Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

وفائے عہد کے آزمائش لازم ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ اپنے بندوں کی آزمائش ضرور کر لیا کرتا ہے کبھی ترقی اور بھلائی کسے ذریعہ اور کبھی تنزل اور برائی سے ، جیسے فرماتا ہے آیت ( وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتّٰى نَعْلَمَ الْمُجٰهِدِيْنَ مِنْكُمْ وَالصّٰبِرِيْنَ ۙ وَنَبْلُوَا۟ اَخْبَارَكُمْ ) 47 ۔ محمد:31 ) یعنی ہم آزما کر مجاہدوں اور صبر کرنے والوں کو معلوم کرلیں گے اور جگہ ہے آیت ( فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ ) 6 ۔ النحل:112 ) مطلب یہ ہے کہ تھوڑا سا خوف ، کچھ بھوک ، کچھ مال کی کمی ، کچھ جانوں کی کمی یعنی اپنوں اور غیر خویش و اقارب ، دوست و احباب کی موت ، کبھی پھلوں اور پیداوار کی نقصان وغیرہ سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزما لیتا ہے ، صبر کرنے والوں کو نیک اجر اور اچھا بدلہ عنایت فرماتا ہے اور بےصبر جلد باز اور ناامیدی کرنے والوں پر اس کے عذاب اتر آتے ہیں ۔ بعض سلف سے منقول ہے کہ یہاں خوف سے مراد اللہ تعالیٰ کا ڈر ہے ، بھوک سے مراد روزوں کی بھوک ہے ، مال کی کمی سے مراد زکوٰۃ کی ادائیگی ہے ، جان کی کمی سے مراد بیماریاں ہیں ، پھلوں سے مراد اولاد ہے ، لیکن یہ تفسیر ذرا غور طلب ہے واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٩٥] یہ خطاب مسلمانوں سے ہے۔ خوف سے مراد وہ ہنگامی صورت حال ہے جو جنگ احزاب سے پہلے ہر وقت مدینہ کی آزاد چھوٹی سی ریاست کے گرد منڈلاتی رہتی تھی۔ ایک دفعہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کاش آج رات کوئی میرا پہرہ دے تاکہ میں سو سکوں۔ یہ سن کر حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) مسلح ہو کر آگئے اور کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں پہرہ دیتا ہوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سو جائیں۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرح آرام فرمایا۔ (بخاری، کتاب الجہاد، باب الحراسہ فی الغزو فی سبیل اللّٰہ عزوجل، بخاری کتاب التمنی باب قولہ النبی لیت کذا وکذا) اور ایک رات اہل مدینہ ایک خوفناک آواز سن کر گھبرا گئے، پھر وہ اس آواز کی طرف روانہ ہوئے تو دیکھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ادھر سے واپس آ رہے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے پہلے ہی اس آواز کی جانب روانہ ہوگئے تھے اور خبر معلوم کر کے آ رہے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں سے کہا ڈرو نہیں، ڈرو نہیں۔- (بخاری، کتاب الجہاد، باب الحمائل و تعلیق السیف بالعنق اور مبادرۃ الامام عند الفزع اور مسلم کتاب الفضائل باب شجاعۃ النبی) - اور اس دور میں مسلمانوں کی معاشی تنگ دستی کا حال درج ذیل احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔ - ١۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے صفہ والوں میں ستر آدمی ایسے دیکھے جن کے پاس چادر تک نہ تھی یا تو فقط تہبند تھا یا فقط کمبل۔ جسے انہوں نے گردن سے باندھ رکھا تھا۔ جو کسی کی آدھی پنڈلیوں تک پہنچتا اور کسی کے ٹخنوں تک، جسے وہ اپنے ہاتھ سے سمیٹتے رہتے۔ اس ڈر سے کہ کہیں ان کا ستر نہ کھل جائے۔ (بخاری، کتاب الصلٰوۃ، باب نوم الرجال فی المسجد) - ٢۔ حضرت عائشہ (رض) نے اپنے بھانجے عروہ بن زبیر (رض) سے کہا کہ : میرے بھانجے ہم پر ایسا وقت گزر چکا ہے کہ ہم ایک چاند دیکھتے، پھر دوسرا چاند، پھر تیسرا چاند یعنی دو دو مہینے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر میں آگ نہیں جلتی تھی۔ عروہ (رض) نے کہا : خالہ پھر تمہاری گزر کس چیز پر ہوتی تھی ؟ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : انہی دو کالی چیزوں یعنی کھجور اور پانی پر۔ اتنا ضرور تھا کہ چند انصاری لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمسائے تھے جن کے پاس بکریاں تھیں۔ وہ آپ کے لیے بکریوں کا دودھ تحفہ کے طور پر بھیجا کرتے جس سے ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی پلاتے۔ (بخاری۔ کتاب الھبۃ و فضلھا و التحریض علیھا) - ٣۔ حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آل پر آپ کی وفات تک ایسا زمانہ نہیں گزرا کہ انہوں نے مسلسل تین دن پیٹ بھر کر کھانا کھایا ہو۔ (بخاری، کتاب الاطعمہ باب قول اللہ تعالیٰ کلوا من طیبات مارزقنکم وکلوا من طیبات ما کسبتم) - ٤۔ حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے بھوک لگی ہوئی تھی۔ مجھے حضرت عمر (رض) ملے تو ان سے کہا کہ قرآن پاک کی فلاں آیت : ( وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰي حُبِّهٖ مِسْكِيْنًا وَّيَـتِـيْمًا وَّاَسِيْرًا ۝) 76 ۔ الإنسان :8) مجھے پڑھ کر سناؤ، وہ اپنے گھر میں گئے اور یہ آیت مجھے پڑھ کر سنائی اور سمجھائی۔ آخر میں وہاں سے چلا۔ تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ بھوک سے بےحال ہو کر اوندھے منہ گرپڑا۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے سرہانے کھڑے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اٹھایا اور پہچان گئے کہ بھوک کے مارے میرا یہ حال ہے۔ آپ مجھے گھر لے گئے اور میرے لیے دودھ کا پیالہ لانے کا حکم دیا۔ میں نے دودھ پیا، پھر فرمایا ابوہریرہ اور پی، میں نے اور پیا۔ پھر فرمایا : اور پی۔ میں نے اور پیا حتیٰ کہ میرا پیٹ تن کر سیدھا ہوگیا۔ پھر میں حضرت عمر (رض) سے ملا اور اپنا حال بیان کیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے میری بھوک دور کرنے کے لیے ایسے شخص کو بھیج دیا جو آپ سے اس بات کے زیادہ لائق تھے اللہ کی قسم میں نے آپ سے جونسی آیت پڑھ کر سنانے کو کہا تھا۔ وہ مجھے آپ سے زیادہ یاد تھی۔ حضرت عمر (رض) کہنے لگے، اللہ کی قسم اگر میں اس وقت تمہیں گھر لے جا کر کھانا کھلاتا تو سرخ اونٹوں کے ملنے سے بھی زیادہ خوشی ہوتی۔ (بخاری، کتاب قول اللّٰہ تعالیٰ کلوا من طیبات ما رزقناکم) - ٥۔ سعد بن ابی وقاص (رض) کہتے ہیں کہ میں پہلا عرب ہوں جس نے اللہ کی راہ میں تیر چلایا اور ہم نے اپنے تئیں اس وقت جہاد کرتے پایا جب ہم کو حبلہ اور سمر (کانٹے دار درخت) کے پتوں کے سوا اور خوراک نہ ملتی۔ ہم لوگوں کو اس وقت بکری کی طرح سوکھی مینگنیاں آیا کرتیں جن میں تری نام کی کوئی چیز نہ ہوتی۔- (بخاری، کتاب الرقاق، (باب کیف کان عیش النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و اصحابہ۔۔ ) - ٦۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) فرماتے ہیں کہ ہم چھ آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک لڑائی کو نکلے۔ سواری کے لیے ہم سب کے پاس ایک ہی اونٹ تھا اور باری باری اس پر سوار ہوتے اور چلتے چلتے ہمارے پاؤں پھٹ گئے اور میرے تو پاؤں پھٹ کر ناخن بھی گرپڑے۔ اس حال میں ہم پاؤں پر چیتھڑے لپیٹ لیتے۔ اسی لیے اس لڑائی کا نام غزوہ ذات الرقاع (چیتھڑوں والی لڑائی پڑگیا (بخاری، کتاب المغازی باب غزوۃ ذات الرقاع) - ٧۔ حضرت جابر بن عبداللہ انصاری (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے ایک لشکر سمندر کے کنارے بھیجا جس میں تین سو آدمی اور سردار ابو عبیدہ بن الجراح (رض) تھے۔ ہمارا راشن ختم ہوگیا تو ابو عبیدہ (رض) نے حکم دیا کہ سب لوگ اپنا اپنا بچا ہوا راشن ایک جگہ جمع کریں۔ یہ سارا راشن کھجور کے دو تھیلے تھے ابو عبیدہ (رض) اس سے تھوڑا تھوڑا کھانے کو دیتے رہے۔ جب وہ بھی ختم ہوگیا تو ہمیں روزانہ صرف ایک کھجور کھانے کو ملا کرتی۔ وہب نے جابر (رض) سے پوچھا بھلا ایک کھجور سے کیا بنتا ہوگا۔ جابر (رض) کہنے لگے کہ وہ ایک کھجور بھی غنیمت تھی، جب وہ بھی نہ رہی تو ہمیں اس کی قدر معلوم ہوئی۔ پھر ہم سمندر پر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بہت بڑی مچھلی ٹیلے کی طرح پڑی ہے۔ سارا لشکر اٹھارہ دن اس کا گوشت کھاتا رہا، جب ہم چلنے لگے تو ابو عبیدہ (رض) نے حکم دیا کہ اس کی دو پسلیاں کھڑی کی جائیں وہ اتنی اونچی تھیں کہ اونٹ پر کجاوہ کسا گیا تو وہ ان کے نیچے سے نکل گیا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی باب غزوۃ سیف البحر) - خوف کے علاوہ فاقہ، جان و مال اور پھلوں میں خسارہ یہ سب ایسی صورتیں ہیں جو اسلام کی راہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کو پیش آتی رہیں۔ اسی لیے انہیں صبر اور نماز سے مدد لینے کی ہدایت کی گئی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

مصیبت ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے انسان کو اذیت پہنچے، وہ خواہ کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو۔ (قرطبی، شوکانی) (اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ ) یہ ایک ایسا کلمہ ہے کہ دل کی حاضری سے کہا جائے تو اس میں اس بات کا اظہار بھی ہے کہ ہم اللہ کی ملکیت اور اس کے بندے ہیں اور اس کا بھی کہ ہمیں ہر حال میں اس کے پاس واپس جانا ہے۔ وہ جب چاہے، جسے چاہے واپس بلائے، اس پر شکوہ و شکایت کا کیا موقع ہے ؟ اس سے انسان کو صبر کی توفیق ملتی ہے اور صبر کرنے والوں کو تین نعمتیں ملتی ہیں : 1 رب کی مہربانیاں۔ 2 اس کی بہت بڑی رحمت ( َرَحْمَةٌ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے) ۔ اور ہدایت یافتہ ہونے کی سند۔ قرآن مجید میں صبر کا ذکر ستر (٧٠) دفعہ آیا ہے۔ - الَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْهُمْ مُّصِيْبَةٌ اس میں لفظ ” اِذَآ “ میں اشارہ ہے کہ مصیبت پہنچتے ہی صبر کرنا اور ” اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ “ کہنا چاہیے، بعد میں رو دھو کر تو ہر شخص ہی صبر کرلیتا ہے۔ انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الْأُوْلٰی ) [ بخاری، الجنائز، باب زیارۃ القبور : ١٢٨٣ ] ” صبر صرف وہ ہے جو پہلی چوٹ کے وقت ہو۔ “- ام المومنین ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کہتے ہوئے سنا : ” کوئی مسلمان جسے کوئی مصیبت پہنچے اور وہ وہی کلمہ کہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا ہے (یعنی یہ دعا پڑھے) : ( إِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ، اَللّٰہُمَّ أْجُرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَ أَخْلِفْ لِیْ خَیْرًا مِّنْہَا ) (یقیناً ہم اللہ تعالیٰ ہی کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں، اے اللہ مجھے میری مصیبت میں اجر عطا فرما اور مجھے اس کی جگہ اس سے بہتر عطا فرما) تو اللہ تعالیٰ اسے اس سے بہتر عطا فرماتا ہے۔ “ ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں کہ پھر جب (میرے خاوند) ابو سلمہ (رض) فوت ہوئے تو میں نے کہا مسلمانوں میں ابو سلمہ (رض) سے بہتر کون ہوگا ؟ پہلا گھرانہ جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہجرت کی۔ پھر میں نے یہ (مذکورہ بالا) کلمہ کہہ لیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی جگہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عطا فرما دیے۔ [ مسلم، الجنائز، باب ما یقال عند المصیبۃ : ٩١٨ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ۝ ٠ ۭ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ۝ ١٥٥ ۙ- بلی - يقال : بَلِيَ الثوب بِلًى وبَلَاءً ، أي : خلق، ومنه قيل لمن سافر : بلو سفر وبلي سفر، أي : أبلاه السفر، وبَلَوْتُهُ : اختبرته كأني أخلقته من کثرة اختباري له، وقرئ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ [يونس 30] ، أي : تعرف حقیقة ما عملت، ولذلک قيل : بلوت فلانا : إذا اختبرته، وسمّي الغم بلاءً من حيث إنه يبلي الجسم، قال تعالی: وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] - ( ب ل ی )- بلی الوکب ۔ بلی وبلاء کے معنی کپڑے کا بوسیدہ اور پرانا ہونے کے ہیں اسی سے بلاہ السفرہ ای ابلاہ ۔ کا تج اور ہ ہے ۔ یعنی سفر نے لا غر کردیا ہے اور بلو تہ کے معنی ہیں میں نے اسے آزمایا ۔ گویا کثرت آزمائش سے میں نے اسے کہنہ کردیا اور آیت کریمہ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ «3» [يونس 30] وہاں ہر شخص ( اپنے اعمال کی ) جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت نبلوا ( بصیغہ جمع متکلم ) بھی ہے اور معنی یہ ہیں کہ وہاں ہم ہر نفس کے اعمال کی حقیقت کو پہنچان لیں گے اور اسی سے ابلیت فلان کے معنی کسی کا امتحان کرنا بھی آتے ہیں ۔ اور غم کو بلاء کہا جاتا ہے کیونکہ وہ جسم کو کھلا کر لاغر کردیتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی دسخت آزمائش تھی ۔- خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - جوع - الجُوع : الألم الذي ينال الحیوان من خلّو المعدة من الطعام، والمَجَاعة : عبارة عن زمان الجدب، ويقال : رجل جائع وجوعان : إذا کثر جو عه .- ( ج و ع ) الجوع - ۔ وہ تکلیف جو کسی حیوان کو معدہ کے طعام سے خالی ہونے کی وجہ پہنجتی ہے المجاعۃ خشک سالی کا زمانہ ۔ کہا جاتا ہےء رجل جائع بھوکا آدمی اور جب بہت زیادہ بھوکا ہو تو اسے جو عان کہا جاتا ہے ۔- نقص - النَّقْصُ : الخُسْرَانُ في الحَظِّ ، والنُّقْصَانُ المَصْدَرُ ، ونَقَصْتُهُ فهو مَنْقُوصٌ. قال تعالی: وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوالِ وَالْأَنْفُسِ [ البقرة 155] ، وقال : وَإِنَّا لَمُوَفُّوهُمْ نَصِيبَهُمْ غَيْرَ مَنْقُوصٍ [هود 109] ،- ( ن ق ص ) النقص - ( اسم ) حق تلفی اور یہ نقصتہ ( ن ) فھو منقو ص کا مصدر بھی ہے جس کے معنی گھٹانے اور حق تلفی کر نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوالِ وَالْأَنْفُسِ [ البقرة 155] اور جانوں اور مالوں ۔۔۔۔ کے نقصان سے وَإِنَّا لَمُوَفُّوهُمْ نَصِيبَهُمْ غَيْرَ مَنْقُوصٍ [هود 109] اور ہم ان کو ان کا حصہ پورا پوارا کم وکاست دینے والے ہیں ۔ - ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین،- والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں - اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - نفس - الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . - ( ن ف س ) النفس - کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔- ثمر - الثَّمَرُ اسم لكلّ ما يتطعم من أحمال الشجر، الواحدة ثَمَرَة، والجمع : ثِمَار وثَمَرَات، کقوله تعالی: أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقاً لَكُمْ [ البقرة 22]- ( ث م ر ) الثمر - اصل میں درخت کے ان اجزاء کو کہتے ہیں جن کو کھایا جاسکے اس کا واحد ثمرۃ اور جمع ثمار وثمرات آتی ہے قرآن میں ہے :۔ أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقاً لَكُمْ [ البقرة 22] اور آسمان سے مبینہ پرسا کر تمہارے کھانے کے لئے انواع و اقسام کے میوے پیدا کیے ۔ - بشر - واستبشر :- إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] .- ( ب ش ر ) البشر - التبشیر - کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ فَبَشِّرْ عِبَادِ ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔- لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔- وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا - صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے : ولنبلونکم بشئی من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس والثمرات وبشر الصابرین الذین اذا اصابتھم مصیبۃ قالو ا انا للہ وانا الیہ راجعون ( اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدینوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمہاری آزمائش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے، انہیں خوشخبری دے دو ( تا قول باری : واولئک ھم المھتدون ( اور یہی ہیں ہدایت یافتہ) عطاء الربیع اور حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ اس خطاب سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد الہجرۃ صحابہ کرام مراد ہیں۔- ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ اللہ سبحانہ نے پہلے ہی ان سے وہ باتیں بیان کردیں جو ہجرت کے بعد انہیں اللہ کی راہ میں تکلیفوں اور سختیوں کی صورت میں پیش آنے والی تھیں۔ اس بیان کی دو وجہیں بیان ہوسکتی ہیں ۔ اول یہ کہ حضرات صحابہ کرام (رض) ان باتوں کے پیشگی سماع سے اپنی طبیعتوں کو سختیوں پر صبر کرنے کا عادی بنالیں تاکہ جب یہ مشکلات پیش آئیں تو ان پر بہ آسانی صبر کرسکیں۔- دوم یہ کہ نفس کا صبر کا عادی بنانے پر انہیں فوری طورپر اس کا ثواب مل جائے۔ قول باری وبشر الصابرین۔ یعنی ان لوگوں کو بشارت دیجئے جو مذکورہ شدائد پر صبر کرنے والے ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٥٥) اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس آزمائش کا ذکر فرماتے ہیں جو اس نے مومنین کی آزمائش فرمائی ہے کہ ہم تمہیں دشمن کے خوف قحط سالی اور مالوں کے خاتمہ اور جانوں کے قتل ہوجانے اور مرجانے اور بیماریوں کے لاحق ہونے اور پھلوں کے ختم ہوجانے سے آزمائیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٥ (وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ ) - دیکھ لو ‘ جس راہ میں تم نے قدم رکھا ہے یہاں اب آزمائشیں آئیں گی ‘ تکلیفیں آئیں گی۔ رشتہ دار ناراض ہوں گے ‘ شوہر اور بیوی کے درمیان تفریق ہوگی ‘ اولاد والدین سے جدا ہوگی ‘ فساد ہوگا ‘ فتور ہوگا ‘ تصادم ہوگا ‘ جان و مال کا نقصان ہوگا۔ ہم خوف کی کیفیت سے بھی تمہاری آزمائش کریں گے اور بھوک سے بھی۔ چناچہ صحابہ کرام (رض) نے کیسی کیسی سختیاں جھیلیں اور کئی کئی روز کے فاقے برداشت کیے۔ غزوۂ احزاب میں کیا حالات پیش آئے ہیں اس کے بعد جیش العسرۃ (غزوۂ تبوک) میں کیا کچھ ہوا ہے - (وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ) - مالی اور جانی نقصان بھی ہوں گے اور ثمرات کا نقصان بھی ہوگا۔ ثمرات یہاں دو معنی دے رہا ہے۔ مدینہ والوں کی معیشت کا دار و مدار زراعت اور باغبانی پر تھا۔ خاص طور پر کھجور ان کی پیداوار تھی ‘ جسے آج کی اصطلاح میں کہا جائے گا۔ اب ایسا بھی ہوا کہ فصل پک کر تیار کھڑی ہے اور اگر اسے درختوں سے اتارا نہ گیا تو ضائع ہوجائے گی ‘ ادھر سے غزوۂ تبوک کا حکم آگیا کہ نکلو اللہ کی راہ میں تو یہ امتحان ہے ثمرات کے نقصان کا۔ اس کے علاوہ ثمرات کا ایک اور مفہوم ہے۔ انسان بہت محنت کرتا ہے ‘ جدوجہد کرتا ہے ‘ ایک کیریئر اپناتا ہے اور اس میں اپنا ایک مقام بنا لیتا ہے۔ لیکن جب وہ دین کے راستے پر آتا ہے تو کچھ اور ہی شکل اختیار کرنی پڑتی ہے۔ چناچہ اپنی تجارت کے جمانے میں یا کسی پروفیشن میں اپنا مقام بنانے میں اس نے جو محنت کی تھی وہ سب کی سب صفر ہو کر رہ جاتی ہے ‘ اور اپنی محنت کے ثمرات سے بالکل تہی دامن ہو کر اسے اس وادی میں آنا پڑتا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani