سچا قبلہ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ہر مذہب والوں کا ایک قبلہ ہے لیکن سچا قبلہ وہ ہے جس پر مسلمان ہیں ابو العالیہ کا قول ہے کہ یہود کا بھی قبلہ ہے نصرانیوں کا بھی قبلہ ہے اور تمہارا بھی قبلہ ہے لیکن ہدایت والا قبلہ وہی ہے جس پر اے مسلمانو تم ہو ۔ مجاہد سے یہ بھی مروی ہے کہ ہر ایک وہ قوم جو کعبہ کو قبلہ مانتی ہے وہ بھلائیوں میں سبقت کرے آیت ( مولیھا ) کی دوسری قرأت ( مولاھا ) ہے جیسے اور جگہ ہے آیت ( لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًا ) 5 ۔ المائدہ:48 ) یعنی ہر شخص کو اپنے اپنے قبلہ کی پڑی ہوئی ہے ہر شخص اپنی اپنی راہ لگا ہوا ہے پھر فرمایا کہ گو تمہارے جسم اور بدن مختلف ہو جائیں گو تم ادھر ادھر بکھر جاؤ لیکن اللہ تمہیں اپنی قدرت کاملہ سے اسی زمین سے جمع کر لے گا ۔
148۔ 1 یعنی ہر مذہب والے نے اپنا پسندیدہ قبلہ بنا رکھا ہے جس کی طرف وہ رخ کرتا ہے۔ ایک دوسرا مفہوم یہ کہ ہر ایک مذہب نے اپنا ایک راستہ اور طریقہ بنا رکھا ہے، جیسے قرآن مجید کے دوسرے مقام پر ہے۔ آیت ( لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًا ۭوَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلٰكِنْ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ ) 005:048 یعنی اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور ضلالت دونوں کی وضاحت کے بعد انسان کو ان دونوں میں سے کسی کو بھی اختیار کرنے کی جو آزادی دی ہے، اس کی وجہ سے مختلف طریقے اور دستور لوگوں نے بنا لئے ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تو سب کو ایک ہی راستے یعنی ہدایت کے راستے پر چلا سکتا تھا، لیکن یہ سب اختیارات دینے سے مقصود ان کا امتحان ہے۔ اس لئے اے مسلمانوں تم تو خیر کی طرف سبقت کرو، یعنی نیکی اور بھلائی ہی کے راستے پر گامزن رہو یہ وحی الٰہی اور اتباع رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کا راستہ ہے جس سے دیگر محروم ہیں۔
[١٨٥] یعنی اصل چیز رخ کرنا نہیں بلکہ وہ بھلائیاں ہیں جن کے لیے تم نماز پڑھتے ہو۔ لہذا سمت اور مقام کے جھگڑوں میں پڑنے کے بجائے تمہیں اصل مقصد یعنی نیکیوں کے حصول کی فکر کرنا چاہیے۔ اور اس میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر کوشش کرنا چاہیے۔ کیونکہ قیامت کے دن یہی نیکیاں تمہارے کام آئیں گی۔
وِّجْهَةٌ وہ جگہ جس طرف منہ کیا جائے۔ اس کا وزن ” فِعْلَۃٌ“ ہے، جو اس ” فِعْلٌ“ کا مؤنث ہے جو بمعنی مفعول ہے، جیسے ” ذِبْحٌ“ بمعنی ” مَذْبُوْحٌ“ (ابن عاشور)- اس آیت میں بتایا جا رہا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کا قبلہ اگرچہ کعبہ تھا، مگر بعد میں ہر ایک نے اپنی اپنی مرضی سے کسی نہ کسی سمت کو اپنا قبلہ مقرر کرلیا۔ چناچہ یہود نے بیت المقدس کے صخرہ کو قبلہ قرار دے لیا اور نصاریٰ نے بیت المقدس کی مشرقی جانب کو۔ اب تمہارے لیے کعبہ کو قبلہ مقرر کردیا گیا ہے، اس لیے ان لوگوں سے اس بحث کا کوئی خاص فائدہ نہیں کہ کون سی سمت افضل ہے۔ اصل چیز نیکیوں میں سبقت ہے، اس کا اہتمام کرو، کیونکہ تم جہاں بھی ہو گے تمہیں اللہ کے حضور پیش ہونا پڑے گا، جیسا کہ فرمایا : ” نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیرو اور لیکن اصل نیکی اس کی ہے جو اللہ اور یوم آخرت اور فرشتوں اور کتاب اور نبیوں پر ایمان لائے اور مال دے اس کی محبت کے باوجود قرابت والوں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافر اور مانگنے والوں کو اور گردنیں چھڑانے میں۔ اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جو اپنا عہد پورا کرنے والے ہیں جب عہد کریں اور خصوصاً جو تنگ دستی اور تکلیف میں اور لڑائی کے وقت صبر کرنے والے ہیں، یہی لوگ ہیں جنھوں نے سچ کہا اور یہی بچنے والے ہیں۔ “ [ البقرۃ : ١٧٧ ] نیکیوں میں سبقت میں نماز کو وقت پر ادا کرنا، پہلی صف میں پہلی تکبیر کے ساتھ شامل ہونا، اسی طرح جہاد کی اولین صفوں میں پہنچنا بھی شامل ہے۔
خلاصہ تفسیر :- اور (دوسری حکمت تحویل قبلہ میں یہ ہے کہ عادۃ اللہ جاری ہے کہ) ہر (مذہب والے) شخص کے واسطے ایک ایک قبلہ رہا ہے جس کی طرف وہ (عبادت میں) منہ کرتا رہا ہے (چونکہ شریعت محمدیہ بھی ایک مستقل دین ہے اس کا قبلہ بھی ایک خاص ہوگیا جب حکمت سب پر ظاہر ہوچکی) سو (مسلمانوں) تم (اب اس بحث کو چھوڑ کر اپنے دین کے) نیک کاموں میں آگے بڑہنے کی کوشش کرو (کیونکہ ایک روز اپنے مالک سے سابقہ پڑنا ہے چنانچہ) تم خواہ کہیں ہوگے (لیکن) اللہ تعالیٰ تم سب کو (اپنے اجلاس میں) حاضر کردیں گے (اس وقت نیکیوں پر جزا اور اعمالِ بد پر سزا ہوگی اور) بالیقین اللہ تعالیٰ ہر امر پر پوری قدرت رکھتے ہیں اور (اس حکمت کا مقتضاء بھی یہی ہے کہ جس طرح حضر میں کعبہ کی طرف رخ ہوتا ہے اسی طرح اگر مدینہ سے یا اور کہیں سے) جس جگہ سے بھی (کہیں سفر میں) آپ باہر جاویں تو (بھی) اپنا چہرہ (نماز میں) مسجد حرام کی طرف رکھا کیجئے (غرض حضر وسفر سب حالتوں کا یہی قبلہ ہے) اور یہ (حکم عام قبلہ کا) بالکل حق (اور صحیح) ہے (اور) منجانب اللہ (ہے) اور اللہ تعالیٰ تمہارے کئے ہوئے کاموں سے ذرا بیخبر نہیں، - تحویل قبلہ کی تیسری حکمت :- اور (مکرر پھر کہا جاتا ہے کہ) آپ جس جگہ سے بھی (سفر میں) باہر جاویں اور حضر میں بدرجہ اولیٰ ) اپنا چہرہ (نماز میں) مسجد حرام کی طرف رکھئے اور (اسی طرح سب مسلمان بھی سن لیں کہ) تم لوگ جہاں کہیں (موجود) ہو اپنا چہرہ (نماز میں) اسی (مسجد حرام) کی طرف رکھا کرو (اور یہ حکم اس لئے مقرر کیا جاتا ہے) تاکہ (ان مخالف) لوگوں کو تمہارے مقابلہ میں (اس) گفتگو (کی مجال) نہ رہے (کہ اگر محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہی نبی موعود آخر الزماں ہوتے تو ان کی علامات میں تو یہ بھی ہے کہ ان کا اصلی قبلہ کعبہ ہوگا اور یہ تو بیت المقدس کی طرف نماز پڑہتے ہیں یہ تیسری حکمت ہے تحویل قبلہ کی ہاں) مگر ان میں جو (بالکل ہی) بےانصاف ہیں (وہ اب بھی کٹھ حجتی نکالیں گے کہ یہ کیسے نبی ہیں جو اتنے نبیوں کے خلاف کعبہ کی طرف نماز پڑہتے ہیں لیکن جب ایسے مہمل اعتراضوں سے دین حق کو کوئی ضرر نہیں پہنچ سکتا) جو ایسے لوگوں سے (ذرا) اندیشہ نہ کرو (اور ان کے اعتراضوں کے جواب کی فکر میں مت پڑو) اور مجھ سے ڈرتے رہو (کہ میرے احکام کی مخالفت نہ ہونے پاوے کہ یہی مخالفت البتہ تم کو مضر ہے) اور (ہم نے ان سب احکام مذکورہ پر عمل کرنے کی توفیق بھی دی) تاکہ تم پر جو (کچھ) میرا انعام (اکرام متوجہ) ہے (تم کو آخرت میں داخل بہشت کرکے) اس کی تکمیل کردوں اور تاکہ (دنیا میں) تم راہ (حق) پر (یعنی اسلام پر قائم رہنے والوں میں رہو (جس پر وہ تکمیل نعمت مرتب ہوتی ہے) - معارف و مسائل :- تحویل قبلہ کی حکمتیں :- مذکور آیات میں تحویل قبلہ کے لئے الفاظ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَام تین مرتبہ آئے ہیں اور حَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ شَطْرَهٗ دو مرتبہ اس تکرار کی ایک عام وجہ تو یہ ہے کہ تحویل قبلہ کا حکم مخالفین کے لئے شور وشغب کا ذریعہ تھا ہی خود مسلمانوں کے لئے بھی عبادات کا ایک عظیم انقلاب تھا اگر یہ حکم تاکیدات کے ساتھ بتکرار نہ لایا جاتا تو قلوب کا اطمینان و سکون آسان نہ ہوتا اس لئے اس حکم کو بار بار دہرایا گیا جس میں اس کی طرف بھی اشارہ کیا گیا کہ یہ تحویل آخری اور قطعی ہے اب اس کی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں، - بیان القرآن کے خلاصہ تفسیر میں جو تطبیق کی صورت لکھی گئی ہے قرطبی نے بھی اس کی ایک ایسی تقریر نقل کی ہے جس سے تکرار محض نہ رہے مثلاً فرمایا کہ پہلی مرتبہ جو حکم آیا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ شَطْرَهٗ یہ حکم حالت حضر کا ہے کہ جب آپ اپنی جگہ مقیم ہیں تو آپ مسجد حرام کی طرف رخ کیا کریں اور پھر پوری امت کو اسی کا حکم دیا گیا، اور حَيْثُ مَا كُنْتُمْ کا مفہوم اس تقریر پر یہ ہوگا کہ اپنے وطن اور شہر میں جس جگہ بھی ہوں استقبال بیت اللہ ہی کا کرنا ہے یہ حکم صرف مسجد نبوی کے ساتھ مخصوص نہیں، - پھر دوسری مرتبہ جو انہی الفاظ کے ساتھ حکم آیا اس سے پہلے مِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ کے الفاظ نے یہ واضح کردیا کہ یہ حکم وطن سے نکلنے اور سفر کی حالت کے لئے ہے اور چونکہ سفر کے حالات بھی مختلف ہوتے ہیں کبھی چند روز کے لئے کسی بستی میں قیام کیا جاتا ہے کبھی سفر قطع کرنے کا سلسلہ ہوتا ہے ان دونوں حالتوں کو عام کرنے لئے تیسری مرتبہ پھر ان الفاظ کے ساتھ اور وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ کا اضافہ کرکے بتلا دیا کہ سفر کی کوئی بھی حالت ہو ہر حال میں استقبال مسجد حرام ہی کا کرنا ہے اس تیسری مرتبہ کے اعادہ کے ساتھ تحویل قبلہ کی ایک حکمت کا بھی جوڑ لگا دیا گیا کہ مخالفین کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ نبی آخر الزماں کا قبلہ تو توراۃ و انجیل کی تصریحات کے مطابق کعبہ ہونا چاہئے اور یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کعبہ کے بجائے بیت المقدس کا استقبال کرتے ہیں - وَلِكُلٍّ وِّجْهَةٌ ھُوَ مُوَلِّيْهَا۔ وِجْهَةٌ بکسر الواؤ کے معنی لغوی جس چیز کی طرف رخ کیا جائے حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اس سے مراد قبلہ ہے اور حضرت ابی بن کعب کی قراءت میں اس جگہ وجہۃٌ کی بجائے قبلۃٌ بھی منقول ہے مراد آیت کی جمہور مفسرین کے نزدیک یہ ہے کہ ہر قوم کا قبلہ جس کی طرف وہ عبادت میں رخ کرتے ہیں مختلف ہے خواہ منجانب اللہ ان کو ایسا ہی حکم ملا ہے یا انہوں نے خود کوئی جانب مقرر کرلی ہے بہرحال یہ امر واقعہ ہے کہ مختلف قوموں کے قبلے مختلف ہوتے چلے آئے ہیں تو اسی حالت میں اگر نبی امی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے کوئی خاص قبلہ مقرر کردیا گیا تو انکار وتعجب کی کیا بات ہے،- مذہبی مسائل میں فضول بحثوں سے اجتناب کی ہدایت :- فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِ اس سے پہلے جملہ میں یہ فرمایا تھا کہ مختلف قوموں کے مختلف قبلے ہیں، کوئی ایک دوسرے کے قبلہ کو تسلیم نہیں کرتا اس لئے اپنے قبلہ کے حق ہونے پر ان لوگوں سے بحث فضول ہے اس جملے کا حاصل یہ ہے کہ جب یہ معلوم ہے کہ اس بحث سے ان لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچنے گا تو پھر اس فضول بحث کو چھوڑ کر اپنے اصلی کام میں لگ جانا چاہئے اور وہ کام ہے نیک کاموں میں دوڑ دھوپ اور آگے بڑہنے کی کوشش اور چونکہ فضول بحثوں میں وقت ضائع کرنا اور مسابقت الی الخیرات میں سستی کرنا عموما آخرت سے غفلت کے سبب ہوتے ہیں جس کو اپنی آخرت اور انجام کی فکر درپیش ہو وہ کبھی فضول بحثوں میں نہیں الجھتا اپنی منزل طے کرنے کی فکر میں رہتا ہے اس لئے اگلے جملے میں آخرت کی یاد دلانے کے لئے ارشاد فرمایا اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يَاْتِ بِكُمُ اللّٰهُ جَمِيْعًا جس کا مطلب یہ ہے کہ بحثوں میں ہار جیت اور لوگوں کے اعتراضات سے بچنے کی فکر میں سب چند روزہ دنیا کے لئے ہے اور عنقریب وہ دن آنے والا ہے جس میں اللہ تعالیٰ تمام اقوام عالم کو ایک جگہ جمع کرکے حساب لیں گے عقلمند کا کام یہ ہے کہ اپنے اوقات اس کی فکر میں صرف کرے،- عبادات اور نیک اعمال میں بلاوجہ تاخیر کرنا مناسب نہیں مسارعت کرنا چاہئے :- لفظ فاسْتَبِقُوا سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انسان کو چاہئے کہ کسی نیک عمل کا جب موقع مل جائے تو اس کے کرنے میں دیر نہ کرے کیونکہ بعض اوقات اس کے ٹلانے اور تاخیر کرنے سے توفیق سلب ہوجاتی ہے پھر آدمی کام کر ہی نہیں سکتا خواہ وہ نماز روزہ ہو یا حج و صدقہ وغیرہ قرآن کریم میں یہی مضمون سورة انفال کی آیت میں زیادہ وضاحت سے آیا ہے،- يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ ۚ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَحُوْلُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهٖ (یعنی اے ایمان والو تم اللہ و رسول کے کہنے کو بجا لایا کرو جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم کو تمہاری زندگی بخش چیز کی طرف بلاتے ہوں اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ آڑ بن جایا کرتا ہے آدمی کے اور اس کے قلب کے درمیان میں،- کیا ہر نماز کا اول وقت میں پڑھنا افضل ہے :- اس مسابقت فی الخیرات سے بعض فقہاء نے اس پر استدلال کیا ہے کہ ہر نماز کو اول وقت میں پڑھنا افضل ہے اور وہ روایات حدیث اس کی تائید میں پیش کی ہیں جن میں اول وقت نماز ادا کرنے کی فضیلت آئی ہے۔ امام شافعی کا یہی مذہب ہے مگر امام اعظم ابوحنیفہ ومالک رحمہما اللہ نے دوسری روایات حدیث کی بناء پر اس معاملے میں تفصیل کی ہے کہ جن نمازوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تاخیر کرکے پڑھنے کی تعلیم اپنے قول وعمل سے دی ہے ان کا اول اور افضل وقت وہی ہے جو ان احادیث میں بیان ہوا ہے باقی اپنی اصل پر اول وقت میں پڑھی جائیں مثلاً صحیح بخاری میں بروایت انس عشاء کی نماز کو مؤ خر کرکے پڑھنے کی فضیلت مذکور ہے اور حضرت ابوہریرہ نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عشاء کی تاخیر پسند تھی (قرطبی) - اسی طرح صحیح بخاری و ترمذی میں بروایت ابوذر منقول ہے کہ ایک سفر میں حضرت بلال نے ظہر کی اذان اول وقت میں دینا چاہی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے روکا اور فرمایا کہ جب وقت ذرا ٹھنڈا ہوجائے اس وقت اذان کہی جائے کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی آگ سے ہے مطلب یہ ہے کہ گرمی کے زمانے میں نماز ظہر کو تاخیر سے پڑھنا پسند فرمایا،- ان روایات کی بناء پر امام ابوحنیفہ اور امام مالک نے فرمایا کہ ان نمازوں میں اول وقت پر عمل کرنے کی صورت یہی ہے کہ جب وقت مستحب ہوجائے تو پھر تاخیر نہ کریں اور جہاں کوئی تاخیر کا حکم نہیں آیا وہاں بالکل ابتداء وقت ہی میں نماز پڑھنا افضل ہے جیسے مغرب، - بہرحال آیت مذکورہ سے یہ بات باتفاق ثابت ہوگئی کہ جب نماز کا وقت آجائے تو بغیر ضرورت شرعیہ یا طبعیہ کے تاخیر کرنا اچھا نہیں ضرورت شرعیہ تو وہی ہے جو اوپر لکھی گئی کہ بعض نمازوں کی تاخیر کا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا ہے اور ضرورت طبعیہ اپنے ذاتی عوارض بیماری و محتاجی کے سبب تاخیر کرنا واللہ اعلم۔
وَلِكُلٍّ وِّجْہَۃٌ ھُوَمُوَلِّيْہَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِ ٠ ۭ۬ اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يَاْتِ بِكُمُ اللہُ جَمِيْعًا ٠ ۭ اِنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ١٤٨- وِجْهَةٌ- ويقال للقصد : وجْهٌ ، وللمقصد جهة ووِجْهَةٌ ، وهي حيثما نتوجّه للشیء، قال :- لِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيها[ البقرة 148] إشارة إلى الشّريعة، کقوله : شِرْعَةً [ المائدة 48] وقال بعضهم : الجاه مقلوب عن الوجه لکن الوجه يقال في العضو والحظوة، والجاه لا يقال إلّا في الحظوة . ووجّهت الشیء : أرسلته في جهة واحدة فتوجّه، اور جھۃ اور وجھۃ کے معنی مقصد کے ہیں یعنی کسی چیز کی طرف متوجہ ہونے کی جگہ قرآن پاک :۔ لِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيها[ البقرة 148] اور ہر ایک فرقے کے لئے ایک سمت مقرر ہے ۔ تو وجھۃ سے شریعت کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا : ۔ ہم نے تم میں سے ہر ایک ( فر قے ) کے لئے ایک دستور اور طریقہ مقرر کیا ہے ۔ الجاہ ۔ مرتبہ بعض نے کہا ہے کہ یہ وجہ سے مقلوب ہے لیکن وجہ کا لفظ عزت مرتبہ اور چہرہ دونوں معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور جاہ کے معنی صرف مرتبہ کے آتے ہیں ۔ وجھت الشی کے معنی کسی چیز کو ایک جانب بھیجنے کے ہیں اور توجہ کے معنی ازخود جانے کے ۔- سبق - أصل السَّبْقِ : التّقدّم في السّير، نحو : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] ، والِاسْتِبَاقُ : التَّسَابُقُ. قال : إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ، وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] ، ثم يتجوّز به في غيره من التّقدّم، قال : ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11] ،- ( س ب ق) السبق - اس کے اصل معنی چلنے میں آگے بڑھ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] پھر وہ ( حکم الہی کو سننے کے لئے لپکتے ہیں ۔ الاستباق کے معنی تسابق یعنی ایک دوسرے سے سبقت کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :َ إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ہم ایک دوسرے سے دوڑ میں مقابلہ کرنے لگ گئے ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] اور دونوں دوڑتے ہوئے دروز سے پر پہنچنے ۔ مجازا ہر شے میں آگے بڑ اجانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11] تو یہ ہم سے اس کیطرف سبقت نہ کرجاتے ۔ - خَيْراتٌ- وقوله : فِيهِنَّ خَيْراتٌ حِسانٌ [ الرحمن 70] ، قيل : أصله خَيِّرَات، فخفّف، فالخیرات من النساء الخيّرات، يقال : رجل خَيْرٌ وامرأة خَيْرَةٌ ، وهذا خير الرجال، وهذه خيرة النساء، والمراد بذلک المختارات، أي : فيهنّ مختارات لا رذل فيهنّ. والخیر : الفاضل المختصّ بالخیر، يقال : ناقة خِيَار، وجمل خيار، واستخار اللهَ العبدُ فَخَارَ له، أي : طلب منه الخیر فأولاه، وخَايَرْتُ فلانا کذا فَخِرْتُهُ- اور آیت کریمہ : ۔ فِيهِنَّ خَيْراتٌ حِسانٌ [ الرحمن 70] ان میں نیک سیرت ( اور ) خوبصورت ۔ ) میں بعض نے کہا ہے کہ خیرات اصل میں خیرات ہے تخفیف کے لئے ایک یائ کو حزف کردیا گیا ۔ کہا جاتا ہے ۔ اور خیرات سے مراد یہ ہے کہ ان میں نیک سیرت عورتیں ہوں گی جن میں کسی قسم کی ( ذالت نہیں پائی جائے گی ۔ الخیر بہتر جو خیر کے ساتھ مختص ہو ( مذکر ومونث ) بہتر اونٹنی یا اونٹ ۔- أين - أَيْنَ لفظ يبحث به عن المکان، كما أنّ «متی» يبحث به عن الزمان، والآن : كل زمان مقدّر بين زمانین ماض ومستقبل، نحو : أنا الآن أفعل کذا، وخصّ الآن بالألف واللام المعرّف بهما ولزماه، وافعل کذا آونة، أي : وقتا بعد وقت، وهو من قولهم : الآن .- وقولهم : هذا أوان ذلك، أي : زمانه المختص به وبفعله .- قال سيبويه رحمه اللہ تعالی: الآن آنك، أي : هذا الوقت وقتک .- وآن يؤون، قال أبو العباس رحمه اللہ :- ليس من الأوّل، وإنما هو فعل علی حدته .- والأَيْنُ : الإعياء، يقال : آنَ يَئِينُ أَيْناً ، وکذلك : أنى يأني أينا : إذا حان .- وأمّا بلغ إناه فقد قيل : هو مقلوب من أنى، وقد تقدّم .- قال أبو العباس : قال قوم : آنَ يَئِينُ أَيْناً ، والهمزة مقلوبة فيه عن الحاء، وأصله : حان يحين حينا، قال : وأصل الکلمة من الحین .- این ( ظرف ) یہ کلمہ کسی جگہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے جیسا کہ لفظ متی ، ، زمانہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے ( ا ی ن ) الاین ( ض) کے معنی تھک کر چلنے سے عاجز ۔ ہوجانا کے ہیں آن یئین اینا اور انیٰ یانی ان یا کے معنی کسی چیز کا موسم یا وقت آجانا کے ہیں اور محاورہ میں بلغ اناہ کے متعلق بعض نے کہا ہے کہ انیٰ ( ناقص) سے مقلوب ہے جیسا کہ پہلے گزچکا ہے ۔ ابوالعباس نے کہا ہے کہ آن مقلوب ( بدلاہوا ) ہے اور اصل میں حان یحین حینا ہے اور اصل کلمہ الحین ہے ۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعرأتيت المروءة من بابها فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم 27] . يقال : أتيته وأتوته ويقال للسقاء إذا مخض وجاء زبده : قد جاء أتوه، وتحقیقه : جاء ما من شأنه أن يأتي منه، فهو مصدر في معنی الفاعل . وهذه أرض کثيرة الإتاء أي : الرّيع، وقوله تعالی: مَأْتِيًّا[ مریم 61] مفعول من أتيته . قال بعضهم معناه : آتیا، فجعل المفعول فاعلًا، ولیس کذلک بل يقال : أتيت الأمر وأتاني الأمر، ويقال : أتيته بکذا وآتیته كذا . قال تعالی: وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء 54] .[ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . والإِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247] .- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو أَتَى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت وَجَاءَ رَبُّكَ [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) " اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ ارض کثیرۃ الاباء ۔ زرخیز زمین جس میں بکثرت پیداوار ہو اور آیت کریمہ : إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيًّا [ مریم : 61] بیشک اس کا وعدہ آیا ہوا ہے ) میں ماتیا ( فعل ) اتیتہ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے بعض علماء کا خیال ہے کہ یہاں ماتیا بمعنی آتیا ہے ( یعنی مفعول بمعنی فاعل ) ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ محاورہ میں اتیت الامر واتانی الامر دونوں طرح بولا جاتا ہے اتیتہ بکذا واتیتہ کذا ۔ کے معنی کوئی چیز لانا یا دینا کے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ مُلْكًا عَظِيمًا [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - جمع - الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة 2] ،- ( ج م ع ) الجمع ( ف )- کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے - إِنَّ وأَنَ- إِنَّ أَنَّ ينصبان الاسم ويرفعان الخبر، والفرق بينهما أنّ «إِنَّ» يكون ما بعده جملة مستقلة، و «أَنَّ» يكون ما بعده في حکم مفرد يقع موقع مرفوع ومنصوب ومجرور، نحو : أعجبني أَنَّك تخرج، وعلمت أَنَّكَ تخرج، وتعجّبت من أَنَّك تخرج . وإذا أدخل عليه «ما» يبطل عمله، ويقتضي إثبات الحکم للمذکور وصرفه عمّا عداه، نحو : إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ- [ التوبة 28] تنبيها علی أنّ النجاسة التامة هي حاصلة للمختص بالشرک، وقوله عزّ وجل : إِنَّما حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ [ البقرة 173] أي : ما حرّم ذلك إلا تنبيها علی أنّ أعظم المحرمات من المطعومات في أصل الشرع هو هذه المذکورات .- وأَنْ علی أربعة أوجه :- الداخلة علی المعدومین من الفعل الماضي أو المستقبل، ويكون ما بعده في تقدیر مصدر، وينصب المستقبل نحو : أعجبني أن تخرج وأن خرجت .- والمخفّفة من الثقیلة نحو : أعجبني أن زيدا منطلق .- والمؤكّدة ل «لمّا» نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] . والمفسّرة لما يكون بمعنی القول، نحو : وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا [ ص 6] أي : قالوا : امشوا .- وكذلك «إِنْ» علی أربعة أوجه : للشرط نحو : إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبادُكَ [ المائدة 118] ، والمخفّفة من الثقیلة ويلزمها اللام نحو : إِنْ كادَ لَيُضِلُّنا [ الفرقان 42] ، والنافية، وأكثر ما يجيء يتعقّبه «إلا» ، نحو : إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا [ الجاثية 32] ، إِنْ هذا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ [ المدثر 25] ، إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَراكَ بَعْضُ آلِهَتِنا بِسُوءٍ [هود 54] .- والمؤكّدة ل «ما» النافية، نحو : ما إن يخرج زيد - ( ان حرف ) ان وان - ( حرف ) یہ دونوں اسم کو نصب اور خبر کو رفع دیتے ہیں اور دونوں میں فرق یہ ہے کہ ان جملہ مستقل پر آتا ہے اور ان کا مابعد ایسے مفرد کے حکم میں ہوتا ہے جو اسم مرفوع ، منصوب اور مجرور کی جگہ پر واقع ہوتا ہے جیسے اعجبنی انک تخرج وعجبت انک تخرج اور تعجب من انک تخرج جب ان کے بعد ما ( کافہ ) آجائے تو یہ عمل نہیں کرتا اور کلمہ حصر کے معنی دیتا ہے ۔ فرمایا :۔ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ ( سورة التوبة 28) ۔ مشرک تو پلید ہیں (9 ۔ 28) یعنی نجاست تامہ تو مشرکین کے ساتھ مختص ہے ۔ نیز فرمایا :۔ إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ ( سورة البقرة 173) اس نے تم امر ہوا جانور اور لہو حرام کردیا ہے (2 ۔ 173) یعنی مذکورہ اشیاء کے سوا اور کسی چیز کو حرام قرار نہیں دیا اس میں تنبیہ ہے کہ معلومات میں سے جو چیزیں اصول شریعت میں حرام ہیں ان میں سے - یہ چیزیں سب سے بڑھ کر ہیں ۔- ( ان )- یہ چار طرح پر استعمال ہوتا ہے (1) ان مصدریہ ۔ یہ ماضی اور مضارع دونوں پر داخل ہوتا ہے اور اس کا مابعد تاویل مصدر میں ہوتا ہے ۔ ایسی صورت میں یہ مضارع کو نصب دیتا ہے جیسے :۔ اعجبنی ان تخرج وان خرجت ۔ ان المخففہ من المثقلۃ یعنی وہ ان جو ثقیلہ سے خفیفہ کرلیا گیا ہو ( یہ کسی شے کی تحقیق اور ثبوت کے معنی دیتا ہے جیسے ۔ اعجبنی ان زید منطلق ان ( زائدہ ) جو لما کی توکید کے لئے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا فَلَمَّا أَنْ جَاءَ الْبَشِيرُ ( سورة يوسف 96) جب خوشخبری دینے والا آپہنچا (12 ۔ 92) ان مفسرہ ۔ یہ ہمیشہ اس فعل کے بعد آتا ہے جو قول کے معنیٰ پر مشتمل ہو ( خواہ وہ لفظا ہو یا معنی جیسے فرمایا :۔ وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ ( سورة ص 6) ان امشوا اور ان میں جو معزز تھے وہ چل کھڑے ہوئے ( اور بولے ) کہ چلو (38 ۔ 6) یہاں ان امشوا ، قالوا کے معنی کو متضمن ہے ان ان کی طرح یہ بھی چار طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ان شرطیہ جیسے فرمایا :۔ إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ( سورة المائدة 118) اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں (5 ۔ 118) ان مخففہ جو ان ثقیلہ سے مخفف ہوتا ہے ( یہ تا کید کے معنی دیتا ہے اور ) اس کے بعد لام ( مفتوح ) کا آنا ضروری ہے جیسے فرمایا :۔ إِنْ كَادَ لَيُضِلُّنَا ( سورة الفرقان 42) ( تو ) یہ ضرور ہم کو بہکا دیتا ہے (25 ۔ 42) ان نافیہ اس کے بعداکثر الا آتا ہے جیسے فرمایا :۔ إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا ( سورة الجاثية 32) ۔۔ ،۔ ہم اس کو محض ظنی خیال کرتے ہیں (45 ۔ 32) إِنْ هَذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ ( سورة المدثر 25) (ٌپھر بولا) یہ ( خدا کا کلام ) نہیں بلکہ ) بشر کا کلام سے (74 ۔ 25) إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَرَاكَ بَعْضُ آلِهَتِنَا بِسُوءٍ - ( سورة هود 54) ۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود نے تمہیں آسیب پہنچا ( کر دیوانہ کر ) دیا ہے (11 ۔ 54) ان ( زائدہ ) جو ( ما) نافیہ کی تاکید کے لئے آتا ہے جیسے : مان یخرج زید ۔ زید باہر نہیں نکلے گا ۔ - قَدِيرُ :- هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] .- القدیر - اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔
قول باری ہے : ولکل وجھۃ ھو مولیھا ( اور ہر ایک کے لئے ایک رخ ہے جس کی طرف وہ مڑتا ہے) ایک قول کے مطابق اس کی تفسیر یہ ہے کہ ہر ایک کے لئے ایک قبلہ ہے۔ یہ بات مجاہد سے مروی ہے جس نے کہا ہے : ہر ایک کے لئے ایک طریقہ ہے یعنی اسلام جسے اللہ تعالیٰ نے بطور شریعت جاری کیا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) ، مجاہد اور السدی سے منقول ہے کہ یہود اور نصاریٰ میں سے ہر ملت کے لئے ایک طریقہ مقرر ہے حسن بصری نے کہا ہے کہ ہر نبی کے لئے طریقہ تو ایک ہے یعنی اسلام اگرچہ احکام مختلف ہیں جس طرح یہ قول باری ہے ( لکل جعلنا منکم شرعۃ و مھا جاً ( ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے ایک شریعت اور ایک راہ عمل مقرر کی ہے) قتادہ نے کہا ہے کہ اس سے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے اور کعبہ کی طرف رخ کرکے ان کی نماز مراد ہے۔ ایک اور قول کے مطابق اس کا مفہوم ہے دنیا کے مختلف گوشوں میں پھیلی ہوئی مسلم اقوام میں سے ہر قوم کے لئے جن کے علاقوں سے کعبہ کی جہتیں یا تو پیچھے کی طرف ہیں یا آگے کی طرف یا دائیں یا بائیں۔ گویا آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ کعبے کی مختلف جہتوں میں سے کوئی ایک جہت دوسری کسی جہت کی بہ نسبت قبلہ بننے کے لئے اولیٰ نہیں ہوتی بلکہ کعبہ کی ہر جہت قبلہ کی جہت بن سکتی ہے۔- مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) میزاب رحمت کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے یہ آیت تلاوت کی فلنو لینک قبلۃ ترضھا اور کہا : ” یہی قبلہ ہے “۔ بعض لوگوں نے حضرت ابن عمر (رض) کے اس قول سے یہ سمجھا ہے کہ آپ نے قبلہ کہہ کر میزاب رحمت مراد لی ہے حالانکہ بات ایسی نہیں ہے کیونکہ حضرت ابن عمر (رض) نے یہ کہہ کر درحقیقت کعبہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ میزاب رحمت کی جہت کی تخصیص نہیں کی کہ اس کے ساتھ کعبہ ک دوسری جہتیں شامل نہ ہوں اور تخصیص کی بات کس طرح درست ہوسکتی ہے جبکہ یہ آیتیں موجود ہیں۔ واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی۔ نیز قول وجھک شطرا لمسجد الحرام تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ کعبہ کی طرف رخ کرنے والوں کے لیے اس کی تمام جہتیں قبلہ ہیں۔ قول باری : ولکل وجھۃ ھو مولیھا۔ اس پر دلالت کرتا ہے کہ کعبہ سے دور شخص جس بات کا مکلف ہے وہ یہ ہے کہ اپنے ظن غالب سے کام لے کر کعبہ کی جہت کا رخ کرے۔ کعبہ کے محاذات میں آنے کا وہ مکلف نہیں ہے کیونکہ یہ ممکن نہیں ہے کہ کعبہ سے دور بسنے والے اس کے محاذات میں آ جائیں۔- قول باری ہے : فاستبقوا الخیرات ( پس تم بھلائیوں کی طرف سبقت کرو) مراد یہ ہے کہ طاعات کی طرف سبقت کی جائے اور اس سلسلے میں پوری چستی سے کام لیاجائے۔ اس آیت میں یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ طاعات میں تعجیل کرنا ان میں تاخیر کرنے سے افضل ہے، بشرطیکہ کوئی ایسی دلیل موجود نہ ہو جو تاخیر کی فضیلت کا پتہ دیتی ہو۔ مثلاً اول وقت میں نماز کی ادائیگی میں تعجیل، اسی طرح زکوۃ اور فریضہ حج کی ادائیگی میں تعجیل کہ وقت آتے ہی اور سبب موجود ہوتے ہی ان کی ادائیگی کرلی جائے۔ آیت سے یہ بھی استدلال کیا گیا ہے کہ امر علی الفور ہوتا ہے یعنی اس پر فی الفور عمل ضروری ہے اور اس میں تاخیر کے جواز کے لئے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے وہ اس طرح کہ اگر امر غیر موقف ہو تو سب کے نزدیک اس پر فی الفور عمل لا محالہ نیکی اور بھلائی شمار ہوگا اس طرح زیر بحث آیت کے مض مومن کی بنا پر امر کی تعجیل کا ایجاب ضروری ہوگیا کیونکہ امروجوب کا متقضی ہوتا ہے۔
(١٤٨) اور ہر دین والے کے لیے ایک قبلہ ہے جس کی طرف وہ متوجہ ہوتا ہے۔ ایک تفسیر یہ بھی کی گئی ہے کہ ہر ایک بنی کے لیے ایک قبلہ اور کعبہ ہے جس کی جانب اسے چہرہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اسے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت تم تمام پہلی امتوں سے زیادہ اطاعت خداوندی کرو۔
آیت ١٤٨ (وَلِکُلٍّ وِّجْہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّیْہَا (فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ ط) تو (مسلمانو ) ۔ - ہم نے تمہارے لیے ایک رخ معینّ کردیا ‘ یعنی بیت اللہ۔ اور ایک باطنی رخ تمہیں یہ اختیار کرنا ہے کہ نیکیوں کی راہ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ جیسے نماز کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ آپ نے باوضو ہو کر قبلے کی طرف رخ کرلیا اور ارکان نماز ادا کیے۔ جبکہ نماز کا باطن خشوع و خضوع ‘ حضور قلب اور رقتّ ہے۔ انسان کو یہ احساس ہو کہ وہ پروردگار عالم کے روبرو حاضر ہو رہا ہے۔
97: جو لوگ قبلے کی تبدیلی پر اعتراض کررہے تھے ان پر حجت تمام کرنے کے بعد مسلمانوں کو یہ ہدایت دی جارہی ہے کہ ہر مذہب کے لوگوں نے اپنے اپنے قبلے الگ الگ بنارکھے ہیں اور تمہارے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ اس دنیا میں ان کو کسی ایک قبلے پر جمع کرسکو، لہذا اب ان لوگوں سے قبلے کی بحث میں پڑنے کے بجائے تمہیں اپنے کام میں لگ جانا چاہئے اور وہ یہ ہے کہ اپنے نامۂ اعمال میں زیادہ سے زیادہ نیکیوں کا اضافہ کرو اور اس کام میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو، آخری انجام یہ ہوگا کہ تمام مذہبوں والوں کو اللہ تعالیٰ اپنے پاس بلائے گا اور اس وقت ان سب کی ترکی تمام ہوجائے گی وہاں سب کا قبلہ ایک ہی ہوجائے گا، کیونکہ سب اللہ کے سامنے کھڑے ہوں گے۔