Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اب بیان ہو رہا ہے کہ جن صبر کرنے والوں کی اللہ کے ہاں عزت ہے وہ کون لوگ ہیں؟ پس فرماتا ہے یہ وہ لوگ ہیں جو تنگی اور مصیبت کے وقت آیت انا للہ ) پڑھ لیا کرتے ہیں اور اس بات سے اپنے دل کو تسلی دے لیا کرتے ہیں کہ ہم اللہ کی ملکیت ہیں اور جو ہمیں پہنچا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور ان میں جس طرح وہ چاہے تصرف کرتا رہتا ہے اور پھر اللہ کے ہاں اس کا بدلہ ہے جہاں انہیں بالاخر جانا ہے ، ان کے اس قول کی وجہ سے اللہ کی نوازشیں اور الطاف ان پر نازل ہوتے ہیں عذاب سے نجات ملتی ہے اور ہدایت بھی نصیب ہوتی ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٩٦] جو یہ کلمات صرف زبان سے ہی ادا نہیں کرتے بلکہ دل سے بھی اس بات کے قائل ہوتے ہیں کہ چونکہ ہم اللہ ہی کی ملک ہیں۔ لہذا ہماری جو چیز بھی اللہ کی راہ میں قربان ہوئی وہ اپنے ٹھیک ٹھکانے پر پہنچ گئی اور وہ کسی قسم کی بےقراری یا اضطراب کا اظہار نہیں کرتے نہ ہی زبان سے کوئی ناشکری کا کلمہ نکالتے ہیں۔ چناچہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نواسہ ( زینب (رض) کا بیٹا) فوت ہوگیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیٹی سے فرمایا : یوں کہو : انَّ لَہُ مَا اَخَذُوْلَہُ مَا اعْطٰی وَکُلُّ شَیٍ عِنْدَہُ بِاَجَلٍ مُّسَمّٰی فَلْتَصْبِرُوْ لِتَحْتَسِبْ (جو اس نے لے لیا وہ اللہ ہی کا تھا اور جو دے رکھا ہے وہ بھی اللہ ہی کا ہے۔ اس کے ہاں ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے۔ لہذا تمہیں چاہیے کہ صبر کرو اور اس سے ثواب کی امید رکھو) (بخاری، کتاب المرضیٰ ۔ باب عیادۃ الصبیان و کتاب الجنائز (مسلم کتاب الجنائز، باب البکاء علی المیت)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

مصائب پر صبر کے آسان کرنے کی خاص تدبیر :- ف : اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بندوں کا امتحان ہوتا ہے اس کی حقیقت آیت وَاِذِ ابْتَلٰٓى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ کی تفسیر میں گذر چکی ہے اور حوادث کے واقع ہونے سے پہلے ان کی خبر دیدینے میں یہ فائدہ ہوا کہ صبر آسان ہوجاتا ہے ورنہ دفعۃ کوئی صدمہ پڑنے سے زیادہ پریشانی ہوتی ہے اور یہ خطاب ساری امت کو ہے تو سب کو سمجھ لینا چاہئے کہ دنیا دار المحن ہے (یعنی محنتوں اور تکلیفوں کی جگہ ہے) اس لئے یہاں کے حوادث کو عجیب اور بعید نہ سمجھا جاوے تو بےصبری نہ ہوگی اور چونکہ یہ لوگ نفس عمل صبر میں سب مشترک ہیں اس لئے اس کا صلہ مشترکہ تو عام رحمت ہے جو نفس صبر پر موعود ہے اور چونکہ مقدار اور شان اور خصوصیت پر صابر کے صبر کی جدا ہے اس لئے ان خصوصیات کا صلہ جدا جدا خاص عنایتوں سے ہوگا جو ان خاص خصوصیات پر موعود ہیں جیسے دنیا میں مواقع انعام پر دعوت طعام تو عام ہوتی پھر روپے اور جوڑے ہر ایک کو علی قدر الحیثیت والخدمت دئیے جاتے ہیں، - مصیبت میں انا للہ کو سمجھ کر پڑھا جائے تو تسکین قلب کا بہترین علاج ہے :- صابرین کی طرف نسبت کرکے جو یہ فرمایا ہے کہ وہ مصیبت کے وقت انا للہ وانا الیہ راجعون کہا کرتے ہیں حقیقت میں مقصود اس کی تعلیم سے یہ ہے کہ مصیبت والوں کو ایسا کہنا چاہئے کیونکہ ایسا کہنے میں ثواب بھی بڑا ہے اور اگر دل سے سمجھ کر یہ الفاظ کہے جائیں تو غم ورنج کے دور کرنے اور قلب کو تسلی دینے کے معاملہ میں بھی اکسیر کا حکم رکھتے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

الَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِيْبَۃٌ۝ ٠ ۙ قَالُوْٓا اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ۝ ١٥٦ ۭ- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- ( صاب) مُصِيبَةُ- والمُصِيبَةُ أصلها في الرّمية، ثم اختصّت بالنّائبة نحو : أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران 165] ، فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌالنساء 62] ، وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 166] ، وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری 30] ، وأصاب : جاء في الخیر والشّرّ. قال تعالی:إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ [ التوبة 50] ، وَلَئِنْ أَصابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللَّهِ [ النساء 73] ، فَيُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشاءُ وَيَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ يَشاءُ [ النور 43] ، فَإِذا أَصابَ بِهِ مَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ [ الروم 48] ، قال :- الإِصَابَةُ في الخیر اعتبارا بالصَّوْبِ ، أي : بالمطر، وفي الشّرّ اعتبارا بِإِصَابَةِ السّهمِ ، وکلاهما يرجعان إلى أصل .- مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے اس کے بعد عرف میں ہر حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران 165]( بھلا یہ ) کیا بات ہے کہ ) جب ( احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ ( جنگ بدر میں ) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انہیں پہنچ چکی تھی ۔ فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ [ النساء 62] تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے ۔ وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 166] اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی ۔ وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری 30] اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے ۔ اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیرو شر دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ [ التوبة 50] اے پیغمبر اگر تم کو اصائش حاصل ہوتی ہے تو ان کی بری لگتی ہے اور اگر مشکل پڑتی ہے ۔ وَلَئِنْ أَصابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللَّهِ [ النساء 73] ، اور اگر خدا تم پر فضل کرے فَيُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشاءُ وَيَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ يَشاءُ [ النور 43] تو جس پر چاہتا ہے اس کو برسادیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے پھیر دیتا ہے ۔ فَإِذا أَصابَ بِهِمَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ [ الروم 48] پھر جب وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اسے برسا دیتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ جباصاب کا لفظ خیر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے تو یہ صوب بمعنی بارش سے مشتق ہوتا ہے اور جب برے معنی میں آتا ہے تو یہ معنی اصاب السمھم کے محاورہ سے ماخوز ہوتے ہیں مگر ان دونوں معانی کی اصل ایک ہی ہے ۔- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122]- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری : الذین اذا اصابتھم مصیبۃ قالو انا للہ وانا الیہ راجعون سے مراد۔ واللہ اعلم۔- اس حالت میں ان کی طرف سے اللہ کے لیے عبودیت اور اس کی مالکیت کا اقرار ہے۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ جس طرح چاہے انہیں آزما سکتا ہے تاکہ انہیں صبر کرنے کا ثواب عطا کرے اور ان کی ان کمزوریوں کی اصلاح کردے جن کا اسے علم ہے کیونکہ خیروصلاح کے کام کے سلسلے میں اللہ سبحانہ کی ذات پر کوئی الزام عائد نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے کہ اس کے تمام افعال حکمت پر مبنی ہوتے ہیں اس طرح مذکورہ حالت کے اندر بندوں کی طرف سے عبودیت کا اقرار دراصل اپنا معاملہ اس کے سپرد کردینے اور آزمائش میں اس کے فیصلوں کے سامنے سر تسلیم خم کردینے کے مترادف ہے۔ جس طرح ارشاد ہے واللہ یقضی بالحق والذین یدعون من دونہ لا یقصون بشئی ( اللہ تعالیٰ مبنی برحق فیصلے کرتا ہے اور اس کے سوا جن کو یہ پکارتے ہیں وہ کسی چیز کا فیصلہ نہیں کرسکتے) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کا قول ہے میرے لئے آسمان سے گر جانا اس امر سے بڑھ کر پسندیدہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی فیصلے کے بارے میں لب کشائی کروں اور کہوں کاش ایسا فیصلہ نہ ہوتا۔- قول باری ہے : انا للہ وانا الیہ راجعون ( ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور اس کی طرف ہی لوٹ کر جانے والے ہیں) اس میں بعث و نشور کا اقرار اور اس امر کا) اعتراف ہے کہ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو ان کے استحقاق کے مطابق بدلہ دے گا اور اس طرح اس کے ہاں نیکو کاروں کا اجر ضائع نہیں ہوگا۔ آگے اللہ نے ان نعمتوں کا ذکر فرمایا جو شدائد پر صبر کرنے والوں کے لئے اس کے ہاں ہیں۔ ارشاد ہوا : اولئک علیھم صلوات من ربھم ورحمۃ واولئک ھم المھتدون ( ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایت ہوں گی، اس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رد ہیں) یعنی ان کے رب کی طرف سے ان پر برکتیں اور رحمتیں نازل ہوں گی اور ان کا رب ان کے صبر کو سرا ہے گا۔ یہ ایسی نعمتیں ہیں جن کی قدروقیمت کا اندازہ ذات باری کے سوا کسی اور کو نہیں ہے۔- ایک اور آیت میں ارشاد ہوا : انما یوفی الصابرون اجرھم بغیر حساب۔ ( بیشک صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بےحساب دیاجائے گا) زیر بحث آیت میں مذکورہ مصائب شدائد کی چند صورتیں وہ تھیں جو صحابہ کرام کے ساتھ مشرکین کے سلوک اور رویے کے سبب سے سامنے آنے والی تھیں اور چند صورتیں وہ تھیں جو اللہ کی طرف سے آزمائش کی شکل میں ظہور پذیر ہوئیں۔- مشرکین کے رویے کا اظہار تو یوں ہوا کہ مدینہ کے مہاجرین اور انصار کے سوا پورا عرب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دشمنی پر کمر بستہ ہوگیا تھا اور جس سے جوبن پڑا اس نے اپنے دل میں لگی ہوئی عداوت کی آگ بجھانے کے لئے کیا۔- آیت میں جس خوف کا ذکر ہے اس سے مراد صحابہ کرام (رض) کو لاحق ہونے والا وہ خوف ہے جو اپنی قلت اور دشمنوں کی کثرت تعداد کی وجہ سے انہیں لگا رہتا تھا۔- آیت میں جس جوع یعنی بھوک کا ذکر ہے اس کی وجہ یہ تھی کہ صحابہ کرام (رض) تنگدست تھے اور انہیں فقرو فاقہ کے مراحل سے گزرنا پڑا تھا۔ فقرو فاقہ کے بارے میں یہ کہنا ممکن ہے کہ کبھی یہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے، وہ اس طرح کہ صحابہ کرام کے اموال تلف ہوجاتے اور اس کے نتیجے میں وہ فقر و فاقہ سے دوچار ہوجاتے۔ اس بارے میں یہ کہنا بھی ممکن ہے کہ دشمنوں کی وجہ سے بھی انہیں فقرو فاقہ کی تکلیف اٹھانی پڑی، یعنی ان پر دشمنوں کا غلبہ ہوجاتا۔- آیت میں جان و مال کے نقصانات اور پھلوں کی پیداوار میں کمی کا جو ذکر ہوا ہے اس میں دو احتمال ہے۔ مال کے نقصانات کے بارے میں یہ کہنا ممکن ہے کہ دشمن ان کا سبب ہوتا ہے، اسی طرح پھلوں کی پیداوار میں کمی کے سلسلے میں یہ کہنا درست ہے کہ حضرات صحابہ کرام (رض) دشمنوں کے ساتھ جنگوں میں مصروفیت کی بنا پر درختوں اور اراضی کی دیکھ بھال نہ کرسکتے اور اس طرح پیداوار میں کمی واقع ہوجاتی۔ یہ بھی کہنا درست ہے کہ آفات سماوی کی بنا پر فصلوں اور پھلوں کو نقصان پہنچ جاتا۔- جہاں تک جان کے نقصانات کا تعلق ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ صحابہ کرام میدان جنگ میں جان کی قربانی پیش کرتے، اور یہ مراد بھی درست ہے کہ ان میں سے بہت سے حضرات طبعی موت کی بنا پر اس دنیا سے رخصت ہوجاتے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی ان آزمائشوں پر صبر کا مفہوم تسلیم و رضا ہے نیز اس بات کا علم کہ اللہ کے ہر کام میں بھلائی اور اس کے ہر کام میں بندوں کے لیے خیر کا پہلو ہوتا ہے نیز کسی چیز سے محروم کردینا بھی اس کی عطا میں شمار ہوتا ہے۔- دشمنوں کی طرف سے ایذا رسانیوں پر صبر سے مراد یہ ہے کہ صحابہ کرام ان کے خلاف جہادپر ثابت قدم رہے نیز اللہ کے دین کے ساتھ اپنی وابستگی مستحکم رکھتے اور مصائب کی شدت میں بھی اللہ کی اطاعت سے روگردانی نہ کرتے۔- یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ مشرکین کے ظلم اور کفر کے ذریعے ابتلاء اور آزمائش کا ارادہ کرتا ہے کیونکہ اللہ سبحانہ کسی کو کفر کے ذریعے نہیں آزماتا۔ اگر اللہ تعالیٰ کفر اور ظلم کے ذریعے آزماتا تو اس پر رضا مند ہونا واجب ہوتا جیسا کہ مشرکین کا دعویٰ تھا کہ وہ ان کے کفر اور ظلم پر رضا مند ہے۔- زیر بحث آیت دنیا کے شدائد و مصائب پر صبر کرنے والوں کی تعریف اور ان کی مدح کو متضمن ہے، نیز دنیا دنیا میں ان کے لئے ثواب ، ثنائے جمیل اور نفع عظیم کے وعدوں کو بھی متضمن ہے۔ دنیا میں ان وعدوں کا ظہور اس طرح ہوتا ہے کہ اللہ کے حکموں پر چلنے کی وجہ سے صبر کرنے والے کی تعریف ہوتی ہے اور اہل ایمان کے دلوں میں اس کا مقام بہت بلند ہوجاتا ہے، نیز صبر کرنے والا جب اپنے اچھے انجام اور عمدہ مقام کے بارے میں سوچتا ہے تو اسے غم اور پریشانی سے ایک گونہ تسلی ہوتی ہے اور وہ گھبراہٹ دور ہوجاتی ہے جو بعض دفعہ اپنی جان کو نقصان پہچانے اور اسے ختم کردینے کا سبب بن جاتی ہے۔ آخرت میں اس وعدے کا ظہور ثواب جزیل کی صورت میں ہوگا جس کی مقدار کا اندازہ اس کے سوا کسی کو نہیں ہے۔- ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ زیر بحث آیت دو حکموں پر مشتمل ہے ایک حکم فرض ہے اور دوسرا نفل۔ فرض تو یہ ہے کہ اللہ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کردیاجائے اور اس کے عائد کردہ فرائض کی ادائیگی میں ایسی ثابت قدمی دکھائی جائے کہ دنیا کے مصائب و شدائد بندے کو اس مقام سے ہٹا نہ سکیڈ۔ نفلی حکم یہ ہے کہ انا للہ انا الیہ راجعون کا فقرہ اپنی زبان سے ادا کیا جائے اس فقرے کی ادائیگی کے بڑے فوائد ہیں۔ ایک فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے اس فعل کی ادائیگی ہوگی جس کی اللہ نے ترغیب دی ہے اور اس پر ثواب کا وعدہ فرمایا ہے دوسرا یہ کہ سننے والا یہ فقرہ سنے گا تو اس کی پیروی کرے گا ۔ تیسرا فائدہ یہ ہے کہ یہ فقرہ سن کر کافروں کا غصہ اور رنج بڑھے گا انہیں اس بات سے پریشانی ہوگی کہ مسلمان اللہ کی اطاعت اور اللہ کے دشمنوں کے خلاف جہاد کرنے پر ثابت قدم ہیں۔- دائود طائی سے منقول ہے کہ دنیا سے بےرغبت انسان ، یعنی زاہد دنیا میں بقاء کو پسند نہیں، اور رضا بقضا ( اللہ کے فیصلوں پر رضا مند رہنا) افضل ترین عمل ہے۔ مسلمان کو مصیبت پر غمگین نہیں ہونا چاہیے۔ صابر ہر مصیبت پر ثواب کا مستحق قرار پاتا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٥٦) اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان مذکورہ حضرات کو جن کی شان یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں اور مرنے کے بعد اسی کے سامنے جائیں گے اور اگر ہم اس کے فیصلہ پر راضی نہیں ہوں گے تو وہ ہمارے عملوں سے خوش نہیں ہوگا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٦ (الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ لا) (قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ ) - آخر کار تو یہاں سے جانا ہے ‘ اگر کل کی بجائے ہمیں آج ہی بلا لیا جائے تب بھی حاضر ہیں۔ بقول اقبال : ؂- نشان مرد مؤمن با تو گویم - چوں مرگ آید تبسم بر لب اوست - یعنی مرد مؤمن کی تو نشانی ہی یہی ہے کہ جب موت آتی ہے تو مسرتّ کے ساتھ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آجاتی ہے۔ وہ دنیا سے مسکراتا ہوا رخصت ہوتا ہے۔ یہ ایمان کی علامت ہے اور بندۂ مؤمن اس دنیا میں زیادہ دیر تک رہنے کی خواہش نہیں کرسکتا۔ اسے معلوم ہے کہ وہ دنیا میں جو لمحہ بھی گزار رہا ہے اسے اس کا حساب دینا ہوگا۔ تو جتنی عمر بڑھ رہی ہے حساب بڑھ رہا ہے۔ چناچہ حدیث میں دنیا کو مؤمن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت قرار دیا گیا ہے : (اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّۃُ الْکَافِرِ ) (١٨)

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :156 کہنے سے مراد صرف زبان سے یہ الفاظ کہنا نہیں ہے ، بلکہ دل سے اس بات کا قائل ہونا ہے کہ” ہم اللہ ہی کے ہیں“ ، اس لیے اللہ کی راہ میں ہماری جو چیز بھی قربان ہوئی ، وہ گویا ٹھیک اپنے مَصْرَف میں صرف ہوئی ، جس کی چیز تھی اسی کے کام آگئی ۔ اور یہ کہ” اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹنا ہے“ ، یعنی بہرحال ہمیشہ اس دنیا میں رہنا نہیں ہے ۔ آخر کار ، دیر یا سویر ، جانا خدا ہی کے پاس ہے ۔ لہٰذا کیوں نہ اس کی راہ میں جان لڑا کر اس کے حضُور حاضر ہوں ۔ یہ اس سے لاکھ درجہ بہتر ہے کہ ہم اپنے نفس کی پرورش میں لگے رہیں اور اسی حالت میں ، اپنی موت ہی کے وقت پر کسی بیماری یا حادثے کے شکار ہو جائیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

102: اس فقرے میں پہلے تو اس حقیقت کا اظہار ہے کہ چونکہ ہم سب اللہ کی ملکیت میں ہیں اس لئے اسے ہمارے بارے میں ہر فیصلہ کرنے کا اختیار ہے اور چونکہ ہم اس کے ہیں اور کوئی بھی اپنی چیز کا برا نہیں چاہتا، اس لئے ہمارے بارے میں اس کا ہر فیصلہ خود ہماری مصلحت میں ہوگا، چاہے فی الحال ہمیں وہ مصلحت سمجھ میں نہ آرہی ہو، دوسری طرف اس حقیقت کا اظہار ہے کہ ایک دن ہمیں بھی اللہ تعالیٰ کے پاس اسی جگہ جانا ہے جہاں ہمارا کوئی عزیز یا دوست گیا ہے، لہذا یہ جدائی عارضی ہے ہمیشہ کے لئے نہیں ہے اور جب ہم اس کے پاس لوٹ کرجائیں گے تو ہمیں اس صدمے یا تکلیف پر انشاء اللہ ثواب بھی ملنا ہے، جب یہ اعتقاد دل میں ہو تو اسی کا نام صبر ہے، خواہ اس کے ساتھ ساتھ بے اختیار آنسوں بھی نکل رہے ہوں۔