Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

پھر فرمایا کہ شہیدوں کو مردہ نہ کہو بلکہ وہ ایسی زندگی میں ہیں جسے تم نہیں سمجھ سکتے انہیں حیات برزخی حاصل ہے اور وہاں وہ خورد و نوش پا رہے ہیں ، صحیح مسلم شریف میں ہے کہ شہیدوں کی روحیں سبز رنگ کے پرندوں کے قالب میں ہیں اور جنت میں جس جگہ چاہیں چرتی چگتی اڑتی پھرتی ہیں پھر ان قندیلوں میں آ کر بیٹھ جاتی ہیں جو عرش کے نیچے لٹک رہی ہیں ان کے رب نے ایک مرتبہ انہیں دیکھا اور ان سے دریافت کیا کہ اب تم کیا چاہتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا اللہ ہمیں تو تو نے وہ وہ دے رکھا ہے جو کسی کو نہیں دیا پھر ہمیں کس چیز کی ضرورت ہو گی؟ ان سے پھر یہی سوال ہوا جب انہوں نے دیکھا کہ اب ہمیں کوئی جواب دینا ہی ہو گا تو کہا اللہ ہم چاہتے ہیں کہ تو ہمیں دوبارہ دنیا میں بھیج ہم تیری راہ میں پھر جنگ کریں پھر شہید ہو کر تیرے پاس آئیں اور شہادت کا دگنا درجہ پائیں ، رب جل جلالہ نے فرمایا یہ نہیں ہو سکتا یہ تو میں لکھ چکا ہوں کہ کوئی بھی مرنے کے بعد دنیا کی طرف پلٹ کر نہیں جائے گا مسند احمد کی ایک اور حدیث میں ہے کہ مومن کی روح ایک پرندے میں ہے جو جنتی درختوں پر رہتی ہے اور قیامت کے دن وہ اپنے جسم کی طرف لوٹ آئے گی ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر مومن کی روح وہاں زندہ ہے لیکن شہیدوں کی روح کو ایک طرح کی امتیازی شرافت کرامت عزت اور عظمت حاصل ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

154۔ 1 شہدا کو مردہ نہ کہنا ان کے اعزاز اور تکریم کے لئے ہے، یہ زندگی برزخ کی زندگی ہے جس کو ہم سمجھنے سے قاصر ہیں یہ زندگی اعلٰے قدر مراتب انبیاء و مومنین، حتیٰ کہ کفار کو بھی حاصل ہے۔ شہید کی روح اور بعض روایات میں مومن کی روح بھی ایک پرندے کی طرح جنت میں جہاں چاہتی ہیں پھرتی ہیں دیکھیے (ھٰٓاَنْتُمْ اُولَاۗءِ تُحِبُّوْنَھُمْ وَلَا يُحِبُّوْنَكُمْ وَتُؤْمِنُوْنَ بالْكِتٰبِ كُلِّھٖ ۚوَاِذَا لَقُوْكُمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا ۑ وَاِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَيْكُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ ۭ قُلْ مُوْتُوْا بِغَيْظِكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌۢ بِذَات الصُّدُوْرِ 119؁) 003:119 (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٩٤] کیونکہ موت کا لفظ اور اس کا تصور انسان کے ذہن پر ایک ہمت شکن اثر ڈالتا ہے اور لوگوں میں جذبہ جہاد فی سبیل اللہ کے سرد پڑجانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ لہذا شہداء کو مردہ کہنے سے روک دیا گیا۔ علاوہ ازیں یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ شہید کی موت قوم کی حیات کا سبب بنتی ہے اور شہید دراصل حیات جاوداں پا لیتا ہے اور اس سے روح شجاعت بھی تازہ رہتی ہے۔- صحیح احادیث میں وارد ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ شہداء کی روحیں سبز پرندوں کے جسم میں ہوتی ہیں اور ان کے لیے عرش کے ساتھ کچھ قندیلیں لٹکی ہوئی ہیں۔ یہ روحیں جنت میں جہاں چاہتی ہیں سیر کرتی پھرتی ہیں۔ پھر ان قندیلوں میں واپس آجاتی ہیں۔ (مسلم، کتاب الامارۃ باب فی بیان ان ارواح الشھداء فی الجنۃ وانھم احیاء عند ربھم یرزقون) نیز دیکھئے : ٣ : ١٢٩)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

جہاد میں سب سے بڑی مصیبت جان کا جانا ہے، اس پر صبر کی تلقین اس طرح فرمائی کہ اللہ کی راہ میں قتل ہونے والوں کو مت کہو کہ مردے ہیں، بلکہ وہ زندہ ہیں، مگر تم اس زندگی کو نہیں سمجھتے۔ آل عمران (١٦٩) میں شہداء کی اس زندگی کے عیش و آرام کا ذکر ہے۔ معلوم ہوا کہ وہ زندگی دنیاوی زندگی نہیں، نہ ہم اسے سمجھ سکتے ہیں۔ قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ مرنے کے بعد برزخ (قبر) میں ہر شخص کو زندگی حاصل ہے۔ (دیکھیے مومن : ١١، ٤٦۔ نوح : ٢٥۔ ابراہیم : ٢٧) مگر مومن کی روح راحت میں ہے اور کافر کی روح کو عذاب ہو رہا ہے۔ احادیث کے مطابق قبر ہی میں ان کے لیے جنت یا دوزخ کی طرف دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ یہ زندگی انبیاء کو سب سے بڑھ کر کامل حالت میں حاصل ہے، مگر شہداء کی عزت افزائی کے لیے قرآن نے انھیں خاص طور پر ” اَحْيَاۗءٌ“ کہا ہے، تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ فلاں قتل ہوگیا، اس سے زندگی کا عیش و آرام چھن گیا۔ - اَمْوَاتٌ ) اس پر رفع اس لیے آیا ہے کہ اس کا مبتدا ” ھُمْ “ محذوف ہے، اسی طرح ” اَحْيَاۗءٌ“ کا مبتدا بھی محذوف ہے۔ سورة آل عمران (١٦٩) میں ” اَمْوَاتًا “ پر ” وَلَا تَحْسَبَنَّ “ کا مفعول ہونے کی وجہ سے نصب آیا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ربط : - اوپر ایک خاص ناگوار واقعہ میں صبر کی تعلیم اور صابرین کی فضیلت بیان فرمائی تھی آیات آئندہ میں اور بھی بعض واقعات خلاف طبع کی تفصیل اور اس میں صبر کی ترغیب اور فضیلت بیان فرماتے ہیں جن میں قتل و قتال مع الکفار کا مضمون مقدم فرماتے ہیں دو وجہ سے اول بوجہ اعظم ہونے کے کہ اعظم پر صبر کرنے والا اصغر پر بدرجہ اولی صبر کرے گا دوسرے خاص طور پر مناسب مقام ہونے کی وجہ سے کیونکہ معترضین مذکورین کے ساتھ یہ معاملہ پیش آتا تھا،- خلاصہ تفسیر :- اور جو لوگ اللہ کی راہ میں (یعنی دین کے واسطے) قتل کئے جاتے ہیں ان (کی ایسی فضیلت ہی کہ ان) کی نسبت یوں بھی مت کہو کہ وہ (معمولی مردوں کی طرح) مردے ہیں بلکہ وہ لوگ (ایک ممتاز حیات کے ساتھ) زندہ ہیں لیکن تم (اپنے موجودہ) حواس سے (اس حیات کا) ادراک نہیں سکتے اور (دیکھو) ہم صفت رضا و تسلیم میں جو کہ مقتضا ایمان کا ہے) تمہارا امتحان کریں گے کسی قدر خوف سے (جو کہ ہجوم مخالفین یا نزول حوادث وشدائد سے پیش آوے) اور (کسی قدر فقرو) فاقہ سے اور (کسی قدر) مال اور جان اور پھلوں کی کمی سے (مثلا مواشی مرگئے یا کوئی آدمی مرگیا یا بیمار ہوگیا یا پھل اور کھیتی کی پیداوار تلف ہوگئی پس تم صبر کرنا) اور (جو لوگ ان امتحانوں میں پورے اتر آویں اور مستقل رہیں تو) آپ ایسے صابرین کو بشارت سنا دیجئے (جن کی یہ عادت ہے) کہ ان پر جب کوئی مصیبت پڑتی ہے تو وہ (دل سے سمجھ کر یوں) کہتے ہیں کہ ہم تو (مع مال واولاد حقیقۃً اللہ تعالیٰ ہی کی ملک ہیں (اور مالک حقیقی کو اپنی ملک میں ہر طرح کے تصرف کا اختیار حاصل ہے اس سے مملوک کا تنگ ہونا کیا معنی) اور ہم سب (دنیا سے) اللہ تعالیٰ ہی کے پاس جانے والے ہیں (سو یہاں کے نقصانوں کا بدلہ وہاں جاکر رہے گا اور جو مضمون بشارت کا ان کو سنایا جاوے گا وہ یہ ہے کہ) ان لوگوں پر (جدا جدا) خاص خاص رحمتیں بھی ان کے پروردگار کی طرف سے (مبذول) ہوں گی اور (سب پر بالاشتراک) عام رحمت بھی ہوگی اور یہی لوگ ہیں جن کی (حقیقت حال تک) رسائی ہوگئی (کہ حق تعالیٰ کو ہر چیز کا مالک اور نقصان کا تدارک کردینے والا سمجھ گئے) - معارف و مسائل :- شہدا اور انبیاء کی حیات برزخی اور اس کے درجات میں تفاضل :- یہ تو سب کو معلوم ہے کہ اسلامی روایات کی رو سے ہر مرنے والے کو برزخ میں ایک خاص قسم کی حیات ملتی ہے جس سے وہ قبر کے عذاب یا ثواب کو محسوس کرتا ہے اس میں مومن و کافر یا صالح وفاسق میں کوئی تفریق نہیں لیکن اس حیات برزخی کے مختلف درجات ہیں ایک درجہ تو سب کو عام اور شامل ہے کچھ مخصوص درجے انبیاء و صالحین کے لئے مخصوص ہیں اور ان میں بھی باہمی تفاضل ہے اس مسئلہ کی تحقیق پر علماء کے مقالات وتحقیقات بیشمار ہیں لیکن ان میں سے جو بات اقرب الی الکتاب والسنت ہے اور شبہات سے پاک ہے اس کو سیدی حضرت حکیم الامت تھانوی نے بیان القرآن میں واضح فرمایا ہے اس جگہ اسی کو نقل کرنا کافی معلوم ہوا،- ف : ایسے مقتول کو جو اللہ کی راہ میں قتل کیا جائے شہید کہتے ہیں اور اس کی نسبت گو یہ کہنا کہ وہ مرگیا صحیح اور جائز ہے لیکن اس کی موت کو دوسرے مردوں کی سی موت سمجھنے کی ممانعت کی گئی ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ بعد مرنے کے گو برزخی حیات میں اور مردوں سے ایک گونہ امتیاز ہے اور وہ امتیاز یہ ہے کہ اس کی یہ حیات آثار میں اوروں سے قوی ہے جیسے انگلیوں کے اگلے پوروے اور ایڑی اگرچہ دونوں میں حیات ہے اور حیات کے آثار بھی دونوں میں موجود ہیں لیکن انگلیوں کے پوروں میں حیات کے آثار احساس وغیرہ بہ نسبت ایڑی کے زیادہ ہیں اسی طرح شہداء میں آثار حیات عام مردوں سے بہت زیادہ ہیں حتیٰ کے شہید کی اس حیات کی قوت کا ایک اثر برخلاف معمولی مردوں کے اس کے جسد ظاہری تک بھی پہنچا ہے کہ اس کا جسم باوجود مجموعہ گوشت و پوست ہونے کے خاک سے متاثر نہیں ہوتا اور مثل جسم زندہ کے صحیح سالم رہتا ہے جیسا کہ احادیث اور مشاہدات شاہد ہیں پس اس امتیاز کی وجہ سے شہداء کو احیاء کہا گیا اور ان کو دوسرے اموات کے برابر اموات کہنے کی ممانعت کی گئی مگر احکام ظاہرہ میں وہ عام مردوں کی طرح ہیں ان کی میراث تقسیم ہوتی ہے اور ان کی بیویاں دوسروں سے نکاح کرسکتی ہیں اور یہی حیات ہے جس میں حضرات انبیاء (علیہم السلام) شہداء سے بھی زیادہ امتیاز اور قوت رکھتے ہیں یہاں تک کہ سلامت جسم کے علاوہ اس حیات برزخی کے کچھ آثار ظاہری احکام پر بھی پڑتے ہیں مثلا ان کی میراث تقسیم نہیں ہوتی ان کی ازواج دوسروں کے نکاح میں نہیں آسکتیں، - پس اس حیات میں سب سے قوی تر انبیاء (علیہم السلام) ہیں پھر شہداء پھر اور معمولی مردے البتہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اولیاء و صالحین بھی اس فضیلت میں شہداء کے شریک ہیں سو مجاہدہ نفس میں مرنے کو بھی معنی شہادت میں داخل سمجھیں گے اس طور پر وہ بھی شہداء ہوگئے یا یوں کہا جاوے کہ آیت میں شہداء کی تخصیص عام قرون کے اعتبار سے ہے شہداء کے ہم مرتبہ دوسرے لوگ صالحین وصدیقین کے اعتبار سے نہیں، - اور اگر کسی شخص نے کسی شہید کی لاش کو خاک خوردہ پایا ہو تو سمجھ لے کہ ممکن ہے اس کی نیت خالص نہ ہو جس پر مدار ہے قتل کے شہادت ہونے کا اور صرف قتل شہادت نہیں ہے اور اگر فرضاً ایسا شہید خاک خوردہ پایا جاوے جس کا قتل فی سبیل اللہ اور اس کا جامع شرائط شہادت ہونا دلیل قطعی تواتر وغیرہ سے ثابت ہو (جس کا شبہ صاحب روح المعانی کو ہوگیا ہے) تو اس کی وجہ میں کہا جاوے گا کہ حدیث میں جس چیز کی تصریح ہے وہ یہ انبیاء (علیہم السلام) وشہدا کے جسم کو زمین نہیں کھاتی یعنی مٹی ان کے جسم کو خراب نہیں کرسکتی اجزاء ارضیہ مٹی وغیرہ کے علاوہ کسی دوسری چیز سے ان کے جسم کا متاثر ہو کر فنا ہوجانا پھر بھی ممکن ہے کیونکہ زمین میں اور بھی بہت سی اقسام و انواع کی دھاتیں اور ان کے اجزاء اللہ تعالیٰ نے رکھ دیئے ہیں اگر ان کی وجہ سے کسی شہید کا جسم متاثر ہوجائے تو اس آیت کے منافی نہیں۔- چنانچہ دوسرے اجسام مرکبہ مثل اسلحہ وادویہ واغذیہ واخلاط و اجسام بسیطہ مثل آب وآتش وباد کی تاثیر انبیاء (علیہم السلام) کے اجساد میں بھی ثابت ہے اور شہداء کی حیات بعد الممات انبیاء (علیہم السلام) کی حیات قبل الممات سے اقویٰ نہیں اور بعض حصہ ارض میں بعض اجزاء غیر ارضیہ بھی شامل ہوجاتے ہیں جس طرح دوسرے عناصر میں بھی مختلف عناصر شامل ہوجاتے ہیں سو اگر ان اجزائے غیر ارضیہ سے ان کے اجساد متأثر ہوجاویں تو اس سے ان احادیث پر اشکال نہیں ہوتا جن میں حرمت اجساد علی الارض وارد ہے،- اور ایک جواب یہ ہے کہ امتیاز اجساد شہداء کے لئے یہ کافی ہے کہ دوسری اموات سے زیادہ مدت تک ان کے اجساد خاک سے متأثر نہ ہوں گو کسی وقت میں ہوجاویں اور احادیث سے یہی امر مقصود کہا جاوے کہ ان کی محفوظیت اجساد کی خارق عادت ہے اور خرق عادت کی دونوں صورتیں ہیں حفظ مؤ بد اور حفظ طویل اور چونکہ عالم برزخ حواس یعنی آنکھ کان، ناک، ہاتھ وغیرہ سے مدرک نہیں ہوتا اس لئے لا تشعرون فرمایا گیا کہ تم ان کی حیات کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَا تَـقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ اَمْوَاتٌ۝ ٠ ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ۝ ١٥٤- قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی مینا مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - حيى- الحیاة تستعمل علی أوجه :- الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] ، - الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا،- قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] ،- الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی:- أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] - والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ،- وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء - والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة،- وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] - والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري،- فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ.- ( ح ی ی ) الحیاۃ )- زندگی ، جینا یہ اصل میں - حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔- ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے - ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ - ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں - اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ - ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے - چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔- ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے - ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ - ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے - ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔- ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے - ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔- شعور - الحواسّ ، وقوله : وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات 2] ، ونحو ذلك، معناه : لا تدرکونه بالحواسّ ، ولو في كثير ممّا جاء فيه لا يَشْعُرُونَ : لا يعقلون، لم يكن يجوز، إذ کان کثير ممّا لا يكون محسوسا قد يكون معقولا .- شعور - حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے : ولا تقولو ا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات بل احیاء ولکن لا تشعرون ( اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا) اس آیت میں خبر دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ شہیدوں کو ان کی موت کے بعد زندہ کردیتا ہے۔ اس سے یہ مراد لینا درست نہیں کہ انہیں قیامت کے دن زندہ کیا جائے گا، اس لئے کہ اللہ کی مراد یہ ہوتی تو یہ نہ فرماتا : ولکن لا تشعرون اس لئے کہ اللہ سبحانہ کا یہ ارشاد اس بات کی خبر دے رہا ہے کہ موت کے بعد ان کی زندگی کا ہمیں علم نہیں ہے۔ اگر قیامت کے دن انہیں زندہ کرنا مراد ہوتا تو اہل ایمان کو اس کا شعور ہوتا اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس زندگی سے مراد وہ زندگی ہے جو انہیں قیامت سے پہلے ہی عطا کردی جائے گی۔ یہاں جب یہ بات جائز ہوگئی کہ اہل ایمان کو قیامت سے پہلے ان کی قبروں میں زندہ کردیاجائے گا اور وہ قبروں کے اندر اللہ کی نعمتوں سے بہرہ یاب ہوں گے تو یہ بھی جائز ہے کہ کافروں کو ان کی قبروں میں زندہ کرکے انہیں عذاب دیا جائے گا۔ یہ بات عذاب قبر کے منکرین کے قول کو باطل کردیتی ہے۔- یہاں اگر یہ کہاجائے کہ تمام اہل ایمان موت کے بعد اللہ کی نعمتوں سے سرفراز ہوں گے تو پھر اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کو کیوں خاص کیا گیا ؟- اس کا جواب یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اللہ سبحانہ نے پہلے سے بشارت دے کر ان کے شرف اور ان کی عظمت کا ذکر کیا ہو اور پھر دوسری آیت میں وہ بات بیان فرما دی جو ان کے ساتھ مخصوص ہے، چناچہ ارشاد ہوا احیاء عند ربھم یرزقون ( وہ لوگ اپنے پروردگار کے پاس زندہ ہیں رزق پاتے رہتے ہیں)- اگر یہاں یہ کہاجائے کہ وہ زندہ کس طرح ہوسکتے ہیں جب کہ ہم انہیں مردر ایا م کے بعد اپنی قبروں کے اندر بوسیدہ ہڈیوں کی شکل میں دیکھتے ہیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس بارے میں لوگوں کے دو اقوال ہیں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ انسان دراصل روح کا نام ہے جو ایک لطیف جسم ہے اور راحت و تکلیف اسی روح کو لاحق ہوتی ہے۔ انسانی جثے کو لاحق نہیں ہوتی کچھ لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ انسان اس جسم کثیف کا نام جس کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں۔ ان کے قول کے مطابق اللہ سبحانہ، اس جسم کے بعض اجزاء کو اتنی مقدار میں لطیف بنا دیتا ہے کہ اس کے ذریعے انسانی ڈھانچہ قائم رہ سکے اور پھر آرام و راحت پہنچاتا ہے۔ یہ لطیف اجزاء اس طورپر رہتے ہیں کہ اللہ سبحانہ اپنے حسب منشاء ان کے استحقاق کے مطابق عذاب دیتا یا راحت پہنچاتا ہے۔ پھر اللہ سبحانہ، ان اجزاء کو قیامت سے پہلے دوسری مختولقات کی طرف فنا کردے گا اور قیامت کے دن حشر نشر کے لئے زندہ کردے گا۔- ابو القاسم عبداللہ بن محمد بن اسحاق المروزی نے حدیث بیان کی، ان سے الحسن بن یحییٰ بن ابی الربیع الجرجانی نے، ان سے عبدالرزاق نے، ان سے معمر نے زہری سے اور انہوں نے حضر ت کعب بن مالک (رض) سے سنا کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مسلمان کا نسمہ ( روح) پرندے کی شکل میں جنت کے درختوں سے لٹکتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اللہ اسے اس کے جسد کی طرف لوٹا دیتا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٥٤) بدر، احد اور تمام غزوات کے شہداء کے متعلق منافقین کا جو مقولہ تھا اب اللہ تعالیٰ اس کی تردید فرماتے ہیں یہ لوگ کہتے تھے کہ فلاں شخص مرگیا اور اس سے سرور اور نعمتیں ختم ہوگئیں تاکہ اس چیز سے کاملین کو صدمہ وافسوس ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو لوگ بدر اور تمام غزوات میں شہید ہوگئے ہیں وہ دوسرے مرنے والوں کی طرح نہیں ہیں بلکہ وہ اہل جنت کی طرح جنت میں حیات ہیں، ان کو وہاں طرح طرح کے تحفے ملتے ہیں مگر تم ان حضرات کی کرامت و بزرگی اور ان کی حالت سے واقف نہیں ہو۔- شان نزول : ولا تقولوا لمن یقتل “ (الخ)- ابن مندہ (رض) نے صحابہ کرام (رض) کے بارے میں سدی صیغر (رح) کلبی (رح) ، ابوصالح (رح) کے حوالہ سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے، فرماتے ہیں کہ تمیم بن حمام (رض) غزوہ بدر میں شہید ہوگئے تو ان کے بارے میں اور ان کے علاوہ دوسرے حضرات کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ (آیت) ” ولا تقولوا (الخ) یعنی جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کردیے جائیں ان کو برا نہ کہو۔ ابو نعیم (رح) فرماتے ہیں کہ یہ صحابی عمیر بن حمام (رض) ہیں، سدی (رح) ان کے نام میں تبدیلی کردی ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٤ (وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ) - اب پہلے ہی قدم پر اللہ کی راہ میں قتل ہونے کی بات آگئی ع شرطِ اوّل قدم ایں است کہ مجنوں باشی ایمان کا اوّلین تقاضا یہ ہے کہ جانیں دینے کے لیے تیار ہوجاؤ۔ - (بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ )- جو اللہ کی راہ میں قتل ہوجائیں ان کو جنت میں داخلہ کے لیے یوم آخرت تک انتظار نہیں کرنا ہوگا ‘ شہداء کو تو اسی وقت براہ راست جنت میں داخلہ ملتا ہے ‘ لہٰذا وہ تو زندہ ہیں۔ یہی مضمون سورة آل عمران میں اور زیادہ نکھر کر سامنے آئے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :155 موت کا لفظ اور اس کا تصوّر انسان کے ذہن پر ایک ہمّت شکن اثر ڈالتا ہے ۔ اس لیے اس بات سے منع کیا گیا کہ شُہداء فی سبیل اللہ کو مردہ کہا جائے ، کیونکہ اس سے جماعت کے لوگوں میں جذبہء جہاد و قتال اور روح جاں فروشی کے سرد پڑ جانے کا اندیشہ ہے ۔ اس کے بجائے ہدایت کی گئی کہ اہل ایمان اپنے ذہن میں یہ تصوّر جمائے رکھیں کہ جو شخص خدا کی راہ میں جان دیتا ہے ، وہ حقیقت میں حیاتِ جاوداں پاتا ہے ۔ یہ تصوّر مطابقِ واقعہ بھی ہے اور اس سے روح شجاعت بھی تازہ ہوتی اور تازہ رہتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani