال ہمارے لئے اور تمہارے اعمال تمہارے لئے ۔ ہم تم سے الگ ۔ ہم عبادت اور توجہ میں اخلاص اور یکسوئی کرنے والے لوگ ہیں ۔ پھر ان لوگوں کے دعوے کی تردید ہو رہی ہے کہ حضرت ابراہیم نہ تو یہودی ، نہ نصرانی ، تم اے یہودیو اور اے نصرانیو کیوں یہ باتیں بنا رہے ہو؟ کیا تمہارا علم اللہ سے بھی بڑھ گیا ہے اللہ نے تو صاف فرما دیا آیت ( مَا كَانَ اِبْرٰهِيْمُ يَهُوْدِيًّا وَّلَا نَصْرَانِيًّا وَّلٰكِنْ كَانَ حَنِيْفًا مُّسْلِمًا ۭ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ) 3 ۔ آل عمران:67 ) ابراہیم علیہ السلام نہ تو یہودی تھے ، نہ نصرانی ، نہ مشرک ، بلکہ خالص مسلمان تھے ، ان کا حق کی شہادت کو چھپا کر بڑا ظلم کرنا یہ تھا کہ اللہ کی کتاب جو اس کے پاس آئی اس میں انہوں نے پڑھا کہ حقیقی دین اسلام ہے ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے رسول ہیں ۔ ابراہیم ، اسمٰعیل ، اسحاق ، یعقوب وغیرہ یہودیت اور نصرانیت سے الگ تھے لیکن پھر نہ مانا اور اتنا ہی نہیں بلکہ اس بات کو بھی چھپا دیا ۔ پھر فرمایا تمہارے اعمال اللہ سے پوشیدہ نہیں ، اس کا محیط علم سب چیزوں کو گھیرے ہوئے ہے ، وہ ہر بھلائی اور برائی کا پورا پورا بدلہ دے گا ۔ یہ دھمکی دے کر پھر فرمایا کہ یہ پاکباز جماعت تو اللہ کے پاس پہنچ چکی ۔ تم جب ان کے نقش قدم پر نہ چلو تو صرف ان کی اولاد میں سے ہونا تمہیں اللہ کے ہاں کوئی عزت اور نفع نہیں دے سکتا ہے ۔ ان کے نیک اعمال میں تمہارا کوئی حصہ نہیں اور تمہاری بد اعمالیوں کا ان پر کوئی بوجھ نہیں جو کرے سو بھرے تم نے جب ایک نبی کو جھٹلایا تو گویا تمام انبیا کو جھٹلایا بالخصوص اے وہ لوگو جو نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں ہو ۔ تم تو بڑے ہی وبال میں آ گئے ، تم نے تو اس نبی کو جھٹلایا جو سید الانبیاء جو ختم المرسلین ہیں ، جو رسول رب العالمین ہیں جن کی رسالت تمام انسانوں اور جنوں کی طرف ہے ۔ جن کی رسالت کے ماننے کا ہر ایک شخص مکلف ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے بیشمار درود و سلام آپ پرنازل ہوں اور آپ کے سوا تمام انبیاء کرام پر بھی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

139۔ 1 کیا تم ہم سے اس بارے میں جھگڑتے ہو کہ ہم ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں، اسی کے لئے اخلاص و نیاز مندی کے جذبات رکھتے ہیں اور اسی کے احکامات کی پیروی کرنے سے اجتناب کرتے ہیں حالانکہ ہمارا ہی نہیں تمہارا بھی ہے اور تمہیں بھی اس کے ساتھ یہی معاملہ کرنا چاہیے جو ہم کرتے ہیں اور اگر تم ایسا نہیں کرتے تو تمہارا عمل تمہارے ساتھ، ہمارا عمل ہمارے ساتھ۔ ہم تو اسی کے لئے خاص عمل کا اہتمام کرنے والے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٧١] یہود و نصاریٰ یہ سمجھتے تھے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں۔ لہذا اس کی جملہ نوازشات اور الطاف و اکرام کے مستحق صرف ہم ہی ہیں۔ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ آپ ان سے کہیں کہ اللہ جیسا تمہارا پروردگار ہے ویسا ہی ہمارا بھی ہے۔ وہ تو جس طرح کے کوئی شخص عمل کرے گا اسی کے مطابق اس پر نوازشات کرے گا۔ اور اس لحاظ سے ہم تم سے بہتر بھی ہیں کہ ہم فقط اسی کی بندگی کرتے ہیں اور تم شرک بھی کئے جاتے ہو اور یہ اندازہ اب تم خود لگا سکتے ہو کہ آئندہ اس کی نوازشات اور الطاف و اکرام کس پر ہونا چاہئیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

یہود مسلمانوں سے جھگڑتے کہ تمام انبیاء بنی اسرائیل میں سے ہوئے ہیں، پھر یہ آخری نبی عرب سے کیسے مبعوث ہوگئے ؟ ہمارا دین سب سے بہتر اور تمام انبیاء کا دین ہے، تو اس آیت میں ان کی تردید فرمائی گئی ہے کہ ہمارا تمہارا سب کا رب ایک ہے اور ہم عبادت میں مخلص بھی ہیں، پھر تمہارا یہ کہنا کہ ہم بہتر ہیں، یہ کیسے درست ہوسکتا ہے ؟

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- آپ (ان یہود و نصاری سے) فرما دیجئے کہ کیا تم لوگ (اب بھی) ہم سے حجت کئے جاتے ہو حق تعالیٰ کے معاملہ میں (کہ وہ ہم کو قیامت میں نہ بخشیں گے) حالانکہ وہ ہمارا اور تمہارا (سب کا) رب (اور مالک) ہے (سو ربوبیت میں تو تمہارے ساتھ کوئی خصوصیت نہیں جیسا تمہارے بعض دعو وں سے اختصاص مفہوم ہوتا ہے مثل نحن ابناء اللہ) اور ہم کو ہمارا کیا ہوا ملے گا اور تم کو تمہارا کیا ہوا ملے گا (یہاں تک تو تمہارے نزدیک بھی مسلم ہے) اور (اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ) ہم نے صرف حق تعالیٰ (کی خوشنودی) کے لئے اپنے (دین) کو (شرک وغیرہ سے) خالص کر رکھا ہے (بخلاف تمہارے طریقہ موجودہ کے کہ علاوہ منسوخ ہونے کے خود شرک سے بھی مخلوط ہے جیسا ان کے اقوال عزیر ابن اللہ اور مسیح ابن اللہ سے ظاہر ہے اور اس میں ہم کو اللہ تعالیٰ نے ترجیح دی ہے پھر ہم کو نجات نہ ہونے کے کیا معنی) یا (اب بھی اپنے حق پر ہونے کے ثابت کرنے کو یہی) کہے جاتے ہو کہ ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اولاد یعقوب (میں جو انبیاء گذرے ہیں یہ سب حضرات) یہود یا نصاریٰ تھے ( اور اس سے بواسطہ موافقت طریق اپنا حق پر ہونا ثابت کرتے ہو سو اس کے جواب میں) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ایک اتنی مختصر سی بات ان سے) کہہ دیجئے کہ (اچھا یہ بتلاؤ کہ) تم زیادہ واقف ہو یا حق تعالیٰ (اور ظاہر ہے کہ خدا ہی زیادہ واقف ہے اور وہ ان انبیاء (علیہم السلام) کا ملت اسلام پر ہونا ثابت کرچکے ہیں جیسا ابھی اوپر گذر چکا ہے) اور (جانتے ہیں یہ کافر بھی مگر چھپاتے ہیں سو) ایسے شخص سے زیادہ ظالم کون ہوگا جو ایسی شہادت کا اخفا کرے جو اس کے پاس منجانب اللہ پہنچی ہو اور (اے اہل کتاب) اللہ تعالیٰ تمہارے کئے ہوئے سے بیخبر نہیں ہیں (پس جب یہ حضرات یہود و نصاریٰ نہ تھے سو تم طریق دین میں ان کے موافق کب ہوئے پھر تمہارا حق پر ہونا ثابت نہ ہوا) یہ (ان بزرگوں کی) ایک جماعت تھی جو (اپنے زمانے میں) گذر گئی ان کے کام ان کا کیا ہوا آوے گا اور تمہارے کام تمہارا کیا ہوا آوے گا، اور تم سے ان کے کئے ہوئے کی پوچھ بھی تو نہ ہوگی ( اور جب خالی تذکرہ بھی نہ ہوگا تو اس سے تم کو کچھ نفع پہنچنا تو درکنار) - معارف و مسائل :- اخلاص کی حقیقت : وَنَحْنُ لَهٗ مُخْلِصُوْنَ اس میں امت مسلمہ کی ایک خصوصیت یہ بتلائی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لئے مخلص ہے، اخلاص کے معنی حضرت سعید بن جبیر نے یہ بتلائے ہیں کہ انسان اپنے دین میں مخلص ہو کہ اللہ کے سوا کسی کو شریک نہ ٹھہرائے اور اپنے عمل کو خالص اللہ کے لئے کرے لوگوں کے دکھلانے یا ان کی مدح وشکر کی طرف نظر نہ ہو،- بعض بزرگوں نے فرمایا کہ اخلاص ایک ایسا عمل ہے جس کو نہ تو فرشتے پہچان سکتے ہیں اور نہ شیطان وہ صرف بندے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ایک راز ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ اَتُحَاۗجُّوْنَـــنَا فِي اللہِ وَھُوَرَبُّنَا وَرَبُّكُمْ۝ ٠ ۚ وَلَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْ۝ ٠ ۚ وَنَحْنُ لَہٗ مُخْلِصُوْنَ۝ ١٣٩ ۙ- حاجَّة- : أن يطلب کلّ واحد أن يردّ الآخر عن حجّته ومحجّته، قال تعالی: وَحاجَّهُ قَوْمُهُ قالَ : أَتُحاجُّونِّي فِي اللَّهِ [ الأنعام 80] ، فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَكَ [ آل عمران 61] ، وقال تعالی: لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْراهِيمَ [ آل عمران 65] ، وقال تعالی: ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ فِيما لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيما لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ [ آل عمران 66] ، وقال تعالی: وَإِذْ يَتَحاجُّونَ فِي النَّارِ [ غافر 47] ، وسمّي سبر الجراحة حجّا، قال الشاعر :- 105 ۔ يحجّ مأمومة في قعرها لجف - ۔ الحاجۃ - ۔ اس جھگڑے کو کہتے ہیں جس میں ہر ایک دوسرے کو اس کی دلیل اور مقصد سے باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَحاجَّهُ قَوْمُهُ قالَ : أَتُحاجُّونِّي فِي اللَّهِ [ الأنعام 80] اور ان کی قوم ان سے بحث کرنے لگی تو انہوں نے کہا کہ تم مجھ سے خدا کے بارے میں ( کیا بحث کرتے ہو ۔ فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَكَ [ آل عمران 61] پھر اگر یہ عیسیٰ کے بارے میں تم سے جھگڑا کریں اور تم حقیقت الحال تو معلوم ہو ہی چکی ہے ۔ لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْراهِيمَ [ آل عمران 65] تم ابراہیم کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو ۔ ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ فِيما لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيما لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ [ آل عمران 66] دیکھو ایسی بات میں تو تم نے جھگڑا کیا ہی تھا جس کا تمہیں کچھ علم تھا بھی مگر ایسی بات میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا تم کو کچھ بھی علم نہیں ۔ وَإِذْ يَتَحاجُّونَ فِي النَّارِ [ غافر 47] اور جب وہ دوزخ میں جھگڑیں گے ۔ اور حج کے معنی زخم کی گہرائی ناپنا بھی آتے ہیں شاعر نے کہا ہے ع ( بسیط) یحج مامومۃ فی قھرھا لجف وہ سر کے زخم کو سلائی سے ناپتا ہے جس کا قعر نہایت وسیع ہے ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - خلص - الخالص کالصافي إلّا أنّ الخالص هو ما زال عنه شوبه بعد أن کان فيه، والصّافي قد يقال لما لا شوب فيه،- وقوله تعالی: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80] ، أي : انفردوا خالصین عن غيرهم .إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف 24] - ( خ ل ص ) الخالص ( خالص )- خالص اور الصافی دونوں مترادف ہیں مگر الصافی کبھی ایسی چیز کو بھی کہہ دیتے ہیں جس میں پہلے ہی سے آمیزش نہ ہو اور خالص اسے کہتے ہیں جس میں پہلے آمیزش ہو مگر اس سے صاف کرلیا گیا ہو ۔ آیت کریمہ : ۔ فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے میں خلصوا کے معنی دوسروں سے الگ ہونا کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ [ البقرة 139] اور ہم خالص اس کی عبادت کرنے والے ہیں ۔ إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف 24] بیشک وہ ہمارے خالص بندوں میں سے تھے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٣٩) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ یہود ونصاری سے کہہ دیجیے کہ تم ہم سے اللہ تعالیٰ کے دین کے معاملہ میں تنازعہ کرتے ہو، حالانکہ اللہ تعالیٰ ہمارا اور تمہارا پروردگار ہے، ہمارے لیے ہمارا دین ہے، تم پر تمہارے اعمال اور تمہارا دین ہے، ہم تو خاص اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت اور اسی کی وحدانیت کا اقرار کرنے والے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٣٩ (قُلْ اَتُحَآجُّوْنَنَا فِی اللّٰہِ ) (وَہُوَ رَبُّنَا وَرَبُّکُمْ ج) ۔ - ربّ بھی ایک ہے اور اس کا دین بھی ایک ہے ‘ ہاں شریعتوں میں فرق ضرور ہوا ہے ۔- (وَلَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْ ج) (وَنَحْنُ لَہٗ مُخْلِصُوْنَ ) ۔ - ہم اس کے لیے اپنے آپ کو اور اپنی بندگی کو خالص کرچکے ہیں۔ - یہاں پے در پے آنے والے تین الفاظ کو نوٹ کیجیے۔ یہ مقام میرے اور آپ کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ آیت ١٣٦ ان الفاظ پر ختم ہوئی تھی : (وَنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ ) ہم اسی کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں۔ ان میں تو ہم بھی شامل ہیں۔ اس کے بعد آیت ١٣٨ کے اختتام پر یہ الفاظ آئے : (وَّنَحْنُ لَہٗ عٰبِدُوْنَ ) اور ہم اس ہی کی بندگی کرتے ہیں۔ صرف اسلام نہیں ‘ عبادت یعنی پوری زندگی میں اس کے ہر حکم کی پیروی اور اطاعت درکار ہے۔ اس سے آگے یہ بات آئی : (وَنَحْنُ لَہٗ مُخْلِصُوْنَ ) یہ عبادت اگر اخلاص کے ساتھ نہیں ہے تو منافقت ہے۔ اس عبادت سے کوئی دنیوی منفعت پیش نظر نہ ہو۔ ع سوداگری نہیں ‘ یہ عبادت خدا کی ہے دین کو دنیا بنانے اور دنیا کمانے کا ذریعہ بنانے سے بڑھ کر گری ہوئی حرکت اور کوئی نہیں ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی ہے :- (مَنْ صَلّٰی یُرَاءِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ وَمَنْ صَامَ یُرَاءِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ وَمَنْ تَصَدَّقَ یُرَاءِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ ) (مسند احمد)- جس نے دکھاوے کے لیے نماز پڑھی اس نے شرک کیا ‘ جس نے دکھاوے کے لیے روزہ رکھا اس نے شرک کیا ‘ اور جس نے دکھاوے کے لیے صدقہ و خیرات کیا اس نے شرک کیا۔ - ان تینوں الفاظ کو حرز جان بنا لیجیے : نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ ‘ نَحْنُ لَہٗ عٰبِدُوْنَ ‘ نَحْنُ لَہٗ مُخْلِصُوْنَ ۔۔ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :138 ”یعنی ہم یہی تو کہتے ہیں کہ اللہ ہی ہم سب کا ربّ ہے اور اسی کی فرمانبرداری ہونی چاہیے ۔ کیا یہ بھی کوئی ایسی بات ہے کہ اس پر تم ہم سے جھگڑا کرو؟ جھگڑے کا اگر کوئی موقع ہے بھی ، تو وہ ہمارے لیے ہے ، نہ کہ تمہارے لیے ، کیونکہ اللہ کے سوا دُوسروں کو بندگی کا مستحق تم ٹھیرا رہے ہو نہ کہ ہم ۔ ” اَ تُحَآ جُّوْنَنَا فِی اللہِ“ کا ایک ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ”کیا تمہارا جھگڑا ہمارے ساتھ فِیْ سَبِیْلِ اللہ ہے“؟ اس صُورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اگر واقعی تمہارا یہ جھگڑا نفسانی نہیں ہے ، بلکہ خدا واسطے کا ہے ، تو یہ بڑی آسانی سے طے ہو سکتا ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :139 یعنی تم اپنے اعمال کے ذمّے دار ہو اور ہم اپنے اعمال کے ۔ تم نے اگر اپنی زندگی کو تقسیم کر رکھا ہے اور اللہ کے ساتھ دُوسروں کو بھی خدائی میں شریک ٹھیرا کر ان کی پرستش اور اطاعت بجا لاتے ہو ، تو تمہیں ایسا کرنے کا اختیار ہے ، اس کا انجام خود دیکھ لو گے ۔ ہم تمہیں زبردستی اس سے روکنا نہیں چاہتے ۔ لیکن ہم نے اپنی بندگی ، اطاعت اور پرستش کو بالکل اللہ ہی کے لیے خالص کر دیا ہے ۔ اگر تم تسلیم کر لو کہ ہمیں بھی ایسا کرنے کا اختیار ہے ، تو خواہ مخواہ کا یہ جھگڑا آپ ہی ختم ہو جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani